حسن شاہ محی الدین صنعتی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


سید حسن شاہ محی الدین صنعتی دبستان بیجاپور کا ایک ممتاز سخنور گزرا ہے۔ اس نے سلطان محمد عادل شاہ اور علی عادل شاہ ثانی (۱۰۶۸تا ۱۰۸۳ھ) کا زمانہ دیکھا۔

مثنوی قصہ بے نظیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۰۰۰ء میں اس نے قصبہ بے نظیر کے نام سے ایک مثنوی لکھی جس میں حضرت تمیم انصاریؓ کے محیرالعقول واقعات قلمبند کئے۔ اس مثنویمیں اس نے حمد کے بعد نعت کا التزام رکھا ہے۔


نبی کریم ’’شفیع‘‘ امین

رسول خدا رحمت العالمین

کہ جس سرپو لولاک کا تاج ہے

سو اس کو عرش آپی محتاج ہے

ثنا جس کی بولیا ہے سلطان نے

سو طٰہٰ و یٰسین قرآن میں

احد میں‘ تجے ناؤں احمد دیا

بجز میم بھی فرق کچھ نئیں کیا

ترا ناؤں اپس ناؤں نے ہم قریں

کیا‘ ہور بھیجیا ہزار آفریں


حکایت ہے کہ بادشاہ سکندر قاصد کے بھیس میں ملکہ نوشابہ کے دربار میں گیا‘ لیکن نوشابہ نہایت ذہین تھی‘ سکندر کے اطوار سے اس نے پہچان لیا کہ وہ سکندر کا قاصد نہیں ‘ بلکہ خود سکندر ہے۔ اس تلمیح کو خاطر نشین رکھتے ہوئے صنعتی کے ان نعتیہ اشعار کا مطالعہ کیجیے :


ازل نے جو کوئی تھے کو نہ نگاہ

نہ سمجے تجے دیک اے بادشاہ

جو کوئی تھے جو نوشابۂ تیز ہوش

پچھانت کے جم جام سوں بادہ نوش

کہے دل سوں تجہ دیک اے شہریار

سکندر رسالت کا آیا بہار

مثنوی گلدستہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصہ بے نظیر کی تصنیف کے بائیس سال بعد ۱۰۷۷ھ میں صنعتی نے اپنی دوسری مثنوی ’’گلدستہ‘‘ تصنیف کی۔ مثنوی کی ترکیب و ترتیب کے مطابق اس نے اس مثنوی میں حمد نعت اور منقبت کے ابواب رکھے ہیں۔ حمد کے آخری اشعار میں صنعتی نے وسیلے کا ذکر کرتے ہوئے نعت کا جواز پیدا کیا ہے۔ اس طرح وہ نہایت ہنرمندی کے ساتھ]حمد سے گریز کرکے نعت کی طرف آتا ہے۔


کہ عاجز ہوں مخلوق تجہ دارکا

دھریا ہوں سو امید دیدار کا

وسیلہ ترے دوست کا کرسدا

کیا ناؤں پر اس کے تن من فدا

شفاعت کی تسکین ادک دھرکے آس

اتا نعت چل بولتا بے ہراس


ان اشعار کے بعد نعت کے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ صنعتی کے نعتیہ اشعار میں قصیدے کا سازورِ بیان، شکوہ اور کرو فر نظر آتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :


زہے خاص احمد نبی الوراء

کہ او شافع خلق ہر دوسرا


کہ ہے برگزیدہ توں لولاک کا

انس لامکاں کے دھنی پاک کا


جو تر جگ ترا امر طالع ہوا

تظلم کفر دین لامع ہوا ۱۴؎


اپنی پہلی مثنوی ’’قصہ بے نظیر‘‘ میں صنعتیؔ نے آنحضرتؐ کی نعت کے تسلسل ہی میں واقعہ معراج کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ معراج کے بیان میں علاحدہ باب نہیں رکھا‘ لیکن مثنوی ’’گلدستہ‘‘ میں اس نے ’’صفت معراج‘‘ کے بیان میں علاحدہ باب قائم کیا ہے۔ معراج کے بیان کیلیے وہ نعت کے آخری اشعار میں صفت معراج کی تمہید اس طرح قائم کرتا ہے‘ جیسے بات میں بات نکل آئی ہو ۔


توں ڈر حشر کا دور کر دل ستی

بچن بول معراج کا صنعتیؔ


اس گریز کے بعد وہ معراج کے باب کا آغاز کرتا ہے۔


مآخذ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دکنی مثنویوں میں نعت ۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فخر الدین نظامی | میراں جی | اشرف بیابانی | پیار محمد | حسن شوقی | برہان الدین جانم | عبدل | عادل شاہی مقیمی | شریف عاجز | حسن شاہ محی الدین صنعتی | ملک خوشنود | کمال خان رستمی | ملا نصرتی | میراں میاں خاں ہاشمی | امین ایاغی | شاہ معظم | مختار بیجاپوری | قاضی محمد بحری | احمد گجراتی | وجہی | غواصی | احمد جنیدی | ابن نشاطی | طبعی | محبی | فائز