رباعیات۔ امام احمد رضا خان بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر : امام احمد رضا خان بریلوی

کتاب : حدائق بخشش

نعتیہ رباعیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آتے رہے انبیا کَمَا قِیلَ لَھُم

وَالخَاتَمُ حَقُّکُم کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہُوا دفترِ تَنزِیل تمام

آخر میں ہُوئی مُہر کہ اَکمَلتُ لَکُم


اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ

اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ​


کعبہ سے اگر تربتِ شاہ فاضل ہے

کیوں بائیں طرف اس کے لئے منزل ہے

اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا

سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے


تم جو چاہو تو قسمت کی مصیبت ٹل جائے

کیوں کر کہوں ساعت سے قیامت ٹل جائے

للہ اُٹھادو رُخِ روشن سے نقاب

مولٰی مری آئی ہوئی شامت ٹل جائے


شب لحیہ و شارب ہے رُخِ روشن دن

گیسو و شبِ قدر و براتِ مومن

مژگاں کی صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں

وَالفَجر کے پہلو میں لِیَالِِ عَشرِِ​


یہ بوسہ گہِ اصحاب وہ مہر سامی

وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی

یہ طرفہ کہ ہے کعبۂ جان و دل میں

سنگِ اسود نصیب رکنِ شامی


یاں شبہ شبیہہ کا گزرنا کیسا!

بے مثل کی تمثال سنورنا کیسا

ان کا متعلّق ہے ترقّی پہ مُدام

تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا


یہ شہ کی تواضع کا تقاضا ہی نہیں

تصویر کھنچے ان کو گوارا ہی نہیں

معنیٰ ہیں یہ مانی کہ کرم کیا مانے

کھنچنا تو یہاں کسی سے ٹھہرا ہی نہیں


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدہِ معراجیہ | رباعیات

امام احمد رضا خان بریلوی | حدائق بخشش