بر سبیل نعت - تحقیق و تنقید ۔ ڈاکٹر ریاض مجید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Riaz Majeed.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹر ریاض مجید

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

برسبیل نعت- تحقیق و تنقید

ABSTRACT: Selection of researchable topics relating to devotional or Naatia poetry needs marathon exercise, hence some tips have been delineated hereunder for new scholars of Naat.Critical approach and research skill can be developed in light of suggestions placed in the article. The article is written bearing in mind the difficulties encountered by Research Scholars of M.A., M.Phil or Ph.D level. Light has also shed over several un-touched topics for the sake of selection by new comers.

آج کل نعت کے حوالے سے ایک مسئلہ ان طلبہ و طالبات کا سامنے آرہا ہے ۔جو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھنا چاہتے ہیں اور جنہیں کسی نعتیہ موضوع کی تلاش ہے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نعت کے ذیل میں موضوعات کم کم ہیں یہ بات صحیح نہیں ذرا سا غور کیا جائے تو صرف اردو نعتیہ شاعری کے حوالے سے سینکڑوں نہیں ہزاروں موضوعات مل جاتے ہیں__ایسے موضوعات جو قابل تحقیق (Re-searchable) ہیں۔


عام طور پر قابل تحقیق موضوعات کے لیے مقتصیات میں دو باتیں اہم ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ موضوع واقعی اہم، نادر اور قابل تحقیق ہو اس کے بارے میں اتنا اور ایسا مواد دستیاب ہو کہ اس پر ایک مقالے لائق حجم کے برابر کام ہو سکے ایم فل کے لیے قریباً اڑھائی تین سو صفحے اور پی ایچ ڈی کے لیے چار پانچ سو یا کچھ کم و بیش صفحات__( واضح رہے کہ ہر موضوع ریسرچ سکالر کی تحقیق استعداد اور دستیاب مواد و وسائل کے اعتبار سے اپنے مقالے کا پھیلاؤ رکھتا ہے اس کی ضخامت کے لیے کوئی طے شدہ یا لگا بندھا اصول نہیں ہو تا)۔


دوسرے یہ کہ اس موضوع پر اب تک اس نوعیت کا کام پہلے نہ ہُوا ہو__اگر پہلے کبھی ہوا ہو بھی تو اب کئی دہائیاں گذرنے کے بعد اس بارے میںموادہو تو پرانی تحقیق پر تحقیق مزید بھی ہو سکتی ہے عموماً وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی علمی و ادبی اور شعری ولسانی موضوع پر بہت کچھ قابل ذکر اور لائق توجہ مواد سامنے آ جاتا ہے ۔نئے نظریات اور درپیش احوال و مسائل کی تلاش میں بھی بعض اوقات پرانے موضوعات کو نئے زاویہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ہماری شعری تنقید میں اس کی ایک اہم مثال نظیر اکبر آبادی کی شاعری ہے جسے کئی سابقہ تذکرہ نگاروں نے نظرانداز کیا۔ دہلی اور لکھنؤ کے دبستان سے وابستہ شاعر اپنے حوالے سے اس کی شناخت سے گریزاور اپنی صف میں اس کے شمول سے اجتناب کرتے رہے ۔مگر ترقی پسند تحریک اور اس تحریک سے وابستہ رجحانات و میلانات عوام دوست اور رجحان ساز شاعر قرار پایا۔ ترقی پسند نقاد کے اپنے نظریات کی روشنی میں ازسرِنو اس کی تعبیر و تشریح کی اور یوں انہیں ایک فراموش اور نظرانداز شاعر ماضی کے سب شاعروں کا سرخیل نظر آیا۔


اردو نعت تحقیق و تنقید کے دائرے میں گزشتہ صدی کے آخری ربع میں داخل ہوئی اگرچہ اس سے قبل اس صنف اور اس صنف سے وابستہ شاعروں کے بارے میں کچھ مضامین مختلف اوقات میں لکھے گئے تھے اور جامعات کی سطح پر بھی کچھ تحقیقی کام ہوا تھا (اس کام کی نشاندہی اور تفصیل کئی مقالوں اور کتابوں میں ہو چکی ہے یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں) مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گاہے گاہے ہونے والے کام کو ایک باضابطہ روایت کادرجہ اسی دور میں ملا جسے حافظ لدھیانوی نعت کا زمانہ، اور حفیظ تائب، بہار نعت، سے تعبیر کرتے ہیں حافظ صاحب کا مصرع ہے :

 ع   خدا کا شکر مجھے نعت کا زمانہ مِلا     

اور تائب نے اردو کے نعتیہ انتخاب کا نام ’’بہارنعت‘‘ رکھا یہاں بہار سے مراد موسم، دور، عہد ہے۔

کوئی بھی صنف، روّیہ، قدر، رحجان اور نظریہ اسی وقت ایک باضابطہ روایت کا درجہ اختیار کرتا ہے جب وہ زیادہ سے زیادہ حوالوں اور افراد کے مکالموں میں زیر بحث آئے ،مختلف لوگ اس پر اظہار خیال کریں، جرح و تعدیل اور بحث و مباحثہ سے اسے باقاعدہ ایک ادبی مکالمے اور بیانیے کی صورت مل جائے ۔جتنے زیادہ اہلِ فکر، اہلِ دانش، اہلِ نظر، اور ادب و دانش سے جڑے ہوئے لوگ اس صنف رویہّ، قدر، میلان اور نظریہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے وہ اتنا ہی اہم، قابلِ ذکر، لائقِ توجہ اور وقیع ہوتا جائے گا۔


نعت کی تنقیدات کے بارے میں اگرگزشتہ چار پانچ دہائیوں کا گراف بنایا جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ صنف ایک باقاعدہ تنقیدی نظام میں اسی زمانے میں شامل ہوئی ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ۱۹۵۵ء کے زمانے میں ناگپور یونیورسٹی سے اردو کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے جو مقالہ لکھا وہ پاکستان میں اسی بہارِ نعت کے زمانے میں ۱۹۷۶ء میں شائع ہُوا اشفاق صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل اردو نعت کے باب میں تحقیق و تنقید کا اولّین، وقیع اور اہم کام پی ایچ ڈی کے مقالے کی صورت میں عظیم استاد غلام مصطفیٰ خاں کی نگرانی میں پیش کیا اس کے قریبا ۳۰ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد گرامی وحید قریشی کی نگرانی میں ’اردو نعت‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے مقالے کا خاکہ جمع کروایا جس کی منظوری غالباً مئی ۱۹۷۶ میں ہوئی ۱۹۸۰ء میں اس مقالہ کی تکمیل ہوئی اور قریباً ایک سال بعد اس پر ڈگری تفویض کی گئی۔ ان دہائیوں میں نعت کے بارے میں ملنے والے تحقیقی و تنقیدی مواد کا اگر آج سے مقابلہ کریں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق، ترتیب، تنقید اور تحقیق ہر حوالے سے نعت گزشتہ صدی کی آخری ربع صدی ہی میں توجہ پذیر صنف قرار پائی۔


ان دہائیوں میں نعت کے گراف کا اگر ایک تحقیقی مقالے کے طور پر جائزہ لیں تو اندازہ ہو گاکہ ان دہائیوں میں در ج ذیل حوالوں سے نعت کے اثاثے میں روایت پذیراور تاریخ ساز اضافہ ہوا ۔


۱۔ کئی بڑے معروف غزل کے شاعر نعت سے وابستہ ہوئے۔

۲۔ ان شاعروں کے جن کا اولّین اور بڑا حوالہ غزل یا نظم کا تھا مگر جنہوں نے کمال کی نعتیہ شاعری بھی کی ۔کئی شاعروں کے نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ۔

۳۔ کئی رسائل و جرائد کے نعت نمبر شائع ہوئے۔ نعتیہ مجموعوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوا۔

۴۔ ان مجموعوں کے دیباچوں، مقدموں، فلیپوں اور تبصروں کی صورت میں صنف نعت کے فکرو فن کے حوالے سے کئی بلیغ اور اہم نکات اور مضامین سامنے آئے (مثلا تاج کمپنی کے زیر اہتمام چھپنے والے نعتیہ مجموعے بام ِعرش ) کا دیباچہ ]]مجید امجدنے لکھااس دیباچے میں بعض ایسے پہلو زیر جائزہ آئے جیسے محسن کاکوروی]] پرلکھے گئے حسن عسکری کے مضمون سے( جو ستارہ یا بادبان میں چھپا نعت کی صنف کو ایک نئی تنقیدی جہت ملی)

۵۔ ادبی رسائل میں نہ صرف نعتوں بلکہ نعتیہ مضامین اور نعتیہ مجموعوں پر تبصروں کا آغاز ہوا۔

۶۔ نعت کے انتخابات سامنے آئے اگرچہ نعتیہ گلدستوں اور منتخبات کی روایت بیسوی صدی کے دوسرے ربع میں بھی عام تھی مگر ’’بہارِ نعت‘‘ کے زمانے میں اہم ادبی شخصیات نے ٍعمدہ گیٹ اپ میں ضخیم انتخابات مرتب کئے مثلا ارفعانِ نعت (شمس بریلوی) خیرالبشرکے حضورمیں (ممتاز حسین) اُردو کی نعتیہ شاعری (ڈاکٹر فرمان فتح پوری ) بہار نعت( حفیظ تائب ) مدح رسول (راجا رشید محمود)وغیرہ۔

۷۔ اخبارات کی عمومی اشاعتوں خصوصاً جمعہ کے دن شائع ہونے والے مذہبی و ملی ایڈیشنوںمیں نعتیہ شاعری اشاعت افزوں رہی۔

۸۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن کے نعتیہ مشاعروں کے علاوہ سیرت کے حوالے سے منعقد ہونے والے سیمناروں اور کانفرنسوں میں نعت رسول اکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فروغ مِلا

۹۔ بعض حکومتی اداروں کی طرف سے نعت کی کتابوں پر انعامات کے ذریعے اس صنف اور اس سے وابستہ تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

۱۰۔ نعت سے متعلق بعض جداگانہ رسائل کا آغاز ہوا ان میں تخلیق نعت کے ساتھ نعتیہ مضامین بھی شائع ہونا شروع ہوئے۔

زمانوی اعتبار سے نعت کے مطالعات:

  • اردوئے قدیم میں نعتیہ عناصر
  • اٹھارویں صدی کی شاعری میں تذکارِ رسولؐ
  • انیسوی صدی کی نعت کا جائزہ
  • اردو نعت کے اولّین نعتیہ دیوان؍ مجموعے
  • ۱۸۵۷ء سے ۱۹۲۵ء تک کے نعتیہ انتخابات کا جائزہ
  • انیسویں صدی کی غیر دیوانیہ نعت

میری مراد وہ نعتیں جو نعتیہ مجموعوں یا نعتیہ دیوانوں کی صورت میں نہیں چھپیں بلکہ شاعروں کے الگ الگ دیوانوں، تذکروں یا غیرمطبوعہ ماخذات میں کہیں کہیں موجود ہیں یہ نعتیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اِن کی جمع آوری اور تدوین کے بعد ان کی اجتماعی قدر و قیمت کے تخمینے کی ضرورت ہے۔

  • نامہ کی مناسبت سے لکھی جانے والی کتابیں (انیسویں صدی میں)
  • _______(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)________ (بیسوی صدی میں)

(مثلاً مولودنامہ، میلاد نامہ، جنگ نامہ،سیرت نامہ، وفات نامہ، معجزات نامہ وغیرہ ان کی کثیر تعداد ہے ان میں تذکار رسولؐ کے ساتھ نعتوں کا بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے)

  • اردو نعت کی روایت (انیسوی صدی میں)
  • اردو نعت کا منظر نامہ (بیسویں صدی میں)
  • اردو کی نثری کتابوں کے آغاز میں حمد و نعت

(یہ منظوم صورت میں بھی ہے نثر میں بھی اور ملی جلی صورت میں)

صنفوں/ ہیئتوں کے لحاظ سے نعتیہ مطالعات:

  • غزلیہ نعت نگاری
  • نعتیہ مسدّس
  • نعتیہ مخمس
  • پابند نظم میں نعت کی روایت آغاز وارتقا
  • آزاد نظم میں نعت نگاری
  • معرّا نظم میں نعت نگاری
  • نعتیہ قصیدے
  • رباعی میں نعت
  • نعتیہ مثنویاں
  • نعتیہ قطعات (تحقیق و تنقیدی جائزہ)
  • اردو مریثوں میں نعتیہ عناصر
  • نعتیہ ترکیب بند
  • اردو نعتیہ ہائیکو
  • اردو غزل میں نعتیہ اشعار

مثلاً اردو غزل کے قدیم و جدیدشاعروں نے اپنی غزلوں میں کہیں کہیں نعت کے شعر بھی کہے ہیں ان کی جمع آوری اور جائزہ منفرد تنقیدی جہتیں سامنے لائے گا مثلاً مرزا غالب اور منیر نیازی کی غزلوں کے یہ مقطع دیکھیے۔


اس کی امت سے ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے درکھلا


فروغ اسم محمد ہو بستیوں میں منیر

قدیم یادنئے مسکنوں سے پیدا ہو


المختصر بقول شاعر


دربندِ ایں مباش کہ مضمون نماندہ است

صد سال می تواں سخن از زلف یار گفت

(یہ فکر نہ کر میرے پاس مضمون ختم ہو گئے ہیں مَیں سو سال تک محبوب کی زلف پر شاعری کر سکتا ہوں)


یہاں ’’زلف یار‘‘ کی جگہ ’’نعت پاک‘‘ پڑھیں تو شعر کا مبالغہ حقیقت میں بدل سکتا ہے اوپر دی گئی فہرست تو سرسری انداز میں صرف زمانوی حوالے سے ہے اور مضمون لکھنے کے دوران میں ذہن میں آنے والے ان موضوعات کے بارے میں ہے جن پر تنقیدی و تحقیقی کام ہو سکتا ہے اگر مزید غور و خوض کے بعد ایسے موضوعات کی فہرست تیار کی جائے تو وہ ہزاروں تک جا سکتی۔


مختلف نعتیہ دبستانوں کے حوالے سے/ ممالک کے حوالے سے/نعت کی اقسام کے حوالے سے/ مختلف نعت گو شاعروں کے حوالے سے/ نعتیہ دیوانوں اور مجموعوں کے مطالعات/ مختلف شہروں میں نعت گوئی کی روایت/ فنی محاسن کے اعتبار سے مثلاً اردو نعت میں محاکات/ تشبیہ، استعارہ، تلمیحات اور علامات وغیرہ/ مختلف شعری اصناف میں نعتیہ عناصر/ سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے موضوعات مثلاً اردو نعت میں واقعہ معراج/ اردو نعت میں تذکار مدینہ/ اردو نعت میں سلام و درود /اردو نعت میں استغاثہ/ اُردو نعت میں سیرتی واقعات/ اردونعت میں غزوات کا بیان ؍ اردو نعت میں ذکر اہلِ بیت؍ اردو نعت میں تذکار صحابہ اسی طرح کئی اور حوالوں سے نعتیہ موضوعات تحقیق کی تعدا ہزاروں تک جا پہنچتی ہے اردو غزل جن جن مطالعات سے گزری اسی طرح نعت بھی فکری و فنی ان تمام حوالوں سے زیرِ مطالعہ لائی جا سکتی ہے۔


’’برسبیلِ نعت‘‘ کا یہ فارمیٹ اس تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان شاء اللہ نعت ____تحقیق نما، یا نعتیہ کے موضوعات کے نام سے کسی وقت ایک الگ کتابچہ مرتب کروں گا سر دست صرف یہ نشاندہی کی ہے کہ ؎ ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است یا رگ نعت است ____نئے محققوں اور ریسرچ سکالر کو چاہیے کہ وہ سوچ بچار اور غور و خوض سے نعت میں تحقیق و تنقید کے نئے نئے راستے دریافت کریں_____ ایک بات کا خیال رہے کہ یہ مطالعات ’’فن‘‘ کے حوالے سے ہونے چاہیں فن کے مفہوم میں جوہر اور "Skill"ریاضت، مہارت ہنروری کے عناصر نظر انداز نہ ہوں تکرار سے بچیں جدت طرازی پر توجہ دیں صنف نعت کی صحیح خدمت یہی ہے کہ اسے موضوع محض کی بجائے معجزہ فن بنایا جائے تخلیق میں تنقید میں اور تحقیق میں ____ہر پہلو سے اس صنف کی امکانی ندرت، انفردی اہمیت اور مجتہدانہ شان تلاش کی جائے نعت دوستی اور عشق رسولؐ کے شہرت طلب نعروں کی بجائے خود کو کارِ نعت کا حصہ بنایا جائے۔


؎ لہو کا آخری قطرہ بھی صرف فن کر دے

بنا وہ نقش ’ثنا‘ جو بگڑ سکے نہ کبھی

٭٭٭