"شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا" کے نسخوں کے درمیان فرق
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 15: | سطر 15: | ||
شور مہِ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا | شور مہِ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا | ||
ساقی میں ترے صدقے | ساقی میں ترے صدقے مہ رمضاں آیا | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 08:02، 12 دسمبر 2019ء
نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شور مہِ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مہ رمضاں آیا
اس گل کے سوا ہر پھول با گوش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقت فغاں آیا
جب بام تجلی پر وہ نیر جاں آیا
سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنت کو حرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منہ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پامال فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہد خزاں آیا
سر اور وہ سنگ در آنکھ اور وہ بزم نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسی
لو وہ قد بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوق الم سے اب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لےے بخشش کی وہ سرو رواں آیا
نامہ رسے رضا کے اب مٹ جاﺅ برے کامو
دیکھو مرے پلّہ پر وہ اچھے میاں آیا
بدکار رضا خوش ہو بد کام بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا
حدائق بخشش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا