علیم صب اؔنویدی کی نعتیہ شاعری - ڈاکٹر جعفر جری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ڈاکٹر جعفر جری( کریم نگر)

علیم صباؔ نویدی کی نعتیہ شاعری

’’نعت‘‘ اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و توصیف کی جاتی ہے۔ بندے کی کیا مجال کہ وہ اُس ذاتِ گرامی قدرکی مدح و توصیف کرے جو اِس کائنات کے وجود کا باعث ہے۔ خطوطِ غالبؔ کے مجموعہ ’ ’عودِ ہندی‘‘ پر تعارف لکھتے ہوئے محمدممتاز علی خان نے کیا خوب کہا ہے :

’’ بندہ سے خدا کی تعریف ہو کیا مجال ہے۔ زبانِ مخلوق حمدِ خالق کرسکے وہم و خیال ہے۔ نعت کا رُتبہ حمد سے کم نہیں ، جس ممدوح کا پروردگار مداح ہو ، اُس کی مدح کے لائق ہم نہیں۔‘‘ ۱؎

چوں کہ انسان خدا کا خلیفہ ہے اِس لیے ممدوح کا بہ ہر حال دم بھرتا ہے اور اپنی سعی کرتا ہے۔

اُردو زبان میں بہت اچھے نعت گو شعرا گزرے ہیں جن کی نعت گوئی کا شہرہ عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ یوں تو اُردو شاعری کی ابتدا سے ہی نعت شریف کہنے کا رواج رہا ہے لیکن بعض شعرا نے صرف نعت ہی کو اپنے شعروسخن کا محور قرار دیا۔ قدیم زمانے میں نعت گو شعرا خال خال نظر آتے ہیں۔ لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد حالی ، محمد حسین آزاد ، اسماعیل میرٹھی ، منیر شکوہ آبادی ، شاد عظیم آبادی، اکبر الہ آبادی ، امیر مینائی ، داغ دہلوی ، جلیل مانک پوری اور محسن کاکوروی وغیرہ نے اچھی نعتیں لکھی ہیں۔ خصوصاً حالی، جلیل اور محسن نے اَہتمام کے ساتھ نعت گوئی کو فروغ دیا۔

موجودہ عہد میں چاہے وہ ترقی پسند شعرا ہوں کہ جدید ، ہر شاعر نے نعت شریف کہہ کر اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان مہیا کیا ہے۔ مجروح سلطان پوری ، احسان دانش ، جذبی ، جوش، مجاز ، فیض ، احمد فراز ، ناصر کاظمی ، ساغر اعظمی ، شاذ تمکنت ، اوج یعقوبی ، رحمن جامی وغیرہ نے اچھی نعتیں لکھی ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔

علیم صبانویدی نے ہر صنفِ سخن میں نعت کہی ہے چوں کہ علیم صبانویدی صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس لیے ان کے دل میں گداز کا ہونا ضروری ہے۔ ان کا دل نہ صرف سوز و گداز سے معمور ہے بلکہ ان کے کلام سے جو عشقِ رسولﷺ عیاں ہوتا ہے وہ غالباً اسی خاندانی پس منظر کی دین ہے۔ نعت کہنے کے لیے عشق رسولﷺ بہت ضروری ہے۔ ورنہ نعت کے شعر میں گداز پیدا نہیں ہوتا اور عشقِ رسولﷺ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی کی تعمیر ہوچکی ہو۔ رضائے الٰہی کے حصول کو مطمعِ نظر بنانے کے بعد ہی نعت کہی جاسکتی ہے۔ علیم صبانویدی کا خاندانی سلسلہ صوفیاء سے ملتا ہے اِس لیے ان کے یہاں نور اور سبز (ہرا) کا تذکرہ جابجا آیا ہے۔ نور اور سبز کا یہ تذکرہ یوں ہی غیر شعوری طور پر علیم صبانویدی کے فن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ اُن کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر نجم الہدیٰ لکھتے ہیں کہ علیم صبانویدی نے زندگی کرنے کا سلیقہ سرور الانبیاءﷺ سے اپنایا ہے ملاحظہ ہو :

’’ علیم صبانویدی صرف شاعری نہیں ، زندگی کرنے کا سلیقہ بھی سرورالانبیاء ، افضل البشر ، محبوبِ ا لٰہی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے ہیں کہ اُنھیں کی ذاتِ اقدس ہر طرح کے اکتساب کا واحد ، روشن ترین اور آخری منارہ نور ہے۔


آپ ﷺ کی یادِ مبارک سے ہے سینا بھرپور

آپ ﷺ کی ذات نے سکھلایا ہے جینا بھرپور‘‘ ۲؎

جو شاعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے زندگی کرنے کا سلیقہ اپنائے اُس کے لیے دین و دنیا میں سرخروئی ہی سرخروئی ہے۔ اسی سرخروئی کو سرفرازی میں بدلنے کی ایک کوشش علیم صبانویدی کی نعت گوئی ہے۔ علیم صبانویدی نے ہر صنف سخن میں نعت کہی ہے۔ غزل ، آزاد غزل ، ہائیکو ، ٹیپ بند نظموں اور سانیٹ میں نعت کے مضامین بیان کیے ہیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

علیم صبانویدی نے یوں تو اپنے ہر شعری مجموعہ کی ابتدا میں نعت شریف شامل کی ہے لیکن اِس کے ساتھ اُنھوں نے نعت شریف کے تین مجموعے بھی شائع کیے ہیں۔

پہلے مجموعہ ’’مراۃ النور ‘‘ میں اُنھوں نے غزل کی ہیئت میں نعت شریف کے مضامین ادا کیے ہیں۔ ’’مراۃ النور‘‘ کی پہلی نعت کا مطلع کتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:


’’نگہہِ مصطفی ﷺ سے روشن ہم

عاشقِ کبریا ﷺ سے روشن ہم‘‘۳؎

بندہ ء مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اللہ ہر شئے میں موجود ہے۔ اِس کے حکم کے بغیر پتہّ بھی نہیں ہلتا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے آخری پیغمبرہیں اور آپﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا سبق ساری دنیا کو پڑھایا۔ دیکھیے علیم صبانویدی اسی عقیدہ کو اپنی نعت کے ایک شعر میں کیسی خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں۔ ؎


’’وہ تو موجود تھا ہر شئے میں ہر اک ذرے میں

آپ کی ذات سے اللہ کا عرفان ہوا‘‘۴؎

علیم صبانویدی نے یوں تو نعت شریف کے مروجہ تمام مدحیہ مضامین بیان کیے ہیں۔ لیکن ایک مضمون جو خصوصی مطالعے کی حیثیت رکھتا ہے وہ ہے فیضانِ رسولﷺ کا بیان۔ علیم صبانویدی نے اپنی بیش تر نعتوں میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کا مضمون باندھا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؎


’’دن منور ہے رات نورانی

شاہِ عالم ﷺ کی ذات نورانی

آپ ﷺ کا نور ظاہر و باطن

آپ ﷺ کی کل صفات نورانی

محو ذکرِ محمدی ﷺ دنیا

نگہہ شش جہات نورانی!

وقت بھی آپ ﷺ کی غلامی میں

ہوگیا ساتھ ساتھ نورانی

لو فقیرِ غزل نویدیؔ بھی

کہہ گئے ہیں یہ نعت نورانی‘‘۵؎

’’نصیب صبحِ بہاراں کا رنگ و بو تم ﷺ ہو

صبائے گلشنِ ہستی کی جستجو تم ﷺ ہو

تمہاریؐ ذات نے بخشا ہے زندگی کا شعور

کہ ذرے ذرے میں اب قوتِ نمو تم ﷺ ہو

نہ ہوتے تم ﷺ تو بدن خشک اپنا ہو جاتا

لہو کے پھول میں صد رنگ آرزو تم ﷺ ہو

کچھ اِس طرح ہوئی یہ کائناتِ دل روشن

نگاہ دیکھ رہی ہے کہ روبرو تم ﷺ ہو

صباؔ نویدی کی تخلیق کے سفر کا نور

نگاہ و فکر میں بہتا ہوا لہو تم ﷺ ہو‘‘۶؎

’’اسرارِ دو جہاں کا مقدر رسولِ ﷺ پاک

رعنائیِ حیات کا مظہر رسولِ ﷺ پاک

سجدہ کناں ہے اپنی ہر اک آرزو جہاں

اِس معبدِ حیات کا منبر رسولِ ﷺ پاک

آیاتِ روشنی کے مبارک قدم کا فیض

ہم آپ ﷺ کے ہیں آپ ﷺ کا گھر ،گھر رسولِ ﷺ پاک

میں ہوں صباؔ سفیرِ سخن اور ہیں مری

سیرِ جہاتِ نو کا سمندر رسولِ ﷺ پاک‘‘۷؎

’’ مراۃ النور‘‘ میں علیم صبانویدی نے فیضانِ رسولﷺ کا بیان اپنی نظموں میں کیا ہے۔ اسی فیضانِ رسولﷺ کا بیان اُنھوں نے دوسری نہج سے اپنی دیگر نظموں میں بھی کیا ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’نورالسموات‘‘ میں اُنھوں نے نعتیہ مضامین کا بیان سانیٹ کی ہیئت میں کیا ہے۔ اِن نظموں میں فیضانِ رسولﷺ کا بیان اِس اَہتمام سے کیا ہے کہ گویا قصیدہ کہہ رہے ہیں۔ بیش تر سانیٹ نظموں میں اُنھوں نے ابتدا میں عہدِ جاہلیت کا بیان کیا ہے ، جو بہ طور تشبیب بیان ہوا ہے اور قصیدے کی ہیئت ہی کی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے مضمون سے گریز کرتے ہوئے شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مداح بیان کی ہے۔ ایک نعتیہ سانیٹ ملاحظہ ہو :


’’رنج و غم کی حکومتوں کا نزول

چارسو، سر بلند نفرت تھی

بدنما زندگی کی صورت تھی

آدمی آدمی کا دشمن تھا

جسم ٹوٹا ہوا سا درپن تھا

نیکیاں دفن ہوگئی تھیں کہیں

زخم خوردہ سسک رہی تھی زمین

آسمان، چاند، آفتاب ملول

نوری پیکر وجود میں آیا

رنج و غم کا سفر تمام ہوا

زندگانی کا نیک نام ہوا

دینِ احمد ﷺ شہود میں آیا

رنگ انسانیت کا پھیل گیا

نور، رحمانیت کا پھیل گیا‘‘۸؎

اِس نعتیہ سانیٹ میں علیم صبانویدی نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ بابرکت سے قبل کے عرب معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ چناں چہ اِس نعتِ شریف میں اِس معاشرے کی خرابیوں کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چارسو رنج و غم کی حکومت تھی ، نفرت سربلند، زندگی بدنما، آدمی آدمی کا دشمن، نیکیاں دفن تھیں جس کی بنا پر :


’’زخم خوردہ سسک رہی تھی زمین

آسماں، چاند، آفتاب ملول‘‘۹؎

اور جب آپﷺ کا ظہور ہوا تو اقطاعِ عالم سے رنج و غم کا تسلط ختم ہوا۔ یہی تکنیک اُنھوں نے اپنی بیشتر نعتوں میں اپنائی ہے۔ مثال کے طور پر یہاں ایک اور نعتِ شریف درج کی جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:


’’دل، گلِ مقصود کا محتاج تھا

زخم کا سینے پہ ہر دم راج تھا

آدمیت دور تک ناپید تھی

ظلمتوں کی ہر طرف تشدید تھی

رونما اک آخرش جلوا ہوا

گوہرِ نایاب اک پیدا ہوا

اپنی اُمت کی حفاظت کے لیے

دین کے جلوؤں کی وسعت کے لیے

ہر طرف رحمت کی برساتیں ہوئی

کفر کے موسم کا چہرہ جل گیا

رنجش و کلفت کا نقشہ جل گیا

دفن ، قتل و ظلم کی گھاتیں ہوئیں

نور میں ڈوبے زمین و آسمان

جلوہ فرما جب ہوئے شاہِ ﷺ زماں‘‘۱۰؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

علیم صبانویدی نے اپنی بعض نعتوں میں جہاں قصیدہ کی تکنیک اپنائی ہے وہیں تشبیب کے طور پر عہد ِ جاہلیت کے معاشرے کو بیان کیا ہے وہیں پر اسی قسم کی تمہید میں تلازمہ ء خیال کو بھی برتا ہے اور بہت ہی خوب برتا ہے۔ ’’باغ‘‘ کے تلازمہ ء خیال و استعارہ میں اُنھوں نے نعت کہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ کہیں تلازمہ ء خیال کا تسلسل ٹوٹنے نہیں پاتا:


’’ساون رُت کی شہنائی

پتا پتا آسودہ

بوٹا بوٹا سنجیدہ

پھولوں نے لی انگڑائی

باغوں کا دامن بھرپور

شاخوں پہ گیتوں کا تاج

گلشن میں بلبل کا راج

خوشیوں سے ہر شئے معمور

شاہِ ﷺ مدینہ کی آمد

گلشن گلشن آئینہ

صاف ہر اک شئے کا سینہ

دور تلک، نورِ احمد ﷺ

کفر سے رشتہ ٹوٹ گیا

بھاگ خزاں کا پھوٹ گیا‘‘۱۱؎

حضورِ پرُنورﷺ کی آمدصرف انسانیت کے لیے خوش آئند نہیں تھی بلکہ آپﷺ کی آمد پر ساری کائنات سجدہ ریز ہوگئی۔ زمین و آسمان کی ہر شئے نے خوشیوں کے شادیانے بجائے تھے۔ اسی امر کو بنیاد بناکر علیم صبانویدی نے باغ کے تلازمے کے ساتھ مندرجہ ء بالا نعتِ شریف کہی ہے۔ جو اُن کی ایک جدت ہے۔

علیم صبانویدی نے زندگی کے تلازمے میں بھی ایک نعت کہی ہے جس میں زندگی ، نقش، درد، آنکھ، آنسو، نصیب وغیرہ کو بہ طور تلازمہ برتا ہے۔ نعتِ شریف ملاحظہ ہو:


’’زندگی دھوپ کے صحرا کا سفر کرتی رہی

ہر نفس درد کا زہریلا سماں دور تلک

جلتی تہذیب کا خاموش دھواں دور تلک

رہزنی ، قتل ، تباہی نے سکوں چھین لیا

وقت کی ڈستی سیاہی نے سکوں چھین لیا

آنکھ روتی رہی ، روتی رہی آنسو کے بغیر

پھول کھلتے رہے ، کھلتے رہے خوش بو کے بغیر

زیست بے نور فضاؤں میں بسر ہوتی رہی

کس نے بدلا ہے نصیبوں کا لکھا یاد کرو !

زیست کو زیست کا رنگ کس نے دیا ، کون تھا وہ

وہ ﷺ شہنشاہِ زمن ، نورِ خدا ، کون تھا وہ

رحمت ﷺ اَرض و سما کون بنا یاد کرو

جس کے آتے ہی تباہی کا سفر ختم ہوا

کفر و باطل کا خطرناک اثر ختم ہوا‘‘۱۲؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

علیم صبانویدی نے اپنی نعتوں میں فیضانِ رسولﷺ کے علاوہ صفاتِ رسولﷺ کا بیان بھی کیاہے۔ جس ذاتِ پاکﷺ کے صفاتِ پاکیزہ کی مدح خدائے پاک خود کرتا ہے ، انسان کی کیا مجال ہے کہ اُس ذاتِ معتبرﷺ کی مداحی کا حق ادا کرے۔ لیکن اپنی عقل و بساط کے مطابق انسان کوشش کرتاہے۔ علیم صبانویدی نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتِ پاک کا بیان نعتِ شریف کے اِس مضمون میں باندھنے کی سعی ِ مشکور کی ہے:


’’ظاہر باطن نورانی

دامن میں خوشبو، اَن مول

اَن مٹ جوہر، میٹھے بول

سانسیں، دھڑکن، قرآنی

صورت، سیرت، پاکیزہ

ہونٹوں پر اللہ کا نام

رحمت برسے صبح و شام

دل میں نیت پاکیزہ

مثلِ آئینہ ہے دل

محو عبادت روز و شب

سینہ میں پنہاں ہے رب

نورانی ہے ہر محفل

حسبی ربی جل اللہ

نورِ محمد صلی اللہ‘‘۱۳؎

علیم صبانویدی کی نعتوں میں فیضانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون ’’مراۃ النور‘‘ سے ’’ن‘‘ تک برابر جاری و ساری نظر آتا ہے۔ مندرجہ ء بالا صفحات میں ’’ مراۃ النور‘‘ اور ’’نورالسموات‘‘ میں درج نعتوں سے مثالیں دی گئی ہیں۔

ذیل کی نعت شریف ملاحظہ ہو جو علیم صبانویدی کی نعتوں کے تیسرے مجموعہ ’’ن‘‘ سے ماخوذ ہے:


’’محمد مصطفی آئے ، نویدِ زندگی آئی

لہو میں تازگی آئی ، بدن میں روشنی آئی

سمندر غیر سنجیدہ تھا ، موجیں جاہلانہ تھیں

ہر اک شئے کی طبیعت میں سکون و دلکشی آئی

ہر اک چہرے میں پوشیدہ گناہوں کا مقدر تھا

سیاہی جسم کی ڈوبی تو ہر سو چاندنی آئی

شگوفوں کے لبوں پر اک سکوتِ بیکرانی تھا

تجلی نور کی لے کر شگوفوں میں ہنسی آئی

لہو احساس کا سویا ہوا تھا جسم کے اندر

نویدیؔ نعتِ احمد ﷺ کا وسیلہ ، تازگی آئی‘‘۱۴؎

ایک ’’ہائیکو‘‘ ملاحظہ ہو۔ اِس نعت شریف میں بھی فیضانِ رسولﷺ کا مضمون بیان ہواہے:


’’وہ انسانیت کا چمکتا نصیب

بدی کا تصور مٹاتا ہوا

خلوص و وفا ، نیکیوں کا نقیب‘‘ ۱۵؎

مندرجہ ء بالا ہائیکو اُن کے مجموعہ ’’شعاعِ شرق‘‘ سے لیا گیا ہے۔ کچھ اور ہائیکو ملاحظہ کیجیے، جس میں نعت شریف کا مضمون بیان ہوا ہے یہ ہائیکو اُن کے شعری مجموعہ ’’تشدید‘‘ میں شامل ہیں:


’’وقت کی چوکھٹ پر

زمیں آسماں سجدہ کناں

نورانی منظر‘‘۱۶؎

اِس ہائیکو میں علیم صبانویدی نے حضور پرُ نور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر کائنات کے سجدہ ریز ہونے کا مضمون بیان کیا ہے۔ مزید ایک ہائیکو ملاحظہ ہو :


’’شاہِ مدینہ ﷺ

دین و دنیا کے راہ بر

نوری نگینہ‘‘۱۷؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ایک اور ہائیکو میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مظہرِ کون و مکاں ہیں اِس مضمون کو ہائیکو کی ہیئت میں علیم صبانویدی نے اپنے مجموعہ ’’سمت ساز‘‘ میں اِس طرح بیان کیا ہے:


’’ذات معتبر

نام مقدس، پاک صفات

مظہرِ کون و مکاں‘‘۱۸؎

علیم صبانویدی نے بے شمار نعتیں کہیں ہیں اور مختلف شعری ہیئتوں میں کہی ہیں۔ غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ میں نعت گوئی کی مثالیں اُردو کے شعری سرمائے میں موجود ہیں۔ لیکن سانیٹ (Sonnet) کی ہیئت میں نعت شریف کا مکمل مجموعہ مرتب کرنا علیم صبانویدی ہی کا کارنامہ ہے۔ پروفیسر گیان چند جین ’’نورالسموات‘‘ پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اِس مجموعہ کی ہر نظم ایسی پختہ کار اور شعری خوبیوں سے مالا مال ہے کہ باج اعتراف طلب کرتی ہے۔ جیسا ارفع موضوع ہے شاعر نے اُسے اُسی شایانِ شان طریقے سے بنایا ہے۔ اِن نظموں کو پڑھ کر ہر مشکک کے آئینہ ء قلب سے زنگ دور ہونے لگے گا۔

معلوم نہیں اِس سے پہلے کسی نے نعت کو سانیٹ کا موضوع بنایا کہ نہیں ! بہ ہرحال علیم صبانویدی صاحب کی بہ دولت اِس صنف کے بھاگ جاگ اُٹھے کہ اِسے اِس منزہ موضوع کا ظرف بنایا گیا۔‘‘۱۹؎

اُردو میں ہائیکو کہے گئے ہیں اور یہ تجربے کی حد تک ہی محدود تھے۔ علیم صبانویدی نے اپنے تجربہ کو ایک روایت میں ڈھال دیا ہے۔ چناں چہ اُنھوں نے ہائیکو کے چار مجموعے شائع کیے۔ ہائیکو نظموں میں بھی علیم صبانویدی نے نعتیہ مضامین ادا کیے ہیں۔ چوں کہ اِس صنف کو مستقل طور پر اُنھوں نے اپنا لیا ہے اور مسلسل برت رہے ہیں۔ اِس لیے ہائیکو میں نعت کہنے کا منفرد اعزاز انھیں کو ملنا چاہیے۔

’’نورالسموات‘‘ میں شامل نعت شریف کے بعض اشعار میں موضوعی تضاد پیدا ہوگیا ہے جو اِس مُتبرک موضوع کے لیے مناسب نہیں۔علیم صبانویدی نے باغ کے تلازمہ میں ایک نعت کہی ہے۔ اِس نعت شریف کا آخری شعر یوں درج ہے:


’’کفر سے رشتہ ٹوٹ گیا

بھاگ خزاں کا پھوٹ گیا‘‘۲۰؎

’’بھاگ پھوٹنا‘‘ محاورہ ہے جو بدقسمتی کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہ محاورہ علیم صبانویدی نے یہاں غلط باندھا ہے۔ ایمان اگر بہار ہے تو کفر خزاں ہوا۔ایمان کی آمد سے کفر کی بھی قسمت کھل گئی۔محاورہ باندھنے کی دھن میں مفہوم میں تضاد پیدا ہوگیا۔

بہ حیثیت مجموعی علیم صبانویدی کی نعت گوئی جو مختلف شعری ہیئتوں میں موجود ہے ، کے بارے میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے جو کچھ لکھا ہے ، اِس سے صد فی صد اتفاق کیا جاسکتا ہے:

’’ علیم صبانویدی۔ یوں ہی پرُشکوہ الفاظ بھاری بھرکم تشبیہات اور استعارات وغیرہ سے اپنے پڑھنے والوں کو مرعوب نہیں کرتے وہ سیدھی سادی زبان سیدھے سادے اِشارات اور سیدھا سادا اُسلوب اختیار کرتے ہیں۔ ہاں تاثرات کی شدت، جذبات کی گہرائی اور احساسات کی ندرت سے اُن کی شاعری خواہ غزلیں ہو کہ نظمیں ، سانیٹ ہو کہ ہائیکو نظمیں ، مزین ہوتی ہیں۔ نعتوں میں تو پاکیزہ جذبات و احساسات اور بھرپور ہیں۔

بہ حیثیت مجموعی علیم صبانویدی کی نعتوں میں نئے انداز نئے اسلوب اور نئے احساسات کی بھرپور جلوہ سامانیاں موجود ہیں۔‘‘۲۱؎

نعتیہ شاعری موضوعی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے نعت کہنے کے لیے کسی مخصوص ہیئت پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اُردو شاعری کی تاریخ شاہد ہے کہ اُردو شاعری کی مروجہ تمام اصناف میں نعتِ شریف کے مضامین ادا کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُردو شاعری میں نعت شریف زیادہ تر غزل کے فارم (Form) ہیئت میں کہی گئی ہیں۔

حوالے : ۱ - ’’عودِ ہندی ‘‘ اَز مرزا اسداللہ خاں غالبؔ مرتبہ ڈاکٹر سید محمد حسین طبع دوم سنہ اشاعت ۱۹۷۲ء (ص : ۱۳) ۲- ڈاکٹر نجم الہدیٰ ’’عکسِ اوّل‘‘ مضمون مشمولہ ’’مراۃ النور‘‘ اَز علیم صبانویدی(ص : ۷۳) ۳ - ’’مراۃ النور‘‘ اَز علیم صبانویدی (ص : ۵) ۴ ،۵،۶،۷- ایضاً (ص : ۶) ، (ص : ۱۰) ، (ص : ۲۳) ، (ص : ۶۸) ۸ - ’’نورالسموات‘‘ اَز علیم صبانویدی(ص : ۸ ، ۹ ) ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ - ایضاً (ص : ۸ ) ، (ص : ۲۲ ، ۲۳) ، (ص : ۵۲ ، ۵۳) ، ۱۲۔ ۱۳ - ایضاً (ص : ۵۸ ،۵۹) ، (ص : ۶۰ ، ۶۱) ۱۴ - ’’ ن ‘‘ اَز علیم صبانویدی مرتبہ پروفیسر محبوب پاشاہ (ص : ۱۳) ۱۵ - ’’شعاعِ شرق‘‘ اَز علیم صبانویدی( ص : ۲۴) ۱۶۔ ۱۷- ’’تشدید‘‘ اَز علیم صبانویدی ( ص : ۱۱ ) ، ( ص : ۹ ) ۱۸- ’’سمت ساز‘‘ اَز علیم صبانویدی( ص : ۹ ) ۱۹ - ڈاکٹر گیان چند جین رائے مشمولہ ’’نور السموات‘‘ اَز علیم صبانویدی (ص: گردپوش) ۲۰ - ’’ نورالسموات‘‘ اَزعلیم صبانویدی (ص : ۵۳ ) ۲۱ - ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید رائے مشمولہ ’’ ن‘‘ مرتبہ پروفیسر محبوب پاشا (ص : ۸۸)

نئے صفحات