سعدی شیرازی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Saadi.jpg


مصلح الدين شیخ سعدی 1210ء میں ايران كے شہر شیراز ميں پيدا ہوئے ۔ شیخ کے والد عبداﷲ شیرازی شیراز کے حکمران سعد زنگی کے ساتھ ملازم تھے، چونکہ شیخ کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شا عری کا شوق تھا ۔ اس لیے بچپن سے ہی حاکم وقت کی مناسبت سے آپ نے سعدی تخلیق تجویز فرما لیا تھا ۔ آپ کا خاندان علم و فضل کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اس خاندان کے اکثر افراد علماء دین تھے ۔ شیخ سعدی نے بچپن میں ہی یتیم ہو جانے کے باعث غربت اور سخت مشکلات کا سامنا کیا اور بہتر تعلیم کے لیے آپ نے اپنے آبائی شہر کو خیرباد کہا اور بغداد تشریف لے آئے اور المدرسة النظاميہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے اسلامی سائنس، قانون، حکومت، تاریخ، عربی ادب اور اسلامی الٰہیات کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں عبدالرحمن بن جوزی مشہور استاد سے فقیہانہ تعلیم پائی اور یگانہ روزگار عارف شیخ شہاب الدین سہر وردی سے بھی آپ نے کسب فیص کیا۔

جب اسلامی سلطنت کے بغداد میں زوال ، اور ہلاکو خان کی بربریت اور ظلم سے بغداد کی پرسکون فضاء کو برباد کر دیا تو شیخ نے سیر و سیا حت کا ارادہ کیا۔ بغداد سے نکل کر آپ نے سیر سیا حت شروع کی اور شام ،فلسطین، مکہ مکرمہ، ایشائے کو چک اور شمالی افریقہ تک ہو آ ئے ۔ اس طویل سفرِ سیاحت میں آپ نے چودہ حج کیے۔ بو ستان کے بعض حکا یات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے تر کستان اور بھارت کا بھی سفر کیا ۔ ایک انگریز سوانح نگار لکھتاہے کہ ابن بطو طہ کے علاوہ اور کوئی مشرقی سیاح ایسا نہیں ملتا ہے جو شیخ سعدی سے سیا حت میں آگے ہو۔ ایام سفر میں شیخ نے بڑے مصائب جھیلے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ سعدی کے وطن سے طویل باہر رہنے کی وجہ یہ تھی کہ خود شیراز اور ان کے گرد و نواح کے علاقوں میں امن و امان نہ تھا۔ یہ زمانہ مظفر الدین سعد بن زنگی کی حکومت تھا ۔1236ء میں سعد فوت ہوا تو حکومت اس کے بیٹے مظفر الدین ابو بکر بن ابو سعد بن زنگی نے سنبھالی۔ اس حکمران نے تا تا ریوں سے مصلحت کر کے فارس کو قتل و غارت سے بچایا اور اہل فارس کو امن و امان نصیب ہوا، جب دور دور تک اس کے عدل و انصاف کی خبریں پہنچ گئی تو شیخ سعدی کو وطن واپسی کا خیال آیا ۔ اور وطن کی محبت آخر آپ کو شیرا زی لے آئی۔

درویشی کی جانب سعدی نے جب توجہ دی تو علم و فضیلت کا لباس اتارلیا اور درو یشانہ زندگی اختیار کی ۔ اور اصلاحی کارنامے سر انجام دئے۔ گلستان اور بوستان گواہ ہیں کہ شیخ نے اپنی تحریر سے اصلاحی کام لے لیا ہے اور متعدد مقامات پر پہلے تھوڑی سی مدح کے بعد شاہان وقت کو نصیحت فرمائی ۔ شیخ نے اپنی تحریروں سے شہرت پائی ۔ اس کی سلاست، زور بیان۔ شسستگی اور بر جستگی کا چرچا شیخ کی زندگی میں ہی دور دور تک پہنچ گیا تھا۔


اہم تصانیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

گلستان | بوستان


سعدی شیرازی کا نعتیہ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]


وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آخرِ زندگی شیخ نے شیراز کے نواح میں ایک خانقاہ میں گوشہ نشینی اختیار کر کے گزاری ، مرتے دم تک نہیں چھوڑا اور آخر 691 ھ میں خانقاہ میں ہی دفن ہوئے۔آپ کا مزار سعدیہ کے نام سے مشہور ہے اور زیارت گاہ خاص وعام ہے۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حافظ شیرازی | خاقانی | جلال الدین رومی | شیخ سعدی شیرازی | مولانا عبدالرحمن جامی | قا آنی | جان قدسی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]