سفینہء بخشش: ایک بیش بہا ادبی و شعری مرقّع

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Tufail Ahmed.jpg

تحریر: طفیل احمد مصباحی

سب ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سفینہء بخشش : ایک بیش بہا ادبی و شعری مرقّع

اکیسویں صدی کے ہندوستان نے جن نام ور ہستیوں کو وجود بخشا اور جن کی ہمہ جہت دینی، ملّی،روحانی، علمی ،ادبی اور تحریری خدمات نے پورے عہد کو متاثر کیا، ان میں تاج الشریعہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمۃ والرضوان سرِ فہرست ہیں۔بلا مبالغہ آپ ایک ہمہ جہت اور انقلاب آفریں شخصیت تھے۔قدرت کی فیاضیوں نے حضرت تاج الشریعہ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔آپ جن اوصاف و کمالات کے حامل تھے، اگر ان میں سے کوئی ایک وصف بھی کسی انسان کے اندر موجود ہو تو وہ اپنے وقت کا " عظیم انسان " کہلانے کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے اور حضرت تاج الشریعہ کا حال یہ تھا کہ آپ کے اندر بیک وقت بہت سارے اوصاف و کمالات اور فضائل و خصوصیات موجود تھیں۔آپ کے اندر اپنے پردادا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کا علمی تبحّر، دادا حضرت حجّۃ الاسلام کی ادبی و فنّی مہارت، نانا حضور مفتیِ اعظم ہند کا تقویٰ و تفقّہ اور والد گرامی حضرت مفسّرِ اعظم ہند کا مفسّرانہ جاہ و جمال آپ کی ذات میں بدرجہء اتم موجود تھے۔گویا آپ اپنے نام ور علمی و روحانی خانوادے کے نام ور سپوت اور اپنے علمی قبیلے کے سچے وارث و امین تھے۔یہی وجہ ہے کہ دنیائے عرب و عجم کے عوام و خواص نے آپ " تاج الشریعہ " ، " قاضی الھند فی الھند" ، " شیخ الاسلام و المسلمین " ، " اعلم العلماء " ، " زبدۃ الکملاء" ، اور " سلطان الادباء " جیسے معزّز القاب و خطابات سے نواز کر آپ کی قرار واقعی حیثیت کا اظہار و اعتراف کیا ہے ۔


حضرت تاج الشریعہ مندرجہ ذیل شعر کے صحیح مصداق تھے۔


علم و ادراک وسخن دانی وطرزِ تحریر

ایک مرکز پہ سمٹ آئے ہیں جوہر سارے


عقیدت سے قطعِ نظر بلحاظِ حقیقت حضرت تاج الشریعہ کو " وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت" بھی کہا جاتا ہے۔


جن علوم و فنون میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنی علمی فتوحات کے پرچم لہرائے ہیں، ان علوم و فنون میں حضرت تاج الشریعہ کو درک و کمال حاصل تھا۔


بالخصوص علمِ حدیث، علمِ فقہ، علمِ تفسیر، علمِ کلام،علمِ اسماء الرجال، فنِّ جرح و تعدیل، علمِ توقیت اور علومِ ادبیہ میں آپ کو مہارتِ تامّہ حاصل تھی ،جن کے بہت سارے شواہد موجود ہیں۔ اردو تو اپنی مادری زبان تھی، عربی، فارسی اور انگریزی زبان و ادب میں بھی آپ کو ملکہ حاصل تھا۔عربی اور انگریزی زبان میں بلاتکلّف اور بے ضضطہء زبان کے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔آپ کی تہہ دار شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آپ عربی اور اردو زبان کے ایک باکمال ادیب اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔آپ کے عربی مجموعہء کلام " نغماتِ اختر" اور اردو مجموعہء نعت و مناقب " سفینہء بخشش" کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی انصاف پسند قاری اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت تاج الشریعہ جتنے بڑے عالم و فقیہ اور مفتی و محدّث تھے، اتنے ہی بڑے ادیب و شاعر بھی تھے۔


آپ کی عربی و اردو شاعری، ایک مستقل عنوان ہے، جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔


محبِّ گرامی حضرت علامہ محمد اشرف رضا سبطینی دام ظلہ العالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے راقم الحروف " سفینہء بخشش " کی ادبی و شعری حیثیت پر اپنے ناقص علم کے مطابق کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔


حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی شاعری اور " سفینہء بخشش " پر گفتگو کرنے سے قبل مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کریں، تاکہ قارئین کو اصل موضوع کے مالہ و ما علیہ سمجھنے میں آسانی ہو۔


" سوانحِ تاج الشریعہ " کے مصنّف مولانا یونس رضا مونس اویسی صاحب، رقم طراز ہیں :


حضرت تاج الشریعہ کو شعر و شاعری سے بھرپور مناسبت ہے، وہ ایک فطری شاعر ہیں۔اردو، عربی اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ شاعری کرتے ہیں۔آپ کا عربی کلام سن کر اہلِ عرب انگشت بدنداں رہتے ہیں۔حضرت کی حیات کے مطالعے سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کے خزانے میں وہ تمام جواہر پائے جاتے ہیں، جو ایک کامیاب شاعر اور بالخصوص " نعت گو شاعر" کے لیے ضروری ہیں........... ان کی نعتیہ شاعری، دلکشی و رعنائی سے لبریز اور دل و دماغ کو معطّر کرنے والی شاعری ہے۔آپ کے کلام میں عشق و وارفتگی کا ایک حسین گلدستہ ہے جس میں خلوص کی خوشبو، عقیدت کی روشنی، ایمان کی لذّت و حلاوت اور بیان کی نفاست و پاکیزگی بدرجہء اتم موجود ہیں


(سوانحِ تاج الشریعہ، ص: 91/92، مطبوعہ،بریلی شریف )


حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو شعر و سخن کی دولت وراثت میں ملی تھی۔آپ شاعرانہ ذہن و دماغ لے کر دنیا میں آئے تھے۔آپ کی شاعری، کسبی نہیں بلکہ وہبی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس فن میں آپ نے کسی استاد شاعر سے باضابطہ اصلاح لیے بغیر بڑی کامیاب شاعری کی ہے۔آپ کی شاعری کو دیکھ کر بڑے بڑے قادر الکلام شعراء بھی رشک کرتے نظر آتے ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تاج الشریعہ واقعی ایک عظیم، پُرگو اور قادر الکلام شاعر تھے۔آپ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف بہت سارے اہل علم و سخن نے کیا ہے اور آپ کی شعری مہارت کا لوہا مانا ہے۔


آپ کا نعتیہ مجموعہء کلام جو " سفینہء بخشش " کے تاریخ نام سے موسوم ہے اور نعوت و مناقب کے علاوہ سلام کا ایک گراں قدر مجموعہ ہے، اس میں شعر و سخن کی تمام تر رعنائیاں اور جلوہ سامانیاں موجود ہیں۔


آج سے پندرہ سال قبل ہی آپ کا یہ مجموعہء کلام (جو ایک سو چوالیس، 144،صفحات پر مشتمل ہے )منظرِ عام پہ آکر اہل علم و ادب سے خراجِ تحسین وصول کر چکاہے ۔


" سفینہء بخشش " میں تقریباََ چالییس نعتیں، پندرہ مناقب، پانچ سلام اور کچھ عربی کلام بھی موجود ہیں۔


سفینہ بخشش کیا ہے؟


حضرت تاج الشریعہ کے علمی کمال، ادبی جمال، فنّی جاہ و جلال ،شعری مہارت و اُبال اور ان کے نگارخانہء افکار کا ایک خوب صورت اور دل آویز مرقّع ہے، جس میں ایمان و عقیدہ کی حرارت، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حلاوت، سرکار علیہ الصلاۃ والسلام کی ذاتِ بابرکات سے والہانہ عقیدت و شیفتگی ،محبّتِ رسول کی فراوانی و سرمستی اور کامل ربودگی کے ساتھ ادب کی چاشنی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔یہ مجموعہء کلام شعر و ادب کے ذخیرے میں ایک وقیع باب کا اضافہ ہونے کے ساتھ ایک بیش بہا شعری و ادبی مرقّع بھی ہے۔


حضرت تاج الشریعہ کے شاعرانہ کمال ، ان کی نعت گوئی اور ان کے مرقّعِ فکر و خیال "سفینہء بخشش " پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مفتی عبد الرحیم نشتر فاروقی صاحب لکھتے ہیں:


تاج الشریعہ کی شخصیت کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آپ کو دین و مذہب سے والہانہ وابستگی کے ساتھ ساتھ موزونیِ طبع، خوش کلامی، شعر فہمی، اور شاعرانہ ذوق وراثت میں ملا ہے۔آپ بیک وقت مفکّر و مدبّر اور مدرّس و محدّث ہونے کے ساتھ ایک عظیم عاشقِ رسول اور عمدہ نعت گو شاعر بھی ہیں ۔آپ کو نئے لب و لہجے میں نعتیہ اشعار کہنے میں زبردست ملکہ حاصل ہے ۔آپ کی شاعری، معنویت و غنائیت، پیکر تراشی اور سرشاری و شیفتگی کا نادر نمونہ ہے اور آپ کے قلمِ اعجاز رقم سے نکلنے والے اشعار فصاحت و بلاغت، حلاوت و ملاحت، جذب و کیف اور سوز و گداز میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔


حضور تاج الشریعہ کا نعتیہ دیوان " سفینہء بخشش" عشقِ رسول مقبول صلیّ اللّٰہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی نعتوں کا ایک روح پرور گلدستہ ہے۔


( ابتدائیہ سفینہء بخشش، ص: 9/10، ناشر: الرضوی، بریلی شریف)


ادب کو زندگی کی تصویر کہا گیا ہے اور ادب کی بنیاد حقیقت نگاری پر رکھی گئی ہے۔شاعری، ادب کی نہایت مشہور و متداول اور ہر دل عزیز قسم ہے، جس میں قارئین کو زندگی کا آئینہ دکھانے کے ساتھ صداقت و واقعیت اور حقیقت نگاری پر کافی زور دیا جاتاہے اور وہی نظم و نثر ایک کامیاب ادب کہلانے کا مستحق ٹھہرتی ہے ،جس میں سادگی و پرکاری کے ساتھ ، حقیقت بیانی اور صداقت نگاری کا عنصر شامل ہو۔ اربابِ تحقیق و تنقید نے اپنے ذوق و وجدان کے مطابق ادب کی دونوں قسم یعنی نظم و نثر سے متعلق مختلف انداز سے اپنے اپنے نظریات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔لیکن اس حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ نظم و نثر کو زندگی کی تصویر، اور حقیقت و واقعیت کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ تقدیسی شاعری کرنے والے یعنی حمد و نعت اور منقبت نگار شعراء نے منظوم ادب میں زندگی کے ساتھ بندگی کی تصویر بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔


اس تناظر میں جب ہم " سفینہء بخشش" کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نعتیہ مجموعہ ایک گراں قدر ادبی مجموعہ نظر آتا ہے، جس میں زبان و بیان کی تمام تر خوبیاں پائے جانے کے ساتھ زندگی اور بندگی کی جھلملاتی تصویر واضح طور پر دکھائی دیتی ہے ۔


توضیح و تشریح کے لیے ایک دفتر درکار ہے، اس لیے بلا تبصرہ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ ان اشعار میں صداقت نگاری اور زندگی و بندگی کی تصویر کشی کس قدر والہانہ انداز میں کی گئی ہے۔


زندگی یہ نہیں ہے کسی کے لیے

زندگی ہے نبی کی، نبی کے لیے


نا سمجھ مرتے ہیں زندگی کے لیے

جینا، مرنا ہے سب کچھ نبی کے لیے


لبِ کوثر ہے میلہ تشنہ کامانِ محبّت کا !!!!

وہ اُبلا دستِ ساقی سے وہ اُبلا چشمہ شربت کا


مہ و خورشید و انجم میں چمک اپنی نہیں کچھ بھی

اُجالا ہے حقیقت میں انھیں کی پاک طلعت کا !!!!


تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے جمال

سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جانِ جمال


گرمیِ محشر گنہگارو ہے بس کچھ دیر کی

ابر بن کر چھائیں گے گیسوئے سلطانِ جمال

.................................................


