شاہدہ لطیف کا مجموعہ نعت "نگاہ مصطفی ۔ تنویر ظہور ۔ نوائے وقت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کتاب : نگاہ مصطفی

شاعرہ: شاہدہ لطیف


نگاہ ِ مصطفی از تنویر ظہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حرمین الشریفین دراصل ایک حقیقت کے دو مظاہر ہیں۔ اہلِ نظر حرمِ کعبہ کو دیکھیں تو جلالِ الہی کے حجابوں سے روضہ¿ اقدس کا جمالِ جہاں تاب پھوٹا پڑتا ہے۔ یہ حسین امتزاج خوش نہاد انسانوں کو دلوں کا گداز عطا کرتا ہے۔ وقت اور فاصلوں کی طنابیں کھینچ کر یہاں پہنچیں تو اس بے انت سفر کا اشارہ ملتا ہے جس کا سلسلہ قرنوں پر پھیلا ہوا ہے۔ عقیدت مندانہ ریاضتوں کا سفر! انسانیت سے انتہا تک کا سفر! باطن کی آنکھ کھلی ہو تو یہ مدتیں سمٹ کر لمحہ¿ قبولیت کا عرف بن جاتی ہیں۔ جس سرزمین کی خاک نے سوا لاکھ انبیاءکی جبینوں کا بوسہ لیا ہو اور جس خاک کے ذروں سے جنت کی خوشبو کرنوں کرنوں پھوٹ رہی ہو، جہاں بہشت بریں اور بخشش حق، آدمی کی گھات میں رہے،جہاں گناہوں کی لوح ڈھلتی ہو، جہاں خطائیں معاف ہوتی ہوں، جہاں کے گداگروں کے مقدر پر سلاطین زمانہ رشک کریں، جہاں مسیحا اپنے لیے شفا کا طالب ہو، جہاں وحشی کو انسان، انسان کو مسلمان، مسلمان کو سلمان اور سلمان کو ”فخر سلیمان“ کی سند عطا ہوتی ہو، جس دیار کی گلیوں کو آسمان سورہ¿ تعظیمی کرے اور جس کے راستوں میں دولت وجدان چاندی کی طرح بکھری ہو۔ جہاں صبحیں راتوں کی کنیزیں اور راتیں قدر کی رانی کہلاتی ہوں، جہاں بے زر پہنچ کر ابوذر بن جائیں، مٹی سے بہلنے والے بہلول کہلائیں، جہاں حجر اسود کے ہم رنگ بلالؓ جیسے حبشی کے اذن کے بغیر سورج طلوع نہ ہوتا ہو وہاں کے بارے میں لکھنا نگاہوں کی تشنگی کا مداوا ہے۔ ”نگاہ“ نظر، بصارت، آنکھ، توجہ اور عنایت کو کہتے ہیں۔ شاہدہ لطیف نے اپنے نعتیہ مجموعے کا نام ”نگاہِ مصطفےٰ“ اس لیے رکھا ہے کہ وہ مصطفےٰ کی نگاہِ کرم اور عنایت کی متمنی ہیں۔ اس تمنا کا اظہار انہوں نے اپنے اس نعتیہ شعر میں کیا ہے ....

حُسن نگاہِ مصطفےٰ میری طرف کو دیکھنا

کب سے کھڑی ہوں بے نوا، میری طرف کو دیکھنا


شاہدہ لطیف نے ”اپنی بات“ میں لکھا ہے۔


”عشقِ رسول میںڈوبے تو اندازہ ہوا کہ رسول خدا کے بارے میں کچھ کہنا، سوچنا اور لکھنا کوئی آسان بات نہیں


میرے پاس لفظ نہیں کوئی کہ نثارِ ذکرِ نبی کروں

نہیں سہل نعت کا حوصلہ، تو عشق لہر کی بات ہے “


عشق لہر خیالات کا تلاطم، وجد اور حال ہے جو شاہدہ لطیف کی نعتوں میں موجود ہے۔ ”نگاہ“ کو عربی میں ”عین“ کہتے ہیں۔ عین بمعنی چشم۔ قرآن کریم میں حضور کی حیات طیبہ کے اہم کوائف اس کثرت سے بیان ہوئے ہیں کہ ان سے آپ کی پوری سیرت آئینے کی طرح سامنے آ جاتی ہے۔ آپ کے وہ تمام گوشے جو قرآن میں محفوظ ہیں، آنے والوں کے لیے اسوہ¿ حسنہ ہیں۔ ”نگاہِ مصطفےٰ“ میں شاہدہ لطیف کی نعتوں کے علاوہ چند سیرتی نظمیں بھی شامل ہیں۔ لہذٰا اس کو منظوم نعتیہ سیرت رسول بھی کہا جا سکتا ہے۔ میری اس بات کی تصدیق ڈاکٹر ریاض مجید کے ”پیش لفظ“ میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”شاہدہ لطیف کی نعتیہ نظمیں۔ جبلِ ابوقیس، جبل نور، جبل ثور، غار حرا، غزوہ بدر، غزوہ احد، صلح حدیبیہ، یہودی عورت، نصیحت ایک بڑھیا کی۔ یہ سب نظمیں مختلف اور یکساں آہنگوں کے باوجود ایک طویل سیرتی نظم کا تاثر دیتی ہیں جو حاضر کی نعت گو شاعرات میں شاہدہ کی تخصص کی نشاندہی کرتی ہیں۔ شاہدہ نے ان نعتیہ نظموں میں حضور نبی اکرم کی سیرت کے آثار اور واقعات کو بڑی شیفتگی سے بیان کیا ہے۔ ان نظموں میں روانی کے علاوہ مکالماتی انداز کے اوصاف بھی موجود ہیں۔ شاعرہ نے لفظوں میں سیرتی واقعات اور مقامات کی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ آپ کی ذات والاتبار، آپ کے روضہ اقدس، حرم نبوی کی فضا، جالیوں، زائرین، دربانوں کی آواز، وہاں کا ہجوم، وہاں لباسِ بشر میں چلتے پھرتے نوری، مدینے کا ماحول، افق، ہوائیں، ذرے، مدینے کے نام اور ماحول سے جڑے ہوئے متناسبات سے شاہدہ لطیف کی وابستگی کا اظہار پُر تاثیر اور دلآویز ہے۔ ان تمام آثار و احوال کو جو حرم پاک کی زیارت میں ایک روحانی تجربے اور سرمدی واردات کی طرح تخلیق کار کے دل کو ابدی سرشاری عطا کرتے ہیں، شاہدہ نے بڑی خوبی سے اپنے نعتوں میں پیش کیا ہے۔“ مجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس قسم کی کوشش کی گئی ہو۔ کم از کم میری نظروں سے ایسا کوئی نعتیہ مجموعہ نہیں گزرا۔ میں سمجھتا ہوں، شاہدہ لطیف کا یہ پہلا نعتیہ مجموعہ ہے جو اس قسم کا ہے۔ بشیر حسین ناظم نے بہت عرصہ پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھا۔ یہ ان دنوں کی تحریر ہے جب شاہدہ لطیف کا نعتیہ مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے لکھا ”شاہدہ لطیف چاہتی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کا ادب و احترام اس کی نس نس میں بس جائے اور بعد ازا ں وہ جادہ¿ حیات پر جتنے اسفار بھی اختیار کرے، راستے میں استراحت و آرام کے لیے ایسے مقام آئیں جو آپ کے نقوش پاسے مرصع ہوں۔ وہ جہاں بھی جائے، نجومِ رحمت اس کی رہنمائی کریں اور وہ زمین دل کو انوار مدینہ سے منور کرتی ہوئی بخشش و غفران کے جام پیتی جائے۔ اگر راستے میں کہیں اسے بات کرنے کا موقع میسر آ جائے تو لب کشائی کے وقت حضور کا ذکر جمیل ہو“


شاہدہ لطیف کو پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ آپ ایک نامور شاعرہ، ادیبہ اور صحافی ہیں۔ ”نگاہِ مصطفےٰ“ سے پہلے ان کے سات شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان مجموعوں کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں ان کی ایک پہچان اور شناخت ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی شاہدہ کی بعض کتابوں کی تعارفی تقاریب منعقد ہو چکی ہیں۔ اپنے پیارے نبی کے لیے شاہدہ کا شعر ہے ....


اٹھیں جو ہاتھ تو سارے سلام تیرے ہوں

مری نظر کے سبھی احترام تیرے ہیں


حقیقت میں شاہدہ لطیف کا نعتیہ مجموعہ ”نگاہِ مصطفےٰ “ انکی بخشش کا حیلہ، قرب خداوندی کا وسیلہ اور حضور کی شفاعت بنے گا۔ محشر میں جب ملائک ہر آدمی سے اس کا اعمال نامہ پوچھیں گے تو شاہدہ لطیف کے ہاتھ میں ”نگاہِ مصطفےٰ“ دیکھ کر اس سے مزید پرسش نہیں کرینگے۔ اسی لیے تو شاہدہ لطیف کہتی ہیں ....


نہریں بہشت کی نہیں درکار شاہدہ

مجھ کو توصرف اُن کی شفاعت کی پیاس ہے


افتخار عارف کے الفاظ میں ”شاہدہ لطیف نے بہت عاجزی، درد مندی، اخلاص، شائستگی اور شیفتگی کے ساتھ بارگاہ عالی مرتبت میں اپنے عقیدے اور عقیدت کے تحت نذرانے پیش کیے ہیں۔ اللہ کریم اور اسکے رسول رحمت قبول فرمائیں“

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت کائنات پر نئی شخصیات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات