آپ «اُردو کے سکھ نعت گو شعرا ، فاروق ارگلی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 14: سطر 14:
محسنِ انسانیت رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عشق کے ولولے میں یہ شعر کہنے والا شاعر کوئی اور نہیں اردو زبان،ادب اور تہذیب کی نمایاں شخصیت ،عالمی شہرت یافتہ شاعر آنجہانی کنور مہندر سنگھ بیدی تھے۔بیسویں صدی میں برصغیر ہندوپاک کے اُردو منظر نامے پر بیدی صاحب کانام ہمیشہ ممتازو مفتخر رہے گا۔ تقسیم کے ہاتھوں اُجڑی ہوئی اُردو کی راجدھانی دلّی کے ایوانِ شعر وسخن کو پھرسے آباد کرنے اور سجانے میں ان کا تاریخ ساز کردار اُردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔آزادی کے بعد شگستگی اورمایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اُردو زبان کواپنی سرگرم ہمہ جہت شخصیت ،بے پناہ علمی وسماجی بصیرت اور شعر وادب کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ سنبھالا دیتے ہوئے وہ ہندوستانی اُردو ادیبوں اورشاعروں کے سردار بن گئے۔آزادی کے بعد برصغیر ہندوپاک ہی نہیں دیارِ غیر میں بھی اُردو کی بزم آرئیاں اور پر شکوہ مشاعرے کنور صاحب کی شرکت ،قیادت اور نظامت کے بغیر نامکمل سمجھے جانے لگے ۔گزشتہ بیسویں صدی کی آخری پانچ دہائیوں میں وہ اُردو زبان ،ادب اور تہذیب کے محافظوں کی اگلی صف میں نمایاں رہے۔[[کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ]] کی غزلیہ شاعری اپنی برجستگی ،حسن بیان اور روایتی شائستگی و پاکیزہ خیال آرائی کے لئے مشہور ومقبول ہے ۔
محسنِ انسانیت رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عشق کے ولولے میں یہ شعر کہنے والا شاعر کوئی اور نہیں اردو زبان،ادب اور تہذیب کی نمایاں شخصیت ،عالمی شہرت یافتہ شاعر آنجہانی کنور مہندر سنگھ بیدی تھے۔بیسویں صدی میں برصغیر ہندوپاک کے اُردو منظر نامے پر بیدی صاحب کانام ہمیشہ ممتازو مفتخر رہے گا۔ تقسیم کے ہاتھوں اُجڑی ہوئی اُردو کی راجدھانی دلّی کے ایوانِ شعر وسخن کو پھرسے آباد کرنے اور سجانے میں ان کا تاریخ ساز کردار اُردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔آزادی کے بعد شگستگی اورمایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اُردو زبان کواپنی سرگرم ہمہ جہت شخصیت ،بے پناہ علمی وسماجی بصیرت اور شعر وادب کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ سنبھالا دیتے ہوئے وہ ہندوستانی اُردو ادیبوں اورشاعروں کے سردار بن گئے۔آزادی کے بعد برصغیر ہندوپاک ہی نہیں دیارِ غیر میں بھی اُردو کی بزم آرئیاں اور پر شکوہ مشاعرے کنور صاحب کی شرکت ،قیادت اور نظامت کے بغیر نامکمل سمجھے جانے لگے ۔گزشتہ بیسویں صدی کی آخری پانچ دہائیوں میں وہ اُردو زبان ،ادب اور تہذیب کے محافظوں کی اگلی صف میں نمایاں رہے۔[[کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ]] کی غزلیہ شاعری اپنی برجستگی ،حسن بیان اور روایتی شائستگی و پاکیزہ خیال آرائی کے لئے مشہور ومقبول ہے ۔


[[کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ | کنور صاحب]] کا نسبی تعلق حضرت بابا گرونانک سے ہے۔ان کا جنم غیر منقسم پنجاب کے شہر منٹگمری (اب سا ہیوال)میں [[9 مارچ]] [[1909]]ء کو ہوا انھوں ۱۹۲۶ء میں گورنمنٹ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ان کا خاندان مذہبی ،سماجی، اقتصادی طور پر پورے پنجاب میں مؤقر اور معزز تھا۔اس زمانہ کے دستور کے مطابق ان کی بنیادی تعلیم اُردو اور فارسی میں ہی ہوئی ۔مطالعہ کا شوق بچپن میں تھا۔کالج کے زمانے سے ہی شاعری کاشوق ہوگیا ۱۹۲۳ء میں جب وہ فرسٹ ائر میں تھے ،پہلی غزل کہی۔مشاعرہ میں وہ کسی کے شاگرد نہیں بنے البتہ ۱۹۳۴ء میں سرکاری ملازمت میں بطور مجسٹریٹ آنے کے بعدوہ دہلی کے قریب سونی پت میں تعینات ہوئے تو دہلی سے رشتہ استوار ہوا نواب سائلؔ دہلوی ،بیخود دہلوی،امرناتھ ساحردہلوی ،جوش ؔ ملیح آبادی ،پنڈت ہری چند اخترؔ اور جگر ؔ مراد آبادی جیسے عظیم المرتبت شاعروں سے نزدیکیاں بڑھیں تو ان کی شاعری اور فکر کو بھرپور روشنی ملی۔ان کی غزلیہ شاعری میں جگرؔ مراد آبادی اور حسرتؔ موہانی وغیرہ کارنگ وآہنگ ہے۔شخصی طور پر کنور صاحب انتہائی کشادہ دل،بامروّت، خوش مزاج اوراعلیٰ انسانی قدروں میں یقین وایمان رکھنے والے انسان تھے مذہبی تنگ نظری سے وہ بہت دور تھے۔انھوں نے ۱۹۴۷ء کی قیامت صغریٰ میں جب دہلی اور مشرقی پنجاب میں ان کی ہی قوم نے مسلمانوں پرسب سے زیادہ مظالم ڈھائے تھے،کنور صاحب اپنے اعلیٰ سرکاری عہدے کی مدد سے پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کی حفاظت میں لگے رہے انھوں نے پنجاب اور خاص طور پر دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں بچائیں ۔کنور صاحب نے زندگی کے ہر موڑ پرعملی طور پر ثابت کیاکہ وہ مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اوراُردو زبان وادب کی شاندار اقدار وروایات کے امین و علمبردار ہیں۔کنور صاحب نے اسلامی تاریخ اور دینی علوم کا گہرا مطالعہ کیاتھا۔پیغمبر انسانیت حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرتِ مقدسہ سے بیحد متاثر تھے،اپنے اس احساس کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کے لیے انھوں نے حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عقیدت ومحبت سے لبریز متعدد نعتوں کی تخلیق کی۔انھوں نے سرکارِ دوعالم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنی بے پناہ عقیدت کے اظہار میں جو مسدس کہی تھی اس کایہ بند پوری دنیائے اُردو میں پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں اتر گیا،فرماتے ہیں:  
[[کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ | کنور صاحب]] کا نسبی تعلق حضرت بابا گرونانک سے ہے۔ان کا جنم غیر منقسم پنجاب کے شہر منٹگمری (اب سا ہیوال)میں [[9 ما رچ]] [[1909]]ء کو ہوا انھوں ۱۹۲۶ء میں گورنمنٹ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ان کا خاندان مذہبی ،سماجی، اقتصادی طور پر پورے پنجاب میں مؤقر اور معزز تھا۔اس زمانہ کے دستور کے مطابق ان کی بنیادی تعلیم اُردو اور فارسی میں ہی ہوئی ۔مطالعہ کا شوق بچپن میں تھا۔کالج کے زمانے سے ہی شاعری کاشوق ہوگیا ۱۹۲۳ء میں جب وہ فرسٹ ائر میں تھے ،پہلی غزل کہی۔مشاعرہ میں وہ کسی کے شاگرد نہیں بنے البتہ ۱۹۳۴ء میں سرکاری ملازمت میں بطور مجسٹریٹ آنے کے بعدوہ دہلی کے قریب سونی پت میں تعینات ہوئے تو دہلی سے رشتہ استوار ہوا نواب سائلؔ دہلوی ،بیخود دہلوی،امرناتھ ساحردہلوی ،جوش ؔ ملیح آبادی ،پنڈت ہری چند اخترؔ اور جگر ؔ مراد آبادی جیسے عظیم المرتبت شاعروں سے نزدیکیاں بڑھیں تو ان کی شاعری اور فکر کو بھرپور روشنی ملی۔ان کی غزلیہ شاعری میں جگرؔ مراد آبادی اور حسرتؔ موہانی وغیرہ کارنگ وآہنگ ہے۔شخصی طور پر کنور صاحب انتہائی کشادہ دل،بامروّت، خوش مزاج اوراعلیٰ انسانی قدروں میں یقین وایمان رکھنے والے انسان تھے مذہبی تنگ نظری سے وہ بہت دور تھے۔انھوں نے ۱۹۴۷ء کی قیامت صغریٰ میں جب دہلی اور مشرقی پنجاب میں ان کی ہی قوم نے مسلمانوں پرسب سے زیادہ مظالم ڈھائے تھے،کنور صاحب اپنے اعلیٰ سرکاری عہدے کی مدد سے پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کی حفاظت میں لگے رہے انھوں نے پنجاب اور خاص طور پر دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں بچائیں ۔کنور صاحب نے زندگی کے ہر موڑ پرعملی طور پر ثابت کیاکہ وہ مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اوراُردو زبان وادب کی شاندار اقدار وروایات کے امین و علمبردار ہیں۔کنور صاحب نے اسلامی تاریخ اور دینی علوم کا گہرا مطالعہ کیاتھا۔پیغمبر انسانیت حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرتِ مقدسہ سے بیحد متاثر تھے،اپنے اس احساس کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کے لیے انھوں نے حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عقیدت ومحبت سے لبریز متعدد نعتوں کی تخلیق کی۔انھوں نے سرکارِ دوعالم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنی بے پناہ عقیدت کے اظہار میں جو مسدس کہی تھی اس کایہ بند پوری دنیائے اُردو میں پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں اتر گیا،فرماتے ہیں:  


ہم کسی دین کے ہوں ، صاحبِ کردار تو ہیں  
ہم کسی دین کے ہوں ، صاحبِ کردار تو ہیں  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)