تک اور تلک

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 18:19، 19 جنوری 2021ء از ADMIN 3 (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعت ورثہ میں ایک سوال لگایا گیا کہ کیا "تلک پرانا اور متروک <ref> متروکات سخن ۔ مولانا محمد علی جوہر </ref> لفظ ہے۔ جس پر کچھ عمدہ آراء موصول ہوئیں۔

تلک کا متروک ہونا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تحریر: مختار تلہری

یہاں پر بات لفظ پرانا یا نیا کی نہیں ہے ۔ بلکہ بات متروک اور مستعمل کی ہے ۔ لفظ تلک غالباً پچیس سال قبل متروک کیا جا چکا ہے کیوں متروک کیا گیا یہ میری بھی سمجھ سے باہر ہے ۔ جس روز اس کے متروک ہونے کی اطلاع ملی تو مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اتنے خوبصورت لفظ کو آخر شاعری سے کیوں الگ کر دیا گیا۔ اور کب تلک کی جگہ تا بکے کا لفظ دیا گیا۔ بحر کیف اسی روز لفظ تلک کو ردیف بنا کر میں نے کچھ اشعار بھی کہے تھے جو میرے نعتیہ مجموعہ۔صدائے حرم ۔ میں شامل ہیں ۔ اس کا مطلع اس طرح ہے ۔


بسم اللہ کی،با،سےلےکر سورہءناس کی سین تلک

دنیا کی ہر شے ہے اس میں میٹھے سے نمکین تلک


اب رہی بات مذکورہ شعر کی تو میرے نزدیک نہ تک کی ضرورت ہے نہ تلک کی اگر اسی مفہوم کو میں نظم کرتا تو یوں کہتا


روضۂ پاک پہ جن جن کی نظر جاتی ہے

زندگی لمحوں میں ایسوں کی سنور جاتی ہے


ضروری نہیں کہ آپ حضرات بھی متفق ہوں


تک اور تلک میں فرق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تحریر :غلام مصطفٰی دائم


یہ دونوں حروف حروفِ جار ہیں،کلام میں انتہائے غایت کے لیے لائے جاتے ہیں۔

ان میں بہ ظاہر کوئی بڑا فرق نہیں، دونوں ظرفِ زمان سے متعلق ہیں۔ اکثر ہم معنیٰ استعمال ہوئے ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ لفظِ "تلک" میں تاکیدی معنیٰ زیادہ ہے جبکہ "تک" میں مطلق مسافت کا بیانیہ۔ جیسے :

تھا بلا ہنگامہ آرا میرؔ بھی اب تلک گلیوں میں اس کا شور ہے

اس شعر میں تلک کو تک کر کے دیکھیں۔ تمام تاکیدی لازمہ ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ کیوں کہ یہاں "تلک" ہی کا مقام ہے۔

لیکن کبھی کبھار لفظِ "تک" بھی تعیین اور تخصیص کے لیے آتا ہے، جیسے کوئی یہ کہے کہ :

”تم نے تو وعدہ تک نہیں نبھایا، آگے کیا کرو گے“

اس مثال میں "تک" کو "تلک" کسی بھی طرح نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہاں اگر "تلک" کریں تو عبارت اپنا حقیقی اور مطلوبہ معنیٰ کھو بیٹھے گی، اور جملہ میں انتہائے غایت کا قصد ہو جائے گا۔ اس لیے یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ دونوں لفظ اپنی جگہ درست ہیں، مستعمل ہیں اور مخصوص معنیٰ کے حامل ہیں۔


یہی ہے ان الفاظ کا باریک فرق۔


یاد رہے کہ مخصوص معنوی استعمال اور عدمِ استعمال کے اعتبار سے لفظ کی تین اقسام ہیں :

معمول، متروک، منسوخ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

معمول : لفظ کا وہ معنیٰ جو معروف و مشہور ہو۔ جیسے لفظِ "مگر" "لیکن" کے معنیٰ میں بھی مستعمل و معمول بہا ہے۔ معمول سے مراد "لفظ کی وہ خاص معنویتی خاصہ جو عصری و تہذیبی متلازم مقتضیات کی رُو سے تعیین پذیر ہو"۔

متروک : مخصوص طبقہ یا تمام اہلِ لغت محدود مدت تک کے لیے کسی لفظ کو متعین معنیٰ سے محروم کر دیں تو اسے متروک کہتے ہیں، یعنی اس لفظ پر متعین معنیٰ کا اطلاق عملاً ترک کر دیا گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے مکمل طور پر خارج از لغت سمجھا جائے، بلکہ وقت اور معاشرتی روزمرے کے حسابوں جُزوقتی ترک ہو سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ وہ جلد یا بدیر پھر مستعمل ہوگا یا کسی دوسرے خطے میں وہ قطعاً متروک نہ ہو اور بلاجھجھک استعمال کیا جا رہا ہو۔ جیسے مذکورہ لفظ "تلک"۔ اگرچہ اسے لکھنؤ والوں نے کچھ عرصہ ترک کیے رکھا، لیکن ہماری ادبی تہذیب و تاریخ گواہ ہے کہ ہر دوسرا شاعر یہ لفظ استعمال کر رہا ہے۔

منسوخ : لفظ کو اس کی مخصوص معنویت کے ساتھ ساتھ اس لفظ ہی کو عصری و تہذیبی ادب سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اس پہ عمل لامحدود مدت تک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے اور اسے غیر فصیح کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔


نوٹ : متروک کو کسی بھی زمانے میں کوئی بھی طبقہ قابلِ عمل بنا سکتا ہے، جبکہ منسوخ کلی طور پر پورے ادب سے نکال دیا جاتا ہے۔ لہٰذا لفظِ تلک از قبیلِ متروکات ہے اور اسے قطعاً اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ سے خارج نہ تصور کیا جائے۔ بلکہ جہاں اس کا محل ہو، وہاں اسے ضرور برتا جائے۔

علمی اردو لغت از وارث سرہندی کےتعصفحہ 458 پہ ہے کہ :

تَک : {مصنف نے اس کے دو معانی لکھے ہیں :}

1- حد ظاہر کرنے کے لیے بولتے ہیں

2- پاس، نزدیک، نیز، بھی


یہاں سے میرے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔ کیوں کہ لفظِ "تلک" ہمیشہ مذکورہ بالا پہلا معنیٰ ادا کرتا ہے، یعنی حد ظاہر کرنے کے لیے۔ لیکن یہاں جو دوسرا معنیٰ بیان کیا گیا ہے، صرف "تک" ہی اس کا متحمل ہے۔ آپ چاہے لفظِ "تلک" کی شعری و نثری ہزارہا نظیریں لے آئیں، وہ بمعنیٰ "نیز، بھی" وغیرہ کسی صورت میں بھی نہیں ہوگا۔ ایک شعر دیکھیں :

گذر ہم سے غریبوں کا کہاں ہے بزمِ جاناں تک

وہاں تو دوڑتا ہے کاٹ کھانے کو نگہباں تک


قیصر دہلوی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


زبان و بیان کے مسائل
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]