ایک منفرد نعتیہ واردات ، پرویز ساحر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


پرویز ساحر

ایک منفرد نعتیہ واردات

جلیل عالی ستّر کی دہائی میں ادبی منظرنامے پر ظہور پذیر ہونے والے ایک سر بر آوردہ شاعراوراعتبارِ حرف و معنی کا معتبر حوالہ ہیں۔مستزادے کہ گزشتہ چہار دہائیوں میں وہ اپنے شعری معیارات اور فنی اعتبارات کو بہ دستور قائم رکھے ہوئے ہیں۔اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی غزل ، نظم ہر دو اصناف میں مسلسل طبع آزمائی کرتے آرہے ہیں ۔بہ ہر آئینہ غزل ہی ان کا متخصص ہے ۔تا حال ان کے تین معیاری شعری مجموعے (’خواب دریچہ‘ ، ’ شوق ستارہ ‘ اور ’عرضِ ہُنر سے آگے‘)اشاعت آشنا ہو کر منظرِ عام پر آچکے ہیں۔

جلیل عالی فن کے معاملے میں تکمیلیت پسند رویّے کے صاحبِ توفیق تخلیق کار ہیں ۔ معاصر شعرا کی بہ نسبت ان کے کلام میں ایک جداگانہ تفکّراتی فضا اور دانش ورانہ سطح پائی جاتی ہے۔ملکی و بین ا لا قوامی حالات اور معیاری ادب پر ان کی گہری تنقیدی نظر ہے۔جلیل عالی کسی محدود سیاسی اور سماجی نظریّے کے قائل نہیں ۔ بہ ایں سبب ان کے کلام میں جا بہ جا وسیع تر اجتماعی پس منظر اور کُلّی تصورِ حقیقت کا بڑا ویژن لَو پذیر نظر آتا ہے۔نقدِ وقت میں راقم ا لحروف ان کی کہی گئی تجرباتی طرز کی نعتِ مسلسل بہ عنوان ’’جگ مگ نور نہایا رستہ ‘ ‘ کی بابت اظہاریہ رائے قلم بند کیا چاہتا ہے۔

نعت کہنا فی الحقیقت شمشیرِبرہنہ کے منہ چڑھنے کے مترادف ہے۔قدرت جس کسی حرف کار کو مسندِ عزّت پر بٹھانا چاہتی ہے ،یا اس سے کوئی غیر معمولی کارنامہ کرانا چاہتی ہے تو اس کے علمی ظرف مطابق اس پر اس کے نکتۂ دل کی کشود کر دیتی ہے ۔جلیل عالی کا نعتیہ کلام آبِ مصفّاکی طرح صاف شفّاف اورآتشِ سیّال کی طرح رواں دواں ہے۔

مجھ پر کھول خدایا رستہ نعتِ محمدؐ والا رستہ

اُسؐ کی شان کے جو شایاں ہو وہ الفاظ سجھاتا رستہ

اردو غزل کی تاریخ میں متذکّرہ نعت سے کسی قدر مماثل مگر مختلف ا لمزاج اور مختلف ا لموضوع یاد گار شعری تجربہ ناصر کاظمی نے ’’ پہلی بارش ‘‘کے عنوان سے کر رکھا ہے۔فرق یہ ہے کہ جلیل عالی کی شعری تخلیق کا مرکزی کردار کوئی عامی نہیں بلکہ انسانیت کی معیارِ مطلوب شخصیت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

وہ جو حرا سے لایا رستہ اُجلا، نکھرا، سنورا رستہ

جہل کے گھور اندھیروں اندر جگ مگ نور نہایا رستہ

یہ نعت قسط وار گیارہ حصّوں پر مشتمل ہے ۔ہر قسط میں نو اشعار ہیں ۔ہر قسط علاحدہ سے ایک مکمل موضوع کو محیط ہے ۔معروف اسمائے الٰہی کی نسبت سے نعت کے اشعار کی کل تعداد ننانوے رکھی گئی ہے۔غزلیہ رنگ سے متزیّن ہو کربھی اس نعت کی تمام اقساط میں بلحاظ موضوع ایک نظمیہ تسلسل پایا جاتا ہے۔

