تبادلۂ خیال:حدائق بخشش

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی سب سے بالا و والا ہمارا نبی

اپنے مولیٰ کا پیا را ہمارا نبی دونوں عالم کا دولھا ہمارا نبی

بزمِ آخر کا شمع فروزاں ہوا نور اوّل کا جلوہ ہمارا نبی

جس کو شایاں ہے عرش خُدا پر جلوس ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی

بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی

جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیاں سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی

خلق سے اولیا اولیا سے رسل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم وہ ملیحِ دِل آرا ہمارا نبی

ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو نمکیں حسن والا ہمارا نبی

جس کی دو بوند ہیں کوثر و سلسبیل ہے وہ رحمت کا دریا ہمارا نبی

جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی اِن کا اُن کا تمہارا ہمارا نبی

قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی

کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

کیا خبر کتنے تارے کھِلے چھپ گئے پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

ملک کونین میں انبیا تاجدار تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

لامکاں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے ہر مکاں کا اُجالا ہمارا نبی

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے ہے اُس اچھوں سے اچھا ہمارا نبی

انبیا سے کروں عرض کیوں مالکو! کیا نبی ہے تمہارا ہمارا نبی

جس نے ٹکڑے کیے ہیں قمر کے وہ ہے نور وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی

سب چمک والے اجلوں میں چمکا کیے اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی

جس نے مردہ دلوں کو دی عمر ابد ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

غمزدوں کر رضا مژدہ دیجے کہ ہے بیکسوں کا سَہارا ہمارا نبی .......................................................

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا صَدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

باغِ طیبہ میں سُہانا پھول پھولا نور کا مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا

عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا یہ مثمّن بُرج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا

تیرے ہی ماتھے رہا اسے جان سہرا نور کا بخت جاگا نور کا چمکا سِتارا نور کا

میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا نور دن دو نا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا

تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا رُخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا

پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا دیکھیں موسیٰ طور سے اُترا صحیفہ نور کا

تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا

پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا گردِسر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا

شمع دِل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا تیری صورت کے لیے آیا ہے سُورہ نور کا

مَیل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا ہے گلے میں آج تک کو راہی کرتا نور کا

تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا

تو ہے سایہ نورکا ہر عضو ٹکڑا نور کا سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا

کیا بنا نامِ خدا اسرا کا دُولھا نور کا سر پہ سہرا نور کابر میں شہانہ نور کا

بزمِ وحدت میں مزا ہوگا دوبالا نور کا ملنے شمعِ طور سے جاتا ہے اِکّا نور کا

وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترا نہ نور کا دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا

صبح کردی کفر کی سچّا تھا مژدہ نور کا شام ہی سے تھا شبِ تیرہ کو دھڑکا نور کا

پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا سر جھکا اے کشتِ کفر آتا ہے ابلا نور کا

ناریوں کا دَور تھا دل جل رہا تھا نور کا تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجا نور کا

جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا

بھیک لے سرکار سے لا جَلد کاسہ نور کا ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا

شمع ساں ایک ایک پَروانہ ہے اس بانور کا نورِ حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نور کا

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا

نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا

اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا مہر نے چھپ کر کیا خاصا دھند لکا نور کا

تم مقابل تھے تو پہروں چاند بڑھتا نور کا تم سے چھٹ کر منھ نکل آیا ذرا سا نور کا

آنکھ مِل سکتی نہیں دَر پر ہے پہرا نور کا تاب ہے بے حکم پَر مارے پرندہ نور کا

نزع میں لوٹے گا خاکِ در پہ شیدا نور کا مَر کے اوڑھے گی عروسِ جاں دوپٹا نور کا

تابِ مہرِ حشر سے چَونکے نہ کشتہ نورکا بوندیاں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا

وضع واضع میں تِری صورت ہے معنی نور کا یوں مجازاً چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا

انبیا اجزا ہیں تُو بالکل ہے جملہ نور کا اس علاقے سے ہے اُن پر نام سچّا نور کا

یہ جو مہرو مَہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا

تاب ہم سے چَوندھیا کر چاند انھیں قدموں پھرا ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا

چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھِلونا نور کا

کٓ گیسوہٰ دہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ کٓھٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا

اے رضا یہ احمدِ نوری کا فیض نور ہے ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا


اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

اُٹھادو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے

جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشقِ چشم والا کبابِ آہو، میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے

انھیں کی بو مایہٴ سمن ہے انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے

سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلےٰ ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے

وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے

جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوہٴ مُبارک دکھادو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے

کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور! بچالو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے

خدائے قہّار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر بچالو آکر شفیع محشر تمہَارا بندہ عذاب میں ہے

کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے بتاوٴ اے مفلسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے

کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے


واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا

فرش والے تیری شوکت کا عُلو کیا جانیں خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

خوار و بیمار و خطاوار و گنہ گار ہوں میں رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا

میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کردے کہ ہے محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا

تیرے صدقے مجھے اِک بوند بہت ہے تیری جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو

کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی یوں جایئے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو

ایسا گُمادے ان کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو

آ دِل حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو

اے شوقِ دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو

ان کے سوا رضا کوئی حامی نہیں جہاں گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو