طاہر سلطانی ۔ جہان حمد کا باشندہ - نسیم سحر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naseem Sehar.jpg

مضمون نگار : نسیم سحر

طاہر سلطانی ، جہانِ حمد کا باشندہ

تقریباً چالیس برس سے نعتیہ شاعری کرنے اور نعت خوانی کی سعادت سے فیضیاب ہونے والی عظیم شخصیت جناب طاہرحسین طاہر سلطانی سے میرا تعارف گذشتہ دو سے زیادہ دہائیوں پر محیط ہے۔انہوں نے خود کو صرف اور صرف حمد و نعت کے لئے وقف کر دیا ہے۔ وہ ارمغان ِ حمد جہانِ حمدکے عنوانات سے حمد و نعت پر مشتمل ایسے قلوب کو منوّر و معنبر کرنے والے جرائد نکالتے ہیں جس کا عاشقان و ثناخوانانِ رسول ﷺ کو بیتابی سے انتظار رہتا ہے۔ماہنامہ ارمغان حمد کا آغاز فروری ۲۰۰۴ء سے ہؤا اور تاحال اس کے ۱۲۲ شمارے شائع ہو چکے ہیں جو کوئی معمولی کام نہیں ۔اسی طرح جہان حمد بھی جون ۱۹۹۸ء میں آغاز ہؤا اور تا حال اس کے ۱۹ شمارے شائع ہو چکے ہیں جس کے کل صفحات کی تعداد ۸۰۰۰ بنتی ہے۔ حمد و نعت کے میدان میں ان کا، اور ان کے خانوادے کا کام اس قدر وسیع ہے کہ کسی ایک مضمون میں اس کام کا یا اس کے روحِ رواں طاہر سلطانی کا تعارف کروانااتنا آسان نہیں ہے۔ان کے حمدیہ و نعتیہ مجموعوں میں سے دو کے عنوانات سے ان کی حمد و نعت کے لئے محبت و عقیدت ہی کا نہیں، بلکہ ان کے فلسفۂ حیات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے: (۱) حمد میری بندگی (۲) نعت میری زندگی ۔حمد و نعت ہی کو بندگی و زندگی سمجھنے سے بڑھ کر بھلا زندگی کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے، اور یقین کیجئے کہ یہ صرف ان کی کتابوں کے عنوان ہی نہیں، بلکہ انہوں نے اس فلسفۂ حیات کو صد فیصد اپنی زندگی پر نافذ بھی کیا ہے۔


عموماً دیکھا گیا ہے کہ شعراء اور مدیران کا زیادہ زور نعتِ رسول ﷺ پر ہی رہتا ہے اور حمد لکھی بھی بہت کم جاتی ہے اور شائع بھی کم ہوتی ہے، مشاعروں میں بھی آیاتِ قرآنی کی تلاوت کے بعد حمدِ باری تعالیٰ کی سماعت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔لیکن جہانِ حمد اورطاہر سلطانی نے شعوری کوششوں اور اپنی مسلسل محنت و ریاضت سے حمد کو فروغ دیا، تحقیق کے ذرائع پیدا کئے ۔ حمد و نعت ریسرچ سنٹر کا قیام بھی ان کا ایک قابلِ قدر کارنامہ ہے۔ہر مہینے بزم جہان حمد کے زیرِ اہتمام طرحی حمدیہ مشاعرہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ حمدیہ مشاعروں کی داغ بیل ڈالنے والوں میں جناب طاہر سلطانی کے سِوا دور دور تک کوئی اور نام دکھائی نہیں دیتا۔


ٍطاہر سلطانی عمدہ حمد نگار ہونے کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول ﷺ کے جذبہ سے بھی سرشار ہیں، وہ نہ صرف نعت گوشاعر ہیں، بلکہ لحنِ داؤدی کے حامل نعت خوان بھی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہو چکی ہے کہ اچھی آواز والے نعت خواں نعت خوانی کو کاروبار بنا لیتے ہیں اور باقاعدہ سودے طے کر کے نعت خوانی کی محافل میں شرکت کرتے ہیں۔ اللہ کی طاہر سلطانی پر عنایتِ خاص ہے کہ وہ ایسا کرنے کو غلط سمجھتے ہیں، انہوں نے نعت خوانی کو کاروبار نہیں بنایا بلکہ عبادت کا درجہ دیا ہے۔اُن کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں اگر ’لسان الحسّان‘ کا لقب دیا گیا ہے تو یہ اس لقب کی بھی عزت افزائی ہے۔شاید یہ حمد و نعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی ﷺ کا ذکرِ خیرزمانے بھر میں پھیلانے کی برکات ہیں کہ ان کے خانوادے پربھی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوئی ہے اور قرأتِ قرآن اور نعت خوانی کا سلسلہ ان کی صاحبزادیوں اور صاحبزادوں تک بھی فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کے صاحبزادے حافظ محمد نعمان طاہر اور محمد سلیمان طاہر متعدد انعامات حاصل کر چکے ہیں جبکہ عبدالرحمن طاہر اور عبداللہ حسّان طاہر کو بھی اللہ تعالی نے خوش الحانی کے ساتھ نعت خوانی کی توفیقات عطا کر رکھی ہیں، اور وہ حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس روحانی اور نورانی سلسلے کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حق یہ ہے کہ ایں سعادت بزور بازو نیست : تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔


راقم کی معلومات کے مطابق تا حال جناب طاہر سلطانی کے ۲ حمدیہ مجموعے ۴ نعتیہ مجموعے اور حمد و نعت، مناجات ، سلام، کے انتخاب پر مشتمل کم از کم سات کتب شائع ہو چکی ہیں جبکہ حمد و نعت کے حوالے سے نثری کتب کی تعداد تا حال کم و بیش پندرہ ہے جو زیادہ تر حمد و نعت کے حوالے سے معروف شخصیات پر ہیں اور ان میں بھی شعرائے کرام کے کوائف مہیّا کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔حمد و نعت کے حوالے سے لکھا جانے والا ایک لفظ بھی طاہر سلطانی کے نزدیک اس قدر قیمتی ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے موصول ہونے والے خطوط کے مجموعے بھی شائع کئے ہیں۔حمد و نعت کے حوالے سے ان کے کام کا مکمل جائزہ لینا اس لئے بھی آسان نہیں ہے کہ جب تک کوئی محقق یا مجھ سا عاجز حمد و نعت میں ان کی بیکراں خدمات کے اعداد و شمار پیش کرتا ہے اور اس کی تحریر منظرِ عام پر آتی ہے، اتنے عرصے میں جناب طاہر سلطانی کا کوئی اور زیرِ تکمیل منصوبہ ، کتاب یا جریدہ شائع ہو چکا ہوتا ہے اور یوں ماضی قریب کا حصہ بننے والے لمحۂ موجود میں ریکارڈ ہونے والی کوئی بھی تحریر اپنے اعداد و شمار سمیت پیچھے رہ جاتی ہے، اور کام، کام، کام ہی پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے طاہر سلطانی بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔

حمدیہ و نعتیہ ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ حمدیہ و نعتیہ ادب کے فروغ کے حوالے سے بھی جناب طاہر سلطانی کا کام قابلِ ذکر ہے۔ انہوں نے ’’ نعت رحمت‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں ۴۸۷ نعت گو شعراء کا کلام شامل کیا ہے، اور محققین کی سہولت کے لئے ہر نعت گو شاعر کا اصل نام، تاریخِ ولادت (اور مرحوم شعراء کی تاریخِ وفات بھی) شامل کر دی ہے۔اپنے کڑے معیارِ انتخاب کے باعث یہ کتاب اردو کے نعتیہ ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے اور بلاشبہ اس سے نعت پر تحقیق کرنے والوں کو بھی سہولت ملی ہے۔ان شعراء کا تعلق ماضی بعید اور ماضی قریب سے بھی ہے، مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر کے ساتھ ساتھ اس میں غیر مسلم شعراء کا کلام بھی شامل ہے۔تقدیم و تاخیر کے معاملات سے بچنے کے لئے شعراء کو حروف تہجی کے اعتبار سے شائع کیا گیا ہے۔انہوں نے ایک کمال یہ بھی کیا ہے کہ اس کتاب کے آغاز میں پہلے شائع ہونے والی تمام نعتیہ کتب کے انتخابات کی فہرست بھی شامل کر دی ہے تا کہ محققین کو آسانی رہے۔اپنے کام کے ساتھ دوسروں کے کام کا اعلان اور اعتراف صاحبانِ ظرف ہی کا کام ہے۔

ایک خاص بات جس کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ارمغان حمد اور جہانِ حمد کی ایک خاص پالیسی اتحاد بین المسلمین بھی ہے۔اپنے محدود وسائل کے باوجود انہوں نے اب تک فروغِ حمد و نعت کے لئے اور تحقیقی کاموں کے لئے حمد و نعت ریسرچ سنٹر قائم کر کے اتنا بڑا کام کیا ہے جو لاکھوں کروڑوں کا بجٹ رکھنے والے ادارے بھی نہیں کر سکتے۔یہ سب اُن پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے باعث ممکن ہؤا ہے۔ان کے بارے میں اپنی اِس عقیدت و محبّت بھری تحریر کا اختتام مَیں تمام حمد و نعت لکھنے والوں، پڑھنے والوں اورفروغِ حمد و نعت سے دلچسپی رکھنے والوں کے نام اس درخواست کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ حمد و نعت ریسرچ سنٹرکے قیام، اس کی عمارت کی تعمیر اور اس کے پوری طرح فعّال ہونے میں دامے، درمے، سخنے حصہ لے کر اپنا دینی فرض ادا کریں۔