موجودہ دور کی تصویر کشی کرتے ہوئے حقیقت پر مبنی یہ تین شعر دیکھیں :


غیر اپنے ہوگئے، جو ہمارے بدل گئے

نظریں بدل گئیں تو نظارے بدل گئے


اس دورِ مصلحت میں وفا کوئی شے نہیں

گاہے ہوئے ہمارے تو گاہے بدل گئے


کس کو سنائیے گا یہاں غم کی داستاں

جو غم میں ساتھ دیتے، وہ سارے بدل گئے


کسی بھی فن پارے کی قدر و قیمت کا تعیّن، اس میں موجود ادبی اوصاف اور فنّی خصوصیات سے کیا جاتا ہے۔" سفینہء بخشش" میں ادب کی چاشنی اور فکر و فن کی جمال آفرینی علیٰ وجہ الکمال موجود ہے۔

ہر شعر اور کلام میں کوئی نہ کوئی ادبی خصوصیت اور فن کی لطافت ضرور پائی جاتی ہے۔زبان و بیان کی چاشنی، اعلیٰ تخیّل، بلند پروازی، رنگِ تغزّل، معنیٰ آفرینی، صنائع و بدائع کا استعمال،خوب صورت الفاظ کا انتخاب، دلکش تراکیب سلاست و روانی اور سادگی و صفائی، اس گراں قدر نعتیہ مجموعے کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔ چند مثالیں نذرِ قارئین ہیں:


  • بلندیِ خیال اور معنیٰ آفرینی:*


وہ ظلِّ ذاتِ رحماں ہیں، نبوّت کے مہِ تاباں

نہ ظل کا ظل کہیں دیکھا، نہ سایہ ماہ و اختر کا


ترا ذرّہ وہ ہے جس نے کِھلائے ان گنت تارے

ترا قطرہ وہ ہے جس سے ملا دھارا سمندر کا


جھکے نہ بارِ صد احساں سے کیوں بِنائے فلک

تمہارے ذرّے کے پرتو ستارہائے فلک


یہ خاکِ کوچہء جاناں ہے جس کے کوچے سے

نہ جانے کب سے ترستے ہیں دیدہائے فلک !!!!


قدم سے ان کے سرِ عرش بجلیاں چمکیں

کبھی تھے بند، کبھی وا تھے دیدہائے فلک


  • رنگِ تغزّل:*


گُلوں کی خوشبو مہک رہی ہے، کلی دلوں کی چٹک رہی ہے

نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیں کہ ایک بجلی چمک رہی ہے


وہی تبسّم، وہی ترنّم، وہی نزاکت، وہی لطافت !!!!!

وہی ہیں دزدیدہ سی نگائیں کہ جن سے شوخی ٹپک رہی ہے


یہ مجھ سے کہتی ہے دل کی دھڑکن کہ دستِ ساقی سے جام لے لے

وہ دور ساغر کا چل رہا ہے، شرابِ رنگیں چھلک رہی ہے


موسمِ مئے ہو، وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو

چشمِ میگوں سے پیئیں، جلسہء صہبائی ہو


چاندنی رات میں پھر مئے کا وہ اک دور چلے

بزمِ افلاک کو بھی حسرتِ مئے آئی ہو !!!


  • سادگی و سلاست:*


کلامِ تاج الشریعہ کی ایک اہم ادبی خصوصیت سادگی اور سلاست و روانی بھی ہے۔مندرجہ بالا اشعار میں رفعتِ خیال، معنٰی آفرینی اور رنگِ تغزّل کے ساتھ سادگی اور سلاست بھی پائی جاتی ہے۔ سادگی،سلاست اور صفائیِ زبان و بیان جیسی ادبی خوبیوں پر مشتمل ذیل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:


دور اے دل رہیں مدینے سے !

موت بہتر ہے ایسے جینے سے


ہر گُلِ گلستاں معطّر ہے !

جانِ گلزار کے پسینے سے


ہر گھڑی وجد میں رہے اختر

کیجیے اس دیار کی باتیں !!


تختِ زرّیں نہ تاجِ شاہی ہے

کیا فقیرانہ بادشاہی ہے !!!


فقر پر شان یہ کہ زیرِ نگیں

ماہ سے لے کے تا بماہی ہے


اے صبا لے جا مدینے کو سلام

عرض کردے ان سے باصد احترام


اسی طرح "صنائع و بدائع" کے علمی و ادبی جواہرات بھی اس مجموعے میں جا بجا کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ دلیل کے طور پر ایک ایک دو مثال ملاحظہ کریں ۔


  • صنعتِ تنسیق الصفات:*


شجاعت ناز کرتی ہے، جلالت ناز کرتی ہے !!!

وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے


صداقت ناز کرتی ہے، امانت ناز کرتی ہے

حمیّت ناز کرتی ہے، مروّت ناز کرتی ہے


تم سے جہانِ رنگ و بو، تم ہو چمن کی آبرو

جانِ بَہارِ گلستاں، سروِ چماں تم ہی تو ہو


تم ہو نمودِ اوّلیں، شمعِ ابد بھی ہو تمھیں !!!

شاہِ زمن یہاں وہاں سکّہ نشاں تمھیں تو ہو


  • صنعتِ تلمیح*:


نبی سے جو ہو بیگانہ، اسے دل سے جدا کردیں

پدر، مادر، برادر، مال و جاں ان پر فدا کردیں


اس شعر میں مشہور حدیث پاک " لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعیں " کی طرف اشارہ ہے۔


  • جذبہء عشقِ رسول صلّٰی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم*


حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جہاں اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین، فقید المثال مفتی و قاضی، مایہ ناز محدّث و مفسّر، بافیض مرشدِ طریقت اور ایک باکمال ادیب و شاعر تھے، وہیں وہ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے۔آپ کی زندگی مکمل طریقے سے محبّتِ شاہِ بطحا کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندنی اور الفتِ نبی کی تجلّی صفحہء قرطاس کو بقعہء نور بناتی نظر آتی ہے۔بالفرض اگر آپ کے کلام میں کوئی ظاہری اور معنوی خوبی نہ بھی ہوتی تو جذبات کی یہی شدّت اور عشق و عقیدت کی یہی حلاوت آپ کے کلامِ بلاغت نظام کو دنیائے عشقِ حقیقی میں ایک شہکار اور لافانی کلام کے طور پر متعارف کرانے کے لیے کافی ہوتی ۔

" مشتے نمونہ از خروارے " کے طور پر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز چند اشعار نذرِ قارئین کرتا ہوں ۔یہ اشعار دیکھیں اور سر دھنتے جائیں ۔


سویا نہیں ہوں رات بھر عشقِ حضور میں

کیسا یہ رت جگا رہا کیف و سرور میں !!!


دور اے دل رہیں مدینے سے

موت بہتر ہے ایسے جینے سے


رواں ہو سلسبیلِ عشقِ سرور میرے سینے میں !!!

نہ ہو پھر نار کا کچھ غم، نہ ڈر خورشیدِ محشر کا


نبی سے جو ہو بیگانہ، اسے دل سے جدا کردیں

پدر، مادر، برادر، مال و جان ان پر فدا کردیں


داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا

کاش گنبدِ خضریٰ دیکھنے کو مِل جاتا !!!!


میرا دم نکل جاتا ان کے آستانے پر !!!

ان کے آستانے کی خاک میں، میں مِل جاتا


اس طرف بھی اک نظر مہرِ درخشانِ جمال !!!

ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدّت سے ارمانِ جمال


تجسّس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلبِ مضطر میں

مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں


دشتِ طیبہ میں نہیں کِیل کا کھٹکا اختر

نازک اندام وہاں برہنہ پا جاتے ہیں


تمہارے در پہ جو میں باریاب ہوجاؤں

قسم خدا کی شہا کامیاب ہوجاؤں


جو پاؤں بوسہء پائے حضور کیا کہنا

میں ذرّہ، شمس و قمر کا جواب ہو جاؤں


خلاصہء کلام یہ کہ " سفینہء بخشش " فنّی اعتبار سے ایک بیش قیمت ادبی و شعری مرقّع ہے ۔اللہ تبارک و تعالی حضرت تاج الشریعہ کے مرقد پر تا صبحِ قیامت اپنے انوار و تجلّیات کی بارش نازل فرمائے اور ان کے علمی، روحانی اور ادبی فیوض و برکات سے ہم غلاموں کو مالا مال فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین علیھم التحیۃ و التسلیم


مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات