تبادلۂ خیال:اسامہ سرسری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

یا پھر وہ چناں ہوں گے، یا پھر وہ چنیں ہوں گے شہکار ہیں خالق کے ، کیا کچھ وہ نہیں ہوں گے چہ طور، چہ زیبائش ، چہ حور، چہ آرائش وہ وجہِ دو عالم ہیں ، وہ کتنے حسیں ہوں گے جو عقل کے دریا ہیں، سب ان کی رعایا ہیں وہ شاہِ ظریفاں ہیں، خود کتنے ذہیں ہوں گے انوار کی محفل کا کچھ حال سنا طیبہ! کیا خوب مکاں ہوگا، چہ خوب مکیں ہوں گے عیسی کی مسیحائی امت میں چلی آئی کس درجہ بلندی پر وہ عرش نشیں ہوں گے ہاں، وصلِ شبِ اسرا کیا خوب حقیقی تھا حق ان کے قریں ہوگا، وہ حق کے قریں ہوں گے برزخ کا بھی کھٹکا ہے ، محشر کا بھی دھڑکا ہے بس ایک تسلی ہے، وہ بھی تو وہیں ہوں گے صلی اللہ علیہ وسلم تشریح یا پھر وہ چناں ہوں گے، یا پھر وہ چنیں ہوں گے شہکار ہیں خالق کے ، کیا کچھ وہ نہیں ہوں گے یہ گزشتہ سے پیوستہ اسلوب ہے، یعنی ”یا پھر“ سے ابتدا کرکے شاعر نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺ کے مبارک تذکرے جو اب تک ہوتے آرہے ہیں ، یہ مطلع انھی سے جڑی ایک نعتیہ کوشش ہے ، لیکن چونکہ اس ہستی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر فضل و کمال عطا کیا ہے کہ ان کے مقام کا مکمل تعین کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے اس نعت کی ابتدا بھی اسی اظہارِ حیرت کے لیے ہے کہ ان کے بارے میں ہم حرف شک ”یا“ کے ذریعے کیسے کسی مقام و مرتبہ کا تعین کرسکتے ہیں ، نہ جانے وہ اور کیا کچھ ہوں گے۔حرف شک کا یہ اظہاریہ شاعر نے آیتِ کریمہ ”فکان قاب قوسین او ادنی“ سے مستعار لے کر اردو کو رونق بخشی ہے۔ مصرع ثانی میں شاعر اپنی بات کو جامعیت دینے کے لیے ایک فیصلہ کن بات پیش کر رہا ہے کہ وہ (ﷺ) بنانے والے کی سب سے بہترین مخلوق اور شاہکار ہے ، اب سوال ہوا کہ بنانے والا احسن الخالقین ہے اور بننے والا احسن المخلوقین ہے ، تسلیم ، یہ بھی تسلیم کہ بنانے والے کی کنہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ، مگر وہ پیارے نبی تو مخلوق ہیں ، ان کے بارے میں تو ہمیں کچھ حتمی طور پر بتایا جائے کہ انھیں کیا کچھ عطا ہوا ہے تو اس کے جواب پر مطلع کا اختتام کیا گیا کہ جب آپ بنانے والے کی لامحدودیت کے قائل ہیں اور یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ انﷺ سے بڑھ کر اس نے کسی کو نہیں بنایا تو اب ہم سوائے اظہارِ حیرت و تعجب کے اور کیا کرسکتے ہیں ، ہم تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ”شہکار ہیں خالق کے ، کیا کچھ وہ نہیں ہوں گے۔“ چہ طور ، چہ زیبائش ، چہ حور ، چہ آرائش وہ وجہِ دو عالم ہیں ، وہ کتنے حسیں ہوں گے اس شعر میں شاعر نے وجہِ کائناتﷺ کے حسن پر کچھ کہنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں اپنے سفر کا آغاز ہی اس مقام سے کیا ہے جہاں سے دونوں عالم (دنیا اور آخرت) نظر آسکتے ہیں ، پھر وہ ان دونوں جہانوں میں انﷺ کے سوا دیگر تمام مخلوقات میں غور کرکے ایک ایک خوب صورت ترین فرد کا چناؤ کرتا ہے ، چنانچہ اِس عالم میں اسے ”طور“ مقام پر سب سے زیادہ رشک آتا ہے کہ اس پر تجلیاتِ ربانیہ کا باقاعدہ ظہور ہوچکا ہے ، پھر ”طور“ کے سوا اور بھی بہت سی خوبصورتیاں نظر آتی ہیں جن پر سوال ”چہ زیبائش“ کہہ کر اٹھایا گیا ہے ، پھر عالمِ آخرت میں اسے نظر آتا ہے کہ خالقِ حسن نے اپنے لازوال کلام کے اندر جنت کی حوروں کا جس خوب صورتی سے تذکرہ کیا ہے وہ قابلِ رشک ہے ، مگر شاعر جنت کی دیگر رعنائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہتا اس لیے ”چہ آرائش“ کہہ کر اپنے شعر کے پہلے مصرع کو مکمل کردیتا ہے ، گویا شاعر نے پہلے مصرع میں دونوں جہانوں کے سارے حسن پر سوالیہ نشان لگادیا کہ ان سب کا حسن ایک طرف ہو اور سرکارﷺ کا حسن ایک طرف تو کیا یہ تقابل بھی سرکارﷺ کے شایانِ شان ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں اور اس کی دلیل اگلے مصرع میں دی کہ تمام مسالک کا اس پر اتفاق ہے کہ سرکارﷺ وجہِ کائنات ہیں ، پہلے مصرع کی مناسبت کا بھرپور خیال کرتے ہوئے شاعر نے ”وجہِ کائنات“ کے بجائے ”وجہِ دو عالم“ کا انتخاب کیا ہے ، نیز ”حسن“ کی مناسبت ”وجہ“ کے ساتھ اظہر من الشمس ہے ، اپنے اس خوب صورت شعر کو جامعیت دینے کے لیے شاعر شعر کا اختتام سوال و تعجب ”وہ کتنے حسین ہوں گے!!“ پر کردیتا ہے۔ اس نعت کے تمام اشعار کے امصراعِ اولیٰ کے اگر دو برابر حصے کیے جائیں تو وہ بھی باہم مقفّٰی ہیں ، علاوہ ازیں اس شعر کے پہلے مصرع میں زیبائش و آرائش کے علاوہ طور اور حور کا بھی خوب صورت صوتیہ اختیار کیا گیا ہے۔ جو عقل کے دریا ہیں ، سب ان کی رعایا ہیں وہ شاہِ ظریفاں ہیں ، خود کتنے ذہیں ہوں گے اس شعر میں شاعر سرکارﷺ کے دیگر کمالات پر گفتگو کرنے کے لیے ”عقل“ کا انتخاب کرتا ہے ، شاعر پہلے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے ، پھر اسے یاد آتا ہے کہ گھوڑوں کا روئے زمین پر سب سے حیران کن منظر یہ ہے کہ انھیں دریاؤں پر دوڑایا گیا ، اس تخیل کی لفظی مناسبت کا خیال کرتے ہوئے شاعر دنیا کے تمام اہل عقل کے لیے ”عقل کے دریا“ کی ترکیب اختیار کرتا ہے ، پھر بے اختیار کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ سب رعایا ہیں جن کے بادشاہ ، سردار ، آقا و مقتدا سرکارﷺ ہیں ، اس کے سامنے ایک نئی ترکیب ”شاہِ ظریفاں“ نعتیہ شعر میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دست بستہ حاضر ہوجاتی ہے ، وہ اسے نعت کے لیے منتخب کرلیتا ہے اور فیصلہ کن انداز میں کوئی بات کہنے کے بجائے یہاں بھی سوال کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ ان کی رعایا کی عقلیات کا احاطہ طاقتِ انسانی سے عادۃً خارج ہے تو خود وہ شاہ و پیشوا ﷺکس قدر خوبیِ ذہانت کے حامل ہوں گے ، یقینا اس سوال کا بھی صحیح تر جواب صرف اور صرف خالقِ عقل و ذہانت ہی کے پاس ہے۔ انوار کی محفل کا کچھ حال سنا طیبہ! کیا خوب مکاں ہوگا ، چہ خوب مکیں ہوں گے شاعر اس شعر میں براہ راست اس مبارک شہر سے مخاطب ہے جسے پہلے شہرِ نبی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ، پھر قرآن کریم کی آیات اترنے کا ، بطور خاص ”وھٰذا البلد الامین“ کا، پھر روضۂ مبارک کا ، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جہدِ مسلسل کا جو سرکارﷺ کے اولین تربیت یافتہ تھے۔ اتنی فضیلتوں والے شہر سے مخاطب ہوکر شاعر درجِ بالا تمام باتیں اس سے پوچھنا چاہتا تھا ، حسبِ دستور شاعر پہلے حال احوال پوچھتا ہے ، حال احوال لینے سے شناسائی میں اضافہ ہوجاتا ہے ، بالخصوص جبکہ کسی سے اس کے عزیز ترین فرد کے احوال دریافت کیے جائیں ، جیسے کسی سے اس کے اہلِ خانہ کی صحت دریافت کی جائے تو اس سے باہمی انسیت دوچند ہوجاتی ہے ، شاعر بھی اسی غرض سے مدینہ طیبہ سے اس کی عزیز ترین ہستی کے انوارات کے احوال دریافت کر رہا ہے ، لفظ ”محفل“ سے جمالیاتِ نعت میں شاعرانہ اسلوب کا تڑکا لگانا مقصود ہے ، مصرع ثانی میں شاعر سوال کچھ اس انداز سے کر رہا ہے کہ وہی سوال جواب کی بھی حیثیت رکھتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر پوری طرح ”شہرِ نبی“ کی والہانہ محبت میں گرفتار ہے، گویا دونوں ایک ہی ہیں کہ قلبِ طیبہ میں جس ہستی ﷺ کا جسم مبارک ہے ، قلبِ شاعر میں اسی مبارک ہستی ﷺ کا ذکر مبارک اور عشق رواں دواں ہے، مصرع ثانی میں جامعیت پیدا کرنے کے لیے شاعر نے مکان اور مکین دونوں کو جمع کردیا ، نیز چونکہ مکان کی خوبی مکین کی وجہ سے ہے اس لیے شاعر نے دو نقطوں والے حرف استفہام ”کیا“ سے مکان کے بارے میں دریافت کیا اور جب مکین کی باری آئی تو سہ نقطی حرف استفہام ”چہ“ کا چناؤ کیا ، نیز اردو اور فارسی کے فرق سے بھی یہ واضح کیا کہ مکین والے سوال کی شیرینی مکان والے سوال کی چاشنی سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ ”فارسی زبانِ شیریں است“ مقولہ مشہور ہے۔ لفظ ”کچھ“ سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر مدینہ طیبہ کو گویائی عطا ہوجائے اور وہ ان احوال کا اظہار بھی کرنے لگ جائے اور بے شمار احوال بتا بھی دے، تب بھی وہ ”کچھ“ ہی ہوں گے کہ نبی انورﷺ کو ”اللہ نور السماوات والارض“ نے معراج کی شب میں اور دیگر مواقع میں کس قدر نوازا ہے؟ اس کا اندازہ کرنے سے اس شعر میں سائل کی طرح مسئول بھی قاصر ہے۔ عیسیٰ کی مسیحائی امت میں چلی آئی کس درجہ بلندی پر وہ عرش نشیں ہوں گے اس شعر میں سرکارﷺ کی عظمت و رفعت کا تذکرہ ہے ، رفعتِ نبی کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو قلبِ مسلم میں دو نبیوں کا خیال ضرور آتا ہے ، ایک کا ذکر” سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ“ میں ہے، جبکہ دوسرے نبی کا ”إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ“ میں ہے ، چنانچہ شاعر ان دونوں پاکیزہ ہستیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ خیال پیش کرتا ہے کہ جس نبی (عیسی علیہ السلام) کو خدائے بزرگ نے رفعت عطا کرکے آسمان پر اٹھایا اسے یہ اعزاز بھی عطا کیا کہ وہ نبی آخر الزمانﷺ کے امتی بن کر پھر دنیا میں اتارے جائیں گے ، ”مسیحائی“ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے وصف خاص کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مصرع اول ذو معنی ہے ، یعنی ایک تو یہی مطلب جو مذکور ہوا اور دوسرا مطلب یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے اس امت کے اولیائے کرام کو بھی ایسی کرامتیں عطا ہوئی ہیں تو جب امتیوں کی رفعت کا یہ حال ہے تو خود نبیﷺ کی رفعت کا کیا ٹھکانا ہوگا جو عرش نشینی کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس شعر میں ”وہ عرش نشیں“ مرکب اشاری ہے ، تاہم اگر ”وہ“ کو الگ مانیں اور ”عرش نشیں ہوں گے“ کو پورا فعل تسلیم کریں تو شعر کی ذومعنویت دوچند ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں، وصلِ شبِ اسرا کیا خوب حقیقی تھا حق ان کے قریں ہوگا ، وہ حق کے قریں ہوں گے اس شعر کا مضمون گزشتہ شعر کا تسلسل بھی ہوسکتا ہے اور مطلع کی طرح گزشتہ سے پیوستہ اسلوب کا حامل بھی کہ بات جب شبِ اسرا و معراج کی ہوتی ہے اور بالخصوص شاعری میں ہوتی ہے جس کا بہترین موضوع وصل و ملاقات ہے تو یہ سوچے بنا ہم رہ نہیں سکتے کہ یہ وصل و ملاقات کس قدر رشک آمیز ہے ، نیز ہر عشق کا محور حسن و خوبی ہے جس کا خالق اصل عشق کا حقدار ہے ، یہی وجہ ہے کہ باقی سب عشقِ مجازی اور یہ عشقِ حقیقی کہلاتا ہے تو اس عشقِ حقیقی میں وصل بھی وصلِ حقیقی کہلائے گا اور وصلِ حقیقی اب تک جس جس کو نصیب ہوا ہے ان سب میں حقیقی ترین وہ وصل تھا جو معراج کی شب میں ”وراء الوراء جل و علا“ اور ”خیر الوری صل علیٰ“ کا ہوا تھا ، مصرع ثانی میں شاعر اسی وصلِ حقیقی کو خوب صورت انداز میں یاد کر رہا ہے ، ”حقیقی“ کی مناسبت سے ”حق“ اور ”وصل“ کی مناسبت سے ”قریں“ کا تلازمہ بتارہا ہے کہ شاعر اپنے شعر کے ایک ایک لفظ کے چناؤ میں بہت محتاط ہے ، یہی وجہ ہے کہ وصل بلکہ وصلِ حقیقی پر کہے گئے اس شعر کا آغاز ہی شاعر نے حرفِ اقرار ”ہاں“ سے کیا ہے۔ برزخ کا بھی کھٹکا ہے ، محشر کا بھی دھڑکا ہے بس ایک تسلی ہے ، وہ بھی تو وہیں ہوں گے مقطع میں عموما شاعر اپنا نام استعمال کرتے ہیں ، اس مناسبت سے شاعر اس مقطع میں اپنے نام کے بجائے اپنی فکر ظاہر کر رہا ہے کہ آپ سرکارﷺ کو تو جو کچھ عطا ہونا تھا ہوچکا ، بلکہ اتنا دیا جارہا ہے اور دیا جائے گا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ، اب رہ گئے ہم امتی تو ہمارے (بطور خاص شاعر کے) پاس نہ باطنی حسن ہے ، نہ دیگر کوئی کمال ، وصول کی تڑپ اور طلب تو ہے ، مگر اس کے بعد تو صرف انتظار ہے ، وصول بعد از مرگ یقینی ہے ، مگر دو منازل ایسی ہیں جہاں بازپرس بھی یقینی ہے ، ایک برزخ اور دوسری محشر ، البتہ اگر کوئی تسلی کی چیز ہے تو وہ وجودِ خیر البشرﷺ ہے کہ برزخ میں آپ کی شبیہ دکھا کر آپ کے بارے میں سوال کیا جائے گا ، گویا دنیا میں آپﷺ کی اتباع کرلی تو برزخ کے اس سوال کا جواب آسان ہوجائے گا ، نیز برزخ کے باقی دو سوال ”من ربک“ اور ”ما دینک“ کا جواب بھی آنجنابﷺ ہمیں بتلا اور سکھلا بلکہ کرکے دکھلا چکے ہیں ، اب کوئی فکر کی بات ہی نہیں کہ امتحان گاہ کے ہر سوال کا جواب معلوم ہے ، بس تیاری کرنی ہے ، محشر میں تمام قیامت خیزیوں کے باوجود ہم امتیوں کو یہ بہت بڑا سہارا اور آسرا دیا گیا ہے کہ خود مالکِ محشر نے اپنے حبیبﷺ کو شافع و شفیع بنایا ہے ، شفاعت ہوگی ہی ہم جیسے گنہگاروں کے حق میں ، جو نیک ہیں وہ اول تو خود کو گنہگار سمجھتے ہیں اور ”وفی اعین الناس کبیرا“ کے پیش نظر اگر دوسروں کے مطابق وہ نیک ہیں بھی تو ان کی نگاہِ امید بھی ساقیِ کوثر ہی کی جانب اٹھتی ہے کہ وہاں ملے گا اور ملتا ہی جائے گا ، تسلی ہے اور خوب تسلی ہے ، مگر تسلی اتنی زیادہ نہ ہوجائے کہ مصرع اول کے کھٹکوں اور دھڑکوں کو بھلا دیا جائے اور کھٹکے اور دھڑکے اس قدر زیادتی نہ پاجائیں کہ مصرع ثانی میں مذکور تسلی نظر انداز کردی جائے ، رہِ پارسایاں امید ست و بیم۔ محمد اسامہ سَرؔسَری