عبد الرحمن جامی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Jami.jpg

مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی

مولانا نور الدین عبد الرحمن المعروف مولانا جامی ((۱۴۹۲ - ۱۴۱۴)) صوبہ خراسان کے ایک قصبہ خرجرد میں پیدا ہوئے۔اوائل عمر ہی میں آپ اپنے والد کے ساتھ ہرات اور پھر سمرقند کا سفر کیا ۔ جہاں علم و ادب کی تحصیل کی اور دینی علوم، ادب اور تاریخ میں کمال پایا ۔ تصوف کا درس سعد الدین محمد کاشغری سے لیا ۔اور مسند ارشاد تک رسائی ملی ۔ حج بیت اللہ کے لیے بھی گئے اور دمشق سے ہوتے ہوئے تبریز گئے اور پھر ہرات پہنچے۔ جامی ایک صوفی صافی اور اپنے دور کے بہت بڑے عالم تھے۔تصوف کا معتبر نام اور فنِ شاعری میں بھی یکتا ۔

مثنویِ مولانا جامی

انھوں نے سات مثنویاں لکھیں جو "ہفت اورنگ" کے نام سے مشہور ہیں۔ پہلی مثنوی سلسلۃ الذہب ہے۔ دوسری مثنوی "سلامان و ابسال" ہے۔ تیسری مثنوی "تحفۃ الاحرار" نظامی کی "مخزن الاسرار" کے جواب میں لکھی گئی۔چوتھی مثنوی انھیں مسائل پر " سبحۃ الابرار" لکھی۔پانچویں مثنوی"یوسف زلیخا" ہے۔چھٹی مثنوی "لیلی مجنوں" ہے۔ یہ نظامی کی مثنوی "لیلی مجنوں" کے جواب میں ہے۔آخری مثنوی "خرد نامہ اسکندری"، نظامی کے "سکندر نامہ" کا جواب ہے اور سلطان حسین ہی کے نام اس کا انتساب ہے۔

نثری تصانیف

جامی نے تصوف کے موضوع پر متعدد کتابیں شروحات اور رسائل تحریر کیے.

1 ۔نقد الفصوص فی شرح نقش الفصوص ۔ 2 ۔شرح فصوص الحکم 3 ۔ نفحات الانس 4 ۔ لوائح ۔ 5 ۔ بہارستان

مذہبی، ادبی اور علمی مسائل پر رسائل

1 ۔ چہل حدیث 2 ۔ مناسک حج 3 ۔ رسالہ تہلیلیہ 4 ۔ رسالہ در علم قوافی

5 ۔ رسالہ موسیقی 6 ۔ تجنیس الحظ 7 ۔ منشات 8 ۔ فوائد الضیاء فی الکافیہ شرح ((شرح ملا جامی)) وغیرہ۔

بعض تذکرہ نگار ان کی تصانیف کی تعداد ننانوے بتاتے ہیں اور بعض "جامی" کے اعداد کے لحاظ سے چون ((۵۴))۔

نعتِ رسولِ مقبول

گل از رخت آموخته نازك بدني را

بلبل ز تو آموخته شيرين سخني را

( گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے۔بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلای سیکھی ہے۔)

هر كس كه لب لعل ترا ديد، به خود گفت

حقا كه چه خوش كنده عقيق يمني را

( جس نے بھی تیرے لعل گوں لب دیکھے تو دل (کی آواز) سے کہا ۔یقینا" اس یمنی عقیق کو بہت خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔)

خياط ازل دوخته بر قامت زيبات

بر قد تو اين جامه ي سبز چمني را


در عشقِ تو دندان شکستند به الفت

تو نامه رسانید اویس قرني را


از جامؔی بيچاره رسانيدہ سلامی

بر درگه دربار رسول مدني را​


وفات

مولانا جامی کا انتقال ۱۴۹۲ میں ہرات میں ہوا۔