"شکست ناروا" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 4: سطر 4:


{{ٹکر 1 }}
{{ٹکر 1 }}
=== شکست ناروا کیا ہے ===


شکست ناروا سے مراد کسی شکستہ بحر میں کسی لفظ یا ترکیب کا ٹوٹنا ہے ۔  
شکست ناروا سے مراد کسی شکستہ بحر میں کسی لفظ یا ترکیب کا ٹوٹنا ہے ۔  
سطر 11: سطر 13:
* متفاعلن فعولن، متفاعلن فعولن  
* متفاعلن فعولن، متفاعلن فعولن  
*مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلن  
*مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلن  
* متفعلن فعولن، متفعلن فعولن
* مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن


ّّوغیرہ  
ّّوغیرہ  


"متفعلن فعولن ، متفعلن فعولن ۔ میں  اعلیحضرت یہ کلام دیکھیے ۔  
"مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن ۔ میں  اعلیحضرت یہ کلام دیکھیے ۔  


[[پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں | پوچھتے کیا ہو عرش پر[] یوں گئے مصطفی کہ یوں  ]]
[[پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں | پوچھتے کیا ہو عرش پر[] یوں گئے مصطفی کہ یوں  ]]
سطر 21: سطر 23:
کیف کے پر جہاں جلیں [] کوئی بتائے کیا کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں [] کوئی بتائے کیا کہ یوں


اس شعر کے  
درج بالا مطلع میں مصرعوں کے بالکل درمیان میں عروضی وقفے کی نشاندہی [] کی علامت سے کی گئی ہے ۔ اگر اس مقام میں ایک "حرف" بڑھا بھی دیا جائے تو مصرع وزن میں رہتا ہے ۔  مثلا اسی نعت مبارکہ کا یہ شعر دیکھیے
 
دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا،  دو نیم کر
 
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
 
 
اب اسے اس طرح دیکھیے
 
دل کو دے نور و داغِ عش[ق]، پھر میں فدا،  دو نیم کر
 
مانا ہے سن کے شقِ ما[ہ]،  آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
 
پہلے مصرعے میں ق اور دوسرے مصرعے میں ہ نہ بھی ہوں تو مصرعے وزن میں رہیں گے ۔
 
=== بحر کی احتیاط ===
 
کسی شکستہ بحر میں جہاں آہنگ کے لیے عروضی وقفے کی سہولت ہے وہاں یہ احتیاط بھی رکھی جاتی ہے کہ بالکل درمیان میں آکر کوئی لفظ یا ترکیب نہ ٹوٹے ۔ اسی کلام میں [[احمد رضا بریلوی | اعلیحضرت ]] کا یہ شعر دیکھیے  ۔
 
 
میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں


پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں


اوپر والے مصرعے میں بشر پڑھیں یا بش  مصرع وزن میں رہے گا کیوںکہ "ر" بحر کے بلکہ درمیان میں آتا ہے ۔
مصرع اولی میں "جلوۂ اصل" میں جلوہ بحر کے پہلے حصے اور اصل بحر کے دوسرے میں آ پڑا ہے ۔


جہاں یہ سہولت ہاں وہاں ایک احتیاط یہ کہ پہلے حصے کے لفظ و ترکیب اگر
=== کیا شکست ناروا عیب ہے ؟ ===


[[چراغ حسن حسرت ]] شکست ناروا کو عیب مانتے ہیں لیکن [[شمس الرحمان فاروقی ]] نے اس کا رد کیا ہے کہ یہ کوئی عیب نہیں ۔





حالیہ نسخہ بمطابق 16:15، 19 جنوری 2021ء


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

شکست ناروا کیا ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شکست ناروا سے مراد کسی شکستہ بحر میں کسی لفظ یا ترکیب کا ٹوٹنا ہے ۔

شکستہ بحر اس بحر کو کہتے ہیں جس میں عروضی وقفہ آتا ہے ۔ عروضی وقفے مراد کسی بحر میں وہ مقام ہے جہاں آپ ایک حرف بڑھا بھی دیں تو مصرع بے وزن نہ ہو ۔ ان بحروں میں عمومی طور پر افاعیل کے جوڑے کی تکرار ہوتی ہے ۔ مثلا

  • متفاعلن فعولن، متفاعلن فعولن
  • مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلن
  • مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن

ّّوغیرہ

"مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن ۔ میں اعلیحضرت یہ کلام دیکھیے ۔

پوچھتے کیا ہو عرش پر[] یوں گئے مصطفی کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں [] کوئی بتائے کیا کہ یوں

درج بالا مطلع میں مصرعوں کے بالکل درمیان میں عروضی وقفے کی نشاندہی [] کی علامت سے کی گئی ہے ۔ اگر اس مقام میں ایک "حرف" بڑھا بھی دیا جائے تو مصرع وزن میں رہتا ہے ۔ مثلا اسی نعت مبارکہ کا یہ شعر دیکھیے

دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا، دو نیم کر

مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں


اب اسے اس طرح دیکھیے

دل کو دے نور و داغِ عش[ق]، پھر میں فدا، دو نیم کر

مانا ہے سن کے شقِ ما[ہ]، آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

پہلے مصرعے میں ق اور دوسرے مصرعے میں ہ نہ بھی ہوں تو مصرعے وزن میں رہیں گے ۔

بحر کی احتیاط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کسی شکستہ بحر میں جہاں آہنگ کے لیے عروضی وقفے کی سہولت ہے وہاں یہ احتیاط بھی رکھی جاتی ہے کہ بالکل درمیان میں آکر کوئی لفظ یا ترکیب نہ ٹوٹے ۔ اسی کلام میں اعلیحضرت کا یہ شعر دیکھیے ۔


میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں

مصرع اولی میں "جلوۂ اصل" میں جلوہ بحر کے پہلے حصے اور اصل بحر کے دوسرے میں آ پڑا ہے ۔

کیا شکست ناروا عیب ہے ؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چراغ حسن حسرت شکست ناروا کو عیب مانتے ہیں لیکن شمس الرحمان فاروقی نے اس کا رد کیا ہے کہ یہ کوئی عیب نہیں ۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتذال | اتصال | اثقال | اخلال | املاکی اغلاط | بدفضائی | بے معنی | تثلیم | تذکرو تانیث کی اغلاط | ترکیب کے ساتھ اعلان نون | تعقیب | تعقید | تقدیم و تاخیر | تکرار | تطویل | تکلف | تلفظ کی اغلاط | تنافر حروف | تنافر کلمات | توارد | توالی اضافت | حشو | دولخت | ذم کا پہلو | سرقہ | سست بندش | سوءادب | شتر گربہ | ضعف تالیف | ضعف خاتمہ | ضعف نظم | ضلع جگت کی بے لطفی | نا موزونیت | شکست ناروا | عیوب ردیف | عیوب قوافی | غرابت لفظی | غلط العام | غلط العوام | غیر شاعرانہ الفاظ کا استعمال | فارسی الفاظ کے آخر کی ہ | فارسیت | کراہیت سمع | کہ اور نہ کا صیحح تلفظ | حصر | تو سے پہلے 'جو کا استعمال | الفاظ کے استعمال میں عدم احتیاط | مبالغہ | متروکات | محاورہ روز مرہ کی اغلاط | مخالفت لغت | مقدرات | منع صرف | منع نحو | واحد جمع کی اغلاط وغیرہ |