دبستان نعت کا نیا شمارہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

نور و نکہت

سانچہ:اداریہ

تحمید و تقدیس

میرے بیٹے کر یقیں سب سے بڑا اللہ ہے بیکلؔ اتساہی 23

سلسلۂ ہزار میرا رب کر شن کمار طورؔ 25

ہر اک وجود خدایا ترا ہی ہے شیدا ہے ڈاکٹر آصف آدرؔ 26


تابشِ فکر ونظر

فنِ نعت گوئی پروفیسر ڈاکٹر واحد نظیر 30

احمد رضا کے نعتیہ کلام کی شعری جمالیات پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین 39

سیرت ابن ہشام کے کچھ سیرتی مباحث اشعار کی روشنی میں پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی 49

حمد ونعت پر میرے اور میرے عزیز تلامذہ کے تحقیقی مقالوں کا تعارف ڈاکٹر محمداسماعیل آزادؔ فتح پوری 64

نظرؔ لکھنوی ایک گم نام ، قادرالکلام نعت گو ڈاکٹر عزیز اؔحسن 81

حمد کی شعریات سلیم شہزاد 84

میلاد نامہ اکبرؔ وارثی میرٹھی ( کچھ مزید ) ڈاکٹر صابر ؔسنبھلی 95

فارسی ادب کا اوّلین قد آور نعت گو شاعر ڈاکٹر اسماعیل آزادؔ فتح پوری 100

سریش بھٹ کی مراٹھی نعت کا تجزیہ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط 127

نعت کی تنقید۔اہمیت،مسائل اور امکانات شاہ اجمل فاروق ندوی 138

نعت کی لفظیات ڈاکٹر حافظ کرناٹکی 144

ڈاکٹر راہی فدائی کی نعتوں میں آلِ رسول کا تذکرہ ڈاکٹر سید منیر محی الدین قادری 157


افکارِ روشن

نعتیہ شاعری میں اصناف ِسخن کی جلوہ سامانیاں ڈاکٹر عزیزؔاحسن 163

نعت میں بچوں اور ادبِ اطفال کا حصہ تنویرؔ پھول 167

اقبال ؔ سہیل اور موجِ کوثر۔نام ِ محمدکا شعری وظیفہ پروفیسر مولا بخش 182

مختلف شعری ہیئتوں میں نعتیہ تجربے ڈاکٹر حقانی القاسمی 192

پیغمبرِ اسلام کی بار گاہ میںغیر مسلم شعراء کا خراجِ احترام ڈاکٹر راہی فدائی 198

چندر بھان خیال ؔ کی طویل نظم ’’لولاک‘‘ کے حوالے سے شارق عدیل 212

نعت گوئی اور ہندو شعرأ خورشید ملک 229

کلام حضرتِ حسّان کی منظوم اردو ترجمانی ڈاکٹر رئیسؔ احمد نعمانی 234

بہشت تضامین پر ایک طائرانہ نظر ڈاکٹر عزیزؔاحسن 243

راشد طراز کی ایک مشک بار غزل کا تجزیاتی مطالعہ پروفیسر فاروق احمد صدیقی 250

صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی 256

حرفِ نیاز۔ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں منیر احمد 270

اردو شاعری میں حضرت شائقؔ حیدرآبادی کا مقام پروفیسر عبد الحمید اکبر ؔ 286

’’شمع ہدیٰ ‘‘ پر ایک نظر ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 294

نعتیہ شاعری افادیت و مقصدیت ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن 301

مولانا یوسف علی خاں عزیزؔ بحیثیت نعت گو ڈاکٹر تسلیم 308

طوطی دکن تہنیت النساء بیگم تہنیتؔ کی ادبی خدمات و نعت گوئی ڈاکٹر علی باز ہرہما 319

علیم صباؔنویدی کی نعتیہ شاعری ڈاکٹر جعفر جری 325

نعت گوئی کے بنیادی تقاضے ڈاکٹر رؤف خیر (حیدرآباد) 337

افسر ؔامروہوی اور ان کی نعت گوئی ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی 345

خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری الحاج سید مفیض الدین قادری 357

اڑیسہ میں نعتیہ شاعری حال و ماضی کے تناظر میں عبد المتین جامیؔ 370

مضطر ؔاعظمی کی نعتیہ شاعری ڈاکٹر شکیل اعظمی 379


گوشۂ حسّان الہند

عربی نعت علامہ سید آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ 390

عربی نعتیہ قصیدہ علامہ سید آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ 392

فارسی نعت علامہ سید آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ 395

منقبت شہیر ؔ رضوی 399

حسّان الہند غلام علی آزاد ؔ بلگرامی اور عربی خدمات ڈاکٹر غلام زرقانی 400

حسان الہند میر سیّد غلام علی آزاد بلگرامی شخصیت اور فن ڈاکٹر اشفاق انجم، مالیگائوں 426

حسّان الہند غلام علی آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ حیات، خدمات اور شاعری ڈاکٹر سیّد علیم اشرف جائسی 438

علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نعتیہ شاعری کے گلِ سر سبد پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحا ق قریشی 460

حسّان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔ بلگرامی ڈاکٹر مشاہد رضوی 485


تعارف و تبصرہ

کائناتِ نعت ڈاکٹر رضوان انصاری 510


زاویۂ نگاہ

شعاع امید۔دبستان نعت پروفیسرابوسفیان اصلاحی 539

’’ دبستان ِ نعت‘‘ ایک دستاویزی رسالہ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 545

’’ دبستانِ نعت‘‘ کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر اشفا ق انجم 549

’’ دبستان ِ نعت‘‘ پر ایک سرسری نظر علامہ ڈاکٹر شہزاد مجددی 570

’’ دبستانِ نعت ‘‘ پر ایک طائرانہ نظر پروفیسر فاروق احمد صدیقی 573

’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کا پہلا شمارہ ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی 578

’’ دبستان ِ نعت‘‘ ایک تاثر پروفیسر محمد سعد اللہ 584

جریدہ ’’ دبستان ِ نعت‘‘ پر ایک نظر متینؔ عمادی 587

مجلہ ’’ دبستان ِ نعت‘‘ پر ایک عمیق نظر اقبال ؔ اعظمی 600


’’دبستان ِ نعت ‘‘ کے تحقیقی و تنقیدی

مقالات و مضامین پر ایک تحقیقی نظر ڈاکٹر سید منیر محی الدین قادری 608

’’ دبستان ِ نعت‘‘ پر چند سطریں خان حسنین عاقبؔ 648

’’ دبستانِ نعت ‘‘ ایک مطالعہ فہیم بسملؔ 652

’’ دبستان ِ نعت‘‘ ایک جائزہ مفتی توفیق احسن ؔ برکاتی 657

’’ دبستانِ نعت‘‘ پر ایک نظر طاہر ؔ سلطانی 668

حمدیہ و نعتیہ ادب پر امتیازی خصوصیت کا حامل ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ حلیم ؔ صابر 678


گل ہائے عقیدت

میں بیت اللہ سے مسعود تحفہ لے کے آیا ہوں سید مسعود حسن مسعودؔ 681

تضمینِ دِل پذیر بر کلامِ نصیر ؔ علامہ ڈاکٹر شہزاد مجددی 683

پہلے ہر سانس مشک بو کرنا پروفیسر سیّد ابو الحسنات حقی ؔ 685

علم کے شہر کی خدمت ہے زباں پر یا رب متین ؔ عمادی 686

نعتیہ سہ غزلہ ڈاکٹر صابر ؔ سنبھلی 687

عزم لازم ہے نیٔ عہدِ وفا سے پہلے ڈاکٹر عزیزؔ احسن 690

خیال، نعت کی چوکھٹ پہ سر بہ خم آیا سید شاکرؔ القادری 691

آمدِ مصطفی کا ہے موسم سارے منظر سہانے لگے پروفیسر علی احمد فاطمی 692

دعاء کبھی نہیں مانگی سو مانگ لیں اللہ پروفیسر مظفر ؔ حنفی 693

دوہا نعت ڈاکٹر فرازؔ حامدی 694

اُنگلی پہ جن کی گھوم رہے ہیں یہ شش جہات ساجدؔ امروہوی 695

ہے خدا وندی کرم نامِ نبی پروفیسر ڈاکٹرواحد نظیرؔ 696

امتی ہوں آپ کا حضرت محمد مصطفی ﷺ اسلم ؔ مرزا 697

تخلیقِ کائنات ہے قدرت کا آئینہ گوہر تری کیروی 698

اک مسافر ہے وہ یس۔یم عقیل 699

فضائیں عطر آگیں ہیں مہک کیسی فضا میں ہے مشتاقؔ سعید 701

جب ان کے نام پہ جلتا چراغ ہاتھ میں تھا حمیرا راحتؔ 702

ہو کیوں کر بیاں مجھ سے نعتِ محمد ﷺ سیّد لطف اللہ راحلؔ بخاری 703

ترے نام ہی کے صدقے ، ترے لطف کے سہارے پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد 704

بدل جائے گی صورت میرے گھر کی سیّد محمد نورالحسن نورؔ فتح پوری 705

روضے پہ اپنے مجھ کو بلا لیجے حضور ﷺ ڈاکٹر جعفر جری 706

سوئے ہوئے عالم میں بھی بیدار ہیں آنکھیں تلکراج پارسؔ 707

مجھے مال و زر کیا تخت داراو سکندر کیا فاخرؔ جلال پوری 708

آنکھوں میں میرے دل میں مدینے کی فضا ہے ظفرؔاقبال فتح پوری 709

سورج رخ صبحِ صادق پر کرنوں سے محمد لکھتا ہے سہیل ؔ کاکوروی 710

ہزار دل ہزار جان سے ہمیں قبول ہے وہ غلام مرتضیٰ راہیؔ فتح پوری 711

حبیبی محمد ﷺ نبی تہامی، زہے عزّو جاہِ رسولِ ﷺ گرامی سیدہ نیلوفرنایاب 712

ملی ایک اشارے پہ جس کے ، کنکریوں کو بھی گو یائی ڈاکٹر حبیب راحت حُبابؔ 713

مدحت خیرالبشر ﷺ سب کے مقدر میں کہاں ڈاکٹر محمد شفیع سیتاپوری 714

ہر سمت موجزن ہے جو فیضان مصطفی ڈاکٹر مجیب شہزرؔ 715

اعلان جس کا کر رہا ، قرآن ہے کہ بس قاری قاضی محمد رفیق فائزؔ فتح پور 716

صَلِ وَسَلّم اظہار ؔمسرت یزدانی 717


ستائش نامے

سید صبیحؔ رحمانی ، محمد ابرار حنیف مغل، سعید رحمانی، ڈاکٹر آفاق فاخری، پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر شائر اللہ خان، ڈاکٹر حبیب راحت حُبابؔ، ڈاکٹر عزیز احسن، تنویر ؔپھول، غفران اشرفی، ڈاکٹر رضوان انصاری ،متین ؔ عمادی،ڈاکٹر وحید انجم، مدہوشؔ بلگرامی، نثار اختر انصاری، اسلم مرزا، اظہرؔ عنایتی، شارق عدیل ،کرشن کمار طورؔ ،ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی، انور سلیم ،قاضی محمدرفیق فائزؔ، فتح پوری، محمد نظام الدین نوری، مرزا ساجدؔ حُسین امروہوی، الحاج سید مفیض الدین قادری ، مشتاق احمد نوری، ظفر اقبال ظفرؔ فتح پوری ، مو لانا عبدالعلیم اشرف، پروفیسر فیروز احمد ، ڈاکٹر یس۔ یم عقیل، پروفیسر توقیر احمد خاں ،ڈاکٹر سید منیر محی الدین قادری،پروفیسر سیدابوالحسنات حقیؔ ، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، پروفیسر شریف حسین قاسمی،پروفیسر علی احمد فاطمی، شمس بدایونی، محمد علی صدیقی ( علیگ ) شیداؔ بستوی،پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد اللہ، ڈاکٹر جعفر جری۔


بِسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اداریہ مجلہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کا دوسرا شمارہ قارئین کرام کے پیشِ نظر ہے پہلے شمارے کے حوالے سے قارئین کرام نے ادب نوازی کے جس جذبۂ بیکراں کے تحت ہماری پذیرائی کی اس کے لیے ہم صمیم قلب سے ان کے شکر گزار ہیں۔اکثریت نے صرف مجلے کے ظاہری محاسن پر نگاہ ڈالکر ستائش کی ہے مگر بعض قارئین نے اس پر عمیق ناقدانہ نظر ڈال کرہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہوئے مفید مشوروں سے نوازاہے۔ ایسی صورت میں جنہوں نے صرف مجلے کے ظاہری محاسن کو استحسان کی نظر سے دیکھ کر پذیرائی کی ان کے شکریے کے ساتھ ہم اپنے ان قارئین کرام کے زیادہ ممنون ومشکور ہیں جنہوں نے مجلے پر انتقادی نگاہ ڈال کراس کی خامیوں کا آئینہ دکھاتے ہوئے اپنے مفید مشوروں سے نواز ا۔ ممکن نہیں کہ ان کی یہ ناقدانہ ستائش ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے خضر راہ کا کام کر جائے۔ در حقیقت’’ دبستان نعت ‘‘ کے جاری کرنے کا مقصد صرف ادب کے مطلعے سے ایک ادبی جریدے کا اجرا ہی نہیں بلکہ ایوان ادب میں ایک تحریک اس فکری شعور کے ساتھ پیدا کرنا ہے کہ۔ ؎ کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں علامہ اقبالؔ کیوں ! خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپشِ آمادہ اسی نام سے ہے علامہ اقبال ؔ ہم مجلہ ’’ دبستانِ نعت ‘‘ اور نعت ریسرچ سینٹر۔انڈیا۔ کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا میں بود و باش اختیار کرنے والے محبان رسول ﷺ کی قدر کرتے ہیں۔ ان کو پلکوں پہ بٹھانا وجہ صد افتخار سمجھتے ہیں۔ ہماری یہی خواہش ہے کہ نعت نبی اکرم ﷺ کا اُجالا اکناف عالم میں اس طرح پھیلے کہ ہر گھر اور ہر روح اسم محمد ﷺ کے نور سے روشن و منور ہو جائے۔ ؎ دہر میں اسم محمد سے اُجالا کر دے ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے اجرا کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصدصاحبان علم و بصیرت کے مابین نعت کو بحیثیت صنفِ سخن متعارف کرانا اور اس کے ادب پاروں کا نقد ونظر کی کسوٹی پر پر کھ کر ادب میں اس کے جائز مقام و مرتبے کا تعین ہے۔نیز ا سی کے ساتھ ا ن عوارض و عوامل کی بھی تلاش و جستجو ہے کہ جن کی بنا پر آج تک نعت کوصنف سخن کا درجہ نہیں مل سکا۔ غور و خوض اور مطالعہ و مشاہدہ سے یہ بات منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی کہ علم وادب سے وابستہ ایک طبقہ نعت گوئی ، نعت نگاری یا نعت خوانی کوصرف اور صرف کارِ ثواب یا مذہبی شاعری ہی کی نگاہ سے دیکھتا اور اسی حیثیت سے اسے تسلیم بھی کرتا ہے اس سے آگے بڑھ کر نعت کو پڑھنے سمجھنے اوربحیثیت صنف سخن تسلیم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا، جب کہ نعت کے صنف ادب ہونے پر چشم کشا شواہد موجود ہیں جن پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ صالح فکر اور چشم بصیرت سے نعت کو بحیثیت فکر و فن اور صنف ادب کے مطالعہ کریں تو حقیقت ان پر بھی اظہر من الشمس ہوجائے گی۔ مگر نہ جانے کیوں نعت ِ رسول مقبول ﷺ کے تئیں ان کی فکر منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ میں نعت کو دیگر اصناف کے تقابل و تناظر میں دیکھنے کا قطعی قائل نہیں کہ مثنوی اور مرثیہ اگر ادب کی صنف ہیں تو نعت کیوںنہیں؟ میرا موقف یہ ہے کہ مثنوی اور مرثیہ بھی ادب کی صنف رہیں مگر نعت کو بھی صنفِ ادب کا درجہ ملنا چاہئے اس لیے کہ نعت کی لفظیات وشعریات ان تمامی ا وصافِ حمیدہ سے متصف ہیں جن سے دیگر اصناف ادب متصف ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد ندیم اسسٹنٹ پروفیسر، ڈپارٹمنٹ آف اردو، جامعہ سرگودھا، پاکستان اپنے ایک تحقیقی وتنقیدی مضمون ’’ اصناف ادب پر اردو مطبوعات کا جائزہ ‘‘ میں اصناف ادب پر شائع ہونے والی کتب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوے ٔ اصناف ادب پر بڑی ہی عالمانہ بحث فرمائی ہے اور اپنے مضمون کے آخر میں ماحصل کے طور پر تحریر فرماتے ہیں۔ درج بالا بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصناف ِ ادب پر مطبوعات میں بتدریج بہتری آئی ہے اور اصناف شعر و نثر کے حوالے سے ابہامات بھی دور ہوے ٔ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں مزید کام کی گنجائش ہے اور ضرورت بھی۔ اصناف کے بارے میں کوئی مصنف واضح نہیں۔ بعض کے ہاں احتیاط اس حد تک ہے کہ اردو ادب میں جڑ پکڑ چکی اصناف سے بھی صرفِ نظر کیا گیا ہے اور بعض کی جدت پسند طبیعت ہر اس صنف کو اردو اصناف میں شامل کرنے پر مائل ہے ، جس کا کہیں سے نام بھی سُنا ہو اور چاہے اس کے لیے کوئی مثال بھی موجود نہ ہو۔ یہ طرزِ عمل طلبہ و طالبات اور قارئین ادب کے لیے پریشان کن ہے ۔ اصنافِ سخن میں موضوع اور ہئیت کے اعتبار سے مباحث ابھی تک منطقی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ اصنافِ سخن کی درجہ بندی میں بعض مغالطے موجود ہیں ،جن کی وجہ سے بعض اصناف کی موضوعاتی یا ہیئتی شناخت کا تعین نہیں ہو سکا، اسی طرح اصناف ِ نثر میں بھی صنف اور پیرایہ اظہار میںبعض مسائل موجود ہیں ۔ یہ بھی ہے کہ بعض شعبہ ہائے ادب کو صنف کی حیثیت سے متعارف کرانے کا شوق ابھی تک باقی ہے ۔ ان تمام مسا ئل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اصناف شعر و ادب کے بارے میں سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا جاے ٔ اور ابتدا سے اب تک کسی بھی صنف میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اس کی انفرادیت کو تلاش کر کے اس کو شناخت دی جاے ٔ ۔ اس کے لیے اصناف ادب پر اب تک کی جملہ مطبوعات کے مندرجات کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ، ساتھ ساتھ انفرادی طور پر لکھے گے ٔ مضامین و مقالات و کتب سے بھی استفادہ ضروری ہے ۔‘‘ فکر و تحقیق شمارہ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۶ ؁ء قومی کونسل براے ٔ فروغ اردو زبان ، نئی دہلی صفحہ ۱۱۲؍۱۱۳۔ پرو فیسر ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس و صدر شعبہ اردو ڈاکٹر بھیم رأو امبیڈکر یونیورسٹی، مظفر پور ، بہار، ایسے ہی لوگوں کے احساس و فکر کو بیدار کرنے کی سعی محکم کرتے ہوئے مجلہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے پہلے شمارے پر تبصر ے کے تحت تحریر فرماتے ہیں:- ’’مسئلہ زیر بحث کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرثیہ جس میں ممدوح کائنات اور محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسۂ محترم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اعوان و انصار کی المناک شہادت کا بیان ہوتا ہے۔ اس کی ہیئت اور اجزائے ترکیبی طے کئے جائیں۔ مگر نعت جس میں خود امام عالی مقام کے جدّکریم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستائش ہوتی ہے۔ اس کے اجزائے فن اور عناصر ترکیبی کی تشکیل سے تغافل اور تجاہل برتا جائے۔ اور یہ امر محتاج وضاحت نہیں کہ حضرت امام حسین کی زندگی کی تمام بہاریں نانا جان سے انتساب کی بدولت ہی ہیں۔‘‘ نعت کو خالص مذہبی یا موضوعاتی شاعری کہ دینے سے یا یہ کہ اس کی کوئی ہیٔت متعین نہیں اس لیے اس کو صنفِ ادب قرار نہیں دیا جاسکتا اب ان کی یہ دلیل کمزور اور غیر معقول نظر آتی ہے اس لیے کہ دانشوروں کے مطابق اصنافِ شعری شروع سے ہی ہیئتی اور موضوعاتی اقسام میں منقسم رہی ہیں۔ جہاں تک نعت کے مذہبی ہونے کا امر ہے تو اس کے متعلق عصر حاضر کے ایک عظیم دانشوراور محقق پروفیسر شریف حسین قاسمی ، سابق پروفیسر دہلی یونیورسٹی ، دہلی کا قول ہے کہ ’’ پورا مشرقی نظام ِ زندگی ہی مذہبی شاعری ہے۔‘‘ چنانچہ را قم کے نام اپنے مکتوب محررہ مورخہ ۲۰ ؍مئی ۲۰۱۷؁ء میں رقم طراز ہیں:-؁ٗ ’’ میں فارسی کا طالبِ علم ہوں ، آپ کو ضرور معلوم ہوگا کہ میرے اندازے کے مطابق شاید فارسی میں دوسری زبانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نعتیں کہی گئی ہیں۔ فارسی بنیادی طور پر مذہبی شاعری ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق صرف فارسی شاعری ہی پر نہیں ہوتا بلکہ پورا مشرقی نظام ِ زندگی ہی مذہبی شاعری ہے۔ دنیا کے اس حصے میں مذہبی شاعری نے ذہنوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ فارسی کے ایسے شعرأ کی تعداد بہت کم ہے جنہوں نے مذہبی شاعری کو اپنی توجہ کا مرکز نہ بنایا ہو۔ حمد،نعت اور منقبت وغیرہ کا شمار ظاہر ہے مذہبی شاعری کے زمرے میں کیا جاتا ہے ، یہ صحیح اور منطقی بھی ہے ، مشکل ہی سے کوئی ایسا فارسی شاعر یا ادیب رہا ہوگا جس نے اپنا دیوان یا نثری کار نامہ حمد سے شروع نہ کیا ہو ، پھر نعت نہ کہی ہو اور بعض شعرأ نے منقبت لکھنا بھی ضروری سمجھا ہے۔حمد ونعت ومنقبت میں قصائد و غزلیات و فنی مثنویات نظم کی ہیں۔ چند شعرأ ایسے بھی ہیں جنہوں نے صرف مذہبی شاعری کو ہی اپنے فن کا محور قرار دیا ہے اور ان کے کلام پر مذہبی اور دینی عناصر نسبتاً زیادہ حاوی ہیں۔ ‘‘ محترم پروفیسر قاسمی صاحب اور پروفیسر فاروق احمد صدیقی صاحب کا نقطۂ نظر اس بات کا بلیغ اشارہ ہے کہ نعت کی ہمہ جہتی اور اس کی آفاقیت یوں ہی نہیں بلکہ حقیقت بر مبنی ہے اور ان کا نقطہ نظر ناقدین ادب کو دعوت فکر و عمل کے ساتھ مستقبل میں نعت کو بحیثیت صنف ادب تسلیم کئے جانے کا مژدہ جاں فزا بھی ہے۔ مجھے نعت کے ارتقائی فروغ کے حوالے سے اپنے قارئین کرام کو یہ خبر دیتے ہوئے دلی خوشی کا احساس ہو رہا ہے کہ ا بھی تک ہم اس بات سے نابلد تھے کہ نعت رسول مقبولﷺ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی میں شامل نصاب بھی ہے مگر مجلہ’’ دبستانِ نعت‘‘ کی ترسیل وابلاغ کے دوران یہ بات معلوم ہوئی کہ دین دیال اُپادھیائے (گورکھ پور یونیورسٹی۔ گورکھ پور ) کے ایم۔اے (اردو) میں نعت بطور نصاب شامل ہے۔ نصاب (Syllabus) کے فرسٹ Semester کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر مجلہ کے آخر میں شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ وہاں کے صدر شعبہ ٔ اردو محترم ڈاکٹر رضی الرحمن صاحب نے یہ خوشخبری دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں کسی موقعے پر اس کی تفصیلات پیش کرو نگا کہ کتنی جد جہد کے بعد اس کو شاملِ نصاب کرایا جا سکا۔ہم نعت ریسرچ سینٹر۔ انڈیا کی جانب سے ان کی اس عظیم کاوش کی پذیرائی کرتے ہوئے انہیں دلی مبارک باد پیش کر تے ہیں اور ان سے عرض گزار ہیں کہ وہ دیگر یونیورسٹیز کے صدر شعبہ ارد و و ذمہ دارن کو بھی اس جانب متوجہ کرائیں جس سے کہ دوسری یونیورسٹیز میں بھی نعت شامل نصاب ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کار کردگی نعت کے روشن مستقبل کی علامت ہے۔ ہم ہندوستان کے تعلیمی کمیشن (یونیورسٹی گرانٹ کمیشن)کے ذمہ دار عہدے داران سے عرض گزارہیں کہ وہ نعت کے موضوع کو ہندوستان کی یونیورسٹیز میں شامل نصاب کئے جانے کے احکامات نافذ کرے۔نیزیونیورسٹیز کے اساتذہ سے گزارش ہے کہ وہ نعت کے موضوعات پر زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالات قلم بند کرائیں اور سال میں کم از کم ’’ نعت ‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا بھی انعقاد کرائیں جس میں دانشوران قوم و ملت نعت کے موضوع پر کھُل کر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کر سکیں۔ اس طرح کے سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد ’’ نعت ‘‘ کے لئے نیک شگون ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمارا ادارہ بطور معاون ان کے شانہ بشانہ ہے۔ ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کا یہ شمارہ بھی پہلے شمارے کی طرح درج ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔ ’’تحمید و تقدیس ‘‘ جس کے تحت تین حمد پاک شامل کی گئی ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی مقالات ومضامین کو ’’تابشِ فکر ونظر ‘‘ اور دیگر نعتیہ مقالات و مضامین کو ’’افکار روشن‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس شمارے میں ’’ زاویۂ نگاہ ‘‘ کے عنوا ن سے ایک نیا گوشہ شامل کیا گیا ہے جو ’’دبستان نعت ‘‘ کے پہلے شمارے کے حوالے سے ناقدین ادب کے تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس گوشے کا مقصد اختلاف رائے کی گنجائش کا پیغام دینا ہے۔ مگر اس طرح کے اختلافات جو خود ساختہ اصولوں پر مبنی ہوں ان کی اس میں قطعی گنجائش نہیں۔ ہم ذہنی ، فکری ، نظریاتی علمی اور ادبی اختلاف کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی افہام و تفہیم ،شعور و فکر کی بالیدگی کے ساتھ محبت رسول ﷺ دائرے میں کرنے کے قائل ہیں۔ یقینا فکری اور ادبی اختلافات ادب اور فن کو تابانی عطا کرتے ہیں۔ مگر خود ساختہ اصولوں پر مبنی اختلافات عموماً نزع کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جس سے ادب میدان مبارزت بن کر رہ جاتا ہے۔ ادب کا میدان مبارزت بن جانا ارتکاز فکر کے منجمد ہونے کے مترادف ہے۔ اس شمارے کا بھی انتساب ما سابق کی طرح عظیم نعت گو اور عاشقِ رسول ’’ حسّان الہند حضرت علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی‘‘ رحمۃ اللہ علیہ سے کیا گیا ہے۔ نعت گو شعرأ کی نعتیہ گل افشانیوں کوشمارہ ٔاوّل کی طرح ’’ گلہائے عقیدت‘‘ کے تحت ہی نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔ اس بار اس شمارے میں نعتیہ دواووین اور مجموعہ ٔ کلام پر تبصرے کے حوالے سے ’’ کائنات نعت ‘‘ کے عنوان سے ایک گوشے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مجلے کا آخر ی موضوع ’’ ستائش نامے ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں قارئین مجلہ کے افکار و خیالات کی جلوہ ریزیاں خطوط کی شکل میں ہیں۔ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کا یہ شمارہ کافی تاخیر سے قارئین کرام تک پہنچ رہا ہے جس کے لئے ہم ان سے معذرت خواہ ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ رہی کہ اس مجلے کو ہم جس معیار کا پیش کرنا چاہ رہے تھے اس طرح کے مضامین کم وقت میں دستیاب ہو پانا ممکن نہیں۔جبکہ مضامین کے حصول کے لئے محترم جناب فیروز احمد سیفی صاحب ( نیویارک ) اور یہ ناچیز مسلسل جد و جُہد کرتے رہے۔ دوسری وجہ یہ رہی کہ پہلے شمارے کی اشاعت کے بعد بہت سے احباب نے یہ مشورہ دیا کہ اس جریدے کو ’’ششماہی ‘‘ کے بجائے ’’ کتابی سلسلہ ‘‘ کر دیا جائے جس سے مقالات و مضامین بھی وقت سے مل جا ئیں گے اور کام بھی معتبر ہوگا اُسی کے پیشِ نظر ہم نے اس شمارے کو ’’ ششماہی ‘‘ کے بجائے ’’کتابی سلسلہ ‘‘ کر دیا ہے۔ جیسا کہ آپ سبھی کے علم میں ہے کہ مجلہ ’’ دبستانِ نعت ‘‘ کے ساتھ نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقأ کے لئے محترم فیروز احمد سیفی صاحب ( نیویارک ) ایک عرصہ دراز سے بہت ہی فکر مند اور حساس رہے ہیں اس کے لئے انہوں نے پیہم کتنی سعی کی ہے یہ پوری داستان انہیں کے منھ سے زیب دیتی ہے۔ ایک مدت سے ان کی دلی خواہش تھی کہ نعت جیسی عظیم اور متبرک صنف ادب پر ہندوستان سے بھی معیاری کام ہونا چاہئے اُسی جذبے کے پیش نظر ۲۰۱۶؁ء میں محترم فیروز احمد سیفی صاحب ( نیویارک ) نے ’’ نعت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘‘ قائم کیا جس کے وہ ’’ فاؤنڈر/ ڈائریکٹر ‘‘ ہیں۔ ’’ دبستان ِ نعت ششماہی ‘‘ کا پہلا شمارہ اسی ادارے کے زیراہتمام اشاعت پذیر ہوا تھا مگر اب جب کہ مجلے کو لوگوں کی خواہش کے احترام میں ’’کتابی سلسلہ ‘‘ قرار دیا جا چکا ہے تو ادارے کے نام میں بھی قدرے ترمیم کرتے ہوئے اس کو ’’ نعت ریسرچ سینٹر۔ انڈیا ‘‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ فروغ نعت کے حوالے سے مستقبل میںا نشاء اللہ تعالیٰ مستحکم طور پر کام کرنے کا ارادہ ہے۔ ’’ نعت ریسرچ سینٹر۔ انڈیا ‘‘ کے زیر اہتمام نعتیہ کلیات و دواوین ، نعتیہ ادب پر یونیورسٹیز میں قلم بند کئے گئے تحقیقی و تنقیدی مقالات کی نشر و اشاعت، یونیورسٹیز میں نعتیہ ادب پر تحقیقی مقالات قلم بند کرنے والے ریسرچ اسکالرز کوگائیڈ لائن کے ساتھ لٹریچر کی فراہمی، مجلسِ مذکرہ اور سیمینار و کانفرنس کا انعقاد وغیرہ اس کے عزائم ہیں۔ ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کی ترتیب و تدوین میںبہت ہی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ مقالہ نگار کے مقالے کی افادیت کی مناسبت سے ان کے مقالے کو اسی گوشے اور مقام پرشاملِ اشاعت کیا جائیجس کا وہ متحمل ہے مگر انسانی سرشت کے مدّ نظر اگر کسی مقالے کواس کے شایانِ شان مقام نہ مل سکا ہو تو ہم مقالہ نگار سے معذرت کے ساتھ ہی عرض گزارہیں کہ وہ ہماری توجہ اس جانب ضرور مبذول کرائیں جس سے کہ مستقبل میں ہم اور محتاط و مستعد ہو کر ترتیب تدوین کا کام انجام دے سکیں۔ انتہائی حزم و احتیاط کے باوجود گذشتہ شمارے کے اداریئے میںایک ایسا غیر مشروع لفظ ’’موضوع روایات ‘‘ : ’’ میلادِ اکبر میں اگر چہ کچھ موضوع روایتیں بھی شامل ہیں، مگر فضائل و مناقب میں موضوع روایات موثر نہیں۔ حدیث کے کلیے کے مطابق فضائل و مناقب میں موضوع روایات کا بھی اعتبار ہے ‘‘ صفحہ ۱۵ تحریر ہو گیا تھا۔ جس کی پشیمانی آج بھی میری روح پر سائے کی طرح چھائی رہتی ہے۔ درحقیقت میں لکھنا چاہ رہا تھا کہ’’ فضائل و مناقب میں حدیثِ ضعیف کا بھی اعتبار ہے‘‘ مگر حدیث ضعیف کے بجائے ’’ موضوع روایات ‘‘ تحریرہو گیاجس کااحساس مجھے تا دم زیست رہے گا۔ میں اب تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس طرح کا لفظ مجھ سے کیسے اور کیوں کرسر ز د ہوا جبکہ میں خود ہی ’’ موضوع روایت ‘‘ کے خلاف اپنے مقالات و مضامین میں لکھتا رہا ہوں۔ اپنی اس کوتاہی کے لئے میں اللہ اور اس کے حبیب مکرم ﷺ کی بارگاہ عالی جاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہوں اور عظیم عاشقِ رسول ﷺ مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ کے درج ذیل شعر کو وسیلہ بخشش بناتا ہوں۔ ؎ سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں اداریئے کے اختتامیہ سے قبل ان نعت گو شعرأ کرام کی ارواح طیبات کے حضور خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی نعت گوئی کے لئے وقف کررکھی تھی اور حیات مستعار کی آخری سانس تک وہ آقا و مولا روحی فدا جناب ِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی مدح و ثنا میں رطب اللِّسان رہے اگران کی ا رواحِ طیبات کو خراج تحسین نہ پیش کیا جائے توروح خود کو ملامت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مرزا افسر حسین بیگ افسر ؔامروہوی افسر ؔامروہوی کا تعلق علم و ادب کے گہوارہ امروہہ سے ہے۔انہوں نے نعتیہ ادب کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ ان کی پوری زندگی مدحت مصطفی ﷺ میں گزری۔ انہوں نے ۲۱؍جمادی الاوّل ۱۴۳۷؁ء ۳۱؍مارچ ۲۰۱۶ ؁ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے فکر وفن اور نعت گوئی پر ایک وقیع مقالہ ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی صاحب کا شامل اشاعت کیا جار ہا ہے۔ ظہیر غازی پوری ظہیر غازی پوری کا پورا نام ظہیر عالم انصاری تھا۔ ان کی ولادت ۸؍ جون ۱۹۳۸؁ء کو غازی پور (یو۔پی) میں ہو ئی۲؍ نومبر ۲۰۱۶؁ء کو ۱۱؍ بجے شب میں طویل علالت کے بعد صوبۂ جھار کھنڈ کے مشہور شہر ہزاری باغ میںان کا انتقال ہوا۔ وہ شاداب افکار و خیالات کے مالک تھے۔ نیزتخلیقی و تنقیدی بصیرتوںکے بھی جامع تھے۔ وہ ایک با وقار نعت گو شاعر بھی تھے قدرت نے انہیں تحقیقی و تنقیدی ذہن عطا کیا تھا مجلہ ’’ نعت رنگ ‘‘ کراچی میں ایک زمانے تک بڑی دلچسپی کے ساتھ اپنے فکر فن کا جوہر دکھاتے رہے۔ ’’ نعت رنگ ‘‘ کی تحقیقی و تنقیدی بحثوں میں بھی دل جمعی کے ساتھ حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ نعت کو جدید رنگ و آہنگ اورا فکار و خیالات کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کے حامی تھے۔ بیکل ؔاتساہی بیکل ؔ اتساہی صاحب کا پورا نام محمد شفیع خاں تھا۔وہ اُتر پردیش کے مشہور شہر بلرام پور میں یکم جون ۱۹۲۸؁ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال ۳؍دسبر ۲۰۱۶؁ء کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال دہلی میںہوا۔ ۱۹۵۲؁ء میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ان کی شاعری کی پذیرائی کرتے ہوئے انہیں اُتساہی شاعر کہا۔بعد میں بیکل ؔ صاحب نے اس سے متاثر ہو کر خود کو بیکل ؔ اتساہی لکھنا شروع کر دیا۔ ۱۹۷۶؁ء میں انہیں پدم شری کے خطاب سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۶؁ء میںوہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے۔ تقریباًٍ ۲۲؍ شعری مجموعہاے کلام کا گراں قدر سرمایہ اردو ادب کو دیا۔ جن کا موضوع صرف اور صرف نعت رسول مقبول ﷺ ہے۔ ان کی عظیم شخصیت کو خراج پیش کرتے ہوئے انجمؔ عظیم آبادی صاحب نے کہا تھا۔ ؎ نعت ہو یا گیت یا نظم و غزل

ان کے کہنے کا الگ انداز تھا

چار نسلوں نے سُنا ، جن کا کلام

آپ !بیکل ہوگئے ہم سے جدا بیکل ؔ صاحب نے اپنی فکر و فن کا عنوان نعت رسول مقبول ﷺ بنا رکھاتھا۔ انہوں نے جس طرح ذات ِ رسول اکرم ﷺ کو اپنی نعتوں اور گیتوں کے ذریعے عوام کے دلوں میں بٹھایا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ جنہوں نے بیکل ؔ صاحب کو ایک بار بھی سنا ہوگا وہ آج بھی عشق رسول کی کسک اور تڑپ اسی تابندگی کے ساتھ محسوس کر رہے ہوں گے۔ انہوں نے نعت گوئی کے حوالے سے اردو ادب کو جو فکر و فن کا خزانہ عطا کیا ہے آج تک اردو کا کوئی بھی شاعر و ادیب نہیں دے سکا۔ ان کی شاعری کا محور مقامی بولیاں اور لب لہجے کا انوٹھا پن تھا۔ علامہ قمر ؔبستوی کے الفاظ میں۔ ’’ بیکلؔ صاحب نے اپنی ایک پہچان بنائی وہ تھی مقامی زبان کو اردو شاعری میں جگہ دینا جس میں وہ کامیاب رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندستان میں اسّی فیصد طبقہ گاؤں میں رہتا ہے۔ محنت و مزدوری کرتا ہے۔ کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اس کا اپنا تشخص ہے ، اس کی اپنی زبان اور تہذیب ہے۔ ہماری اردو بیس فیصد طبقے کی ترجمانی کرتی ہے اور اسّی فیصد کو نظر انداز کردیتی ہے۔ ایک مجلس میں فرمایاکہ :- ’’ میں غالب ؔ اور اقبال کو زمینی شاعر نہیں مانتا۔ ان کی شاعری آسمانی شاعری ہے۔ آپ عربی و فارسی کی بوجھل تراکیب ، گراں قدر الفاظ اپنی شاعری میں اگر استعمال کریں گے تو وہ اسّی فیصد جو آپ کو سننے آیا ہے ، وہ کیا لے کر جائیگا ؟ اس کو اسی زبان میں سُنائیے تاکہ وہ سمجھ سکے ‘‘۔ ماہنامہ کنزالایمان ، دہلی شمارہ فروری ۲۰۱۷؁ء صفحہ۲۹ ہم نے بیکل ؔ اتساہی صاحب کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے گوشہ ٔ ’’تحمید و تمجید‘‘ کے تحت ان کی ایک حمد پاک شامل کی ہے۔ ریاضؔ حسین چودھری ریاضؔ حسین چودھری ۸؍نومبر ۱۹۴۱؁ء کو سیال کوٹ ( پاکستان ) میں پیدا ہوئے۔ ۶؍اگست ۲۰۱۷؁ء کواس دار فانی سے دارِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ’’ زر معتبر ‘‘ ۱۹۹۵؁ء میں طبع ہوکر منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اس ۲۳؍ سالہ وقفے میں صرف اور صرف رسول اکرم ﷺ کی ہی مدح و ثنا میں سرگرم رہے۔ اب تک اُن کے ۱۲؍ نعتیہ مجموعے منظر عام پر آکر مقبول عوام و خواص ہو چکے ہیں۔ ریاض حسین ؔ چودھری صاحب نے نعت کو قدیم روایت سے نکال کر جدید رنگ و آہنگ ، لفظ و معانی ا ور فکر سے ہمکنار کیا۔ ان کی طبیعت میں بلا کی جدت تھی نعت میں نئے نئے گوشوں کی تلاش میں وہ ہمہ وقت محو فکر و نظر رہتے تھے۔ وہ اپنے نعتیہ مجموعے ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ’’ غزل سے نعت کا تخلیقی سفر رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کا سفر ہے ، کائناتی سچائیوں اور جمالیاتی توانائیوں کی معراج ہے۔‘‘ نیز اسی مجموعہ ٔکلا م میں آگے چل کر فرماتے ہیں۔ ’’ نعت محض اوزان و بحور کے حوالے سے اپنی پہچان نہیں رکھتی بلکہ اندر کی روشنی کے بھر پور ابلاغ کا نام ہے۔ ‘‘ در حقیقت محترم ریاض ؔحسین چودھری عصر حاضر میں اس عاشقِ رسول کا نام تھا جس کا سرپا عشق مصطفی ﷺ کی خوشبو ؤں میں بسا ہواتھا۔نعت رسول مقبول ﷺ کے تئیں اُن کا ایمان و ایقان تو دیکھئے وہ فرماتے ہیں۔ ؎

محشر کے دن بھی نعت حوالہ بنی ریاضؔ


محشر کے دن بھی حرفِ سخن محترم ہوا

سبحان اللہ ! محشر کا قیام ابھی ہوا نہیں مگر محبت رسول میں ان کے ایمان کی صداے صد آفریں تو دیکھئے کہ نعت بنی ﷺ میرا حوالہ بنی اور یہ نعت کا ہی اعجاز ہے کہ میرا حرف سخن محترم رہا۔ اللہ کریم جلّ مجدہ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ان عاشقان رسول ﷺ کو جو آقا و مولیٰ روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کے اسم پاک کے اُجالے سے پوری کائنات کو منور کرنے میں زندگی کی آخری سانس تک مصروف رہے ان کی قبروں میں ’’ اسم محمد ﷺ سے اُجلا کر دے ‘‘۔ آمین ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کی اس مجلس مسعود میں شامل سبھی تخلیق کاروں کا ہم تہ دل سے امتنان و تشکر ادا کرتے ہیںجنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر ا پنی گر اں قدر تخلیقات سے ہماری ہمت افزائی کی جس سے مجلے کا وقار سر بلندہوا۔ نعت نبی ﷺ کے مختلف گوشؤں اور موضوعات پر قلم اٹھاکر جہاں انہوں نے ایک بڑا علمی و ادبی کارنامہ انجام دیا ہے وہیں انہوں نے اپنے لئے توشۂ آخرت بھی تیار کیا ہے۔ہم اپنے تمامی لکھنے والوں سے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ ملتمس ہیں کہ تخلیقات کی ارسالگی کے وقت اس کے مطبوعہ یاغیر مطبوعہ ہونے کی وضاحت ضرور فرمائیںجس سے کہ حقیقت ِ حال ہم پر واضح رہے۔ کچھ مقالات و مضامین اور نعتیہ کلام کو ہم نے آئندہ شماروں کے لئے اٹھا رکھا ہے۔ جنہیں قریب کے شماروں میں ان شاء اللہ شامل اشاعت کیا جائے گا۔ ’’دبستانِ نعت ‘‘ کا یہ شمارہ جو خوشبوئے مندینہ ﷺ سے معطرہے آپ کی فکر و نظر کے حوالے کرتے ہوئے حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعرساتھ اجازت چاہتا ہوں۔ ؎

زباں در دہن تا بود جائے گیر


ثنائے محمد ﷺ بود دل پذیر

سگِ بارگاہِ رسول اکرم ﷺ سراج احمد قادری


تحمید وتقدیس

نیرنگیوں سے یار کی حیراں نہ ہو جیو


ہر رنگ میں اسی کو نمو دار دیکھنا

شاہ نیاز ؔبریلوی