دلاور علی آزر کا نقش ۔ ابو الحسن خاور

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 06:05، 18 جنوری 2019ء از ADMIN 2 (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Naqsh.jpg

مضمون نگار : ابو الحسن خاور

دلاور علی آزر کا نقش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دلاور علی آزر کے مجموعہ نعت "نقش" کا انتظار تھا ۔سید طاہر کی محبتوں کے طفیل یہ مرحلہ ءِ شوق بھی سر ہوا۔ دلاور علی آزر غزل کے ہنر ور شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری سے تعارف "سخن شناس" نامی ایک فیس بک فورم میں ہوا جہاں انتطامیہ نے "تنقیدی مضامین " کے لیے ان کی 20 غزلیں پیش کیں۔ کمال کی شاعری سامنے آئی ۔ ان غزلوں میں ان کے مطلعوں نے مجھے سحر زدہ کر دیا تھا جس کا میں نے اس وقت برملا اظہار بھی کیا ۔ اس وقت کے محفوظ کیے ہوئے کچھ مطلع ملاحظہ فرمائیے ۔

بند اک تازہ کہانی ہے مرے کوزے میں

سات دریاوں کا پانی ہے مرے کوزے میں ۔


دیکھ لو پھر یہ ستارہ نہیں روشن ہونا

بجھ گیا مَیں تو دوبارہ نہیں روشن ہونا


چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے

دیا جلانے کا مطلَب ہے شام ہو چکی ہے


یہ اِک فقیر کا حجرہ ہے آ کے چلتے بنو

پڑی ہے طاق پہ دُنیا اُٹھا کے چلتے بنو


مجھ کو مٹی سے علاقہ ہے اسے پانی سے

گویا مل سکتے ہیں دونوں بڑی آسانی سے


آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں

پیکر دکھائی دیتے ہیں مجھ کو چٹان میں


درونِ خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے

زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے


عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں

ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں


خاک اور چاک کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے

کوزہ گر ہوں سو مری جاں پہ بنی رہتی ہے


اب زیر مطالعہ مجموعہ "نقش" سے دلاور علی آزر کے ایسی ہی کھنک اور آب و تاب والے کچھ مطلع ۔


ہر ایک منظر میں سبز گنبد دکھا رہا ہے

گھما پھرا کے دل اپنے مرکز پہ لا رہا ہے


کس محبت سے کیا عشق نے سرشار مجھے

دل دھڑکتا ہے تو یاد آتے ہیں سرکار مجھے


ہوا ہے دل کو سہارا درود پڑھنے سے

سکوں ملا ہے دوبارہ درود پڑھنے سے


جو رزق ملنا تھا اس نام پر دیا گیا ہے

ہمیں حضور سے منسوب کر دیا گیا ہے


کتنی روشن ہے چراغوں کی سنواری ہوئی رات

نعت کہنے کی تمنا میں گزاری میں ہوئی رات


سلطنت جس کو میسر ہو فراوانی کی

اسے حاجت ہی کہاں تخت سلیمانی کی


تمام نور کے دریا اسی میں بہتے ہیں

وہ ایک اسم جسے اسم پاک کہتے ہیں


بخشا ہے اس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے

حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی نکتہ چیں مجھے


وہ رحمتوں کے خزینے سے ہو کہ آتا ہے

جو خواب میں بھی مدینے سے ہو کے آتا ہے


اس لیے قافلہ ئِ شوق نجف جاتا ہے

راستہ یہ بھی مدینے کی طرف جاتا ہے


دلاور علی آزر کی نعتیہ شاعری پر مزید گفتگو سے قبل آئیے "نقش" کے محرکات دیکھتے ہیں ۔


نعت لکھنے کی اجازت نہیں ملتی جس کو

اس سخن ساز سے اعزاز و شرف جاتا ہے


حشر تک اس کی چمک ماند نہیں پڑ سکتی

ورق ِ دل پہ اگر نعت لکھی جاتی ہے


کوئی تو نعت لکھی جائے لو ح ِ امکاں پر

کہ عمر بھر کی ریاضت کا حق ادا کیا جائے


شکر کرکے میں نے آزر لکھ لیا قرطاس پر

میرے دل پہ جب بھی اترا ہے خیال مصطفی


نعت کہنے کا ہنر اصل ِ سخن ہے آزر

آپ کے اسم سے خامے نے جلا پائی ہے


نعت کہنا چاہتا ہوں نعت کی تاریخ سے

آپ چاہیں گے تو مجھ کو مدعا مل جائے گا


نعت شامل ہے تو پھر روز قیامت مجھ کو

اپنا مجموعہ الفاظ بہت ہے مجھ کو


زہے نصیب کہ روشن ہوا ہے منظر نعت

چمک اٹھا مرے کشکول میں بھی اختر ِ نعت


ہاتھ آجائے اگر گنجنہ ءِ نعت ِ رسول

میرا اک اک لفظ ہو آئینہ نعت رسول


آخری دو اشعار تو ایسی نعتوں کے مطلع ہیں جن کی زمین میں لفظ "نعت" شامل ہے اور تمام اشعار اسی کعبے کا طواف کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی شاعر کی شاعری میں کسی مضمون کی تکرار ہو تو یا تو اس کے پاس مضامین کی کمی ہوتی ہے یا وہ مضمون اس کے لیے بہت اہم ہے اور بار بار دہرا کر بھی اس کی تسلی نہیں ہورہی ۔ دلاور علی آزر کے حوالے سے دوسری رائے صائب محسوس ہوتی ہے ۔ ان کی شہرت غزل گو شاعر کی حیثیت سے ہے ۔ دل سے چشمہءِ نعت پھوٹا تو اپنی نعتیہ شاعری سے غزل گو کی چھاپ ہٹانے کے لیے لاشعوری طور پر اس مضمون کی تکرار ہوئی کہ کہیں یہ نعتیہ شاعری ان کی غزل گوئی تلے اپنے مقام سے محروم نہ رہے ۔ مجھ اپنا یہ تجزیہ اس لیے قوی محسوس ہوتا کہ صرف ایک غزلیہ مجموعے کے بعد مجموعہ نعت منصہ شہود پر آنا نعت سے ان کے فطری انسلاک کا مظہر ہے ۔ یعنی ان کی نعت، نعت برائے نعت نہیں بلکہ ان کے اندر کی آواز ہے ۔ ان کے ہنر میں نعت کی محبت عود کر آئی تو "نقش" تخلیق ہوا ۔


غزل کہنے والے اہم نعت گو شعراء کی طرح دلاور علی آزر کی شاعری کی بھی یہی خوبی ہے کہ انہوں نے جتنے توانا لہجے میں غزل کہی ، نعت میں بھی اسی ہنروری کا ثبوت دیا ۔ انہوں نے اپنا اسلوب، اپنا لب و لہجہ برقرار رکھا ۔آزر نے نہ صرف اظہار بلکہ فکری سطح پر بھی اپنے تخیل سے ایمانداری برتی اور جو کہنا چاہا بلا ججھک کہا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ "نقش" میں فکری وسعت و فنی نکہت کے امتزاج کے عمدہ شعری نمونے نظر آتے ہیں ۔ ان کی اسی "دلاوری" کا تجزیہ کرتے ہوئے "نقش " پر اپنی گفتگو میں "عقیل ملک" فرماتے ہیں ۔

"ضرورت اس بات کی ہے کہ شعراء کو اجازت دینا چاہیے کہ وہ نعت کے مضامین میں آزادانہ تخلیقی رو کو بروئے کار لاتے ہوئے نعت کہنے کی جانب متوجہ ہوں اگر اس تخلیقی رو کے سامنے اڑچن پیدا ہوگی تو روایتی نعت کے مضامین کے تناظر میں نعت گوئی کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا "

میں عقیل ملک کی بات سے بہت متفق ہوں ۔ میرا اپنا بھی یہی نظریہ ہے کہ غزل کے عمدہ شعراء کو بلا ججھک نعت کہنی چاہیے ۔تاکہ نعت کے روایتی مضامین کو نیا پیراہن ملے ۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ نعت گوئی علماء کا نہیں، شعراء کا کام ہے ۔ یہ شاعری ہے ۔ فضائل و شمائل کا مضمون یا درس ِ حدیث نہیں ۔ اگر نعت گوئی کے لیے علم و پرہیز گاری ایسے ہی مقدم ہوتے تو کعب بن زہیر جیسے نو مسلم کو قصیدہ کہنے پر چادر نہ عطا ہوتی بلکہ سیرت ِ مطہرہ کا مطالعہ تجویز کیا جاتا اور کفار کی ہجو گوئی کے لیے حسان بن ثابت کی بجائے حضرت ابوبکر صدیق یا علی بن ابو طالب کو منتخب کیا جاتا ۔ لیکن چونکہ میدان شاعری تھا تو اسی کے شہسوار کا انتخاب کیا گیا ۔تاہم یہ امر بھی ہر لحظہ دھیان میں رہے کہ تقدس ِ نعت وہ نازک آبگینہ ہے جو ہوائے بے راہ روی کی خفیف سے خفیف لہر سے بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔کسی بھی قسم کی غیر ضروری فکری وسعت سرگردانی کے مترادف ہو سکتی ہے ۔ آداب ِ بارگاہِ رسالت اور دائرہ شریعت بحر حال نعتیہ اشعار کہنے سے زیادہ اہم ہیں ۔ میرے ذہن میں ایک حل یہ ہے کہ شاعر تخلیقی عمل میں تو اپنے تخیل کو آزاد رکھے لیکن نعت ِ مبارکہ پیش کرنے سے قبل اسے کڑے شریعی و فنی معیار پر پرکھے ، اہل علم سے رائے لے جہاں کھٹککا ہو وہ اشعار نکال دے ۔ "نقش" میں تخلیقی ازادی تو بھر پور نظر آئی لیکن تنقیدی محاسبہ قدرے کمزور رہا ۔ ممکن ہے کہ تخلیقی نشاط کا دورانیہ اس قدر طویل ہوگیا ہو کہ نظر ثانی میں تنقیدی لہر سر نہ اٹھا سکی جس کی وجہ سے

ازل سے آپ کی محفل سجائی جاتی ہے

ازل سے آپ کی محفل کے ساتھ میں بھی تو ہوں


میں دیکھتا ہوں محمد کو ایک منبر پر

میں ڈھونڈھتا ہوں خدا کا جواز مسجد میں


تہجد اپنے ہی گھر میں پڑھوں گا میں آزر

ادا کروں گا سحر کی نماز مسجد میں


جیسے اشعار بھی اس مینار ِ عقیدت پر آبیٹھے ہیں ۔


دلاور چونکہ غزل کے ہنرور نوجوان شاعر ہیں تو ان کی نعتیہ شاعری میں غزلیہ اظہار ایک فطری عمل ہے ۔ حفیظ تائب ہوں، احمد ندیم قاسمی ہوں ، ریاض مجید ہوں یا مظفر وارثی ۔ غزل کا شاعر جب نعت کی طرف آتا ہے تو اپنا اسلوب بھی ساتھ لاتا ہے ۔ کئی بار تو اسلوب کے ساتھ ساتھ غزل کا رنگ بھی اس کے ساتھ ہی چلا آتا ہے ۔ حتی کہ حفیظ تائب جیسے محتاط شاعر بھی اپنی نعت کو


ماہ عرب کےآگے تری بات کیا بنے

اے ماہتاب روپ نہ ہر شب بدل کے آ

جیسے غزلیہ رنگ سے نہیں بچا پاتے ۔ اور امام نعت گویاں احمد رضا خان بریلوی کے دیوان میں بھی اس نمک کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

ترے دن اے بہار پھرتے ہیں

---


کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا

یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

تمام جید نعت گو شعراء س اس کی مثالیں لائیں جا سکتی ہیں ۔ اور پچھلی کچھ دہائیوں کے شعرا میں محسن نقوی، مظفر وارثی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ میں غزلیہ آہنگ کثرت سے نظر ائے گا ۔ اس ضمن میں نقش کی غزلیہ زرخیزی پر "عقیل ملک " نے سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔صبیح رحمانی نےبھی کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے آزر میں غزل کے مزاج کو خوب بھانپا ہے ۔ میں اس پہلو سے دامن بچا کر ہی نکلنا چاہ رہا تھا لیکن دو چار اشعار تو ذہن سے ایسے چپکے ہیں کہ زکر کیے بغیر چارہ نہیں ۔ ان اشعار میں غزل کا عصری لہجہ اور نعت کا تقدس گوندھ کر کمال کی شاعری تخلیق کی گئی ہے


تم آئِنے کے تحیر کی بات کرتے ہو

وہاں تو آئینہ بردار آئینہ ہو جائے

مرا یہ گھر کسی میلاد کے وسیلے سے

میں چاہتا ہوں کہ سرکار آئنہ ہو جائے


اسم پڑھتے ہوئے ہونٹوں نے مرا بوسہ لیا

پل میں اوقات بڑحا دی مری پیشانی کی

حبس جب بڑھنے لگا ہم نے پکارا تجھ کو

سانس لینے میں ترے اسم نے آسانی کی


صدائیں دینے لگی ہے خوشبو کواڑ کھولے

سنہری جالی کا نور مجھ کو بلا رہا ہے

ایسے بہت سے اشعار ہیں لیکن ایسا نہیں کہ دلاور کی ساری شاعری میں یہی رنگ ہے ۔ میرا شعبہ نعت ہے اور میں غزل سے صرف اس لیے جڑا ہوا ہوں کہ شاعری کے معاصر چلن سے واقف رہوں تو میرے لیے دلاور کا دوسرا رنگ زیادہ اہم رہا۔ مجھے یہ دیکھنا تھا کہ دلاور اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے نعت کی روایت کو کیسے نبھاتے ہیں ۔ یہی اصل امتحان تھا ۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ "نقش" میں ایسے بہت سے نقوش بھی موجود ہیں جن میں آزر کے اسلوب کی کھنک تو برقرار رہی لیکن غزلیہ آہنگ پیچھے اور نعت کی روایت سامنے کھڑی نظر آتی ہے مضمون و لفظیات نعتیہ ہیں اور اظہاریہ عصری ۔ شعریت کا دامن یہاں بھی نہیں چھوٹتا ۔ نعتیہ ماحول اور شعری تازگی ان اشعار کو دو آتشہ بنا دیتی ہے ۔ یہ اشعار نعت سے محبت رکھنے والے مجھ جیسے سادہ مزاج قارئین کے بربط ِ دل پر بھی نغمہ محمدی چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ آپ بھی سر دھنیے ۔

جو کچھ ملا حضور کے صدقے سے ہے ملا

اور جو نہیں ہے اس کی ضرورت نہیں مجھے


روشنی اس کی مہ و مہر سے بڑھ کر نکلی

وہ ستارہ جو نمودار مدینے سے ہوا


اسم تھا میرے لبوں پر اور نہایت پاک اسم

جو مری انگلی پکڑ کر مہرباں تک لے گیا


درود پڑھ کے قدم جب زمیں پہ رکھتا ہوں

تو خود ہی راستے ہموار ہونے لگے ہیں


آپ کے در کی گدائی کو زمانے آئے

آپ کی ذات غنی ہے مرے مکی مدنی

آپ کی آل سے نسبت کا شرف حاصل ہے

دل مرا پنج تنی ہے مرے مکی مدنی

آپ کے نقش ِ کف پا سے ملی ہے نسبت

خود بخود راہ بنی ہے مرے مکی مدنی


گلے لگاو کہ خوشبو ہو منتقل آزر

کہ آنے والا مدینے سے ہو کے آتا ہے


ایسی منزل جہاں آہٹ نہیں منظور آزر

دل وہ ناداں کہ بجاتے ہوئے دف جاتا ہے


چیختا ہوں کہ مدینے کوئی لے جائے مجھے

لیکن آواز گناہوں میں دبی جاتی ہے


صد شکر کہ یوں لطف و کرم آپ نے رکھا

دنیا میں بھِی انساں کا بھرم آپ نے رکھا

آزر مجھے دنیا کی ضرورت نہیں رہی پھر

جب سر پہ مرے دست ِ کرم آپ نے رکھا


اک توازن ہے یہ دھڑکنوں کے لیے

اس قدر معتدل آپ کا ذکر ہے


طاق ِ تیرہ بخت میں ترسیل ِ نعت پاک سے

روشنی کرتا ہوں میں قندیل ِ نعت پاک سے

عہد کے اس دائرے میں ہم نے آزر لفظ کا

راستہ ماپا ہے سنگ ِ میل نعت پاک سے


جو مشکل ہے بتا کھل کے در اقدس پر

وہ مدد گار دوعالم ہیں مدد مانگ ان سے


میں اضطراب سمجھتا ہوں سب صحابہ کا

وہ چاہتے تھے کہ صحبت کا حق ادا کیا جائے


پا برہنہ میں نکل جاوں حضوری کے لیے

مرے تلووں میں چبھیں خار مغیلان ِ عرب


اسی لیے ہی تو روشن ہے کائنات آزر

مرے حضور کے قدموں کی دھول ہوگئی تھی


"نقش " کے مطالعہ سے بہت راحت ملی کہ آزر جیسے غزل کے صاحب ِ اسلوب شاعر گلشن نعت میں مدحت سرا ہوئے ہیں ۔ان کی آمد صبائے نعت کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ۔ دلاور علی آزر کو بہت مبارکباد کہ ان کا انتخاب ہوا اور داد کہ انہوں نے اس عطا کا اظہار اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ کیا ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ آزر کا یہ شعر ہم سب کے حق میں قبول ہوجائے ۔

بس اتنی شعر فہمی عطا کیجئے مجھے

مجھ سے غلط نہ ہو کبھی تفہیم نعت کی ۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات