تبادلۂ خیال:ریاض مجید

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 12:14، 5 دسمبر 2017ء از ابو الحسن خاور (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: ==== تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا ==== تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا عبث ہے ڈھونڈنا جس طرح آ...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا

تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا

عبث ہے ڈھونڈنا جس طرح آدم کے اب وجد کا


سکھائے صبح’کن‘ ، اﷲ نے اسمأ جب آدم کو

سکھایا سب سے پہلے اسم‘ آدم کو محمدؐ کا


قیامت تک کے اَسرارِ رسالت اس کو سمجھائے

بتایا بھید اُسے ختمِ رَسل کے قامت و قد کا


کوئی گِن ہی نہیں سکتا ‘ کوئی لکھ بھی نہیں سکتا

بھرم کھولا ترے اوصاف نے اعداد و ابجد کا


غلام ’اس کے کروڑوں ہر زمیں پر‘ ہر زمانے میں

نہیں موجود و امکاں میں کوئی ثانی محمدؐ کا


علامت ہے یہ تیرے آستاں بو سی کی خواہش کی

تری چوکھٹ کو جھک جھک دیکھنا چرخِ زبر جد کا


ہزاروں سال کی دُوری کی خندق پاٹ جاتا ہے

نبیؐ کے لمسِ لب کا قرب آور بوسہ اسود کا


نہیں ہے بال بھر نظمِ دو عالم میں خلا کوئی

مکاں ہو یا زماں صدقہ ہے اک میم مشددؐ کا


جو کچھ بھی ہے‘ جہاں پر بھی ہے ‘موجودات و امکاں میں

تشکّر مست تیری رحمتِ بے حصرو بے حد کا


نبّوت طے اَزل سے تھی ‘ تری مابعدِ محشر بھی

کوئی کس طرح ہو سکتا ہے وارث تیری مسند کا


کشش آور خیال اُن کا ہے ایسے نعت گوئی میں

گماں ہر کوششِ آورد پر ہوتا ہے آمد کا


طلوع نعت کا آغاز اس سدرہ سے ہوتا ہے

جہاں ہے خاتمہ امکانِ فن کی آخری حد کا


پیالہ با پیالہ متصّل قوسین سا املا۔۔۔۔!

زمیں سے عرش تک رحمت نما ہے میم کی شدکا


جہانوں بھر کے قطبینوں میں پھیلی ہے تری رحمت

پیالہ با پیالہ ‘ متصل کونین سی شد کا








کس نے دیکھی ہے انتہائے نعت =

کس نے دیکھی ہے انتہائے نعت

نعت ہی نعت ہے، ورائے نعت


طرز اظہار ‘ خواہ کیسا ہو؟

رُو بہ سیرت رہے فضائے نعت


پورے جذب و حواس و ہوش سے دیکھ

جاگتی آنکھوں خواب نائے نعت


روبرو رہ مواجہ کے ، اپنے

تخلیے کو رکھ آشنائے نعت


کہیں ماقبلِ ’کُن‘ کے نقشے میں تھی

یا ہوئی ’کُن‘ سے ابتدائے نعت

…O…




انتہائے جذب میں اے طبع! مشتاقانہ تر

انتہائے جذب میں اے طبع! مشتاقانہ تر

لب کشا ہو نعت کے سدرہ پہ آزادانہ تر

اے دل تکریم اسلوب! اے دل آداب خُو با خدا فرزانہ باش و با نبیؐ فرزانہ تر

پل صراطِ حشر سے گزریں گے رب کے اذن سے امتّی خاص اُن کے ۔۔۔بے باکانہ تر درّانہ تر

لَے رہے ہشیار تر‘ محتاط تر اظہار کی لاکھ ہو ذوق ثنا، چالاک تر، طرّانہ تر

ہو گئے جو خاک تیرے آستانِ قدس کی زندگی کرتے ہیں وہ سائل بسر، شاہانہ تر

نعت کے موضوع کو ہر صنف کرتی ہے قبول آگے بڑھ کر ایک سے ایک آپ دلدارانہ تر

سیرتِ سرور سے جو نا آشنا ہے وہ ریاض دہر سے بیگانہ ہے مابعد سے بیگانہ تر …O…




نعت شریف لگی تھی خاک جو آدم ’کو‘ سوچتا ہوں کبھی وہ خاکِ خلد تھی یا اس زمیں سے لی گئی تھی

جہاں پہ گنبد خضرا ہے ‘ آج لگتا ہے ازل کی صبح وہ مٹّی یہیں سے کی گئی تھی

وہ روشنی ہُوا تھا جس سے وقت کا آغاز رسول پاک کی روشن جبیں سے لی گئی تھی

حیا جو بانٹی گئی ہے تمام خلقت میں جناب کی نگۂ شرمگیں سے لی گئی تھی

ریاض جِنّہ کی کس طور ہو گی حد بندی اجازت اِس کی حرم کے مکیںؐ سے لی گئی تھی

…O…





نعت شریف ازل میں گوندھا گیا میری خاک میں زرِ نعت زہے رسولؐ ثَنا ‘ اے خوشا پیمبر نعت

ہوائے تازہ ملے تیری خلا سیرت سے ہم اہل حبّ و ولا پر کھلا رہے دریخت

اڑان ہے ملکوتی فضاؤں میں اس کی پہرے ہے سدرہ فن سے کشاد شِہپر نعت

کریم تیرے کرم سے بعید کیا جو میری فضائے قبر میں دن رات مہکے عنبرِ نعت

زمیں بقیع کی تدفین کو ملے مولا! لحد میں سایہ نشاں ہو کفن بہ چادر نعت

لبوں کو تر کئے رکھّے نمی دردوں کی ہو دمِ نزع میں میرے نصیب کوثر نعت

ہو پل صراط کو میزان ‘ اون مولا سے مرے قریب ہو ہر مرحلے پہ سرور نعت


نہ مصرع کوئی منافی ہو گفتہ حق کے قدم قدم پہ ہوں قران میرا رہبر نعت

رہے انہی دو کناروں میں نعت کا دریا ہو تیری سیرت کردار میرا محور نعت

عطا ہو یاد مدینہ کی جو درود آثار ہے اک حوالے سے وہ خامشی بھی منظر نعت

جب آئے وقت حساب و کتاب اس ساعت چمک اٹھے مری فرد عمل میں اختر نعت

میں نعت پیشہ ‘ ثنا کیش‘ مدح برورد یونہی رہوں سدا مصروف کار برسر نعت

جو دیکھا فکر میں تاریخ کی ریاض کو عرف تو بولا ہائفِ غیبی ’چراغ منبر نعت‘

…O…





نعت شریف کرتا ہے میرے گھر کو سر افراز نعت سے ہونا طلوعِ فجر کا آغاز نعت سے

گر اس کی حبّ اطاعت نژاد ہو خاکی ملائکہ کا ہم آواز نعت سے

خود مجھ کو بھی خبر نہیں الفاظ وطن میں جن حیرتوں کا ہوتا ہے در باز نعت سے

خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا‘ جس طرح جذبے ہوئے ہیں معجزہ انداز نعت سے

اک نسبت عظیم ہے رہبر قدم قدم جو ہر مرا ہوا ثنا ساز نعت سے

…………………………… ……………………………

اﷲ کا کرم ہے یہ سرکارؐ کی عطا جو بھی ریاض کو ملا اعزازَ نعت سے

…O…



نعت شریف نظر کے سامنے اُن کا حرم ہے مرے مولا! ترا کتنا کرم ہے؟

وہاں کی حاضری بھی ہے حضوری مدینے کا ہر اک پل محترم ہے

تو ماں سے بڑھ کے شفقت کرنے والا مری جنت ترے زیر قدم ہے

تیری امّت سے ہوں ‘ ہے باز اس پر تیری رحمت ہے یہ تیرا کرم ہے

سلام اُن کے لئے لب پر ہمیشہ درود پاک دل میں … ہے

دعا قبول ہونے کی نشانی مبارک ہو تجھے جو آنکھ نم ہے

ملا ہے نعت گوئی کا جو منصب ریاض اپنا یہ کیا اعزاز کم ہے …O…


نعت شریف لکھا ہُوا ہو‘ ہر اک اہل نعت کا مقبول رسولنا! ہو یہ مقبول، ربناّ! مقبول

کسی بھی رُخ سے نہ رَد ہو کبھی یہ خیر کا ورد درود ایسی عبادت ہے، ہو سدا مقبول

کسی بھی نعت کا اک شعر کوئی اک مصرع نبیؐ کے صدقے کرے رب مرا لکھا مقبول

ہماری نقل کو دے خاص اصل کا درجہ ہماری لکنتِ لہجہ کو کر شہا! مقبول

ترا ہی اذن و عطا ہے ہنر عقیدت کا تو اپنا اذن پذیرا‘ تُو کر عطا مقبول

ترے ہی اذن و عطا سے ہے ہم جو لکھتے ہیں رحیم! رحم! نہ ہو ان میں کچھ بھی نا مقبول

گواہ پندرہ سو سالوں کے راز یاب اس پر ’’درود پڑھ کے جو مانگو ہو وہ دعا مقبول‘‘

خیال میں جو مواجہ کے سامنے کی ہے وہ عرضداشت ہو پوری، ہو وہ دعا مقبول


ملے نوید کسی شب یہ خوابِ طیبہ میں خوشا نصیب! ہوئی ہے تری ثنا مقبول

نفوسِ قدسیہ تھے برگزیدہ جن کا ریاض سنا گیا، جو کہا، جو کہا، ہوا مقبول

…O…


نعت شریف ہے شب کا نصف‘ سعیٔ نعت سرور کر رہے ہیں ورق‘ گلزار تنہائی منور کر رہے ہیں

جو اُن کو دیکھ کر لکھنی ہیں،ہوں گی کیسی نعتیں؟ وہ نعتیں جن کو جنّت پر مؤخر کر رہے ہیں

تصّور میں مواجہ کی فضا میں معتکف ہیں بظاہر یہ ثنا پیرائی ہم گھر کر رہے ہیں …O…



نعت شریف فوا کہات‘ نہ خُور و قصور میں جنّت ہے اہل حُب کی رضائے غفور میں جنّت

طلب ہے آدم خاکی کی وہ ہی گشتہ جھلکتی ہے جو کبھی لا شعور میں جنّت

قریب آتی ہوئی، غیب میں سمٹتی ہوئی ہے جاں کے جو کہیں نزدیک و دَور میں جنّت

ورائے سدرہ رضایاب کا مگاروں کی ہے منتظر کہیں راہ ظہور میں جنّت

وہ دفن ہوتے ہیں جو نفس مطمئنہ کے ساتھ دکھائی جاتی ہے اُن کو قبور میں جنّت

ریاض جنّہ میں بیٹھے ہوئے یہ سوچتا ہوں ریاض کی قدمین حضور میں جنّت …O…




نعت شریف جالیوں سے پھوٹتے انوار رحمہ سے ملی اشک کو گویائی کی ہمت مواجہ سے ملی

چلتے پھرتے بیٹھتے اٹھتے حضوری جو تھا دل نعت کی تحریک ماحول مدینہ سے ملی

ایک اک لمحہ وہاں کا احترام آموز تھا زیست کو شائستگی آدابِ طیبہ سے ملی

اور کسی بھی یاد پاتی نہ تھیں سانسیں قرار مضطرب جاں کو سکینت یاد روضہ سے ملی

گھر ترا مہکائے رکھے گی سدا تا صبحِ حشر گیلی مٹی جو تجھے بنیاد کعبہ سے ملی

…………………………… سورہ سورہ میں منور آیہ آیہ سے ملی

برادرم رؤف عزیز کو خانہ کعبہ کے اندر جائے اور نفل پڑھنے کی سعادت اس وقت ملی جب حرم کی تعمیر ہو رہی تھی۔





نعت شریف عجز پیرایہ شاعری حلیہ ہے مرا یاد حضرت کے لئے نعت وسیلہ ہے مرا

صحبتیں کرنی حُب آرا میں ثنا خوانوں کی کتنا خوش بخت و مبارک یہ قبیلہ ہے مرا

نادرہ کاری کی خو ہے اثر آثار بہت منفرد لہجہ ہے اور طن وسیلا ہے مرا

شفقت اسلوب روّیے ہوں مقدر اس کا اشتعال آشنا طبقہ جو غصیلا ہے مرا

پیشِ روضہ کا وہ پل روشن ہے ریاض یاد میں گوشہ چشم آج بھی گیلا ہے مرا





نعت شریف احترامات فراواں سے صد و صد مرحبا مرحبا! سرکار کی دنیا میں آمد مرحبا

نام ہی ایسا ہے جو ہے جان تخلیقات کی لب پہ آ جاتا ہے سنتے ہی محمدؐ مرحبا

مصطفیٰ و مجتبیٰ و مرتضیٰ ہے اور کون آپؐ پہ قربان ہم سب کے اک وجد مرحبا

کیسے کیسے ناموں سے قران انہیں کرتا ہے یاد شاہد و مزمل و یسٰین و احمد مرحبا

رب کے اس احسان پر اظہار ہیئت مدام شمار و بے حد و بے حصرد و بے حد مرحبا

اے خوشا! شاداب رکھتا ہے دلوں کو اس کو دھیان ہم پہ رحمت باد ہے وہ سبز گنبد مرحبا

آپؐ نے چوما ہے اس کو اس فضلیت کے سبب ہے کشش آور نہایت سنگ اسود مرحبا


ہے منصب ختم رسالت کا سزاوار اک ہی زیب دیتی ہے فقط اس کو یہ مسند مرحبا

سلسلہ ہائے رسل ، آثار ہائے انبیا ذات میں ہاتے ہیں تیری اپنا مقصد مرحبا


نعت شریف ان پہ کہتے ہیں جن کو محمد درود بے حساب و شمار اور بے حد درود

ہے طلبگار ہر اک مسلمان سے اسم احمد سلام اور محمد درود

سارے اذکار و اشغال میں منفرد معتبر، مفتخر، احسن ، امجد درود

آسماں آشنا عرش آگہہ کرے خاک بے مایہ کا قامت و قد درود

اور کسی ذکر کی تجھ کو حاجت نہیں کرے طے زیست کا تو جو مقصد درود

اس یقین قبولیت سے پڑھو سنن رہے ہیں تمہارا محمد درود

ہیں کچھ ایسے بھی ذاکر، گر اک صد پڑھیں تو ملا تک لکھیں الف ہا صد درود

جن کا دائم وظیفہ ہو صلّ علیٰ مر کے بھی پڑھتے ہیں زیر مرقد درود

ہوتے ہی داخل اس شہر میں زائرا پڑھ نظر آئے جب سبز گنبد درود

کیا قبولیت انجام یہ درود ہے ہے مکمل عبادت مجردّ درود!

کار بند اس کا محفوظ و ناموں رہے بلّیات اور آفات کا در درود

اے ریاض حُب آگاہ مت بولنا ساعتِ بوسہ سنگ اسود درود

اُن کے احساں سے تر آنکھ بھی ارمغاں لفظوں میں ہی نہیں ہے مقید درود

نعت شریف

اذن فرما مرے اﷲ بنا اُس کو شفیع ساری امت کا بنا صلّ علیٰ اس کو شفیع

ملتفت کیسے نہ ان سب ہی وہ رحمت ہوگی دل سے جس جس نے بھی تسلیم کو اُس کو شفیع

خوشہ جس ایک اسی نکل شفاعت کے ہیں ہم ہے شفیع ایک ہی خاص بنا اُس کو شفیع

آبیاری کرے اعمال سے اس پیماں کی جس نے تسلیم کیا، مان لیا اُس کو شفیع

مغفرت خواہ کرم کار شفاعت منصب لوح محفوظ پہ قدرت نے لکھا اُس کو شفیع

جس کے دامان شفاعت کو ہیں سب تھامے ہوئے تو کبھی اﷲ کی سرکار میں لا اس کو شفیع!