حسان الہند میر سیّد غلام علی آزاد بلگرامی شخصیت اور فن-ڈاکٹر اشفاق انجم، مالیگائوں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: ڈاکٹر اشفاق انجم( مالیگائوں)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حسان الہند میر سیّد غلام علی آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شخصیت اور فن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میر سیّد غلام علی آزاد بلگرامی بارہویں صدی کی وہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں جن پر اہل ہند کو بجاطور پر ناز ہے کہ وہ ایرانی اہل زبان شعرا ٔ و ادباء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایرانیوں نے حضرتِ امیر خسروؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ جیسے چند ہی ہند نژاد فارسی گویوں کو تسلیم کیا ہے بقیہ تمام اہل عجم کے آگے ’’ عجمی‘‘ ٹھہرائے گئے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اہل ہند نے بھی آزاد بلگرامی کی وہ قدر افزائی نہ کی جس کے وہ مستحق تھے یہاں تک کہ ان کی سوانح حیات اور علمی کارناموں پر بھی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ چند ایک محققین نے آپ کی غزلیہ شاعری اور نثری تخلیقات پر پی ایچ ڈی کے مقالے ضرور تحریر کئے ہیں لیکن وہ صرف حصولِ سند تک ہی محدود رہ گئے جو آج بھی اشاعت سے محروم ہیں۔

سیّد غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنے تعلق سے اپنی تصنیف ’’ روضۃ الاولیاء‘‘ میں جو کچھ لکھا اسی کو ان کے تذکرہ نگاروں نے کچھ حک و اضافے کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ کسی نے مزید تحقیق کی ضرورت محسو س نہیں کی۔

’’ روضۃ الاقطاب‘‘ کے مطابق میر غلام علی آزاد بلگرامی حضرت سیّد زید شہید رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کا تعلق سادات واسطی سے ہے۔ کتب سوانح میں آپ کا شجرہ کچھ یوں درج ہے۔

’’ میر غلام علی آزاد بن محمد نوح بن محمد فیروز بن میر محمد اللہ داد (الہ داد)۔۔۔‘‘ ان کے بعد یہ سلسلہ سیّد محمد صغریٰ سے آگے بڑھتا ہے (اس کی وضاحت نہیں ملتی کہ سیّد محمد صغریٰ ، سیّد الہ داد کے والد ہیں یا یہاں درمیان میں خلا واقع ہے) بہر حال سیّد محمد صغریٰ سے سلسلۂ نسب یوں آگے بڑھتا ہے۔

’’ سیّد محمد صغریٰ بن علی بن حسین بن ابوالفتح ثانی بن ابوالفراس بن ابوالفرح واسطی بن دائود بن حسین بن یحییٰ بن زید بن علی بن حسن بن علی العراقی بن حسین بن علی بن محمد بن عیسیٰ موتم الاشبال ابن زید شہید ابن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔۔۔‘‘ (روضۃ الاقطاب: مولانا رونق علی، صفحہ ۲۲۵)

میر سیّد غلام علی آزاد ۲۵؍ صفر بروز یکشنبہ ۱۱۱۶ھ میں بلگرام میں پیدا ہوئے۔ وہیں نشو ونما پائی۔ آپ علماء و صوفیاء کے خانوادے کے چراغِ چشم تھے۔ سارا خاندان علم اور تصوف کی روشنی سے منور تھا۔ آپ کے جدّ مادری میر سیّد عبدالجلیل بلگرامی اپنے عہد کے ممتاز و جلیل القدر علماء و صوفیاء میں شمار ہوتے تھے۔ آزاد نے سب سے پہلے اپنے نانا جان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا جو عربی ، فارسی ، ترکی ، ہندی زبانوں پر کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی جانب سے سندھ میں وقائع نگار اور میر بخشی کے عہدے پر فائز تھے۔ علوم دینیہ میں حدیث ، فقہ، تفسیر ، علم لغت ، سیر نبوی، موسیقی اور شعر گوئی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ آزاد بلگرامی نے ان سے کتب لغت، حدیث، سیر نبوی اور فنونِ ادب کی تحصیل کی۔

آزاد کے دیگر اساتذ ہ میں میر سیّد طفیل محمد بلگرامی (م۱۱۵۱ھ) ، شیخ عبدالوہاب طنطاوی (م۱۱۵۷ھ)، شیخ محمد حیات سندھی مدنی (م ۱۱۶۳ھ)، میر سیّد محمد شاعربلگرامی (م۱۱۸۵ھ) جیسی ممتاز ہستیاں شامل ہیں۔ جن سے آزاد نے فقہ و تفسیر ، قرآن و حدیث ، سیر نبوی کے علاوہ علم لغت ، قواعد صرف و نحو اور علم عروض کی تحصیل کی۔

آزاد صحیح النسب سادات سے تھے۔ سارا گھرانہ علم دین و تصوف کی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا پرتو اطفالِ خاندان پر بھی پڑنا لازمی تھا۔ آزاد نے اسی پاکیزہ فضا میں پرورش پائی تھی۔ آپ کا سینہ ہر کثافت سے پاک تھا۔

بچپن میں آپ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ :

’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں ، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا اور اپنی مجلس مبارکہ میں باریابی کا شرف بخشا۔‘‘

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس خواب کا اظہار انہوں نے درج ذیل اشعار میں بھی کیا ہے۔


بہ الطاف رسول ہاشمی آزاد می نازد

شبی در خواب ایں بیدار را بخشید دستاری

رسول ہاشمی کے الطاف و کرم پر آزاد ناز کرتا ہے

ایک شب آپ نے اس غلام کو عزت و شرف سے نوازا

صفا پروردا جای دید شب آزاد در رویا

نباشد جز طوافِ آستانِ دوست تعبیری

آزاد نے رات خواب میں ایک نہایت ہی مصفیٰ مقام دیکھا

اس کی تعبیر سوائے طوافِ آستانِ دوست اور کچھ نہیں ہوسکتی

آزاد نے جب سے یہ خواب دیکھا جلوۂ جمالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دل میں جاگزیں ہوگیا۔ جب بھی اس خواب کی یاد آتی دل جوشِ محبت و عقیدت سے بے چین ہوجاتا۔ اس خواب میں آزاد کو نہ صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آشنا کیا بلکہ انہیں متذکرہ بالا سعادت و شرف کے حصول کی جانب شدت سے مائل کردیا۔ اس سعادت کے حصول کا ان کے نزدیک ایک ہی بہترین ذریعہ تھا اوروہ تھا تصوف سے وابستگی۔ جس کے اثرات سے وہ بخوبی واقف تھے۔ کیونکہ ان کا خاندان پورے اودھ میں تصوف اور روحانیت میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کے خاندان کا ہر بزرگ روحانیت کے ایسے مقام پر فائز تھا جس کی تمنا ہر اہل تصوف کو ہوتی ہے۔

یہ خواب آزاد کو ان کے عہد کے نامور بزرگ سیّد العارفین میر سیّد لطف اللہ بلگرامی عرف شاہ لدّھا چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لے گیا اور آپ ۱۱۳۷ھ میں شاہ صاحب سے بیعت ہوگئے۔

آزاد حنفی المسلک تھے۔ کلیاتِ آزاد بلگرامی میں پروفیسر سیّد حسن عباس رقم طراز ہیں :

’’باوجودی کہ آزاد حنفی المذہب بودہ ، امّا بارسول اکرم ﷺ ، اہل بیت اطہار، با ویژۂ امیر المؤمنین مولای متقیان حضرت علی بن ابی طالب بسیار عقیدت و ارادت داشت، درکلامِ وی اشعار عقیدتی زیاد دیدہ می شود کہ از آں روشن می گردد کہ آزاد بہ پیامبر اکرم ﷺ و آلِ رسول چہ قدر عقیدت داشت، وی را بہ خاطر مداحی آں حضرت ﷺ لقب ’’حسان الہند‘‘ دادہ بود۔ ‘‘ (ص ۹۷)

’’آزاد حنفی المذہب تھے‘‘ یہ کہنے کے بعد پروفیسر حسن عباس صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ ’’باوجودِ حنفی المذہب ہونے آزاد کو حضرت علی اور ان کی اولادوں سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ ‘‘ پروفیسر صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حنفی المذہب لوگ حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت سے عقیدت و محبت نہیں رکھتے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ شیعہ عالم ہوں یا پروفیسر ’’ تقیّہ‘‘ سے کہیں بھی باز نہیں آتے۔ پروفیسر صاحب یہ بھول گئے کہ جتنی سچی عقیدت احناف اور اہل سنّت کو اہل بیت سے ہے وہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں میں نہیں ہے اور پھر آزاد تو صحیح النسب سیّد تھے انہیں اپنے اجداد سے بے انتہا محبت و عقیدت تو فطری طور پر ہونی ہی چاہئے تھی۔

آزاد کو سیاحت کا بے حد شوق تھا جس کے پس پردہ علم کا حصول بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا تھا۔ روضۃ الاقطاب میں مولانا رونق علی لکھنوی رقم طراز ہیں کہ :

’’ مدت العمر میں تین سفر پیش آئے ، پہلے بغرض ملازمت دہلی گئے اور دو سال بعد واپس آئے۔ دوسری بار سیستان پہنچے ۱۱۴۷ھ میں لاہور ہوتے ہوئے احمد آباد اور الہ آباد سے بلگرام آئے۔ تیسری مرتبہ حرمین محترمین کا ارادہ کیا اور تیسری رجب ۱۱۵۰ھ کو گھر سے نکلے اور خشکی و تری کی مسافت طے کرکے مکہ معظمہ پہنچے۔ مناسک حج ادا کرنے کے بعد ۱۱۵۲ھ میں بندر سورت سے دیارِ دکن میں آئے اور آخر تک اورنگ آباد ہی میں رہے۔ ‘‘ ص ۲۵۵

پروفیسر سیّد حسن عباس ’’کلیاتِ آزاد بلگرامی‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ آزاد نے اپنی زندگی میں تین طولانی سفر کئے جن کی تفصیلات خود انہوں نے اپنے تذکروں میں کی ہے۔ پہلے سفر میں وہ میر عظمت اللہ بے خبر بلگرامی (م ۱۱۴۲ھ ) کی رفاقت میںشاہجہاں آباداپنے نانا میر عبدالجلیل بلگرامی (م۱۱۳۸ھ) کی خدمت میں پہنچے۔ دو سال تک وہاں مقیم رہے اور ان سے کسب فیض کیا اور ۱۱۳۷ھ میں بلگرام واپس لوٹے۔‘‘ (ص ۴۷)

مولانا رونق علی کے بیان کے مطابق سیّد آزاد بلگرامی ’’ بسلسلۂ ملازمت ‘‘ شاہجہاں آباد (دہلی) گئے تھے اور پروفیسر سیّد حسن عباس صاحب اس کی وجہ ’’ کسب فیض‘‘ بتاتے ہیں۔ کسب فیض کی اصطلاح اہل تصوف میں رائج ہے۔ میر آزاد بلگرامی حضرت شاہ لطف اللہ سے بیعت تھے ممکن ہے کہ وہ دہلی بسلسلۂ ملازمت گئے ہوں اور اپنے نانا حضرت عبدالجلیل بلگرامی سے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ہی علومِ دینیہ کی تحصیل بھی کی ہو۔

آزا د نے دوسرا سفر سیوستان (سیستان) کا کیا جو علاقہ سندھ کا ایک موضع تھا۔ ۱۱۴۳ھ میں وہاں پہنچے ، چار سال تک مقیم رہے اور ۱۱۴۷ھ میں واپس بلگرام آئے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

۳؍ رجب المرجب ۱۱۵۰ھ کو حج بیت اللہ کے ارادے سے پا پیادہ بلگرام سے روانہ ہوئے۔ یہ ان کا تیسر ا سفر تھا۔ اثنائے راہ مالوہ میں نواب آصف جاہ اپنے لشکر کے ساتھ خیمہ زن تھا۔ ایک امیر نے آزاد کو دیکھا ، معلوم ہونے پر کہ یہ راہئی حجاز ہیں ان کی سواری کیلئے ایک رتھ اور بہت سارے لوازمات و ملبوسات وغیرہ مہیا کردیئے۔ ۲۳؍ شعبان ۱۱۵۰ھ ہجری کو نواب آصف جاہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ میر صاحب نے نواب کی خدمت میں درج ذیل رباعی پیش کی۔


ای حامیٔ دیںمحیط جود و احساں

حق داد ترا خطاب آصف شایاں

او تخت بدرگاہِ سلیماں آورد

تو آلِ نبی را بدرِ کعبہ رساں

’’اے دین کے حامی جود و سخا کے مرکز تجھے تیری شان کے مطابق حق نے آصف کا خطاب دیا‘‘

’’(آصف حضرت سلیمان علیہ السلام کا وزیر) نے تخت بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی درگاہ میں حاضر کردیا تھا تو آلِ نبی کو درِ کعبہ تک پہنچا‘‘

نواب نے خوش ہوکر آزاد کو زادِ راہ مہیا کردیا اور وہ بھوپال ، برہانپور ہوتے ہوئے سورت بندر پہنچے اور وہاں سے بذریعۂ کشتی حجازِ مقدس کیلئے روانہ ہوگئے۔

آزاد نے قیامِ حجاز کے دوران مختلف علماء سے حدیث کا درس اور سند لی۔ ۱۱۵۲ھ میں آزاد حج سے واپس ہوئے سورت بندر پہنچے اور نواب آصف جاہ کی دعوت پر اورنگ آباد آئے۔ نواب نے آپ کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا جو انہیں تا حیات ملتا رہا۔

ان طولانی اسفار کے علاوہ انہوں نے اطراف و اکناف سے بیشتر علاقوں کے بہت سارے اسفار بھی کئے جن میں حیدرآباد، بیدر، سری رنگا پٹن، گلبرگہ ، ارکات، برہانپور وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہر سفر میں مذکورہ مقامات پر کچھ مدت گزارنے کے بعد وہ لوٹے تو اورنگ آباد ہی پہنچے۔

بلگرام آزاد کا وطن تھا ، سارے عزیز و اقارب وہیں آباد تھے ، عہد بہ عہد آنے والے حکمرانوں نے اس خاندان کو جاگیریں عطا کی تھیں جس کی بنا پر سارا خاندان آسودگی سے زندگی بسر کررہاتھا۔ جب کہ آصف جاہی حکومت کے وظیفے سے آزاد کی زندگی تنگی و ترشی میں گزرتی تھی۔

آزاد شادی شدہ تھے آپ نے عبدالواحد بن سیّد سعد اللہ بن سیّد مرتضیٰ بن سیّد فیروز بن سیّدعبدالواحد کی دختر خرد سے نکاح کیا۔ یہ عفیفہ کون تھیں! کیا نام تھا !! بلگرام سے تھیں یا علاقۂ دکن سے !؟ اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۱۴۰ھ کے آس پاس کا ہے۔ کیونکہ ان خاتون سے ۱۱۴۳ھ میں ایک بیٹا نور الحسین پیدا ہوا اور مشیت الٰہی سے عالم جوانی ہی میں پانی میں ڈوبنے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ موت سے چند برس قبل ہی نور الحسین کی شادی ہوئی تھی جس کا ایک بیٹا سیّد امیر حیدر ۱۱۶۵ھ میں تولد ہوا۔

نور الحسین کی موت کے بعد آزاد نے اپنے پوتے کی جی جان سے پرورش و پرداخت کی۔ بہترین تعلیم سے آراستہ کیا ، اسی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ امیر حیدر کا بھی اپنی عہد کے ممتاز علماء میں شمار ہوتا تھا۔ وہ صاحب تصنیف بھی تھے۔ تذکروں میں ان کی درج ذیل تصانیف کا ذکر ملتا ہے۔

(۱) سوانح اکبری (۲) منتخب النحو (۳) تحقیق الاصطلاحات (۴) منتخب الصرف (۵)کلمات النبیل شرح انشائے میر عبدالجلیل۔(۶) بصائرالمتعلمین (۷) دیوانِ شعر (فارسی)۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

امیر حیدر کا انتقال ۱۲۱۷ھ مطابق ۱۸۰۲ء میں ہوا۔

جوان بیٹے کے انتقال کے بعد آزاد کی زندگی مزید دشوار و پریشان کن ہوگئی ہوگی ،لیکن وہ اور نگ آباد کی رہائش ترک کرکے بلگرام واپس نہیں گئے۔

بعض تذکرہ نگاروں نے اس کی وجہ ان کی حضرت بابا شاہ مسافر غجدوانی ثم اورنگ آبادی سے عقیدت و محبت بتائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ تر باباشاہ مسافر کی درگاہ میں رہائش رکھتے تھے۔

اولیائے کرام میں جہاں غوث، قطب، ابدال، اوتاد جیسے درجات ہیں وہیں ایک درجہ ’’ اہل خدمت ‘‘ کا بھی ہے جو اغواث ، ابدال ، اقطاب وغیرہم کے آستانوں کی نگہداشت پر مامور ہوتا ہے۔


بعض صوفیاء کے نزدیک اہل خدمت مجاذیب میں سے ہوتے ہیں لیکن راقم کے پیر و مرشد چراغ معرفت صوفی نور الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ یہ کلیہ نہیں ہے۔ حسب حیثیت و ضرورت اہل سلوک بھی اس منصب پر فائز کئے جاتے ہیں۔ان میں بعض سالک مجذوب بھی ہوتے ہیں۔

راقم کے خیال میں غلام علی آزاد بلگرامی بھی اہل خدمت میں سے تھے۔ ’’روضہ‘‘ یعنی خلد آباد اور اطراف کے علاقے دولت آباد، اورنگ آباد کے بزرگوں کے آستانوں کی نگہداشت آپ کے ذمہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ، پریشان کن حالات زندگی اور فقر و فاقہ کے باوجود اورنگ آباد سے اٹھ کر کہیں اور نہیں گئے جبکہ بلگرام میں ان کی آبائی جاگیر بہت بڑی تھی جہاں وہ پرسکون زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کرتے ہوئے اپنے حین حیات امیر حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کے قریب ایک قطعہ اراضی خرید کر وہاں پہلے سے اپنی قبر تیار کررکھی تھی اور انتقال (۱۲۰۰ھ) کے بعد اسی میں مدفون ہوئے۔

آزاد طبعاً قناعت پسند ، بذلہ سنج ، شگفتہ طبع، خوش اخلاق ، منکسر المزاج اور شعائر اسلامی کے سختی سے پابند تھے۔ بزرگان چشت کی طرح آپ بھی دنیا وی دولت اور جاہ و مرتبے سے بے نیاز تھے۔ اگرچہ اس عہد کے اکثر امراء و رؤسا سے آپ کے بے حد قریبی تعلقات تھے لیکن کبھی ان سے کوئی توقع نہیں رکھی اور نہ ہی ان کے انعامات اور بخششیں قبول کیں۔

’’ آزاد نے عربی و فارسی میں ہزاروں اشعار کہے ہیں جن میں غزلیات ، مثنویات، قصائداور رباعیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ نے عربی نعتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرۂ یادگار چھوڑ ہے جس کی مخطوطات عرب، ترکی، ایران اور ہندو پاک کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔

تصانیف آزاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عربی :۔ ٭ سبحۃ المرجان ٭ ضو ٔ الدراری شرح صحیح البخاری ٭ شفاء العلیل فی اصلاح کلام ابو طبیب المتبنی ٭ شمامۃ العنبرفی ماورد فی الہند من سیّد البشر ٭ مظہر البرکات ٭ دواوین ٭ السبعۃ السیّارہ ٭ تسلیۃ الفواد فی قصائد الآزاد ٭ مرأۃ الجمال ٭ کشکول ٭ الامثلۃ المترشحتہ من القریحۃ ٭ قصیدۂ ہمزائیہ ٭ ارج الصباقی مدح المصطفیٰ ٭ نصاب القصیدہ فی التغزل ٭مکتوبات حضرت مجدّد

فارسی :۔ ٭ ید بیضا ٭ سروآزاد ٭ خزانۂ عامرہ ٭ ماثر الکرام تاریخ بلگرام ٭ شجرۂ طیبہ ٭ روضۃ الاولیاء ٭ سند السعادت فی حسن خاتمۃ السادات ٭ غزلان الہند ٭ بیاض آزاد ٭مثنویات ٭ قصیدہ در تعریف میر عبدالجلیل بلگرامی و میر سیّد محمد شاعر بلگرامی ٭ دیوانِ اشعار فارسی ٭ شرح قطعۂ نعمت خاں عالی شیرازی ٭ جواب الامیرادت مرتبات ٭ ماثرالامرا ٭ انیس المحققین۔

مداحی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صلے میں آپ کو ’’حسان الہند‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ دنیا کی تین مملکتوں اور تین زبانوں میں تین شعرأ ایسے ہوئے جنھیں یہ امتیاز و اعزاز حاصل ہے کہ وہ حسان العرب (حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ، حسان العجم (خاقانی) اور حسان الہند (میر آزاد بلگرامی) کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔اتنا ہی نہیں سیّد محمد خاں صلابت جنگ نے آپ کو ’’ سرا ج المحدثین ‘‘ اور ’’ رئیس العلماء‘‘ کے القاب سے سرفراز کیا تھا۔

دنیا کی کسی بھی زبان و ادب کی تاریخ اٹھا لی جائے ہر جگہ آپ کو ’’ ناقدری ‘‘ کی شکایتوں کا انبار نظر آئے گا۔ وہ شعرأ و ادباء جنھیں شاہی سرپرستی حاصل رہی وہ بھی اپنے اعزاز و نوازشاتِ شاہی کے باوجود نا مطمئن نظر آتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آزاد ، آزاد منش ہونے کے باوجود ساری عمر اپنی ناقدری پر رنجیدہ رہے اور یہ کہہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہے ،:


گوہر خود را مبر آزاد پیشِ جاہلاں

عرض کن بر صاحبِ فطرت کلام خویش را

(آزاد تو اپنے ہنر کا اظہار جاہلوں کے سامنے نہ کر)

(اگر داد و تحسین کی خواہش ہے تو اصحابِ ذوق کو اپنا کلام سنا)

اس ناقدر ی کے باوجود انہوں نے اپنے قلم کو کبھی کسی بھی طرح کی ہجو و گوئی اور کثافت سے آلودہ نہیں کیا اور یہ ناقدری ان کے حق میں بہتر ہی ثابت ہوئی کیونکہ وہ انسانوں کی چوکھٹ سے اٹھ کر اس در پر جاپڑے جہاں سے کوئی محروم نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نواب شاہنواز خان کی ’’سلام گاہ‘‘ سے بغیر سلام و کورنش بجالائے واپس آگئے۔ کسی بشر کی محفل میں ایک سلام کیجئے گھنٹوں کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کی ملازمت میں حاضر رہا جائے۔ اس تعلق سے وہ خود کہتے ہیں ۔ ؎


بہ نانِ خشک خدا داد خود بساز آزاد

غلام منّت نواب نامدار مشو

(آزاد اللہ تعالی کی عطا کردہ خشک روٹی پر گذارا کرلے کہ اس سے عزتِ نفس پر ضرب نہیں پڑتی ، ایک معمولی سی حاجت کیلئے نواب کا احسان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے)

اس جذبہ نے آزاد کے دل میں استغنا اور بے نیازی کی ایسی صفات پید اکردیں کہ پھر وہ کسی امیر کے دروازے پر نہیں گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کلام میں ہر وہ خوبی موجود ہے جسے اعلیٰ اقدار اور اخلاقیات سے تعبیر کیا جا تا ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ فی زماننا ہند میں عربی و فارسی کا چلن نہیں رہا ، یہاں چلن سے مراد عربی ادب کی تخلیق اور عوامی ذوق و شوق سے ہے ورنہ مدارس میں عربی تو پڑھائی جاتی ہے لیکن عوام ہی نہیں اکثر خواص میں بھی اس کا رواج نہیں ہے۔ بیشتر علماء تک ادبی ذوق سے محروم ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کم و بیش ۷۵فیصد ’’ سند فراغت و دستار فضیلت‘‘ کے حامل علماء ایک پیرا عربی زبان کا ازخود لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ اگر منبر سے کتاب ہٹا لی جائے تو بیشتر ائمہ مساجد نماز جمعہ کا خطبہ نہیں دے سکیں گے۔

فارسی کا حال تو اس سے بھی بر اہے۔ اسکولوں سے اسے نکال دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ’’غیر فصیح اردو‘‘ کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ علماء و مدرسین تک انکار کی جگہ ’’منع‘‘ اور ’’دوبارہ‘‘ کی بجائے ’’دوبارہ سے‘‘ ’’اچھی طرح ‘‘ کی بجائے ’’اچھی سے‘‘ بولنے لگے ہیں، علی ہذا القیاس ایسے ماحول میں سیّد غلام علی آزاد بلگرامی کا نام حضرت امیر خسر و رحمۃ اللہ علیہ، امیر حسن علأسجزی، نعمت خاں عالی کے ساتھ لیا تو جاتا ہے لیکن ان کے عربی و فارسی کلام کو پڑھنے سمجھنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ الا ماشاء اللہ!!

سیّد غلام علی آزاد بلگرامی کی تقریباً تمام تصانیف کے قلمی نسخے ملک و بیرون ملک کے کتب خانوں میں موجود ہیں لیکن ان کی اشاعت کی نوبت نہیں آرہی ہے اس پر ستم یہ کہ ، مولوی صدیق حسن مرحوم نے آزاد کے تذکروں ’’سرو ِآزاد‘‘ اور ’’خزانۂ عامرہ‘‘ کو قدرے کمی بیشی کے ساتھ لفظاً و معناً ’’شمع انجمن ‘‘ کے عنوان سے اپنے نام سے شائع کردیا۔ ۱ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

آزاد نے ہر دو زبانوں یعنی عربی و فارسی میں نعتیں تخلیق کیں ہیں ان کی عربی نعتیں تو دستیاب ہیں لیکن افسوس کہ اس مضمون کے لکھنے تک ہزار کوششوں کے باجود ان کی ایک نعت جو کلیات آزاد میں موجود ہے کے سوا اور کچھ دستیاب نہ ہوسکا اس لئے وہی ایک نعت مع ترجمہ پیش خدمت ہے۔

۱ ای روی تو آئینۂ دیدار خدایی

بینایی ترا نیست ز اللّٰہ جدایی

۲ تا سرو تو در گلشن ایجاد خر امید

بو سند زمیں تو تذروان سمایی

۳ دادی بہ ھُما روز ازل سایۂ خود را

شک نیست کہ فیض تو بُوَد فیض ھمایی

۴ عنبر نشود سبز گل تازہ تر آید

آنجا کہ کند خلق خوشت غالیۂ سایی

۵ گر خاک درت حسن توجّہ ننماید

آئینۂ دل را کہ کند زنگ زدایی

۶ آن عنصر خاکی کہ نمودی شب معراج

بر ھفت فلک جلوہ زھی جلوہ نمایی

۷ پرودۂ خوان کرمت ھر کہ و ھر مہ

عیسیٰ کند از مایدہ اٰت زلہ ربایی

۸ با جبھۂ وابس کہ دھی داد سخاوت

خجلت نکشد غیرت سایل ز گدایی

۹ نشناخت کہ بستن چہ بود دستِ مبارک

بو سد کف فیاض ترا حاتم طایی

۱۰ نشنیدہ سخن فیض بہ سایل برسانی

حاشا کہ بود دستِ تو رھن شنوایی

۱۱ انگشتِ تو آلودہ بہ خون در رہ ایزد

زیبندہ بہ انگشتِ تو این رنگِ حنایی

۱۲ قرآن تو تا روز جزا سامعہ افروز

ننمود کسی غیر تو اعجاز کذایی

۱۳ افگندہ دعای تو ز پا بد گھران را

در سینۂ دشمن رود این تیر ھوایی

۱۴ بدعت نتواند کہ بر آرد نفسی راست

نی می شکند شرع تو در سینۂ نایی

۱۵ بستند کمر پیش غلام تو امیران

ریبد بہ غلام تو امیر الامرایی

۱۶ شاہا گرہِ کار من غمزدہ واکن

در ناخن لطفِ تو بُوَد عقدہ کشایی

۱۷ ھر لحظہ ز جا خیزم و برگردِ تو گردم

لازم کہ کنی پر سش احوال فدایی

۱۸ خواھم کہ کنم طوفِ تو بار دگر امّا

درماندۂ کار خودم ازبی سرو پایی

۱۹ شبنم نتواند کہ پَرَد جانب بالا

خورشیدِ جہانتاب دھد بال رسایی

۲۰ این کام کہ خواھم ز جناب تو روا ساز

در پیش تو مشکل نَبُود کام روایی

۲۱ سلمان کہ رھا گشتن او عقل نمی خواست

لطفِ تو بہ او داد زنجیر رھایی

۲۲ با من عملی نیست کہ فردا برھاند

جز این کہ بہ پای تو کنم ناصیہ سایی

۲۳ گر خاک شوم از سرکوی تو نخیرم

آسودۂ کوی تو نباشد ھمہ جایی

۲۴ توصیفِ تو از حوصلۂ ناطقہ بیرون

کلک کہ تواند کہ کند عھدہ بر آیی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

۲۵ آزاد رساندی بہ کجا سحر بیانی

بستند زبان پیش تو عرفی و ثنایی

۲۶ لیکن تو و اظہار کمال این چہ مناسب

عیب است بہ نزدِ عقلا خویش ستایی

۲۷ صیت نبوی در دوجھاں شور فگن باد

تا فاختہ بر سروکند نغمہ سرایی

اردو ترجمہ :

۱- آپ کا چہرۂ مبارک ساری کائنات کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی بینائی، بصارتِ الٰہی سے جدا نہیں ہے۔

۲- جب تک آپ اس گلشن ایجاد (دنیا) میں حیات رہے فرشتے آپ کی قدم بوسی کرتے رہے۔

۳- آپ ﷺ نے روز ازل میں اپنا سایہ ھماکو دیدیاتھا اسلئے جس شخص پر ھما کا سایہ پڑ جائے وہ بادشاہ ہوجاتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ھما کا فیض دراصل آپ ہی کا فیض ہے۔

۴- پھولوں میں اس وقت تک خوشبو پید انہیں ہوتی جب تک کہ وہ آپ ﷺ کے مشک بیز آستانے پر حاضری نہ دے لے جہاں ایک عالم جبہ سائی کرتا ہے۔

۵- آپ ﷺ کے آستانے کی خاک کے سوا کون سی ایسی شئے ہے جس کے مَلنے سے آئینۂ دل صاف ہوسکے۔

۶- آپ ﷺ کے عنصر خاکی نے معراج کی شب وہ جلوہ دکھایا کہ ھفت افلاک روشن ہوگئے۔

۷- وہ شاہ ہوں یا گدا سب آپ کے خوانِ کرم کے پروردہ ہیں یہانتک کہ عیسیٰ بھی آپ کے مائدۂ کرم کے ریزہ چیں ہیں۔

۸- آپ ﷺ نے اس خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے دادِ سخاوت دی کہ کوئی سائل اپنی گداگری پر خجل و شرمندہ نہیں ہوانہ ہی اس کی غیرت پر کوئی ضرب پڑی۔

۹- آپ ﷺکا دست کرم رکنا اوربس کرنا جانتا ہی نہیں ، حاتم ِطائی بھی آپ کے دستِ سخا کو بوسے دیتا ہے۔

۱۰- سائل کے سوال کرنے سے پہلے ہی آپ ﷺ کا فیض اُسے پہنچ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کا دست کرم کبھی سائل کی صدا کا منتظر نہیں رہا۔

۱۱- آپ کی مقدس انگلیاں اللہ کی راہ میں لہو لہان ہوگئیں ، یہ رنگ حنائی آپ ہی کی انگلیوں پر جچتا ہے۔

۱۲- آپ ﷺکا قرآن تا قیامت کانوں میں رس گھولتا رہے گا، ایسا معجزہ آپ کے سوا کسی نے نہیں دکھایا۔

۱۳- آپ ﷺکی دعا نے بد طینتوں کو ڈھیر کردیا، یہ ہوائی تیر دشمنوں کے سینوں میں پیوست ہوگئے۔

۱۴- بدعت میں اتنی سکت نہیں کہ سکون کی ایک سانس بھی لے سکے، کیونکہ آپ ﷺ کی شریعت بانسری کی لے کو اس کے سینے ہی میں دفن کردیتی ہے۔

۱۵- امراء آپ ﷺ کے غلاموں کے آگے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں، امیر الامرائی (بادشاہت) آپ ﷺ کے غلاموں ہی کو زیب دیتی ہے۔

۱۶- اے شہنشاہ ! مجھ غمزدہ کے رکے ہوئے کاموں کی گرہ کھول دیجئے کہ آپ ﷺ کے ناخنِ لطف و کرم ہی کار کشائی کا اعجاز رکھتے ہیں۔

۱۷- میں جب جب اپنی جگہ سے اٹھوں اور آپ ﷺ کا طواف کروں تو اس جاں نثار سے احوال ضرور دریافت فرمالیا کریں۔

۱۸- میری خواہش ہے کہ دوبارہ آپ ﷺ کا طواف (زیارت) کروں لیکن بے سروسامانی نے مجھے عاجز و درماندہ کررکھا ہے۔


۱۹- شبنم میں از خود اتنی سکت نہیں کہ آسمان کی جانب پرواز کرسکے الّایہ کہ آپ کا حسن جہاں تاب اسے اس کی اجازت دے۔ (یہاں شبنم خود آزاد کا استعارہ ہے۔)

۲۰- میں چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ کی سرکار سے دوبارہ حاضری کا پروانہ جاری ہوجائے اور یہ کام آپ کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

۲۱- سلمان جس کا آزاد ہونا بعید از عقل تھا آپ ﷺکے لطف و کرم نے اسے زنجیر سے رہائی دلائی۔

۲۲- میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو حشر میں میرے کام آسکے، میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ ﷺ کے قدموں میں سر رکھ دوں۔

۲۳- اگر آپ ﷺ کے کوچے کی خاک ہوجائوں تو پھر وہاں سے نہ اٹھوں ، اور پھر جسے آپ کے کوچے میں جگہ مل گئی تو اسے کہیں اور جانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔

۲۴- آپ ﷺ کی تعریف و مدح دائرۂ بیان سے باہر ہے، کسی کے قلم میں یہ سکت و صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کی توصیف کما حقہٗ بیان کرسکے۔

۲۵- آزاد ! تو نے سحر بیانی کو اس معیار تک پہنچا دیا ہے جہاں عرفی و ثنائی بھی عاجز نظر آتے ہیں۔

۲۶- لیکن خود اپنی زبان سے اپنے کمال کا اظہار بڑی نامناسب بات ہے، عقلمندوں کے نزدیک اپنی تعریف آپ کرنا جہالت ہے۔

۲۷- نبی کریم ﷺ کی شہرت کا آوازہ سارے جہان میں گونجتا رہے جب تک کہ سرو پر عمریاں گیت گاتی رہیں گنگناتی رہیں۔

منابع:

۱) کلیات آزاد بلگرامی۔ پروفیسر سیّد حسن عباس

۲) روضۃ الاولیاء۔ سیّد غلام علی آزاد بلگرامی

۳) روضۃ الاقطاب۔ مولوی رونق علی لکھنوی

۴) بحر الفصاحت۔ نجم الغنی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نعت کائنات پر نئی شخصیات
نئے صفحات


حواشی [ دبستان نعت ][ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱؎ : بحر الفصاحت۔ نجم الغنی ، راجہ رام بکڈپو، لکھنؤ (۱۹۲۶ء)