"تبادلۂ خیال زمرہ:اعظم چشتی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 108: سطر 108:
پروگرام منیجر  مصطفی  کمال  ریڈیو پاکستان لاہور  سنٹر  حاضر سروس  
پروگرام منیجر  مصطفی  کمال  ریڈیو پاکستان لاہور  سنٹر  حاضر سروس  
ایک ایسے نعت خواں جو بحثیت انسان اور نعت خواں کمال درجہ پر فائیز تھے  میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اعظم چشتی ایک سکول آف تھاٹ کا نام ہے جنہوں نے نعت خوانی کو اسلوب دیا اور ایسا انداز متعارف کروایا  کہ آج بھی پوری دنیا میں اسکی تقلید ہوتی ہے اور  آپ نعت خوانی کا ایسا معیار تھے کہ ریڈیو جیسے ادارہ ہر نعت خواں کو آپ کے دن نعت پر پرکھ کرتا ہے -ایک سچے عشق رسول جو کہ دل کی عط ا گہرائیوں میں ڈوب کر نعت پڑھا کرتے آپکے بے شمار شاگرد ہیں اور پسران جو آپکا نام روشن کر رہے ہیں -میں نے کم و بیش 28 سال ریڈیو پر دینی پروگرامز کیے اور ہمیشہ  اپنے سینئرز  اختر سالک ،ضمیر  فاطمی ،غازی مغیری صاحبان کو بھی  آپکی تعریف کرتے دیکھا اور ہمیشہ نئے آنے والوں کو  اعظم چشتی کی شخصیت بطور مثال دیتے  - ضمیر فاطمی جوریڈیوپاکستان  میں  نعت خوانی کے بہت معتبر استاتذہ میں ہوتا ہے بڑے بڑے نعت خوانان آپ کے فن سے مستفید ہوئے    ہمیشہ اعظم چشتی کی فنی  خدمات کو سراہتےتھے جو ایک  سند  سے کم نہیں
ایک ایسے نعت خواں جو بحثیت انسان اور نعت خواں کمال درجہ پر فائیز تھے  میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اعظم چشتی ایک سکول آف تھاٹ کا نام ہے جنہوں نے نعت خوانی کو اسلوب دیا اور ایسا انداز متعارف کروایا  کہ آج بھی پوری دنیا میں اسکی تقلید ہوتی ہے اور  آپ نعت خوانی کا ایسا معیار تھے کہ ریڈیو جیسے ادارہ ہر نعت خواں کو آپ کے دن نعت پر پرکھ کرتا ہے -ایک سچے عشق رسول جو کہ دل کی عط ا گہرائیوں میں ڈوب کر نعت پڑھا کرتے آپکے بے شمار شاگرد ہیں اور پسران جو آپکا نام روشن کر رہے ہیں -میں نے کم و بیش 28 سال ریڈیو پر دینی پروگرامز کیے اور ہمیشہ  اپنے سینئرز  اختر سالک ،ضمیر  فاطمی ،غازی مغیری صاحبان کو بھی  آپکی تعریف کرتے دیکھا اور ہمیشہ نئے آنے والوں کو  اعظم چشتی کی شخصیت بطور مثال دیتے  - ضمیر فاطمی جوریڈیوپاکستان  میں  نعت خوانی کے بہت معتبر استاتذہ میں ہوتا ہے بڑے بڑے نعت خوانان آپ کے فن سے مستفید ہوئے    ہمیشہ اعظم چشتی کی فنی  خدمات کو سراہتےتھے جو ایک  سند  سے کم نہیں
=== waqia told by wajahat azam===
واقعہ حفیظ تائب کی بیٹی کی شادی کا
حفیظ تائب نے اپنی بیٹی کی شادی طے کی تو دعوت نامہ گھر آ کر دے گئے  مقرہ دن آیا تو والد گرامی صبحی اٹھے اور تیار ہو کر بیٹھ گئے  یہ وہ زمانہ تھا جب شادیاں دوپر کے وقت ہوتیں  والد صاحب لگ بھگ 10 بجے حفیظ تائب کے گھر پہنچ گئے تو حفیظ تائب بہت  حیران ہوئے کہ رخستی کا وقت تو دوپر ایک بجے کا تھا اعظم چشتی 10 بجے ہی پہنچ گئے فرمایا چشتی صاحب شاہد آپکو غلط فہمی ہوئی ہے بارات انے کا وقت دوپہر 1 بجے کا ہے- اعظم چشتی نے کہا" یار میری بیٹی دے شادی اے  میں کوئی محمان نہیں میں میزبان آں  ایہ کیویں ہو سکدا اے کہ باپ گھر بیٹھا رہے  تے محماناں دا استقبال کون کرے گا "

نسخہ بمطابق 05:31، 12 دسمبر 2017ء

یا رسول اللہ ترے در کی فضاوں کو سلام ۔ اکرم قادری ۔ صدیق اسماعیل

5۔ داتا دربار میں جمعرات کی حاضری کی کب شروع ہوئی

6۔ کراچی کے مقابلوں میں کتنی بار گئے ۔ قمر انجم، ادیب رائے پوری وغیرہ سے تعلقات کس نوعیت کے رہے ۔

7۔ اعظم چشتی ایوارڈ کس نے اور کب شروع کیا

8۔ ریڈیو پاکستان پر پہلی نعت کون پڑھی ۔

ان پر کام ہو چکا

فروغِ نعت میں اعظم چشتی کا حصّہ

1952 میں لاہور کے مفید نعت خوان حضرات کے تعاون سے حضرت حسّان بن تابت لفہ کے نام سے ایک جماعت بزمِ حسّان عرضِ وجود میں آئی۔ اس بزم کی صدارت کے لیے صرف اعظم چشتی ہی کی ذات کو موزوں سمجھا گیا۔ چنانچہ اس جماعت کے اصل محّرک حضرت مولانا ریاض الدین سہروردی ( امرتسری) جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نعت کوان اور نعت گو بھی تھے۔ اپنے مفید احباب کے ہمراہ اعظم چشتی کے پاس تشریف لے گئے اور اس جماعت کی صدارت قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جسے آپ نے احتراماً قبول کرلیا۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا موصوف کے مستقلد کراچی چلے جانے کے بعد 14 ستمبر 1970 میں جناب اعظم چشتی نے کل پاکستان جمعیت حسّان کی بنیاد رکھی۔ آپ ہی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ نائب صدارت کا عہدہ جان محمد امرتسری اور جناب محمد علی ظہوری (قصوری) کو سونپا گیا۔ جمعیت حسان کی سرپرستی میں آج بھی ملک کے تقریباً ہر شہر اور قصبہ میں اس کی شاخیں قائم ہیں۔ بلکہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکہ میں بھی اعظم چشتی کے شاگردوں نے جمعیت حسّان کی شاخیں کھول رکھی ہیں۔ اور محافلِ نعت کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ آپ کے فرزند اور شاگرد آج بھی نعتِ رسول مقبول کے ذریعے عشقِ رسول کی شمعیں فروزاں کرنے میں سبق بستی ہیں

نئی معلومات

واقعہ

مرید کے ۔ کسی دوسرے شہر کے تھے ۔ نذراکہ کم کرایہ ، اعظم چشتی صاحب کے بلوا کر آواز لگوانا اور نذرانہ اکٹھا کروانا ۔


نعت اور راگ ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے راگ کھماج مجھ خطاکار سا انسان مدینے میں ہے راگ بھیرویں گذرے وہ جدھر سے راگ میگھ اج سِک تیراں دی ودھیری اے راگ بھیم سمجھا نہیں نیوز مرا عشقِ کے نبات راگ اساوری خود کو دیکھا تو تیرا جْودو کرم یاد آیا راگ ایمن ذاتِ واہدیہ بار بار درود راگ بلاول کون آیا اج دنیا اْتے راگ پہاڑی دل جس سے زندہ ہے راگ تلنگ منقبت خواجہ غریب نواز راگ مالکونس آپ نے اپنی نعتوں میں زیادہ تر راگ کھماج،کلیان اور تلنگ استعمال کیاکرتے تھے۔کہیں راگ داری پسِ پشت رہتی تھی اور رخت سرِ اوّل۔ یعنی رخت پر راگ کو حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔بلکہ لغت کو اپنی شاعری اور جذبے کو اولیت و فوقیت دیتے تھے جبکہ راگ کو پیچھے رکھتے تھے۔میں نے ان کی نعت خوانی کا جب باریک بینی سے تجزیہ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اعظم چشتی کی لغت کے چار انداز تھے۔ ۱۔ عامیانہ(عوامی) ۲۔صوفیانہ ۳۔شاعرانہ ۴۔فنکارانہ اپنی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی انسانی درجے پر کرتے تھے اور جہاں صوفیا اور اہلِ حال حضرات موجود ہوتے وہاں تصّوف اور سلوک سے متعلق اشعار سے لغت کو مزّین کرتے۔جس محفل میں علماء و فضلا اور شاعر لوگ بیٹھے ہوتے وہاں شاعرانہ مہارت و دسترس کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے۔اور جس محفل میں موسیقی سے وابستہ فنکار حضرات بیٹھے ہوتے تو اْن کے ذوق کی تسکین کے لئے راگ داری اور کلاسیکی موسیقی کے رموزواسرار سے پروہ کشائی فرماتے جاتے اور لوگ سْر رہ جاتے۔گویا انہیں ہر محفل کو اور ہر قسم کے سامع کو قابو کرنے کا فن آتا تھا۔انھوں نے روایتی نعت خوانی بھی کی۔لیکن اس میں اپنی ذہانت، علم،مطالعہ اور ریاضت سے نت نئے تجربات بھی کیئے اور نعت خوانی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بھی عطا کی۔

data darbar

داتا دربار مسجد : گر تو خواہی ہمنشینی باخدا او نشیند در حضور اولیا حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے دربار و مسجد کی وجود کئی صدیوں پرانی تاریخ ہے اور اس جہاں میں اگر کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ یہی نعت خوانی کی پہلی عظیم یونیورسٹی ہے جہاں نعت خواں ہر جمعرات ،مذہبی تہوار و عرس پاک داتا گنج بخش پہ حاضری کے لیے تشریف لاتے ہیں اور یہاں اہل محبت مختلف شہروں صو بوں اور ممالک سے صدیوں سے شب و روز حاضری کا شرف عطا کرتے ہیں اور ہر ہر جمعہ رات کو باقاعدگی کیساتھ محفل سماع و محفل نعت کا انعقاد بھی ہوتا ہے – نعت خوانی کی یہاں تاریخ یقننا صدیوں پرانی ہے ہر دور میں اسکے انداز بدلتے رہے -آزادی پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند سے نعت خواں یہاں آکر محفل نعت میں نعتیں مبارکہ پڑھتے اور سامعیں سے خوب داد بھی وصول کرتے -جو سامعین اپنے گھروں میں محفل نعت کا انعقاد کروانا چاہتے وہ ان نعت خوانان کو اپنے ساتھ گھروں میں لے جاتے اور محفل نعت کا انعقاد بھی کرواتے – دربار گنج بخش ہی وہ مرکز تھا جہاں سے نعت خوانی کے لیے نعت خوانان کو مدعو کیا جاتا اور یہی وہ مرکز تھا جہاں نعت خوانان کو پزیرائی مل جاتی تو یہ سند ہو جاتی کہ وہ ملک پاکستان کا معروف نعت خواں بن جاتا – آزادی پاکستان کے بعد تو فیض گنج بخش نے فروغ نعت خوانی میں بہت کردار ادا کیا اور یہاں بانی محفل پوسٹر لگا دیتے تو سبھی اہل نعت ان محافل میں شرکت کے لیے اس مقام پر پہنچ جاتے - ملک بھر سے نعت خوانان جمعرات کو یہاں آتے اور اپنی خوش الحانی سے اہل نعت کو متاثر کرتے اور بانی محفل کیطرف سے لگائے گئے پوسٹر و بینرز کو پڑھ کر محفل نعت میں شرکت کرتے-آج بھی پنجاب بھر کی محافل نعت کے پوسٹر آپکے دربار کے باہر آویزاں ہوتے ہیں یوں اس مرکز پر اہل نعت کا شب روز آنا ان بینرز و پوسٹرز کا پڑھنا ایک پبلسٹی کا سبب بھی بنتا ہے -شاہد ہی کوئی ہندو پاک کا معروف نعت خواں ہو جس نے یہاں آکر نعت مبارکہ نہ پیش کی ہو

waqaia munir hasami multan

واقعہ منیر ہاشمی : یہ کوئی 1970 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے مجھے علم ہوا کہ اعظم چشتی ملتان قادر پور رواں آ رہے ہیں تو سوچا ملاقات کا شرف حاصل کروں کبھی آپ سے ملاقات نہ ہوئی تھی -میں قادر پور رواں پہنچ گیا جہاں حضرت کبیر شار صاحب جو حضرت بہاو ادلدین ذکریا کی اولاد ہیں کے دربار عالیہ پر محفل نعت کا اہتمام کیا گیا – تھوڑی جستجو کرکے میں بانی محفل کے پاس پہنچا تو اعظم چشتی بھی وہاں تسریف فرما تھے بانی محفل نے انہیں بتایا کہ یہ بچہ بھی بہت اچھی نعت پڑھتا ہے میں وہا ں کچھ دیر بیٹھا رہا اعظم چشتی ننے کہا کہ میں کچھ دیر آرام کر لوں اسی اثناء میں نقیب محفل نے نعت پڑھنے کے لیے مجھے بلوایا اور میں سٹیج پر پہنچا اور نعت پڑحنا شروع کی – جیسے ہی نعت پڑھنا شروع کی تو اعظم چشتی نے بانی محفل سے پوچھا یہ کون نعت پڑھ رہا ہے تو اس نے بتایا کی یہی وہ بچہ ہے جو کچھ دیر پہلےآپکوملنے یہاں آیا -اعظم چشتی نے میزبان سے کہا کہ جیسے ہی نعت مکمل کرے اسے میرے پاس بلواو -کچھ ہی دیر بعد منیر ہاشمی آپکے پاس پہنچے اعظم چشتی نے بہت پیار کیا حوصلہ افزائی اور رانمائی بھی کی اور گلے سے لگا لیا اسی محفل میں میں نے آپ سے شاگردی اختیارکرنے کی خواہیش بھی ظاہر کی جو آپ نے قبول کر لی – میں نے دیکھا کہ تمام عمر نئے پڑھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے اور راہنمائی بھی اور یہی کہتے کہ بڑے ادب والا کام ہے نعت پڑھنا اور سننا –

bani e mehfal

اگر سب اہل نعت چاہتے ہیں کہ محفل نعت میں ادب ہو ،سٹیج و پنڈال میں بھی ماحول میں ادب و احترام کا پہلو نظر آئے ،نقیب شور غل مچانے کے بجائے سیرت مصطفی پر فگتگو کرے اور سامعیں بھی محفل نعت کو عقیدت و محبت کیساتھ سماعت کریں تو ایک ہی بنیادی نکتہ ہے اور وہ بنانی محفل کا کردار کہ وہ نمود و نمائیش کو چھوڑ کر سنجیدگی کیساتھ محفل نعت کے تقدس پع سب کو پابند کر سکتا ہے-جب ہم سٹیج پر بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ سب ملکر اس یقین کیساتھ درود پڑھو کہ پیارے آقا سن رہے ہیں تو ذرا غور کرو کہ آپ سرکار سب سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ سٹیج پر سیاسی سو سماجی لوگوں کا ہجوم، سرگوشیاں ، چہمگوئیاں ، سلفیاں اور موبائل فون پر گفتگو یہ کیسا منظر ہے یہ کیا ادب ہے؟ اسی طرح پنڈال میں بھی سیاسی و سماجی افراد کا ہجوم نوٹ دینت والے آگے اور فقیر و درویش سب سے پیچھے من پسند نعت خواں کو نوازنہ ہو تو ایک شخص پنڈال سے اُٹھتا ہے اور نزرانہ کی بارش شروع ہو جاتی ہے ،تصویریں بنانے ویڈیو بنانے کے لیے کچھ اور افراد نزارنہ دینے آگے بڑھتے ہیں – اس ماحول میں محفل نعت کا تقدس جسطرح پامال ہوتا ہے سنجیدہ حضرات دل ہی دل میں روتے ہیں اب تو اہل نعت میں ادب و آداب کے قائل حضرات نے محفل نعت میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے -بانی محفل ہر دو منٹ بعد نقیب کے کان میں اور یہیکہتا سنائی دیتا ہے کہ "ماحول بناو " کچھ ایسا وجدانی انداز میں پڑھو کہ لوگ جھومیں " اور نعت خوانان کے کان میں بھی یہی سرگوشیاں کہ ایسا کلام پڑھو جس سے سامعین جھومیں یوں ساری محفل کا معقصد سامعین کو نچانا اور ماحول بنانا رہا – نہ کلام کے انتخاب میں نعت خواں سنجیدہ نہ نقیب نہ ہی بانی محفل۔ اس سب ماحول کو اگر بانی محفل چاہے اور اخلاص کا مظاہرہ کرے تو ادب و احترام کا پہلو اجاگر ہو سکتا ہے،نعت خوانان کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے کہ صرف معروف و مستند کلام پڑھیں اور ادب سے حاضری دیںزرق برق لباس جو شعریعت میں ممنوں ہیں ایسے لباس والے نعت خوانان کو محفل نعت میں دعوت نہ دی جائے اور جو نعت خواں عامیانہ کلام پڑھیں انہیں بھی محفل میں نہ بلایا جائے ،جو نعت کوانان پیشگی اجرت کا تعین کریں انکا بائیکاٹ کرے اور بانی مھفل ایسے نعت خوانان کو مدعو کرے جو صاحب شعریت ہوں اور سراپا نعت بھی ، نقیب کا بھی سمجھایا جا سکتا ہے کہ شور و غل کے بجائے سیرت نبی پر گفتگو ہو نعت خوانی کا تسلسل ختم کرکے محمان گرامی کو مدعو کرنا بند کریں یہ بے ادبی ہے اور سیاسی سماجی لوگوں کے اعلان نعت خوانی چھوڑ کر کروانا بھی بے ادبی ہے اور آخر میں سامعین اور نذرانہ دہنے کے عمل کو بھی عزت بخش بیانا جا سکتا ہے -آج صرف اور صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ بانی محفل اپنی ذمہ دارہ و فرائیض کو سمجھتے ہوئے محفل نعت کا تقدس بحال کروانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہےا ور محفل نعت کو وہ معیار اور ادب دے سکتا ہے جسکا تقاضہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ادب گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید انجا ہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں محفل نعت اور بانی محفل کی ذمہ داریاں محفل نعت میں ادب و آداب تقدس و احترام لانے کےلیے سب سے اہم رکن بانی محفل کا کردار ہے اگر یہ اخلاص و تدبر کا مظاہرہ کرے تو نقیب و سامعین ،پنڈال و سٹیج کا ماحول عین شریعت عین آداب محفل کے مطابق بنایا جا سکتا ہے -ضرورت اس امر کی ہے کہ آداب محفل نعت کے لیے مندرجہ ذیل سہنری اصول ہیں ٭ بانی محفل کو ایسے نعت خوانان کو مدعو نہیں کرنا چاہیے جو پیشگی اجرت طے کریں، صاحب شعریعت نہ ہوں، جنکا کردار سراپا نعت نہ ہو اور جن کا تلفظ و ادائیگی بھی نہ درست ہو -یہ محفل نعت ہے یہاں ہر چیز کا ادب بہت مقدم ہے ذرا سی کوتاہی عمر بھر کا سرمایہ گیا – پیشگی نذرانہ مانگنا اور نذرانہ کی ہوس رکھنے سے نعت خوانی میں اخلاص ختم ہو جاتا ہے صرف تجارت ہی باقی رہ جاتی ہے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ ایسے نقیب کو مدعو کریں جو شور و غل کے بجائے سیت نبی کے موضوع پر بات کرے اور سامعین کو آداب محفل کی تلقین کرے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ سٹیج پر کسی سیاسی سماجی اور کاروباری پیران گرامی کو نہ بٹھائے یہ منسب صرف اور صرف گدایان حضرت حسّان کے لیے ہو اور نویب کے لیے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ سٹیج پر کسی قسم کی گفگتگو سرگوشیاں اور سلفیاں بنانے والوں کو گریبان سے پکڑ کر نیچے اتار دے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ صرف اور صرف نزرانہ کے لیے سیاسی و سماجی احباب کو محفل نعت میں مدعو نہ کرے اس سے محفل کا ادب و تقدس پامال ہوتے ہیں- ویسے بھی نذرانہ سٹیج پر دینے سے محفل کے ادب میں خلل پڑتا ہے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ نذرانہ دینے کے لیے سٹیج کے بجائے نیچے پنڈال میں ایک باکس رکھے تاکہ سٹیج کا دب براقرار رہے اور محفل نعت کا تسلسلہ بھی خراب نہ ہو اور سامعین ویڈیو بنوانے اور تصویریں بنوانے سٹیج پر نہ جا سکیں گے – نمود نمائیش سے سبھی اہل نعت کو پرہیش کرنا چاہیے یہ اللہ و رسول ﷺ کو بہت پسند ہیں ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ کسی بھی پیر ،عالم یا سیاسی سماجی لوگوں کے آنے پر نعت مبارکہ نہ رکوائے اور اختام نعت پر انکا اعلان کرے -اوّل تو ایسے اعلانات ہونے ہی نہیں چاہیے ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ نقیب کو پابند کعے کہ کسی بھی محمان کے پںڈال آنے پر نعت مبارکہ کو منقطع نہ کرے اور اپنا تعلق نہ نبھائے ٭بانی محفل کو چاہیے کہ نعت خوانان کو سختی سے پابند کرے کہ نعتیہ کلام ایسے پڑھے جائیں جو مستند ہوں ،جن میں گانے کی طرز نہ ہو ٭ سٹیج پر صرف نعت خوانان اور نقیب کے علاوہ کسی بھی افاد کا بیٹھا سرعا مناسب ہی نہیں -اس عمل سے ریاکاری اور نمودو نمائیش کا عنصر غالب آ جاتا ہے ٭ بانی محفل کا یہ بھی فرض ہے کہ محفل ہمیشہ مختصر رکھیں اور کوشش کریں کہ سامعین میں اکتا ہت نہ ہو اور کسی نماز میں خلل نہ پڑے -اللہ جہاں اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے وہاں نماز بروقت فرض قرار دیتا ہے ٭بانی محفل جہاں اتنے اخراجات کرتا ہے اپنی محبت و عقیدت ظاہر کرتا ہے اگر ان آداب اور اسلوب کا خیال ہ رکھے گا تو روز محشر جواب ہوگا کہ سب کچھ جانتے ہوئے کیوں اد بو آداب کو مقدم نہ جانا ٭ بانی محفل کو چاہیے کہ اس نے نعت خواناں و نقیب کو نذرانے بھی دیے،محفل پر اخراجات بھی کیے ، ایڈورٹیشمنٹ بھی خوب کی تو سامعین جو کئی گھنٹے بھوک سے ایک ہی جگہ بیٹحیں رہیں کو اچھا کھانا بھی کھلائے ٭بانی محفل کو چاہیے کہ ایسے فقیر درویش اور اہل علم و اہل نعت کو ضرور مدعو کرے جس سے پنڈال میں ایک ادب و روحانیت کا ماحول بنے

afzal nushahi

افضل نوشاہی جونیئرز کی حوصلہ افزائی : یہ کوئی 1990 دہائی کے اوا ئل کی بات ہے میرےتیایا جو فیصل آباد میں رہتے تھے آپکے مریدین کا وسیع حلقہ احباب قصور میں بھی تھا جنہوں نے ایک محفل نعت کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کے معروف نعت خواں محمد علی ظہوری،قاری زبید رسول اور اعظم چشتی نے بھی شرکت کی اور میں وہاں میزبان کی حثیت سے موجود تھا – محفل کا آغاز کچھ مقامی نعت خوانان نے کیا تو قاری زبید رول کو مدعو کیا آپ نے اپنی خوبصورت آواز جو سوزو گداز سے بھر پور تھی نعت پاک پڑھی تو سامعین م پر ایک رقعت طاری ہوگئی قاری زبید کا اپنا ہی ایک منفرد انداز تھا محفل بام عروج پر تھی ہر طرف گریہ زاری قاری صاحب کے کلام کے بعد نقیب نے اعظم چشتی کا نام لیا تو آپ نے آتے ہی قاری زبید رسول کی خوب حوصلہ افزائی کی کئی ایک تعریفی جملے کہے میں نے محفل نعت میں ہمیشہ دیکھا کہ جو بھی جونیئرز نعت خواں اچھا پڑھ کر گیا ہو تو اعظم چشتی نے ہمیشہ دل کھول کر اسکو داد دی ایسا منظر میں نے زندگی میں بارہا دیکھا کہ جب کسی نعت خواں نے اچھا کلام منتخب کیا اور پڑھا تو اعظم چشتی صاحب اشک بار بھی ہوجاتے اور سٹیج پر آکر نعت خواں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے جس سے نئے آنے والے نعت خوانان کو خود اعتمادی ملتی – اعظم چشتی کے اسی اسلوب کے پیش نظر اُس دور میں بے شمار نعت خوانان منظر عام پر آئے اور نعت خوانی کو جو عروج حاصؒ ہوا وہ آج نظر نہیں آتا-دور حاضر میں یہ محبت یہ حوصلیہ افزائی دیکھنے کو نہیں ملتی – یہ آپکی شخصیت و کردار کا کمال تھا کہ آپکا دور اعظیم نعت خواناں سے بھر پور تھا - میں شاگرد تو محمد علی ظہوری کا تھا مگر اعظم چشتی کی شخصیت کا سحر ہی ایسا تھا جو آپکے شاگرد نہیں بھی تھے آپکو اپنا اُستاد ہی سمجھتے کیونکہ آپ نے شاگردوں کے حوالے سے ایسی تفریق کبھی نہ رکھی آپ تو خالصتا نعت سے محبت کرتے اور جہاں بھی اچھی آواز و انداز اور فن نظر آتا تعریف کیے بغیر نہ رہتے – اس ضمن میں اختر قریشی کا بیان ظہوری صاحب کے شاگرد، اور ، خورشید احمد ا،خلیفہ ظہور شریف الدین نیئر کے شاگرد اور بھی کچھ نام دونگا کا بیان دلیلا ذکر کیا جا سکتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ آپکو لاہور کے سبھی نعت خوانان " پا جی کہہ کر مخاطب کرتے" پنجابی زبان کے اس جملے میں ایک محبت اپنائیت اور تعلق کی گہرائی ادب اور محبت کا ایک اثر انگیز پہلو نظر آتا ہے جب بھی کوئی کہے " پا جی" اعظم چشتی و پا جی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اعظم چشتی کا کردار و افکار : آپ کی شخصیت میں کمال حلاوت و انکساری تھی کہ آپکے زمانے میں جو بھی نعت خواں معروف ہوئے سب سے ہی ایسا تعلق رہا کہ ہر کوئی آپکو اپنے سب سے نذدیک سمجھتا -کراچی سے ادیب رائے پوری و قمر انجم اور ریاض الدین سہروردی ہوں یا لاہور سے محمد علی ظہوری ،آغا سرفراز نقشبندی ، جان محمد بٹ امرتسری، محمد یونس ،فیصل آباد سے عبدالستار نیازی ہوں یا اختر سدیدی یا محمد علی سجن و صابر سردار ، راپلنڈی سے بشیر ناظم،سید منظور الکونین ہوں یا اختر بزمی ، گجرات سے حاجی نواب دین ،سائیں فقیر حسین مستانہ ، عبدالرشید جٹو وکل ، یوسف چشتی ہوں یا غضنفر جاوید چشتی ،ملتان سے بابا محمد علی ہوں یا مرید حسین ہاشمی ،منیر حسین ہاشمی ، بہاولپور سے غلام محمد واصف ہوں یا ملک عبدالمصطفی سعیدی ،رحیم یار خان سے منظور ناظم صابری ، آپ ان میں سے جو بھی محفلنعت کا انعقاد کرتا وہاں بہت مھبت سے جاتے اور ہیشہ بڑوں کی عزت اور جونیئرز سے پیار کرتے

shagird un mai yeh sentense

جناب ثناء اللہ بٹ نعت اوج نمبر 2 میں شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں " محمد اعظم چشتی کا حلقہ شاگردان پاکستان کے طول عرض ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے - ان کے بیشتر شاگرد ان کا انداز اپنائے ہوئے ہیں جب کہ یہ بات کسی اور استاد کے شاگرودوں کے حصے میں نہیں آئی- جتنا بہتر اور معیاری کلام تقلید استاد میں ان کے شاگرد محفل میں پڑھتے ہیں کسی حلقہ کے نعت خواں نہیں پڑھتے -یہ بھی اعظم چشتی مرحوم کے حلقہ تلامزہ کا طرہ امتیاز ہے کہ تمام کلام زبانی یاد ہیں کتاب کا ستعمال نہیں کرتے

wajahat corection and add

1938 کلام اعظم کے نام سے ایک کتابچہ 7*5 سائز کا مرتب کیا اور شایع ہوا [ وجاہت حسین چشتی ] ۔

سیرت کانفرنس کے اختتام پر مٰن اعظم چشتی نے وزیر اعظم پاکستان کو سلام کے لیے کہا کھڑے ہو جاو وہ پروگرام 1973 میں ہوا جب بھٹو کی ھکومت تھی اس محفل میں تمام اسلامی ملکوں کے سفیر اور معزز محمان بھی شامل تھے ۔ کوثر نیازی ۔ روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری کا شرف 1974 میں ہوا جب آپ ایک حکومتی وفد کی صورت میں حج کے لیے گئے جسکی سربراہی کوثر نیازی کر رہے تھے پاکستان مسلم لیگ کے جلسے و جلوسوں میں شرکت کرتے نعتیں بھی پڑھتے لیکن 1944 کو قائد اعظم نے آپکو پنجاب کا جنرل سیکریٹری بنا دیا اور آپ نے باقاعدہ طور آزادی پاکستان میں خدمات بھی سر انجام دیں مگر آپ کبھی ان معملات کی تشہیر نہ کرتے کبھی دل کرتا تو ہم سے شیئر کر لیتے اسی طرح روضہ رسول ﷺ کے اندر کی حاضری بھی آپ عوام الناس سے شیئر کرنا مناسب نہ سمجھتے -


آپ نے کارپٹ کا بزنس فیض باغ لاہور میں شروع کیا ،مینو فریکچر اور ایکسپورٹ میں آپکی کمپنی پاکستان کے بہترین دس کمپینوں میں شمار کی جاتی جو آج بھی چل رہی ہے


1975 میں وجاہت حسین چشتی فوڈ سپلائی سعودی عرب ملازمت کے لیے گئے جہاں ایک بنک میں ملازمت بھی کی والد صاحب کی خواہیش تھی مدنینہ منورہ میں تجارت شروع کریں اس سلسلہ میں ارشاد چشتی صاحب کو مدینہ بھیجا اور کاروبار کا آغاز کیا


آپ بروز ہفتہ 31 جولائی اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ،آپکا نماز جنازہ حضرت میاں میر کے احاطہ میں پڑوایا گیا اور میاں میر قبرستان میں ہی 26 دن کے لیے امنانتا دفنا دیا گیا بعد ازاں آپکی وصیت کے مطابق زاہد ٹاون لے گئے- نیز آپکا جنازہ پیر کبیر شاہ نے پڑھوایا بعد یں ایسی رقعت آمیز دعا ہوئی کہ آج اور آنے والے وقتوں تک ہمیشہ یاد رہے گی

ظہوری صاحب نے منقبت سنائی قل شریف

جناح کیپ سے پہلے آپ ترکی کیپ پہنتے تھے ۔ واقعہ : اہل نعت کی دعوت پر آزادی پاکستان سے پہلے اشرف چشتی کے ساتھ امرتسر گئے جہاں ایک عظیم الشان محفل نعت کا انعقاد ہوا - آپ کی خوش الحانی ،کلام ،شخصیت اور کرادار کو دیکھ کر ایسی پذیرائی ملی کہ جسے مدتوں یاد رکھا جائےگا -اسی محفل کے دوران عورتوں نے گھروں سے لاکر آپکو اپنے زیور دیے کچھ نے اتار کر دئے اور ایسے رقعت آمیز مناظر کہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھے -آپ نے تمام اہل امرتسر کا شکریہ ادا کیا اور خواتیں کو انکے زیور لتا دیے اور کہا کہ جو محبت آپ نے دی اس سے بڑی کوئی اور شئیہ نہیں ۔ اشرف چشتی اور عبدالجبار آپکے بہت قریبی شاگرد رہے جو گھر میں ایک بیتے کی سی حثیت رکھتے- اصغر چشتہ کنجاں گجرات نے اعظم چشتی کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گذارا اور بہت با ادب شاگرد تھے

حفیظ تائب اکثر کاچھو پورہ گھر تشریف لاتے جب گذل کہتے ،اعظم چشتی آپکو ہمیشہ یہی کہتے کہ نعت لکھا کرو یوں آپ نے نعت لکھنا شروع کی اور نعت کی تربیعت کیفیات اور ادب کے معاملے پر سیکھنے کے لیے آپ اکثر گھر آتے

wajahat waqia

دادی جان بتاتی تھیں کہ جب اعظم کی عمر لگ بھگ 7 سال کی تھی تو یہ جب گھر کی بیٹھک میں بیٹھ کر تلاوت کیا کرتا تو گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا جو بہت انہماک اور محبت کے ساتھ تلاوت سنا کرتا

waqia wjaahat

دادی جان بتایا کرتیں تھیں کہ تیرے باپ کا نام محمد صادق رکھا تھا کئی سال گذر گئے ایک دن ایک مجذوب آیا اور اس نے صدا دی تو میں نے دروازہ کھولا اور اسے خیرات دی تو اعظم بھی میرے پیچھے باہر آ گیا -مجذوب نے پوچھا یہ اس بچے کا کیا نام ہے ؟ تو میں نے کہا کہ محمد صادق تو اس نے فورا کہا نہیں اس کا نام اعظم ہے اسکا نام اعظم رکھو وہ چلا گیا جب شام کو اعظم کے والد آئے تو میں نے انہیں یہ سار بات بتائی تو انہوں نے کہا تحیک ہے آج کے بعد اس کا انام اعظم ہی ہوگا

waqia wajahat

بظاہر تو والد گرامی نے نعت خوانی 3 یا 4 سال کی عمر میں کی لیکن دادی جان کے واقعات اور باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ اس دنیا میں آئے ہی نعت پڑھنے ہین-اس ضمن میں ایک محفل کے دوران کسی صاحب نے والد سے پوچھا آپ کب سے نعت پرح رہے ہیں تو آپکا جواب سن کر میں بھی ششدہ ہو کر رہ گیا آپ نے کہا" مجھے نہیں یاد"حالات واقعات ایسے ہی کچھ ہوتے رہے ایک دن مین نے پوچھا دادی جان والد صاحب کب کس عمر میں نعت پؑھنا شروع کیا تو دادی جان نے جواب دیا : جب سے زبان سے بولنا شروع کیا تب سے نعت پڑھ رہا ہے"

comments radio lahore centre

پروگرام منیجر مصطفی کمال ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر حاضر سروس ایک ایسے نعت خواں جو بحثیت انسان اور نعت خواں کمال درجہ پر فائیز تھے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اعظم چشتی ایک سکول آف تھاٹ کا نام ہے جنہوں نے نعت خوانی کو اسلوب دیا اور ایسا انداز متعارف کروایا کہ آج بھی پوری دنیا میں اسکی تقلید ہوتی ہے اور آپ نعت خوانی کا ایسا معیار تھے کہ ریڈیو جیسے ادارہ ہر نعت خواں کو آپ کے دن نعت پر پرکھ کرتا ہے -ایک سچے عشق رسول جو کہ دل کی عط ا گہرائیوں میں ڈوب کر نعت پڑھا کرتے آپکے بے شمار شاگرد ہیں اور پسران جو آپکا نام روشن کر رہے ہیں -میں نے کم و بیش 28 سال ریڈیو پر دینی پروگرامز کیے اور ہمیشہ اپنے سینئرز اختر سالک ،ضمیر فاطمی ،غازی مغیری صاحبان کو بھی آپکی تعریف کرتے دیکھا اور ہمیشہ نئے آنے والوں کو اعظم چشتی کی شخصیت بطور مثال دیتے - ضمیر فاطمی جوریڈیوپاکستان میں نعت خوانی کے بہت معتبر استاتذہ میں ہوتا ہے بڑے بڑے نعت خوانان آپ کے فن سے مستفید ہوئے ہمیشہ اعظم چشتی کی فنی خدمات کو سراہتےتھے جو ایک سند سے کم نہیں

waqia told by wajahat azam

واقعہ حفیظ تائب کی بیٹی کی شادی کا حفیظ تائب نے اپنی بیٹی کی شادی طے کی تو دعوت نامہ گھر آ کر دے گئے مقرہ دن آیا تو والد گرامی صبحی اٹھے اور تیار ہو کر بیٹھ گئے یہ وہ زمانہ تھا جب شادیاں دوپر کے وقت ہوتیں والد صاحب لگ بھگ 10 بجے حفیظ تائب کے گھر پہنچ گئے تو حفیظ تائب بہت حیران ہوئے کہ رخستی کا وقت تو دوپر ایک بجے کا تھا اعظم چشتی 10 بجے ہی پہنچ گئے فرمایا چشتی صاحب شاہد آپکو غلط فہمی ہوئی ہے بارات انے کا وقت دوپہر 1 بجے کا ہے- اعظم چشتی نے کہا" یار میری بیٹی دے شادی اے میں کوئی محمان نہیں میں میزبان آں ایہ کیویں ہو سکدا اے کہ باپ گھر بیٹھا رہے تے محماناں دا استقبال کون کرے گا "