"سحابِ رحمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 3 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 8: سطر 8:


قیمت:  350 روپے  
قیمت:  350 روپے  
=== احباب کی آراء  ===
====ڈاکٹر ریاض مجید کی راۓ====
[[اسلم فیضی]] کا تخلیقی سفر قریب قریب نصف صدی پر پھیلا ہُوا ہے۔ اُنہوں نے شاعری کی مختلف صنفوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ غزل، نظم، ہائیکو، نعت اور حمد وغیرہ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور اُردو شاعری کو کئی خوبصورت مجموعے دیئے ان کا فن مقدار اور معیار دونوںحوالوں سے ایسا ہے کہ اردو شاعری میں اُن کی خدمات پر جامعات میں تحقیقی و تنقیدی کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے کوہاٹ اور پختون خوا سے نکل کر ان کی شہرت ملک کی معاصر شاعری کے منظر نامے تک پھیلی ہوئی ہے۔
زیر نظر مجموعہ ان کی نعت کا مجموعہ ہے جس میں اُن کی حمدیہ شاعری کے کچھ نمونے بھی ہیں اور سلام و منقبت کے بھی ___ اُن کی نعت ‘رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اُن کی شیفتگی اور ارادت کی مظہر ہے۔ نعتیہ شاعری سے میری طالب علمانہ وابستگی اور مطالعہ کا نتیجہ یہ حقیقت بتاتاہے کہ اس صنف میں بنیادی جوہر اخلاص کاہوتا ہے یہ وہ وصف ہے جو بارگاہ نبیؐ میں ہمیشہ قبول ہوتاہے اور نعت کے میدان میں شہرت طلبی ، نام و نمود کی خواہش اورزورفن کے اظہار کی نمائش سے الگ اُس بابرکت اور ثروت مند ’قدرِ حقیقی ‘(Real Value)کادرجہ رکھتا ہے جو شاعری کی جان ہوتا ہے یہ خوبی اور وصف (دوسری اصناف سخن کے برعکس) نعت کے لئے از حد ضروری ہے ۔بیسوؤں نعتیہ دیوانوں اور ہزاروں نعتیہ شعروں میں قبولیت، ثبات اور دوام اُسی نعت پارے کو حاصل ہوتا ہے۔
بقول اقبال ؎ جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
بارگاہِ ایزوی اور دربار نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ایسا ہی کلام مقبول ہوتا ہے۔
اﷲ ہمیں معاف فرمائے نماز کے بارے میں حدیث ہے کہ اگر وہ عدم توجہ اور نمائشی انداز میں پڑھی گئی ہے تو وہ بھی اﷲ کے ہاں نا مقبول ہے اور ایسی نمازکے قبول و اجر کا کیا ذکر ‘اس کو کسی بوسیدہ کپڑے میں لپیٹ کر نمازی کے مونہہ پر مار دیا جائے گا بار ِدگر دعا ہے کہ اﷲ ہمیں معاف کر ے اگر ہماری نعت نگاری اخلاص کے وصف سے عاری ہے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟
[[اسلم فیضی]] کی نعت کا نمایاں وصف ان کی سادگی ٔ بیان ہے اخلاص کا پہلا ظہور سادگی ٔ بیاں ہی ہوتا ہے ’از دل خیز د بردل ریزد‘ والی کیفیت ہوتی ہے جیسے جیسے خیالات  ذہن میں آتے ہیں ویسے ویسے اظہار پذیر ہوتے جاتے ہیں زور بیان اور نمائشی قافیہ پیمائی سے مبرّا یہ سادگی یک رخی نہیں ہے الفاظ میں، تراکیب میں ، شعری زمینوں میں مختصراً یہ اندازو اسلوب کی ہمہ پہلو سادگی ہے جو [[اسلم فیضی]] کے ہاں بحروں، قافیہ و ردیف اور دوسرے شعری قرینوں میں ہر جگہ موجود ہے۔ان کے یہ چند مطلعے دیکھئے:
بخش دیں اپنی رضا میرے حضورؐ
ہے یہی اِک التجا میرے حضورؐ
اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں
اُن کی دہلیز پہ رکھ آیا ہوں گِریاں آنکھیں
دل کا آنگن مہک مہک اُٹھا
نعت ہونے لگی رقم آقاؐ
ان کی مدحت میں شعر لکھتے ہیں
دِل کے آنگن میں پھول کھِلتے ہیں
اُنؐ کی سیرت سراپا اثر ہوگئی
زندگی روشنی کا سفر ہوگئی
جمالِ مصطفویؐ کا کوئی جواب نہیں
یہ میرے رب کا ہے دنیا کا انتخاب نہیں
میں جہاں بھی جاتا ہوں
آپؐ ہی کو پاتا ہوں
مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ
یہی ہے تِرے قُرب کا راستہ
حاجیو! مدینے کا جب کبھی سفر کرنا
شوق اور محبت سے اپنی آنکھ تر کرنا
عالمِ قُدس کی توقیر بڑھانے والے
اِک نظر ہم پہ بھی اے عرش پہ جانے والے
اسی سادگی کے حامل یہ اشعار دیکھئے:
کیا بیاں ہوں مروّتیں اس کی
دھوپ میں سائباں مدینہ ہے
اِس کے ذرّے بھی چاند تارے ہیں
کس قدر ضوفشاں مدینہ ہے
کھِلتے رہتے ہیں پھول رحمت کے
خطّہِ بے خزاں مدینہ ہے
مہکنے لگتی ہیں میری سانسیں
کبھی جو آئے خیالِ طیبہ
ہر گھڑی ہر زماں ذکر ہے آپؐ کا
ہر گھڑی آپؐ ہیں ہر زماں آپؐ ہیَں
اے خدا کر دے یہ خواہش پوری
میں مدینہ میں سکونت کرلوں
چلے میرے آقاؐ جو معراج کو
مہکنے لگا عرش کا راستہ
رحمتوں کی بارش ہے
نعت گنگناتا ہوں
آپؐ یاد آتے ہیں
خود کو بھول جاتا ہوں
آگیا مدینے سے
خلد سے میں لوٹا ہوں
ہَے مِرے سامنے روضہ اُن کا
میں اُجالوں میں اُتر آیا ہوں
حبّ رسولؐ ،شہر رسولؐ اور مختلف مناسبات رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے اسلم فیضی کے یہ شعر دیکھئے۔
یہ حمزہ ؓ کا مرقد شہیدوں کے ڈیرے
اُحد کے قریں خوشبوئوں کے بسیرے
کھجوروں کے جُھنڈ اور معطر فضائیں
پرندوں کے نغمے سویرے سویرے
بس آپؐ کے سوا نہ کوئی دوسرا رہے
دل کے حِرا میں آپ ہوں آباد یا نبیؐ !
اصحاب اور اہل بیت اطہار ہماری نعتیہ شاعری کا اہم مضمون ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ آپؐ سے محبت کا لازمہ آپ کی اس سارے ماحول اور ان تمام شخصیات سے محبت ہے جن میں آپؐ نے زندگی گزاری اس محبت کے کچھ نمونے دیکھئے:
ہر زاویے سے کیوں نہ انہیں معتبر لکھوں
فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں
نعت کا ایک اہم عقیدہ ختم نبوت کا بیان ہے ہمارے ہاں جدید ذہن کے حامل خصوصاً بعض طالب علم اس مسئلہ کی سنجیدہ نوعیت اور اہمیت کو نہیں سمجھتے بعض نام نہاد ترقی پسند ذہنوں، لبرل اور سیکولر لوگوں نے اسے علمائے کرام کا گروہی مسئلہ بنایا ہوا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے حال ہی میں چھپنے والی ’لانبی بعدی‘: یونس امین کی کتاب کے دیباچے میں مَیں نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور دشمنان دین کی طرف سے کی جانے والی مذموم سازش کی نشان دہی یوں کی ہے :
انگلستانی وفد کی رپورٹ(Report of Missionary Fathers) ملاحظہ کیجئے:
"Majority of the Population of the country blindly follow their "Peers" their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally around him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors. That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the country."(Extract from the printed report. India office library, London)
ترجمہ:
’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنماؤں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلّی نبوت (حواری نبی)کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے، اس وقت مسلح غداری ہوئی تھی اور صورتِ حال اور تھی، اب جبکہ ہم نے ملک کے طول و عرض پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے او رملک میں ہر جگہ امن و امان ہے، ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو ملک میں اندرونی شورش پیدا کریں۔‘‘(مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس:ا نڈیا آفس لائبریری ، لندن)(W.W.Hunter  اپنی کتابThe Indian Musalmans)میں اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے:
’’ہماری مسلمان رعایا سے کسی بھی پُرجوش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تمام قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘‘
اس وفد نے ''The Arrival of British Empire in India'' (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انہوں نے لکھا: ’’ہندوستان مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کرا س سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس مسئلہ کے تحفظ کے لئے باخبر نعت نگار ہمیشہ فعاّل رہے ہیں ’’معاصر نعت گوئی میں عقیدہ ختم نبوت‘‘ ایک اہم موضوع ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر کم و بیش تمام نعت گو شاعروں نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے اسلم فیضی کے یہ شعر دیکھئے:
