شعاع امید۔دبستان نعت -پروفیسرابوسفیان اصلاحی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: پروفیسر ابوسفیان اصلاحی( علی گڑھ)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

زاویۂ نگاہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہائے وہ حسن کا انداز کہ جس وقت جگر ؔ

عشق کے بھیس میں ہوتا ہے نمایاں کوئی

جگرؔمرادآبادی

پروفیسرابوسفیان اصلاحی( علی گڑھ)

شعاع امید۔دبستان نعت

مجلہ ’’دبستان نعت‘‘ کا پہلا شمارہ میرے ہاتھ میں ہے جو دراصل امید کی ایک تابندہکرن ہے۔ اور یہ کرن وثوق کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اقدارسے محبت کرنے والے ابھی بھی موجودہیں۔ اوراردو ایک تہذیب اور مضبوط ثقافت ہے جس کے اندر ذخائر کی ایک خوبصورت دنیا آباد ہے اور اس کاایک خوبصورت ترین ذخیرہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اردو سے ناشنائی دراصل اسلام سے ناآشنائی ہے اور اردو تہذیب سے بے اعتنائی درحقیقت نعت رسول اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے اعتنائی ہے۔ عربی زبان وادب کے طالب علم ہونے کے ناطے مجھے یہ کہنے کا استحقاق حاصل ہے کہ عہد حاضر کی اردونعت گوئی کوعربی نعت گوئی پر سبقت حاصل ہے۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈاکٹر سراج احمد قادری کو لائق مبارک باد سمجھتاہوں جنہوں نے اس مادیت کی رواروی میں اردوکے توسط سے شمع رسالت روشن کی ہے۔ اس نفسانفسی میں کوئی توبے نفسی کا علم بردار ہے ہم رخ روشن کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جس نے عزم کیاہے کہ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو عام کیاجائے۔ یہی اسوۂ رسول شب دیجور کا خاتم اور قاتل ہے۔ قادری صاحب نے اپنے اداریے میں یہ نکتہ اٹھایاہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسوۂ رسول کے جام سے سرشار وسیراب کریں تاکہ ان کی تعلیم وتربیت کا مناسب نظم ونسق ہوسکے۔ راقم الحروف اس تعلق سے ایک اوربات کہنے کا تمنائی ہے کہ ہمارااصل اعتناء وارتکاز قرآن کریم پرہوکیوں کہ اس کے بغیراسوۂ رسول کی تفہیم ممکن ہی نہیں اور اسی طرح بغیرقرآن کے ایک معتبر نعتیہ کلام کا وجود میں آنا بعیدازقیاس ہے۔ یہ کتاب الٰہی نعت رسول کا پہلا ماخذ ومصدرہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا:کان خلقہ خلق القرآن یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کا دوسرانام تصویر قرآنی ہے۔ سیرت کے مصادر میں قرآن کریم کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن کریم ایسا معیار ومحورہے جو ذات اطہرﷺ کے تئیں کج بیانیوں سے بچاتاہے۔ شعرائے کرام کے تجاوزات لامحدود ہیں اگر قرآن کریم پیش نظر ہو تو ان تجاوزات اوربے جا الحاقات سے بچاجاسکتاہے۔ قرآن کریم سرور کونین اور خودان کے متبعین کا سب سے بڑامحافظ ومہیمن ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں آپ ﷺ کی جامع وکامل تصویر کوملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل حلیہ پیش کردیاہے توموضوع روایات کے کیا معنی؟ سراج قادری صاحب نے اپنے اداریے میں تحریر فرمایا کہ:-

