دکنی مثنویوں میں نعت ۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 03:03، 5 نومبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏قاضی محمد بحری)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار : ڈاکٹر نسیم الدین فریس۔بھارت

مجلہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26


دکنی مثنویوں میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Naatia poetry was usually written by rulers of Golkunda and Dakkin and poets exposed to religiosity were highly appreciated by them. This is why most of the poets wrote Mathnavis ( a poem of set of numerous couplets carrying similar sounded words in the end of every two lines of a couplet). Poets started writing Mathnavis with the couplets of Naat in the beginning according to vogue. This article introduces Naatia poetry written in the form of Mathnavi from said to be the first Mathnavi Kadam Rao Padam Rao written in between 1421 to 1435 A.D., to Mathnavi Rizwan Shah wa Rooh Afza written by Faaiz in 1094 Hijrah. This shows the spirit of love to the Prophet Muhammad (S.A.W) in expressions of poets from beginning of Urdu language.

نعت اردو شاعری کی سب سے قدیم صنف سخن ہے۔ دنیا کی اکثر بڑی زبانوں کی طرح اردو میں بھی تخلیق ادب کا آغاز شاعری سے ہوا۔ شاعری میں بھی مذہبی اور صوفیانہ شاعری پہلے وجود میں آئی۔ ادبی اور عشقیہ شاعری کی ابتداء بعد میں ہوئی۔ دکنی میں صوفیانہ شاعری کے نمونے گیتوں کی شکل میں ملتے ہیں‘ مثلاً حضرت گیسودراز سے منسوب چکی نامہ،سہلیے اور حقیقت گیت وغیرہ۔ ان گیتوں میں حمدیہ اور نعتیہ مضامین بھی آئے ہیں۔ چوں کہ یہ گیت اردو شاعری کے قدیم ترین نمونے ہیں، اس لیے حمد و نعت اردو کی قدیم ترین اصناف ہیں۔ دکنی شعرا نے فارسی سے متعدد اصناف مستعار لیں،جیسے مثنوی،غزل،قصیدہ اوررباعی وغیرہ۔ ان میں مثنوی کی صنف کو دکنی میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اردو شاعری کا دکنی دور ایک طرح سے مثنوی کا دور تھا۔ اس دور میں فقہی،صوفیانہ،عشقیہ، رزمیہ، اخلاقی، تاریخی اور سوانحی غرض ہر طرح کی بکثرت مثنویاں لکھی گئیں۔ فارسی شعراء کی روش کے مطابق دکنی شعرا نے بھی مثنو ی کے آغاز میں حمد و مناجات اور نعت و منقبت لکھنے کا اہتمام کیا۔ اس طرح حمد و نعت کی شمولیت مثنوی کا لازمہ بن گئی۔ اس کے نتیجے میں دکنی مثنویوں میں نعتیہ شاعری کی ایک طویل درخشاں روایت وجود میں آئی۔

فخر الدین نظامی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دکنی زبان میں تصنیف و تالیف کا آغاز بہمنی دور میں ہوا۔ اس دور میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒ دکنی کے اولین سخنور کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ آپ سے منسوب چکی نامہ اور حقیقت گیت قدیم مخطوطات میں محفوظ ہیں۔ نظامیؔ‘ اشرفؔ اور قریشیؔ بہمنی عہد کے اہم مثنوی نگار شاعر ہیں۔ ذیل میں ان کی مثنویات میں نعتیہ شاعری کے عناصر کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ بہمنی دور کے شاعر فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘ اردو کی پہلی مثنوی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق نظامی نے یہ مثنوی بہمنی خاندان کے مشہور فرمان روا احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت ۸۲۵ ؍ ۱۴۲۱ء تا ۸۳۹؍ ۱۴۳۵ء میں لکھی۔ گویا یہ مثنوی آج سے کوئی چھ صدی قبل کی تصنیف ہے۔ اسی اعتبار سے اس کی زبان بھی چھ سو سال پرانی ہے۔ نظامی نے مثنوی کا آغاز حمد سے کیا ہے۔ حمد کے بعد نعت رسول اللہؐ ہے جو بائیس ابیات پر مشتمل ہے۔ نظامی کی زبان نہایت کٹھن اور مغلق ہے۔ اس میں سنسکرت تت سم اور تدبھو الفاظ کی کثرت ہے۔ اس کی لغات لہجے اور اسلوب پر ہندوی اثر غالب ہے۔ نظامی نے عربی اور فارسی کے الفاظ خال خال ہی استعمال کیے ہیں۔ نعتیہ اشعار میں بھی وہ رسول مقبولؐ کی توصیف و ستائش میں عربی یا فارسی کے القاب استعمال نہیں کرتا بلکہ سنسکرت القاب استعمال کرتا ہے جیسے وہ سرور عالم کے لیے۔

راو کساتیں (بمعنی آقا) یا راوت (بمعنی شہنشاہ ) کہتا ہے۔


تہیں ایک ساچا گستائیں امر( توہی ایک سچا اور لافانی آقا ہے)

محمد بڑا راوتِ جگ تھا(محمد دنیا کے بڑے شہنشاہ تھے)


نظامی کہتا ہے کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا کے سر کا انمول تاج ہیں اور آپ خالق کی بے سہارا مخلوق کے کام بناتے ہیں:


امولک مکٹ سیس سنسار کا

کرے کام نردھار کرتا رکا

محمد عالم کی بنیاد اور نور ہیں

دونوں عالم میں آپ کے نور کا فیض ہے


محمد جرم آدبنیاد نور

دوئی جگ سرے دے پرساد نور


معجزہ شق القمر کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی مخالفت میں دشمنوں نے کج بحثی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے ہاتھ کی انگلی سے چاند کو پھاڑ کر دو کردیا:


نبی بیر میں دندکیتا بنار

انگل ہت کرچند کیتا دو پھاڑ

آگے وہ کہتا ہے کہ خدا نے سنوارا تو ذات مصطفی سنور گئی۔ خدا نے صفا کے ساتھ مصطفی کو سنوار ہے:


خدا سنوریا مصطفی سنوریا

خدا باصفا مصطفی سنوریا ۱؎


زبان کی قدامت و غرابت کے سبب نظامی کے اشعار کا سمجھنا کارے دارد ہے۔ لیکن تاریخ ادب میں اس کے نعتیہ اشعار کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اردو کی پہلی ادبی تصنیف اور پہلی مثنوی کے نعتیہ اشعارہیں۔

میراں جی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اسی دور کے ایک اور قدیم شاعر شاہ میراں جی شمس العشاق (م ۔۹۰۲) ہیں جو دو واسطوں سے حضرت گیسودرازؒ کے خلیفہ تھے۔ میراں جی نے چھوٹی بڑی متعدد مثنویاں لکھیں،مثلاً معرفت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی مثنویوں میں شہادت التحقیق سب سے اہم ہے ‘ جس میں ۱۱۸‘ اشعار ہیں۔ ۲؎ میراں جی کی زبان نظامی کی بہ نسبت صاف ہے۔ مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد نعت ہے۔ نعت میں وہ بارگاہِ رب العزت میں عرض پرداز ہیں ’’محمدتیرے نبی ہیں۔ اُن پر میرا ایمان ہے۔ اُن کے بغیر تیری تجلی نہیں۔ وہ سارے عالم کے تاج ہیں۔ جو ان کی طرف آئیں انہیں تیرا دیدار نصیب ہوگا۔ جو انہیں بھول کر بھٹکتا پھرے تو اسے دوزخ میں رکھے گا۔‘‘


محمد نبی تیرا

اس پر ایمان میرا


نادرس دیں اس باج

سب عالم کیرا تاج


جو اس کے رخ آوے

سو تیرا درس پاوے


اس بھول جو کوئی تھاکے

نے دوزخ مانہہ راکھے ۳؎

اشرف بیابانی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن میں پانچ نئی خود مختار سلطنتیں قائم ہوئیں یعنی نظام شاہی، عادل شاہی،عماد شاہی اور قطب شاہی۔ نظام شاہی سلطنت کا بانی ملک احمد بحری ،لقب نظام الملک (۹۸۵ء تا ۱۰۱۴ء) تھا۔ سید شاہ محمد اشرف بیابانی اسی کے دور کے شاعر تھے۔ جنہوں نے ۹۰۹ میں واقعات کربلا پر ’’نوسرہار‘‘ کے نام سے دکنی زبان میں ایک مثنوی لکھی۔

طشاہ اشرف بیابانی (۸۶۴ تا ۹۳۵) کے والد شاہ ضیاء الدین رفاعی بیابانی قندہار شریف کے مشہور صوفی سید علی سانگڑے سلطان مشکل آسان کے بہنوئی اور خلیفہ تھے۔ اشرف کو اپنے والد سے بیعت و خلافت حاصل تھی۔۴؎ اشرف نے سلطان محمد شاہ بہمنی کا زمانہ (۸۶۷ تا ۸۸۷) دیکھا،جب کہ سلطنت بہمنیہ عروج پر تھی۔ اشرف کے تین شاہ تصانیف لازم المبتدی‘ واحد باری اور نوسر ہار یادگار ہیں جو سب کی سب منظوم ہیں۔ ان میں ’’نوسر ہار‘‘ اہم ہے۔ اس میں واقعات کربلا اور شہادت حضرت امام حسینؓ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثنوی کا آغاز حمد سے ہوتا ہے۔ حمد کے بعد سرور کونین کی مدح و توصیف کا باب ہے جو اکیس اشعار پرمشتمل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:


دو ہنوجگ کیرا سرور شاہ

دین محمد نیک پناہ

(شاہ یعنی آقائے نامدا دونوں عالم کے سردار ہیں اور آپ کا دین سب سے اچھی پناہ ہے)


سارے عالم کا نبی

روز محشر کا شفیع

(دکنی شاعری کے رواج کے مطابق اشرف نے نبی کا صوتی قافیہ شفیع باندھا ہے۔ وہ کہتا ہے آپ سارے عالم کے لیینبی بن کر آئے ہیں اور قیامت کے دین شفاعت فرمائیںگے)


جس کے چاؤ اٹھارہ سہس

عالم سراجیاآت رسہس

(خدا نے آپ کی محبت میں اٹھارہ ہزار عالم کی تخلیق بڑے ذوق سے کی)


سگلے نبیوں کیرا میر

امت کیرا وہ دستگیر

(آپ سارے نبیوں کے سردار اور امت کی دستگیری فرمانے والے ہیں)


چوںکہ یہ مثنوی واقعات کربلا سے متعلق ہے۔ اس لیے اشرف نے اگلے اشعار میں خلفائے راشدین کے ذکر کے بعد حضرت حسینؓ کی منقبت بیان کی ہے۔ چیدہ چیدہ اشعار دیکھیے


دوئی نواسے ان بل جاؤں

حسنؓ حسینؓ جس کا ناؤں


علیؓ کے اے دوئی فرزند

بی بی فاطمہؓ کے دلبند


بیری ان کوں یوں دکھ دے

مانگ دونی جیورالے ۵؎

پیار محمد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دکن کی برید شاہی سلطنت کا بانی قاسم برید تھا۔ اس نے اپنا پایہ تخت بیدر قرار دیا جو بہمنی سلطنت کا بھی پایہ تخت تھا۔ بہمنی خاندان کے ساتویں حکمراں امیر برید ثانی کے عہد حکومت (۱۰۱۰ ھ تا ۱۰۱۸ھ) میں بیدر کے ایک شاعر پیار محمد بن عیسیٰ خاں قریشی نے جنسیات کے موضوع پر ایک مثنوی لکھی‘ جس کا نام بھوگ بل ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس کا سنہ تصنیف درج ذیل شعر کی بنیاد پر ۱۰۲۳ھ میں بتایا ہے۔۶؎


ہزار (اوپر) نیولیس تھے سال جب

کیا میں مرتب سوخوش حال سب

قریشی کو فیروز بیدری (مصنف مثنوی پرت نامہ) سے بیعت حاصل تھی۔ ’’بھوگ بل‘‘ میں اس نے کوک شاستر کا دکنی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اس مثنوی کا موضوع بھوگ بلاس اور نائکہ بھید ہے‘ لیکن مثنوی کی شروعات حسب دستور حمد و نعت سے کی گئی ہے۔ نعتیہ اشعار میں وہ کہتا ہے۔حق تعالیٰ نے نبیؐ پر سلام اور درود کے اعلیٰ ترین تحفے نثار کیے۔ دن رات نبیؐ پر ہزاروں سلام بھیجے۔ بے شک خدا ہی نبیؐ کے مقام ہیں۔ نبیؐ حق کے پیارے ہیں۔ خدا نے آپؐ پر تمام عنایتیں کیں۔


سلام ہوا دروداں کے تحفے اپار

محمد نبی پر کیا حق نثار

سداگال نس دن ہزاراں سلام

خدا تھے ہیں بے شک نبی کے مقام

ہمارے نبی کو خدا نے جس طرح نوازا ہے‘ دیگر انبیاء پر ایسی نظر عنایت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے لیے فرمایا: ’’اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں کوئی چیز خلق نہ کرتا۔‘‘

ہمارے نبی کوں خدا جوں دیا

نہ بعضے نبی کوں نظر یوں کیا

کھیارب محمد کیرے حق میں یوں

نہ ہوتا جے توں کچھ نپاتا نہ ہوں


آگے معراج کا ذکر کرتے ہوئے قریشی کہتا ہے کہ اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے حق تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ فرمایا۔ ایک پل میں سات آسمانوں کا سفر کیا،جہاں ملائک نے آپ کی خدمت کی۔ آپ کو ایسا قرب حق حاصل ہوا کہ حق تعالیٰ نے آپ سے بات کی۔ ایک رات میں سارے انعامات عطا فرمائے۔ حضرت موسیٰؑ نے کوہ طور پر چڑھ کر خدا سے کلام کیا تھا۔ ہمارے نبی سات آسمان کی بلندی پر گئے۔


اہے جس پر آئی سو معراج رین

نبی دیکھا ہے ربی کوں سوعین


چڑیا سات آکاس یک تل منے

ملائک کیے خدمتاں سب جنے

تقرب سوں کیتا خدا سات بات

دیا سب عنایت خدا ایک رات


کیا بات موسیٰ نے چڑکوہ طور

محمد چڑیا سات آکاس دور ۷؎

حسن شوقی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شیخ حسن شوقی دکنی زبان کاایک استاد سخنور تھا۔ اس کا ابتدائی زمانہ احمدنگر میں گزرا جہاں وہ حسین نظام شاہ (۹۶۱ھ تا ۹۷۲ھ) کے دربار سے وابستہ رہا۔ احمد نگر پر مغلوں کے قبضے کے بعد وہ سلطان شاہ (۱۰۳۸ تا ۱۰۶۷) کے عہد میں احمدنگر سے بیجاپور آیا۔ بعض قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گولکنڈہ بھی آیا تھا۔ حسن شوقی بیجاپور کے مشہور صوفی سید شاہ حبیب اللہ کا مرید تھا۔ حسن شوقی نے دو مثنویاں لکھیں۔ (i) فتح نامہ نظام شاہ۔ (ii) میزوانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ۔


فتح نامہ نظام شاہ ۹۷۶ھ کی تصنیف ہے۔ یہ مثنوی جنگ تالی کوٹ (۹۷۲ھ) کی منظوم تاریخ ہے۔ اس جنگ میں ابراہیم قطب شاہ علی عادل شاہ اوّل، حسین نظام شاہ اور برید شاہ نے ایکا کرکے وجیانگر کے راجہ رام کو شکست دی تھی۔ مثنوی کا آغاز حمد سے ہوتا ہے جو مختصر ہے۔ اس کے بعد نعت کے صرف دو شعر ہیں۔ خدا کے عطایہ و غایات اور بذل و نوال کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:


محمد نبی کوں دیا سروری

ختم ہوئی جنن پر سو پیغمبری

سو قرباں دوجگ اس نول لال پر

درود اس کے اصحاب ہوا آل پر


حسن شوقی کی دوسری مثنوی میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ کے عقد کی دھوم دھام اور شان و شوکت کے بیان میں ہے۔ اس میں نعتیہ اشعار نہیں ہیں۔ پہلے شعر کے مصرع اول میں حمد ہے۔ دوسرے مصرع سے بادشاہ کی تعریف کا آغاز ہوتا ہے۔

برہان الدین جانم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد ۸۹۷ھ/ ۱۴۹۰ء میں بیجاپور میں عادل شاہی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۴۹۰ء سے ۱۶۸۵ء تک یعنی تقریباً دو سو سال تک عادل شاہی خاندان کے نوحکمرانوں نے یکے بعد دیگرے مملکت بیجاپور فرمانروائی کی۔ عادل شاہی سلاطین علوم و فنون اور شعر و ادب کے بڑے دلدادہ تھے۔ ان کی سرپرستی اور سایہ عطوفت میں دکنی شاعری کو بے حد فروغ حاصل ہوا ۔ سر زمین بیجاپور سے متعدد شاعر اٹھے ‘ جنہوں نے دکنی زبان میں بلند پایہ مثنویاں لکھیں اور اپنی مثنویوں میں حمد و نعت و منقبت کی روایت کا تسلسل برقرار رکھا۔ ذیل کی سطور میں دبستان بیجاپور کے اہم شعراء کی مثنویوں میں نعت گوئی کے مختلف رنگوں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

دبستان بیجاپور کی مخصوص ادبی روایت کے اولین اہم شاعر شاہ برہان الدین جانم (م:۹۹۰) ہیں۔ یہ بیجاپور کے مشہور صوفی بزرگ حضرت میراں جی شمس العشاق کے فرزند تھے۔ جانمؔ نے مریدوں اور طالبوں کی ہدایت کے لیے دکنی زبان میں کئی مثنویاں لکھیں‘ جیسے وصیت الہادی‘ بشارت الذکر‘ منفعت الایمان‘ سکھ سہیلا‘ ارشاد نامہ‘ حجت البقاء اور فرمان ازدیوان وغیرہ۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ جانم کی سب سے اہم مثنوی ہے۔ اس میں مرید اور مرشد کے سوال و جواب کے پیرایے میں تصوف و طریقت کے مسائل سمجھائے گئے ہیں۔ مثنوی کی شروعات رب کی حمد و ثنا سے کی گئی ہیں۔ بعدازاں نعت رسول خدا ہے۔ جو[ ۳۲]اشعار پر مشتمل ہے۔ چند شعر دیکھئے:

اب میں سنوروں کروں بکھان

نازل ہوا جس فرقان

(اب میں اس کی تعریف کرتا ہوں جس پر قرآن نازل ہوا)

احمد محمد جس کا ناؤں

روز قیامت اس کا چھاؤں

(جس کا نام مبارک احمد اور محمدہے اور قیامت کے دن جس کا سایہ رہے گا)

آگے جانم کہتے ہیں کہ نور حق پردہ تجرید تھا۔ اس نے سب سے پہلے نور محمدی کی تخلیق کی۔


سب نے اول تجہ آفرید

جب تھا دیکھو وہ تجرید


آنحضرت کے معجزات کا ذکر کرتے ہوئے جانم کہتے ہیں بادل آپ پر سایہ فگن رہتا ‘ تاکہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑے۔ آپ نے دست اقدس کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دکھایا


ابر سایہ سدا کرے

نا اس چھاؤں بھیں پڑے

دست مبارک اپنا کاڑ

چاند دیکھا یا کردو پھاڑ

رسول اللہ کے فضائل و شمائل کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں جانمؔ کہتے ہیں کہ دنیا میں آپ کی ذات بڑی محبوب ہے۔ سب آپ کے امتی ہیں۔ امت آپ کا دامن تھامے ہوئیہے۔ آپ میری دستگیری فرمائیے۔ میرا حال بہت برا ہے۔ میں اپنا چہرہ آپ کے سامنے نہیں لاسکتا۔


ایسا جگ میں پیارا ہے

امت جس کا سارا ہے

امت تیرا دامن گیر

توں منجہ ہویں رے دستگیر

ناتواں سخت میرا حال

تجہ سمور کیوں ہوئے کپال ۸؎

عبدل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دبستان بیجاپور کے اولین شعراء میں عبدلؔ کا بھی نام آتا ہے۔ وہ بیجاپور کے چھٹے عادل شاہی حکمراں ابراہیم عادل شاہ ثانی کا درباری شاعر تھا۔ اس نے ۲۱؍۱۰۲۰ھ م ۱۲؍۱۶۱۱ء میں ابراہیم نامہ کے عنوان سے ایک مثنوی لکھی‘ جو دبستان بیجاپور ادبی نقش ہے۹؎۔ اس میں اس نے اپنے مربی سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی کی سیرت و شخصیت‘ اس کے خیل و حشم‘ شہر بیجاپور قلعے‘ شہہ پناہ اور شاہی محل کے حسن و شکوہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ مثنوی کے آغاز میں عبدل نے حمد‘ نعت‘ مدح یا رانِ رسول اللہ کے بعد حضرت گیسودراز کی منقبت بھی لکھی ہے۔ اس کے بعد بادشاہ کی مدح ہے۔ ہر موضوع کے لیے اس نے علاحدہ باب مختص کیا ہے۔ نعت کے باب میں اس نے چودہ شعر لکھے ہیں۔ نعت کے آغاز میں وہ کہتا ہے ’’ابتدا میں صرف ذات حق ایک ہی تھی اور کچھ موجود نہیں تھا۔ حق تعالیٰ نے نور محمدی سے لاکھوں عالم پیدا کیے۔‘‘

گسائیں ایکٹ تھا نہ ہور کچھ موجود

نپایا محمد سوں لک جگ وجود

آگے وہ کہتا ہے کہ جو گنج مخفی یا پوشیدہ خزانہ تھا‘ اسے ظاہر کیا۔ اس کے لیے عشق کے آئینے میں میم کی متصل سے گھسا گیا۔ جس کی وجہ سے احد اور ہوگیا اور میم نے احد کو احمد کیا۔ احمد کے چار حروف نے چار بھید یا اسرار دیئے جو شریعت، طریقت،حقیقت اور معرفت ہیں۔ چاروں کے رموز نبیؐ پر عیاں کردیئے۔


جو تھا گنج مخفی سو پر گٹ دکھائے

عشق آرسی میم مصقل پھرائے

احد دور کرمیم احمد کیا

حرف چار مل بھید چارودیا

شریعت ‘ طریقت‘ حقیقت بیاں

کیا معرفت عین اس پر عیاں


آخر میں عبدل یہ اعتراف کرتا ہے کہ سرکار دو عالم کے محامد کی توصیف کا حق ادا ہوہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی سات درباروں کی روشنائی جاکر لکھنے والی انگلیوں کو دے تب بھی آپ کی صفات کے دفتر کا ایک ورق بھی نہیں بھر سکتا۔ اگر جسم کا ہر بال ہزار زبان بن جائے تب بھی عبدل آپ کی ایک صفت بھی بیان نہیں کرسکتا۔

نہ تجھ دفتر ورق کو بھرائے

کوئی ساتو دریے جو انگلیاں کولائے

اگر جیبھ ہر بال ہویں ہزار

نہ عبدل صفت کرسکے یک بچار

۱۰؎

عادل شاہی مقیمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مقیمیؔ عادل شاہی عہد کا ایک سخنور ہے۔ اس نے ۱۰۳۵تا ۱۰۵۰ھ کے درمیان ’’چندربدن و مہیار‘‘ کے نام سے ایک مثنوی لکھی،جو دبستان بیجاپور کی پہلی عشقیہ مثنوی ہے۔ اس میں مقیمی نے ایک ہندو دو شیزہ چندربدن اور ایک مسلمان سوداگر بچے مہیار کے عشق کی داستان نظم کی ہے۔ مثنوی کے افتتاحی ابواب حمد،مناجات،نعت اور منقبت چہار یار کبار کے لیے مختص ہیں۔ جناب رسول اللہ کی مدح میں مقیمی کہتا ہے کہ اللہ کے رسول دونوں عالم میں خدا کے خلیفہ ہیں۔ آپ کی محبت سے دین قبولیت پاتا ہے۔ بتول (بی بی فاطمہ زہراؓ) کے امین دوعالم کے سلطان ہیں۔ آپ کو ازل سے بقا حاصل ہے۔ آسمان سے لے کر زمین تک جتنی چیزیں پیدا ہیں وہ سب محمد کی نعت کی شیدا ہیں۔

دوجگ کا خلیفہ خدا کا رسول

ہوا دین جس کی بقا پر قبول

دوجگ کا ہے سلطان امین بتول

ہوا ہے بقا جس ازل نے وصول

سماتا ارض میں جو پیدا اچھے

زنعت محمد میں شیدا اچھے


آگے وہ کہتا ہے کہ آپؐ کی بدولت دین ازل سے لے کر ابدتک مضبوطی سے قائم ہے اور آپ کے لائے ہوئے دین نے دیگر ادیان کو کالعدم و منسوخ کردیا۔


قوی دین قائم ابدتا ازل

ہوئے دین منسوخ اسی دین تل

آخر میں وہ اپنی عاجزی وبے چارگی کا اظہار کرتا ہے:

ترا نعت کہنے سکت کس اہے

سمج کر جو تیرا ثنا کوئی کہے ۱۱؎

شریف عاجز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلطان محمد عادل شاہ کے دور کا ایک اہم شاعر شیخ محمد شریف عاجزؔ ہے۔ محمد شریف عاجزؔ احمد گجراتی (مصنف یوسف زلیخا۔ لیلیٰ مجنون) کا بیٹا تھا۔ احمد گجراتی گجرات سے آکر سلطان محمد قلی قطب شاہ کے دربار سے وابستہ ہوگیا‘ جبکہ اس کی اولاد بیجاپور منتقل ہوگئی۔ محمد شریف عاجز نے اپنے باپ کی طرح انہیں موضوعات پر دو مثنویاں یوسف زلیخا (۱۰۴۴ھ؍ ۱۲۶۴ء) اور لیلیٰ مجنوں (۱۴۰۶ھ ؍ ۱۶۳۶ء) تصنیف کیں۔ مثنوی لیلیٰ مجنوں میں حمد کے بعد ’’درنعت احمد محمد مصطفی‘‘ کے زیر عنوان بارہ اور ’’درصفت معراج محمد مصطفی‘‘ کے تحت [۱۹]اشعار ہیں۔ نعت میں اس نے نبی اکرم کی شان لولاک اور قولِ انامن نوری کے حوالے سے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ اس کے بعد چار یار اور حضرت حسینؓ کا ذکر کیا ہے۔ ’’درصفت معراج میں عاجز‘ شب معراج کے حسن،جبرئیلؑ کی آمد، سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرئیلؑ کی ہم رکابی،وہاں سے سرور کونینؐ کا تنہا آگے جانا۔ رب سے ہم کلامی اور آسمان دنیا سے زمین کو واپسی کا ذکر کیا ہے۔ سدرہ پر حضرت جبرئیلؑ رک جاتے ہیں ‘ تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پوچھتے ہیں کہ اے اخی کیوں رک گئے؟ جبرئیلؑ کہتے ہیں میری حد بس یہیں تک ہے۔


پوچھے شہ،اخی کی کھڑے ہوا ہے

کھیے جبرئیل،حد یو میری رہے

آگے کے اشعار دیکھئے:

ہوا حق تین فرمان اگیں رکھ قدم

یو حضرت کے برکت ہوا ہے کرم

(یعنی خدا کا فرمان ہوا کہ اے نبیؐ آگے آیئے)

نبی لامکان سوں مشرف ہوئے

سلام ہوا درود حق نے آپیں لے

(نبی لا مکاں کی سیر سے مشرف ہوئے اور حق تعالیٰ نے خود آپ پر درود و سلام بھیجا)

آگے وہ ایک لطیف نکتہ بیان کرتا ہے:

کرن سور کی بھی چلی سور میں

ندی جوں دریاسوں ملی پور میں

۱۲؎ (یعنی سورج کی کرن سورج میں چلی گئی یا ندی بھرپور دریا سے مل گئی)

حسن شاہ محی الدین صنعتی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سید حسن شاہ محی الدین صنعتی دبستان بیجاپور کا ایک ممتاز سخنور گزرا ہے۔ اس نے سلطان محمد عادل شاہ اور علی عادل شاہ ثانی (۱۰۶۸تا ۱۰۸۳ھ) کا زمانہ دیکھا۔ ۱۰۰۰ء میں اس نے قصبہ بے نظیر کے نام سے ایک مثنوی لکھی جس میں حضرت تمیم انصاریؓ کے محیرالعقول واقعات قلمبند کئے۔ اس مثنوی میں اس نے حمد کے بعد نعت کا التزام رکھا ہے۔ مثنوی قصہ بے نظیر کے نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ صنعتی نے سنسکرت کے الفاظ سے گریزکیا ہے۔ اس لیے ان اشعار کا سمجھنا آسان ہے:


نبی کریم ’’شفیع‘‘ امین

رسول خدا رحمت العالمین

کہ جس سرپو لولاک کا تاج ہے

سو اس کو عرش آپی محتاج ہے

ثنا جس کی بولیا ہے سلطان نے

سو طٰہٰ و یٰسین قرآن میں

احد میں‘ تجے ناؤں احمد دیا

بجز میم بھی فرق کچھ نئیں کیا

ترا ناؤں اپس ناؤں نے ہم قریں

کیا‘ ہور بھیجیا ہزار آفریں


حکایت ہے کہ بادشاہ سکندر قاصد کے بھیس میں ملکہ نوشابہ کے دربار میں گیا‘ لیکن نوشابہ نہایت ذہین تھی‘ سکندر کے اطوار سے اس نے پہچان لیا کہ وہ سکندر کا قاصد نہیں ‘ بلکہ خود سکندر ہے۔ اس تلمیح کو خاطر نشین رکھتے ہوئے صنعتی کے ان نعتیہ اشعار کا مطالعہ کیجیے :


ازل نے جو کوئی تھے کو نہ نگاہ

نہ سمجے تجے دیک اے بادشاہ

جو کوئی تھے جو نوشابۂ تیز ہوش

پچھانت کے جم جام سوں بادہ نوش

کہے دل سوں تجہ دیک اے شہریار

سکندر رسالت کا آیا بہار


قصہ بے نظیر کی تصنیف کے بائیس سال بعد ۱۰۷۷ھ میں صنعتی نے اپنی دوسری مثنوی ’’گلدستہ‘‘ تصنیف کی۔ مثنوی کی ترکیب و ترتیب کے مطابق اس نے اس مثنوی میں حمد نعت اور منقبت کے ابواب رکھے ہیں۔ حمد کے آخری اشعار میں صنعتی نے وسیلے کا ذکر کرتے ہوئے نعت کا جواز پیدا کیا ہے۔ اس طرح وہ نہایت ہنرمندی کے ساتھ حمد سے گریز کرکے نعت کی طرف آتا ہے۔


کہ عاجز ہوں مخلوق تجہ دارکا

دھریا ہوں سو امید دیدار کا

وسیلہ ترے دوست کا کرسدا

کیا ناؤں پر اس کے تن من فدا

شفاعت کی تسکین ادک دھرکے آس

اتا نعت چل بولتا بے ہراس


ان اشعار کے بعد نعت کے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ صنعتی کے نعتیہ اشعار میں قصیدے کا سازورِ بیان، شکوہ اور کرو فر نظر آتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :


زہے خاص احمد نبی الوراء

کہ او شافع خلق ہر دوسرا


کہ ہے برگزیدہ توں لولاک کا

انس لامکاں کے دھنی پاک کا


جو تر جگ ترا امر طالع ہوا

تظلم کفر دین لامع ہوا ۱۴؎


اپنی پہلی مثنوی ’’قصہ بے نظیر‘‘ میں صنعتیؔ نے آنحضرتؐ کی نعت کے تسلسل ہی میں واقعہ معراج کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ معراج کے بیان میں علاحدہ باب نہیں رکھا‘ لیکن مثنوی ’’گلدستہ‘‘ میں اس نے ’’صفت معراج‘‘ کے بیان میں علاحدہ باب قائم کیا ہے۔ معراج کے بیان کیلیے وہ نعت کے آخری اشعار میں صفت معراج کی تمہید اس طرح قائم کرتا ہے‘ جیسے بات میں بات نکل آئی ہو ۔


توں ڈر حشر کا دور کر دل ستی

بچن بول معراج کا صنعتیؔ


اس گریز کے بعد وہ معراج کے باب کا آغاز کرتا ہے۔

ملک خوشنود[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلطان محمد عادل شاہ کے دور کا ایک اہم شاعر ملک خوشنود تھا‘ جس نے ۱۰۵۶ ء میں امیر خسرو کی فارسی مثنوی ہشت بہشت کا جنت سنگار کے نام سے دکنی میں منظوم ترجمہ کیا۔ مثنوی جنت سنگار میں ملک خوشنود نے مثنوی کی عام ہیت کے مطابق حمد باری کے بعد ’’درنعت ِ حضرت رسالت پناہ ‘‘ اور ’’درصفت معراج می گوید‘‘ کے عنوانات قائم کیے ہیں۔ بعدازیں خلفائے راشدین اور سید نا علیؓ کی منقبت کا باب بھی ہے۔ نعت کے چند شعر ملاحظہ ہوں:


کہا ہوں حمد اول میں خدا کا

کتاہوں نعت بعداز مصطفی کا

محمد مصطفی محبوب رب کا

کہے سارے نبی توں تاج سب کا

نبی کے نور کا نقطہ ہے سنسار

ترہ جگ دائرہ اونور پرکار


بیان معراج کے کچھ شعر دیکھئے:


دنیا ہوا دین کا دیوا نچھل توں

کیا سب عرش روشن ہوا چندرتوں

(تو دنیا اور دین کا چمکتا ہوا چراغ ہے۔ تو نے عرش اور چاند سب کو روشن کیا)


ایں عاشق ہوئی تھی دیک دیدار

پرت ابرن کری سب چھوڑ سنسار

(تیرا دیدار کرکے رات عاشق ہوگئی اور ساری دنیا کو چھوڑ کر محبت کا سنگھار کرنے لگی)


زلف عنبر کہوں یامشک کالا

ستارے گوندتے ہیں پھول مالا

(آپ کی زلفوں کو عنبر کہوں یا مشک سیاہ۔ ستارے آپ کے لیے پھول کے ہار گوندھتے ہیں)


عجب سورج چندر دوسیں کے پھول

قطب ٹیلا دیسے جوں حور مقبول

(یہ سورج اور چاند تیرے سرکے دو عجب پھول ہیں اور قطب شاہ تارہ جو تیری مانگ کا ٹیلا ہے‘ کسی حور کی طرح حسین ہے)


مکٹ سوں کہکشاں چل آسنوارے

ثریا کے سہاتے گوشوارے

(کہکشاں خود آکے آپ کو تاج پہنا کر سنوارتی ہے۔ ثریا کے گوشوارے بڑے خوشنما لگتے ہیں) ۱۵؎

کمال خان رستمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عادل شاہی دربار سے وابستہ ایک اور سخنور کمال خان رستمیؔ نے سلطان محمد عادل شاہ (۱۶۲۷ء تا ۱۶۵۷ء) کی ملکہ خدیجہ سلطان شہربانو کی فرمائش پر ابن حسان کی مثنوی ’’خاورنامہ‘‘ کا فارسی سے دکنی میں ترجمہ کیا۔ خاورنامہ ایک طویل رزمیہ مثنوی ہے،جو بائیس ہزار اکسٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ ۱۶؎ اس میں حضرت علیؓ کی معرکہ آرائیوں کے محیر العقول واقعات بیان کیے گئے ہیں،جو سراسر فرضی ہیں۔ مثنوی کے افتتاحی ابواب روایتاً حمد و مناجات اور نعت کے لئے مختص ہیں۔ نعت کے سلسلے میں رستمیؔ نے ’’ذکر معراج‘‘ اور ’’صفت مدینہ‘‘ کے ابواب بھی لکھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اشعار فارسی اشعار کا ترجمہ ہیں۔ نعت‘ ذکر معراج اور صفت مدینہ کے ابواب نہایت طویل ہیں۔ ذیل میں صفت مدینہ کے باب سے چیدہ چیدہ اشعار پیش کیے گئے۔ رسمتیؔ کی زبان نسبتاً صاف ہے۔ اس میں قدیم الفاظ کم اور عربی و فارسی کا عنصر زیادہ ہے۔ اس لیے ان کے ترجمے کی ضرورت نہیں ہے۔


دھرے شرع سرتاج شاہاں تہیں

سزاوار یٰسین وطٰہٰ تہیں


فلک ہے سو منڈپ تری قدر کا

زمین تخت ہوا فرش ہے صدرکا


ترے گھر کا پروردہ روح الامیں

کیا اس اسی کام جاں آفریں


توں لولاک کے تاج کا تاجدار

تری باس تھے خوش نسیم بہار


اول آفزینش میں توں مقتدا

پس انبیاہے ولے پیشوا


توں موجود تھا جو کہ آدم نہ تھا

توں پیدا ہوا جو کہ عالم نہ تھا


توں پیدا تھا جو کہ کونین نئیں

سراپردۂ قاب قوسین نئیں


یوسب آفزینش ہے تیرا طفیل

تو سرخیل یو سب ہیں تیراچ خیل ۱۷؎

ملا نصرتی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ملانصرتی عادل شاہی خاندان کے آٹھویں حکمراں سلطان علی عادل شاہ ثانی (۱۰۶۸۔۱۰۸۳ھ ؍ ۱۶۵۷۔۱۶۷۲) کے دربار کا ملک الشعراء اور ایک قادر الکلام سخنور تھا۔اس کا شمار دکنی کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔ نصرتی نے تین مثنویاں گلشن عشق (۱۰۶۸ھ ؍ ۱۶۵۷ء) علی نامہ (۱۰۷۶ھ ؍ ۱۶۶۵ء) اور تاریخ اسکندری تصنیف کیں۔ گلشن عشق اور علی نامہ میں اس نے نعتیہ شاعری کے بلند پایہ نمونے پیش کیے ہیں۔


گلشن عشق میں نصرتی کنور منوہر اور مدمالتی کی داستان عشق نظم کی ہے۔ اس مثنوی میں حمد باری تعالیٰ کے بعد نعت سرور عالم اور صفت معراج کے ابواب بھی ہیں۔ حمد کے چند اشعار دیکھیے:


زہے نامور سید المرسلیں

کہ آخر وہ ہے شافع المذنبیں

ادا ہوں نہ حمد احد کے بچن

نہ راکھیں جلگ مدح احمدیں من

(اللہ کی حمد کے کلمات اس وقت تک ادا نہیں ہوتے جب تک احمد مجتبیٰ کی مدح میں دل نہ لگائیں)


آگے وہ کہتا ہے کہ اے نبیؐ آپ ہی دائم حق سے گفتگو فرماتے ہیں۔ قاب قوسین آپؐ کا مقام ہے:


نہیں حق سوں نت ہم زباں ہم کلام

تجے قاب قوسین ادنیٰ مقام


پھر وہ کہتا ہے اے نبیؐ آپؐ لامکاں کے مالک کے رازدار ہیں۔ آپؐ اس ذات کے حبیب ہیں جو بے مثل و بے شبہ ہے۔


نہیں لامکاں کے دھنی کا انیس

تو بے مثل و بے شبہ کا ہم جلیس


اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ یا رسول اللہ ؐآپؐ نے … معراج کی شب لامکاں میں بن آواز اور بن حرف کے کلام حق سنا ۔

بن آواز و بن حرف کے خوش بچن

سنیا لامکاں میں تہیں پا وطن ۱۸؎


نصرتی نے اپنی دوسری مثنوی علی نامہ میں بھی حمد و مناجات کے بعد نعت اور ذکر معراج کے عناوین رکھے ہیں۔ چوںکہ علی نامہ ایک رزمیہ مثنوی ہے‘ اسی مناسبت سے نصرتی نے اس کے نعتیہ اشعار میں آنحضرتؐ کی شجاعت و دلیر ی،غزا اور دبدبے کی توصیف کی ہے۔


تہیں اے شہنشاہِ دنیا و دیں

شجاعت کے صف کا ہے کرسی نشیں


شرف کوں دلیری کے ہے سینہ صدر

دیا ہت کم تیغ کوں تونچ قدر


ترے کاج جس حق نے پیدا کیا

غزا کا شرف توں ہوید اکیا


ترا دبدبہ سن کے خوش دھات کا

زمین پر نہ تھا ریا قدم لات کا ۱۹؎

میراں میاں خاں ہاشمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سید میراں میاں خاں ہاشمی بیجاپور کے آٹھویں حکمراں علی عادل شاہ ثانی کے دربار کا ایک نابینا لیکن پرگو اور قادر الکلام شاعر تھا۔ یہ نصرتی کا معاصر تھا۔ اس کی تصانیت میں دیوان ریختی کے علاوہ قصائد و مراثی اور مثنویات شامل ہیں۔ ہاشمی مہدوی عقیدے کا پیرو تھا۔ اس نے اپنے مرشد سید شاہ ہاشم کی فرمائش پر ۱۰۹۹ھ میں مثنوی ’’یوسف وزلیخا‘‘ تصنیف کی جو پانچ ہزار ایک سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ہاشمی ایک کہنہ مشق استاد سخن تھا۔ ’’یوسف و زلیخا‘‘ میں اس نے صنف مثنوی کے بنیادی لوازمات یعنی ربط و تسلسل کا بڑا خیال رکھاہے۔ ابتدائی ابواب میں اس نے نہایت ہنر مندی اور فنی رچاؤ کے ساتھ حمد کے آخری شعر سے مناجات کی طرف گریز کیا ہے اور مناجات کے آخری شعر کو نعت کی گریز کا شعر بنایا ہے۔ اسی طرح نعت کا آخری شعر آنے والے باب ’’صفت معراج‘‘ کی گریز ہے۔ مناجات سے نعت کی طرف گریز کا اندازدیکھیے؎


مناجات تو ہوئی تیری قبول

وسیلہ تو دھر ہاشمیؔ اب رسول


نصرتیؔ کی طرح ہاشمی نے بھی مثنوی کے ابواب کے عناوین اشعار میں لکھے ہیں۔ باب نعت کے عنوان کا شعر یہ ہے:


ہاں نے صفت اس کی سنو ظاہر خدائی جس نے ہوئی

سو او محمد ہے نبی سلطان اولوالابصار کا


آنحضرت کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ہاشمی کہتا ہے کہ نبیوں میں جو سب سے افضل ہیں وہی رسول انبیاء محمد ہیں۔ خدا نے پہلے آپ کو بنایا پھر ساری خدائی کی تخلیق کی۔ پہلے نورذاتی کو ظاہر کیا پھر سارے عالم کو پیدا کیا۔


بنیاں میں جسے تے فاضل کیا

سووئی ہے محمد رسول خدا

اول کر محمد کوں پروردگار

بزاں سب خدائی کیا آشکار

اول نور ذاتی ہویدا کیا

بزاں سب یو عالم کوں پیدا کیا


آگے وہ آپ کے اسم معظم کی برکات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو آپ کے نام کا ورد کرتا ہے اسے دو عالم میں فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ زمین،جن وپری،سارے دریا اور پہاڑ، تمام آسمان، سب جورو ملک،عرش و کرسی اور لوح و قلم آپ کے نام کا ورد کرتے ہیں:


محمد محمد جو کوئی بار بار

کھیا سو بڑا ئی وہ دو جگ منجھار

محمد محمد کہے دھر تری

محمد کہیں سب یوجن و پری

محمد محمد دریا کئیں سگل

محمد محمد کہیں سب جبل

محمد محمد کہیں سب فلک

محمد کہیں سب یو حور و ملک

عرش ہوا کرسی یو لوح و قلم

محمد محمد کہیں دم بہ دم


نعتیہ اشعار کے آخر میں معراج کے بیان کی طرف گریز کرتے ہوئے ہاشمی کہتا ہے کہ اگر جسم کے ہر روئیں کو سو زبانیں مل جائیں تب بھی آپؐ کی توصیف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اے ہاشمی معراج کا بیان طویل ہے تو اسے مختصر بیا ن کر۔


ہر یک روں کوں سو سوزباں گردھرے

تبی وصف نا کوئی پورا کرے

مطوں تو ہے ہاشمی سر بسر

ابنا کر تو معراج کوں مختصر


مثنوی یوسف زلیخامیں ہاشمی نے نہایت اچھوتے انداز میں صفت معراج بیان کی ہے۔ اس رات کی رونقوں اور اہتمام کا ذکر کرتے ہوئے وہ رات کو ایک ’’چتر‘‘ اور ’’خوش دماغ‘‘ مالن کے روپ میں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رات ایک عقلمند اور خوش دماغ مالن کی طرح آسمان کے باغ کو کھلا ہوا دیکھ کر دوڑ پڑی۔ اس نے ثریا سے خوش نما الاقہ (علاقہ۔ طرۂ دستار) گوندھا۔ پھر سنبلہ سے طرہ اور کہکشاں سے پار گوندھے۔ سارے ستاروں کے پھولوں کو کھلا ہوا دیکھ کر وہ انہیں آسمان کے دونے میں بھرلائی اور اس میں معراج کی ساری خوبیاں سمو کر نبی کے حضور یہ ہدیہ لے آئی۔


این ہوکے مالن چتر خوش دماغ

وہ دوڑی گگن کا پھولیا دیکھ باغ


الاقہ سریا گندی خوش نماں

ترا سنبلہ ہارسوں کہکشاں


کھلے پھول سارے ستاریاں کے کر

لیائی فلک کے سو دونے میں بھر


خوبی بھر کے معراج کی تس میں پور

وہ ہدیہ لیاتی نبیؐ کے حضور ۲۰؎

امین ایاغی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نصرتی اور ہاشمی کے ایک ہم عصر محمد امین ایاغی نے علی عادل شاہ ثانی کے عہد حکومت (۱۶۵۶ تا ۱۶۷۲ء) میں ’’نجات نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک مذہبی مثنوی تصنیف کی۔ اس مثنوی میں لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے اور گناہ گاروں کو قیامت میں جو سزائیں دی جائیں گی ان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ایاغی نے احوال قیامت کے بیان سے قبل حمد و نعت بھی لکھی ہے۔ نعتیہ اشعار میں پہلے وہ نبی اکرمؐ کے بعض فضائل و محاسن کا ذکر کرتا ہے ‘ پھر آپؐ کی شریعت پر چلنے کی تلقین کرتا ہے ۔ آپؐ کی شان و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:


محمد نبی تاجِ پیغمبراں

سپہ دار دیں ، سرور سروراں

شہنشاہ تاج لولاک کا

کہ پل میں کیا سیر افلاک کا

اسے تاج و اقبال و رفعت دیا

اپس کن بلا بھیج عزت دیا


ذکر فضائل کے بعد ایاغی مسائل کی طرف آتا ہے اور امت کو نصیحت کرتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی بات قبول کرنا ضروری ہے ‘ جو آپؐ کی بات نہیں سنے گا قیامت کے دن حسرت سے ہاتھ چبائے گا


خدا کا حبیب وہ خدا کا رسول

جو کچ وہ کہا ہے سو کرنا قبول

جو کوئی نئیں سنا ہے محمد کی بات

قیامت میں چابے گا حسرت کے ہات


ایاغی کی مثنوی نجات نامہ دکنی مثنویوں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کے نعتیہ اشعار میں پند و وعظ کا رنگ غالب ہے۔ اس مثنوی کا موضوع احوال قیامت کا بیان فرائض کی پابندی اور امر کی ادائیگی اور نواہی سے اجتناب کی تلقین ہے۔ ایاغی پر واعظا نہ رنگ اس قدر چھایا ہوا ہے کہ اس نے نعتیہ اشعار میں بھی امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کا درس دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :


دنیا کی بڑائی نہ کام آئے گی

دغل باز دنیا نکل جائے گی


دنیا کے بدل دین توں کھونکو

مرے گا تو سچ، دوزخی ہونکو


اگر دین ہونا تو دنیا کون چھوڑ

دغل باز عیار تھے موں مروغ

۲۱؎

شاہ معظم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاہ معظم علی عادل شاہ ثانی کے دور کے صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے سکندر عادل شاہ (۱۰۸۳ ۔ ۱۰۹۷ھ) کا دور بھی دیکھا۔ ان کی نظروں کے سامنے عادل شاہی سلطنت نے آخری ہچکی لی۔ شاہ معظم بیجاپور کے مشہور صوفی سید شاہ امین الدین اعلیٰ کے خلیفہ شاہ قادر نگا کو تال کے مرید و مجاز تھے ۔ دیوان غزلیات کے علاوہ معظم سے متعدد نظمیں اور مثنویاں یادگار ہیں‘ جیسے گفتار عقل و عشق‘ معراج نامہ‘ ساقی نامہ‘ مفتاح الاسرار‘ گلزار چشت اور شجرۃ الاتقیا وغیرہ۔ معظم کی تقریباً تمام مثنویوں میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ ذیل میں معراج نامہ کے کچھ نعتیہ اشعار درج کیے گئے ہیں‘ جو ۱۰۷۰ھ کی تصنیف ہے۔


مبارک نول ناؤں تیرا نبی

بلاتا ہے پیاروں سوں تجھ کوں ربی


عرش پر تو ہے تیرا ناؤں احد

ولیکن کواتا توں آپس عبد


سماںکے اپر تجھ کوں احمد کتے

زمین پر تجھے سب محمد کتے


سو محمود کہتے ہیں تحت الشریٰ

ترا وصف دستا وراء الورا


سیادت کیرانج دیا ہے خطاب

اولوالعزم ہورشاہ عالی جناب


دیارب چھترتج کوں لولاک کا

عطا تج کیا تخت افلاک کا

۲۲؎


یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ معظم نے مثنوی شجرۃ الاتقیا اور مثنوی مفتاح الاسرار کے نعتیہ اشعار میں بھی انہی مضامین کی تکرار کی ہے۔

مختار بیجاپوری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محمد مختار بیجاپور کے آخری دور کا شاعر تھا۔ وہ حضرت گیسودراز کے خانوا دے کے ایک بزرگ سید محمد حسینی عرف شاہ حضرت کا مرید تھا۔ مختار نے تین مذہبی مثنویاں لکھیں‘ جن کے نام یہ ہیں:

(i) معراج نامہ۔ (ii) نور نامہ ۔ (iii) مولود نامہ


مثنوی معراج نامہ ۱۰۹۴ھ میں لکھی گئی ۔ یہ تقریباً تین ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مختار کی مثنویوں میں حمد و مناجات اور نعت و مناقب کے سوا دوسروں کی مدح نہیں ملتی ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بادشاہ سے متعلق نہیں تھا۔ محتار کی زبان صاف اور عام فہم ہے۔ اس کی مثنوی معراج نامہ کے چند اشعار دیکھیے ‘ جن میں اس نے اسم محمدؐ کے چاروں حرفوں کی وضاحت نہایت دلچسپ انداز میں کی ہے۔


عجب دیکھ محبوب ہے بے بدل

محمد شہ انبیا از ازل

اسے چار حرفاں کا ہے ناؤں آج

رکھے اس کوں لولاک کا سر پو تاج

سو ہر حرف کا میں کہوں یوں بیاں

کہ ہے میم محبوبیت کا نشاں

سوح کی دلالت حمایت اپر

حمایت کی ساری شفاعت اپر

سو میم دیگر سب مدد کی خبر

قیامت میں دیتا ہے امت اپر

کہوں دال ہے وہ نشانِ دوا

جو ہے دردِ عصیان کا وہ شفا

قاضی محمد بحری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عادل شاہی سلطنت کے زوال کے بعد گوگی علاقہ سگر(کرناٹک) کے ایک صوفی شاعر قاضی محمد بحری نے ۱۱۱۲ھ میں ’’من لگن‘‘ کے نام سے ایک عارفانہ مثنوی لکھی جسے تصوف کے حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس مثنوی میں حمد و توحید کے بعد نعتیہ باب ’’درنعت خواجہ کائنات محمدؐ‘‘ ہے۔ اس باب کا آغاز بحری نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ وہ قلم سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں اے قلم اٹھ اس گھڑی گھر نہ جائیں بلکہ تھوڑی دیر ’’نعت نگر‘‘ کی سیر کرآئیں۔


اٹھ اے قلم اس گھڑی گھر نہ جائیں

ٹک نعت کا سیر کرآئیں


لیکن اچانک انہیں اپنی بے بضاعتی کا خیال آتا ہے کہ نعت کہاں اور میں ناداں کہاں؟ اگر میں نادان نہ ہوتا تو ایسے مشکل کام میں ہاتھ ڈال کر خوش نہ ہوتا۔


پن نعت کہاں کہاں یو ناداں

ناداں جو نہیں تو کیئو ہے شاداں


آگے کہتے ہیں کہ مجھ سا بے علم راز کی باتیں کہنا چاہتا ہے ‘ گویا کہ قلم میں آفتاب کو قید کرنا چاہتا ہے۔ ایک معمولی سی چیونٹی ساتویں آسمان تک کیوں کر چڑھ سکتی ہے یا پتے پر بیٹھ کر سمندر کیسے پار کرسکتی ہے؟


یعنی منگے بولنے کوں یو بھید

کرنے کوں قلم میں قید خورشید

کیو چیونٹی سات چرخ چڑ جائے

یا مار سمد میں پات پر جائے


اپنی بے علمی کے اظہار کے بعد وہ پھر قلم سے کہتے ہیں کہ معذرت کے راستے میں اٹک کر مت رہ بلکہ عذرو حیلے چھوڑ کر صاف نعت کی پناہ میں آجا۔


اب رہ نکو معذرت کی راہ میں

آ نعت کے ناتھ کی پنہ میں


آنحضرت کی اولیت کے اظہار میں وہ حروف تہجی سے کنا یہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’آپؐ عین ہیں۔‘‘ اس ’’عین‘‘ (حقیقت محمدی) سے سارے حروف ابجد (یعنی کائنات) کی تخلیق ہوئی۔ اس عین نے عالم شہادت میں اپنا جلوہ دکھانے کے لیے اسلام کے علم کو ظاہر کیا اور اپنے ہاتھ میں شرع کی شمشیر لے کر ساری دنیا کو دین کی دعوت دی۔


او عین جو ابجد اس کوں فرزند

سیوٹ کوں اپس دکھاونے چھند

تختی پوشہادتی ہو اظہار

اسلام کے علم کوں کیا بار

شمشیر لے شرع کا پس ہت

یکبار کیا جگت کوں دعوت


من لگن میں بحریؔ نے ’’درصفت معراج مبارک‘‘ کاعلاحدہ باب رکھا ہے۔ اس میں انہوں نے واقعہ معراج کے اسرار و غوامض بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضورکی معراج جسمانی تھی۔ انہوں نے معراج جسمانی کے لیے ایک نادر تشبیہ تلاش کی ہے کہ آپ جسم اطہر کے ساتھ سات آسمانوں میں سے یوں گزر گئے جیسے سوئی گودڑی کی سات تہوں میں سے نکل جاتی ہے۔


معراج کیا اسی بدن سات

اما او بدن بدل ہے من سات

یوں پھوڑ گیا گگن سواو دھن

جوں گودڑی سات تہہ کی سوزن


ساتویں آسمان سے آگے آنے کے بعد آپ نے اپنی سواری کو لامکاں کے میدان میں آگے بڑھایا؎


اٹ واں لے ترنگ کوں بھکیلیا

میداں میں لا مکاں کے ٹھیلیا


آگے بڑھنے سے قبل آپ نے تن ‘ قلب‘ روح اور نور کو جو کثرت کے مظہر ہیں‘ اسی مقام پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مقام ِ نور اور منزہ و لطیف آن میں پہنچے۔


یو دیہہ‘ یودل ‘ یو جیو‘ یو جیوت

کثرت کے شریک‘ شرک کے کوت

اس چار کوں چھوڑ انگے دیا چل

تو تھان ہے نوری آن نرمل


اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس مقام پر نہ ’’ان‘‘ تھانہ ’’گن‘‘ تھا۔ نہ معرفت ہے نہ انا ہے نہ صفت ہے۔


جس آن منے نہ ان تھانہ ان تھا

نہ گیان نہ گرب تھا نہ گن تھا ۲۳؎


واقعہ یہ ہے کہ بحری نے من لگن کے نعتیہ اشعار کو تصوف و معرفت کے حقائق و بصائر کا آئینہ بنادیا ہے۔

شیخ احمد گجراتی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بہمنی سلطنت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر اس کے مختلف صوبیداروں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور اپنی سلطنتیں قائم کرلیں۔ چناںچہ تلنگانہ کے صوبیدار محمد قلی قطب الملک نے بھی ۹۲۴ھ میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا اور گولکنڈہ میں قطب شاہی سلطنت کی نیو رکھی۔ قطب شاہی خاندان میں آٹھ حکمران ہوئے ‘ جنہوں نے ۹۲۴ھ؍ ۱۵۱۸ء سے ۱۰۹۸ھ ۱۶۸۷ء تک کوئی پونے دو سو سال گولکنڈے کی سلطنت پر حکمرانی کی۔ ان میں سے اکثر حکمران نہایت بلند حوصلہ‘ علم پرور اور فنون لطیفہ کے والہ و شیدا تھے۔ انہوں نے نہایت فیاضی اور سیر چشمی سے ارباب کمال شعراء اور ادیبوں کی قدر دانی کی۔ قطب شاہی دور میں گولکنڈہ علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا ۔ فیروزؔ‘ محمودؔ اور ملاخیاتی وغیرہ گولکنڈہ کے اولین شعراء ہیں۔ ذیل میں دبستان گولکنڈہ کی اہم مثنویوں میں نعتیہ شاعری کا جائزہ لیا جائے گا۔

شیخ احمد گجراتی کی مثنوی یوسف زلیخا دبستان گولکنڈہ کی پہلی مثنوی ہے۔ احمد سلطنت محمد قلی قطب شاہ نے ایک خاص نوازش نامہ لکھ کر گجرات سے گولکنڈہ آنے کی دعوت دی تھی۔ یہاں آنے کے بعد اس نے یوسف زلیخا لکھی۔ محققین کا خیال ہے کہ اس نے یہ مثنوی ۹۹۹ھ؍ ۱۰۸۰ء اور ۹۹۷ھ ؍ ۱۰۷۸ء کے درمیان تصنیف کی۔ یوسف زلیخا کے علاوہ اس کی ایک اور مثنوی لیلیٰ مجنوں کا بھی پتہ چلا ہے۔ یوسف زلیخا میں احمد گجراتی نے مثنوی کی روایتی ہئیت کے مطابق حمد و مناجات ‘ نعت ذکر معراج منقبت اور مدح کے ابواب ہیں۔ ’’نعت سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سرخی کے تحت احمد نے ۴۲ نعتیہ اشعار لکھے ہیں‘ جن میں اس نے حضورکے فضائل و مراتب کی رفعت اور آپ کے اوصاف جمیلہ کا ذکر کیا ہے؎ محمد جو رسول اللہ ہے وہ رسولاں ، انبیاں کا شاہ ہے وہ وہ ہے راجا دہوں جگ لشکراس کا چلے فرمان سارے جگ پر اس کا آگے وہ آپ کے استغنا کی توصیف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ کی نظرمیں دنیا کی حیثیت ایک تل سے بھی کم تھی۔ آپ اپنے دل سے کوئی بات نہ کہتے جو فرماتے وحی سے فرماتے۔ آپ کا فرمایا گویا خدا کا فرمایا ہے۔ خدا سے الگ آپ کوئی بات نہیں فرماتے تھے۔ احمدؔ نے وما ینطق عن الھویٰ کی ترجمانی کی ہے؎ جگت اس دشت تل کم ایک تل تھے نہ بولے وحی بن یک بات دل تھے کھیا سوہے جے کچ کھیار خدا سو نہ بولے کچ خدا تھے وہ جدا ہو احمد گجراتی نے ’’صفت شب معراج رسول‘‘ کی سرخی کے تحت [۷۰] اشعار لکھے ہیں‘ جن میں معراج کے مختلف مراحل ‘ لوح و قلم کی سیر اور اس سے آگے کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب رسالت مآب نے مغرب و مشرق کے تعینات سے گزر کر لوح و قلم کا مشاہدہ فرمایا۔ وہاں سے عرش سے پرے پہنچے تو وہاں آگے پیچھے کوئی دوسرا تھا ہی نہیں۔ اس جگہ دنیا کا کوئی نشان نہیں تھا۔ و ہ مقام اشارے اور مقام سے بری تھا۔ وہاں نہ مکاں ہے نہ آٹھ جہتیں ہیں۔ وہاں جو کچھ تھا فکر اور اندیشے سے وراء تھا۔ جو گئے از عرب مشرق ہو گزرکر سٹے لوح و قلم پر بھی نظر کر وہاں تھے عرش جب پیلاڑ لانگے نہ دوجا کوئی واں پیچھے نہ آگے نہ کچ اس ٹھاوں عالم کی نشانی اشارت ہو ا نشاں اس تھے برانی نہ ٹھاؤں ہے وہاں نا اشت دک ہے جکچ ہے فکر اندیشے تھے ادک ہے اسراء و معراج کے تمام مشاہدات کے بعد جب آپؐ کا شانہ ثبوت واپس لوٹے‘ تو ہنوز بستر مبارک گرم تھا۔ پچھانا گرم اچھے لگ پھر کر آیا قدم امرت سوں دھرتی کوں جیوایا ۲۴؎

ملا وجہی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دبستان گولکنڈہ کی دوسری مثنوی سلطان محمد قلی قطب شاہ کے ملک الشعراء ملا وجہیؔ کی تصنیف ’’قطب مشتری‘‘ ہے ۔ یہ گولکنڈہ کی پہلی طبع زاد مثنوی ہے ‘اس کا سنہ تصنیف ۱۰۱۸ھ ؍ ۱۶۰۹ء ہے۔ وجہی نے شہزادہ قطب اور بنگال کی شہزادی مشتری کے عشق کی داستان بیان کی ہے۔ حمد اور مناجات کے بعد نعت کا عنوان ہے جس کے تحت [۲۶] اشعار ہیں۔ وجہیؔ کی زبان نسبتاً صاف ہے ‘ اس کے اشعار آسانی سے سمجھ میں آتے ہیں۔ محمد نبی تانوں تیرا اہے عرش کے اپر چھانو تیرا اہے کہ چودہ ملک کا تو سلطان ہے علی سا تیرے گھر میں پردھان ہے اسی ہور یک لک پیغمبر آئے ولے مرتبہ کوئی تیرا نہ پائے چھپیا نور سب کا ترے نورانگے کہ جیوں تارے چھپتے اہے سورانگے ان اشعار کے بعد وجہی کہتا ہے کہ اے نبیؐ جب سے آپؐ کا دین ظاہر ہوا دنیا میں کفر زیر وزبر ہوگیا۔ محبت،مروت،وفا،حلم ،علم اور عمل جیسے اوصاف دنیا میں نہیں تھے۔ آپؐ کے تشریف لانے کے بعد یہ اوصاف ہویدا ہوئے۔ وہ استفہامی انداز میں کہتا ہے کہ اتنی اچھی تصنیف کسی ذات میں نہیں ، پھر خود ہی جواب دیتا ہے اس ذات میں جس میں غضب اور غصہ نام کو نہیں یعنی ذات رسالتؐ: ترا دین جس دن سے پرگٹ ہوا سو اس دین نے سب کو تلپٹ ہوا

محبت، مروت ، وفا ہور حلم حلیمی ، سلیمی ، عمل ہورعلم

توں پیدا ہوا یوں ہویدا ہوئے اول یو نہ تھے تج نے پیدا ہوئے

یتیاں خصلتاں خوب ہے کس منے غضب ہور غصہ نہیں جس منے ۲۵؎ ’’ذکر معراج‘‘ کے باب میں وجہیؔ نے معراج کی رات کی نورانیت اور زیب و زینت کا جمال آفریں مرقع پیش کیا ہے۔ نبی کے استقبال کی تیاری دیکھیے؎ صفت کر تو معراج کی رات کا کہ جاگیا اہے بخت تج بات کا

اتھا اس دین کوں عجب کچہ نور کہ لاکھاں تے چانداں۔ کروڑ اں تے سور

ملک زرگراں زرلے کر سور کا ملمع انبر کوں کیے نور کا

نبی آتے ہیںکرسنے جب یو بات سنوارن لگے نو انبر دھات دھات ۲۶؎

ملا غواصی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دبستان گولکنڈہ میں ملا وجہی کا خورد معاصر ملا غواصیؔ تھا۔ وہ قطب شاہی خاندان کے ساتویں فرمانروا سلطان عبداللہ قطب شاہ کا ملک الشعراء تھا۔ اس سے تین تصانیف یادگار ہیں۔ مثنوی سیف الملوک و بدیع الجمال۔ طوطی نامہ اور مینا ستونتی۔ تینوں مثنویوں میں غواصی نے مثنوی کے اجزائے ترکیبی کا لحاظ رکھا ہے۔ یعنی ہر مثنوی میںحمد‘ نعت اور منقبت موجود ہیں۔ پہلے ہم سیف الملوک وبدیع الجمال (۱۰۳۵ھ) کے نعتیہ اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ غواصیؔ کی زبان صاف ہے۔ اس میں ہندوستانی بولیوں کے الفاظ کم سے کم ہیں۔ اس لیے اس کے اشعار عسیر الفہم نہیں ہیں۔ سچا توں محمد سچا مصطفی سچا ہے توں احمد سچا مرتضیٰ

توں طہٰ توں یٰسین تو ابطحی توں امی توں مکی توں مرسل صحیح

نہیں ہاشمی ہور قریشی رسول جکچ توں کہے سو کرے اب قبول

توں قائم توں حجت توں حافظ سچا توں شافع توں سابق توں واعظ سچا

تقی ہوا سخی توں ولی ہوا خلیل دیا تج نبی ناؤں رب جلیل ۲۷؎ مثنوی طوطی نامہ (۱۰۴۹ھ) میں غواصی نے حمد کے بعد کے عنوان سے [۲۴] ابیات لکھی ہیں۔ چند اشعار دیکھیے؎ رتن خاص دریائے لولاک کا جھلک لا مکاں نور افلاک کا (آپ دریائے لولاک کے خاص رتن… اور افلاک و لامکاں کے نور کی جھلک ہیں) محمد نبی سید المرسلین سدا روشن اس تے ہے دنیا ود یں (محمد نیبوں کے سردار ہیں۔ آپ سے دین اور دنیا ہمیشہ روشن ہے) عدم میں تے عالم کوں پروردگار اسی کے کیا نور سوں آشکار (خدا نے آپ کے نور سے عالم کو نیستی سے ہستی میں لایا) ہوئے ختم اس پر نبوت کے گن بجے طبل اس کا قیامت لگن ۲۸؎ (آپ پر نبوت کے اوصاف ختم ہوگئے۔ آپ کا طبل قیامت تک بجتا رہے گا) غواصیؔ کی تیسری مثنوی ’’میناستونتی‘‘ ہے۔ اس مثنوی کے مرتب ڈاکٹر غلام عمر خان کا خیال ہے کہ یہ مثنوی ’’طوطی نامہ‘‘ اور ’’سیف الملوک‘‘ سے قبل کی تصنیف ہے۔۲۹؎ اس مثنوی میں غواصی نے مثنوی کی عام ہیئتی ساخت کے مطابق حمد ‘نعت ‘ منقبت چار یار اور منقبت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور منقبت حضرت گیسودراز رقم کی ہے۔ ’’درحقیقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے: الٰہی رکھیا توں بندیاں کی شرم نبی کوں دیا بھیج کیتا کرم منور کیا جس نے اسلام کوں شفاعت دیا خاص ہور عام کوں شفیع او حشرسات کے وقت کا او سلطان معراج کے تخت کا آگے وہ آنحضرت کے اوصاف قناعت،صبر اور توکل کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: روہی سرور عالم و شہر یار قناعت کیا جن اپر عین بار صبر جس کے گھر کا کوآتا ہے داس پڑیا ہے تو کل سو جس دار پاس آخر میں وہ سرکار دو عالم سے اپنی فدائیت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: تصدق ہمن سار کے کئی ہزار محمد کے نعلین پر بار بار نا اچھتے ہمن کوں جو اومہر باں تو اچھتے ہمیں سب جہنم کے ٹھاں ہزاراں ہمن پشت کے نیک نام

محمد پو صدقہ ہیں سارے تمام

احمد جنیدی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احمد جنیدی قطب شاہی خاندان کے ساتویں حکمراں سلطان عبداللہ قطب شاہ کے دور کا شاعر تھا۔ ۱۰۶۴ھ میں اس نے ’’ماہ پیکر‘‘ کے نام سے ایک عشقیہ مثنوی لکھی جس میں محمود غزنوی کے وزیر حسن میمندی کی دختر ماہؔ اور ایک سوداگر زادے پیکر ؔ کے عشق کی داستان نظم کی ہے۔ جنیدی بیجاپور کے شاعر ہاشمی کی طرح مہدوی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ مثنوی ’ماہ پیکر‘ میں اس نے عام رواج کے مطابق پہلے حمد لکھی ہے ‘ اس کے بعد نعت اور منقبت چار بار ہے۔ حمد کے آخری دو اشعار میں وہ دعا کرے ہے کہ ’’مجھے محمدکی شفاعت نصیب ہو اور میری زبان پر سدا محمد کا نام رہے۔‘‘ کہ منگنا دعا میں رین دین سب شفاعت محمد کی دے منج کوں رب کہ احمد جنیدی پہ کریوں کرم رہوے نانوں زباں پر محمد جرم حمد کے ان دعائیہ اشعار سے وہ نعت کے لیے گریز کا کام لیتا ہے۔ نعتیہ اشعار میں رسول اکرمؐ کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہتاہے: الٰہی نپایا توں آخر زماں کہ ہے مصطفی دو جہاں رہنماں محمد نبی تاج پیغمبر اں سپہ دین کے سرور سروراں دوسرا شعر بیجاپور کے شاعر ایاغی کی مثنوی ’’نجات نامہ‘‘ کی نعت میں بھی ہے۔ وہاں ’’سپہ دین‘‘ کے بجائے ’’سپہ دار دیں‘‘ کے الفاظ ہیں۔ ایاغی کی مثنوی بعد کی ہے۔ معلوم نہیں ایاغی کو توارد ہوا ہے یا اس نے جنیدی سے استفادہ کیا ہے۔ محمد نبی ہوا رسول خدا درود ہو اسلام اس پر برحق ہوا

کہ کئی لاک معجزے کئی دھات کے اتھے اس کنے سب سو ہر بات کے ۳۱؎ اس کے بعد جنیدی نے آپ کا ایک معجزہ نقل کیا ہے کہ مشرکین کے کہنے پر آپ نے پتھر میں سے ایک درخت پیدا کیا‘ جس کی ہر شاخ پر الگ الگ اقسام کے میوے لگے تھے۔ ہر شاخ پر الگ الگ پھول تھے اور ان شاخوں پر مختلف پرندے بیٹھے آپ کے رسول برحق ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ ظاہر ہے یہ ضعیف روایت ہے۔ سیرت کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا لیکن دکن کے شاعروں میں یہ روایت بہت مقبول تھی۔گجرات کے ایک شاعر جنونی ؔ گجراتی نے بھی ۱۱۰۲ھ میں اس روایت کو ’’قصیدہ معجزہ‘‘ کے عنوان سے نظم کیا ہے۔ جنونی کا قصیدہ چھیاسٹھ اشعار پر مشتمل ہے‘ جبکہ جنیدیؔ نے صرف اٹھارہ ابیات میں یہ واقعہ نظر کیا ہے۔

ابن نشاطی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابن نشاطی سلطان عبد اللہ قطب شاہ کے عہد کا ایک اہم مثنوی نگار شاعر تھا۔ اس نے (۱۰۷۶ھ ؍ ۱۶۶۵ء) میں احمد حسن دبیر عید روسی کی تصنیف بساتین الانس کا دکنی میں منظوم ترجمہ کیا۔ اس نے اس مثنوی کا نام پھول بن رکھا۔ پھول بن ایک داستانی مثنوی ہے۔ اس میں ابن نشاطی نے حمد اور مناجات کے بعد نعت کا باب رکھا ہے۔ اس کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں: تری تعریف کا اونچا ہے پایا خدا قرآن میں تجکو سرایا

نبی توں پاک تیرا پاک دیں ہے سچا تو رحمت للعالمین ہے

اگر ہوتا نہ توں آدم نہ ہوتا نہ آدم بلکہ یو عالم نہ ہوتا…

شریعت کا سٹیا آواز جگ میں طریقت کوں کیا توں تازہ جگ میں

حقیقت تجہ سوں ہے حق کا ہویدا خدا کا معرفت تجہ سوں ہے پیدا ۳۲؎

طبعی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قطب شاہی خاندان کا آخری حکمران ابوالحسن تاناشاہ (۱۰۸۳ھ؍ ۱۶۷۲ء تا ۱۰۹۸ھ؍ ۱۹۸۷ء) تھا۔ اس کے دور کا اہم مثنوی نگار شاعر طبعیؔ تھا۔ طبعی شاہ راجو کا مرید اور تاناشاہ کا پیر بھائی تھا۔ اس نے ۱۰۸۱ھ ؍ ۱۶۷۰ء میں بہرام وگل اندام کے نام سے ایک مثنوی لکھی‘ جو نظامیؔ کی فارسی مثنوی ہفت پیکر کا آزاد ترجمہ ہے۔ اس میں ایران کے بادشاہ بہرام گور کی حکایات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثنوی بہرام وگل اندام میں طبعی نے حمد و مناجات کے بعد نعت لکھی ہے۔ چند اشعار دیکھیے: محمد نبی توں خدا کا رسول یو پیغمبراں باغ ہے توں سو پھول

خدا نے کیا تج کوں اپنا حبیب یو منصب نہیں ہر کسی کو نصیب

سہاتا ہے مہر نبوت تجے یو دولت ہوا ہے عنایت تجے

بنیاں جگ میں یک لاک اسی ہزار یو سارے پیارے ہیں تو ہے سوار

آخر میں وہ اپنے گناہوں کا اقراراور شفاعت کی درخواست کرتے ہوئے کہتا ہے: ہوا ہے میرے ہات تے نئی گناہ نہیں کوئی تج باج پشت و پناہ

کہ تیری شفاعت کا دھرتا امید قیامت میں طبعی کوں کر روسفید ۳۳؎

محبی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قطب شاہی خاندان کے آخری فرمان روا سلطان ابوالحسن تانا شاہ (۱۰۸۳۔ ۱۰۹۸ھ ؍ ۱۶۷۲۔ ۱۶۸۶ء) کے عہد کا ایک قابل ذکر شاعر محب ؔ یا محبیؔ ہے جس نے ۱۰۸۸ھ میں ’’معجزۂ فاطمہ‘‘کے عنوان سے ۳۸۲ اشعار پر مشتمل ایک مختصر مثنوی لکھی‘ جس میں خاتون جنت کی ایک کرامت بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین مکہ کی عورتوں نے بی بی صاحبہؓ کوبہ طور آزمائش فرضی شادی میں مدعو کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ کے ذریعہ آپ کیلیے بہشتی ملبوس اور زیور روانہ کیے۔ ظاہر ہے یہ ایک بے اصل روایت ہے لیکن اس دکن کے ایک اور شاعر فاروقی نے بھی نظم کیا ہے۔ محبیؔ غالباً شاہ راجو کا مرید تھا۔ اس نے مثنوی کی عام ہیئت کے مطابق پہلے حمد و مناجات لکھی ہے ‘ پھر ’’درمدح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ اور ’’درصفت معراج حضرت نبی علیہ السلام‘‘ کے ابواب ہیں۔ نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں: محمد نبی سید المرسلیں ہوا شرع اسلام تج نے مبیں

ترے نور تے خلق کو ایک بار کیا جگ میں اظہار پروردگار

ترا نعت یٰسین و طٰہٰ کیا کسی کو شرف حق بتانئیں دیا…

ہوا ختم تج تے نبوت تمام نبیاں مقتدیاں سب تو ان کا امام ۳۴؎ آخر میں کہتا ہے کہ آپ کے اوصاف فضائل جو حق تعالیٰ جانتا ہے انہیں کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ آپ کی نعت کا حق ادا کرنا محال ہے۔ ترا وصف اور مدح حق پر عیاں اہے تیوں نہ کوئی کرسکے گا بیاں ترا نعت ہے تیوں کنا ہے محال کیا نعت تیری مری قدر حال

فائز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قطب شاہی دور کی آخری اہم مثنوی فائز کی ’’رضوان شاہ و روح افزا‘‘ ہے۔ فائزؔ نے یہ مثنوی سلطان ابوالحسن تاناشاہ کے عہد میں ۱۰۹۴ھمیں تصنیف کی۔ اس کے چار سال بعد اورنگ زیب کے ہاتھوں قطب شاہی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس مثنوی میں فائزؔ نے چین کے بادشاہ رضوان شاہ اور روح افزا پری کے عشق کی داستان نظم کی ہے۔ مثنوی کا آغاز اس نے حسب قاعدہ حمد و نعت سے کیا ہے۔ نعت کے بعد سید نا علیؓ کی منقبت ہے۔ غالباً فائزؔ ملک اثنائے عشری کا پیرو تھا۔ فائز نے حمد کے آخری اشعار میں اس نے ’’شفاعت‘‘ کے حوالے سے نعت کی طرف گریز کیا ہے۔

بھروسہ عمل پر ہے گر ہے عمل

شفاعت کرے نئیں سو کیا ہے عمل

ہمارے نبی کا ہے پایہ رفیع

مقدم شفیعاں پوہے یو شفیع

شکر اس خدا کا جو خلقت کیا

ہمن کو محمد کی امت کیا

حمد کے بعد ’’درنعت حضرت سید المرسلین محمد مصطفی‘‘ کی سرخی کے تحت اس نے نعت لکھی ہے۔ نعت میں اس نے حمد کے آخری نعتیہ اشعار کے تسلسل کو جاری کیا ہے۔ نبیاںجو سنے اس امت کا صفت بسر جا اپس کا قرب منزلت کہے کاش ہوتے یو امت ہمیں یوسن کر پکڑتے تھے ہمت ہمیں آگے وہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل و مراتب رفیعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ترا قدر سب انبیاء میں جلیل کئے بار چل کرتے ترے یاں جبرئیل خدا کو ہے معلوم تیرا شرف تیری شان رتبے میںنئیں ہے حرف آنحضرت کے شاہ اولین و آخرین ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فائز لکھتا ہے ترا نور بھیجیا ہے سب سوں اول ہوا کیا جو آخر کوں آیا نکل

اگر تج کوں پیدا نہ کرتا قدیر تو آدمؑ کی مائی نہ ہوتی خمیر ۳۵؎ عادل شاہی اور قطب شاہی دور کے آخر میں مغلوں کے حملے اور فتح دکن سے قبل ہی ان سلطنتوں میں زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ کسی بڑی اور بلند پایہ ادبی تخلیق کے لیے جس طرح کے سماجی اور تہذیبی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ ختم ہو رہا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اس دور میں کوئی اہم ادبی مثنوی نہیں لکھی گئی۔ حکمرانوں کی کمزوری، انتشار اور مغلوں کے حملے کے خوف نے ایسے حالات پیدا کردیئے تھے کہ اس عہد میں بیجاپور اور گولکنڈہ میں مذہبی نظمیں اور مثنویاں کثرت سے لکھی گئیں جن کاسلسلہ سقوط بیجاپور اور انقراض گولکنڈہ کے بعد بھی جاری رہا۔اس دور کی مذہبی مثنویوں میں معراج نامہ (سید بلاقی) مولود نامہ ‘ وفات نامہ (عبداللطیف)،مولود نامہ ( فتاحی) ، ہدایات ہندی، مفید الیقین (ضعیفی) ، قصص الانبیاء (قدرتی )، قصہ ابوشحمہ ( اولیاءؔ) ، قصہ ابوشحمہ (امین) ، قصہ حسینی (خواص)، جنگ نامہ محمد حنیف (سیوک)، محی الدین نامہ (شاہ افضل) اور ظفر نامہ محمد حنیف (غلام علی خاں) وغیرہ۔ یہ ساری مثنویاں فقہی موضوعات یا مذہبی شخصیتوں سے متعلق تاریخی یا نیم تاریخی واقعات پر مبنی ہیں۔ ادبی اعتبار سے ان کا شمار بڑے کارناموں میں نہیں ہوتا۔ چوںکہ یہ مثنویاں مذہبی موضوعات پر ہیں‘ اس لیے ان میں صنف نعت کا بہرہ اچھا خاصہ ہے ‘ بلکہ ان میں بعض مثنویاں بہ تمام و کمال نعت کے دائرے میں آتی ہیں‘ جیسے معراج نامہ‘ مولود نامہ‘ شمائل نامہ اور وفات نامہ وغیرہ۔ دکنی مثنویوں پر محض ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دکن کے تقریباً تمام مثنوی نگار شعرا نے اپنی مثنوی کا آغاز حمد و نعت سے کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ صنف فارسی سے درآمد کی تھی اور اسے اس کے تمام فنی تقاضوں‘ ہئیتی و معنوی روایات اور اصول و لوازم کے ساتھ قبول کیا تھا۔ چوںکہ فارسی میں حمد و نعت اور منقبت وغیرہ سے مثنویوں کی ابتدا کی جاتی تھی‘ لہٰذا دکنی شعراء نے بھی حمد و نعت اور منقبت کو مثنوی کے اجزائے ترکیبی بنایا۔ اس طرح دکنی مثنویوں میں حمد و نعت کی ایک طویل ‘ مسلسل اور درخشاں روایت تشکیل پاگئی۔ دکنی مثنویوں میں نعتیہ شاعری کے جو نمونے ملتے ہیں‘ ان کے موضوعات میں تنوع اور بوقلمونی کا احساس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات اقدس،آپ کے شمائل، فضائل، محاسن، مراتب،کمالات،اوصاف حمیدہ،اخلاق جمیلہ اور امتیازات عالیہ ایک بحربے کراں ہیں۔ ہر مثنوی نگار نے بقدر ہمت اس بحر کی شناوری کرکے حضور اکرم کے نعوت و محامد کے کچھ درہائے آبدار نکالے اور انہیں اپنی نعت کے دامن میں سجایا۔ دکنی مثنویوں میں آنحضرت کے شرف و تقدم کے بیان کے علاوہ کہیں آپ کے اخلاق و معجزات کا ذکر ملتا ہے‘ تو کہیں سیرت طیبہ کے بعض خاص واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ کہیں عالمانہ انداز ہے تو کہیں صوفیانہ رنگ، کسی مثنوی میں روایات ملتی ہیں تو کسی میں شاعر اپنی عقیدت اور فدائیت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ دکن کی ابتدائی دور کی مثنویوں جیسے کدم راؤ، پدم راؤ اور نوسر ہار وغیرہ میں شہنشاہ کونین کے لیے سنسکرت القاب مثلاً سائیں اور گوسائیں کا استعمال بھی ملتا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کا چلن بڑھتا جاتا ہے۔ دکنی مثنویوں کی نعت میں شعراء نے قرآن مجید کی آیات مقدسہ سے بھی استفادہ کیا ہے اور اپنے اشعار میں ان آیات کے ٹکڑوں کو استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عربی کے نعتیہ قصائد کے خوان سے بھی ذلہ ربائی کی اور … فارسی کے گلستان ِ نعت سے بھی اپنے وجدان فن کو عطر بیز کیا۔ دکن کے بعض مثنوی نگاروں نے حمد و نعت کے بعد ’’صفتِ معراج‘‘ کے لیے بھی ایک علیحدہ باب مختص کیا ہے، جیسے خاور نامہ (رسمیؔ) ‘ قطب مشتری (وجہیؔ) یوسف زلیخا (احمد گجراتی) ، علی نامہ (نصرتیؔ) وغیرہ۔ بعض مثنویوں میں نعت نہایت مختصر ہے، جیسے نصرتیؔ کی مثنوی ’’تاریخ اسکندری‘‘ میں پہلے شعر کا پہلا مصرع حمد یہ اور دوسرا مصرع نعتیہ کہہ کر اصل مثنوی کا آغاز کیا گیا ہے۔ حسن شوقی کی مثنوی فتح نامہ نظام شاہ میں نعت کے صرف دو شعر ہیں۔ اس کی دوسری مثنوی میزبانی نامہ میں نعتیہ اشعار نہیں ہیں۔ تاہم بہ استثنائے چند دکنی کی بیشتر مثنویوں میں خواہ وہ فقہی ہوں یا متصوفانہ یا بزمیہ، نعت لکھنے کا التزام نظرآتا ہے۔ دکنی مثنوی نگاروں نے نعت گوئی میں اپنی ہنر مندی اور فنی شعور کا ایک نمونہ یہ بھی پیش کیا ہے کہ مثنوی کے موضوع اور مزاج سے میل کھاتی ہوئی حمد بھی لکھی ہے اور اسی سے ہم آہنگ نعت بھی کہی ہے۔ مثلاً نصرتی کی مثنوی علی نامہ کا موضوع رزمیہ ہے‘ اسی لیے اس نے مثنوی کے حمدیہ اشعار میں بھی رزم کا پہلو رکھا ہے اور نعت میں بھی رزمیہ عناصر شامل کیے ہیں۔ اسی طرح غواصی کی مثنوی طوطی نامہ میں ایسے واقعات بیان کییگئے ہیں‘ جو انسانی کردار کی خامیوں اور کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے پیش نظر غواصی نے مثنوی کی حمد و نعت میں اللہ اور اس کے حبیب کے وصف ستاری، عیب پوشی، غفاری اور کریمی کا ذکر کیا ہے۔ ایاغیؔ کی مثنوی نجات نامہ میں دین اسلام کے فرائض و احکام پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کے نعتیہ اشعار میں اعمال صالحہ اور سنت رسول کی اتباع پر زور دیا گیا ہے۔ قریشی کی مثنوی بھوگ بل جنسیات جیسے نازک موضوع پر ہے لیکن اس کے حمدیہ و نعتیہ اشعار میں بھی اس نے بڑے ہی عالمانہ انداز میں اور نہایت نفاست کے ساتھ موضوع سے ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ دکنی مثنویوں کے نعتیہ اشعار سے ان شعرا کے عشق رسول اور آنحضرت کی ذات گرامی سے ان کی والہانہ عقیدت و شیفتگی کا اظہار ہوتا ہے۔ دکنی شعراء نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعہ اردو میں نعت گوئی کے رواج کو عام کرنے میں اہم حصہ لیا۔ مثنویوں کے نعتیہ اشعار سے دیگر شعرا کو نعت کہنے کی تحریک ملی،جس کے نتیجہ میں دیگر اصناف سخن مثلاً غزل اور رباعی وغیرہ میں بھی نعتیہ مضامین کی شمولیت ہونے لگی۔ دکنی مثنویوں میں شعراء نے نعتیہ شاعری میں اتنے جہت اور امکانات روشن کیے کہ ان کے اقران و اعقاب کے لیے ان کی روشنی میں نعتیہ شاعری میںنئے رنگ چمکانا نئے پہلو اور نئے اسالیب ایجاد کرنا آسان ہوگیا۔ حاصل کلام یہ کہ دکنی مثنویوں کی نعتیہ شاعری نے اردو میں نعت گوئی کی روایت کے نشو و نما ‘ ارتقا اور اس کے فروغ و استحکام میں اساسی کردار انجام دیا۔



مصادر و منابع


۱۔ فخر دین نظامی،مثنوی کدم راؤ پدم راؤ،مرتبہ: ڈاکٹر جمیل جالبی،دہلی ۳ ۱۹۷ء، ص ۱۶ ۲۔مولوی عبدالحق،قدیم اردو کراچی، ۱۹۶۱ء ،ص ۱۸ ۳۔ایضاً ۴۔افسر صدیقی امروہوی،مخطوطات، انجمن ترقی اردوکراچی، ۱۹۶۵ء ،ص ۶۵ ۵۔اشرف بیابانی ،مثنوی نوسرہار (قلمی) مخطوطہ[۱] فخرونہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد، ص ۵۔۴ ۶۔مولوی عبدالحق،اردو زبان و ادب ،مرتبہ: ابن فرید علی گڑہ ،سنہ ندارد، ص ۶۴ ۷۔قریشی،مثنوی بھوگ بل (قلمی) مخطوطہ Illustraions مخزونہ سالار جنگ میوزیم حیدرآباد ،ص۳۔۲ ۸۔شاہ برہان الدین جانم ،مثنوی ارشاد نامہ ،مرتبہ اکبرالدین صدیقی ،شمولہ قدیم اردو حیدرآباد، ۱۹۷۱ء ،ص ۱۳۲۔ ۱۳۱ ۹)ایضاً ۱۰۔عبدل بیجاپور ،مثنوی ابراہیم نامہ ،مرتبہ: پروفیسر مسعود حسین خان،بنگلور ۱۹۹۹ء مقدمہ، ص ۸ اور۵۳ ۱۱۔مقیمی، مثنوی چندربدن و مہیار،مرتبہ: محمد اکبرالدین صدیقی،حیدرآباد، ۱۹۵۶ء ،ص ۷۹ ۱۲۔عاجز،مثنوی لیلیٰ مجنوں،مرتبہ: پروفیسر غلام عمر خان،حیدرآباد، ۱۹۶۷ء ،ص ۵۴ ۱۳۔صنعتی،مثنوی قصۂ بے نظیر، مرتبہ: پروفیسر عبدالقادر سروری،حیدرآباد، ۱۳۵۷ء، ص ۹۔۷ ۱۴۔صنعتی،مثنوی گلدستہ، مرتبہ: پروفیسر سید جعفر حیدرآباد، ۲۰۰۳ء ، ص۷۲ ۱۵۔ملک خوشنود ،مثنوی ’’جنت سنگھار ‘‘، دہلی، ۱۹۹۷ء، ص ۱۶۲ اور۲۶۴ ۱۶۔ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو،جلد اوّل ‘ ص ۲۶۶ ۱۷۔رستمی، مثنوی،خاور نامہ،مرتبہ: شیخ چاند ابن حسین،کراچی ،۱۹۶۸ء، ص ۱۳۔۱۲ ۱۸۔نصرتی، مثنوی گلشن عشق ،مرتبہ: سید محمد ،حیدرآباد، ص ۱۳ اور ۱۶ ۱۹۔نصرتی، مثنوی علی نامہ ،مرتبہ: پروفیسر عبدالمجید صدیقی ،حیدرآباد ۱۹۵۹ء، ص ۱۱۔۱۰ ۲۰۔ہاشمی،مثنوی،یوسف زلیخا (قلمی)،مخطوطہ نمبر ب۔ مذہبی قصے (۲۰) مخزونہ سالار جنگ میوزیم ،ص ۱۹۔۱۶ ۲۱۔ایاغی، مثنوی نجات نامہ، مرتبہ: پروفیسر محمد علی اثر، مشمولہ دکنی کی تین مثنویاں، حیدرآباد، ۱۹۸۷ء، ص ۴۹۔۴۸ ۲۲۔ڈاکٹر حسینی شاہد، شاہ معظم ،حیدرآباد ،۱۹۷۸ء ،ص ۶۸۔۶۷ ۲۳۔بحریؔ ، مثنوی ، من لگن ، مرتبہ :سخاورت مرزا ،کراچی، ۱۹۵۵ء، ص۱۱ ۲۴۔احمد گجراتی، مثنوی یوسف زلیخا مرتبہ :پروفیسر سیدہ جعفر،حیدرآباد ،۱۹۸۳ء، ص۲۱۰۔ ۲۰۹

۲۵۔وجہی،مثنوی قطب مشتری، مرتبہ: ڈاکٹر حمیرہ جلیلی ، دہلی ۲۰۰۰ء ،ص ۱۱۱۔۱۱۰

۲۶۔ایضاً، ص ۱۱۲ ۲۷۔غواصی، مثنوی سیف الملوک و بدیع المجال، مرتبہ: میر سعادت علی رضوی، حیدرآباد ،۱۳۵۷ء، ص ۴ ۲۸۔غواصی،مثنوی طوطی نامہ مرتبہ میر: سعادت علی رضوی، حیدرآباد ، ۱۳۵۷ء، ص۴ ۲۹۔غواصی، مثنوی مینا ستونتی، مرتبہ: ڈاکٹر غلام عمر خاں،مشمولہ قدیم اردو حیدرآباد ،۱۹۶۵ء، مقدمہ ص ۱۲ ۳۰۔ایضاً، ص ۲۱۔۲۰ ۳۱۔جنیدی،مثنوی ماہ پیکر مرتبہ: پروفیسر سید ہ جعفر شمولہ قدیم اردو حیدرآباد ۱۹۸۶ء ص ۸۰ ۳۲۔ابن نشاطی،مثنوی پھول بن، مرتبہ: پروفیسر عبدالقادر سروردی،حیدرآباد ۱۳۵۷ء ،ص۸۔۷ ۳۳۔طبعیؔ ، مثنوی بہرام و گل اندام،دہلی، ۱۹۹۹ء، ص ۱۳۰ ۳۴۔محبی، مثنوی معجزہ فاطمہ، مرتبہ: ڈاکٹر ابوالنصر خالدی،شمولہ دکھنی کلام اور اسلامی تہذیب ، حیدرآباد ۲۰۰۴ء ،ص۹۰ ۳۵ ۔فائز ،مثنوی رضوان شاہ و روح افزا،مرتبہ سید محمد حیدرآباد ۱۹۵۶ء ،ص ۶۔۵