خدا نے میرے نبیؐ کو بخشی جہاں میں جب آخری رسالت
تو کیسے کوئی رسول آئے تو کیسے کوئی کتاب اترے
مِرے نبیؐ کی قیادتوں کے چراغ روشن ہوئے تو فیضیؔ
نگر نگر روشنی سی پھیلی نگر نگر انقلاب اُترے
پاکستان کے حوالے سے اسلم فیضی نعت میں مادرِ وطن کو بھی نہیں بھُولتے۔ اس حوالے سے اُن کا یہ دُعائیہ شعر دیکھئیے:
مِرے وطن پہ بھی برسے تِرے کرم کا سحاب
کہ ہو رہے ہیں پریشان سب غریب مِرے
[[اسلم فیضی]] کی نعت کے موضوعات و مضامین میں چند اور حوالے بھی قابلِ ذکر ہیں جن کے مطالعے سے اُن کی نعت میں فِکر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نمونے کے طور پہ یہ شعر ملاحظہ ہوں:
حشر کی دعائوں میں بس مِری دعا ہے یہ
قبر سے جو اُٹھوں تو سامنے مدینہ ہو
آرزو ہے اے فیضیؔ نعت کے اجالوں سے
زندگی ہماری بھی روشنی کا زینہ ہو
اب حاضری کو اذنِ سفر دیجئے حضورؐ!
جینا مِرا فراق نے دشوار کردیا
گزار دوں میں تِری یاد میں حیات اپنی
درونِ سینہ کچھ ایسی صفائی دے مجھ کو
اسمائے رسولِ کریمؐ کا تذکار نعت کا ایک اہم موضوع ہے۔ [[اسلم فیضی]] کے اشعار میں حضورِ اکرمؐ کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلا:مصطفیٰ ___ مجتبیٰ ___ شافعِ روزِ جزا___ شفیعِ محشرؐ___حبیبِ کبریا___ ختم المرسلیں___ تاجدارِ انبیائ___ پیکرِ صدق و صفا___ ممبع جُودوسخا___ باعثِ ارض و سما___نازشِ عرشِ بریں___ رونقِ ہردوسرا___ خیرالوریٰ___ عظمتِ لوح و قلم___ عرصۂ آفاق کی روشنی___ تخلیقِ کائنات کا عنواں___ اجمل و اکمل___ سُلطانِ انبیائ___ راحتِ عاشقاں___ سرِّ کون و مکاں___ نازشِ دوجہاں___ رحمتِ بیکراں___ ہستیٔ مہرباں___ چارہ  گر___ باعثِ رونقِ دو جہاں___ رسولِ پاک___ سرورِ کونین___ تاجدارِ مدینہ___ حضورِ پاک___ محبوبِ کبریا___ خیرالبشر_______
[[اسلم فیضی]]نے اپنے نعتیہ کلام میں حضورِ اکرمؐ کو مختلف اسمائے مبارکہ سے یاد کر کے اُن کی معنویت سے اپنے کلام کی نعتیہ فضا کو بابرکت اور ثروت مند بنایا ہے۔
[[اسلم فیضی]] کی نعتوں میں محاکات کا رنگ بھی نمایاں ہے ۔ اُن کے یہ شعر دیکھئے جس میں قاری اپنے آپ کو اُس فضا میں محسوس کرتا ہے جو فضا ان نعتیہ شعروں کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔
محسوس ہو رہا ہے جنت میں پھر رہا ہوں
پلکوں سے چومتا ہوں رستا ترے نگر کا
فیضیؔ مِری امید کی معراج یہی ہے
کونین کے داتا کی طرف دیکھ رہا ہوں
جب تصوّر کیا گنبدِ سبز کا
دل معطر ہوا آنکھ تر ہوگئی
نمازِ فجر ادا کر کے جب طواف کیا
تو ہر قدم پہ دعائوں میں اک اثر آیا
پرندے بھی جہاں کے آسمانی
وہی جنت وہی گلزار دیکھیں
[[اسلم فیضی]] نے بعض الفاظ کو اُن کی دلالتِ وضعی میں استعمال کرتے ہوئے ایسے شعر کہے ہیں جن کے تلازمات سے قاری متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً ان شعروں میں زندگی کے بکھرائو، منظوم___مہمل اور مفہوم خوبصورت قرینے سے برتے گئے ہیں:
ہماری زندگی بکِھری ہوئی ہے
مِرے مولا! اِسے منظوم کر دے
ہمیں دنیا نے مہمل کر دیا ہے
ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر  دے
بہ حیثیت مجموعی [[اسلم فیضی]] کا یہ مجموعہ نعت سادگی و اخلاص کا مظہر ہے اس کتاب کے صفحے صفحے اور نعت نعت میں محبت کی مہک اور اخلاص کی حرارت لو دیتی ہے اسلم فیضی کے نعتیہ شعروں کے بین السطور وارفتگی اور جاں سپاری کا جذبہ لو دے رہا ہے  دعا ہے کہ یہ مجموعہ نعت خلقت میں مقبول اور خالق کی بارگاہ میں قبول ہو (آمین) میں اپنے تاثرات اس رباعی پر ختم کرتا ہوں۔
سرکارؐ کی نعت کا مجلّہ لکھئے
نورانی مصحف تجلّی لکھئے
تاریخ طبع پر کیا جب کچھ غور
آواز سنی باغِ توّلا لکھئے
[[ریاض مجید]]
                                       
====پروفیسر ڈاکٹر  انوار الحق کی راۓ====
نعت جیسی مقدّس صنف کا تخلیقی سفر ہر دَور میں اُردو شاعری کے ماتھے کا جھومر رہا اور پھر موجودہ صدی کو نعت صدی کہنے میں اِس لئے بھی تامل نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ اِس دَور میں نعت نگاری، نعت گوئی، نعت فہمی اور نعت خوانی کے علاوہ تحقیق و تنقید اور ترتیب و تدوینِ نعت تخلیق کاروں، نقادوں اور محققین کا خاص موضوع رہا ہے۔
نعت بِلا شُبہ ایسی عظیم، باوقار، مبارک اور پُر جمال صنف ہے کہ اس کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے آپؐ پر درُود بھیجتے ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِی
پھر جہاں نعت کی ابتداء و ارتقاء کا تعلق ہے تو عربی، فارسی اور اُردو کے علاوہ دُنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان نے نعت جیسی مبارک صنف سے اپنے آپ کو عزّت بخشی۔ یوں عربی میں [[حسّان بن ثابت]]، [[نابغہ الجعدی]]، [[حضرت خنسا]]، [[شرف الدین بوصیری]] ، [[امام ابو حنیفہ]]، [[کعب بن زبیر]]، [[ابنِ عربی]] وغیرہ ،فارسی میں [[سُنائی غزنوی]] ، [[خاقانی]]، [[نظامی]]، [[خواجہ عطار]]، [[فیضی]]، [[عرفی]]، [[نظیری]] وغیرہ اور اُردو میں [[سراج]] ، [[ناسخ]]، [[امیر مینائی]]، [[محسن کاکوروی]]، [[احمد رضا خان بریلوی]]، [[حسن رضا بریلوی]]،[[ علّامہ اقبال]]، اصغر گونڈوی، [[ماہر القادری]] اور ریاض مجید وغیرہ نے اپنی شاعری کو خاص انداز میں نعت سے آبرو مند کیا۔
مذکورہ بڑی بڑی آوازوں میں [[اسلم فیضی]] کی آواز منفرد لب و لہجہ کے ساتھ مخصوص انداز میں اُبھری وہ ناصِرف نعتیہ کلام کے اصولوں اور آداب سے کماحُقّہٗ واقف ہیں بلکہ عقیدہ و عقیدت اور شعر و سُخن کو قاب قوسین جیسی پیوستگی عطا کرنے پر بھی پُوری طرح قادر ہیں یوں انکی نعت ان کے صوفیانہ مزاج اور روحانی شخصیت کا معنوی پیکر نظر آتی ہے۔ تاہم ان کے ہاں صناعی بھی ہے اور سپردگی بھی تخیل کی رعنائی بھی ہے اور روح کی وارفتگی بھی سُخن کی نزہت بھی ہے اور شغف کا نُور بھی ہے، عجز و نیاز بھی ہے اور شوق و اشتیاق بھی، دُعا کا سوز بھی ہے اور شفاعت کا ساز بھی فن کی نے بھی ہے اور عشق کا نغمہ بھی۔ یوں فیضی موصوف کا زیرِ نظر مجموعہ [[سحابِ رحمت]]، اُردو کی پُوری شاعری کے لئے یقینا [[سحابِ رحمت]] ہے۔ وہ اس عظیم تخلیقی کارنامے پر یقینا داد کے مستحق ہیں۔ میری دُعا ہے کہ ان کے عقیدے اور عقیدت اور جذب و عشق کے اس مبارک سفر کا اختتام ساقیٔ کوثر کے ہاتھوں آبِ کوثر نوش کرنے پر ہو ! سب کہیں ! آمین
[[پروفیسر ڈاکٹر  انوارالحق]] 
[[شعبۂ اُردو، جامعہ پشاور]]
====ڈاکٹر سہیل احمد کی راۓ====
[[پروفیسر اسلم فیضی]] تخلیق کے سائے میں ڈھلی ایسی شخصیت ہیں جن کی تخلیقی کاوشیں نصف صدی پر محیط ہیں۔ اس میں غزل، نظم، ہائیکو، حمد، نعت، سلام، منقبت بہت سی اصناف شامل ہیںلیکن ان کا مرکز اس تخلیقی شخصیت کا وہ گوشہ ہے جو ان کی ذات سے تخلیق تک احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جِسے ہم محبت کی روشنی کا ثمر کہہ سکتے ہیں۔ ایسی روشنی کے گِرد اِن کی ذات دائرہ دَر دائرہ پھیلتی گئی۔ اس محبت کے بہت سے گوشے ہیں لیکن نمایاں ترین گوشہ پیغمبرِ آخرالزماں حضرت محمدؐ کے گِرد خیمہ زن ہُوا ہے۔اس لئے اسلم فیضی نے قلم کا اثاثہ صرف نعتِ رسولؐ کو قرار دیا ہے:
مرے قلم کا اثاثہ ہو صرف نعتِ رسولؐ
لکھّوں نہ حرف کوئی غیر کی ثناء کے لئے
محبت کی یہ کہانی عقیدتوں کے پھُول نچھاور کرنے کا ایک مسلسل عمل ہے جو خالقِ کائنات کی محبت سے شروع ہو کر فخرِ دوعالمؐ کے گِرد دائرہ مکمل کرتی ہے اور انہی کی مناسبت سے اپنی پہچان کراتی ہے۔ یہ محبت کا وہ ارفع پہلو ہے، جس نے محبوبؐ سے وابستگی کو کائنات کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ اب شاعر کی شناخت صرف محبتِ رسولؐ ہے۔ شہرِ مدینہ ہے، اُنؐ کی آل ہے، اُنؐ کی ذات اور صفات ہیں۔ وہ کائناتی جمال کی بنیاد جمالِ احمدیؐ کو قرار دیتا ہے اور حُسن کو انہی کے سبب سے ارفع شکل میں پیش کرتا ہے۔
زباں سے ایسے ادا ہو رہی تھی حمد و ثنا
جمالِ کعبہ مری آنکھ میں اُتر آیا
[[سحابِ رحمت]]  [[پروفیسر اسلم فیضی]] کا وہ خوبصورت نعتیہ مجموعہ ہے جو معنوی وسعت اور اسلوبیاتی جدّت کی بِنا پر اُردو کی نعتیہ شاعری میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں معنوی وسعت بھی ہے اور اسلوبیاتی خوش رنگی بھی اوراس کی بنیاد جذبۂ محبت پر استوار ہے۔ اس میں محبت کی کہانی تسلسل کے ساتھ موجود ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ سے شروع ہو کر ذاتِ محمدؐ کے گِرد احاطہ کرتی ہے اور پھِر یہ محبت ان کی ذات، صفات، شہر اور آل تک پھیل جاتی ہے۔ ان اشعار میں محبت کی یہ کہانی ایسے جمال آفریں تسلسل کے ساتھ موجود ہے کہ اس میں اپنے عہد کا نوحہ بھی موجود ہے اور جذبۂ عشق بھی۔
ہمیں دُنیا نے مہمل کر دیاہے
ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر دے
جمالِ مصطفویؐ کاکوئی جواب نہیں
یہ میرے رب کا ہے، دُنیا کا انتخاب نہیں
میرے ویران جزیروں میں بھی خوشبو اُترے
سینۂ دشت کو گلزار بنانے والے
یہ میرا عہدِ خراب و خستہ بھی اُن کی رحمت کا منتظر ہے
کہ ذرّے ذرّے پہ جن کی رحمت کے سینکڑوں آفتاب اُترے
جس نے نبیؐ کے دین کو ضوپاش کر دیا
اس روشنی کی زندہ علامت حسین ہیں
[[ڈاکٹر سہیل احمد]]
[[شعبۂ اُردو،پشاور یونیورسٹی]]


=== مزید دیکھیے ===
=== مزید دیکھیے ===

حالیہ نسخہ بمطابق 15:10، 11 ستمبر 2019ء


نعتیہ مجموعہ : سحابِ رحمت

شاعر : پروفیسراسلم فیضی

سال اشاعت : 2019

قیمت: 350 روپے


احباب کی آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر ریاض مجید کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اسلم فیضی کا تخلیقی سفر قریب قریب نصف صدی پر پھیلا ہُوا ہے۔ اُنہوں نے شاعری کی مختلف صنفوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ غزل، نظم، ہائیکو، نعت اور حمد وغیرہ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور اُردو شاعری کو کئی خوبصورت مجموعے دیئے ان کا فن مقدار اور معیار دونوںحوالوں سے ایسا ہے کہ اردو شاعری میں اُن کی خدمات پر جامعات میں تحقیقی و تنقیدی کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے کوہاٹ اور پختون خوا سے نکل کر ان کی شہرت ملک کی معاصر شاعری کے منظر نامے تک پھیلی ہوئی ہے۔ زیر نظر مجموعہ ان کی نعت کا مجموعہ ہے جس میں اُن کی حمدیہ شاعری کے کچھ نمونے بھی ہیں اور سلام و منقبت کے بھی ___ اُن کی نعت ‘رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اُن کی شیفتگی اور ارادت کی مظہر ہے۔ نعتیہ شاعری سے میری طالب علمانہ وابستگی اور مطالعہ کا نتیجہ یہ حقیقت بتاتاہے کہ اس صنف میں بنیادی جوہر اخلاص کاہوتا ہے یہ وہ وصف ہے جو بارگاہ نبیؐ میں ہمیشہ قبول ہوتاہے اور نعت کے میدان میں شہرت طلبی ، نام و نمود کی خواہش اورزورفن کے اظہار کی نمائش سے الگ اُس بابرکت اور ثروت مند ’قدرِ حقیقی ‘(Real Value)کادرجہ رکھتا ہے جو شاعری کی جان ہوتا ہے یہ خوبی اور وصف (دوسری اصناف سخن کے برعکس) نعت کے لئے از حد ضروری ہے ۔بیسوؤں نعتیہ دیوانوں اور ہزاروں نعتیہ شعروں میں قبولیت، ثبات اور دوام اُسی نعت پارے کو حاصل ہوتا ہے۔

بقول اقبال ؎ جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

بارگاہِ ایزوی اور دربار نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ایسا ہی کلام مقبول ہوتا ہے۔ اﷲ ہمیں معاف فرمائے نماز کے بارے میں حدیث ہے کہ اگر وہ عدم توجہ اور نمائشی انداز میں پڑھی گئی ہے تو وہ بھی اﷲ کے ہاں نا مقبول ہے اور ایسی نمازکے قبول و اجر کا کیا ذکر ‘اس کو کسی بوسیدہ کپڑے میں لپیٹ کر نمازی کے مونہہ پر مار دیا جائے گا بار ِدگر دعا ہے کہ اﷲ ہمیں معاف کر ے اگر ہماری نعت نگاری اخلاص کے وصف سے عاری ہے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟

اسلم فیضی کی نعت کا نمایاں وصف ان کی سادگی ٔ بیان ہے اخلاص کا پہلا ظہور سادگی ٔ بیاں ہی ہوتا ہے ’از دل خیز د بردل ریزد‘ والی کیفیت ہوتی ہے جیسے جیسے خیالات ذہن میں آتے ہیں ویسے ویسے اظہار پذیر ہوتے جاتے ہیں زور بیان اور نمائشی قافیہ پیمائی سے مبرّا یہ سادگی یک رخی نہیں ہے الفاظ میں، تراکیب میں ، شعری زمینوں میں مختصراً یہ اندازو اسلوب کی ہمہ پہلو سادگی ہے جو اسلم فیضی کے ہاں بحروں، قافیہ و ردیف اور دوسرے شعری قرینوں میں ہر جگہ موجود ہے۔ان کے یہ چند مطلعے دیکھئے:

بخش دیں اپنی رضا میرے حضورؐ

ہے یہی اِک التجا میرے حضورؐ


اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

اُن کی دہلیز پہ رکھ آیا ہوں گِریاں آنکھیں


دل کا آنگن مہک مہک اُٹھا

نعت ہونے لگی رقم آقاؐ


ان کی مدحت میں شعر لکھتے ہیں

دِل کے آنگن میں پھول کھِلتے ہیں


اُنؐ کی سیرت سراپا اثر ہوگئی

زندگی روشنی کا سفر ہوگئی


جمالِ مصطفویؐ کا کوئی جواب نہیں

یہ میرے رب کا ہے دنیا کا انتخاب نہیں


میں جہاں بھی جاتا ہوں

آپؐ ہی کو پاتا ہوں


مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ

یہی ہے تِرے قُرب کا راستہ


حاجیو! مدینے کا جب کبھی سفر کرنا

شوق اور محبت سے اپنی آنکھ تر کرنا


عالمِ قُدس کی توقیر بڑھانے والے

اِک نظر ہم پہ بھی اے عرش پہ جانے والے


اسی سادگی کے حامل یہ اشعار دیکھئے:

کیا بیاں ہوں مروّتیں اس کی

دھوپ میں سائباں مدینہ ہے


اِس کے ذرّے بھی چاند تارے ہیں

کس قدر ضوفشاں مدینہ ہے


کھِلتے رہتے ہیں پھول رحمت کے

خطّہِ بے خزاں مدینہ ہے


مہکنے لگتی ہیں میری سانسیں

کبھی جو آئے خیالِ طیبہ


ہر گھڑی ہر زماں ذکر ہے آپؐ کا

ہر گھڑی آپؐ ہیں ہر زماں آپؐ ہیَں


اے خدا کر دے یہ خواہش پوری

میں مدینہ میں سکونت کرلوں


چلے میرے آقاؐ جو معراج کو

مہکنے لگا عرش کا راستہ


رحمتوں کی بارش ہے

نعت گنگناتا ہوں


آپؐ یاد آتے ہیں

خود کو بھول جاتا ہوں


آگیا مدینے سے

خلد سے میں لوٹا ہوں


ہَے مِرے سامنے روضہ اُن کا

میں اُجالوں میں اُتر آیا ہوں


حبّ رسولؐ ،شہر رسولؐ اور مختلف مناسبات رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے اسلم فیضی کے یہ شعر دیکھئے۔


یہ حمزہ ؓ کا مرقد شہیدوں کے ڈیرے

اُحد کے قریں خوشبوئوں کے بسیرے


کھجوروں کے جُھنڈ اور معطر فضائیں

پرندوں کے نغمے سویرے سویرے


بس آپؐ کے سوا نہ کوئی دوسرا رہے

دل کے حِرا میں آپ ہوں آباد یا نبیؐ !


اصحاب اور اہل بیت اطہار ہماری نعتیہ شاعری کا اہم مضمون ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ آپؐ سے محبت کا لازمہ آپ کی اس سارے ماحول اور ان تمام شخصیات سے محبت ہے جن میں آپؐ نے زندگی گزاری اس محبت کے کچھ نمونے دیکھئے:

ہر زاویے سے کیوں نہ انہیں معتبر لکھوں

فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں


نعت کا ایک اہم عقیدہ ختم نبوت کا بیان ہے ہمارے ہاں جدید ذہن کے حامل خصوصاً بعض طالب علم اس مسئلہ کی سنجیدہ نوعیت اور اہمیت کو نہیں سمجھتے بعض نام نہاد ترقی پسند ذہنوں، لبرل اور سیکولر لوگوں نے اسے علمائے کرام کا گروہی مسئلہ بنایا ہوا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے حال ہی میں چھپنے والی ’لانبی بعدی‘: یونس امین کی کتاب کے دیباچے میں مَیں نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور دشمنان دین کی طرف سے کی جانے والی مذموم سازش کی نشان دہی یوں کی ہے :


انگلستانی وفد کی رپورٹ(Report of Missionary Fathers) ملاحظہ کیجئے: "Majority of the Population of the country blindly follow their "Peers" their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally around him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors. That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the country."(Extract from the printed report. India office library, London) ترجمہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنماؤں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلّی نبوت (حواری نبی)کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے، اس وقت مسلح غداری ہوئی تھی اور صورتِ حال اور تھی، اب جبکہ ہم نے ملک کے طول و عرض پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے او رملک میں ہر جگہ امن و امان ہے، ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو ملک میں اندرونی شورش پیدا کریں۔‘‘(مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس:ا نڈیا آفس لائبریری ، لندن)(W.W.Hunter اپنی کتابThe Indian Musalmans)میں اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے: ’’ہماری مسلمان رعایا سے کسی بھی پُرجوش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تمام قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس وفد نے The Arrival of British Empire in India (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انہوں نے لکھا: ’’ہندوستان مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کرا س سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس مسئلہ کے تحفظ کے لئے باخبر نعت نگار ہمیشہ فعاّل رہے ہیں ’’معاصر نعت گوئی میں عقیدہ ختم نبوت‘‘ ایک اہم موضوع ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر کم و بیش تمام نعت گو شاعروں نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے اسلم فیضی کے یہ شعر دیکھئے:

خدا نے میرے نبیؐ کو بخشی جہاں میں جب آخری رسالت

تو کیسے کوئی رسول آئے تو کیسے کوئی کتاب اترے


مِرے نبیؐ کی قیادتوں کے چراغ روشن ہوئے تو فیضیؔ

نگر نگر روشنی سی پھیلی نگر نگر انقلاب اُترے


پاکستان کے حوالے سے اسلم فیضی نعت میں مادرِ وطن کو بھی نہیں بھُولتے۔ اس حوالے سے اُن کا یہ دُعائیہ شعر دیکھئیے:

مِرے وطن پہ بھی برسے تِرے کرم کا سحاب

کہ ہو رہے ہیں پریشان سب غریب مِرے

اسلم فیضی کی نعت کے موضوعات و مضامین میں چند اور حوالے بھی قابلِ ذکر ہیں جن کے مطالعے سے اُن کی نعت میں فِکر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نمونے کے طور پہ یہ شعر ملاحظہ ہوں:

حشر کی دعائوں میں بس مِری دعا ہے یہ

قبر سے جو اُٹھوں تو سامنے مدینہ ہو


آرزو ہے اے فیضیؔ نعت کے اجالوں سے

زندگی ہماری بھی روشنی کا زینہ ہو


اب حاضری کو اذنِ سفر دیجئے حضورؐ!

جینا مِرا فراق نے دشوار کردیا


گزار دوں میں تِری یاد میں حیات اپنی

درونِ سینہ کچھ ایسی صفائی دے مجھ کو


اسمائے رسولِ کریمؐ کا تذکار نعت کا ایک اہم موضوع ہے۔ اسلم فیضی کے اشعار میں حضورِ اکرمؐ کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلا:مصطفیٰ ___ مجتبیٰ ___ شافعِ روزِ جزا___ شفیعِ محشرؐ___حبیبِ کبریا___ ختم المرسلیں___ تاجدارِ انبیائ___ پیکرِ صدق و صفا___ ممبع جُودوسخا___ باعثِ ارض و سما___نازشِ عرشِ بریں___ رونقِ ہردوسرا___ خیرالوریٰ___ عظمتِ لوح و قلم___ عرصۂ آفاق کی روشنی___ تخلیقِ کائنات کا عنواں___ اجمل و اکمل___ سُلطانِ انبیائ___ راحتِ عاشقاں___ سرِّ کون و مکاں___ نازشِ دوجہاں___ رحمتِ بیکراں___ ہستیٔ مہرباں___ چارہ گر___ باعثِ رونقِ دو جہاں___ رسولِ پاک___ سرورِ کونین___ تاجدارِ مدینہ___ حضورِ پاک___ محبوبِ کبریا___ خیرالبشر_______

اسلم فیضینے اپنے نعتیہ کلام میں حضورِ اکرمؐ کو مختلف اسمائے مبارکہ سے یاد کر کے اُن کی معنویت سے اپنے کلام کی نعتیہ فضا کو بابرکت اور ثروت مند بنایا ہے۔

اسلم فیضی کی نعتوں میں محاکات کا رنگ بھی نمایاں ہے ۔ اُن کے یہ شعر دیکھئے جس میں قاری اپنے آپ کو اُس فضا میں محسوس کرتا ہے جو فضا ان نعتیہ شعروں کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔

محسوس ہو رہا ہے جنت میں پھر رہا ہوں

پلکوں سے چومتا ہوں رستا ترے نگر کا


فیضیؔ مِری امید کی معراج یہی ہے

کونین کے داتا کی طرف دیکھ رہا ہوں


جب تصوّر کیا گنبدِ سبز کا

دل معطر ہوا آنکھ تر ہوگئی


نمازِ فجر ادا کر کے جب طواف کیا

تو ہر قدم پہ دعائوں میں اک اثر آیا


پرندے بھی جہاں کے آسمانی

وہی جنت وہی گلزار دیکھیں


اسلم فیضی نے بعض الفاظ کو اُن کی دلالتِ وضعی میں استعمال کرتے ہوئے ایسے شعر کہے ہیں جن کے تلازمات سے قاری متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً ان شعروں میں زندگی کے بکھرائو، منظوم___مہمل اور مفہوم خوبصورت قرینے سے برتے گئے ہیں:

ہماری زندگی بکِھری ہوئی ہے

مِرے مولا! اِسے منظوم کر دے


ہمیں دنیا نے مہمل کر دیا ہے

ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر دے

بہ حیثیت مجموعی اسلم فیضی کا یہ مجموعہ نعت سادگی و اخلاص کا مظہر ہے اس کتاب کے صفحے صفحے اور نعت نعت میں محبت کی مہک اور اخلاص کی حرارت لو دیتی ہے اسلم فیضی کے نعتیہ شعروں کے بین السطور وارفتگی اور جاں سپاری کا جذبہ لو دے رہا ہے دعا ہے کہ یہ مجموعہ نعت خلقت میں مقبول اور خالق کی بارگاہ میں قبول ہو (آمین) میں اپنے تاثرات اس رباعی پر ختم کرتا ہوں۔

سرکارؐ کی نعت کا مجلّہ لکھئے

نورانی مصحف تجلّی لکھئے

تاریخ طبع پر کیا جب کچھ غور

آواز سنی باغِ توّلا لکھئے

ریاض مجید


پروفیسر ڈاکٹر انوار الحق کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت جیسی مقدّس صنف کا تخلیقی سفر ہر دَور میں اُردو شاعری کے ماتھے کا جھومر رہا اور پھر موجودہ صدی کو نعت صدی کہنے میں اِس لئے بھی تامل نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ اِس دَور میں نعت نگاری، نعت گوئی، نعت فہمی اور نعت خوانی کے علاوہ تحقیق و تنقید اور ترتیب و تدوینِ نعت تخلیق کاروں، نقادوں اور محققین کا خاص موضوع رہا ہے۔

نعت بِلا شُبہ ایسی عظیم، باوقار، مبارک اور پُر جمال صنف ہے کہ اس کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے آپؐ پر درُود بھیجتے ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِی

پھر جہاں نعت کی ابتداء و ارتقاء کا تعلق ہے تو عربی، فارسی اور اُردو کے علاوہ دُنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان نے نعت جیسی مبارک صنف سے اپنے آپ کو عزّت بخشی۔ یوں عربی میں حسّان بن ثابت، نابغہ الجعدی، حضرت خنسا، شرف الدین بوصیری ، امام ابو حنیفہ، کعب بن زبیر، ابنِ عربی وغیرہ ،فارسی میں سُنائی غزنوی ، خاقانی، نظامی، خواجہ عطار، فیضی، عرفی، نظیری وغیرہ اور اُردو میں سراج ، ناسخ، امیر مینائی، محسن کاکوروی، احمد رضا خان بریلوی، حسن رضا بریلوی،علّامہ اقبال، اصغر گونڈوی، ماہر القادری اور ریاض مجید وغیرہ نے اپنی شاعری کو خاص انداز میں نعت سے آبرو مند کیا۔

مذکورہ بڑی بڑی آوازوں میں اسلم فیضی کی آواز منفرد لب و لہجہ کے ساتھ مخصوص انداز میں اُبھری وہ ناصِرف نعتیہ کلام کے اصولوں اور آداب سے کماحُقّہٗ واقف ہیں بلکہ عقیدہ و عقیدت اور شعر و سُخن کو قاب قوسین جیسی پیوستگی عطا کرنے پر بھی پُوری طرح قادر ہیں یوں انکی نعت ان کے صوفیانہ مزاج اور روحانی شخصیت کا معنوی پیکر نظر آتی ہے۔ تاہم ان کے ہاں صناعی بھی ہے اور سپردگی بھی تخیل کی رعنائی بھی ہے اور روح کی وارفتگی بھی سُخن کی نزہت بھی ہے اور شغف کا نُور بھی ہے، عجز و نیاز بھی ہے اور شوق و اشتیاق بھی، دُعا کا سوز بھی ہے اور شفاعت کا ساز بھی فن کی نے بھی ہے اور عشق کا نغمہ بھی۔ یوں فیضی موصوف کا زیرِ نظر مجموعہ سحابِ رحمت، اُردو کی پُوری شاعری کے لئے یقینا سحابِ رحمت ہے۔ وہ اس عظیم تخلیقی کارنامے پر یقینا داد کے مستحق ہیں۔ میری دُعا ہے کہ ان کے عقیدے اور عقیدت اور جذب و عشق کے اس مبارک سفر کا اختتام ساقیٔ کوثر کے ہاتھوں آبِ کوثر نوش کرنے پر ہو ! سب کہیں ! آمین

پروفیسر ڈاکٹر انوارالحق

شعبۂ اُردو، جامعہ پشاور

ڈاکٹر سہیل احمد کی راۓ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پروفیسر اسلم فیضی تخلیق کے سائے میں ڈھلی ایسی شخصیت ہیں جن کی تخلیقی کاوشیں نصف صدی پر محیط ہیں۔ اس میں غزل، نظم، ہائیکو، حمد، نعت، سلام، منقبت بہت سی اصناف شامل ہیںلیکن ان کا مرکز اس تخلیقی شخصیت کا وہ گوشہ ہے جو ان کی ذات سے تخلیق تک احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جِسے ہم محبت کی روشنی کا ثمر کہہ سکتے ہیں۔ ایسی روشنی کے گِرد اِن کی ذات دائرہ دَر دائرہ پھیلتی گئی۔ اس محبت کے بہت سے گوشے ہیں لیکن نمایاں ترین گوشہ پیغمبرِ آخرالزماں حضرت محمدؐ کے گِرد خیمہ زن ہُوا ہے۔اس لئے اسلم فیضی نے قلم کا اثاثہ صرف نعتِ رسولؐ کو قرار دیا ہے:

مرے قلم کا اثاثہ ہو صرف نعتِ رسولؐ

لکھّوں نہ حرف کوئی غیر کی ثناء کے لئے

محبت کی یہ کہانی عقیدتوں کے پھُول نچھاور کرنے کا ایک مسلسل عمل ہے جو خالقِ کائنات کی محبت سے شروع ہو کر فخرِ دوعالمؐ کے گِرد دائرہ مکمل کرتی ہے اور انہی کی مناسبت سے اپنی پہچان کراتی ہے۔ یہ محبت کا وہ ارفع پہلو ہے، جس نے محبوبؐ سے وابستگی کو کائنات کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ اب شاعر کی شناخت صرف محبتِ رسولؐ ہے۔ شہرِ مدینہ ہے، اُنؐ کی آل ہے، اُنؐ کی ذات اور صفات ہیں۔ وہ کائناتی جمال کی بنیاد جمالِ احمدیؐ کو قرار دیتا ہے اور حُسن کو انہی کے سبب سے ارفع شکل میں پیش کرتا ہے۔

زباں سے ایسے ادا ہو رہی تھی حمد و ثنا

جمالِ کعبہ مری آنکھ میں اُتر آیا

سحابِ رحمت پروفیسر اسلم فیضی کا وہ خوبصورت نعتیہ مجموعہ ہے جو معنوی وسعت اور اسلوبیاتی جدّت کی بِنا پر اُردو کی نعتیہ شاعری میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں معنوی وسعت بھی ہے اور اسلوبیاتی خوش رنگی بھی اوراس کی بنیاد جذبۂ محبت پر استوار ہے۔ اس میں محبت کی کہانی تسلسل کے ساتھ موجود ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ سے شروع ہو کر ذاتِ محمدؐ کے گِرد احاطہ کرتی ہے اور پھِر یہ محبت ان کی ذات، صفات، شہر اور آل تک پھیل جاتی ہے۔ ان اشعار میں محبت کی یہ کہانی ایسے جمال آفریں تسلسل کے ساتھ موجود ہے کہ اس میں اپنے عہد کا نوحہ بھی موجود ہے اور جذبۂ عشق بھی۔

ہمیں دُنیا نے مہمل کر دیاہے

ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر دے


جمالِ مصطفویؐ کاکوئی جواب نہیں

یہ میرے رب کا ہے، دُنیا کا انتخاب نہیں


میرے ویران جزیروں میں بھی خوشبو اُترے

سینۂ دشت کو گلزار بنانے والے


یہ میرا عہدِ خراب و خستہ بھی اُن کی رحمت کا منتظر ہے

کہ ذرّے ذرّے پہ جن کی رحمت کے سینکڑوں آفتاب اُترے


جس نے نبیؐ کے دین کو ضوپاش کر دیا

اس روشنی کی زندہ علامت حسین ہیں

ڈاکٹر سہیل احمد

شعبۂ اُردو،پشاور یونیورسٹی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات