حدائق بخشش اورکلیاتِ حسن کے متن کاالمیہ ،- ڈاکٹر صابر سنبھلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ڈاکٹر صابرسنبھلی ۔ انڈیا


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Sabir Sanbhali has pointed out some textual errors of Hadaiq- e Bakhshish of Aalaa Hazrat Ahmad Raza Khan Brailvi and Kuliyaat-e-Hasan of Hasan Raza Brailvi. These books are said to have been compiled by non poets who missed some metric errors in the couplets besides daring to correct some couplets without authority. Dr. Sabir has also pin pointed the lacunae of Kulliyaat-e-Hasan, which contains some couplets of Ahmad Raza Khan (R.A) with his own pen name i.e. Raza. The errors indicated in the article, presented beneath, need to be rectified with due care in the light of delineated facts.

حدائقِ بخشِش اور کلیاتِ حسنؔ کے متن کا الَمیَّہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردوزبان کی نعتیہ شاعری کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت رضاؔ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف حدائقِ بخشش 1325ھ (ہردو حصص) اوراُن کے برا درِ خورد حضرت حسنؔ بریلوی علیہ الرحمہ کادیوان ذوقِ نعت 1326ھ دونوں ہی گل سرسبد کا درجہ رکھتے ہیں ۔اردو خواں طبقے میں شاید ہی ان کے برابر کسی نعتیہ دیوان کی پذیرائی ہوتی ہو۔ آج صدی سے زیادہ مدّت گزر جانے پر بھی ان کے مضامین فرسودہ نہیں معلوم ہوتے اور اب تک وہی مزہ اور لطف دیتے ہیں جواپنی تخلیق کے آغاز میں دیتے ہوں گے ۔ان دونوں عظیم شاعروں کاانداز بیان اس پر مستزاد ہے ۔ لیکن نعتیہ شاعری کے شاہ کار ہو تے ہوئے بھی ان کے متن کا معاملہ کسی المیے سے کم نہیں ہے ۔دونوں کتابوں کے بارے میں چند اشاروں سے کام لوں گا ۔ سمجھ دار کواشارہ بھی کافی ہوتا ہے ۔

پہلے حدائقِ بخشِش کو لیجیے ۔یہ کتاب غالباًاس شاعر کی حیات میں طبع ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد طویل طویل وقفوں سے کبھی کہیں سے اور کبھی کہیں سے شائع ہوتی رہی ۔ رضوی کتب خانہ بریلی سے اس کاایک بہتر ایڈیشن بھی چھپا تھا ۔ میراخیال ہے کہ یہ 1970 تک بھارت میں تو لیتھ پرہی چھپی پاکستان کاحال معلوم نہیں ۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں رضا اکیڈ می بمبئی کے ذمّے دار ان کو خیال آیا کہ اس کا کوئی صحیح ترین ایڈیشن شائع ہونا چاہیے ۔اصل مقصد تصحیح متن ہی تھا ۔اس کے لیے اکیڈمی نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا،مگر حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ حدائق بخشِش چھپی اورقابلِ دید چھپی ۔کوئی بھی ہو اُس کے ظاہری حسن کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔لیکن جواصل مقصد تھا وہ حاصل نہیں ہوا ۔ صحت متن کاحق توکیا ادا ہوتا جوصحت لیتھ کے ایڈیشنوں میں تھی وہ بھی کئی جگہ مجروح ہوگئی ۔کتاب بغورپڑھی تو یہی زبان سے نکلا ۔

اے بسا آرزو کہ خاک شدی

اس کو مبالغہ نہ سمجھا جائے ۔قدرے تفصیل سے عرض کروں تویہ بات ثابت ہوجائے گی۔ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ کتاب سابق ایڈیشنوں کے مقابلے میں ناقص ہوگئی (اور یہ متن کا بدترین عیب ہوتا ہے ) ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔

حدائق بخشِش حصہ دوم میں حضرت غوث پاک علیہ الرحمہ کی شان میں رباعیات کاایک دیوان ’’نظم معطّر ‘‘ 1309ھ کے تاریخی نام سے شروع سے ہی شامل رہا ہے ۔اس کی ردیف الزّ ا ،میں ایک شعر یہ بھی ہے ،جو اس سے پہلے ہر ایڈیشن میں موجود ہے۔

اے بردرِ تو نماز عبدالقادر

اے رُخِ تو نیاز عبدالقادر

معلوم نہیں کہ اس شعر میں کوئی شرعی سُقم ہے ،کوئی فن کی غلطی ہے یا معنوی اعتبار سے کوئی نقص مرتب کے ذہن شریف میں آیا ،رضا اکیڈمی کے اس نسخے میں اس کو شامل نہیں کیا گیا ۔جن حضرات کے پاس یہ نسخہ ہو ملاحظہ فرمالیں ۔کسی شعر کا کم کیا جانا حادثے سے کم نہیں ہوتا ۔یہ دیانت داری کے سراسر خلاف اور مرتب کے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت ہوتا ہے ۔اس کمی کو مجھ فقیر نے ہی دریافت کیاتھا اور ماہ نامہ ’’اعلیٰ حضرت ‘‘ بریلی بابت ستمبر 2007 (جلد 47 شمارہ 9)میں اس تحریف کی اطلاع بشکلِ مکتوب شائع کرادی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں صفحہ 64۔

اس کے بعد بدایوں جانا ہواتو وہاں پرحضرت علامہ شیخ مولانا اُسید الحق عثمانی قادری ازہری (شہید بغداد) علیہ الرحمہ سے بھی ملاقات ہوئی ۔ اس تحریف کاذکر آیا تو انہوں نے بتایا کہ امام احمدرضا اکیڈمی بمبئی کے مذکورہ نسخے سے ایک اور شعر بھی حذف ہوا ہے اور وہ یہ ہے ۔

اک طرف اعدائے دیں ، ایک طرف حاسدیں

بندہ ہے تنہا تنہا ! تم پہ کروروں درود

گھر آکردیکھا توواقعی شعر مذکورہ بالا اکیڈمی کے نسخے میں نہیں پایا ۔حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔ اس لیے کہ اس شعر میں بھی کوئی شرعی ،فنّی یا معنوی نقص نہیں ہے ۔معلوم نہیں اس کو کیوں قلم زد کیاگیا ۔حضرت شیخ نے یہ بھی بتایا کہ حدائق بخشِش کاایک مطلع فتاواے رضویہ کی کسی جلد میں بھی شامِل ہے جس کا متن حدائق بخشش کے متن سے مختلف ہے ۔جہاں تک مجھے یادآتا ہے انہوں نے اس مطلع کاذکر کیاتھا ۔

سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے

گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے

کس جلد میں یہ شعر نقل ہوا ہے یہ اُس وقت اُن کویاد نہیں آیا ۔میں بھی دیگر کاموں میں لگ گیا۔ اگر کوئی صاحب فتاواے رضویہ میں تلاش کرسکیں تو یہ نیک کام ہوگا ۔ہوسکتا ہے مذکورہ بالا مطلع میری یادداشت میں گڑ بڑ ہوگیا ہو اوروہ کوئی دوسرا شعر ہو ۔اگر ایسا بھی ہو تب بھی فتاوے میں درج شعر کا متن ہر کتاب میں درج متن کے مقابلے میں صحیح ترہوگا۔ کیونکہ وہ خود شاعر نے لکھا ہوگا ۔

اور ملاحظہ فرمائیے امام احمد رضا اکیڈمی کاشاہ کار نسخہ حدائق بخشش صفحہ 290 ۔اس پر مثنوی کے شعر ۱۰ ؂ کے پہلے مصرع کی جگہ صرف نقطے لگے ہیں ، ان کو کوئی اردو فارسی ، عربی خواں نہیں پڑھ سکتا۔گویا یہ مصرع بھی حدائق بخشِش سے غائب ہے ،بلکہ جان بوجھ کر غائب کیاگیا ہے ۔

اتنے پر ہی بس نہیں ۔ان کے علاوہ کم از کم چھ۶ مقام ایسے ہیں جہاں ایک ایک یادو ۔دو لفظ حذف کردیے گئے ہیں اور اُن کی جگہ نقطے لگادیے گئے ہیں ۔ان کو بھی کوئی نہیں پڑھ سکتا اور جب پڑھ نہیں سکتا تو سمجھے گا کیسے؟ گویا جن اشعار میں یہ خالی جگہیں ( بیاضیں ) چھوڑی گئی ہیں ناقابل فہم ہونے کی وجہ سے اُن کاہونا یا نہ ہونا برابر معلوم ہوکہ اچھا خاصا کلام ناقابلِ خواند اور ناقابل تفہیم ہے۔ایسا اور کسی ادارے کی چھاپی ہوئی حدائق بخشِش میں نہیں ہے ۔کلام کے حذف کوخوبی کہا جائے یا خامی یہ امام احمد رضا اکیڈمی بمبئی کے نسخے میں ہی پائی جاتی ہے ۔پندرہ برس پہلے اس کی طباعت ہوئی تھی ۔متعدد ایڈیشن شائع ہو چُکے ،لیکن یہ بیاضیں پُر نہیں ہوئیں ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ بیاضیں قیامت تک کے لیے چھوڑی گئی ہیں ۔

یہی نہیں اس نسخے میں مرتّب نے شاعر کے کلام پر اصلاح دینے کا مذموم اور ناقابلِ معافی جُرم بھی کیا ہے ۔ صفحہ ۳۰۱ پر ایک رباعی یوں ہے ۔

ہوں کردو تو گردوں کی بِنا گرجائے

ابرو جو کھنچے تیغ قضا کِر جائے

اے صاحب قوسین بس اب رد نہ کرے

سہمے ہوؤں سے تیرِ بلا پھر جائے

لفظ ’’کِر‘‘ حدائق بخشِش کے کسی نسخے میں نہیں ہے ۔ نہ شاعر نے اس کو نثر یانظم میں کہیں استعمال کیاہے ۔ ’’الملفوظ‘‘ میں بھی کہیں نظر نہیں آیا ۔کسی مکتوب میں بھی نہیں ہے ۔معلوم ہوا کہ لَفظ شاعر کے استعمال میں تھا ہی نہیں ،مگر کتاب کے مرتب حکیم جی شررؔ مصباحی نے اس رباعی پر اپنی علمیت اور قابلیت کے زعم میں اصلاح دے دی ۔بقول حکیم جی اس رباعی کے مطلع میں ایطا کا عیب تھا،جواصلاح سے دور ہوگیا۔ اگرغور کیاجائے تویہ اصلاحی رباعی قطعاً بے ضابطہ ہوگئی ۔اس کے قوافی بِنا،قضا اور بَلا ہیں جو بالکل دُرست ہیں۔ پھر ایطا کہاں سے آگیا ؟ ’’گِرجائے ‘‘اِس کی ردیف ہے جوسہو کاتب سے چوتھے مصرع میں’’ پھرجائے‘‘ ہوگئی ۔اب ذرا تیسرے اور چوتھے مصرع کو ملا کر پڑھیے ۔ تیسرے مصرع کا مفہوم تویہ آرزو ہے کہ تیربلاواپسی نہ کرے (رد کا معنی ہے واپس ہونا) اور چوتھے میں یہ خواہش ہے کہ تیر بلا واپس ہوجائے (پھر ناکا معنی بھی واپس ہونا ہی ہے ) ۔ایک ہی شعر میں دو ۲ متضاد خیالات یا آرزوئیں حضرتِ رضا کی فکر سے بھی بعید ہیں،لیکن اس بوالعجبی کاخیال کسی قاری کوبھی نہیں آتا ۔’’کرد‘‘ (راے مہملہ اوردال مہملہ ) میں اگر دوسرا حرف ’’واؤ ‘‘ہوتا توخواہ اس کا مفہوم کچھ کم واضح ہوتا ،مگر یہ تضاد نہ ہوتا ۔ہوسکتا ہے یہ لفظ ’’رد‘‘ (مع دال مہملہ ) کے بجائے ’’راؤ‘‘ (مع واؤ) ہی ہو ،جو التباس یا بے احتیاطی کا تب کے سبب کچھ ہوگیا ہو ۔ اس رباعی میں اگر ردیف ’’گرجائے ‘‘ مان لی جائے تویہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہتا ۔

لیکن مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے ۔ اس نسخے کے صفحہ ۶۳ کو ملاحظہ فرمائیے جہاں مصحح یا مرتّب نے فنّی بحثیں کی ہیں ، اس رباعی کا چوتھا مصرع یوں تحریر فرمایا ہے ۔

گرتے ہوؤں سے تیر بلا پھر جائے

اور صفحہ 302 پر یہ مصرع حکیم جی نے یوں لکھا ہے ۔

سہمے ہوؤں سے تیر بلا پھر جائے

سوال یہ ہے کہ صحیح متن کیا ہے؟ ’’گرتے ہوؤں‘‘ یا ’’سہمے ہوؤں‘‘ ؟

یہ بات کتاب میں کہیں ظاہر نہیں کی گئی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی قاری کوبھی اس سے تشویش یا شکایت پیدا نہیں ہوئی ۔

شعری مجموعوں میں سب سے زیادہ بُری غلطی مصرع کا ناموز وں ہونا ہوتی ہے ۔شاعر تو ناموزوں طبع نہیں ہوتے ،مگر کاتب کی غلطی اور پروف ریڈر کی نظر چوک جانے سے موزوں مصرع ناموزوں ہوجاتے ہیں ۔افسوس کہ تصحیح کے بعد بھی اس کتاب میں ناموزوں مصرِع رہ گئے ہیں ۔اس کی ایک نمایاں مثال صفحہ 290 پر ہے ۔یہاں ایک مصرع مصحح کی فہم کے مطابق ناموزوں تھااُس کو حذف کردیا اوراُس کی جگہ بیاض چھوڑدی ۔افسوس اس بات کاہے کہ اُس کا مصرع ثانی بھی ناموزوں ہے ۔اُس کو جیسا ہے ویسا ہی نقل کردیا گیا ہے ۔بہتر ہوتاکہ اس کوبھی حذف کردیتے ۔ ۱؂

مضمون طویل ہواجاتا ہے ۔ اس لیے بہت سی باتیں نظر انداز کرتا ہوں ۔صرف زبان کی غلطی کی ایک مثال اور پیش کرنا چاہتا ہوں ۔اس کے بعد ایک نعت کے قوافی کی جانب بھی کچھ اشارے کروں گا:

صفحہ 52 پرایک شعر ہے ۔

ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کوآئے

بیکس کے اُٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول

’’بھرن‘‘ کو مصحح نے مذکّر مانا ہے ورنہ اضافت ’’کے‘‘ کے بجائے ’’کی‘‘ ہوتی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ’’بھرن پھول‘‘ کسی پھول کانام سمجھتے ہوں ۔اگر ایسا ہوتا تو یہاں ’’کے‘‘ کاہی محل تھا ،مگر افسوس کہ اس نام کا کوئی پھول نہیں ہوتا ۔’’کے‘‘ کے ساتھ اس شعر کی کوئی صحیح تشریح بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر مصحح کسی سے سیدھے منھ بات کرلیں اور سیدھی طرح جواب دے دیں تواس شعر کا مطلب اُن سے در یافت کیاجائے ۔لیکن وہ سیدھی طرح جواب دیں گے اس کی امید کم ہے ۔

ثابت ہوگیا کہ اس کتاب کے متن کی نام نہاد تصحیح میں ہر طرح کے اغلاط راہ پاگئے ہیں ۔ ص۹۶ ملاحظہ فرمائیے۔ اس پر درج نعت کے قوافی مَرے ،کَرے ،بَھرے وغیرہم ہیں ۔یعنی’’را ’’سے پہلا حرف مفتوح ہے ۔اسی نعتیہ غزل میں گِرے ،پِھرے اور تِرے قوافی ہیں ، جن میں ’’را‘‘ سے پہلا حرف مکسور ہے ۔یہ قطعاً غلط قوافی ہیں ۔ حضرت رضاؔ بریلوی کے نزدیک یہ کسی طرح درست نہیں ہوسکتے ۔ مرتّب کے عمل نے نہ صرف متن کو خراب کیاہے بلکہ شاعرِ مرحوم کوبھی بدنام کرنے کی کوشِش کی ہے ۔اب زیادہ نہیں کچھ تھوڑا سا ’’کلیات حسن ؔ ‘‘ کے متن کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

اُستاذِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی کا نعتیہ اوردیگر مذہبی کلام ’’ذوق نعت‘‘ کے نام سے چھپا کرتا تھا ۔ اس کا8/1823522 سائر کاایک نسخہ راقم الحروف کے پاس بھی ہے ۔یہ رضوی کتب خانہ بریلی نے چھپوا کر شائع کیاتھا ۔ اس میں 1306؍ صفحات ہیں اورغالباً لیتھ پریس میں ہی چھپا ہے ۔پریس کانام کہیں نظر نہیں آیا ۔البتہ کاتب کانام محبوب رقم درج ہے ۔

تاریخ طباعت 83/ 1510 درج ہے یہ تاریخ طباعت توکیا ہوگی؟ ہاں ختم کتابت کی تاریخ ہو سکتی ہے ۔سال 1383ھ 1963ء کے مطابق تھا ۔ اس کی کتابت اور طباعت توّجہ سے ہوئی ۔اس لیے متن تسلّی بخش ہے ۔86/ صفحات ’’ذوق نعت‘‘ کے ہیں، ۱۴ ؍ نغمۂِ روح ‘‘ کے ہیں اور 36؍ ’’وسائل بخشش‘‘ کے ہیں ۔

(تقریباً) غالباً اس کے بعد جو ایڈیشن شائع ہوئے وہ پاکٹ سائز میں تھے ۔وہ نہ میرے پاس ہیں نہ اُن کو بالا ستیعاب پڑھاہے ۔ اس لیے اُن کے بارے میں کچھ عرض نہیں کرسکتا ۔اب چند سال سے سُنّے میں آرہا تھا کہ رضا اکیڈمی بمبئی کلیات حسنؔ شائع کرارہی ہے ۔ شدید انتظار اس لیے تھا کہ کلیات میں حضرت مولانا حسنؔ بریلوی علیہ الرحمہ کامجازی کلام (ثمر فصاحت) بھی ہونا متوقع تھا۔ مجھے زیادہ اشتیاق اس لیے تھاکہ میرے پاس ثمر فصاحت کی جو فوٹو کاپی ہے اُس میں کتابت کی غلطیاں بہت ہیں اور مجھے اُس سے دلچسپی اس لیے تھی کہ اُن کا مجازی کلام اُستاد داغ ؔ کے خاص رنگ میں تھا ،لیکن افسوس وہ کُلیات میں شامِل نہیں ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ دیواں ’’ ثمر فصاحت ‘‘ الگ سے شائع ہوگا ،مگر مجھے اُمّید نہیں ہے کہ وہ اب شائع ہو ۔

کُلیات حسنؔ اشاعت کے 7‘8 ؍ماہ بعد مجھے دستیاب ہوا۔ مطالعہ کرنے سے پہلے ورق گردانی کرنے کو بیٹھ گیا ۔ دیکھا کہ ’’نظم معطّر ‘‘ جو حضرت رضاؔ بریلوی کی فارسی رباعیات کادیوان ہے وہ بے کم و کاست کلیات حسنؔ میں شامل ہے (حتی کہ ردیف الزاء میں ایک شعر جو حکیم جی شررؔ مصباحی نے غلط سمجھ کر خارج کردیا تھا وہ اس سے بھی خارج ہی ہے )اوردو2 جگہ تخلص رضاؔ بھی موجود ہے۔ واضح ہوکہ یہ پوری نظم حدائق بخشِش حصہ دوم میں شامل ہے ۔ ان رباعیات کی تعداد ۶۶؍ہے ۔تین عربی زبان میں ہیں باقی فارسی میں ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ عربی کے تمام حروف تہجّی کے قوافی یارد افی میں یہ رباعیات کہی گئی ہیں اور حروف ہجا کی ترتیب سے ہی درج ہوئی ہیں ۔اسی وجہ سے میں اس نظم کودیوان کہہ رہا ہوں ۔ان میں ۷؍ عدد مستزاد [رباعی | [رباعیات]] بھی ہیں۔

کلیات یا دیوان کی ترتیب میں ،جب کہ ترتیب مطبوعہ کلام اور کتابوں سے ہورہی ہو متن میں بے سَبَب کمی یا بیشی ہونا کوئی معمولی غلطی نہیں ہوتی ۔ لیکن یہاں تو مرتبین نے کلام حسنؔ میں مولانا رضاؔ بریلویؒ کاایک کامل دیوان ہی شامل کرلیااور انہیں پتہ بھی نہیں چلا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہردو۲ مرتبین نے (جن میں ایک بھارت کے ہیں اور دوسرے پاکستان کے) حدائق بخشِش کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان دونوں صاحبان جمع وترتیب کے کام کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے تھا ۔ ہوسکتاہے یہ کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہو کیونکہ ایک مرتب وہاں کے بھی ہیں ۔

لکھ چکا ہوں کہ مجھے یہ کتاب اشاعت سے 7۔8 / ماہ بعد دستیاب ہوئی ۔معلوم ہواکہ اتنی مدّت میں اخبارات ورسائل میں اس کام کی خوب واہ واہ ہوئی ، لیکن کسی نے یہ نہیں لکھا کہ جو کلام سو100 سال سے اب تک بڑے بھائی کاتھا وہ یکایک چھوٹے بھائی کاکیسے ہوگیا ۔ اس میں تووراثت کا قانون بھی نافِذ نہیں ہو تا اور ہوتا بھی توبھائی کوتو حق بعد میں پہنچتا ،پہلے اُن کے فرزند کو پہنچنا چاہیے تھا۔

بہرحال اس عجوبۂ زماں کام کودیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے مبہوت ساہوگیا اور میں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ کلام مولانا حسنؔ بریلوی کاہی ہوگا ،جو حدائقِ بخشِش کی ترتیب کے وقت غلطی سے اُس میں شامل ہوگیا ہوگا ۔صرف ایک چیز نے اس کو کُلّی طور پر تسلیم کرنے سے مانع رکّھا اور وہ چیز تھی دو۲ جگہ رضاؔ تخلص کا موجود ہونا پھر اس پر بھی حیرت تھی کہ مرتب ایک نہیں ،دو۲ تھے انہیں یہ تخلص کیوں نظر نہیں آیا ۔اور ہاں ان رباعیوں کااردو میں ترجمہ کیا تواُس ترجمے میں بھی یہ تخلص شامل رہا ۔یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا اور کیسے ہوا؟

آخر اپنے تاثرات ایک مراسلے کی شکل میں ماہ نامہ اشرفیہ مبارکپور (ضلع اعظم گڑھ یوپی) اور ماہ نامہ سُنی دنیا بریلی کو لکھ بھیجے ۔نقد کاکوئی بُرا نہ مانے اس لیے کلیات کی خاصی تعریف بھی لکھ دی تھی مگر مراسلہ چھپا تو ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ہردو۲ مرتبین کا غیظ وغضب دیدنی تھا ۔میرے ’’مطبوعہ نسخے‘‘ لکھنے کی بھی خوب ہنسی اڑائی ۔ماہنامہ ’’جام نور‘‘ دلّی میں جو ابی مراسلہ چھپا تھا اُس میں مرتبین نے جو صفائی دی ہے ،اُس کاایک جُملہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔وہ کچھ اس طرح ہے ۔’’ہم نے نظم معطر کے کلام حسنؔ ہونے کادعویٰ کہیں نہیں کیا ہے ۔‘‘ (اُس وقت مطبوعہ مراسلہ پیش نظر نہیں ہے اس لیے یہ جُملہ یادداشت سے لکھا گیا ہے )

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ کیا اس نظم کاکلیات حسنؔ میں شامل ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ہردو۲ مرتبین اس نظم کو حسنؔ میاں کاکلام سمجھتے تھے ۔خیر اس کو جانے دیجیے ۔کلیات حسنؔ سے دو۲ جگہ سے کچھ جُملے نقل کرتا ہوں ۔

’’ہم نے محض مولانا حسن رضا محقق بریلوی کی مظلوم شخصیت کے گراں مایہ علمی وفکری اثاثہ جات کی شیرازہ بندی کاارادہ کیا۔۔۔ تو سارا خواب حقیقت کا روپ دھار تا چلا گیا ‘‘(ص۷) ’’وسائل بخشِش ۔۔۔ اس میں نظم کاسہارا لے کر مولانا نے معتبر ومستند حوالوں سے پیران پیر دستگیر کے کوائف واحوال بیان کیے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اخیر میں دو تاریخی قصیدے ’’نعمۃ الرّوح ‘‘ اور ’’نظم معطّر‘‘ 1309ھ بھی شامل ہیں ۔‘‘ (صفحہ 9)

طوالت سے بچنے کے لیے اقتباس میں صرف ضروری الفاظ نقل کیے گئے ہیں (جسے تفصیل دیکھنی ہو کتاب میں دیکھ سکتا ہے ) ان جُملوں کوپڑھنے والوں سے صرف اس بات پرغور کرنے کی درخواست کرتا ہوں کہ لفظ مولانا کس کے لیے استعمال ہوا ہے ؟ نیز ’’نغمۂِ روح‘‘ کس کی تصنیف ہے ۔یہ تو ظاہر ہو ہی رہا ہے کہ ’’نغمۂِ روح‘‘ اور’’ نظم معطر‘‘ایک ہی شخص کی تخلیقات سمجھی گئی ہیں جن کو غلطی سے قصیدے لکھ دیا ہے ۔یہ قصیدے کسی طرح نہیں ہو سکتے ۔اس بارے میں مزید کچھ نہیں عرض کرنا ہے ۔

اس کلّیات میں دونوں مرتب صاحبان نے ایک مفید کام بھی کیاہے وہ یہ کہ انہوں نے ماہ نامہ ’’الرّضا‘‘ بریلی سے حضرت اُستاذ زمن کی ایک ایسی نعت حاصل کر لی ہے ،جو "ذوق نعت" میں شامل نہیں تھی اس کے لیے وہ شکریہ کے مستحق ہیں یہاں عرض کر دوں کہ لفظیات انداز بیان اور اسلوب سے وہ بلا شبہ حضرت حسن کی نعت ہے مگر اس کا متن دو(2 ) شعر وں کا اتنا غلط ہے کہ کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور غیر شاعر بھی پڑھ کر اُس کے عیوب کو پہچان سکتا ہے ممکن ہے یہ غلطیاں ’’الرّضا‘‘ میں بھی موجود ہوں ۔دونوں شعر ناموزوں بھی ہوگئے ہیں ان کی تفصیل بیان کیے دیتا ہوں ۔

مطلع میں قافیہ ’’ جان‘‘ اور ’’درخشاں ‘‘ ہیں جو مطلع میں نہیں آسکتے اس لیے کہ ایک قافیے میں نون بالاعلان ہے اور دوسرے میں نون غُنہّ ۔یہ دونوں ہم قافیہ نہیں ہوسکتے آگے ایک شعر کو چھوڑکر تمام اشعار کے ہی نون غُنہّ کے ہی قوافی ہیں اس لیے مطلع اولیٰ میں قافیہ ’’جاں‘‘(مع نون غُنہّ) ہونا چاہیے مگر ایسا کرنے سے مطلع وزن سے خارج ہو جاتا ہے اس لیے ا س میں بہت معمولی تصرّف درکار ہے۔

چوتھے شعر کے دوسرے مصرع میں بھی یہی غلطی ہے جومطلع میں ہے یعنی مصرع ثانی کے قافیے کا ’’نون‘‘ملفوظی حالت میں ہے اس میں ایک لفظ کم بھی ہے علاوہ ازیں دیگر نون کا مسلۂ بھی ہے۔ مرتبین اس کو درست کرالیں ’’کرالیں‘‘ ا س لیے لکھ رہاہوں کہ ہر دو (2) شعر میں مرتبین میں کوئی بھی موزوں طبع نہیں معلوم ہوتا جب کہ شعری مجموعوں کی ایڈٹینگ وغیرہ کا کام ناموزوں طبع کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے ۔

ان کے علاوہ بہت زیادہ تو نہیں کمپوزنگ کی بھی کچھ غلطیاں ہیں اُن کی تصحیح ضروری ہے ۔ رباعیات میں دو(2) قطعے شامل ہو گئے ہیں وہ کسی طرح بھی رباعیاں نہیں ہے ۔دو(2) رباعیوں میں تصحیح کی ضرورت ہے ۔ایک میں پہلے مصرع اور دوسرے دونوں مصرعوں میں ۔

’’ثمرفصاحت‘‘ میں متن کی صحت پر زیادہ توجہ دیں بہتر ہو کہ کسی شاعر یا موزوں طبع سے بھی پروف ریڈنگ کرالیں۔


حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اہل فارسی اشعار کی تقطیع میں بہت زور زبردستی سے کام لیتے ہیں ۔ ایسا جبر اردو والو ں کی طبائع کو بالکل نہیں بھاتا ۔ لگتا ہے کہ ناموزوں کو جبراً وقہراًموزوں ثابت کیا جارہا ہے جیسے ’’زِاَحْوَلی ‘‘کو’’فاعلا تن ‘‘بود کوفع کے وزن پر اور ’’دو‘‘ کو ’’دُ‘‘ کے وزن پر تقطیع کرنا۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 | نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت