جوش ملیح آبادی
شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی ولد بشیر احمد خان 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد نزد لکھنئو کے محلے مرزا گنج میں پیدا ہوئے ۔ جوش ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو میدان جنگ میں تلوار کی دھار اور میدان ادب میں فکر ونشاط کے جلوے بکھیرنے کی روایت ڈالے ہوئے تھا ۔ لکھنئو سے ابتدائی تعلیم کے بعد سینئر کیمرج کے لئے آگرہ تشریف لائے ۔
سال بہ سال
1920 پہلے شعری مجموعہ "روح ادب" کے ساتھ ادبی دنیا میں شناخت بنائی
1925 ۔ 1934 دارلترجمہ حیدر آباد میں ناظر ادب مقرر رہے
1935 ۔ 1939 اپنا رسالہ "ماہنامہ کلیم " شائع کیا
1948 سے 1955 تک " ماہنامہ "آج کل " کی ادارت کی
[ 1957]] میں ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے
شعری مجموعے
روح ادب | نقش و نگار | شعلہ و شبنم | فکر و نشاط | جنون و حکمت | حرف و حکایات | آیات و نغمات | عرش و فرش | رامش و درنگ | سلاسل | سیف و سبو | سرود و خروش | سموم وصبا | طلوعِ فکر | الہام افکار | نجوم و جواہر |
آخر لذکر دو مجموعے پاکستان میں شائع ہوئے
نعت و مرثیے
جوش ملیح آبادی ایک عمدہ مرثیہ نگار تھے ۔ 1921 میں ان کے مرثیوں پر مشتمل ایک مجموعہ " جوش کے مرثیے " ضمیر اختر رضوی نے مرتب کیا ۔ جس کا ٹائیٹل شعر ہے
منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا ایک روز
چہرے پہ خاک مل کے در بو تراب کی
جوش ملیح آبادی نے بے شمار نعتیں بھی لکھیں ۔
نمونہ ِ کلام
اے مسلمانو مبارک ہو نویدِ فتح یاب
اعزازات
پدم بھوشن ایوارڈ، 1957 ، بھارت