حضور! آپ ہیں واقف کہ مدعا کیا ہے
نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 05:33، 15 فروری 2020ء از ADMIN 2 (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
شاعر : مرزا حفیظ اوج
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
حضور! آپ ہیں واقف کہ مدّعا کیا ہے
زباں سے بول کے مانگا تو پھر مزا کیا ہے
نبی بشر بھی ہیں نورِ خدا کا مظہر بھی
مرا عقیدہ ہے اس پر تو پھر بُرا کیا ہے
صراط پر، سرِ میزاں ہو، یا لبِ کوثر
گدا کہیں بھی ہو سرکار سے چھپا کیا ہے
بچا کے نار سے امت کو لے چلے آقا
تو اہلِ حشر ہیں سکتے میں، ماجرا کیا ہے
سکونِ اہلِ نظر بھی، نظر کا مصرف بھی
”جمالِ گنبدِ خضریٰ میں اے خدا کیا ہے؟“
انہی پہ دین مکمل وہی نبی خاتم……
وہی ہیں آخری حجت کہیں بچا کیا ہے
حضور! اوجؔ کو اذنِ مدینہ مل جائے
حضور! آپ بلائیں تو فاصلہ کیا ہے
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|