’’حدیث کے لئے کے مطابق فضائل ومناقب میں موضوع روایات کابھی اعتبار ہے‘‘

کیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کی تصویرکشی میں ناکافی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل ومکارم احادیث میں موجود ہیں اس لئے ضعیف روایات سے آپ ﷺکی تائید وتوثیق کرنانامناسب ہے۔ احادیث وضع کرنے والوںکے متعلق فرمان رسول ہے کہ’’مقعدہ فی النار‘‘اسی طرح ’’فن نعت اور نعت گوئی‘‘میں یہ تأثر بھی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعت کامفہوم یہ بھی ہے کہ توصیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مبالغے سے کام لیا جائے۔ یہ زاویۂ نظر نعت رسول کے باب میں غیرمستحسن ہے۔ بعض ناقدین نے شاعری کے باب میں مبالغے اور کذب بیانی کا جواز فراہم کیاہے۔ بانی بلاغت ارسطونے بھی شاعری کی سطح پر کذب وافتراء کو مستحسن قرار دیاہے۔ جس کی قرآن کریم کی روشنی میں مولانا فراہی نے تردید کی ہے، آپ کی مشہور زمانہ کتاب ’’جمہرۃ البلاغہ ‘‘ بلاغت صحیحہ کی پیش کش میں درجہء تفرد پر فائز ہے۔ سورۃ الشعراء میں شعراء کی اس بے راہ روی کو ہدف تنقید بنایاگیاہے۔ خودسورۂ یٰس میں ’’وماعلمناہ الشعر وماینبغی لہ ‘‘ کہہ کر وقار نبوت کی تشریح کی گئی ہے کہ شاعری اورہوائی عمل کی تعبیر آپ ﷺ کے رتبے کے برعکس ہے۔ گویا مبالغہ اور نبوت میں بعد مشرقین ہے پھر کیا جواز ہے کہ غیر مستحسن طورپر اللہ کے حبیب ﷺ کی تعبیروتشہیر کی جائے۔ قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت عالیہ کو ’’مقام محمود‘‘کانام دیاہے۔ اس لئے درخواست ہے کہ اس تقدس کو مبالغوں سے مرتبت کرنا اسلامی غیرت کے منافی ہے۔

قابل افتخار مدیر قادری صاحب سے درخواست ہے کہ پروف پر خاصی توجہ دی جائے ’’آپ کے اداریہ میں حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعرمیں ’’یستضاء ‘‘کے بجائے ’’یستظاء‘‘ ہے۔ پرخوشی کی بات یہ ہے کہ صفحہ ۷۱ پر یہ شعر صحیح درج کیا گیاہے۔ اسی طرح صفحہ ۷۰ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعرمیں’’ تنری علیہ‘جبکہ ’’تتری علیہ‘‘ ہے۔ یہی لفظ شوقی کے یہاں اس طرح آیا ہے۔

والآی تتری والخوارق جمۃ جبریل روّاح بہا غدّاء۔

ایک مضمون ’’غیرمنقوط حمدیہ ونعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ‘‘کے عنوان سے تحریرکیاگیاہے جسے علمی سطح پر سراہاجائے گالیکن اسلامی روسے اس طرح کی کاوشوں کو بنظراستحسان ہرگز نہیں دیکھاجائے گااس میں تقدیس اللہ اور تعریف رسول سے زیادہ اپنی خودنمائی اورخود ستائی ہے۔ مرتب اپنی علمی مرتبت اور فکری رفعت کا مظاہرہ کرنا چاہتاہے۔ قرآن کریم تقوی ، انکساری اور عجز کی بات کرتاہے اور اسوۂ رسول فقرکا داعی ہے توکیا اس آئینۂ انقیاد میں اس تبحروتفاخر کی اجازت ہے۔ خاکسار نے ہادیٔ عالم اور سواطع الالہام پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ یہ اسلوبِ تعلی اور اظہارِتجلی اسلامی مزاج سے میل نہیں کھاتا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس شمارے کا قابل قدرمضمون ’’علماء گھوسی کی نعت نگاری‘‘ہے اس مضمون کو مزیدوقیع بنانے کے لئے ضروری ہے کہ مولانا عبدالحی لکھنوی کی ’’نزہۃ الخواطر‘‘کا ضرورجائزہ لیاجائے اس میں بہت سی ایسی چیزیں مل سکتی ہیں جو مضمون کے لئے باعث افادیت ثابت ہوں گی۔ اس کے علاوہ عرفان عباسی کی ’’شعراء اترپردیش‘‘کی بھی اوراق گردانی کی جائے۔ اسی طرح علی جواد زیدی کی بعض تحریریں اس ضمن میں مفید ثابت ہوں گی اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی ’’تذکرہ علماء اعظم گڑھ‘‘کا مطالعہ بھی مضمون کوتقویت بخشے گا۔ ضرورت ہے کہ اسے مزید قابل قدر بنایاجائے۔مضمون نگار لائق ستائش ہیں۔ آخر میں اسی قصبہ گھوسی کے معروف صاحب علم پروفیسر ظفراحمد صدیقی سے رابطہ کیا جائے کیوں کہ گھوسی کا علمی وادبی سرمایہ ان کی نظرمیں ہے۔ آپ کی وساطت سے مآخذ تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔

اس شمارہ ٔاول کی ایک خاص امتیازی شان یہ ہے کہ اس میں گوشۂ علامہ جامی ہے جو ایک علمی وفکری ارتقاء کا ضامن ہے، اس سے یہی متبادرہے کہ ’’دبستان نعت‘‘ دانشوری اور تحقیق وتفتیش کا ترجمان ہے۔ اس حصے کا ایک نامور نام ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کاہے جن کی تحریرمیں علمی ریاضت اور تصنیفی دباغت ہے اس تحریری صلابت کی تعریف پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے بھی کی ہے۔ مجھے امیدہے کہ ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی تحقیقی جلوہ فرمائیوں سے مجلے کے صفحات چمکتے اوردمکتے رہیں گے۔ لیکن یہ بات یادرہے کہ جامیؔ ہوں یاکوئی اوراس سے بھی عظیم تران کے کلام کا تنقیدی تجزیہ کیاجائے اور میزان فیصل یعنی قرآن کی روشنی میں فیصلہ صادر کیاجائے۔اسی لئے کہ اسے ’’ فصل الخطاب‘‘ کا رتبہ حاصل ہے۔

یہاں ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ بہت سے محققین اور صوفیۂ کرام کاخیال ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے رموز اوربواطن ایسے ہیں جن تک رسائی صرف صوفیہ کرام کی ہی ممکن ہے۔ یہ عام طورسے کہاجاتاہے لیکن یہاں تو زد نبوت پر آتی ہے کہ گویا قرآن کی بہت سی تہوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقف نہ تھے۔ جب کہ قرآن کریم ایک واضح کتاب ہے اس کی تمام تعلیمات دربارنبوت سے عام ہوچکی ہیں۔ اللہ نے خود آپﷺ کو شارح قرآن بناکر مبعوث کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں نزول قرآن ہوا تاکہ اس کی تمام تر جامعیت واکملیت تمام انسانوں کے سامنے رکھدیں۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس کااعلان بھی کیا گیااورخود اللہ نے آپ کی زبان سے اعلان کروایاکہ ۔ ؎


الیوأکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیااور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ایسی بیشمار آیات کریمہ ہیںجن سے یہی ترشح ہوتاہے کہ قرآن کریم ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ اس کے احکام، الفاظ اورمعانی میں کوئی ایہام ہے اورنہ ہی کوئی ابہام، بالکل ابتداء ہی میں صراحت کردی گئی کہ وہ تمام شکوک وشبہات سے پاک ہے۔ اللہ نے بڑی وضاحت سے فرمادیاکہ ’’الرکتاب أحکمت اٰیٰتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر‘‘ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیات محکم کی گئیں ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں۔

اس آیت کریمہ کی روشنی میں بڑے تیقن کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کریم ہرزاویئے سے مبرہن ہے۔اسی لئے اسے ’’البلاغ المبین‘‘ کہاگیاہے۔ مجلہ دبستان نعت کے صفحہ ۵۵پر صوفیہ کرام کے نعتیہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایاگیا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باطنی پہلوکواجاگر کیا۔ اس خیال سے بھی آپ کی ذات اکرم صلی اللہ علیہ وسلم متاثر ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہناہے کہ بطونیت کاتعلق نہ قرآن کریم سے ہے اورنہ ہی صاحب قرآن سے۔ تصورعلم باطن کا قرآن کریم سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔

میرے عزیز دوست سید صبیح رحمانی بھی اس میں جلوہ افروز ہیں۔ جنہوں نے دنیائے نعت کی علمی تزئین میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ نعت رنگ نے نعت گوئی کی جہتوں کی تصحیح میں کارہائے نمایاں انجام دئے اور نعت گوئی میں علامتی حیثیت اختیار کرگئے مدیر محترم نے آپ کی جس نعت کو اس میں شامل کیاہے یہ قارئین ہند کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ خاکسار کے اورادمیں یہ نعت شامل ہے۔ اسے پڑھتاہوں ،گنگناتاہوںتاکہ یہ جسم وجاںمیں سرایت کرجائے۔ اس کے ہرہرلفظ سے حب رسول کی خوشبوآتی ہے۔ جو رگ وپے میں گھس کر قرارجاں عطاکرتی ہے۔ اور اڑکر یثرب میں گم ہوجانے کوجی چاہتاہے۔ کاش یہ بدنصیب !


حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے

سلام کے لئے حاضر غلام ہوجائے

تجلیات سے بھرلوں میں اپنا کاسۂ جاں

کبھی جوان کی گلی میں قیام ہوجائے

اسی قیام کے لئے علامہ اقبال زندگی بھر تڑپتے رہے۔ لیکن یہ قیام ان کے حصے میںغیرمکتوب تھا۔ علامہ اقبال کی اس تڑپ پر پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے ایک خوبصورت مقالہ تیارکیاہے جو رسالہ کی شکل میں شائع ہو چکاہے۔ ضرورت ہے کہ من وعن اسے اس میں شائع کیاجائے۔ علامہ اقبال کے حب رسول پر شایدہی اتنی خوبصورت تحریر ترتیب دی گئی ہو۔ قارئین دبستان نعت اسے پڑھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔ انھیں کلمات پراپنی بات ختم کرناچاہوں گا اور ڈاکٹر سراج احمد قادری کے لئے حضور رب ذوالجلال دعاگوہوں کہ انھیں عزم صمیم عطافرمایا تاکہ ’’دبستان نعت‘‘ علوم ومعارف کی بنیاد پر دنیائے نعت کی تعمیر وتشکیل میں قابل ذکر فتوحات انجام دے سکے اور اس کی شناخت صرف علم ہو۔ اسلام نے ذکروفکر کی نشوونمامیں ہراولی کردار اداکیاہے۔ اس کی سمت حنفیت ہوکیوں کہ اسلام دین حنیف ہے اور اللہ اپنے بندوں کو حنفاء بنانے کا خواست گارہے۔ آج ہمارے اہل اسلام فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہی فرقے ان کی پہچان ہیں جب کہ اسلام فرقوں کو مٹانے اور دلوں کو جوڑنے کے لئے آیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ ’’دبستان نعت‘‘ قرآن کریم کے اس اصول کو قدم بہ قدم لے کر چلے گا۔ ارشاد ربانی ہے:

واذکروا نعمت اللہ علیکم اذکنتم اعداء ا فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہٖ اخوانا‘‘(آل عمران۲/۱۰۳)

اوراپنے اوپر (نازل شدہ) اللہ کی نعمت کو یاد کرو ، جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پس اس نے تمہاریدلوں کو آپس میں جوڑدیا،پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

ڈاکٹر سراج احمد قادری نعت رسول کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کریں گے ، عالماسلام لہولہان ہے۔ عرب ماویٰ وملجاکی تلاش میں دردرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ان کی کشتیوں کو ساحل پر لنگراندازہونے سے روکاجارہاہے۔ مسلمانوں کی حالت زار پریہ آنکھیں اشک بارہیں۔شام اوریمن کے چیتھڑوںپر مغرب رقصاں ہے۔ فلسطینی معصوموں پر گولیاں داغ کر اسرائیل چراغاں کررہاہے۔ بغداداور لیبیا خاکستر ہوچکے ہیں اور اب ترکی کے امن و امان کو غارت کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ کیا ہماری دیوبندیت، سلفیت،بریلویت اورتبلیغیت ملت بیضاء کو اس طوفان قلزم سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ ہندوستان کا قبلۂ اول مسلکیت سے محفوظ تھالیکن اب یہ بھی اس مرض کاشکارہے۔اس کے ذمہ دار شیخ الجامعہ ضمیرالدین شاہ اور ان کی ٹیم ہے سرسیدنے یہ ادارہ مسلمانوں کے دھڑوں کے اجتماع واتحاد کے لئے قائم کیاتھا تاکہ محمود وایاز کی مانند اس کی صفوں میں اتحاد ہولیکن یہ اتحاد مختلف شکلوں میں پارہ پارہ ہورہاہے۔ دیوبند، ندوہ، مدرسۃ الاصلاح اور بریلی شریف کے نام پر ’’التضامن الاسلامی‘‘کے لئے سعی بسیار یقینی طورپر ناکام ونامراد ہوگی۔ اس شب دیجور میں ’’دبستان نعت‘‘ کا طلوع ہونا فال نیک ہے۔ احقرکاروان ’’دبستان نعت‘‘ کا ایک رکن لاغرہے۔ لیکن لاغری کے باوجود اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا کیوں کہ مجھے احساس زیاںہے، یہی احساس زیاں سرفرازیوں کی ضمانت ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات