سید منظور الکونین ۔ عبد المجید منہاس

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


مضمون نگار : عبد المجید منہاس

مطبوعہ : روزنامہ نوائے وقت <ref> نوائے وقت </ref>

سید منظور الکونین

توصیف خیر البشر کا سلسلہ آپؐ کی حیات مبارکہ میں ہی شروع ہو چکا تھا نعت عربی زبان کا لفظ ہے اور احادیث کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے آپؐ کی حیات میں صرف مدینہ منورہ میں ایک سو کے قریب نعت گو شعرا تھے، جن میں حضرت امیر حمزہ، حضرت کعب بن زہیر، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت ابوطالب، حضرت مالک بن عون، حضرت عامر بن رکوع اور حضرت حسان بن ثابت انصاری شامل ہیں اسی طرح فارسی میں بھی معروف نعت گو شعرا میں حکیم سنائی، جمال الدین عرفی شیرازی، فرید الدین عطار، قطب الدین بختیار کاکی، مولانا رومی، شیخ سعدی شیرازی، امیر خسرو، مولانا عبدالرحمن جامی، اور علامہ اقبال جبکہ اردو میں نعت لکھنے والوں میں امیر مینائی، اسماعیل میرٹھی، حسرت موہانی، مولانا احمد رضا خان، ماہر القادری ، سودا، مومن، میر انیس، محسن کاکوروی، نظیر اکبر آبادی، جگر، احسان دانش، عبدالعزیز خالد اور حفیظ تائب کے اسم گرامی کے علاوہ سید منظور الکونین بھی شامل ہیں وہ نعتیہ شاعری میں اقدس تخلص کرتے تھے۔ سید منظور الکونین نے صغر سنی میں یعنی ساڑھے تین سال کی عمر میں شملہ کانفرنس سے پہلے ابتدائی اجلاس منعقدہ کلکتہ میں نعت پیش کی ،جس پر خواجہ ناظم الدین نے ان کا ماتھا چوم کر ان کو سراہا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سید منظور الکونین کی نعت خوانی میں تابانیاں آتی گئیں اور اپنی خوش الحانی سے ان کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔ انہوں نے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی سفر کئے ،خاص طور پر مسلم ممالک میں ان کی ثناخوانی کو بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔


1986ء میں اس وقت کے سیکرٹری مذہبی امور محمد یوسف نے آپ کو حکومت کی طرف سے حج کی سعادت کی خوشخبری سنائی۔ منظور الکونین کے بارے میں عاصی کرنالی نے لکھا تھا یہ ایسی ہر دلعزیز شخصیت ہیں جنہوں نے نعت گوئی اور خصوصاً نعت خوانی میں بہت نام پیدا کیا کیونکہ وہ تخلیقی طور پر نعت گو بھی ہیں، اس لیے ایسی نعتیں منتخب کرتے ہیں جو معیاری ہوں اور جو مدحت رسول پاکؐ کے فضائل مبارکہ، اسوۂ حسنہ اور سیرت طیبہ کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ منظور الکونین صاحب نے نعتوں کے انتخاب میں صرف عہد حاضر ہی کو نہیں لیا بلکہ عہد ماضی کے مشہور و ممتاز نعت گو کی نعتوں کو اپنے نعت خوانی کے حسن سے جمال بخشا۔حفیظ تائب فاونڈیشن کے زیر اہتمام جب بھی پاکیزہ محفل کا اہتمام کرتے سید منظور الکونین بھی اس میں شیک ہوتے تھے ۔


سید منظور الکونین مرحوم آج ہم میں نہیں لیکن انہوں نے اپنی خوش الحانی سے جو نعتیں پڑھیں ان پر ان کو ریڈیو پاکستان نے بھی زیڈ اے بخاری ایوارڈ سے نوازا اور حکومت پاکستان نے بھی۔ سید منظور الکونین سے ایک بار سوال کیا گیا تھا کہ آپنعت گوئی کی طرف زیادہ مائل کیوں نہ ہوئے تو انہوں نے کہا تھا حفیظ تائب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ بھائی آپ باقاعدگی سے نعت کیوں نہیں لکھتے میں نے آپ کی نعتیں سنی ہیں آپ بہت اچھی نعت کہتے ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں آپ کی نعت پڑھتا ہوں، احمد ندیم قاسمی کی نعت پڑھتا ہوں، حافظ مظہر الدین اور ماہر القادری کی نعت پڑھتا ہوں تو جب میں شعر کہتا ہوں اور ان کے برابر نہیں پاتا تو میں کہتا ہوں کہ اس سے نہ کہنا اچھا ہے نیز میری خوش گلوئی اور نعت خوانی کی عطا اتنی زبردست اور حاوی تھی کہ اس نے میر ی شاعری کو زیادہ پنپنے نہیں دیا۔


سید منظور الکونین دور حاضر کے ایسے نعت گو اور نعت خواں تھے جو آنے والے نعت خوانوں کے مشعل راہ رہیں گے اور ان کی آواز جب جب سماعت میں آئے گی سننے والے بے ساختہ ان کو داد دیتے رہیں گے۔ آخر میں ان کی نعت کے دو شعر نذر قارئین ہے:۔


جو مجھ پہ چشم رسالت مآبؐ ہو جائے

ہر اک لمحہ مرا کامیاب ہو جائے

بروز حشر نہیں کوئی حامی و ناصر

کرم حضور کہ آساں حساب ہوجائے