حمد و نعت کی شعریات ۔ ڈاکٹر مولا بخش

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 07:59، 26 اکتوبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : ڈاکٹر مولا بخش۔بھارت

حمد ونعت کی شعریات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Religion and poetry are both inter-related to form totality. Poetics of Hamd and Naat is actual poetics of nature which carry archetype in expression. Good poetry is good and bad poetry is bad in literary terms, this standard is also applied on religious poetry. All poetry of high standard created in the world of literature is based upon religious sensibility. Poetics of Hamd and Naat has been highlighted in this article keeping in view historic facts of development of Urdu language.


یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عربی اور فارسی ادب میں حمد اور نعت کی شاعری اور اس نوع کے فن پاروں نے ان زبانوں کو اپنے جغرافیائی خطوں سے آگے عالمی برادری کے ذہن و دماغ کا حصہ بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ہر چند کہ حسانؔ نے قصیدے اور جامیؔ نے غزل میں بھی اپنی شناخت قائم کی ہے۔ لیکن حسانؔ اور جامیؔ برصغیر ہند و پاک میں اپنی نعت اور حمد کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔


خسرو کے دوسرے دیوان ’وسط الحیات‘ میں حمد و نعت ملتے ہیں۔ تیسرے دیوان ’غرۃ الکمال‘ میں ’جنات النجات‘ کے عنوان سے خسرو نے توحید خدا اور عقائد کا ذکر کیا ہے۔ ترجیعات میں ایک قصیدے کا مضمون نعتِ رسول ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مثنویوں میں حمد و نعت کو خاص جگہ دی ہے۔ وصف اشیا نامی مثنوی میں تو انہوں نے باضابطہ معراج کے مضامین شاعرانہ کمال کے ساتھ نظم کیے ہیں۔ غور کیجیے خدا کی ذات کے بارے میں تصوف کی اصولی بحث کی رو سے انہوں نے کیا کہا ہے:


واجب اوّل بوجود قدم

نی بوجودیکہ بود از عدم


نعت کا ایک شعر کہ جس میں معراج کو سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:


پیش رو کوکبۂ انبیا

کو کبش از منزلت کبریا

ازحد ناسوت برون تاختہ

برخط لاہوت وطن ساختہ


مذکورہ بالا امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ خسرو اردو شاعری کا آغاز ہے کہ جن کی فارسی شاعری میں حمد ونعت کی شاعری ایک اہم رجحان کی شکل میں موجود ہے۔ ان کے ہندی کلام میں تصوف کی جو رفعت نظر آتی ہے، اس کا بنیادی لحن حمد اور نعت کا ہی ہے۔


ان حقائق کے علاوہ اردو میں کچھ شعراء تو ایسے ہوئے ہیں جن کی پوری شاعری کو ناقدین ادب نے حمدیہ اور نعتیہ کلام کا درجہ دیا ہے۔ حالی کا مدوجزر اسلام اور اقبال کی جملہ شاعری اس زمرے کے خاص متون میں شمار کیے جاسکتے ہیں لیکن ہمارے ناقدین علامہ اقبال اور اس نوع کے دیگر شعرا کے متون کو مذہبی شاعری کے خانے میں رکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں جب کہ شاعری کو واضح طور پر کسی خانے میں رکھنے کی روایت شاعری کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔


غزل کی شاعری ہو یا نعتیہ کلام دونوں کے لیے عشق ایک اہم قدر ہے۔ ایک ایسا عشق جس کے لیے یہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ ’’العشق نار تحرق ما سوی المحبوب‘‘ (عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے علاوہ ہر چیز کو جو غیر ہو جلا ڈالتی ہے) غزل کی شاعری میں یہ عشق عشق حقیقی اور مجازی نیز تہذیبی و تخلیقی رنگوں میں نظر آتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں محبوب محمدؐ کی ذات ہے یعنی عشق رسول نعتیہ شاعری کا بنیادی محرک ہے۔ وہ عشق و مستی جس کو اقبال نے انسان کے ارتقا کے لیے لازمی گردانا ہے صرف عشق رسول ہے وہ عشق ضل ہے کہ جس میں اپنے محبوب کے عادات و شمائل، افعال و اقوال، رفتار و گفتار، عادات و اطوار، اخلاق و خصائل، پسند و ناپسند کو اپنے لیے نمونہ نہ بنایا جائے۔ وہ دل جو شاعری سے وابستہ ہے وہ ان جملہ اعمال افعال محبوبی کا فنّی اظہار کرتا ہے جسے ہم نعت سے موسوم کرتے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم رات کو گشت کے لیے نکلے تو ایک عورت روئی دھن رہی تھی اور خمسہ کا یہ بند گارہی تھی:


علی محمد صلواۃ الابرار

صلی علیہ الطیبون الاخیار

قد کان فواماً بکیٰ بالاسحار

یا لیت شعری والمنایا اطوار

ہل تجمعنی و حبیبی الدار


(محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ابرار کے درود، طیبین اور اخیار کے درود۔ وہ راتوں کو جاگنے والے اور صبح کو گریہ فرمانے والے تھے۔ موت تو بہت طرح آتی ہے مگر کاش مجھے یقین ہوجائے کے مرنے کے بعد مجھے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی)


کیا مذکورہ بند میں محض بیان ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ محمد عربی کے لیے کئی استعارے استعمال کیے گئے ہیں کہ جس کے بغیر اچھی شاعری کا تصور محال ہے۔ اب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مذہبی شاعری کے عنوان سے کوئی مقالہ لکھنا بھی شاعری اور مذہب کے تعلق کو اس طرح سے سمجھنا جس طرح کہ ہم کبھی کبھی زندگی کے جھمیلوں سے فرصت پاکر کسی پارک میں بیٹھ کر ہنسی چہلیں کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذہب اور شاعری مزاجاً ایک دوسرے کا تکملہ رہے ہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مذہب اور اساطیر انسان کا بنیادی آرکی ٹائپ ہے اور شاعری اساطیری اور مذہبی لاشعور کی زائیدہ ایک فنی کارگزاری ہے۔ واضح رہے کہ شاعری کی ایک قسم جس میں عظیم ترین لوگوں کی شاعرانہ نقل پیش کی جاتی رہی ہے اسے رزمیہ کا نام دیا گیا ہے۔ ایلیڈ اور اوڈیسی ملٹن کے پاراڈائنر لوسٹ وغیرہ کو رزمیہ قرار دیا گیا جس کا بنیادی ایجنڈا مذہب تھا لیکن امت مسلمہ نے اپنے عظیم ترین رہنما وہادی محمد مصطفیٰؐ کو جب اپنے شعروں میں جمالیات اور اخلاقیات کا پیکر بناکر پیش کیا تو اسے خالص مذہبی شاعری کہہ کر حدودِ ادب سے الگ کوئی مذہب کی شئے کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ نعتیہ شاعری میں ایک عظیم ترین ہادی و رہنمائے انسانیت کے کردار کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس صنف کو نظرانداز کرنے کی اہم وجہ خود کو، شاعری کو سیکولر ایجنڈے کا ہتھکنڈہ بنانا اور شاعری اور مذہب کے فطری رشتے پر پردہ ڈالناہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ناقدین ادب نے نعت اور حمد کی شاعری کو Text Book میں شامل نہیں کیا؟


شاہنامہ اسلام کے بعد اردو میں عنبر بہرائچی کا رزمیہ مہابھنشکرمن ہمارے عہد کا ایک رزمیہ ہے علاوہ ازیں ان کی دوسری نعتیہ تخلیق ’لم یاتِ نظیرک فی نظر‘ کو بھی ہم رزمیہ کے زمرے میں ہی رکھ سکتے ہیں کہ جس میں عنبربہرائچی نے ۱۳ عنوانات کے ذریعے آغاز تا فتح مکہ کے واقعات نظم کیے ہیں۔ چودھری مبارک علی کے مطابق ’’اس طویل نظم میں (۱۰۲۴) اشعار میں جو سب کے سب منتخب ہیں ایک بھی بھرتی کا شعر نہیں ملتا۔‘‘ اسی طرح چندربھان خیال کی نظم ’’لولاک‘‘ اور ابرار کرتپوری کی مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی طویل نظم ’غزوات‘ بھی رزمیہ کی صف میں موجود ایک اہم نعتیہ شاعری ہے۔ ان کے علاوہ قیصرالجعفری نے سیرت کو طویل نظم میں پیش کیا ہے۔ آلھا اُودَل کے طرز پر رہبر جونپوری نے تاریخ اسلام نظم کی ہے۔ کیا ہم ان متون کو خالص مذہبی متون کہہ سکتے ہیں؟ یا ان متون کا بنیادی ذہن شاعری ہے؟ جب ہم ان متون کا تجزیہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ مذہبی امور کے موضوع پر یہ متون شاعری کا ایک بلیغ نمونہ ہیں۔


ایسے میں یہ کہنا کہ مذہبی شاعری عام شاعری سے الگ ایک خاص قسم کی شاعری ہے ایک گمراہ کن بیان ہے۔ عنبر بہرائچی نے اپنی نعتیہ رزمیہ ’لم یاتِ نظیرک فی نظر‘ میں لکھا ہے:

’’اس تصنیف کو میرے ایک کرم فرما نے بغیر پڑھے ہوئے مذہبی کتاب قرار دے دیا۔ میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ کتاب صرف مذہبی کتاب نہیں ہے اس میں جیسا کہ سطور بالا میں واضح کرچکا ہوں، قدیم ہندوستانی رزمیہ کے تمام عناصر کو برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویسے دنیا کی عظیم شاعری ک بیشتر حصہ مذہبی موضوعات پر ہی مبنی ہے۔‘‘


جیسا کہ کہا گیا ہے کہ رزمیے میں واقعات کی صحت اور تاریخی حقائق پیش کرتے ہوئے تخیل کی گلکاریوں سے اجتناب کیا جاتا ہے تو اس کی ایک مثال نعت رسول پاک ہے۔ اس صنف کا مقصد اپنے ممدوح کی جملہ صفات اور جمالیاتی اور اخلاقی رنگ کو شعری جمالیات کا موضوع بنانا ہے جس کے لیے ہیئت کی کوئی قید نہیں۔ نعت دراصل رسول پاک کی ایک ایسی سوانح ہے جو ایک شعر سے لے کر ہزاروں اشعار میں بیان کی جاسکتی ہے کیونکہ محمد کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی بقا کا ضامن اور انسانیت کی راہوں میں روشن چراغ کی مانند ہے۔ اس مقام پر یہ سوال قائم کیا جاتا ہے کہ نعت یا حمد شاعری سے زیادہ عقیدے کا نام ہے۔ یہی بات مرثیے کے لیے بھی کہی جاتی رہی کہ مرثیہ ایصال ثواب کا ذریعہ ہے گویا اس نوع کی شاعری میں شعریت کی تلاش بے کار ہے اور جب یوں ہے تو نتیجہ اکثر یہ نکالا جاتا ہے کہ حمد و نعت کی شاعری شاعری ہی نہیں۔


اس طرح سے سوچنے والے نقاد یہ بھول جاتے ہیں کہ عقیدے کے فقدان سے شاعری فلسفیانہ موشگافی بن سکتی ہے یا محض بیان۔ ہوسکتا ہے کہ شعر چیستاں بھی بن جائے۔ عقیدہ یا مذہبی حسیت نے ہی ہر دور میں ادب عالیہ کی تخلیق میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کیا مسجد قرطبہ جیسی نظم اور ’ساقی نامہ‘ جیسی لافانی نظم عقیدے اور مذہبی شعور کے بغیر لکھی جاسکتی تھی یا ’ذوق و شوق‘ جیسی اقبال کی لافانی نظم جس کا مرکزی خیال نعت رسول ہے، عقیدے کی وجہ سے شاہکار نہیں بنی؟


گویا مذہب ہر زمانے میں ادبی متون میں پائی جانے والے معنیاتی نظام کا سرچشمہ یا بنیادی ساخت کا رول ادا کرتا رہا ہے۔ جس طرح ہندوؤں کے یہاں کیلاش پربت ادب و شعر میں آرکی ٹائپی اور اساطیری پیکر رہا ہے اس طرح آنحضرت محمدؐ کی ذات مبارکہ کی بنا پر صفا، مروہ، کوہِ حرا، کوہِ ثور جیسے متعدد آرکی ٹائپی اور اساطیری پیکر شعر و ادب میں اساطیری استعاریت کا سیاق فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے جہاں اساطیر کا ذکر ہوگا وہاں مذہب کا ذکر لازماً ہوگا اور دنیا کے کسی بھی خطّے کی شاعری ان کے اثرات سے خالی نہیں ہوسکتی۔


حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو نعت کے محرک اور خدایا خالق ارض و سما، جو حمد کا محرک ہے کا بیان اردو میں عرب اور عربی اور فارسی اسالیب سے گہری مماثلت کے باوجود بہت الگ ہے۔ ہندوستانی روایات اور جغرافیائی اثرات کے پس منظر میں اردو کی نعتیہ شاعری میں جو محمد سامنے آتے ہیں وہ ہندی ذہن سے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں جیسے محسن کاکوروی مدح خیرالمرسلین کے لیے کاشی، متھرا اور گنگا جل جیسی لفظیات کا استعمال کرتے ہیں تو لغت میں آفاقیت کے ساتھ ساتھ مقامیت کی بوباس رچ بس جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کلام میں واقعیت اور شعری صداقت کچھ اس انداز سے ابھرتی ہے کہ یہ شاعری دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔


۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری میں عقیدے کی واپسی اور مذہبی رجحان کا عود کر سامنے آنا اس امر کی مثال ہے کہ نعت اور حمد کی شاعری کے لیے اردو میں ہر عہد میں ایک خاص جگہ رہی ہے۔ ہماری نعتیہ شاعری دراصل اردو شاعری کی اہم روایت ہے۔ اردوشاعری میں ابتدا تا حال دواوین بغیر حمد و نعت کے شاید ہی شائع ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بعض شعراء کی پہچان ہی حمد اور نعت کی شاعری سے قائم ہوئی ہے۔ اردو میں ابرار کرتپوری تو ہندوستان میں حمد کے باضابطہ صاحب دیوان شاعر ہیں۔ مذہبی شاعری یعنی مذہب اور شاعری کے رشتے پر غور و فکر کرتے ہوئے سید یحییٰ نشیط نے اپنی کتاب ’’اسطوری فکر و فلسفہ (اردو شاعری میں‘‘ (۲۰۰۸ء) لکھا ہے:


’’اب رہا مذہبی شاعری کو فنّی نقطۂ نظر سے جانچنے اور پرکھنے کا سوال... تو اس کے لیے ہمیں شاعری کے تہذیبی و ثقافتی ماحول پر نظر رکھنی ہوگی۔ اگرچہ جدید تنقیدی نقطۂ نظر کو اپناکر تہذیب و تمدن کو یکسر نظرانداز کردیں اور پھر آج کے معیار پر قدیم مذہبی شاعری کو پرکھیں گے تو یہ فن کاروں پر بڑا ظلم ہوگا۔‘‘


نشیط صاحب بجاطور پر یہ باور کرا رہے ہیں کہ نئی تنقید میں تہذیب ثقافت اور سماجی اقدار اور ادبی اقدار کو جداگانہ رویہ قرار دیا گیا جب کہ آج ثقافتی اور ادبی اقدار کے فرق کو ختم کردیا گیا ہے۔ نعتیہ شاعری ہر چند کہ قرآنی شعریات سے انحراف نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ شعراء اس شاعری میں غزل، رباعی یا مرثیہ کی طرح آزاد نہیں ہوتے بلکہ محتاط ہوکر اپنے شعری ذہن کا استعمال کرتے ہیں لیکن اپنے ممدوح سے گہری عقیدت ہونے کی وجہ سے شعروں میں خلوص، صداقت اور عشق رسول کی وجہ سے تغزل پیدا ہوجاتا ہے۔ شعر اء جب محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عربی سے اپنی دلی و ذہنی وابستگی اور دیوانگی کا اظہار کرتے ہیں تو کلام میں اثر پیدا ہوجاتا ہے۔ وہی اثر جو عشقیہ غزل کا مزاج ہوتا ہے۔


حمد و نعت کی شاعری کے بارے میں یہ رائے قائم کرلینا کہ شعر چاہے جس درجے کا ہو چونکہ اس میں خدا اور رسول کا نام ہے اس لیے نعت کا یا حمد کا شعر ہے ان معنوں میں بھی ایک لچر سی منطق بن جاتی ہے کہ خدا بھی اپنے بندوں کو قرآن میں احسن الخالقین کے نام سے پکارتا ہے یعنی وہ جو ہم میں بہتر تخلیق کار ہے مومن کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی تعریف اگر اچھے لفظوں اور آداب کے معیاری طریقوں کے پیش نظر کیا جائے تو وہ تعریف اپنا اثر پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا نعت کا کمزور شاعر بھی ویسا ہی کمزور شاعر ہے جیسا کہ غزل کا، کیونکہ قرآنی شعریات میں ’خدا‘ نے اپنی تعریف کا وہ ڈھنگ سکھایا ہے کہ جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔ الحمدشریف کی آیتوں کو پڑھتے ہوئے کیا اچھی سے اچھی شاعری اس کے آگے روکھی پھیکی معلوم نہیں ہوتی۔


اگر بغائر نظر کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ہم پاتے ہیں کہ ہمارے کئی شعراء نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت اور معراج کے واقعے سے متعلق کئی اساطیری قصّوں کو نظم کیا ہے جیسے طالبؔ نامی مثنوی کے شاعر نے نبی خاصؐ (بازو و فاختہ) کی اساطیر پیش کی ہے اسی واقعے کو کبوتر نامہ کے نام سے امیرمینائی نے نظم کیا ہے۔ فتّاحی نے تخلیق نورمحمدی کا قصّہ نورنامہ میں بیان کیا ہے جسے پڑھتے ہوئے ہم شاعری اور شعریت کی ان جملہ اسالیب سے دوچار ہوتے ہیں جس کا تقاضا کسی ادبی فن پارے کے لیے کیا جاتا ہے۔


ان جملہ مباحث کے بعد مختصراً عرض یہ کرنا ہے کہ حمد اور نعت کی شاعری اور شاعری کی ایک زندہ اور متحرک روایت رہی ہے جس کا عام شاعری سے گہرا رشتہ ہے۔ حمد اور نعت کی شاعری کا اہم موتیف عام شاعری ہی کی طرح احساس جمال اور احترام آدمیت ہے نیز اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہے یا اپنی ثقافتی اقدار و مداولات کی فنّی پیش کش ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صرف ایک نبی کا نام نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت، اقدار و روایات، اصول و نظریات، حق و باطل، نشست و برخاست، طرزِ زندگی، روحانی اسرار اور خدا اور کائنات کے درمیان ایک برزخ کا نام بھی ہے۔ اس لیے نعت کا موضوع پوری زندگی کو حاوی ہے اور اس مرکز پر شاعری وسیع الہیئتی کا تقاضا کرتی ہے اور اردو زبان کے ممکنہ رجسٹر سے رشتہ جوڑتے ہوئے اجتماعی ذہن کا اظہار بن جاتی ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمجو کہ نعت کے محرک ہیں ان کی حیاتِ مبارکہ انسانیت اور سماج کے جملہ اقدار کی تجسیم ہے اس لیے نعتیہ شاعری جو کسی خاص ہیئت سے وابستہ نہیں شاعری کی جملہ جہتوں سے قریب ہونے والی شاعری یعنی منجملہ اردوشعر و شاعری ہے۔ کیونکہ بقول اقبال:


وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کل جس نے

غبار راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین و طاہا

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26