تبادلۂ خیال:ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ایونٹ کی نعتیں

اگر کوئی نام نیلے رنگ میں ہےتو اس کا مطلب یہ ان شاعر کا تعارف "نعت کائنات" پر موجود ہے ۔ اور اس نیلے نام پر کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اگر نام سرخ رنگ میں ہے تو اس پر کلک کرکے شاعر اپنا تعارفی صفحہ شروع کر سکتا ہے ۔


آصف قادری ، واہ کینٹ ، پاکستان

اللہ کے کرم سے یہ فیضانِ نعت ہے

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہر لفظ نعت کے لیے سرخم کئے ہوئے

گویا کہ حرف حرف کو ارمانِ نعت ہے


دل میں نبی کی یاد زباں پر درودِ پاک

صد شکر پاس کچھ مرے سامانِ نعت ہے


گریہ کناں حنانہ ہے ہجرِ حبیبِ میں

سوکھے ہوئے تنے کو بھی پہچانِ نعت ہے


میری زبان گنگ ہے لرزاں قلم ہے اور

لاچار فکر، سامنے میدانِ نعت ہے


وہ شخص بخشا جائے گا محشر میں بالیقیں

جس شخص کے بھی ہاتھ میں دامانِ نعت ہے


آصف ثنا کے باب میں خاموش ہی رہو

کب ہے بشر کی فکر جو شایان ِ شان ہے


ابو الحسن خاور ، لاہور ، پاکستان

کیا صرف شعر گوئی ہی شایان ِ نعت ہے

اس سے کہیں وسیع یہ میدان ِ نعت ہے


خاور نظر اٹھا بڑا ساما ن نعت ہے

ہر شعبہ ءِ حیات میں امکان ِ نعت ہے


لو لوئے ِ نعت ہے کہیں مرجان ِ نعت ہے

یہ کائنات سورہ ءِ رحمان ِ نعت ہے


پھیلی ہوئی ہیں طہ و یسیں کی نکہتیں

قرآن اس کنایے میں گل دان ِ نعت ہے


ہر نخل میں ہے گنبد ِ خضری کی سبزگی

جس سمت دیکھتا ہوں گلستان ِ نعت ہے


کیا آسماں پہ مدح سرائی نہیں ہوئی ؟

کیا کوئی حد ِ وسعت ِ دامان ِ نعت ہے؟


بے نور و خشک زار ہے جو چاند کی زمیں

اک نعت خوان پہنچے تو فاران ِ نعت ہے


جتنا ہے جس کا علم وہ اتنا خموش ہے

وہ نعت کیا لکھے جسے عرفان ِ نعت ہے


آنکھوں میں نم ہے دل کو مصلے کی آرزو

یعنی کہ دل میں اوج پہ ارمان ِ نعت ہے


صحرائے زیست میں ہیں گناہوں کی آندھیاں

ہے آسرا کوئی تو خیابان نعت ہے


یہ جو مرے گھرانے میں عشق رسول ہے

خاور یہ اور کچھ نہیں فیضان ِ نعت ہے

ابو المیزاب اویس، کراچی، پاکستان

بشکریہ : غلام فرید واصل


قرآن اصل قاسمِ عرفانِ نعت ہـے

ہر آیہِ کریمہ گلستانِ نعت ہـے


گلہائے حمد اِس کے وسیلے سے کِھل گئے

دل کے افق پہ ابرِ بہارانِ نعت ہـے


نطق و بیاں کا اس کو بنا بیٹھے قبلہ ھم

حکمِ وَسَلِّمُو میں جو فرمانِ نعت ہـے


میلادِ مصطفٰے کی سجائیں گے محفلیں

فَلیَفرَحُوْا میں مؤمنو اعلانِ نعت ہـے


کہتے ہیں جس کو اہلِ نظر قصرِ لامکاں

ایوانِ حمد ہـے کہ دبستانِ نعت ہـے؟


کچھ غم نہیں ہـے گرمیِ بازارِ فکر کا

فرقِ سخن پہ سایہِ دامانِ نعت ہـے


ہر آن اُن کی یاد ہـے محور خیال کا

  • "ہر گوشہِ حیات میں امکانِ نعت ہـے"*


خوفِ خدا و عشقِ نبی میں بسا ہـے دل

یعنی کہ شوقِ حمد ہـے، ارمانِ نعت ہـے


پھیکا ہی رہتا نظم و غزل کا یہ سلسلہ

لذت رساۓ فکر نمکدانِ نعت ہـے


ہـے دھوم جس کے نغموں کی سارے جہان میں

میرا رضا وہ بلبلِ بستانِ نعت ہـے


ہم بندگانِ عشق کا ہـے آبؔ فیصلہ

شاعر وہی ہـے دل سے جو قربانِ نعت ہـے

ابو لویزا علی ، کراچی ، پاکستان

قالو بلی سے آج تک اعلان نعت ہے

امکان کی یہ بزم تو ایوان نعت ہے


یٰسین نعت سورہ ِرحمان نعت ہے

الحمد نعت سورہِ عمران نعت ہے


عرفان نعت حق کی عطا پر ہے منحصر

آنکھیں ملیں تو پورا ہی قرآن نعت ہے


طب ہو ،معاشرت ہو یا میدان کار زار

"ہر گوشہء حیات میں امکان نعت ہے"


مصرع کی شان دیکھیے اشعار دیکھیۓ

کتنی طویل دیکھیے دیوان نعت ہے


ہم سے گنہہ گار بھی لکھنے لگیں اگر

فیضان نعت ہے یہ بھی فیضان نعت ہے

احمد رضا سعدی,نندور بار,بھارت

پیش کش: غلام جیلانی سحر

پروردگار ! سینے میں ارمانِ نعت ہے

میری متاعِ زیست ہی عنوانِ نعت ہے


کر وقف ان کی ذات پہ ہر لمحہِ حیات

ناکام ہے حیات جو ویرانِ نعت ہے


تاریک قبر ہو یا ہو میدان حشر کا

,,ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے,,


کیسا کرم ہے دیکھیے ان کا غلام پر

نغمہ درودِ پاک کا دورانِ نعت ہے


الفاظ ختم ہوگئے شانِ رسول میں

کچھ اس قدر وسیع یہ دامانِ نعت ہے


احمد رضا کے نام کا چرچا ہے چار سو

دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ فیضانِ نعت ہے


سعدی کو کیا غرض ہے جہاں کے متاع کی

سرمایہِ حیات جب ایمانِ نعت ہے


احمد زاہد، فیصل آباد، پاکستان

مکمل نام : محمد احمد زاہد

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے

مجھ پر کرم ہے جو بھی وہ احسانِ نعت ہے


جب سے نگاہ یارِ خدا کی ادھر پڑی

بگڑی یہ میری بن گٸی احسانِ نعت ہے


سب لوگ مجھ کو کہتے ہیں جو ان کا نعت گو

اس کو بھی میں کہوں گا کہ فیضانِ نعت ہے


کچھ بھی زباں کہے نہ تری مدح کے سوا

ہر پل ہر اک گھڑی مجھے ارمانِ نعت ہے


توصیف جتنی بھی کروں اور جتنی بھی سُنوں

مدحت کا ہر لفظ لگے شایانِ نعت ہے

احمد محمود الزمان، اسلام آباد

اللہ کا کرم میرا سامانِ نعت ہے

محبوبِ حق کی یاد سے میلانِ نعت ہے


ذکرِ حضور سے ہوا عنبر فشاں قلم

قرطاس خوشبو گل و ریحانِ نعت ہے


کرتی ہے ورد صلِ علٰی کا میری زبان

حاصل میرے شعور کو عرفانِ نعت ہے


رحمت خدا کی میری محافظ اک ایک پل

کس درجہ میرے حال پہ احسانِ نعت ہے


ہوگا نہ ختم تزکرہِ شانِ مصطفٰی

اتنی ذیادہ وسعتِ دامانِ نعت ہے


قراں کرے حضور کے اوصاف کو عیاں

محدود آدمی کا تو وجدانِ نعت ہے


بخشے گا اس کے فیض سے مجھ کو مِرا خدا

پختہ کچھ اس قدر میرا ایمانِ نعت ہے


جچتے نہیں ہیں اس کی نگاہوں میں سیم و زر

جو کوئی اس جہان میں قربانِ نعت ہے


خوشنودیِ خدا کا وسیلہ بنے یہی

میرے دل و نظر کو یہ فرمانِ نعت ہے


ان کے حضور پیش کروں ارمغانِ نعت

پنہاں جو میرے قلب میں ارمان۔ نعت ہے


احمد ہے عمر خضر بھی کم نعت کے لیے

دنیا میں کب کہیں کوئی پایانِ نعت ہے



احمد ندیم، سرگودھا، پاکستان

بشکریہ : حافظ محبوب احمد


قوسین کا مقام بھی میدانِ نعت ہے

کتنا وسیع گوشہء دامانِ نعت ہے


جس پر کھلا ہے عقدہ ء تخلیق کائنات

حاصل اسے ہی اصل میں عرفانِ نعت ہے


یہ ہست و بود اصل میں ہے ان کا فیض نور

سو جملہ کائنات میں میلانِ نعت ہے


امکان اور وجوب میں برزخ ہے ان کی ذات

یہ حسن کائنات بھی سیلانِ نعت ہے


وہ رحمت تمام ہیں، وہ اصل جود ہیں

امکان کے وجود میں دورانِ نعت ہے


حرف و بیاں شعور و تخیل قیاس و وہم

ادراک اور شعور بھی سامانِ نعت ہے


جس پر کھلے ہیں فہم و فراست کے جتنے در

ہے بھیک اس جناب کی، فیضانِ نعت ہے


وحئ خدا ہی ان کی ثنائے کمال ہے

قرآن کا بیان ہی میزانِ نعت ہے


ہے غار میں تلاوتِ آیاتِ حسنِ یار

عارض کریم ذات کا قرآنِ نعت ہے


ان کے لئے ہی خلق ہوئی ساری کائنات

یوں ساری کائنات ہی عنوانِ نعت ہے


لفظوں کے تار و پود سے بنتی نہیں ہے یہ

عشق رسول پاک ہی فرقانِ نعت ہے


ہر شعبۂ حیات کا مصدر ہے ان کا نور

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ان کے نثار جان ملاحت ہے ان کا حسن

توصیف حسن گویا نمک دانِ نعت ہے


یہ جتنی کاوشیں ہیں سبھی ناتمام ہیں

خالق کے پاس اصل قلم دانِ نعت ہے


طرفہ ہیں فکر و فہم کے سب سلسلے یہاں

آباد کس قدر یہ خیابانِ نعت ہے


مدحت کے آسمان پر بکھرے مہ و نجوم

پرکیف کس قدر یہ شبستانِ نعت ہے


میں بھی کسی قطار میں ہوتا ہوں اب شمار

یہ فضل کردگار ہے احسانِ نعت ہے


دل کی زمین سبز ہے مہکی ہوئی ہے جان

آنکھوں میں سیل اشک ہے بارانِ نعت ہے


ان کے جمال پاک کی کچھ جھلکیاں ندیم

یہ کائنات چھوٹا سا دیوانِ نعت ہے

ارسلان احمد ارسل، لاہور، پاکستان

لو دیکھو کیسا مطلعء دربانِ نعت ہے

فضلِ خدا سے شانِ دبستانِ نعت ہے


کیف و سُرور بھی ہے یہاں واہ واہ بھی

یہ چشتیوں کی بزمِ شبِستانِ نعت ہے


جزبہ سے بچہ کہتا ہے تو اس کو کہنے دو

یہ آنے والے دور میں مرجانِ نعت ہے


خاور کی رائے ٹھیک ہے میری نگاہ میں

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے


مشکل زمین میں جو نکالے غضب کے شعر

تو جان لو کہ یہ کوئی مردانِ نعت ہے


سر کو جھکا کے اک نیا مضمون باندھ لوں

دل میں مرے سجا ہُوا جُزدانِ نعت ہے


جیسا نصیب ہو گیا اُن کے بلال کو

اب اِس سے بڑھ کے کیا کوئی عِرفانِ نعت ہے ؟


ارسل کو جذب و کیف کے عالم میں دیکھ کر

مجذوب بھی کہیں کہ یہ مستانِ نعت ہے

ارشاد نیازی ، چونڈہ ، سیالکوٹ، پاکستان

بشکریہ : غلام جیلانی خان


سرکار جب عطا کیا عرفانِ نعت ہے

آساں ہوا کٹھن مجھے میدانِ نعت ہے


روضے کی جالیوں سے ملے گا اسے قرار

مدت سے میرے دل میں جو ارمانِ نعت ہے


حمد و ثنا کے بعد کیا ذکرِ اہلِ بیت

دراصل ذکرِ آل ہی اعلانِ نعت ہے


آساں کرے گا دیکھنا برزخ کی منزلیں

رختِ سفر میں رکھا جو سامانِ نعت ہے


پڑھتے ہیں جو نماز میں اس آل پر درود

میرے خیال میں تو یہ ایوانِ نعت ہے


صلو علیہ آلہِ وردِ زباں کے بعد

کامل یقین رکھتا ہوں امکانِ نعت ہے


کہتا رہوں گا واعظا میں یاعلی مدد

مابعد یانبی یہی ایمانِ نعت ہے


کہتے ہیں لوگ مجھکو غلامِ رسولِ پاک

کتنا بڑا فقیر پہ احسانِ نعت ہے


زہرا بتول اور حسن حیدر و حسین

حکمِ رسول مان گلستانِ نعت ہے


کرب و بلا کہانی سمجھنے سے پیش تر

ناداں سمجھتا کیوں نہیں کفرانِ نعت ہے


دیکھے سنہری جالیاں اذنِ حضور سے

ارشاد بھی جو شاعرِ دیوانِ نعت ہے

ارم بسرا، لاہور، پاکستان

لوح و قلم کی شرح قلمدانِ نعت ہے

أرض و سماوا صفحہ دیوانِ نعت ہے


مسلم ہوں میرے گھر میں حیا کے اصول ہیں

پردے میں رہتے ہیں سبھی احسانِ نعت ہے


بچے جوان بوڑھے سبھی نعت خوان ہیں

کنبے پہ میرے بارش بارانِ نعت ہے


والشمس والقمر ہو کہ والیل والضحی

اللہ کی طرف سے یہ سامانِ نعت ہے


صلو و سلمو پہ عمل کیجیے جناب

اس حکم کا اداریہ عرفانِ نعت ہے

اسلم رضا خواجہ، لاہور، پاکستان

رب نے کشاد کر دیا دامان نعت ہے

ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے


ہم ایسے لوگ لائے ہیں ایمان غیب پر

یعنی ہمارے واسطے ایمان نعت ہے


تیرہ شبی میں نور کا مینار انکا نام

مردہ دلوں کے درد کا درمان نعت ہے


نخل وحجر جھکے ہوئے رطب اللسان ہیں

انکے ہر اک غلام کی پہچان نعت ہے


نوع بشر کے واسطے دستور آخری

پڑھ لو خدا کا سارا ہی قرآن نعت ہے


ان کے خدا کے وعدہ لاریب کی قسم

ہر سمت کائینات میں اعلان نعت ہے

اشرف یوسفی، فیصل آباد، پاکستان

لطف و سرور و کیف جو دورانِ نعت ہے

نخل ِ دل و نظر پہ یہ بارانِ نعت ہے


ہر اک ظہور پر تو ِاعیانِ نعت ہے

ہر گوشہ ء حیات میں امکانِ نعت ہے


اس عالم ِخراب میں صحرائے خواب میں

صد شکرہم پہ سایہ ء مژگانِ نعت ہے


گلہائے رنگا رنگ ہیں اسمائے شاہ ِدیں

دامان نو بہار یہ دامانِ نعت ہے


میثاقِ مصطفےٰ تھا جو یوم ِالست تھا

قالو بلا تو اصل میں پیمانِ نعت ہے


ان کی قبولیت سے سخن کو ہے استجاب

اک لفظ بھی کہاں مرا شایانِ نعت ہے


روشن دل و دماغ ہیں حب ِرسول سے

طیبہ کی خاک سرمہ ء چشمانِ نعت ہے


اشرف در ِحضور تلک لے کے جائے گا

اس دستِ نارسا میں جو دامانِ نعت ہے

اعجاز حسین عاجز ، گوجرانوالہ ، پاکستان

ہم ہیں، قلم دوات ہے، میدانِ نعت ہے

کیونکہ ہمیں ازل سے ہی فرمانِ نعت ہے


عالم فدائے وسعتِ دامانِ نعت ہے

جس جس کو دیکھیے وہی قربانِ نعت ہے


نعتیں ہیں اس میں جیسے ہوں قرآں کی آیتیں

سینے میں دل نہیں مرے، جزدانِ نعت ہے


ہر دور کے شعور کی تشکیل کے لیے

درکار ہر زمانے کو فیضانِ نعت ہے


نورِ تجلیاتِ رسالت کے فیض سے

’’ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے‘‘


کلیاں چٹک چٹک کے یہی کہہ رہی تھیں سب

ہم کو بھی شوق دید ہے، ارمانِ نعت ہے


حسان ایک فرد نہیں ایک سوچ ہے

مدحت سرا ہے جو بھی وہ حسانِ نعت ہے


توصیف مصطفےٰ کی ہے توصیفِ کردگار

بین السطورِ حمد بھی عنوانِ نعت ہے


اس پر فدا، ہے جس کو ودیعت شعورِ نعت

اس پر نثار جو بھی سخندانِ نعت ہے


تلقین خود حضور نے سعدی کو جو کیا

وہ مصرعِ درود ہی سلطانِ نعت ہے


اے وجہ کُن فکاں! شہِ ما کان ما یکون

بس تیری ذات کے لیے امکانِ نعت ہے


لا یمکن الثنا کما کان حقہ

ذکر علو و مرتبت و شانِ نعت ہے


سیاح لامکاں تری اک سیر کے طفیل

اب لامکاں بھی شاملِ امکانِ نعت ہے


عاجز وفور شوق میں حد ادب رہے

لا ترفعوا کہ آیت دربان نعت ہے


سید اعجاز حسین عاجز، گوجرانوالہ، پاکستان


اقبال خان، باغ، کشمیر، پاکستان

مکمل نام : محمد اقبال خان


آقا کی بارگاہ میں اعلانِ نعت ہے

قرآں جو کہہ رہا ہے وہی شانِ نعت ہے


انگلی کا پور پور ثناء خوان ہے مرا

یوں نعت لکهتے رہنا بهی عرفانِ نعت ہے


ہر حرف بولتا ہے محبت نبی سے یے

ایسا لطیف میرا یہ دیوانِ نعت ہے


دو چار شعر میرے اگر ہوں قبول بس

رب کے حضور اتنا سا پیمانِ نعت ہے


بطحا کو جانے والی ہواؤں سے کہہ دیا

میری عقیدتوں کا یہ سامانِ نعت ہے

الیاس بابر اعوان، راولپنڈی، پاکستان

اس بحرِ بے کنار میں ایقانِ نعت ہے

یہ اشک ہی نہیں میاں، سامانِ نعت ہے


جو کچھ بھی ہے خیالِ صد افکار کا محیط

ہستی کے تار و پود کا دیوانِ نعت ہے


کیا پوچھتے ہو مجھ سے مقامِ غنا کا راز

ایمان کی کہوں مرا ایمانِ نعت ہے


جز رب کے کون مدح کا حق کرسکا ادا

قرآن عین آپ کے شایانِ نعت ہے


اے کاش مجھ پہ آپ کا انعام ایسے ہو

دیکھیں مجھیں تو بولیں کہ حسنِ نعت ہے


ہر لحظہ انہماک ہے آقا کی ذات پر

ہر شعبہ ء حیات میں امکانِ نعت ہے


میں نعت لکھ رہا ہوں کہ باغِ ارم میں ہوں

ہر حرف جیسے سنبل و ریحانِ نعت ہے

امجد ربانی مصباحی، آستانۂ ربانیہ، شرف آباد، جبل پور شریف، بھارت

بشکریہ : غلام فرید واصل

  • دل اشتیاق مند گلستانِ نعت ہے*
  • سنتے ہیں نرم خوٗ بڑا، رضوانِ نعت ہے*


  • حسنِ نبی کی تابِ حکایت کہاں سے لاے*
  • کیا سرخروے فکر پشیمانِ نعت ہے*


  • کیسی کشش ہے، ذکرِ رسالت مآب کی*
  • جو تاجدارِ فکر ہے، دربانِ نعت ہے*


  • ہر سانس عطرِ ذکرِ نبی میں بسائیے*
  • ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے*


  • زخم جگر میں عشقِ نبی کی ہیں لذتیں*
  • صد شکر پاس نشترِ ذیشانِ نعت ہے*


  • پھر آج ہیں حکایتیں، حسنِ حضور کی*
  • پھر آج گرم محفلِ یارانِ نعت ہے*


  • ہوکر نثار گیسو و رخ پر حضور کے*
  • میری عروس فکر، غزل خوان نعت،ہے*


  • ہر آن یاد شاہ میں اشکوں کی ہے لڑی*
  • شامِ فراق، دعوتِ مژگانِ نعت ہے*


  • "امجد" کی نعت گوئی بھی فیضاں ہے نعت کا*
  • کب اِس کی دسترس سرِ عرفانِ نعت ہے*
امجد نذیر ، میلسی

یاسین نعت، سورہ ءِ رحمان نعت ہے

نعتوں میں سب سے اعلی یہ قرآن نعت ہے


کاغذ قلم دوات مہکتے ہیں رات کو

مہکیں نہ کس طرح یہ قلمدانِ نعت ہے


ہر چیز کائنات کی ان کےلیے بنی

"ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے"


پڑھ کر درود گھر سے روانہ ہوا ہوں میں

اب کوئی ڈر نہیں ،کہ نگہبان نعت ہے


امجدؔ نجات کےلیے کافی ہے حشر میں

گر میرا ایک شعر بھی شایانِ نعت ہے


بابر علی اسد ، فیصل آباد ، پاکستان

صحرا نصیب لوگ ہیں, بارانِ نعت ہے

ہم سوکھتے نہیں ہیں تو, احسانِ نعت ہے


پھیلی ہوئ ہے رحمت ِ عالم ,کچھ اسطرح!

سینہ بہ سینہ سایہِ شاخانِ نعت ہے


یہ سبز دل , اداس لہن , اشک چشم لوگ

یہ درد خوۓ ِءحلقہ ِ یارانِ نعت ہے


ہر زاویہ کے مطمع ِء معیار , آپ ہیں

"ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے"


وہ قلب ِ کائنات پہ احسان ِ زندگی!

جاں بھی وہی ہے, اور وہی جانانِ نعت ہے


ہم نے خدا کو پایا تو, پایا ترے طفیل

سو حمد ہے, تو حمد بھی دورانِ نعت ہے


تھامے ہوۓ ہیں,اور یہ ڈر بھی تو ہے اسد

ہم خاک زاد لوگ ہیں دامانِ نعت ہے

بشرٰی فرخ، پشاور، پاکستان

کیا وسعتِ خیال بہ دامانِ نعت ہے

ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے


کھلتے ہیں روز ہی تو نئی مدحتوں کے گُل

مہکا ہوا ازل سے گلستانِ نعت ہے


دل اور زبان مدح سرائی میں ہیں مگن

سر چشمہِ حیات یی میلانِ نعت ہے


اعزاز مل رہا ہے ثنائے رسولؐ کا

یہ مجھ گنہگار پہ احسانِ نعت ہے


تکتا ہے صرف سوز و گدازِ جنونِ عشق

معیار میں جدا ہے جو میزانِ نعت ہے


ہر لفظ با ادب رہے ہر حرف باوضو

یہ عام سی زمیں نہیں میدانِ نعت ہے


ملحوظ ہر خیال میں تقدیس و احترام

ہر سوچ با وقار ہویہ شانِ نعت ہے


گر ہو قبولیت کا شرف بھی عطا اسے

ہدیہ بنامِ سید سلطانِ نعت ہے


بشری سفر ہے طیبہ کا اور زاد ِ راہ صرف

گنجینہِ درود ہے سامانِ نعت ہے

بلال حیدر گیلانی ، مظفرآباد، کشمیر، پاکستان

ٹوٹا جمودِ خامہ یہ فیضانِ نعت ہے

مدحِ نبی عطا ہوئی، احسانِ نعت ہے


خاطر میں سنتِ نبوی ہو اگر، تو پھر

"ہر شعبہء حیات میں امکانِ نعت ہے"


مدحت سرا ہے عرش پہ خود ذاتِ لم یزل

گویا درود، اصل میں یزدانِ نعت ہے


سجتی ہے روز بزم درود و سلام کی

گھر میرا، گھر نہیں ہے، گلستانِ نعت ہے


دنیا کی رونقوں سے اسے کیا غرض بھلا

حیدرؔ کہ سب کہیں جسے مستانِ نعت ہے

پرویز ساحر، ایبٹ آباد، پاکستان

یُـوں ہی تو میرا دِل نہیـں قُربانِ نعت ہے

حـاصِـل مجھے سکُــون بَہ فیضـان ِ نعت ہے


جب پیش ہو گا نامہ ِ اَعمـــــــال حَشــــر میں

کہہ دُوں گا میرے پاس یہ دیـــوان ِ نعت ہے

حســان ہوں ' وہ کعب ہوں ' اِبن ِ زُہَیـر ہوں

ہر ایکــــــــ اپنی ذات میں سُلطــان ِ نعت ہے


بار ِ الٰہ نے کِیــــــــــــا ذکــــــــــــر ِ نبی بَلند

وا اِس لئـے دریـــــــچــــہ ِ اِمـکان ِ نعت ہے


قُـــرآن اور حدیث میں مذکُــــور جــــو نہیں

ایســــی غُــلُوئیت کہــاں شـــایــان ِ نعت ہے


کچھ کم نہیں ہے یہ بھی کسی پُل صراط سے

یــہ جــو ہمــارے ســـامنے میـــدان ِ نعت ہے


یوں ہی برہنہ پا نہیـں چــــــلتا مَیـں رَیگ پر

گُل زار سے بھی بڑھ کے بِیابان ِ نعت ہے


رکھتا ہُوں پُھونکـــ پُھونکـــ کے مَیں اپنا ہر قدم

مجھ دست رَس میں جب سے قلم دان ِ نعت ہے


ہم سیرت ِ نبی کو جو لائیں بہ روئے کار

"ہر شعبہ ءِ حیات میں امکان ِ نعت ہے "


سـاحِـرؔ ! مَیں اپنی ذات کا پھر ذِکر کیوں کرُوں

جب اُن کی ذات ِ پاکـــ ہی خـود جــان ِ نعت ہے

ثروت رضوی، کیلی فورنیا، امریکہ

بشکریہ : سمعیہ ناز

یارب یہ میرا دل ہے کہ دیوانِ نعت ہے

تطہیر ہوگئی ہے یہ فیضانِ نعت ہے


پہنچوں سرِ مدینۂ عشاق ِ آرزو

پکڑا ہوا جو خیر سے دامانِ نعت ہے


دھڑکن میں گونج صلِ علیٰ کی بصد خلوص

میری ہر ایک سانس میں امکان نعت ہے


دل میں رواں رکھے ہے روانی درود کی

دل کے بہت قریب جو شریانِ نعت ہے


خود کو حرم میں دیکھ رہی ہوں بچشمِ تر

یہ معجزہ ہے یا مرا وجدانِ نعت ہے


لگتا ہے جیسے رات بسر کی مدینے میں

یہ خواب تو نہیں مرا عرفان نعت ہے


جاروب کش ہے بس اسی دہلیز کا فقط

میرے قلم کا بخت کہ سلمان نعت ہے


گریہ فراق عشق و جنوں ہجر اور خلش

کچھ بھی نہیں یہی میرا سامانِ نعت ہے


تقلید کررہی ہوں کہ تمثیل کے لیے

فرزوق بھی سامنے حسانِ نعت ہے


کیا نام ہے یہ نامِ محمد ص خدا قسم

یہ نام ہی تو شمع شبستانِ نعت ہے


آقا قبول کیجئے ثروت کا یہ کلام

گر میرا ایک حرف بھی شایانِ نعت ہے

تحسین یزدانی، ملتان، پاکستان

مجھ سا بشر جو صاحبِ دیوانِ نعت ہے

اللہ کی عطا ہے یہ فیضانِ نعت ہے


جس جس کو فہمِ نعت ہے، عرفانِ نعت ہے

حسانِ نعت ہے وہی سلمانِ نعت ہے


ممنونِ نعت ہیں میری سوچیں،مرے خیال

نطق و زبان و حرف پہ احسانِ نعت ہے


جاری رہے گا تا بہ ابد نعت کا سفر

روشن ازل سے دیدہِ امکانِ نعت ہے


دائم یہاں پہ رہتا ہے موسم بہار کا

یہ گلستانِ حمد و خیابانِ نعت ہے


محبوبِ کبریا کا جو محبوب ہے تو پھر

میرا حسین، جانِ سخن، جانِ نعت ہے


تحسین ہے فقیر فقیرانِ نعت کا

یعنی کہ اک غلامِ غلامانِ نعت ہے

تنظیم الفردوس، کراچی، پاکستان

مکمل نام : ڈاکٹر تنظیم الفردوس

مدوجذر حیات کا سامانِ نعت ہے

یہ ساری کائنات ہی امکانِ نعت ہے


قرآن ہے گواہ بلندی کے ذکر میں

کیا اس سے بھی زیادہ کوئی شانِ نعت ہے


سیرت رسولِ پاک کی پیشِ نظر رہے

یہ جانِ نعت ہے یہی ایمانِ نعت ہے


بس اک نگاہِ شوق ہے اور میری چشمِ نم

میرے لیے تو ہاں یہی سامانِ نعت ہے


میں اور لب کشا کروں ایوانِ نعت میں

حسّان شاہزداۂ ایوانِ نعت ہے


محسن، امیر اور رضا عندلیب ہیں

یہ ہند کی زمین بھی بستانِ نعت ہے


تکمیلِ دیں کا حکم ہے اس امر کی دلیل

ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے

جوہر قدوسی، کشمیر، بھارت

بشکریہ : غلام فرید واصل

ارض وسماء میں ہر طرف فیضانِ نعت ہے

فرقان لا یزال ہی شایانِ نعت ہے


مدح و ثنائے خواجہ ہو دوران نیم شب

اشک سحر گہی سے ہی عرفان نعت ہے


شعروادب کی نوع میں محدود کب رہا

"ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے"


عشق نبی فزوں سے فزوں تر ہے قلب میں

یہ میرا جذب و کیف بھی احسان نعت ہے


میں بے ہنر ہوں تاب سخن کی طلب مجھے

ارمان کوئی ہے تو بس ارمان نعت ہے

حسان المصطفٰی ، سیالکوٹ، پاکستان

یونہی نہیں یہ رفعتِ عنوانِ نعت ہے

سب حمد جس کی ہے وہی نگرانِ نعت ہے


سب امتیں پڑھیں گی وہاں نعتِ مصطفیٰ

میدانِ حشر اصل میں میدانِ نعت ہے


کچھ اشکِ بے مراد ہیں آنکھوں میں موجزن

میں ہوں، قلم ہے اور شبستانِ نعت ہے


سائے میں جس کے میرے سبھی عیب چھپ گئے

خوش بخت ہوں، ملا مجھے دامانِ نعت ہے


اُسکی ثنا ہی اول و آخر ہے دوستو

اِسکے سوا ہے جو بھی، وہ دورانِ نعت ہے


غزلوں میں جو بھی آیا گماں میں وہ کہہ چُکا

ہٗشیار باش! رُو بقلمدانِ نعت ہے


ہر شعر پُل صراط ہے، محتاط ہو کے چل

ہر نعت خود کہےتٗجھے عرفانِ نعت ہے


ہر دور کی رگوں میں رواں اُنکا ذکر ہے

گویا زماں زماں نہیں، دیوانِ نعت ہے


اُمیدِ وصل، اشک، غمِ ہجر، اور اشک

یہ زادِ راہِ عشق ہے، سامانِ نعت ہے


یہ نام تھا، دعا تھی کہ والد کا خواب تھا

جِسکے سبب ہی آج یہ حسانِؔ نعت ہے

حسن رضا حسانی ، اسلام آباد، پاکستان

حبِّ رسول سے سجا دامانِ نعت ہے

توصیفِ مصطفیٰ ہی فقط شانِ نعت ہے


لفظوں کے موتی اور نکھرتے ہیں نعت سے

جو کچھ ہے عشق میں لکھا وہ جانِ نعت ہے


اب ذہن کا جہان معطر ہوا مرا

وہ اس لیے کہ دوستو فیضانِ نعت ہے


مجھ کو سلیقہ آ گیا مدحت سرائی کا

اچھا سخن طراز ہوں احسانِ نعت ہے


یوم ِ حساب سے بھلا گھبرائے کیوں حسن

دیکھو تو اس کے ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے


محمد حسن رضا حسانی، اسلام آباد، پاکستان

حسنین اکبر، دوبئی

اُمی لـقب سے عَلَّمَ بُرہانِ نعت ہے

اقرأ باســم ربـك اعلانِ نعت ہے

وہ پہلا نعت گو وہی سلطانِ نعت ہے

ہر نعت گو رعیّتِ عمرانِ ع نعت ہے

بنیادِ مدحِ سید الابرار ص ہے درود

فرمانِ کردگار میں فرمانِ نعت ہے

شق القمر دو باٹ کی صورت بٹے ہوئے

دستِ الہُٰ العدل میں میزانِ نعت ہے

پیغمبرِ ص حیات ہیں سرکارِ ص دوجہاں

"ہر شعبہءِ حیات میں امکانِ نعت ہے"

جس نعت میں علی ع و محمد ص کی بات ہو

وہ کائناتِ نعت میں سلمانِ ع نعت ہے

اظہارِ کُل صفاتِ الہٰی انہی ص سے ہے

اب اس کے بعد جو بھی ہے میدانِ نعت ہے

حرفِ دعا ہے آیہءِخیرالجزا کے بعد

مجھ کو جزا کی مد میں بھی ارمانِ نعت ہے

دنیا ادب سے لیتی ہے جو نعت گو کا نام

کوئی ہنر نہیں ہے یہ احسانِ نعت ہے

پہلی اذانِ اسمِ محمد ص تھی عرش پر

دراصل کعبہ دوسرا ایوانِ نعت ہے

قرآں کہو صحیفہ کہو کوئی نام دو

دیوانا جانتا ہے یہ دیوانِ نعت ہے

دل سے دعائیں دیجیے مدحِ رسول ص پر

خاموشی اس مقام پہ کفرانِ نعت ہے

یہ داستان عشق ہے کارِ جہاں نہ جان

لکھنے سے پہلے یہ بتا،ایمانِ نعت ہے؟

طیبہ سے ہوکے جاتے ہیں ہم سوئے کربلا

ہر شاہراہِ عشق خیابانِ نعت ہے

اکبر میں اسـکے ہاتھ پہ بیعت ابھی کروں

جس کو بھی اس زمانے میں عرفانِ نعت ہے

حسنین شہزاد، کوٹ عبد الحکیم ، پاکستان

سُلگا ہؤا خیال میں لوبانِ نعت ہے

خوش ہیں قلم دوات کہ امکانِ نعت ہے


باب السّلام ، بابِ امان و سکون ہے

بابِ بقیع ، باب ِ خیابانِ نعت ہے


عُشّاق جانتے ہیں مقام ِ مواجہہ

عُشّاق یعنی وہ جنہیں عرفانِ نعت ہے


چشمِ خیال ، بَن کے دِوانی کبوتری

محوِ طواف ِ روضہ ءِ سلطانِ نعت ہے


تعلیم ہو، سفر ہو، تجارت ہو ، عدل ہو

" ہر شعبہ ءِ حیات میں امکانِ نعت ہے"


حسنین عاقب، مہاراشٹر ، بھارت

سیرت نبی کی، ذکرِ نبی جانِ نعت ہے

میں نعت گو ہوں، مجھ پہ یہ احسانِ نعت ہے


آدابِ نعت گوئی قلم کو سکھائیے

اور یہ خیال رکھیے، یہ میدانِ نعت ہے


اذہان جن کے مہکے عقیدت کے نور سے

حاصل انہی کو ہوسکا وجدانِ نعت ہے


اصنافِ شعر جتنی ہیں، اپنی جگہ مگر

ہر ایک صنفِ شعر تو قربانِ نعت ہے


لفظوں کے جوڑ توڑ سے نسبت نہیں اسے

عشقِ رسول ہی سے تو پہچانِ نعت ہے


اے کاش! میری نعت سے خوش ہوکے ایک دن

کہہ دیں یہ خود نبی کہ تو خاقانِ نعت ہے


عاقب نے جس کا نام رکھا خامہ سجدہ ریز

باعث نجات کا مرا دیوانِ نعت ہے

حنیف نازش، گوجرانوالہ، پاکستان

سر پر ہمارے سایہ ٕ ذی شانِ نعت ہے

حاصل خُدا کے فضل سے ایقانِ نعت ہے

رکھتی ہے مُجھ کو نعت رہِ مُستقیم پر

مُجھ پر، مِری حیات پر احسانِ نعت ہے

جب لب سے اُن کا نام لیا، نعت ہو گٸی

نادان ہے وہ شخص جو انجانِ نعت ہے

صَلُّوا وَسَلِمُوا کی حلاوت کو پا کے دیکھ

غافل! درودِ مُصطفوی جانِ نعت ہے

بتلا رہی ہے آیتِ میثاق صاف صاف

مہکا ہُوا ازل سے گُلستانِ نعت ہے

ہر داٸرے کا مرکزی نُکتہ نبی کی ذات

”ہر شعبہ ٕ حیات میں امکانِ نعت ہے“

نازش لواۓ حمد ہو، محمود کا مقام

میدانِ حشر گویا کہ میدانِ نعت ہے

خاور اسد، رحیم یار خان، پاکستان

نوکِ مژہ پہ اشک بہ عنوانِ نعت ہے

یعنی سخن کی ذیل میں امکانِ نعت ہے


وہ حرفِ سبز کاش عطا ہو کبھی مجھے

میں جس کو کہہ سکوں کہ یہ شایانِ نعت ہے


جز مدحِ شاہ جو بھی ہے کاغذ پہ بوجھ ہے

خامے کا ننگ ہے یہ جو نسیانِ نعت ہے


اس کے ہر ایک لفظ پہ افسوس کیجئے

جس کی بیاض بے سرو سامانِ نعت ہے


تشنہ لبی کو بوسہِ نعلین چاہئے

دل کی تپش کا توڑ یہ بارانِ نعت ہے


احساں ہے عالمین پہ میلادِ مصطفی

یہ کائنات اصل میں ایوانِ نعت ہے


رحمت ہیں وہ تمام جہانوں کے واسطے

" ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے "


مجھ ایسے بے ہنر کو پنہ مل گئی اسد

کتنی کشادگی سرِ دامانِ نعت ہے


خورشید رضوی ، لاہور، پاکستان

یہ گلستانِ نغمہِ سرایانِ نعت ہے

سرگرم ہر روش پہ دبستانِ نعت ہے


ہے طبع سب کی ایک ہی آہنگ میں رواں

یکساں تمام بزم میں فیضانِ نعت ہے


غںچے چٹک رہے ہیں نکاتِ سخن کے آج

سمجھے گا کچھ وہی جسے عرفانِ نعت ہے


مضموں نکالنا ہیں ستاروں کو جوڑ کر

پھیلا ہوا فلک پہ یہ سامانِ نعت ہے


جو رنگ سوچئے سو ہے اس نقش سے فرو

جو حرف دیکھیےسو پشیمانِ نعت ہے


وہ فکر لائیے کہ ہو ہم دوشِ بامِ عرش

وہ لفظ ڈھونڈیے کہ جو شایانِ نعت ہے


ہر بات میں ہے اُسوہِء کامل نبیؐ کی ذات

"ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہر موجہِء ہوا میں ہے خوشبو درود کی

ہر ذرّہ رُو بہ راہِ درخشانِ نعت ہے


ہے ہر شجر اُٹھائے ہوئے مدح کا عٙلٙم

ہر برگ پہ لکھا ہوا عُنوانِ نعت ہے


ہے یاد آسماں کو وہ شقُ القمر کی رات

باندھے ہوئے حضورؐ سے پیمانِ نعت ہے


خورشید ! آفتابِ قیامت کے رُو برو

کافی مجھے یہ سایہِ دامانِ نعت ہے۔

دلاور علی آزر، کراچی، پاکستان

پھیلا ہوا بہت سر و سامانِ نعت ہے

وسعت پزیر عالمِ امکانِ نعت ہے

مجھ میں بسی ہوئی ہے مہک مدحِ شاہ کی

مجھ میں کِھلا ہوا گُلِ ریحانِ نعت ہے

اِس لوح پر حضور کی مدحت لکھوں گا میں

یہ میرا دل نہیں ہے یہ جزدانِ نعت ہے

باندھا گیا ہے عشق کی ڈوری سے لفظ کو

مشکل ہے توڑنا اِسے پیمانِ نعت ہے

ہر کارِ خیر اُن سے عبارت ہے دہر میں

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے

پہچانتے ہیں مجھ کو جو دنیا میں چند لوگ

یہ اور کچھ نہیں ہے یہ فیضانِ نعت ہے

ورنہ کہاں یہ ہیچ ہنر اور کہاں یہ ظرف

میں نعت لکھ رہا ہوں تو احسانِ نعت ہے

لفظوں سے نورِ عشق جھلکتا ہے سر بہ سر

میری غزل کے رنگ میں اعلانِ نعت ہے

اُس کو بیان شعر میں کیسے کرے کوئی

وہ کیفیت جو لفظ کی دورانِ نعت ہے

حکمت کی سب حدیں ہیں اِسی آئنے میں ضم

رحمت سمیٹتا ہوا دامانِ نعت ہے

آزر میں پوچھتا ہوں سبھی ناعتین سے

میرا لکھا ہوا بھی کیا شایانِ نعت ہے

ذوالفقار علی دانش ، حسن ابدال، پاکستان

آثار ہیں کہ آمدِ بارانِ نعت ہے

دامن پسارییے شبِ فیضانِ نعت ہے


جس کو شعورِ خواہش و ارمانِ نعت ہے

وہ جان لے کہ اُس پہ یہ احسانِ نعت ہے


ہر سمت آج کل یہ جو رجحانِ نعت ہے

سرکار کا کرم ہے یہ فیضانِ نعت ہے


جس شہر میں بھی نعتِ محمد کہی گئی

وہ شہر از قبیلِ خیابانِ نعت ہے

حسۤان کے قدوم کی جو خاک بھی نہیں

کیسے یہ مان لیں کہ وہ حسّانِ نعت ہے ؟


انسان ہوں ، مَلَک ہوں ، کہ کنکر ، شجر ، حجر

دیکھو جسے ، شریکِ دبستانِ نعت ہے


مدحت میں صرف میرا قلم ہی نہیں رواں

میرا رُواں رُواں بھی گُل افشانِ نعت ہے


زیبا ہے بس یہ حضرتِ حسّان کے لیے

ہر گز نہ کہیے کوئی بھی سلطانِ نعت ہے


گر نعت کہنے کا ہے ارادہ تو جانیے

" ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے "


جو سیکھنا ہو سیکھیے قرآں سے طرزِ نعت

ہر لفظ اس صحیفے کا شایانِ نعت ہے


صد فخر ہوں میں ناعتِ سرکارِ نامدار

صد شکر میری طبع میں میلانِ نعت ہے


قربانِ مدحِ سرورِ عالم ہے جاں مری

سب کچھ مرا فدائے فدایانِ نعت ہے


رکھ پھونک پھونک کر رہِ مدحت میں ہر قدم

حدِّ ادب رہے کہ یہ میزانِ نعت ہے


اے ساکنانِ کُوچہِ امکان دیکھنا

اِمشب بھی کیا کہیں کوئی امکانِ نعت ہے ؟؟؟


شانِ رسول فہمِ بشر سے ہے ماورا

مت سوچیے کہ آپ کو عرفانِ نعت ہے


پہلی صدی ہو یا کہ ہو وہ آخری صدی

حسّان ہی امیرِ جوانانِ نعت ہے


حمدِ خدا کے دائرے کی حد سے اِس طرف

جتنا بھی جس قدر بھی ہے ، میدانِ نعت ہے


کتنا کرم کیا ہے رسالت مآب نے

دانش بھی ریزہ چینِ گدایانِ نعت ہے


دانش ! رموزِ شاعری ہیں قلب و جسم و روح

آقائے دو جہاں کا ادب جانِ نعت ہے


اُڑتا پھرے ہے باغ میں آئی ہے بُوئے نعت

دانش کہ بلبلِ چَمَنِستانِ نعت ہے

رئیس جامی، اٹک، پاکستان

میں بے ہنر ہوں کب مجھے عرفانِ نعت ہے

مولا! مگـر کـرم ہو کہ ارمـانِ نعت ہے


ان کا کرم کہ کاوشیں کرتے ہیں وہ قبول

ورنہ کہاں وہ لفظ جو شایانِ نعت ہے


میرے تخیـلات پہ چھائی ہے روشنی

کہتا ہوں میں یقیں سے یہ فیضانِ نعت ہے


مطلع ہوا تو آنکھ سے آنسو نکل گئے

قسمت کہاں مری کہاں جانانِ نعت ہے


دنیا مجھے حقیر نہ جانے میں ہوں غنی

دیکھو یہ میـرے ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے


میرے خیـال میں اسے پتھر ہی جانیے

وہ دل کہاں جو بے سـر و سامانِ نعت ہے


اس نے رخِ حبیب کو تک کر کہی تھی نعت

حسان اس لئے ہی تو سلطانِ نعت ہے


میرے تمام عیب چھپائے گا روز ِ حشر

اتنـا طــویل وسعتِ دامــانِ نعـت ہے


بیٹھے بٹھائے ہوگئی اس در پہ حاضری

کیسا رئیس دیکھ یہ فیضانِ نعت ہے


رحمان حفیظ ، اسلام آباد، پاکستان

عشقِ رسول ہو تو یہ میدان ِ نعت ہے

ہر فن میں ، ہرہنر میں ہی امکان ِ نعت ہے


مدح و ثنا کا سلسلہ افلاک سے چلا

صلو علیہ خاصۂ خاصانِ نعت ہے


اِس میں تو خود خُدا نے کی تحسین آپ کی

قران شاعری نہ سہی، جانِ نعت ہے


الفاظ دست بستہ کھڑے ہیں قطار میں

جس سے بھی پوچھ لیجئے، قربانِ نعت ہے


پہنچے گا اُس تلک بھی شفاعت کا سلسلہ

خوش بخت ہے وہ جس میں بھی میلانِ نعت ہے


ان کو لُٹے پٹے تو زیادہ عزیز ہیں

اسبا ب کا نہ ہونا بھی سامانِ نعت ہے


حدِّ ادب سے ہو گئی عنقا صریرِ کلک

گویا مِرے قلم کو بھی عرفانِ نعت ہے


اے کوچہء سخن کے پریشان ! اتنا جان

تسکین دل جو ہے تو بفیضانِ نعت ہے


طیبہ سے ہو کے جائے گا باغِ بہشت تک

دشتِ ہنر میں یہ جو خیابانِ نعت ہے


واللہ ! صرف زائرِ طیبہ کا ہو تو ہو

احساس جو مجھے ابھی دورانِ نعت ہے


رُک سا گیا تھا چشمہء تخلیق لیکن آج

بنجر دل و دماغ میں بارانِ نعت ہے


توفیق مانگتے ہیں سب اہلِ ہنر کہ جب

یہ ہو تو لفظ لفظ ہی شایانِ نعت ہے


مملو ئے ادّعا ،نہ تعلّی سے بہرہ ور

رحمان شاعری میں یہی شانِ نعت ہے

رحمان شاہ ، مانسہرہ، پاکستان

ہر موڑ پر یہ پانیوں کا چشمئہ خنک

"ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے"


چھو لوں میں رفعتوں کو مری شان بھی بڑھے

آقا کی داد جو ہو یہ ارمانِ نعت ہے


سنت کو ماننے میں جہانوں کی ہے فلاح

سنت کا ہو بیان تو پہچانِ نعت ہے


آقا کی جو نگاہ یہ رحمانِ اب پڑی

میرا نہیں کمال میاں شانِ نعت ہے

رحمان فارس، لاہور، پاکستان

وہ جانتا ھے جس کو بھی عرفانِ نعت ھے

عشقِ مُحمَّدِ عَرَبی جانِ نعت ھے


بے شک ھے حجرِ اسود اِسی بات کا ثبوت

بے جان پتھّروں میں بھی امکانِ نعت ھے

اُس کی ھر ایک سانس ھے نعتِ نبی کا شعر

جو عاشقِ رسُول ھے دیوانِ نعت ھے


ھم بندگانِ خاک بھلا کیا کہیں گے نعت

نُطقِ خُدائے پاک ھی شایانِ نعت ھے


کرتے ھیں یہ تو آخری ھچکی میں بھی ثنا

عُشّاق کو تو موت بھی سامانِ نعت ھے


دُنیاوی نعمتیں بھی مُجھے دِین سے ملِیں

میری غزل میں کیف بَفیضانِ نعت ھے


ذکرِ نبی کو کتنی بلندی پہ لے گیا قُ رآن اپنی رُوح میں قُرآنِ نعت ھے


لاھور سے عجب ھیں مدینے کی نسبتیں

فارس ! یہ شہر شہرِ غُلامانِ نعت ھے


رضا عباس رضا ، لاہور

بشکریہ : صادق جمیل، لاہور

یہ کائنات نکتہِ ایوان ِ نعت ہے

قرآن پاک اصل میں اعلانِ نعت ہے


اب ذہن اپنا رنگ بدل، دل ذرا سنبھل

یہ عرصہِ غزل نہیں میدانِ نعت ہے


محشر میں سر اُٹھا کے چلوں گا کہ میرے پاس

سرمایہ منقبت کا ہے سامانِ نعت ہے


میراثِ مصطفٰیؐ کا نہ دعویٰ کرے کوئی

جو وارثِ نبیؐ ہے نگہبانِ نعت ہے


ہر شئے خدا کے ذکر میں مصروف ہے تو مان

"ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہے خاکسار عرش نشینوں کا ہم خیال

یہ فضل ہے خدا کا یہ احسانِ نعت ہے


مت روکنا فرشتوں ذرا غور تو کرو

خاکِ شفا ہے ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے


میں کیا تھا مجھ کو جانتا کوئی نہ تھا رضا

عزت مجھے ملی ہے تو فیضانِ نعت ہے

رفیع الدین راز، امریکہ

بشکریہ : اویس راجا


جن و بشر کو کیا پتا ، کیا شانِ نعت ہے

اللہ کے سوا کسے عرفانِ نعت ہے


آدابِ نعت گوئی کا پیہم رہے خیال

شوکت میں حمد ہی کی طرح شانِ نعت ہے


نغمہ سرا ہے خون کی ہر بوند میں حیات

دل پر عجیب طور سے فیضانِ نعت ہے


کیفیتِ دیارِ دل و جاں نہ پوچھئے

ہر خطۂ وجود دبستانِ نعت ہے


نوکِ قلم کو اور کیا اعزاز چاہئیے

آقا کا ذکرِ خیر ہے ، رجحانِ نعت ہے


بھیجا درود اس نے نبی پر تو یہ کھلا

وہ بھی اسیرِ حلقۂ جزدانِ نعت ہے


لب پر درود ، دھیان میں ہے ذاتِ مصطفٰے

زادِ سفر میں بس یہی سامانِ نعت ہے


خوشبو ہے، روشنی ہے، یا پھر پرتوِ خدا

کوئی تو ہے جو اس گھڑی مہمانِ نعت ہے


ہر موڑ ہر قدم پہ نوازا گیا ہوں میں

دن رات میری ذات پہ احسانِ نعت ہے


نعتِ نبی کے فیض سے میری نگاہ میں

اس وقت دل کا آئینہ ایوانِ نعت ہے


کھلتے رہیں گے نوکِ قلم پر ثنا کے پھول

جب تک نبی سے عشق ہے امکانِ نعت ہے


قلب و نظر پہ کیوں نہ ہو برسات نُور کی

دستِ خیال میں ابھی دامانِ نعت ہے


یوں ہی نہیں ہے دل کی زمیں عطر بیز آج

جزدانِ قلبِ راز میں دیوانِ نعت ہے


ریاض مجید، فیصل آباد، پاکستان

جس سے درود رُو مرا وجدانِ نعت ہے

لفظِ مدینہ ایسا گلستانِ نعت ہے


تکتے ہیں ہم کو حیرت و حسرت سے کس طرح

برگ و شجر کے دل میں بھی ارمانِ نعت ہے


ہیں سلسلے زبان و بیاں کے جہاں جہاں

پھیلا ہُوا وہاں وہاں امکانِ نعت ہے


قراں ہر امتی سے ہے پیہم درود خواہ

اک طرح سے یہ دعوت و اعلان نعت ہے


قراں کی آیتوں میں ہے شان اُن کی عطربیز

بین السطّور دیکھ یہ بستانِ نعت ہے


اہلِ ولا و اہل صفا کی نگاہ میں

’احزاب‘ استعارہ پیمانِ نعت ہے


صلّوا علیہ کی اسے توسیع جانئیے

حُبّ کا تلازمہ جو بعنوانِ نعت ہے


قران کا خلاصہ اگر اک ورق میں ہو

تو زیب اُس نوشتے کو عنوانِ نعت ہے


سعی ہنر قبول ہو‘ جو ہو خلوص سے

ہر نعت گو کو اتنا تو عرفانِ نعت ہے


اس عہدِ نعت پہ کرم خاص آپ کا

گھر گھر کھلا ہُوا جو دبستانِ نعت ہے


کیا کیا ثنا سرشت ہیں مائل بہ نعت آج

فی الواقعی یہ عہدِ درخشانِ نعت ہے


مصرعے اتر رہے ہیں ستاروں کی شکل میں

کاغذ سے روح تک میں چراغانِ نعت ہے


فردائے نعت کی ہے ہر اک سمت سے نوید

ہر دل میں جو نمایاں یہ رجحانِ نعت ہے


جنت میں ہو گا نعت کا دورانِ جاوداں

اب تک ہوئی جو مشق وہ اک انِ نعت ہے


باعث ظہور ہست کا ہے ذات آپؐ کی

دھڑکن دلِ وجود کی گردانِ نعت ہے


مصروفیت ملی ہے بہشت آفریں ہمیں

ہم اہلِ حُب یہ کیسا یہ احسان نعت ہے


بخشش کی التجا کے سوا کچھ نہیں ریاض

فردِ عمل میں جو سروسامانِ نعت ہے


ہے محوِ فکر رفعت و شانِ رسول میں

چپ ہے ریاض جس کو بھی عرفانِ نعت ہے


زید معاویہ، گوجرانوالہ

جملہ ہو غرق عشق تو شایان نعت ہے

اظہار لفظ شوق ہی عنوان نعت ہے


دل میں اگر اطاعت سنت کا شوق ہو

"ہر شعبہء حیات میں امکان نعت ہے"


حکم ِ خدا ہے مدحت ِ سرکار ِ دو جہاں

"صلو علیہ_" اصل میں فرمان نعت ے


غمگیں سخنوروں کے دماغوں میں یہ بٹھا

انجام تشنگی کے لیۓ خوان نعت ہے


اخلاق مصطفی پہ یہ بولی تھیں عائشہ

قرآن پڑھ ذرا کہ جو دیوان نعت ہے


قرآن کی مہک کے دلائل سبھی بجا

خوش بو ہے اس لیۓ بھی کہ گلدان نعت ہے

ساجد ندیم ، سیالکوٹ ، پاکستان

جب مطمعِ نظر ترے دامانِ نعت ہے

"ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے"


کر دے جو بے نیاز ہر اک احتیاج سے

کل کائنات اپنی یہ ایقانِ نعت ہے


دونوں جہاں کی اس میں میسر ہیں رفعتیں

کتنی بڑی عطا ہے جو عرفانِ نعت ہے


دل مطمعن ابھی سے ہے کوثر پہ جام کا

مجھ رو سیاہ پہ دیکھ یہ فیضانِ نعت ہے


شان و مقام و ادب و موءدت سے آگہی

میراثِ کل ندیم یہ سامانِ نعت ہے

سرور حسین نقشبندی، لاہور، پاکستان

کیا کیا گدائے نعت پہ احسان نعت ہے

اک ایک سانس حجرہء ایوان نعت ہے


کیسی ہری بھری ہے تخیل کی سرزمیں

صد شکر کشت فکر پر باران نعت ہے


اصناف شعر ساری اسی کی ہیں خوشہ چیں

جو بھی سخن کی صنف ہے دربان نعت ہے


تفہیم اس کو اسوہء کامل کی جانئے

"ہر شعبہء حیات میں امکان نعت ہے"


خوشبو بنائے کیوں نہ مرے گرد دائرہ

موج صباء کی ہمدمی دوران نعت ہے


اس کو ملے گا اجر بھلے شعر ہوں نہ ہوں

وہ خوش نصیب ہے جسے ارمان نعت ہے


قرآن سے حدیث سے تم کو ہے مس اگر

کافی برائے نعت یہ سامان نعت ہے


یاں پر اک ایک لفظ رکھو ناپ تول کر

اے شوق! احتیاط یہ میزان نعت ہے


سرور یقیں نہ کیسے ہو اپنی نجات کا

فرد عمل میں جب مرے دیوان نعت ہے

سعود عثمانی، لاہور، پاکستان

گر ایک شعر بھی مرا شایانِ نعت ہے

پھر تو یہ ساری عمر ہی قربان نعت ہے

سچ یہ ہےساری زیست ہی دیوان نعت ہے

ہر گوشہء حیات میں امکان نعت ہے

تیری کُلاہِ فخر بھی پاپوش ہی تو ہے

جوتے اتار ! دیکھ یہ ایوانِ نعت ہے

رسمی مبالغوں کو پرے رکھ کے بات کر

ثابت تو کر کہ ہاں مجھے عرفانِ نعت ہے

قصے کہانیوں کو کہیں دور جا کے پھینک

سیرت کو نظم کر کہ یہی جانِ نعت ہے

آداب ہیں سکوت کے بھی' گفتگو کے بھی

دونوں طرح بتا کہ سخن دان نعت ہے

گنتی کے چند لوگ ہیں' گنتی کے خوش نصیب

حاصل جنہیں طلائی قلم دانِ نعت ہے

مدح نبی تو خود بھی بڑا فخر ہے مگر

مصرعہ قبول ہو تو یہ احسانِ نعت ہے

سب جانثاروں مدح گزاروں کے درمیاں

جگمگ ہے ایک شخص جو حسّانِ نعت ہے

جیسے میں بارگاہ پیمبر میں ہوں سعود

اور میرے ہاتھ میں مرا دیوان ِ نعت ہے

توفیق نعت دی ہے جو تو نے سعود کو

یارب وہ اجر بھی کہ جو شایان ِ نعت ہے


جیسے میں بارگاہ پیمبر میں ہوں سعود

اور میرے ہاتھ میں مرا دیوان ِ نعت ہے

سیف اللہ خالد، ملتان، پاکستان

قلب و دماغ پر مری بارانِ نعت ہے

صد شکر آج مجھ پہ بھی فیضانِ نعت ہے


یہ میری بے بساطی کہ اب تک نہ لکھ سکا

دل میں تو مدتوں سے یہ ارمانِ نعت ہے


قول و عمل میں جس کے ہوسنت کی پیروی

وہ شخص ہی حقیقی سخندانِ نعت ہے


پڑھ لے درود خامہ کو چھونے سے پیشتر

طاری اگر جمود ہے بحرانِ نعت ہے


سچا ہے تیرے دل میں اگر عشقِ مصطفیٰ

ہر شعبہء حیات میں امکانِ نعت ہے


دل ذکر سے اجال تو اشکوں سے کر وضو

لکھنی ہے نعت گر تو یہ شایانِ نعت ہے


خالد زبان وقف ہے توصیف کیلئے

میرا یہ فن یہ شاعری قربانِ نعت ہے

شاہین فصیح ربانی، دینا، گجرات، پاکستان

بزمِ تصورات ہے، وجدانِ نعت ہے

رقص تجلیات ز فیضانِ نعت ہے


فکر و خیال عشق ہی شایانِ نعت ہے

الفاظ میں، حروف میں امکانِ نعت ہے


کیا گرمیء حیات ہے کیا سختیء ممات

حاصل ہمیں جہان میں بردانِ نعت ہے


ماہ و نجوم رشک سے تکتے ہیں اس طرف

روشن کچھ ایسے شمعِ شبستانِ نعت ہے


کوئی غزل، قصیدہ، رباعی کہ ماہیا

جو میری شاعری ہے وہ قربانِ نعت ہے


شاعر نہیں غلام رسول کریم ہوں

یہ شاعری نہیں ہے، گلستانِ نعت ہے


کیا ہو فصیح دعویء مدحت سرائی جب

محبوبِ رب جو ذات ہے، عنوانِ نعت ہے

شیر محمد، جھارکھنڈ، بھارت

بشکریہ : نواز اعظمی

روشن ازل سے شمع شبستانِ نعت ہے

توصیف شاہ دہر کی عنوانِ نعت ہے


تعمیر ذات میں بڑا احسان نعت ہے

مجموعۂ کلام بھی دیوان نعت ہے


ہر شعبۂ حیات کے سرکار رہنما

ہر شعبۂ حیات میں امکان نعت ہے


  • لا‌ یمکن الثناءُ کما کان حقہ*

یہ عجز و اعترافِ ادیبان نعت ہے


تعریف واہ واہ نہ تحسین و آفریں

چشمِ کرم، دوائے مریضانِ نعت ہے


پروانۂ نجات بھی ہوگا بروز حشر

مجھ پر خطا کے ہاتھ میں دامان نعت ہے


باشندہ جو بھی عالمِ شعر و ادب کا ہے

کاسہ بدست بر درِ ایوان نعت ہے


الفاظ لاؤں کوثر و تسنیم سے دھلے

ذوق سخن وری مرا مہمان نعت ہے


پاکیزگئ حرف کو حاصل اسی سے بھیک

صوت و صدا کا حسن بھی فیضانِ نعت ہے


آداب و احترام ثنا اس سے سیکھیے

قرآنِ رب ذریعۂ عرفان نعت ہے


سیراب ہو رہا ہوں میں ذکر رسول سے

کشتِ سخن پہ چشمۂ باران نعت ہے


حورو ملک کہ جن وبشر آنکھوں میں رکھیں

ہر دلعزیز بلبل بستانِ نعت ہے


شعری وجود و چشم ہے محفوظ ضعف سے

اشہر کے بخت میں نمک و نانِ نعت ہے

شیر محمداشہر شمسی منانی، جھارکھنڈ (ہندوستان)


صائمہ اسحاق، کراچی، پاکستان

ہر گام دل پکڑتا جو دامانِ نعت ہے

صد شکر میرے حال پہ فیضانِ نعت ہے


پھر کیسے مدح خواں کو نہ اس میں اماں ملے

جب خود درودِپاک ہی دربانِ نعت ہے


ہرسانس مستفیض ہے ان کے وجود سے

'؛ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے؛


اے کاش کم سخن کو بھی آئے ثنا گری

قرطاس کو قلم کو بھی ارمانِ نعت ہے


جیسے ہر ایک شے میں ہے عشقِ محمدی

ویسے ہر ایک شے میں ہی میلانِ نعت ہے


کوثر سے جام اس کو عطا ہو مرے حضور

شامل قطار میں جو ثنا خوانِ نعت ہے


کیا کیاسخن طرازہیں اس کارزار میں

ناچیز کو سہاریے میدانِ نعت ہے


قوسین ہے خدا سے محبت کا سلسلہ

معراج کا سفر بھی تو اعلان ِ نعت ہے


کچھ اور تو نہیں مرے توشے میں صائمہ

حبِ رسول ِ پاک ہی سامانِ نعت ہے

صغیر انور وٹو ، اسلام آباد

کس کو، شعور_وسعت_ دامان _نعت ہے

وہ خوش نصیب ہے، جسے عرفان_ نعت ہے


در کھل گیا ہے خیر کا، رحمت کا، نور کا

لے آئے ،جس کے پاس ،جو، سامان_ نعت ہے


لکھی نہیں ہے، مجھ کو عطا کی گئی ہے نعت

آنکھوں میں نم نہیں ہے یہ باران_ نعت ہے


اس ذات کو ہی زیبا ہے مدحت حضور کی

اس کا کہا ہی اصل میں شایان_ نعت ہے


مجھ بے ہنر پہ ان کا کرم ہو گیا تو پھر

میں بھی کہوں گا یہ مرا دیوان_ نعت ہے

قرآں بتا رہا ہے سراپا حضور کا

کس درجہ واشگاف یہ اعلان نعت ہے

روشن ہے کائنات اسی ایک نور سے

انور، وہ آپ شمع ٕ شبستانٕ نعت ہے

طارق شہزاد، جدہ ، سعودی عرب

گلزار۔حسن_ فکر پہ احسان_ نعت ہے

سب تتلیوں کے ہاتھ میں گلدان_نعت ہے


جو کنز _ کن ہے سارا ہی سامان_نعت ہے

ہر شعبہء حیات میں امکان_ نعت ہے


درباں کو کاش داور _ محشر یہ حکم دیں

روکیں نہ اس کو صاحب_ دیوان_ نعت ہے


فصلیں خیال_سبز کی اگتی ہیں جا بجا

کشت_ سخن بھی تحفہء دہقان_ نعت ہے


اک دن چھپے گا میرا بھی دیوان ! دیکھنا

حاصل مجھے بھی صحبت_ یاران_ نعت ہے


پھوٹے ہیں پور پور سے چشمے درود کے

ٹھہرا سراے روح میں مہمان_ نعت ہے


کچھ اہتمام_ روز_ جزا کیجیے میاں

سودا خرید لیجیے دکان _ نعت ہے


پت جھڑ کی کیا مجال کہ چھینے طراوتیں

ان پتیوں پہ رنگ_ بہاران_ نعت ہے


مشک_ درود_ پاک سے مس کر لباس_ زیست

کھولی کسی نے کاکل_ دیوان _ نعت ہے


طاہر جان، گوجرہ

پیہم قلم رواں ہے بفیضان نعت ہے

ہر لفظ کیمیا ہے بعنوان نعت ہے


لفظوں کے ساتھ چاہیئے معانی کی احتیاط

لغزش کی جاء نہیں کہ یہ عنوان نعت ہے


اشکوں سے آنکھ ہی نہیں دل بھی ہوں دھو رہا

پاکی نگاہ و فکر کی جزدان نعت ہے


اس کی بہارِ تام خزاں سے ہے نا شناس

ہر دور میں فروزاں گلستان نعت ہے


ہر ذکر سے بلند کیا مصطفی کا ذکر

رب جہان آپ قدر دان نعت ہے


گرچہ ہے جاؔں بھی خوگرِمدحِ رسولِ پاک

حق ہے کہ صرف حق ہی کو عرفان نعت ہے

عارف امام، امریکہ

عالم تمام حلقۂ دورانِ نعت ہے

اعلانِ کُن کے “ن” میں اعلانِ نعت ہے


ملتی ہے عاجزی سے یہاں شعر کو اُٹھان

گردن جُھکا کے چل کہ یہ میدانِ نعت ہے


پُر پیچ تو نہیں ہے مگر سہل بھی نہیں

اے راہ رو سنبھل! یہ خیابانِ نعت ہے


سرنامۂ کلام ہیں اوصافِ مصطفیٰ ص

گویا کتابِ حق ہی دبستانِ نعت ہے


مدحِ نبی ص ہے نغمۂ تارِ نفس مدام

میں سانس لے رہا ہوں یہ احسانِ نعت ہے


سایہ ہے اِس سخن کا مِرے سر پہ تو مجھے

میدانِ حشر وادئ فارانِ نعت ہے


اس دائرے سے دور نکل اے خیالِ دہر

حّدِ ادب! یہ بزمِ سخن دانِ نعت ہے


خطبے میں جس نے دفترِ الحمد وا کِیا

تاریخ نے کہا وہ حدی خوانِ نعت ہے


کوثر سے منسلک ہے یہاں کی ہر اک رَوِش

یہ باغِ منقبت یہ گلستانِ نعت ہے

عباس عدیم قریشی، خانیوال، پاکستان

انکی عطا ہے اور مرا دامانِ نعت ہے

یعنی زمینِ خشک پہ بارانِ نعت ہے


فکرِ سخن ، رضا کے تکلّم کی بھیک بس

طرزِ سخن فقیر کا فیضانِ نعت ہے


ملحوظ حدّ ِ شرع و سیرت رکھی فقط

دعویٰ نہیں ہے حاشا ، کہ عرفانِ نعت ہے


مجھ پر جو حرف و معنی کے دفتر ہوئے ہیں وا

یہ اہلیت نہیں مری ، احسانِ نعت ہے


کچھ ان بہے سے اشک ہیں ، کچھ بےصدا سے لفظ

کاسے میں مجھ گدا کے یہ سامانِ نعت ہے


تغسیلِ نور کر کے اترتے ہیں یاں خیال

یہ مہبطِ جمال ہے ، میدانِ نعت ہے


یاں قدرتِ سخن نہیں ، توفیقِ نعت مانگ

غالب ہیں ہاتھ باندھے ، یہ ایوانِ نعت ہے


ہر لمحہ ہوں درود سپاس انکی چاہ میں

ہر لمحہ ان کے لطف سے قربانِ نعت ہے


کہنے کی بات ہے نہ بتانے کا حوصلہ

جتنا کرم فقیر پہ دورانِ نعت ہے


ماخوذ ہو حیات جو سیرت سے شاہ کی

" ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے "


حسّان و رومی ، جامی کا صدقہ ہے یہ عدیم

توفیقِ نعت جس کو ہے حسّانِ نعت ہے

عبد الباسط، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکستان

یہ کائنات سر بسر سامانِ نعت ہے

وہ خوش نصیب ہےجسے عرفانِ نعت ہے


اللہ کا ہے فرمان کانَ خلقہ القرآن

یعنی قرآنِ پاک بھی اعلانِ نعت ہے


میرے لبوں پہ رہتا ہے ذکرِ حضورِ پاک

مجھ پر یہ احسان بہ فیضانِ نعت ہے


آقا ہیں میرے باعثِ تخلیقِ کائنات

یہ کائنات سمجھیے دیوانِ نعت ہے


ہراک نفس پہ قرض ہے مدح حضور کی

ہر گوشہء حیات میں امکانِ نعت ہے

عبد الحلیم، گونڈہ، بھارت

فکر و نظر شعور میں فیضانِ نعت ہے

جو کچھ ہے میرے پاس وہ احسانِ نعت ہے


اللٰہ کے رسول کا احسان دیکھئے

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


تسکین قلب کے لئے نعت رسول بس

میں نے یہ کب کہا مجھے عرفانِ نعت ہے


ابر کرم حضور کا برسا ہے ہر جگہ

اس واسطے جہاں یہ گلستانِ نعت ہے


آنکھوں میں اشک دل میں وِلا لب پہ ان کا نام

ہمراہ میرے بس یہی سامانِ نعت ہے


جنبش قلم کو خوب ادب سے دیا کرو

لازم ہے احتیاط یہ میدانِ نعت ہے


عبدالحلیم جیسے بھی لکھتے ہیں ان کی نعت

کتنا وسیع دیکھئے دامانِ نعت ہے

عبدالقادر ہمدم قادری، گونڈہ، بھارت

مکمل نام : انصاری عبدالقادر ہمدم قادری

رحمت ہے اُس پہ جو بھی قلمدانِ نعت ہے

صد شُکر ہے خدا کا یہ احسانِ نعت ہے


سرکار ﷺ کا کرم ہے فقط اور کچھ نہیں

قلب و جگر میں آج جو میلانِ نعت ہے


سرکار ! یہ یقین ہے صدقے میں آپ کے

محفوظ میرے قلب میں ارمانِ نعت ہے


دل میں بسی ہے الفتِ سرکارِ ہر جہاں

قلب و جگر پہ دیکھئے بارانِ نعت ہے


مجھ کو شعور کب ہے کہ نعتِ نبی لکھوں

شکرِ خدا کہ آج یہ وجدانِ نعت ہے


جرم و خطا کا‌ بوجھ مرے سر پہ ہے مگر

راہِ نجات کے لئے سامانِ نعت ہے


اعلیٰ ہے کتنی دیکھئے شانِ رسولِ پاک

" ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے


ہمدمؔ درودِ پاک پڑھو جھوم جھوم کر

شایانِ نعت ہے یہی شایانِ نعت ہے

عبد اللہ خان آبرو علیمی، بلرام پور، بھارت

پیش کش: غلام جیلانی سحر


شکرِ خدا کہ روح پریشانِ نعت ہے

سرکار ! لطفِ خاص کہ عنوانِ نعت ہے


سرکار ! مجھ گنوار کی لاج آپ کے سپرد

کچھ زادِ آخرت ہے نہ سامانِ نعت ہے


سرکار ! آپ ہی کی عطا نعت اگائے گی

کشتِ سخن میں آپ سے امکانِ نعت ہے


سرکار ! لطف آپ کا شامل رہے تو پھر

,,ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے,,


ہر ایک پھول رنگت و نکہت کا شاہ کار

قرآن کا, جو ایک گلستانِ نعت ہے


امداد ان کی شانِ کریمی کی واہ واہ

لب ہائے خوش نصیب پہ گردانِ نعت ہے


ہمراہ ان کا عشق اگر ہے تو ٹھیک ہے

خطرے ہیں بے شمار,کہ میدانِ نعت ہے !!


مجھ میں کوئی کمال نہیں ہے اے آبروؔ!

اک بے ہنر پہ بارشِ فیضانِ نعت ہے

عرفی ہاشمی، آسٹریلیا

مکمل نام : سید عرفی ہاشمی

بتلاؤں تجھ کو کیا حد عرفان نعت ہے

میرا خدا بھی قارئ قرآن نعت ہے


دین سخن میں ایک ہی مسلک رہا مرا

جو شعر بھی کہا ہے مسلمان نعت ہے


عشق نبی سے لکھی گئیں ہیں نبوتیں

پیغمبری دراصل قلمدان نعت ہے


موزوں وہ کررہے ہیں مرا مصرعہ نجات

اب تو مرا نصیب بھی دیوان نعت ہے


سین بلال اس لئے افضل ہے شین سے

لکنت زبان عشق کی جزدان نعت ہے


موقوف جسم و جاں ہے کہاں مدح مصطفے

نیزے پہ جو بلند ہے قرآن نعت ہے


کچھ اسلیے بھی تجھ سے تعلق نہیں رہا

اے جہل نفس جاں مجھے عرفان نعت ہے


میرے گنہ اِدھر،اُدھر اللہ کا کرم

اور درمیاں میں عرصہء امکان نعت ہے


آوارگی نہیں یہاں ہجرت کا ظرف لا

دشت غزل نہیں ہے یہ میدان نعت ہے


کاغذ پہ جو لکھا ہے اسے نعت مت سمجھ

پلکوں پہ جو نمی ہے وہی جان نعت ہے


جسمیں خدا نے رکھے ہیں خود آیتوں کے پھول

ایسا بھی ایک دہر میں گلدان نعت ہے

عقیل عباس جعفری ، کراچی، پاکستان

روشن ازل سے شمع شبستانِ نعت ہے

" ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


میری رگوں میں بھی ابوطالب کا ہے لہو

میری ہر ایک سانس پہ فیضانِ نعت ہے


جبریل ہوں کہ ہم سے فقیرانِ بے نوا

سایہ فگن ہر ایک پہ دامانِ نعت ہے


اے کاش اس فقیر کو بھی ہو کبھی عطا

اک حرف جس کو سب کہیں "شایانِ نعت ہے"


جو کربلا میں خون سے لکھا حسین نے

ہر دل میں جاگزیں وہی دیوانِ نعت ہے


منکر نکیر لوٹ گئے، کتبہ دیکھ کر

لکھا تھا " یہ گدائے خیابانِ نعت ہے"


عرفانِ نعت جس کو بھی حاصل ہوا عقیل

عمرانِ نعت ہے وہی حسانِ نعت ہے

علی شیدا، کشمیر، پاکستان

قُرآن پڑھ کے دیکھ ' دبستانِ نعت ہے

خوشبوئے حرف و لفظ میں اعلانِ نعت ہے


مضمونِ ہست و بود ہے کُن کی گرفت میں

مضمونِ کُن فکان ' وہ عنوانِ نعت ہے


دھڑکن' نفس' نگاہ ' سماعت کہ صوتیات

"ہر شعبہ ء حیات میں امکانِ نعت ہے"


تمہیدِ حرف و لوح و قلم صنفِ لامکان

تجسیمِ کائنات بھی جزدانِ نعت ہے


امید ' روزِ حشر ہو بخشش کی اور کیا

زنبیل خاکسار میں سامانِ نعت ہے


ادراک میں سمائے کہاں حسنِ لا مثال

حیرت جو منکشف ہے یہ وجدانِ نعت ہے


شیدا جو مدح خوانِ محمد لقب ملا

انعامِ لا یزال ہے ' احسانِ نعت ہے

علیم اطہر، لاہور، پاکستان

مجھ پہ کرم ہوا ھے تو فیضانِ نعت ھے

میرے جنون کو بھی تو عرفانِ نعت ھے


الفاظ باوضو ہیں، تخیّل مدینے میں

میرے قلم کی نوک میں وجدانِ نعت ھے


ہونٹوں پہ وردِ صلّی علٰی، دل سکون میں

اور چشمِ تر میں تیرتا سامانِ نعت ھے


کافر جو نعت کہتا ھے اس کو مرا سلام

دراصل دل بھی اس کا مسلمانِ نعت ھے


رک جائے ساری گردِشِ دوراں سنے وہ نعت

وہ لمحہ جاوداں ھے جو دورانِ نعت ھے


ہر کہکشاں میں نورِ رسولِ خدا ملا

"ہر شعبہءِ حیات میں امکانِ نعت ھے"


قرآن میں ھے سورہءِ رحمان نعت خواں

پورا کلامِ پاک ہی دیوانِ نعت ھے

عمیر لبریز، فیصل آباد

بشکریہ : ریاض قادری، فیصل آباد


ہر وقت پلتا قلب میں ارمانِ نعت ہے

صد شکر مجھ پہ یہ بڑا احسانِ نعت ہے


پنج تن کا ذکر نعت کو دلکش بناتا ہے

یہ اصل شانِ نعت ہے اور جانِ نعت ہے


پڑھتا درود ان پہ فرشتوں سمیت رب

سارے جہان میں وہی سلطانِ نعت ہے


پرکھے ہیں میں نے زندگی کے پہلو سارے ہی

"ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہر روز ایک رنگ نیانعت کا بنے

ملتا مدینے سے مجھے سامانِ نعت ہے


میرے لبوں سے نکلی جو بھی نعت آپ کی

ہر ایک کو میں سمجھا یہ حسانِ نعت ہے


لبریز شہر ِ نعت کا میں ایک باسی ہوں

یاں اک سے بڑھ کے ایک ثنا خوانِ نعت ہے

محمد عمیر لبریز ؔ فیصل آباد

ناہید ورک، مشی گن، امریکہ

سردارِ کائنات ہی سلطانِ نعت ہے

پڑھ لو درودِ عشق یہی جانِ نعت ہے


کیا حقِ بندگی ہو ادا ان حروف سے

محبوب کی ثنا میں تو قرآنِ نعت ہے


تلقین گونجتی ہے سماعت میں روز و شب

تخلیقِ کائنات ہی شایانِ نعت ہے


ہر اک نبی ہے لائقِ تحسین، ہاں مگر

بِن آپ ﷺ کے ہے کون جو پہچانِ نعت ہے


بادل کا ٹکڑا سایہ کرے مجھ پہ بھی حضور ﷺ

پھر میں بھی کہہ سکوں گی یہ فیضانِ نعت ہے


ہے لاالا بھی پاس، ہے صلِ علیٰ ﷺ بھی پاس

یعنی کہ میرے پاس تو سامانِ نعت ہے


پیشِ نگاہ آپ ﷺ کی توصیف ہے مگر

ناہیدؔ کیا تجھے ذرا عرفانِ نعت ہے؟


غلام مصطفی دائم اعوان، اسلام آباد، پاکستان

طاری عروسِ قلب پہ وجدانِ نعت ہے

خوشبوئے حرفِ راز بہ عُنوانِ نعت ہے


لفظوں کی عکس بندیاں ملحوظ ہوں، مگر

لازم پسِ خیال بھی عرفانِ نعت ہے


نقش جمالِ شوخیءِ آیات کیا کہوں

ہر نوکِ حرف لشکرِ مژگانِ نعت ہے


تکوینِ کائنات کا ہر لحظۂ وجود

عنبر سرشت لؤلؤِ بارانِ نعت ہے


اقلیمِ نُہ سپہر کے آشفتہ خاطرو

فرحت نواز غنچۂ بستانِ نعت ہے


نکہت فشانیءِ گلِ رَیحان و نسترن

سب خوشہ چِینِ عطرِ گلستانِ نعت ہے


مخدومِ طائرانِ اولی الاَجنحہ، حضور

عرشِ فراخ صفحۂ دیوانِ نعت ہے


دائم فروغِ نعت کی نیرنگیاں نہ پوچھ

”ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے“

فراز عرفان، دوبئی

قائم جو لامکان پہ ایوانِ نعت ہے

بیشک یہ شاہِ والا کے شایانِ نعت ہے


چرچا ہے شش جہت میں جو گویانِ نعت کا

لاریب یہ بوجہِ گلستانِ نعت ہے


باقی مکانِ دنیا میں گھومو پھرو مگر

طیبہ ادب سے جاؤ ، وہ کاشانِ نعت ہے


کہئے ثناء نبی کی ذرا احتیاط سے

کیونکہ خدا کے ہاتھ میں میزانِ نعت ہے


مداحِ مصطفیٰ کی ہے فہرست گو طویل

لیکن جو شانِ نعت ہے حسانِ نعت ہے


نسبت ہے تیری ذات سے لکھیں تری ثنا

ورنہ قلم کوئی ترا شایانِ نعت ہے ؟


جس کے سبب ہو فردِ عمل دائیں ہاتھ میں

بس ایک ایسا ہی مجھے ارمانِ نعت ہے


سامانِ آخرت ہے یہی میرا اصل میں

تھاما ہوا اسی لئے دامانِ نعت ہے


روحِ رواں ہیں آپ ہی اس کائنات کے

“ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


خاکی سبھی پہ چشمِ کرم ہے حضور کی

لیکن فقط خواص پہ بارانِ نعت ہے

فرخ ترمذی، کبیر والا، پاکستان

سرکار کا کرم ہے جو باران نعت ہے

مولا تری عطا سے ہی فیضان نعت ہے


ہر سمت تیرے نور کے جلوے نگاہ میں

"ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے"


تیرا وجود مرکز و محور ہے خیر کا

تیرا کلامِ نور ہی سامان نعت ہے


ذکر حبیب کرتے ہیں عشاق ہر گھڑی

ان کی زباں پہ ذکر بھی شایانِ نعت ہے


پتھر بدست لوگوں کے حق میں تری دعا

طائف کا سارا واقعہ خاصان نعت ہے


سجدہ طویل کرکے نواسے کے واسطے

سب کو دکھادیا کہ یہ ریحان نعت ہے


یاد رسول پاک سے دل میں گداز ہے

آنکھوں سے اشک برسے ہیں، امکان نعت ہے


انعام خاص ہے مری "انعام فاطمہ"

مالک کا یہ کرم بھی تو احسانِ نعت ہے


اپنا تو ہر سخن ہے ثنائے رسول پاک

ہر جا پہ اپنے ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے


تجھ پہ کرم حبیب کا " اے جان مرتضی"

گھر میں تمہارے مہکا گلستانِ نعت ہے


مشکل گھڑی سے مجھ کو بچاتا ہے تیرا ذکر

فرخ رضا کے ہاتھ میں دامانِ نعت ہے


  • بیٹی کا نام
فہیم رحمان آزر، سمندری، پاکستان

ہم شاعروں پہ کس قدر احسانِ نعت ہے

طبع آزما جو آج پھر ایوانِ نعت ہے


ارفع سخن طراز بھی پہنچے نہ میم تک

اللہ کا کلام ہی شایانِ نعت ہے


پائے گا اِس سے دل مرا دوہری حلاوتیں

اک سلسلہ درود کا دورانِ نعت ہے


حدِ نگہ ہیں گلستاں اور گلستاں میں پھول

کتنا وسیع خیر سے میدانِ نعت ہے


مظہر ہیں تیرے نور کا عالم کی رونقیں

شمس و قمر کی روشنی عرفانِ نعت ہے


اُن کے کرم کا دائرہ محدود تو نہیں

"ہر شعبہء حیات میں امکانِ نعت ہے"


محشر میں جب سوال ہو، کچھ ہے تمہارے پاس؟

تب میں کہوں کہ ہاں مرا دیوانِ نعت ہے


لمحہ بہ لمحہ ہوتی ہے مدحت حضور کی

آذرؔ ہمارا حلقہ دبستانِ نعت ہے

فیصل قادری گنوری، گنور، بھارت

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

طرزِ بیان آ گیا احسانِ نعت ہے

مجھ میں شعورِ مدح بہ فیضانِ نعت ہے


میرے شعور و فکر میں گردانِ نعت ہے

در اصل عشقِ شاہِ ہدی جانِ نعت ہے


جب سے خیال ان کا تصور میں بس گیا

افکار کا نزول ہے  ! بارانِ نعت ہے


عشاقِ مصطفی کی تڑپ کی ہیں جھلکیاں

افضل مری نگاہ میں دیوانِ نعت ہے


انساں کی کہا مجال لکھے شانِ مصطفی

خود ربِّ کائنات ثنا خوانِ نعت ہے


ہم عاشقوں کو خوف نہیں روزِ حشر کا

بخشش کے واسطے یہی سامانِ نعت ہے


مداح اس کے جیسا نہیں دوسرا کوئی

حسّان جس کو کہتے ہیں سلطانِ نعت ہے


یہ ساری کائنات سما جائے گی میاں

اتنا وسیع حلقہِ دالانِ نعت ہے


خطرہ کوئی نہیں ہمیں خورشیدِ حشر کا

سر پر ہمارے سایہِ دامانِ نعت ہے


طرزِ سخن سے جس کو ذرا بھی ہے آگہی

پھر اس کے دل میں حسرت و ارمانِ نعت ہے


مدحت میں ان کی رب نے اتارا کلامِ پاک

فیصؔل بیان کیسے ہو کیا شانِ نعت ہے


فیصؔل قادری گنوری

کوثر سعیدی , ملتان، پاکستان

شاعر : راجا کوثر علی

بشکریہ : مرزا حفیظ اوج

غارِ حرا تو مرکزِ دیوانِ نعت ہے

ہر حرف جو عطا ہے وہ شایانِ نعت ہے


ممکن نہیں کہ اس کا احاطہ کرے کوئی

عشق رسول پاک جو دوران نعت ہے۔


اے وجہ ممکنات فقط آپکے طفیل

"ہر شعبہء حیات میں امکان نعت ہے"


اصناف اور بھی ہیں ادب میں تو معتبر

صد شکر کہ شعور پہ باران نعت ہے


اے کاش مدح حضرت ِ جامی سی ہو عطا

کوثر کے دل میں ایک ہی ارمان نعت ہے

کوثر علی, فیصل آباد ]

بشکریہ : ریاض قادری، فیصل آباد

یہ آپ کا کرم ہے جومیلان نعت ہے

لیتے ہیں جس سے آپ کا وہ خوان نعت ہے


طیبہ میں کیا حکومت شاہان نعت ہے

ہر سمت اک ہجوم گدایان نعت ہے


حسان و کعب و ابن رواحہ یہاں پہ ہیں

منبر کے پاس جوش کریمان نعت ہے


جنت کی اتنی بار بشارت اسے ملی

اپنا امام نعت تو حسان نعت ہے


رکتی نہیں ہے مدح کبھی آنحضور کی

ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے


ان کی ہر ایک ایک دعا میں شریک ہے

دل شامل گروہ شریفان نعت ہے


یا رب نبی کی نعت اک ایسی نصیب ہو

میں جس کو کہ سکوں کہ یہ شایان نعت ہے


کچھ حسرتیں ہیں آنسو ہیں دوری کے رنج و غم

اک عمرہوگئ یہی سامان نعت ہے


پریشاں اتر رہی ہیں ثناءے حبیب کی

اوج خیال کوہ سلیمان نعت ہے


دامن بھرا ہو اہے عطاءے رسول سے

کافی ہمیں تو بس یہی دامان نعت ہے


پڑتی نہیں کبھی بھی کسی چیزکی کمی

فیضان نعت سا کوئی فیضان نعت ہے


ہر رنگ کے ہیں پھول کھلے میرے شہر میں

یہ شہر نعت ہے کہ گلستان نعت ہے


اللہ کرے یہ نامہ اعمال ہو مرا

میرے جو ہاتھ میں مراد یوان نعت ہے


ہوتا ہے سینہ چاک ثناءے حبیب سے

کوثر ہمارا چاک گریبان نعت ہے ۔

گل رابیل، پاکستان

تسکینِ روح کے لئے سامانِ نعت ہے

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے


میرے نبی کا پہلا ثنا خواں ہے میرا رب

قرآن سب سے پہلا تُو دیوانِ نعت ہے


ذکرِ رسولِ پاک ہی ہوتا ہے جا بجا

ہر آئینے کے رخ پہ ضیا بانِ نعت ہے


خوشبو ہے ذہن میں مری سانسیں ہیں عطر بیز

گردِ مشام بوئے گلستانِ نعت ہے


زیور ٹٹولتی ہوں نہ زر ڈھونڈھتی ہوں میں

دل کو تو میرے ہر گھڑی ارمانِ نعت ہے


پڑھ کر تو دیکھئے ذرا نعتیں رسول کی

کس طرح جاری آج بھی فیضانِ نعت ہے


سجتی ہیں میرے قلب میں نعتوں کی محفلیں

رابیل دل یہ دل نہیں ایوانِ نعت ہے

لیاقت علی عاصم،کراچی

اسمِ رسولِ پاک کا عنوانِ نعت ہے

عنوانِ نعت ہی نہیں دیوانِ نعت ہے


اے اسپِ تیز شان رقم دیکھ ہوشیار

یہ عرصہِ غزل نہیں میدانِ نعت ہے


جائز نہیں ہے اعلٰی و ادنٰی کی اصطلاح

ہم لکھنے والوں پر یہی فیضانِ نعت ہے


دنیا کی دھوپ دل کو برے چُھو نہ پائے گی

قالب پر میرے سایہِ دامانِ نعت ہے


عصرِ رواں ہو یا کہ وہ عہدِ گزشتہ ہو

اس کا غلام ہوں جو سلطانِ نعت ہے


نقاد تھام لے کہ کوئی نکتہ دانِ شعر

ہموار سب کے ہاتھ میں میزانِ نعت ہے


دراصل نعت خواں ہے موذٌِن کہیں جسے

یعنی اذان بھی کوئ اعلان ِ نعت ہے

مجاہد علی، لاہور

میں اور مرے حروف کی قیمت نہیں حضور

ربِّ جہاں ہی ربِّ دبستانِ نعت ہے


اِس راستے پہ عقل نہیں عشق چاہئیے

اے دل ذرا سنبھل کہ یہ میدان ِ نعت ہے

مسعود ساموں، بانڈی پورہ، کشمیر ، انڈیا

حسن خیال سلسلہ جنبان نعت ہے

اک سلسلۂ نور بدامان نعت ہے


اسوہ جنابؐ کا جو حسن ہے تو لازماً

’’ہر شعبۂ حیات میں امکان نعت ہے‘‘


ہاں اے سمند شوق سنبھل کر قدم بڑھا

آساں نہیں یہ جادۂ پیچان نعت ہے


ہشیار خامہ! سجدے میں لغزش کوئی نہ ہو

ہاں چل کشاں کشاں یہ خیابان نعت ہے


ملحوظ انتہاے ادب رکھ جنابؐ میں

شان نبیؐ کا ذکر ہے ایوان نعت ہے


نیچی نگہ خمیدہ بدن چشم باوضو

لرزیدہ جاں ہو ہاں یہی شایان نعت ہے


ساموںؔ ثنا کے پھول عقیدت کی پتّیاں

پاے نبیؐ میں رکھ یہی سامان نعت ہے

بشکریہ : غلام فرید واصل

مظہر حسین مظہر، میلسی

تازہ ہر ایک دور میں عنوان نعت ہے

"ہر شعبۂ حیات میں امکان نعت ہے"


الفاظ کی گرفت میں آتا نہیں کبھی

شاعر پہ وجدو کیف جو دوران نعت ہے


گم کردہ حواس ہیں رومی و بایزید

اے عشق احتیاط یہ میزان نعت ہے


امروز بھی "حدائق بخشش" کے روپ میں

روشن جہاں میں شمع شبستان نعت ہے


'نہج البلاغہ' شرح فرامین مصطفے

قرآن بھی حضور کا دیوان نعت ہے


اقبال ہو حفيظ ہو محسن ہو یا حسن

ہر ایک اپنے دور کا حسان نعت ہے


کیوں کر نہ مشکبار ہو گلدستہ حروف

مہکا خیال و فکر میں بستان نعت ہے


ہر خوشہ خیال بھرا ہے درود سے

جب سے قلم کو ہوگیا عرفان نعت ہے


اے فکر پھونک پھونک کے رکھنا یہاں قدم

ایوان نعت ہے یہ دبستان نعت ہے


اے کاش ان کی شان کے شایان لکھ سکے

مظہر وجود عشق میں ارمان نعت ہے

ندیم نوری برکاتی، ممبئی، انڈیا

اک بے ہنر ہے اور قلمدانِ نعت ہے

سرکار وہ لکھائیں جو شایانِ نعت ہے


انکی تو ذاتِ پاک ہے سر چشمۂ کمال

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


آداب عشق عاجزی سیرت و معجزات

ملحوظ رکھئے اس کو یہی جانِ نعت ہے


شکرِ خدا کہ زیست رہی ہے غزل سے دور

میری متاعِ زندگی قربانِ نعت ہے


اک نگہِ التفات ہو مجھ سے فقیر پر

آقا حضور مچھ کو بھی ارمانِ نعت ہے


احسان آپ کا ہے کرم آپ کا حضور

ورنہ کہاں گنوار کو عرفانِ نعت ہے


دل بے قرار, دیدۂ تر , وردِ لب درود

کیا کیف کیا سرور سا دورانِ نعت ہے


عزت بھری نگاہ سے تکتے ہیں مجھ کو لوگ

نوری یہ اور کچھ نہیں فیضانِ نعت ہے

نور آسی، اسلام آباد، پاکستان

نہ حرف و لفظ نہ کوئی سامانِ نعت ہے

خاموش اس لئے ہوں کہ عرفانِ نعت ہے


گو بائیں ہاتھ میں ہے میرے نامہء سیاہ

صد شکر، دائیں ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے


ہر شعبۂ حیات ہو گراُسوہِ رسول ﷺ

"ہر شعبۂ حیات میں امکان نعت ہے"


بقرہ سے لے کے سورہ والناس دیکھ لو

ہرایک حرف اک نیا عنوانِ نعت ہے


بو بکر سے علی تک تو قرنی بلال تک

جو عشقِ بے مثال ہے فیضانِ نعت ہے


جنت میں مجھ کو جانے دیا کہہ کے اتنی بات

اب اس کو کیسے روکیے؟ مہمانِ نعت ہے


پتوں کو ، ٹہنیوں کو ، گلوں کو پرند کو

گلشن میں ایک ایک کو عرفانِ نعت ہے


آسی کی کیا مجال کہ نعت نبی کہے

یہ جو عطا ہوئی ہے وہ احسانِ نعت ہے


شاعر : محمد نور آسی، اسلام آباد

نور الحسن نور نوابی، قاضی پور، انڈیا

اعلان کائنات غلامانِ نعت ہے

حسان جس کا نام ہے سلطانِ نعت ہے


سوچے بغیر ہوتی ہے مدحت رسول کی

ارزاں ہمارے واسطے فیضانِ نعت ہے


عشق رسول پاک کی صورت میں دوستو!

بیٹھا درِ خیال پہ دربانِ نعت ہے


عشق رسول شہر نبی کی جمالیات

حاصل خدا کے فضل سے سامانِ نعت ہے


اس کی حدوں میں گرم ہوا کا گزر کہاں

دشت غزل نہیں یہ گلستانِ نعت ہے


سنتی ہیں ذکر سرور دیں جو سماعتیں

ان کی ضیافتوں کے لیے خوانِ نعت ہے


کہنے کو لوگ کہتے ہیں نعتیں بہت مگر

حاصل کسی کسی کو ہی عرفانِ نعت ہے


قسمت کا اس کی لا نہ سکے گا کوئی جواب

جس کے لیے کھلا در ایوانِ نعت ہے


حسان آگے سعدی و جامی ہیں ان کے بعد

اے آنکھ دیکھ وہ صف شاہانِ نعت ہے


ڈرتا نہیں ہوں دھوپ کے تیروں سے اس لیے

حاصل مجھے بھی سایہ دامانِ نعت ہے


ہوجائے یوں تو کام کی ہو میری زندگی

سرکار کہہ دیں یہ مرا دربانِ نعت ہے


ہر شعبۂ حیات ہے آقا سے منسلک

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


غنچے کھلے ہیں مدحت آقا کے ہر طرف

شادابیوں کا آئنہ میدانِ نعت ہے


ہر اک ورق پہ مدحت سرکار ہے رقم

دل عاشق رسول کا دیوانِ نعت ہے


دل کر رہا ہے ضد مرا مضمون کر رقم

در پیش میری فکر کو عنوانِ نعت ہے


خوشبو بسی ہوئی ہے محلے میں دور تک

گھر کے ہر ایک طاق پہ گلدانِ نعت ہے


ابر کرم کے پھول برستے ہیں پے بہ پے

جب سے زباں پہ ذکرِ محبانِ نعت ہے


ہر صنف کی امام ہے نعت شہ امم

یہ افتخار نعت ہے یہ شانِ نعت ہے


کچھ لوگ شب چراغ سمجھتے ہیں کچھ گلاب

رکھا ہماری میز پہ دیوانِ نعت ہے


دیکھا عقیدتوں کی نظر سے تو یہ کھلا

جو شعر بھی ہے نعت کا وہ جانِ نعت ہے


دو چار ساعتوں پہ نہیں منحصر فقط

ایک ایک سانس نور کی قربانِ نعت ہے

واحد نظیر، دہلی

معیار ہے اصول ہے میزانِ نعت ہے

قرآن خضرِ راہ اے یارانِ نعت ہے


لوح و قلم کے خالق و مالک ہے یہ دعا

لہجہ ہو وہ نصیب جو شایانِ نعت ہے


اپنی زبان جلتی ہے غیروں کی مدح سے

پونجی مرے خمیر کی میلانِ نعت ہے


مرکز میں غور و فکر کے دائم ہو وجہِ کن

یہ محورِ عناصر و ارکانِ نعت ہے


سب ہے نبی کے صدقے میں، کہنے کی بات کیا

ہر شعبئہ حیات میں امکانِ نعت ہے


لائق تھی سرزنش کے یہ انعام پا گئی

صنفِ سخن پہ دائمی احسانِ نعت ہے


علم و ہنر سے شعر تو ہو جاتے ہیں مگر

واحد نظیر عشقِ نبی جانِ نعت ہے


وسیم عباس، لاہور، پاکستان

صحنِ بتول بُوئے گلستانِ نعت ہے

چودہ کا نور زینتِ گلدانِ نعت ہے


ٹھوکر نہیں لگی کبھی بھٹکا نہیں ہوں میں

جس دن سے میرے ہاتھ میں دامانِ نعت ہے


ملتا نہ کیسےدہر میں اس صنف کو فروغ

صاحب! پدر علیؑ کا نگہبانِ نعت ہے


"آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں "

شہرِ سخن میں مجھ پہ یہ فیضانِ نعت ہے


دیکھیں جو دل سے بغض کی مٹی کو جھاڑ کر

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


بھولے نہ آدمی کبھی من کنت کا پیام

یہ آگہی ہے نعت کی عرفانِ نعت ہے


مجھ پر بھی اتنا لطف و کرم کیجئے حضورﷺ

میں کہہ سکوں کہ میرا بھی دیوانِ نعت ہے


اسرارِ کائنات ہیں مجھ پر کھُلے ہوئے

وہ اس لئے کہ دل مرا شعیانِ نعت ہے

وقار احمد وقار ، لاہور

لگتا کلام رَب کا یہ عنوانِ نعت ہے

قرآن رَب کا رَب کی قسم شانِ نعت ہے


کچھ بہکنے کا مجھ کو یہاں غم نہیں رَہا

تھاما خیال نے مرے دامانِ نعت ہے


نعتوں کا سلسلہ نہیں رُکنے ہے والا یہ

اعلان اُس جہاں کا بھی اعلانِ نعت ہے


محوِ درود رَب ہے فرشتے بھی ساتھ ہیں

گویا کہ ہر گھڑی یہاں فیضانِ نعت ہے


گوشہ درود اِک میں نے لاہور دیکھا ہے

ہر بیٹھا جس میں شخص ہی قربانِ نعت ہے


خاور ؔ نے سچ کہا مجھے ہے نعت کی قسم

ہر شعبہء حیات میں امکانِ نعت ہے


منزل تلک سفر میں کفایت کرے گا یہ

جو توشہ ء وقار میں سامانِ نعت ہے

وقار احمد نوری ، کرناٹک، بھارت

بشکریہ : غلام جیلانی سحر


بخشش کا میرے پاس بھی سامانِ نعت ہے

جنت سے بڑھ کے مجھ کو شبستانِ نعت ہے


بو بکر ہوں عمر ہوں غنی ہوں کہ ہوں علی

اِن میں ہر ایک صاحبِ عرفانِ نعت ہے


عشقِ رسولِ پاک کا فیضان ہی تو ہے

سینے میں جلوہ بار جو ایمانِ نعت ہے


اپنی جبینِ ناز کو ان کے حضور رکھ

تسکینِ روح و قلب ہے ذیشانِ نعت ہے


کُل کائنات چھان کے جبریل نے کہا

,,ہر شعبہِ حیات میں امکانِ نعت ہے,,


عشقِ نبی کی آنکھ سے قرآن پڑھ کے دیکھ

مدحِ رسولِ پاک ہی وجدانِ نعت ہے


شعر و سخن کے باب میں جو کچھ بھی ہے وقار

سب ہے عطا رسول کی, فیضانِ نعت ہے


وقار احمد نوری, کرناٹک, بھارت