"تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 114: سطر 114:




منقبت در شانِ حضور سید الشہداء ،  راکبِ دوشِ مصطفىٰ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ  
منقبت بحضور جگر گوشہء بتول، سید الشہداء، راکبِ دوشِ مصطفی سیدنا امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ  


سرکار کی ہیں جان جگر گوشہء بتول


مولیٰ علی کی شان جگر گوشہء بتول


خیامِ حق میں سجی انجمن حسین سے ہے


رحمت کے سائبان جگر گوشہء بتول
یزیدیوں کے دلوں میں چبھن حسین سے ہے


ہیں سب پہ مہربان جگر گوشہ ء بتول


اساسِ الفتِ شاہِ زمن حسین سے ہے


اسلام کے اساس کو قربانی سے تری
رضائے رب کا مرے پاس دھن حسین سے ہے


حاصل ہے عز و شان  جگر گوشہء بتول


مدینہ اور نجف کے علاوہ کربل میں


میدان کربلا سے یہی آتی ہے صدا
ہمارے طائرِ دل کا وطن حسین سے ہے


حق کے ہیں پاسبان جگر گوشہء بتول


کمالِ صبر بہتر مہ و نجوم کے ساتھ


خونِ جگر کی تیرے سنچائی سے دین کا
جہانِ عشق میں جلوہ فگن حسین سے ہے


تازہ ہے بوستان جگر گوشہء بتول


سناں کی نوک پہ آیاتِ کبریا سن کر


آل ِ نبی کے غم میں سناتی ہے چشم تر
عدو کا حوصلہ زیرِ کفن حسین سے ہے


کربل کی داستان جگر گوشہء بتول


مقامِ بوسہء سرکار چومنے کے لیے


خم  کرکے خود کو ہوتے ہیں سب سرخرو جہاں
فرات پیکرِ رنج و محن حسین سے ہے


عظمت کا وہ نشان جگر گوشۂ بتول


نہ دیکھ پیرہنِ شوق اپنا حسرت سے


ناموس دين كے ليے قربان آج بهى
کہ ہر کسی کا رفو، پیرہن حسین سے ہے


ہے تیرا خاندان جگر گوشہء بتول


جہاں اہانتِ دیں کے غبار اڑتے تھے


"فردوس" کو سلیقہ ملے تیری مدح کا
وہاں پہ بحرِ وفا موجزن حسین سے ہے


اے رب کے مدح خوان جگر  گوشہء بتول


از۔ فردوس فاطمہ اشرفی بھاگلپوری الہند
جفا پرستوں کی آندھی میں آج بھی فردوس
 
چراغِ دین میں روشن کرن حسین سے ہے
 
از۔ فردوس فاطمہ اشرفی

نسخہ بمطابق 11:50، 10 ستمبر 2019ء

اوپر ترمیم کا بٹن دبائیں اور اپنا نام، شہر اور کلام سب سے نیچے پیش کر کے ڈاکومنٹ کو محفوظ کر دیں درج ذیل باتوں کا خیال رکھیے

  • ہر دو مصرعوں میں ایک بار انٹر دبا کر فاصلہ دیں
  • ہر شعر کے بعد دو بار انٹر دبا کر دگنا فاصلہ دیں

اپنا کلام اس سطر کے نیچے پیش کریں


صفدر جعفری، لاہور

سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین

کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد


کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا

مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے

مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں

اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی

مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی

دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد


صفدر جعفری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محمد خالد ، بشکریہ انحراف

راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی ! ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی ! کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟ بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی ! دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی ! کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !



Sanwerj Hashmi Sanwerj Hashmi نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت



Farhat Zehra سلام بحضور امام عالی مقام نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے


منقبت بحضور جگر گوشہء بتول، سید الشہداء، راکبِ دوشِ مصطفی سیدنا امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ


خیامِ حق میں سجی انجمن حسین سے ہے

یزیدیوں کے دلوں میں چبھن حسین سے ہے


اساسِ الفتِ شاہِ زمن حسین سے ہے

رضائے رب کا مرے پاس دھن حسین سے ہے


مدینہ اور نجف کے علاوہ کربل میں

ہمارے طائرِ دل کا وطن حسین سے ہے


کمالِ صبر بہتر مہ و نجوم کے ساتھ

جہانِ عشق میں جلوہ فگن حسین سے ہے


سناں کی نوک پہ آیاتِ کبریا سن کر

عدو کا حوصلہ زیرِ کفن حسین سے ہے


مقامِ بوسہء سرکار چومنے کے لیے

فرات پیکرِ رنج و محن حسین سے ہے


نہ دیکھ پیرہنِ شوق اپنا حسرت سے

کہ ہر کسی کا رفو، پیرہن حسین سے ہے


جہاں اہانتِ دیں کے غبار اڑتے تھے 

وہاں پہ بحرِ وفا موجزن حسین سے ہے


جفا پرستوں کی آندھی میں آج بھی فردوس

چراغِ دین میں روشن کرن حسین سے ہے

از۔ فردوس فاطمہ اشرفی