تبادلۂ خیال:سرور حسین نقشبندی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دسمبر کی خاموش رات میں خود پرکمبل اور گود میں لیپ ٹاپ لیے مزے سے "انحراف" میں پیش کردہ خاکوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے آکرگویا ہوا ۔ " میرا خاکہ کھیچنیے" ارے بھائی کیا خاکہ کچھینچوں؟ کون ہو تم ؟ اور تمہیں کس نے کہہ دیا کہ میں خاکہ نگار ہوں؟ خاکہ کھنچوانا ہے تو سلمان باسط کے پاس جاو اور اگرزیادہ شہرت چاہو تو فرحانہ صادق کے پاس چلے جاو ۔ ابھی معراج رسول کے خاکے سے علم ہوا کہ اسے افسانے پر ٹیل فلم کے لاکھوں ویورز ہیں ۔ وہ تمہارا خاکہ لکھیں گی تو چلو لاکھوں نہیں تو ہزاروں تو ویورز تو ہوں گے ۔۔ میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟ میں نے گویا جان چھڑانے کی کوشش کی ۔ لیکن شاید یہ بہت آسان نہ تھا ۔ "آپ بھی تو انحراف کے ایونٹس میں انٹ شنٹ کوششیں کرتے رہتے ہو ۔ تو آج کیوں نہیں ؟" اس کی بات پر دل آگیا ۔ اچھا چلو ٹھیک ہے ۔ لکھتے ہیں تمہارا خاکہ ۔ کون ہو تم ؟ میں نے پوچھا ۔ جواب آیا " خاکہ" ۔ ارے ہائیں۔ "خاکہ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔ وہ بولا ۔ "جی ہاں ۔ میں خاکہ ہوں" ۔ "تو بھائی چاہتے کیا ہو " میں نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا ۔ جواب آیا ۔ اپنا خاکہ " ہممم ۔ ایک گھمبیر سانس میرے سینے سے نکلی۔ "یعنی خاکے کا خاکہ" ۔

سوچا اس ممدوح پر بھلا کیا لکھوں؟ خیال تھا کہ بیل منڈھے چڑھنے والا نہیں ۔ گوگل کیا تو پہلے ہی تلاش میں "خاکے" کا چہرہ روشن اور وجود ایسا تنومند نظر آیا کہ خاکہ لکھنا ضروری ہوگیا۔ سو فیس بک پر خاکے کے بارے ایک پوسٹ کا "خاکہ " اٹھانے کے لیے کمر باندھ لی ۔ خاکے کا خمیر انگریزی ادب سے اٹھایا گیا اور کہا جاتا ہے کہ محمد حسین آزاد نامی کوزہ گرنے " آب حیات" سے اس کو ابتدائی خدو خال دیے ۔ ہوا یوں کہ "محمد حسین آزاد" کا دل چاہا کہ معروف شعراء کو لفظوں کے پیکر میں اس خوبی سے ڈھالا جائے کہ وہ تحریر میں چلتے پھرتے نظر آئیں تو انہیں نے "خاکہ نگاری " کا سانچہ استعمال کیا ۔ محمد حسین کا یہ سانچہ ایسا کامیاب ہوا کہ اردو میں میرے ممدوح "خاکے" کے قدم جم گئے۔دنیائے اردو جیسے اس راس آگئی ۔ کبھی یہاں تو کبھی ۔ کسی جگہ سے منہ سجھا کر باہر آیا اور کسی ہنرور کےقلمدان سے ایسا سج سنور کے نکلا کہ چمک دمک مدتوں یاد رہی ۔ ایک بار "فرحت اللہ بیگ " نے موصوف کو "دہلی کے یاد گار مشاعرے" کی شکل میں کیا پیش کیا یہ تو اردو کی ایک باقاعدہ صنف ہو کر بیٹھ گیا۔ ۔ فرحت اللہ بیگ کے بعد "خاکہ" ﺭﺷﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺪﯾﻘﯽ ‘ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ‘ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺣﺴﻦ ﻧﻈﺎﻣﯽ ‘ ﺁﻏﺎ ﺣﯿﺪﺭ ﺣﺴﻦ ﺷﺎﮨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺩﮨﻠﻮﯼ ‘ ﺍﺷﺮﻑ ﺳﺒﻮﺣﯽ ‘ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﺳﻨﮕﮫ ﻣﻔﺘﻮﻥ ‘ ﺟﻮﺵ ﻣﻠﯿﺢ ﺁﺑﺎﺩﯼ ‘ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﻔﯿﻊ ‘ ﻣﺮﺯﺍ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﯿﮓ ‘ ﻣﺎﻟﮏ ﺭﺍﻡ ‘ ﻣﻨﭩﻮ ‘ ﻋﺼﻤﺖ ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ ‘ ﺷﻮﮐﺖ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ‘ ﻣﺤﻤﺪ ﻃﻔﯿﻞ ‘ ﺳﯿﺪ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﻨﮭﯿﺎ ﻻﻝ ﮐﭙﻮﺭ ‘ ﺷﻮﺭﺵ ﮐﺎ ﺷﻤﯿﺮﯼ ‘ ﻓﺮﺣﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺭﯼ ‘ ﻓﮑﺮ ﺗﻮﻧﺴﻮﯼ ‘ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﯿﺲ ﻗﺪﻭﺍﺋﯽ ‘ ﻗﺮﮦ ﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﯿﺪﺭ ‘ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺣﺴﯿﻦ ‘ ﻣﺠﺘﺒﯽٰ ﺣﺴﯿﻦ ‘ ﺳﯿﺪ ﺿﻤﯿﺮ ﺣﺴﻦ ‘ ﭼﺮﺍﻍ ﺣﺴﻦ ﺣﺴﺮﺕ ‘ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻏﻼ ﻡ ﺍﻟﺴﯿﺪﯾﻦ ‘ ﺳﯿﺪ ﺻﺒﺎﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ‘ ﺑﯿﮕﻢ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﻋﺎﺑﺪ ﺣﺴﯿﻦ ‘ ﻣﺠﯿﺪ ﻻﮨﻮﺭﯼ ‘ ﻋﻠﯽ ﺟﻮﺍﺩ ﺯﯾﺪﯼ ‘ ﺑﯿﺪﯼ ﮐﺮﺷﻦ ﭼﻨﺪﺭ ‘ ﻅ۔ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ‘ ﺑﻠﻮﻧﺖ ﺳﻨﮕﮫ ﻭﻏﯿﺮﮦ کے قرطا س و قلم کا ہم نشین رہا ۔ کئی معرکے سر ہوئے ۔ ۔ اس نے کنایوں میں کہانیاں سنانے کا رواج ڈالا ۔۔ خاکہ اپنے ممدوحین کی ایسی صفات بھی بیان کرتا رہا جن سے وہ خود بھی نا آشنا تھے ۔ کردار کسوٹی پر پرکھتا اور افکار چھلنی میں چھلتا گیا ۔ یہ اس وقت ایک شان سے مسکراتا رہا جب کسی بھی ممدوح کا ساغر نہ کمی سے تشنہ رہا نہ بیشی سے چھلکا۔ اس حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق کا مزاج اسے خوب بھایا آیا ۔ ان کی معیتی میں خوب سنورا ۔ ایسا سنورا کہ آئینہ ہوگیا ۔ ۔مولوی عبد الحق نے اسی "خاکے" کی بدولت 20 جغادریوں کو ان کے چہرے دکھائے جن میں مولانا ظفر علی خان، حالی، محسن الملک اور سرسید احمد خان بھی شامل تھے ۔ مولوی عبدالحق کے ہر ممدوح کو اپنی ذات کا ہر حسن حسن اور ہر عیب عیب نظر آیا ۔ اب تک خاکے کے خال و خد واضح ہو چکے تھے اور اسے سوانح عمری کا "چھوٹو کہا جانے لگا ۔ اگر آج کی زبان میں کہیں تو سوانح عمری کا "ساشے" ۔ آج جب پانچ روزہ میچ دو گھنٹوں کے ٹی ٹین تک سمٹ آیا ہے تو سوانح عمری سے خاکے پر کیسی حیرت ؟ اگرچہ خاکے میں سوانح عمری کی طرح زندگی کے بیشتر واقعات تو نہیں بلکہ کچھ ایسی صفات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ممدوح چلتا پھرتا نظر آئے لیکن سوانح عمری ہی کی طرح اس میں بھی کبھی کسی کی توصیف ہوتی ہے اور کبھی ٹانگ کھینچی جاتی ہے ۔ یہی اس کے ساتھ انحراف پر ہورہا ہے ۔ ایسے میں اگر قسمت یاوری کرے اور یہ کسی مشاق لکھاری کے ہاتھ لگ جائے تو وہ مہارت سے ایسے الفاظ اور جملے سینچتا ہے کہ "خاکہ" خاکہ ہونے باوجود ہزار رنگ لیے ہوتا ہے اور اگر بدقسمتی سے کسی مجھ جیسے نو مشقے کے ہاتھ لگ جائے تو خاکے سے خاکہ کیا خاک بھی ہاتھ نہیں آتی ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ دیکھیے ذرا آپ کے ہاتھ کیا آیا ؟