بہشت تضامین پر ایک طائرانہ نظر - ڈاکٹر عزیزؔاحسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg


مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن (کراچی )

مطبوعہ : دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

بہشتِ تضامین پر ایک طائرانہ نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تضمین کے لغوی معنی ہیں شامل کرنا، ملانا، جگہ دینا۔ اصطلاحِ شعراء میں کسی مشہور مضمون یا شعر کو اپنے شعر میں داخل کرنا، چسپاں کرنا، شعر پر مصرع لگانا۔ شاعر جب کسی دوسرے شاعر کے کلام، شعر یا کسی مصرعے سے متاثر ہوتا ہے تو اس پر کچھ اصافہ کرکے اپنا لیتا ہے۔ شعری تخلیق کا یہ عمل تضمین کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً:


غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ:

آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں

اس شعر میں غالبؔ نے میر تقی میرؔ کے کلام کی تحسین کے لیے ناسخؔ کے ایک مصرعے پر گرہ لگائی ہے۔

تضامین میں عموماً تضمین نگار شعراء کسی شاعر کے کلام سے اپنی تاثرپذیری کا اظہار کرتے ہوئے کسی مصرعے، شعر یا پورے کلام کے گرد ایک تشریحاتی و توضیحاتی حصار قائم کر دیتے ہیں۔ یوں تضمین کے عمل سے کسی شاعر کو جو انبساط ہوتا ہے اس کا اظہار بھی ہو جاتاہے اور تضمین نگار کی تخلیق میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ تضمین کرتے ہوئے کسی شاعر کا شعری اسلوب اور فکری زاویہ بھی تضمین نگار کی تخلیقی بصیرت اور فنی مہارت سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔

مصرعے پر مصرع لگانے کا عمل طرحی مشاعروں کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح کے مشاعرے مصرع ہائے طرح پر طبع آزمائی سے مشروط ہوتے تھے، اب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اب طرحی مشاعروں کا چلن بہت کم ہو گیا ہے۔ طرحی مشاعروں میں طرح پر مصرع لگانے کے لیے شعراء بڑی محنت کرتے ہیں کیونکہ گرہ لگانے کا یہ عمل مسابقت کے جذبے سے بھی مربوط ہوتا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حکیم نجم الغنی رام پوری نے ’’بحرالفصاحت‘‘ میں تضمین کی ایجاد کا سہراکمالؔ خجند کے سر باندھا ہے۔ ’’تذکِرۂ شمعِ انجمن‘‘ کے مولف صدیق حسن خان نے ’’سروِ آزاد‘‘ کے حوالے سے تضمین کے ضمن میں پہل کرنے والے شاعر کا نام مرزا محمد علی طرشی متخلص بہ سلیمؔ بتایا تھا۔ تاہم صاحب بحر الفصاحت نے ہلالیؔ (م ۹۳۶ ہجری) اور کمال خجند کو (جو ہلالی سے بھی قبل گزرا ہے) رائیدین میں شمار کیا ہے اور تینوں شعراء کے تضمینی نمونے پیش کیے ہیں :


سلیمؔ امشب بہ یادِ تربتِ حافظؔ قدح نوشم

"الا یا ایھا الساقی ادر کا ساو ناولھا"

(سلیمؔ)


ہلالیؔ چوں حریفِ بزمِ رنداں شد، بخواں مطرب

"الا یا ایھا الساقی ادر کا ساو ناولھا‘‘

(ہلالیؔ)


بردی دلِ عشاق، کمالؔ از سخنِ خوب

"خوباں، عمل فتنہ ز دیوانِ تو یابند‘‘

(کمال خجند)

ان تینوں اشعار میں پہلے دو شعراء نے حافظ شیرازی کے مصرعے پر گرہ لگائی ہے اور کمالؔ خجند نے خسروؔ دہلوی کے مصرعے پر طبع آزمائی کی ہے۔

شعراء میں تضمین کا جذبہ عمومی طور پر تخلیقی لمحات میں ایسے مرحلے پر جاگ جاتا ہے جب ان کا کوئی مضمون توضیح و تشریحِ معانی کے حوالے سے انھیں کسی دوسرے شاعر کا کلام یاد دلا دیتا ہے۔ مثلاً :


بملکِ جم ندہم مصرعۂ نظیریؔ را

"کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست‘‘

(اقبالؔ)

غالبؔ کی غزلوں کی تضمین ’’روحِ کلامِ غالب‘‘ میں مرزا عزیز بیک مرزاؔ سہارنپوری نے غالبؔ کے کلام کی شرح کرنے کی غرض ہی سے کی تھی۔ اہل علم کی رائے ہے کہ مرزا عزیز بیگ مرزاؔ سہارنپوری غالبؔ کے کلام کی منظوم شرح کرنے میں حد درجہ کامیاب ٹھہرے تھے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق درج ذیل بند ملاحظہ ہو :


ہیں موحد بخدا شرک ہے دل سے مفقود

ہم معبد ہیں نہ کعبے کے نہ کعبہ معبود

رو بہ قبلہ ہیں تو صرف ایک جہت ہے مقصود

"ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں‘‘

غالبؔ کی خوش بختی ددیکھیے کہ اس کی غزلوں پر متعدد شعراء نے نعتیں کہہ کر انھیں کتابی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ ایسی نعتیہ کتب میں غالبؔ کے مصرعوں کی تضامین بھی ملتی ہے۔ بعض شعراء نے تو غالبؔ کے مصرعے اس طرح استعمال کیے ہیں کہ غزل کے مصرعوں کا مزاج ہی نعتیہ بن گیا ہے۔


آقا نے مجھ کو دامنِ رحمت میں لے لیا

"میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا‘‘

(ایاز ؔصدیقی)


سبز گنبد کی زیارت کو ترستا ہوں ایازؔ

"واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے‘‘

(ایازؔ صدیقی)

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

مدحت خیرالبشرﷺ میں راغبؔ مرادآبادی نے غالبؔ کے ایک مصرعے کو اس خوبی سے برتا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی مرحوم نے اس کی تحسین ان الفاظ میں کی:

"غالبؔ کا یہ شعر بہت خوبصورت ہے لیکن راغبؔ صاحب کی تضمین پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے غالبؔ کا دوسرا مصرعہ سو سال سے زیادہ عرصہ سے اس مصرعے کا منتظر تھا۔ غالبؔ نے وحدت الوجود کی بات کی تھی۔ ذاتِ رب میں فنا ہو کر مقامِ بقا پر پہنچنا ہی مقصودِ حیات ہو سکتا ہے، لیکن جہاں تک ہماری پہچان اور تشخص کا سوال ہے، اس کا رشتہ حضورﷺ سے ہے۔‘‘ اب وہ شعر ملاحظہ فرمایئے جس کی تحسین اتنے خوبصورت پیرائے میں کشفی مرحوم نے کی تھی:


جو سب سے محترم بعدِ خدا ہے

"ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا‘‘

(راغبؔ مرادآبادی)

تضامین کی روایت اُردو شاعری میں بڑی محکم ہے۔ نورُاللغات کے مؤلف نورالحسن نیر نے تضمین کے معانی بتاتے ہوئے یہ بھی اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ حضرت محسنؔ کاکوروی کے لامیہ قصیدے پر بہت سی تضمینیں ہو چکی ہیں۔

ڈاکٹر ہلالؔ جعفری نے ’’کشکولِ ہلال‘‘ میں ایک سو ایک شعراء کی مکمل نعتوں پر تضمینیں لکھی اور میرے خیال میں نعتیہ شعری سرمائے میں تضامین کی پہلی مکمل کتاب شائع کروائی۔ اس کتاب کا سن اشاعت ۲۰۰۰ء ہے۔ اب یہ سعادت جناب حافظ عبدالغفار حافظؔ کو حاصل ہو رہی ہے جن کی تضامین پر مبنی کتاب ’’بہشتِ تضامین‘‘ ان شاء اللہ جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آجائے گی۔ فی الحال اس کتاب کا مسودہ میرے پیش نظر ہے۔

"بہشتِ تضامین‘‘ میں کل چوالیس شعراء کا کلام حافظ عبدالغفار کی تضمین کا حصہ بنا ہے۔ تاہم اس کتاب میں اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت احمد رضاخاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور سلام ’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کی مکمل تضمین کی شمولیت کے باعث کتاب کی ضخامت دو سو صفحات سے متجاوز ہو گئی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے اس شاہکار ’’سلام‘‘ کی تضمین بذاتِ خود ایک کارنامہ ہے۔

تضمین نگار کا کام رفوگر کا سا ہوتا ہے۔ پیوندکار کا سا نہیں ہوتا۔ پیوند کار ہزار محنت کرلے لیکن کسی پیوند کو اصل کپڑے کا اس طرح جزو نہیں بنا سکتا کہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والا معاملہ ہوجائے۔ اس کے برعکس رفوگر اپنے دھاگوں کو کسی کپڑے کے تانے بانے میں اس طرح پیوست کر دیتا ہے کہ رفوگری کے عمل کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔ تضمین کا عمل دو شعراء کی کاوشِ فکر اور اظہارِ فن کا نمونہ ہوتا ہے۔ ایک اصل شاعر کا کلام، دوسرا تضمین نگار کا عملِ تضمین۔ اس لیے تضمین نگار کی کوشش ہوتی ہے (یا ہونی چاہیے) کہ تضمین کے مصرعے اس طرح موزوں کرے کہ اصل شعر کے مافیہ (Content) اور زبان و بیان کی سطح سے وہ مصرعے ہم آہنگ ہو جائیں۔ کسی قسم کی دورنگی کا شائبہ باقی نہ رہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

الحمدللہ ! حافظ عبدالغفار حافظؔ کے تضمینی عمل میں ایسے بہت سے مقامات آتے ہیں جہاں قاری کا وجدان درود پڑھنے لگتا ہے اور دل حافظ صاحب کی فنی مہارت، اسلوب اور فکر کی گہرائی کی گواہی دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل چند بند :


درود اُس پر کہ نفرت کے عوض جس نے محبت دی

دلوں کو درد بخشا اور زبانوں کو حلاوت دی

درود اُس پر کہ جس نے دشمنوں کو خوئے اُلفت دی

"درود اس پر کہ جس نے وحشیوں کو آدمیت دی

سلام اُس پر کہ جو انساں کی عظمت بن کے آیا تھا‘‘

(تضمین برکلام رعناؔ اکبر آبادی)


جن کی عظمت کا عرفان کارِ دقیق

خُلق جن پر ہو قربان ایسی خلیق

مذہبِ حق میں حجت ہے جن کا طریق

"اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق "بانوانِ طہارت پہ لاکھو سلام‘‘

(تضمین بر سلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ بریلوی)


جس کی ہر اک ادا عکسِ شانِ نبی

وہ عفیفہ جو ہے ترجمانِ نبی

یعنی منجملۂ بانوانِ نبی

"بنتِ صدیق، آرام جانِ نبی

اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام‘‘

(ایضاً)


وہ ابوبکر، عثماں، عمر، مرتضیٰ

اور چھ دوسرے اہلِ صدق و صفا

اہلِ حق، اہلِ ایمان و اہلِ وفا

"وہ دسوں جن کو جنت کا مژدہ ملا

اُس مبارک جماعت پہ لاکھوں سلام‘‘

(ایضاً)


درود اس پر جو لایا بزمِ اہلِ حق میں خوشحالی

درود اس پر ہوئی باطل کی جس کے دم سے پامالی

درود اس پر بتوں سے جس نے کعبے کو کیاخالی

"درود اس پر کہ جس نے کفر کی دنیا بدل ڈالی

سلام اس پر کہ جو ایماں کی صورت بن کے آیا تھا‘‘

(تضمین برکلامِ رعناؔ اکبر آبادی)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

میں جب مرزا غالبؔ کے شعری شعور کے فیضان کا توسیعی منظرنامہ دیکھتاہوں تو مجھے اکثر ٹی-ایس- ایلیٹ کا یہ قول یاد آتا ہے:

"عظیم ترین شعراء کے ہاں ایسے پہلو ہوتے ہیں جو فوراً سامنے نہیں آتے بلکہ صدیوں بعد بھی دوسرے شعراء کو متاثر کرکے زندہ زبان پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

ٹی-ایس-ایلیٹ کے اس بصیرت افروز بیان کی روشنی میں ملاحظہ ہو وہ شعری فیضان جو غالبؔ سے ایازؔ صدیقی کی تخلیقی دانش کا حصہ بنا اور پھر شعر ی متن و شعورِ فن کا سیل معنوی حافظ عبدالغفار حافظؔ تک پہنچا، یہ اس طرح کہ ایازؔ صدیقی نے غالبؔ کی زمین میں نعتیہ شعروں کے گلاب کھلائے اور حافظ صاحب نے تضمین کرکے اُن گلابوں کی مہک کو عام کیا۔


آپ کی آمد کا یہ رازِ نہاں سب پر کھلا

بند تھا جو فکر کا چشمہ وہ اب جا کر کھلا

حکمت و ادراک کا، عرفان کا دفتر کھلا

"آپ آئے، ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

جہل نے بازو سمیٹے، علم کا شہپر کھلا‘‘

بیدمؔ وارثی کا نام نامی فلکِ شاعری پر طلوع ہونے والا وہ ستارہ ہے جس کی چمک سے نعتیہ افق جگمگا رہا ہے۔ اُن کی وہ نعت جس کا مطلع ہے :


عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول

اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک سینکڑوں شعراء نے اس نعت پر اپنے نعتیہ اشعار کی بنیاد رکھی۔ حافظ عبدالغفار حافظؔ نے بھی اس نعت کو تضمین کے لیے منتخب کیا اور سچ ہے کہ تضمین نگاری کا حق ادا کردیا:

عجیب فیض یہ تیرے وجود نے بخشا

کہ ہو گیا ہوں حبیب خدا کا مدح سرا

ترے طفیل ملی ہے یہ نعمتِ عظمیٰ

"بلائیں لوں تری اے جذبِ شوق صلِّ علیٰ

کہ ا ٓج دامنِ دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول

خوشی سے حافظؔ عاصی کی آنکھ ہو پُرنم

مزاجِ فردِ گنہ کا ہو دیکھ کر برہم

تکیں نگاہِ تحیر سے ساکنانِ ارم "عجب تماشا ہو میدانِ حشر میں بیدمؔ

کہ سب ہوں پیشِ خدا اور میں روبروئے رسول

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مجھے یہ دیکھ کر حیرت ا ٓمیز مسرت ہوئی کہ حافظ عبدالغفار حافظؔ نے چوالیس شعراء کے کلام کا نہ صرف بنظرِغائر مطالعہ کیا بلکہ کلام کی اندرونی ساخت میں پوشیدہ معانی کو تخلیقی عمل سے گزار کے اسی اسلوب میں تجدیدِ متن اور توسیعِ معنی کا کامیاب مظاہرہ کیا۔

ادبی فن پاروں کے متون (Texts) کو وحدانی معنیاتی سطح سے زیادہ بلند اور کثیرالمعنویت کے تناظر میں دیکھنے والی نظر جن نقادوں کو میسر ہے وہ ساختیاتی مفکرین کے ہاں مروج طریقِ کار کو تضمین نگاری کی روایت کی روشنی میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ قدیم شعری متون کا معنیاتی سیل کس طرح جدید شعریات کو عصری حسیّت اور مروّجہ لسانی نظام سے مربوط کرتا ہے اس بات کی تفہیم تضمین کی قرأت سے ہو سکتی ہے۔ ساختیات بھی شعری ساخت کو بے نقاب کرتی ہے اور عملِ تضمین بھی کسی حد تک قدیم متون یا پہلے موجود متون کی ساخت میں پوشیدہ معانی کے نئے افق تلاش کرنے کا عمل ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو حافظ عبدالغفار حافظؔ نے ’’بہشت تضامین‘‘ میں پرانے شعری متون کونئے معنیاتی افق سے ہمکنار کرکے ماضی کو حال سے مربوط کردیا ہے اور مستقبل کے امکانات کے دریچے بھی وا کردیے ہیں۔

نعتیہ شعری سرمائے میں تضمین نگاری کا یہ عمل بڑا خوش آئند ہے جس کے لیے حافظؔ صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔

نئے صفحات