دبستان ِ نعت ایک جائزہ -مفتی توفیق احسن ؔ برکاتی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: مفتی توفیق احسنؔ برکاتی (ممبئی)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

دبستان نعت : ایک جائزہ

صنف نعت یک موضوع رہتے ہوئے بھی حد درجہ متنوع،ہمہ رنگ،مشکل تر اوربہتر صنف سخن ہے جو شعر کی تمام ہیئتوں میں پیش کی جا سکتی ہے۔اس کا موضوع اگر چہ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے لیکن اس ایک ذات میں اتنے بلندترین اوصاف و کمالات جمع ہیں کہ کما حقہ ان سب کا احاطہ ناممکن امر ہے۔یہی ہمہ جہتی صنف نعت کو ہمہ رنگ بنادیتی ہے اوراس سے تحقیق، تنقید، تدوین، تذکرہ اور تجزیہ جیسی کئی اصناف نثرمتعلق ہوجاتی ہیں۔امام نعت گویاںامام احمد رضا قادری قدس سرہ حد درجہ ثناخوانی اور نعت گوئی کے باوصف یہ کہتے نظر آتے ہیں:


اے رضاؔ خود صاحبِ قرآن ہے مداحِ حضور

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

نعت گوئی کا یہ سلسلہ عہد رسالت تک دراز نظر آتا ہے جس کا سراغ حضور اکرم ﷺ کے چچا ابو طالب کے ان اشعار میں پوشیدہ ہے جو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایام طفلی میں کہے گئے تھے،جس کا ایک مشہور شعر یہ ہے:


وابیض یستسقی الغمام بوجہہ

ثمال الیتٰمیٰ ، عصمۃ للارامل

خود ممدوح کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کو استحسان کی نگاہ سے ملاحظہ فرمایا ہے۔ صحیح البخاری کتاب الاستسقاء میں کئی احادیث میں یہ شعر موجود ہے -سیرت ابن ہشام میں ابو طالب کا یہ پورا کلام شامل کیا گیا ہے- مختلف اوقات میں جماعت صحابہ کے عربی شعرابشمول حسان بن ثابت ،کعب بن مالک ، عبد اللہ بن رواحہ وغیرہم نے جس شان و شوکت سے ذاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعتیہ شاعری کا حصہ بنایا اس کی ایک مستقل تاریخ ہے۔گویا نعت نگاری سنتِ صحابہ ہوئی،نعت گوئی کا یہ سلسلہ عہد صحابہ سے آج تک دراز ہے اور قیامت تک منقطع ہونے والا نہیں ہے۔ مشکل رہتے ہوئے بھی ہر دردمند ایمان والا اس سلسلۃ الذہب سے خود کو جوڑ نا باعثِ فخر سمجھتا ہے اور خوب خوب کہنے کے بعد یہ کہہ کر قلم روک لیتا ہے:


لایمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

عربی نعت نگاری کا رنگ شیخ سعدی ؔاور علامہ جامیؔ وغیرہ پر چڑھا تو فارسی زبان مالامال ہوئی اور فارسی سے اردو زبان کو یہ حسن و جمال میسر آیاتو زبانِ اردو میںکہی گئی نعتیں دلوں میں محبتوں کا قندیل روشن کرنے لگیں۔بر صغیر ہند وپاک کے علاوہ اردو کی نئی بستیوں میں رہائش پذیر شعرا بھی اس کے حسن پر فریفتہ ہوئے اور اب اتنی مقدار میں نعتیہ نغمات کہے جانے لگے کہ ہر سال سیکڑوںکی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہورہے ہیں اور محافل میں ان کا زور قائم ہے۔

نعت گوئی کے ساتھ تنقید نعت اور تفہیم نعت کی اہمیت بھی فزوں تر ہو جاتی ہے کیوں کہ اس کے بغیر اچھی نعت کہی ہی نہیں جاسکتی۔چوں کہ نعت میں وہی مضامین برتے جاسکتے ہیں جو شانِ رسالت سے ہم آہنگ ہوں ،بے جا مبالغہ آرائی یا تقصیر شان پر مبنی خیال کی یہاں بالکل ہی گنجائش نہیں ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ذات محمدی،عظمتِ رسول،شمائل وخصائل نبوی،سیرت کے مہتم بالشان کارنا مے،نبوی معجزات،نبوی کمالات، اختیارات نبوت اور اعلیٰ ترین اوصاف ہی نعت میں منظوم کیے جا سکتے ہیں اور وہ بھی مکمل حدود کی رعایت کے ساتھ۔ایسی مبالغہ آمیزی کہ شرک و توحید سے ہم رشتہ ہوجائے نعت میں کسی طرح گوارا نہیں کی جاسکتی اور ایسی تقصیر کہ ذاتِ رسول عام سی دکھائی دینے لگے یہ بھی ناقابل برداشت ٹھہرے گی۔اس لیے تنقید نعت کی اہمیت مسلم ہوجاتی ہے۔نعت کی تاریخ، نعت گو شعرا کے تذکرے،نعتوں کا انتخاب،تدوین، نعت شناسی اور بھی بہت کچھ دبستان نعت میں سمائے ہوئے ہیں اور یہ سب وقتًا فوقتًا منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔

ہندستان کے بالمقابل پاکستان میں نعت شناسی اور تفہیم نعت کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے جس میں چند ممتاز محققینِ نعت کی ادبی کا وشیں کافی پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔نور احمد میرٹھی ، راجہ رشید محمود،طاہر سلطانی،ابوالخیر کشفی،عبد الحکیم اختر شاہ جہان پوری،صبیح رحمانی،عزیز احسن وغیرہ پاکستانی محققین کا نام اس وقت ذہن میں آرہا ہے اور ہندستانی محققین میںسیدشمیم گوہر، طلحہ رضوی برق ، صابر سنبھلی،فاروق احمد صدیقی، ابوسفیان اصلاحی،ڈاکٹریحییٰ نشیط،سراج احمدبستوی،حلیم حاذق، شرر مصبا حی ،امجد رضا امجد ،مشاہد رضوی اور غلام ربانی فدا کا نام لیا جاسکتا ہے جو نعت نگار بھی ہیں اور ناقدینِ نعت بھی -پاکستان میںتو ایک زمانے سے باقاعدہ حمد و نعت کے مستقل رسائل شائع ہو رہے ہیں جن میں نعت رنگ،سفیر نعت،حمد و نعت ، فروغِ نعت وغیرہ جرائد کو خصوصی مقام و شہرت حاصل ہے۔ہندستان میں صرف موضوع نعت و حمد کو اجالتے جرائد نہ کے برابر ہیں۔مولانا غلام ربانی فداکرناٹک سے ششماہی جہان نعت نکالتے ہیںاور اب سنت کبیرنگر۔یوپی سے ڈاکٹر سراج احمد قادری کی ادارت میں ’’دبستان نعت‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے البتہ نعتیہ شاعری کے آغاز و ارتقا پر انڈیا میں کچھ کتابیں ضرور طبع ہوئی ہیں مگر وہ انفرادی کوششیں ہیں یا یونیورسٹی میں پیش کیے گیے پی،ایچ،ڈی اور ایم فل کے مقالات جنھیں بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیاہے۔ایسے میں شش ماہی ’’دبستان نعت‘‘ کی اشاعت یک گونہ طمانیت بخشتی ہے جو پروفیسر سید حسین احمد سجادہ نشیں خانقاہ دیوان شاہ ارزانی،پٹنہ کی سرپرستی اور فیروز احمد سیفی۔ نیویارک کی نگرانی میں شائع ہوا ہے۔

’’دبستان نعت‘‘ حمد و نعت پر مشتمل ایک تحقیقی و تنقیدی جریدہ ہے جس کا پہلا شمارہ جنوری تا جون ۲۰۱۶ء چار سو صفحات کو محیط اس وقت راقم کے پیش نگاہ ہے۔نعت و حمد کے موضوع پر تحقیقی،تاریخی و تنقیدی و تجزیاتی مقالات کے ساتھ عاشق رسول حضرت علامہ جامی ؔعلیہ الرحمہ کا ایک مختصر گوشہ بھی شامل ہے اور اس جریدے کا انتساب بھی انھیں کے نام ہے۔مدیر جریدہ ڈاکٹرسراج احمد قادری خود ایک ممتاز ناقد و محقق ہیں۔ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ہند و پاک کے مؤقر جرائد میں جگہ پا رہے ہیں۔نعت رنگ کراچی میں انھوں نے مستقل لکھا ہے۔امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی،ایچ ، ڈی کی سند پائی ہے اس لیے تحقیقی و تنقیدی نعت ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔’’دبستان نعت‘‘ کا اجرا اسی مزاج کا پرداختہ ہے۔ اداریہ کے علاوہ یہ جریدہ چھ مستقل کالموں سے سجاہوا ہے اور اس کا ساتواں حصہ’’ گوشۂ علامہ جامیؔ‘‘ ہے۔ادارتی تحریر میں ڈاکٹر سرا ج احمد قادری نے اس مجلے کے اجرا کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے جس میں ان کا دردِ دل اور جذبۂ پر خلوص صاف دکھائی دیتا ہے۔لکھتے ہیں:ـ

’’اس مجلے کو پیش کر نے کا ہمارا بنیادی مقصد حمد و نعت کے فروغ و ارتقا کے حوالے سے ادبا،شعرا اور محققین کی ان کاوشوں سے اہل علم کو روشناس کرانا ہے جو اب تک ناقدین ادب کی نگاہ شوق سے محروم رہی ہیں۔آج بھی اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ مخطوطات کی شکل میں یونیورسٹیز اور دیگر کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔انھیں مخطوطات میں نعتیہ ادب کے گل سر سبد شعراے کرام کے مسودے اور بیاضیں بھی ہیں جن کو اب تک اہل علم کے درمیان متعارف نہیں کرایاجاسکا۔ہماری کوشش ہے کہ ان تک رسائی کر کے منصۂ شہود پر لاکر اہل علم و فن کے درمیان متعارف کرایاجائے جس سے کہ نعت کی عظمت کی جیوتی ان کے دلوں کو جگمگا سکے اور وہ اس عظیم فن کی جانب متوجہ ہوسکیں-‘‘(ص ۹)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آگے انھوں نے اور بھی قیمتی تاریخی حقائق پیش کیے ہیں جن کا تعلق نعت،تحقیقِ نعت اور تنقیدِنعت سے ہے اور پھر موجودہ اربابِ تنقید کو دعوت فکر دی ہے۔ابواب کا تعارف اور ان میں شامل اہم مقالات کا مختصر جائزہ بھی شاملِ اداریہ ہے جس کی وجہ سے پورے جریدے کا اجمالی خاکہ ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔ابواب یہ ہیں:

’’تحمید و تقدیس،گنجینۂ نقد و نظر،رحمتِ بیکراں،مقالات، گوشہ علامہ جامی، گلہاے عقیدت،پیام مدحت۔‘‘

تحمید و تقدیس اور گلہاے عقیدت میںنعتیہ و حمدیہ نغمات کو جگہ دی گئی ہے اورپیام مدحت میں اہل علم کے مکاتیب رکھے گئے ہیں ، بقیہ ابواب میں مضامین و مقالات درج ہیں۔گنجینۂ نقد و نظر میں پانچ مضامین ہیں:کیا نعت صنف سخن ہے؟(ڈاکٹر سید حسین احمد)،فن نعت اور نعت گوئی (ڈاکٹرسیدخسرو حسینی)،حدائق بخشش کے صنائع بدائع پر ایک اور نظر(ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی)،نعت اور ہماری شعری روایت(ڈاکٹر عزیز احسنؔ)نعت رسول مقبول اور اس کا ارتقا(ساجدؔ حسین امروہوی)۔

ڈاکٹر سید حسین احمد کا موقف جو ان کے مضمون کے مطالعے سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ نعت صنف سخن نہیں بن سکتی کیوں کہ نہ اس کی ہیئت اور فارم متعین ہے نہ اجزائے ترکیبی۔جس طرح غزل، قصیدہ،مرثیہ،مثنوی اور رباعی کا فارم مقرر ہے اور اس کے اجزاے ترکیبی بھی متعین ہیں،اصناف کی مختلف مثالوں سے اپنی بات کو مؤثق کرتے ہوے اخیر میں رقم طراز ہیں:’’جس طرح اردو اور فارسی شاعری کا بڑا حصہ صوفیانہ اشعار پر مشتمل ہے لیکن اسے صنف سخن کا درجہ حاصل نہیں،ٹھیک اسی طرح نعتیہ شاعری مضامین سخن میں سے تو ہے لیکن صنف سخن نہیں-‘‘ (ص :۲۲ )

یہ سچ ہے کہ اسلاف ادب نے نعت کو صنف کا درجہ نہیں دیا ہے لیکن بعد کے ناقدین و محققین ادب نے اسے مستقل صنف کا درجہ دیا ہے اور اس پر بحثیںکی ہیںاس لیے یہ موقف مکالمے اور نئی بحث کا آغاز کرسکتاہے۔

ڈاکٹر سید خسروحسینی کا مقالہ ’’فن نعت اور نعت گوئی‘‘اپنے موضوع پر ایک جامع اور معلومات افزا مقالہ ہے اور تیس صفحات پرمشتمل ہے۔مقالہ نگار نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے پیش کیا ہے۔حصہ اول میں فن ادب،فن شعراے عہد جاہلیت اور شعراے اسلام اور شعر پر اپنی تحقیقات لکھی ہیں اور حصہ دوم میں نعت کے لفظی اور اصطلاحی معنی و مفہوم،احکام نعت،موضوع نعت،مضامین نعت، احکام نعت گو،اور نعت گوئی کے لوازمات و مقتضیات زیر بحث آئے ہیں۔نعت گوئی میں حفظ مراتب کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ساتھ ہی طریقۂ خطاب و انتخابِ الفاظ میں حسن و ضبط اور پاکیزگی لازم ہے۔حفظ مراتب کے ذیل میں مقالہ نگار نے ایک جگہ ممتاز حسن کا یہ قول نقل کیا ہے:

’’خدا اور بندے کا فرق اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے، رسول کی بشریت پر قرآن نے اور خود رسول نے بار بار زور دیا ہے۔قل انما انا بشر مثلکم اور ماعرفناک حق معرفتک اس پر شاہد ہیں-‘‘مقالہ نگار نے ممتاز حسن کے قول پر یہ کمینٹ کیا ہے:’’بشر مثلکم پر تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے،یہاں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ کسی بھی چیز کی مثل اصل (محمد)جیسی نہیں ہو سکتی،اصل اور مثل میں نمایاں فرق ہے-‘‘(ص: ۵۱)

یہاں رک کر تبصرہ نگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ عام طور پر ناقدین نعت ’’ قل انما انا بشر مثلکم‘‘کو اتناہی بیان کرتے ہیں اور’’ یوحیٰ الیّ‘‘اسی سے بالکل متصل حصے کو چھوڑ دیتے ہیں، حالاں کہ ضابطے کے تحت مکمل آیت پیش کرنی چاہیے جس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشریت کو ’’یوحیٰ الّی‘‘ کے حقائق سے آراستہ کر کے نمایاں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس استدلال کی روشنی میں ناقدین کے مخاطب وہ لوگ کم ہی ہوتے ہیںجو رسول کی بشریت کے منکر ہیں اور میری معلومات کی حد تک اس وقت دنیا میں شاید ہی کوئی ہو جو ’’بشریت مصطفی ‘‘کا انکار کرتا ہو پھر ایسے کسی گروہ کو مخاطب کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ تیسری بات یہ کہ ممتاز حسن کی تحریر کا یہ جملہ ثبوت و شواہد کا متقاضی ہے:’’رسول کی بشریت پہ قرآن نے اور خود رسول نے بار بار زور دیا ہے-‘‘ تبصرہ نگار سوال کرتا ہے کتنی بار قرآن میں اور کتنی بار رسول نے اس پر زور دیا ہے؟۔ ’’بار بار ‘‘کی بار بار تکرار سے یہ ناقد کیا نتیجہ نکالنا چاہ رہے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ خدا، خدا ہے اور رسول، رسول ہیں اور دونوں ذاتوں میںحفظ مراتب کا خیال رکھنا ایمانی تقاضا ہے لیکن اس کے ثبوت کے لیے:’’قل انما انا بشر مثلکم‘‘ (’’یوحیٰ الی‘‘سے صرفِ نظر کرکے)جیسی آیت ہی پیش کرنا لازم ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم بشریت مصطفی کو اپنی تمام تر بصیرت و بصارت کے باوجود کما حقہ سمجھ نہیں سکتے۔نبوت و رسالت کے بقیہ اوصاف و امتیازات مصطفی کی وضاحتوں کی روشنی میں بھی تو حفظ مراتب کا عقدہ حل کیا جا سکتاہے۔جہاں خدا اور بندے کا فرق اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے وہیں رسول اور امتی کا فرق بھی اسلامی حقیقت ہے،اس پر بھی غور کرنا ہمارا ایمانی و ادبی فریضہ ہے۔

ڈاکٹر صابر سنبھلی نے امام نعت گویاں امام احمد رضا قادری کی نعت گوئی پر مستقل مضامین تحریر کیے ہیں۔زیر نظر مضمون حدائق بخشش کے صنائع و بدائع پر ایک اور نظر، ایک الگ جہت سے روشنی ڈالتا ہے، اس کا تعلق فنی خوبیوں کی نشان دہی اور امام احمد رضا کی قادر الکلامی سے ہے جوبلاغت کے کئی ابعاد روشن کرتا ہے۔ڈاکٹر عزیز احسنؔپاکستان کے محققین نعت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں،تحقیق و تنقیدِ نعت پر قیمتی مقالات کے ساتھ مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں۔نعت اور ہماری شعری روایت پریہ مختصر مضمون ایک جائزہ ہے جس میں تحقیق کا پہلو کم اور تجزیے کا پہلو زیادہ ہے۔اسی باب میں مرزا ساجد حسین امروہوی کا مضمون نعت رسول مقبول اور اس کی ارتقا کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے جس میں نعت گوئی کی تاریخ مختلف ادوار کی وضاحت کے ساتھ مع مثال پیش کی گئی ہے۔اشعار کا انتخاب بھی خوب ہے۔

باب سوم رحمت بیکراں میں شامل دونوں مضامین’’ عصرحاضر کے بلند قامت غیر مسلم نعت گو شاعر حضرت کرشن کمار طورؔ‘‘(ڈاکٹرفہیم احمد صدیقی)اور ’’ڈاکٹر صغریٰ عالم ایک خوش فکر نعت گو شاعرہ‘‘ (فیروز احمد سیفی)باب چہارم کے مقالات میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔یہ دونوں مضامین الگ باب میں کیوں آ گئے؟مرتب نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔پہلے مضمون کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرتب کے الفاظ میں:’’میگزین کا نصب العین غیر مسلم نعت گو شعرا، خواتین نعت گو شعرا کی نمائندگی کو ترجیح دے کر اردو ادب میں ان کا جائز مقام و مرتبہ دلانا بھی ہے‘‘۔(ص۱۳)اس لیے ایک علاحدہ باب متعین کر دیا گیا ہے لیکن دوسرے مضمون پر سوال کھڑا ہوسکتا ہے۔

اس جریدے کا ایک اہم باب ’’مقالات نعت‘‘ ہے جس میں مختصر اور طویل تیرہ مضامین و مقالات شامل ہیں،عنوانات یہ ہیں:

حرف آرزو(منیر احمد ملک) ،ناعت پرفیضان منعوت (قاضی محمد رفیق فائز ؔفتح پوری)،انسان کامل ﷺ کا ذکر خیر(سید اقبال حیدر )، مظفرؔر وارثی کاحمدیہ آہنگ (ڈاکٹر عزیز احسنؔ)،طاہرؔ سلطانی کے نعتیہ کلام نعت روشنی کا تنقیدی مطالعہ(محسن اعظمؔ ملیح آبادی)، غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ (طاہرؔ سلطانی)،میلاداکبر: ایک مطالعہ (ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری)،نعتیہ شاعری کا تاریخی پس منظر(علیم صبا نویدی)،مقبول بارگاہ رسالت نعت گو شاعر رؤفؔ امروہوی(صابرؔ سنبھلی)،اعجازؔ کامٹوی کی نعتیہ شاعری(ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی)، علماے گھوسی کی نعت نگاری(ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی)،مولانا فروغ احمد اعظمی اور ان کی نعتیہ شاعری(مولانا نور الہدیٰ مصباحی)اور نثارؔ کریمی ایک قادرالکلام شاعر(مولانا وصال احمد اعظمی)۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

چند کو چھوڑ کر بقیہ مضامین نئی بحثوں پر مشتمل ہیں اور انھیں مقالات نعت میں شامل رہنے کا حق ہے۔علیم صبا نویدی تحقیق و تنقید اور شعر و شاعری کا بڑا نام ہے مگر ان کا مضمون نعتیہ شاعری کا تاریخی پس منظرکافی ہلکا پھلکا دکھائی دیتا ہے اور اس کا موضوع باب دوم سے میل کھا تاہے۔منیر احمد ملک،عزیز احسنؔ،طاہر ؔسلطانی،صابر ؔ سنبھلی، مشاہد رضوی،شکیل اعظمی،نور الہدیٰ مصباحی اور وصال اعظمی کے مقالا ت میں تحقیق کے ساتھ تجزیے اور تنقید کا پہلو موجود ہے جن میں طاہرؔ سلطانی کا ’’غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ‘‘ اور شکیل احمد اعظمی کا’’ علماے گھوسی کی نعت نگاری‘‘ کافی مبسوط اور تاریخی حقائق کا ترجمان ہے۔ڈاکٹر صابر ؔ سنبھلی نے ممتاز نعت گو شاعر محترم رؤفؔ امروہوی پر مشاہداتی و مطالعاتی گفتگو کی ہے اور ان کی نعتیہ شاعری کے امتیازات گنوائے ہیں۔ رؤفؔ امروہوی اپنے دولت کدے پر ہفتہ وار نعت خوانی کی بزم منعقد کرتے تھے،بعد نماز جمعہ یہ محفل جمتی تھی،آپ سرکاری اسکول میں مدرس تھے،حافظ قرآن تھے،جگرؔ مرادآبادی سے شرف تلمذ رکھتے تھے،ہفتہ وار منعقد ہونے والی بزم نعت خوانی کے تمام اخراجات وہ خود ادا کرتے تھے اور جب سے نعت خوانی کا یہ ہفتہ وار پروگرام شروع ہوا تھا کسی مجبوری یا ناگریز وجہ سے اس کا ایک بھی پروگرام ناغہ نہیں ہوا۔رؤفؔ امروہوی کے شعری مجموعے ’’گل رنگ تخیل‘‘میں شامل پروفیسر نثار احمد فاروقی کے پیش لفظ سے پتہ چلتاہے:’’اس باون سال میں اندازہ ہے کہ دوہزار چھ سو باون نشستیں اس کی ہو چکی ہوںگی -‘‘ (ص: ۱۰)

یہ بہت بڑی سعادت ہے جو کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ اسی وجہ سے مقالہ نگار نے ’’مقبول بارگاہ رسالت نعت گو شاعر حضرت رؤفؔ امروہوی مرحوم‘‘کے عنوان سے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔حضرت رؤفؔ امروہوی کے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔گل رنگ تخیل کے علاوہ لخلخۂ محامد اور کوثر رحمت،لخلخۂ محامد اور کوثر رحمت تقدیسی شاعری پر مشتمل ہیں اور اول الذکر مجازی کلام ہے۔لخلخۂ محامد کے مطالعے کے وقت ڈاکٹر صابر ؔسنبھلی کے نہاں خانے میں رؤفؔ امروہوی کے درج ذیل شعر کا خیال محفوظ ہو گیا تھا:


رؤفؔ ان کی غلامی میں بس اتنی فکر ہے مجھ کو

کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں ہم تجھے آزاد کرتے ہیں

مقالہ نگارجب اپنانعتیہ دیوان’’دیوان صابرؔ‘‘مکمل کررہے تھے توایک شعریہ بھی تحریرکیاتھااوروہ دیوان نعت میں شامل بھی ہے :


با ادب ہیں حاضرِ در ہم غلامانِ حضور

جو بھی چاہیں دیں مگر درکار آزادی نہیں

مقالہ نگار ڈاکٹر صابر ؔ سنبھلی لکھتے ہیں : ’’اگر چہ اب تک کسی نے نہ تو ٹوکا ہے اور نہ اعتراض کیا ہے مگر میں خود اعتراف کر تا ہوں کہ یہ مضمون اصل میں رؤف ؔصاحب کا ہی ہے جس نے ایک مدت بعد میرے شعر کا روپ لے لیا،ورنہ میرے ذہن کی رسائی شاید یہاں تک نہ ہوتی-‘‘ (ص :۱۹۶ )اس اعترافِ نارسائی اور شرمندگی کے بعد لکھتے ہیں کہ میں ’’دیوان صابرؔ ‘‘کی دوسری اشاعت میں اپنے اس شعر کو خارج کر دوں گا اور جس کے پاس یہ دیوان ہے وہ اس شعر کو قلم زد کردیں-‘‘

یہ بہت بڑی بات ہے جو صابرؔ سنبھلی جیسے کمیاب حق گویوں اور معترفین کے قلم سے نکلی ہے ورنہ ارباب شعر وہ گل کھلاتے ہیں کہ’’ توارد‘‘ کیا،’’سرقہ‘‘ بھی سرپیٹتا رہ جاتاہے۔

’’گوشہ جامیؔ‘‘ میں معروف نعت گو شاعر تنویر پھولؔ امریکہ کا مضمون ’’علامہ جامیؔ کی دو مشہور نعتیں‘‘،ڈاکٹر یحییٰ نشیط پونے کا ’’مولانا جامیؔ کی نعت نگاری‘‘ اور ڈاکٹر رضوان انصاری کا’’ حضرت عبد الرحمن جامیؔ :نادر زورگار شخصیت‘‘ شامل کیا گیا ہے۔اسی گوشہ کا ایک اہم حصہ علامہ جامیؔ کے فارسی نعتیہ کلام کا اردوترجمہ بھی ہے جسے ڈاکٹر نور احمد ربانی کی کتاب ’’کشف العرفان‘‘سے اخذ کیا گیا ہے۔یہ کل اکتیس نعتیہ کلام ہیں اور سب انتخاب ہیں۔ڈاکٹر یحییٰ نشیط اور ڈاکٹر رضوان انصاری کا مقالہ حاصل گوشہ ہے جس کے مطالعے سے علامہ جامیؔ کی نعتیہ شاعری اور ان کی علمی و قلمی خدمات کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ناقدین نعت کا عام رویہ ہے کہ جب وہ گزشتہ صدی یا موجودہ نعت گو شعرا کے نعتیہ سرمائے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو استمداد ، استعانت،شفاعت طلبی،اختیاری حقائق اورمراسم اہل سنت کے مضامین و خیال کی موجودگی کو غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یک رخی تنقید کر کے قلم کو زخمی کر ڈالتے ہیں۔بسا اوقات الزام کفر و شرک یا شائیہ کفر تک پہنچ جا تے ہیں لیکن ان کا یہی رویہ اس وقت تحسین آمیز ہوجاتا ہے جب اسی طرز کا مضمون و خیال اسلاف شعرا کی شاعری میں انھیں دکھائی دیتا ہے۔ علامہ عبد الرحمن جامی ؔعلیہ الرحمہ کا سن ۱۴۱۴ء اور سن وفات ۱۴۹۵ء ہے ہجری اعتبار سے ۸۱۷ھ میں ولادت اور ۸۹۸ھ میں وفات ہوئی گویا آپ نویں صدی ہجری اور پندرہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈاکٹر یحییٰ نثیط نعتیہ شاعری کے لوازمات پر گفتگو میں احتیاطی تدابیر کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:

’’بعض اوقات عقیدت کا یہ غلو حدود شرعیہ کو پھلانگ جاتا ہے اور عقیدت کے مبالغے میں شان الوہیت میں استخفاف کا پہلو نکل آتا ہے اسی لیے اکثر عقیدت مندان رسول اور صوفی شعرا نے حبّ رسول کے اظہار کے لیے اپنے نعتیہ کلام میں احتیاط برتی۔جامیؔ کا شمار ایسے ہی محتاط شعرا کے سلاسل میں ہوتا ہے-‘‘(ص :۲۸۲)

عقیدت میں غلو اور عقیدت میں مبالغہ کی چند مثالیں بیان بھی کی ہیں۔ ان میں مسئلہ امتناع النظر،آقا و مولیٰ،بگڑی بنانے والے ، ذات اول و آخر،ظاہر و باطن،دیدار خداوندی سے مشرف،عالم غیب جیسے تراکیب کو نمایاں کیا ہے اور لکھا ہے کہ’’ انھیں یا ان جیسی تراکیب کو اوصاف نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں شمار کر لیا گیا ہے-‘‘ لیکن علامہ جامیؔ کی نعتیہ شاعری کا تجزیہ کرتے وقت کئی مقام ایسے ضرور آئے ہوں گے جہاں ڈاکٹر یحییٰ نشیط کو اپنا یہ احتیاطی بیان بار بار یاد آیا ہوگا مگر تحسین آمیز روشنائی میں قلم کو ڈبو کر وہ اسے جامیؔ کے فکر و فن کا کمال کہتے ہیںچاہے وہ مضمون و خیال وہی ہو جس کا اوپر انھوں نے تذکرہ کیا ہے ، آخر اس دو رنگی کی وجہ کیا ہے؟یہی ناکہ یہاں معاملہ علامہ جامیؔ کا ہے جن کا شمار محتاط شعرا کے سلاسل میں ہوتا ہے۔یقین نہ آئے تو ڈاکٹریحییٰ نشیط کے یہ جملے پڑھ لیں:

’’جامیؔ نے ایک نعت گنہ گاروں کی شفاعت طلبی میں رقم کی ہے۔اس میں تضرع و الحاح اوج پر دکھائی دیتا ہے۔شاعر کی بے بسی ، بے کسی کے احساس میں اضطراب و بے قراری کی جھلک نمایاں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استمداد اورشفاعت کی امید میں تڑپ بھی شامل ہے اور اسی اضطراری کیفیت کے ساتھ کہتے ہیں-‘‘(ص:۲۸۴)

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

’’یا رسول اللہ جیسی ترکیب کی مخالفت مین زمین و آسمان ایک کردینے والے ناقدین علامہ جامیؔ کے اس کلام کے متعلق کیا فتویٰ دیں گے جس کے ہر آخری مصرع میں یہ ترکیب موجود ہے؟


تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں یا رسول اللہ

دلم پر درد آوارہ ز عصیاں یا رسول اللہ!

یہ پورا کلام نقل کرنے بعد ڈاکٹر یحییٰ نشیط لکھتے ہیں:

’’مذکورہ بالا نعتیہ اشعار میں جامیؔ کا تضرع، فراق ، شوق ، حضوری،دل رنجوری،بے بسی،خوف گناہ اور شفاعت کی آس تمام کیفیات جمع ہوگئی ہیں۔حبّ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان اشعار میں جھلک پڑتا ہے،یقینا جامیؔ کی نعتیہ شاعری کبھی بھی صرف نظر کا شکار نہ ہوگی اور حبّ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شمع دوسروں کو بھی روشن کرتی رہے گی-‘‘(ص: ۲۸۶)

ڈاکٹر رضوان انصاری کے مقالے میں علامہ جامیؔ کی شخصیت ، سوانحی پہلو،علمی و قلمی خدمات کو فوکس کیا گیا ہے اور مثالوں کی روشنی میں ان کے افکار زیر بحث لائے گئے ہیں اور ان کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علامہ عبد الرحمن جامیؔ کی بلند پایہ ذات اور ان کی متصوفانہ وعاشقانہ شاعری عہد آفرین فکریات رکھتی ہے اور اس کے معنوی ابعاد میں فکر و فن کی لا تعداد جہتیں پوشیدہ ہیں۔ضرورت ہے کہ انھیں نکال کر اہل علم تک پہنچایا جائے اور ان پر تحقیق و تنقید کی جائے۔ان کی فارسی شاعری زبان وادب کا قیمتی سرمایہ ہے اور ان کے افکار و خیالات تصوف و عشق کا بیش بہاخزانہ ہیں جس کی چمک دمک آج بھی باقی ہے اور دل ودماغ کو روشن کررہی ہے۔’’گوشہ جامیؔ ‘‘گوکہ مختصر ہے مگر یہ دونوں مضامین تشنہ ہی سہی ،فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔

شش ماہی’’ دبستان نعت‘‘ کا یہ پہلا شمارہ ،لگتاہے کافی عجلت میں ترتیب دیا گیا ہے اس لیے پروف کی خامیاں قدم قدم پر اختلاج کا سبب بنتی ہیں۔چند جگہوں پرقرآنی آیات بالکل غلط کمپوز ہوئی ہیں جسے کسی طرح روا نہیں ٹھہرا یا جاسکتا۔جب نعتیہ شاعری ادب کا حصہ ہے تو اس کے باطنی حقائق کے ساتھ ظاہری لباس بھی نکھرا ستھرا ہونا چاہیے اور نعت پر جو مضامین ومقالات تحریر کیے جائیں ان میں ادبی زبان اور قواعد انشا واملا کی رعایت بھی ضروری ہے ورنہ اس کے تقدس کو زک پہنچے گی۔’’ دبستان نعت‘‘ کے کچھ حصوں میں یہ غفلت دکھائی دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ شماروں میں ان گزارشات پر دھیان دیا جائے گا۔اخیر میں’’ دبستان نعت‘‘ کی پوری ٹیم اور جملہ مقالہ نگاران وشعرا کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کی اجتماعی کوششوں سے یہ چشمہ علم وادب ہم جیسے تشنہ علموں کی سیرابی کا سامان کررہاہے اور شائقین نعت سے گزارش ہے کہ وہ اس جریدے کو خرید کر اپنی یادداشت کا حصہ بنالیں اور اپنی لائبریری میں محفوظ کر لیں۔

مدیرسے رابطہ:09415875761

نئے صفحات