جب تاریخ نے پوچھا رستہ صرف اُس ؐنے بتلایا رستہ

نفرت کی ماری دنیا میں سب سے پیار سکھاتا رستہ

جلیل عالی نے اپنی آب یارِ سخن زبان میں سیّد ا لبشر ؐ کی ذاتِ خوش صفات کے اوصافِ حمیدہ کو بین السّطور بیان کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔اس نعت میں عربی ،فارسی کی ادق مصطلحات کے استعمالات سے گریز برتتے ہوئے بھی قرآنی ادب اور احادیثِ نبویہؐ سے فکری سطح پر با لواسطہ تخلیقی استفادہ کیا گیا ہے۔

جو قرآن میں جھلکا رستہ اُس ؐنے وہی اپنایا رستہ

اُسؐ کے سفر کی سمت مطابق وقت نے اپنا بدلا رستہ

کتنے زمانوں وقت نے دیکھا تارا تارا اُسؐ کا رستہ

جلیل عالی کی کہی یہ نعت ہر طرح کے’شرکیہ ‘ شائبے سے پاک ہے۔اس نعت کا ایک اختصاصی وصف یہ بھی ہے کہ اس کا بیانیہ اسلوب سہل ترین ہونے کے باوجود یک سطحی اور یک پرتی نہیں بلکہ معنوی ابلاغ کے حوالے سے اس میں ایک سے زائد سطوح اور پرتیں موجود ہیں جو عوام و خواص ہر دو حلقوں سے تعلق رکھنے والے قارئین و سامعین کی ذہنی سطح کے معیار مطابق ہیں۔

انساں بھول چکا تھا رستہ اُسؐ نے یاد دلایا رستہ

رہتی دنیا تک دھرتی پر محکم امن حوالہ رستہ

باہم دشمنِ جاں لوگوں پر امن و اماں کا کھولا رستہ

جلیل عالی کے اس اشتیاق انگیز کلام میں تیقّنِ موجود کے ساتھ ،ہُو ہائے شوق، عاشقانہ سر مستی ،وجدانی سرشاری اور الہامی ترنگ کی ایسی فراوانی ہے کہ اس کی قرأت و سماعت کے دوران قاری و سامع بے اختیارانہ صل و جل پکار اٹھتا ہے۔استفہامی رنگ میں ڈوبےُ پر شوق اشعار ملاحظہ کیجئے:

اللہ اللہ ، آقا ؐ آقاؐ کیسی منزل ، کیسا رستہ

اللہ اللہ ، آقاؐ آقا واحد منزل ، تنہا رستہ

اللہ اللہ ، آقاؐ آقاؐ اپنی منزل ، اپنا رستہ

اللہ اللہ ، آقاؐ آقاؐ منزل منزل ، رستہ رستہ

۔۔۔۔

دل نے دھیان اُسؐ کا چھوڑا تو آنکھ سے اوجھل ہو گیا رستہ

اُسؐ کی وفا سے منہ موڑا تو کھو گئی منزل بھولا رستہ

اُس ؐ سے اگر ناطہ توڑا تو پھر نہ کسی نے پایا رستہ

۔۔۔۔

اُسؐ نے سب انسانوں خاطر دل آنکھوں سے دیکھا رستہ

اُسؐ نے تمام زمانوں خاطر راتوں جاگ کے سوچا رستہ

اُسؐ نے تمام جہانوں خاطر اپنے رب سے مانگا رستہ

۔۔۔۔

کون طریق طریقِ کامل ؟ بس اک اسوۂ حسنہ رستہ

کون سبیل ،سبیلِ محکم؟ اُسؐ کی سیرت والا رستہ

کون صراط نجاتِ عالم؟ اُسؐ نے جو سمجھایا رستہ

کون جتن جاں تسکیں پائے؟ اُسؐ کی محبت والارستہ

جلیل عالی کے تہ خانۂ دل سے بر آمد شدہ اس نعت کا مصرع مصرع ،شعر شعر منقوشِ خاطر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جان ایسا پڑتا ہے کہ اس نعت کی آمد کے دوران ان پر جملہ’ پیچواں رستے ،آئینہ ہو گئے ہیں۔

رستوں کی تاریخ بتائے کوئی نہیں ہے ایسا رستہ

سب رستوں سے بہتر و برتر صدیوں جانچا پرکھا رستہ

یاد کیا مشکل میں اُسؐ کو دیواروں سے نکلا رستہ

اُسؐ کی یاد بسائی دل میں کتنا آساں گزرا رستہ

فارسی ادب کی فنی اصطلاح ’’ ترکیبِ مقلوب ‘‘جس میں حرفِ جار کو حذف کر کے بغیر اضافت کے ترکیب بنائی جاتی ہے ،کو جلیل عالی نے اپنی شاعری میں مقامی زبانوں سے استفادہ کر کے ہُنر کاوی کے ساتھ بہ کثرت استعمال کر رکھا ہے ۔اس نعتِ مبارکہ میں بھی ایسی بہت سی بے اضافتی تراکیب اپنی چھب دکھا رہی ہیں۔ گھور اندھیروں،باغوں سمت، سینوں بیچ ،دھیان سفر، سوچ تھلوں،سوچ خسارہ ،نور نہایا،پھولوں پھول،دل آنکھوں ،چُپ صحراؤں ،شوق بہشتوں،امن حوالہ اورسیرت آئینے وغیرہم چند در چند نو اخترع کردہ اضافتی تراکیب بھی حوالۂ قرطاس ہیں۔

خرامِ نور فزا ،حکمتِ دوراں،طریقِ عالم،سبیلِ محکم ،صفائے انساں اور اوجِ فلاح و خیر وغیرہ۔

جلیل عالی نے فنی لطافتیں دکھاتے ہوئے،مصرعین میں کسی ’’حرفِ مخصوصہ ‘‘کی صَوتی تکرار سے شعری نغمگیت اور طلسمیت کو دو چند کر دیا ہے ۔مثلاً:

ع ۔ اللہ اللہ ، آقاؐ آقا ؐ(الف) ع ۔ دُور کرے سب دہر خسارے (د اور ر)

ع۔ قدم قدم قرباں دل اُسؐ پر (ق اور د) ع ۔ ساری مسافت سارا رستہ (س اور الف)

اندرونی قوافی کی حسن آفرینیاں دیکھئے۔

ع۔ سوچ کے پوچ بیابانوں سے ع۔ سہل اسی کے دم سے ہم پر ع۔ جو اُسؐ سے وابستہ رستہ

لے ہر سانس اُسیؐ کی لَو میں جسؐ کی رَو میں زندہ رستہ

ویراں ہو گئے کیا کیا جادے اُس ؐ کا رواں ہر لحظہ رستہ

جلیل عالی نے اچھی طرح بوجھ سمجھ اور جانچ پرکھ کرلفظی تلازمات و مناسبات کا استعمال کیا ہے۔

اجلا،نکھرا ،سنورا ۔ سیدھا، سادہ، سچّا ۔ جگ مگ،پگ پگ وغیرہ

ع ۔ کون روش روشن ہو سینہ ع۔ کون جتن جاں تسکیں پائے

نادر تمثالوں کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:

رستے کادرِ نجات کو چھونا، فرشِ دل پررستہ بچھانا،وقت کے تیرہ زندان،سوچ تھلوں میں بھٹکنا،چپ صحراؤں پیار کی بولی بولنا،عشق کی انگلی تھامنا،دھڑکن دھڑکن شوق بہشتوں جانب بڑھنا ، محبت تحریر کرنا ، اُسؐ کی رَو میں رستے کا زندہ ہونا،رستے کانور نہانا،قدموں کی دُھول رہنا وغیرہ:

جلیل عالی نے اپنے دیگر کلام کی طرح اس معیاری نعت کے ذریعے بھی بہارِ طرب کا سامان بہم پہنچایا ہے۔

اُس محبوب نگاہ میں رکھنا جس نے دکھایا تیرا رستہ

دُھول رہوں اُسؐ کے قدموں کی اور ہے باقی جتنا رستہ

توفیقی لمحات میں تخلیق ہونے والی یہ نعتِ مسلسل اردو نعت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور کامیاب تجربہ ہے ۔جلیل عالی کی یہ کاوش نعتیہ ادب کے حوالے سے ’’ادبِ عالیہ‘‘ میں شمار کئے جانے کے لائق ہے،کیوں کہ اس میں شعریت کے ساتھ عصریت اور مستقبلیت کے روشن امکانات موجود ہیں۔


مزید دیکھیے

نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25