شرف الدین بوصیری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شیخ شرف الدین امام بوصیری شہرہ آفاق قصیدہ بردہ کے خالق ہیں

امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم شوال608ھ یا610ھ (1211ء) میں مصر کے ایک گاؤں بوصیری میں ہوئی ۔ پورا نام شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید بن حماد بن محسن بن عبداللہ الصنہاجی،البوصیری ہے ۔یہ مصری شاعر نسلاً بربر تھے۔اور شاعر ی میں ابنِ حناء کی سرپرستی حاصل تھی ۔اُن کی تمام تر شاعری کا مرکز و محور مذہب اور تصوف رہا۔ تصوف میں ابو الحسن شاذلی کی بیعت کی۔ امام بوصیری کی وفات 694ھ یا 695ھ یا 696ھ میں اسکندریہ میں ہوئی ۔ وہ فسطاط میں امام شافعی کے قرب میں مدفون ہیں

اگرچہ آپ ایک قادر الکلام شاعر تھے اور آپ نے بے شمار قصیدے لکھے ۔ مگر سب سے مشہور شاعرانہ کلام قصیدہ بردہ شریف ہے۔

قصیدہ بردہ شریف

قصیدہ بردہ شریف کا ربطہ :قصیدہ بردہ شریف

اس قصیدے کا سرنامہ "الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ" تھا ۔ 62اشعار پر مبنی یہ معجزاتی قصیدہ اپنے تخلیق کار کی زندگی میں کوڑھ کے مرض سے شفائے کاملہ کا باعث بنا ۔اس کے بعد بھی بوصیری نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں کئی قصیدے کہے ۔ قصیدہ بردہ شریف دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ کیا جانے والا قصیدہ ہے ۔ اس کا لاطینی، جرمن، انگریری ، فرنچ، فارسی ، اردو اور بے شمار دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔


اشعار کے موضوعات

موضوع اشعار کی تعداد
تشبیب 12
نفس 16
مدحت 30
ولادت 19
معجزات و دعوت 10
مدح القرآن 17
معراج النبی 13
جہاد النبی 22
استغفار 14

قصیدہ بردہ شریف کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں اسلام کا کی حقیقی روح بھی بیان کی گئی ہے ۔ نفس سے گریز اور جہاد کی اہمیت تک کا ذکر ہے ۔ اگر اشعار کی مضامین کے اعتبار سے تقسیم کریں تو یہ موازنہ ظاہر ہوتا ہے ۔

وجہ تسمیہ

روایت ہے کہ اس قصیدے کو لکھنے سے پہلے، امام بوصیری کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان مں ایک قصیدہ کہا۔ ام بوصیری فرماتے ہیں کہ اسی رات کوخواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی قصیدہ سناو جو آج لکھا ہے ۔قصیدہ سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فالج زدہ جسم پر ہاتھ پھیرا ۔ جیسے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ پھرتے جاتے مرض جاتا رہا اور اپنی چادر اڑائی ۔ جیسے ہی چادر میرے جسم پرمحسوس ہوئی میری آنکھ کھل گئی ۔ کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا اور میرا تمام جسم تندرست تھا ۔ بردہ عربی میں چادر کو کہتے ہیں۔ اس لیے یہ قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہوا۔

امام بوصیری کو شفا نصیب ہوئی تو نماز فجر کا وقت تھا ۔ بہت دن ہوئے نماز باجماعت سے محروم تھے ۔ تو فورا مسجد کو چل دیے ۔ راستے میں ایک بزرگ "شیخ ابو رجا " سے ملاقات ہوئی ۔ شیخ نے امام بوصیری سے کہا کہ مجھے بھی قصیدہ سناو ۔ امام بوصیری بولے" کونسا" تو شیخ نے کہا کہ وہی جو آج اپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ہے ۔


بیرونی روابط

اے آر وائی ڈیجیٹل نے امام بوصیری پر جو پرگرام پیش کیئے تھے اس کےروا بط درج ذیل ہیں | فراہم کردہ : صارف: ارم نقوی

1 : https://www.youtube.com/watch?v=mk1NhK2JuPs&list=PLE847A6F45452C62C