اُردو کی ابتدائی ملی شاعری میں نعتیہ موضوعات ۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مقالہ نگار : ڈاکٹر محمد طاہر قریشی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


اُردو کی ابتدائی ملّی شاعری میں نعتیہ موضوعات

ABSTRACT: National Poetry of Urdu contains devotional sensibility for Prophet Muhammad (S.A.W) since origin of language. Naatia couplets found in poetry created for arousing National spirit have been presented in this article. It is tried to establish that no National poetry remained empty of Naatia couplets since first written text of Urdu language. Historical back ground of National poetry has been highlighted with examples of Naatia couplets of high emotions of love for Prophet (S.A.W) and reflections of desire to sacrifice in the struggle of preaching Islam.


(الف) ابتدائی ملّی شاعری میں ذکرِ خیرالانامﷺ:

ملّی شاعری عبارت ہے ملّت اسلامیہ اور اس کے معاملات سے۔اردو شعراء کے ہاںملّی شعور ہمیشہ سے موجود تھا اگر چہ اس کا اظہار بے شک تسلسل سے نہیں ہوا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ شعراء اپنے منفرد ملّی تشخص کو بالکل ہی فراموش کر چکے ہوں۔عرصے تک الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا ملّی شاعر قرار دیا جاتا رہا لیکن بعد کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ حالی سے پہلے مومن خان مومن ملّی معاملات پر سخن آرائی کر چکے تھے۔لیکن ڈاکٹر طاہرہ نگہت نیّر نے اپنے پی ایچ۔ ڈی۔ کے مقالے’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘ میں محمد شاہی عہد کے ایک واقعے پر،جو ۱۷۲۹ ء میں وقوع پذیر ہوا، بے نوا نامی ایک شاعر کا ایک بند نقل کیا ہے جسے انھوں نے ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ قرار دیاہے جو درست نہیں ہے۔


اردو میں ملّی شاعری کی کئی مثالیں بے نوا سے بھی بہت پہلے نظر آتی ہیں۔ راقم کی تحقیق کے مطابق ملّی شاعری کے ابتدائی نمونے دسویں صدی ہجری یعنی سولھویں صدی عیسوی میں نظر آتے ہیں ۱؎۔ دکن کی مشہور جنگ تالیکوٹ (یاتلی کوٹہ۹۷۲ھ بمطابق۱۵۶۴ء) کی فتح پر حسن شوقی (۹۴۸ھ [۱۵۴۱ء ]۔۱۰۴۲ ھ [ ۱۶۳۲ء ]تا ۱۰۵۰ھ[۱۶۴۰ ء])نے ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ مثنوی کی شکل میں لکھا جو موجودہ شکل میں ۶۲۱ اشعار پر مشتمل ہے۔ ۱؎ اس فتح نامے میں حسن شوقی نے واضح طور پر تالیکوٹ کی جنگ کو کفر و اسلام کی جنگ قرار دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’اس مثنوی کے مطالعہ سے ہندو اور مسلم تہذیبوں کے مزاج کا فرق بھی سامنے آتا ہے‘‘۔ ۲؎


یہ مثنوی نہ صرف ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ ہے بلکہ ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر بھی پہلی بار اسی مثنوی میں نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اردو میں جتنی قدیم مثنویاں لکھی گئی ہیں بیشتر میں روایتی طور پر حمد و نعت سے ہی آغاز کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی حسن شوقی نے فتح نامہ میں نبی کریمﷺ کا ذکرِ مبارک چند مقامات پر کیا ہے۔ مثلاً:

یوکا فیر سگلے ہوئے برطرف

نبیؐ کا سو ہے دیں، پکڑیا شرف

مجھے حوضِ کوثر و زمزم کی سوں

مجھے حرف مہمل و مجمل کی سوں

خدایا بہ برکت نبیؐ ہور ولی

بَسر گنج یو شاہِ مرداں علیؓ

ہوا قتلِ کفّار اکثر تمام

بدینِ محمد علیہ السلام


نیز فتح پر اس طرح خوشی کا اظہار کیا ہے

ہوئی دینداراں کُوں شادی تمام

بہ برکت محمد علیہ السلام


حتیٰ کہ ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ کا اختتام بھی نعتیہ اشعار پر کیا ہے۔

ختم کر تُوں شوقیؔ دُعا پر کلام

دُرد بر محمد علیہ السلام

سو شوقیؔ نے لیا شوق بولیا تمام

بحقِّ محمد علیہ اسلام ۳؎


گولکنڈہ کے حکمران محمد قلی قطب شاہ (۱۵۶۵ء ۔۱۶۱۱ء)، جسے اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کہا جاتا ہے، عموماً وطنی محبت میں مبتلا نظر آتا ہے اور اس کی شاعری کا بیشتر حصہ اپنے ملک کے رسم و رواج، تقریبات، میلوں، تہواروں، پھلوں اور موسموں وغیرہ کے والہانہ اظہار پر مشتمل ہے۔ ۴؎ اس کے ہاں ملّی شاعری نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وینکٹ پتی راج سے جنگ کے وقت اس کی ملّی عصبیت عود کر آتی ہے اور وہ دکنی یا ہندوستانی بن کر نہیں بلکہ مسلمان بن کر اپنی فوجوں کو اس طرح جوش دلاتا ہے۔

محمدؐ دین قائم ہے، ہندو بھاراں بھگادو تم

سیاہی کفر کی بھانو، اجالا جگ مگا دو تم ۵؎


قاضی محمود بحری ( م۱۷۱۷ء)کی مثنوی ’’من لگن‘‘ میں چند اشعار اورنگ زیب کی مدح میں ہیں۔ ایک شعر میں بحری نے اورنگ زیب کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے نبی ﷺکی شریعت نافذ کرنے میں سرگرداں دکھایا ہے۔

دیکھیا نھیں حکم بن کسی دھر

باندیا ہے نبیؐ کے شرع سوں سر ۶؎

۱۷۲۹ء میں دلّی میں ہندو جوہری اور مسلمان جوتا فروش کے ہنگامے کو بے نواؔ نے مخمس کی شکل میں پیش کیا۔ ۷؎ مخمّس کا عنوان تھا ’’در مذمّت طرّہ باز خاں‘‘۔ شاعر نے اس واقعے کو خالص ملّی عصبیت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس مخمّس میں ذکر رسولﷺ چند مقامات پر نظر آتا ہے۔

موچی و لچے ایکھٹے اللہ کوں کر کے یاد

قاضی و کوتوال سوں کرتے پھریں فریاد

کہتے ہیں بادشاہ سیں دلاؤ ہماری داد

ایکھٹے ہو جور باندھ کفر پر کریں جہاد

تا حشر دین، دینِ محمدؐ ہو برقرار

نوّاب طرّہ باز نے سن کر یہ ماجرا

مسجد کُوں ہو سوار شتابی سیں آچھڑا

بولا پڑھو نماز کرو طاعت خدا

قاضی نبیؐ کا نائب، حرمت رکھو روا

دنگل میں خاص و عام سے جب یہ کہا پکار ۸؎


قائم چاند پوری کی کلیات میں مخمّس کی صورت میں ایک ہجو بعنوان ’’در ہجو قاضی‘‘ ملتی ہے جس میں قاضی کو شریعت کا سوداگر اور دینِ نبیؐﷺکی مخالفت میں تلوار اٹھانے والا کہا گیا ہے۔ ۹؎ مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر نے نبی کریم ﷺ کی نیابت کا فرض ادا نہ کرنے پر قاضی کو لعن طعن کی ہے، ہجو کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

ع اے قاضیٔ بے مہر، ترے طور پر لعنت


آگے چل کر شاعر کہتا ہے:

اے مضحک آفاق، ترے دیکھ کے عنواں

کہتے ہیں بہم مل کے چہ ہندو چہ مسلماں

نائب تو نبیؐ کا نہیں، ہے نائب شیطاں

تِس پر تُو کہے قاضی ہوں، اے واہ تری شاں

جس دور میں تو قاضی ہو اس دور پر لعنت

رشوت ہے تری بس کہ ہمیشہ سے طبیعت

ہنگام طمع تجھ کو حیا ہے نہ حمّیت

دو پیسے پہ الٹے تو پیمبرؐ کی شریعت

کہتا ہے اک عالم یہ تری دیکھ کے نیت

جس دور میں تو قاضی ہو اس دور پر لعنت

پیشہ ہے ترا کذب و دغل، مکرو فروہی

پیسا ملے جس میں تجھے منظور ہے ووہی

کیوں باندھی ہے تیں دینِ نبیؐ پر یہ سروہی

اے خوکک صحرائی و اے خرسک کوہی

جس دور میں تو قاضی ہو اس دور پر لعنت ۱۰؎


مندرجہ بالا مثالوں سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مسلمان کسی بھی قسم کی لسانی، علاقائی، نسلی یا وطنی عصبیت میں مبتلا ہوں اُن کی ملّی عصبیت کبھی ختم نہیں ہوتی اور وقت آنے پر اس کا اظہار ہو کر رہتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ملّت کا تصور چوں کہ صاحب ملّت علیہ الصلوٰۃ والتّسلیم کا مرہون منّت ہے اس لیے ملّی شاعری میں لا محالہ نعتیہ عناصر در آئیں گے۔ اردو کی ابتدائی ملّی شاعری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ملّی شاعری کے اوّلین دستیاب نمونے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔


(ب) شہر آشوب میں نعتیہ عناصر:

اردو شہر آشوب کی داغ بیل دکن میں پڑی۔ شمالی ہند میں شہرِ آشوب کو اردو شاعری کی ایک صنف بننے کا موقع کچھ عرصہ بعد ملا۔ ۱۱؎ اورنگزیب کی وفات (۱۷۰۷ء) سے جنگ آزادی (۱۸۵۷ء) تک برعظیم میں جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوا اس کے باعث معاشرے کے تمام طبقات متاثر ہوئے نہ صرف شہر کے شہر برباد ہوئے بلکہ اخلاقی زوال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر شہر آشوب معاشی بدحالی اور سیاسی ابتری کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے اور بحیثیت مجموعی ہندو مسلمان کی تخصیص کیے بغیر تمام ہندوستانیوں کے مصائب و آلام کو موضوع بنایا گیا۔ تاہم کہیں کہیں ایسے اشعار بھی نظر آجاتے ہیں جن کا مرجع و مصداق صرف مسلمان قوم ہی ہے۔ ذیل میں شہر آشوبوں سے ایسے اشعار دیے جاتے ہیں جن میں واضح طور پر ملّی عناصر موجود ہیں اور ان میں سرکارِ دو عالم ﷺ کا ذکرِ مبارک بھی ملتا ہے۔


میراں جی حق نما نے ایک مثنوی ’’در بیان شکایت روزگار‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جس میں تنزّل پذیر معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے اور زیادہ تر ایسے مسلمانوں کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ جو دین سے دور ہوتے جارہے ہیں:

نا اون کو خدا رسولؐ سے کام

ہے مال سے ان کا سب سر انجام

پکڑے ہیں خدا کو بن نبیؐ کے

نا ہویں محب کبھی ربی کے

جو دوست نبیؐ اُو ہے خدا کا

جو ذکر نبیؐ سو اُو خدا کا

دشمن جو نبیؐ کا حق کا دشمن

جو دوست نبیؐ کا حق کا موہن ۱۲؎


ڈاکٹر قمقام حسین جعفری نے انصاری نامی ایک شاعر کی غیر مطبوعہ غزل کو شہر آشوب میں شمار کیا ہے جو ۱۶۸۵ء میں اورنگزیب کی فتح بیجا پور کے بعد کے ابتر حالات کو مدّنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ ۱۳؎ شاعر کو افسوس ہے کہ کفر پھیل رہا ہے۔ ایسے وقت دینِ حق کی حرمت کون کرے۔ غزل کے ابتدائی اشعار ہیں:

سُن عاقلا اس دور میں اشراف کی عزّت نہیں

مارے الٰہی شرم سون جینے میں کچھ لذت نہیں

ہر دم مجھے افسوس ہے پھیلا سراسر کفر سب

جان کفر کا سنچر ہوا واں دین کی عزت نہیں


شاعر نبی آخر ﷺکے حوالے سے کہتا ہے:

ہے مصطفیؐ کے قول میں کانون سوں دل کے سون تون

جب دور آخر آئے گا واں تب بجز ذلّت نہیں ۱۴؎


لیکن اس غزل کی زبان کی بنیاد پر اسے مشکوک بھی قرار دیا گیا ہے۔ ۱۵؎


’’مثنوی نو بہار عشق‘‘ اعزالدین خان نامیؔ کی تخلیق ہے۔ جو اصل میں نظامی کی مثنوی ’’شیریں خسرو‘‘ کا منظوم ترجمہ ہے۔ نامیؔ، عمدۃ الامراء (۱۷۹۵ء۔۱۸۰۱ء) کے دربار میں ملک الشعراء تھا۔ مثنوی میں آشوبیہ اشعار بھی پائے جاتے ہیں جن کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

عجب آیا ہے یارو اب زمانہ

کہ بیگانے سے بدتر ہے یگانہ


آگے چل کر شاعر امّت مسلمہ کی حالت کا نقشہ کچھ یوں کھینچتا ہے:

خدا اور مصطفیؐ کا کچھ نہیں ڈر

ہیں امّت سیم کی اور بندۂ زر ۱۶؎


ڈاکٹر قمقام حسین جعفری نے بے نواؔ کے مخمّس ’’در مذمت طرّہ باز خاں‘‘ کو بھی شہر آشوب کے زمرے میں رکھا ہے اور چند بند نقل کیے ہیں۔ بعض میں حوالۂ نبی کریم ﷺ موجود ہے۔ ۱۷؎


شاہ کمال الدین کمال نے آصف الدولہ کی وفات کے بعد رونما ہونے والے ابتر حالات کی عکاسی ’’مخمّس ‘‘کے عنوان سے اپنے شہر آشوب میں کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ شہر آشوب دیگر شہرآشوبوں کی طرح صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں ہے ۔لیکن ایک آدھ بند ایسا بھی ہے جس میں صرف مسلمانوں کی تباہ حالی کی عکاسی کی گئی ہے جو ذکر سرور عالمﷺ کے بغیر نہیں ہوئی:

ادھر تو قوم نصاریٰ ہے دایر و سایر

ادھر ہیں دلّی میں سکھ اور مرہٹے کافر

سوائے کفر کب اسلام سے ہیں یہ باہر

عدوئے دین محمدؐ ہیں سب پہ ہے ظاہر


جو اہل دیں تھے وہ سب ہو گئے ہیں اب بیکار ۱۸؎


میر محمد جان تخلص شاد کا ایک شہر آشوب بعنوان ’’مسدس‘‘ ڈاکٹر نعیم احمد نے اپنی کتاب’’ شہر آشوب ‘‘میں نقل کیا ہے اگرچہ شاد کا سن وفات ۱۸۹۹ء ہے لیکن اس کے شہر آشوب کو انھوں نے ۱۸۵۷ء سے پہلے کے شہر آشوبوں کے ساتھ رکھا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کے سن وفات سے قطع نظر مذکورہ شہر آشوب کا سن تصنیف جنگ آزادی سے قبل کا ہے۔ کشمیر کے پس منظر میں لکھے گئے شہر آشوب میں شاعر ساقی کوثر ﷺ سے ملتمس ہے:

میری تو دعا ہے یہی اے ساقی کوثرؐ

دایم صفتِ مہر رہے دور میں ساغر

وہ مجھ کو پلا دستِ کرم سے مے اطہر

جو بادۂ عرفاں سے لطافت میں ہو بہتر

اتنے میں تلاطم لبِ جیحوں نظر آیا

آنکھیں جو پھریں رنگ دگر گوں نظر آیا ۱۹؎


جنگ آزادی تک اردو میں ملّی شاعری کے خدو خال زیادہ واضح نہیں ہیں لیکن ڈاکٹر مظفر عباس کا کہنا ہے کہ ’’اس عہد کی شاعری میں ہم شہر آشوبوں کو بڑی حد تک قومی شاعری کے ذیل میں لاسکتے ہیں‘‘۔ ۲۰؎


(ج) ٹیپو سلطان پر لکھی گئی منظومات:

شجاعت اور دلیری میں افسانوی شہرت کے حامل ٹیپو سلطان کی پوری زندگی تھکادینے والی جدو جہد اور گوناں گوں مصائب کی لمبی داستان ہے۔ خاص طور پر تخت پر بیٹھنے کے بعد تو اس کا سارا وقت آگ اور خون سے کھیلتے گزرا۔ ۲۱؎ اٹھارویں صدی کے نصف آخر تک مغلیہ سلطنت اس قابل نہیں رہ گئی تھی کہ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدم روک سکے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشیں عروج پر تھیں۔ ٹیپو سلطان ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے بقول ’’اسلامی جاہ و جلال کے اس آخری دور میں یہ جلیل القدر سلطان بکھری ہوئی قوتوں کو جمع کرنے اور ملّت کی کتابِ نظم کے اوراق پریشان کی شیرازہ بندی کا داعیہ عظمیٰ لے کر آیا تھا‘‘۔ ۲۲؎


حقیقت یہ ہے کہ ’’دنیا کی تاریخ بمشکل ٹیپو سلطان کا نظیر پیش کر سکے گی۔۔۔ اگر زمانہ اس اولوالعزم سلطان کے ارادوں کو پورا ہونے دیتا تو آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی‘‘۔ ۲۳؎ لیکن جن حالات میں ٹیپو سلطان دشمنوں سے نبردآزما تھا’’ان حالات میں اس کی شکست ناگزیر تھی اور اس جگہ پر حیدر علی بھی ہوتا تو اسے بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑتا‘‘۔ ۲۴؎


اپنوں کی غداری اور ٹیپو سلطان کی غیر ضروری نرم دلی، جس کے باعث اس نے آستین کے سانپوں سے بار بار دھوکے کھائے، اس کی شکست کی اہم وجوہات ہیں۔ ۱۷۹۹ء میں سلطان کی شہادت کے بعد انگریز کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ ۲۵؎


ٹیپو سلطان اپنی بہادری اور ملّی تشخص کی عظیم علامت کے طور پر نہ صرف اپنے عہد کے شاعروں کا موضوع سخن بنا رہا بلکہ بعد میں آنے والے ظفر علی خان، اقبال، سیماب اکبر آبادی اور شورش کاشمیری ایسے شاعروں سے بھی خراج تحسین وصول کرتا رہا۔ ٹیپو سلطان کے دور میں قاضی غلام احمد نے، جو قاضی بھی تھے، سلطان کی مدح میں قطعہ لکھا جس میں سلطان کو دین کو روشن کرنے والا اور کفر کے زور کو توڑنے والا قرار دیا گیا ہے۔ ۲۶؎ سیّد حسین علی کرمانی المتخلّص بہ حاکم نے ٹیپو سلطان کا مرثیہ لکھا تھا۔۲۷؎ نیز سلطان نے فوجی تنظیم پر زین الدین شوستری سے ’’فتح المجاہدین‘‘ مرتب کروائی تھی۔ اس میں فوجی نغموں کا بھی ذکر تھا۔ ۲۸؎ ان کے علاوہ ۱۷۸۷ء میں حسن علی عزت نے ’’اضراب سلطانی‘‘ کے نام سے ٹیپو سلطان کا فتح نامہ مثنوی کی شکل میں لکھا تھا جس میں سلطان اور نظام اور مرہٹوں کی اتحادی افواج کے مابین لڑی جانے والی جنگوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ ۲۹؎ نظم میں جا بجا سلطان کو دین اسلام کا سچا پیروکار دکھایا گیا ہے اور ان جنگوں کو حق و باطل کی جنگوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نظم میں کہیں کہیں ذکر خیرالانام ﷺ بھی دکھائی دیتا ہے دورانِ جنگ ٹیپو سلطان اس طرح دعا مانگتا ہے:

اٹھائے تفرّع سوں منگنے دعا

کہے اے خداوندِ ارض و سما

بجز پاس دینِ رسول اِلیٰؐ

نہیں ہے مرے دل میں حرص و ہوا

بحق محمد نبی الانامؐ

بحق صحاباں و بارہ امام ۳۰؎


ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی نے کسی نامعلوم شاعر کے ’’نوحۂ ٹیپو سلطان‘‘ کا ذکر کیا ہے جس میں سلطان ٹیپو کی جنگ کو جہاد قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس نے دین احمدﷺ کے لیے اپنی جان قربان کی۔ ۳۱؎ اس نظم میں بھی ذکرِ سرورِ کونین ﷺ موجود ہے۔ نظم کا ایک بند ہے:

تاریخ تھا انیسویں ذیقعد، روز ہفت تھا

تقویم کے احوال کو آکر منجم نے کہا

تقدیر کی تحریر پر راضی ہوں ’’بولا بادشاہ‘‘

از برائے دین احمدؐ جان خود سازم فدا

ذلّت اسلام ناہووے ’’یا الہٰی درجہاں‘‘ ۳۲؎


ڈاکٹر حبیب النساء نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد لکھی گئی چند نظموں کا تذکرہ کیا ہے۔ ۳۳؎ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلطان کی شہادت کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں اس کی کتنی توقیر تھی۔ بعض عاشقانہ مثنویوں میں بھی سلطان کا ذکر ملتا ہے۔ جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی نامعلوم شاعر کی ایک مثنوی میں پورنیا کے بھائی کی بیٹی اور سیّد حسن نامی ایک مسلمان کی داستانِ عشق بیان کی گئی ہے۔ ابتدائی اشعار میں ہی سلطان کی مدح کی گئی ہے اور اسے دینِ محمد ﷺ پر نثار ہونے والا قرار دیا گیا ہے:

اے عزیزاں ٹک سنو تم یہ بیاں ہے رازدار

آفریں کہتے ملائک عرش پر صد بار بار

ملک دکن کے شہر میں کوئی ہو ایک دیندار

آج لگ سلطان ثانی نیں شہنشہ اسکے ثار

ناطمع دنیا کی راکھا دل منے دولت کا یار

پا شہادت ہوگیا دین محمدؐ پر نثار ۳۴؎


ٹیپو سلطان کے ساتھ ساتھ شاعروں نے سلطان کے والد حیدر علی کی بہادری کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ حیدرآباد کے ملک الشعراء نے حیدر علی کے خلاف مستزاد لکھا تھا۔ ۳۵؎ علی حسین نے جو دربار حیدری کا ملک الشعراء تھا اس کا جواب اسی زمین میں مستزاد سے دیا تھا۔ شاعر کے جوابی مستزاد کا عنوان ’’جواب نواب حیدر علی خان بہادر‘‘ تھا۔ آغاز میں شاعر کہتا ہے:

دے تیغ و علم فتح کیا مجھ کو مبارک

قدرت سے یکایک

مالک مرا اللہ تعالیٰ و تبارک

عزت کا اتابک


آگے چل کر شاعر حیدر علی کی زبانی فخرِ کائنات ﷺ کی یاوری کا تذکرہ بڑی عقیدت اور محبت سے کرتا ہے:

ہے سورہ اذجاء کا مرا ورد ہمیشہ

اور انّا فتحنا

یاور ہے مرا وہ شہِ طٰہٰ و تبارکؐ

صلٰوت برولک ۳۶؎


(د) تحریکِ مجاہدین:

سید احمد شہید کی برپا کردہ تحریک مجاہدین نے برعظیم پاک و ہند کے سیاسی، سماجی اور ادبی منظر نامے پر دور رس اثرات مرتب کیے اور جہاں تک اردو شاعری کا سوال ہے ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’اردو شاعری نے جس سیاسی تحریک کی ترجمانی سب سے پہلے کی وہ تحریک سیّد احمد شہید ہے‘‘۔ ۳۷؎ یہ تحریک بنیادی طور پر انگریزوں کے خلاف تھی۔ ۳۸؎ البتہ اس کا آغاز سکھوں کے خلاف جنگ سے ہوا۔ یہ تحریک اردو شاعری میں مسلم قومیت کے واضح اظہار کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ ۳۹؎ اور اس تحریک سے متاثر شاعروں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبۂ دینی کو ابھارا۔ ۴۰؎ سیّد احمد شہید پہلے نواب امیر خان کے لشکر میں شامل تھے لیکن جب نواب نے انگریزوں سے ربط ضبط پیدا کیا تو سیّد صاحب ان سے الگ ہوگئے۔ ۴۱؎ جہاد کا باقاعدہ سلسلہ سیّد احمد شہید نے اس کے بعد ہی شروع کیا تھا۔ لیکن شیخ محمد اکرام کا کہنا ہے کہ ’’سید صاحب کی خواہشِ جہاد فی سبیل اللہ شروع سے تھی‘‘۔ ۴۲؎ پشاور کی فتح مجاہدین کی بڑی کامیابی تھی لیکن بعد میں مجاہدین کی بعض غلطیوں اور اپنوں کی غداریوں کے باعث بالا کوٹ کے مقام پر جنگ میں مجاہدین کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا اور سیّد احمد شہید اپنے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے۔ ۴۳؎


سید احمد شہید کی تحریک کے تباہ کن انجام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غلط اندیشی پر مبنی تھی یا اسے حمایت حاصل نہیں تھی۔ ۴۴؎ حقیقت یہ ہے کہ ’’یہ پہلی عوامی تحریک تھی جو سیاسی فرض کے شعور سے پیدا ہوئی تھی‘‘۔ ۴۵؎ اور اس کا مقصد اپنے ہم مذہبوں کو سکھوں کی غلامی اور ظلم و ستم سے نجات دلانا تھا اور اہم بات یہ کہ ’’اس کو ایک قوم چلا رہی تھی کوئی ریاست یا فرماں روا نہیں چلا رہا تھا‘‘۔ ۴۶؎ مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نزدیک آخری صدیوں میں کوئی تحریک، تحریک احیائے سنّت و جہاد سے زیادہ وسیع اور منظّم نظر نہیں آتی اور ہندوستان کی تمام اصلاحی اور سیاسی تحریکیں سیّد احمد شہید کی تحریک سے متاثر ہیں۔ ۴۷؎ اور یہ کہ ’’برصغیر میں موجود اسلامی زندگی، مذہبی اصلاح، مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور ملک میں مسلمانوں کے وجود کی اہمیت اور ان کا سیاسی وزن بڑی حدتک اسی طویل جہاد کا رہین منت ہے‘‘۔ ۴۸؎ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا خیال درست ہے کہ ’’مجاہدین اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کرسکے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ناکامی ناگزیر تھی مگر وہ اپنے نقشِ قدم پر چلنے کے شوق فراواں کی ایک شمع مسلمانوں کے دلوں میں روشن کر گئے‘‘۔ ۴۹؎


اس تحریک نے عوام میں جو جوش و خروش اور ولولہ پیدا کیا اس سے شاعروں کا بھی متاثر ہونا ناگزیر تھا۔ انھوں نے جو جہادیہ نظمیں لکھیں وہ اردو کی قومی اور ملّی شاعری کا اہم ستون ثابت ہوئیں اور آنے والے دنوں میں نہ صرف تحریکِ جہاد بلکہ جہادیہ نظمیں بھی شاعروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئیں۔ ۵۰؎ اسی لیے اس بات میں خاصا وزن ہے کہ ’’ہمارے ادب میں افادیت اور مقصدیت کی ابتدا علی گڑھ تحریک سے پہلے ہی ہوگئی تھی‘‘۔ ۵۱؎ تاہم یہ صحیح ہے کہ اس تحریک نے بڑا ادب پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اس ادب میں وسعت ہے۔ ۵۲؎ اور سوائے مومنؔ کے کوئی بڑا شاعر اس تحریک سے متعلق بھی نہیں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ خواجہ منظور حسین نے ذوق، مومن، آتش، غالب، شیفتہ اور ناسخ کے بے شمار اشعار کا تعلق تحریکِ جہاد سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ۵۳؎ اور متعدد تراکیب و اشارات کا مشارٌ الیہ سیّد احمد شہید اور ان کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے۔ بلاشبہ چند مثالیں صحیح بھی ہیں (مثلاً مومنؔ جن کا ذکر آگے آرہا ہے) لیکن زیادہ تر مقامات پر ناقابلِ فہم تاویلات کا سہارا لیا گیا ہے اور غالب تک کے متعدد ایسے اشعار کو تحریک جہاد سے منسلک کردیا گیا ہے۔ جن کے اس پہلو کے بارے میں شارحینِ غالب بالعموم خاموش ہیں اور کسی کو بھی ان اشعار کی تحریک جہاد سے وابستگی کا علم نہیں ہوسکا۔


ڈاکٹر معین الدین عقیل کا کہنا ہے کہ ’’مومنؔ کے کلام میں اس تحریک کے اثرات بہت نمایاں اور واضح ہیں‘‘۔ ۵۴؎ دیگر منظومات سے قطع نظر ان کی غزلوں میں بھی ایسے اشعار مل جاتے ہیں جن میں رمز و کنایہ کا بھی پردہ نہیں رکھا گیا اور صاف صاف اس تحریک سے وابستگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مومن کے دیوان کی پہلی ہی غزل اس بات کی شاہد ہے جس کا مطلع ہے:

نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہر و حدت کا

کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا


اور مقطع ہے:

زمانہ مہدیٔ موعود کا پایا اگر مومن

تو سب سے پہلے تُو کہیو سلام پاک حضرت کا


اس غزل میں نعتیہ اشعار بھی نظر آتے ہیں:

مرا جوہر ہو سر تا پا صفائے مہرِ پیغمبرؐ

مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سنّت کا

نہ رکھ بیگانۂ مہر امام اقتدا سنّت

کہ انکار آشنائے کفر ہے اس کی امامت کا ۵۵؎


مومن نے ایک قطعۂ تاریخ سیّد احمد شہید کی جہاد کے لیے روانگی کے وقت لکھا تھا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

گلاب ناب سے دھوتا ہوں مغز اندیشہ

کہ فکرِ مدحتِ سبطِ قسیمِ کوثرؐ ہے


اور دوسرا شعر ہے:

وہ کون امامِ جہان و جہانیاں احمد

کہ محض مقتدیٔ سنتِ پیغمبرؐ ہے ۵۶؎


مومنؔ تحریک مجاہدین کے ہم نوا ہی نہیں بلکہ جہاد کی آرزو بھی رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نے جہادیہ مثنوی لکھ کر کیا:

پلا مجھ کو ساقی شراب طہور

کہ اعضا شکن ہے خمار فجور

کوئی جرعہ دے دیں فزا جام کا

کہ آجائے بس نشّہ اسلام کا


آخری اشعار میں اپنی تمنّا کا اظہار کرتے ہیں:

یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں

مری جاں فدا ہو تری راہ میں

میں گنجِ شہیداں میں مسرور ہوں

اسی فوج کے ساتھ محشور ہوں ۵۷؎


اس مثنوی میں کئی اشعار ہیں جن میں نعتیہ عناصر موجود ہیں مثلاً اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مومنؔ کہتے ہیں:

بہت کوشش و جاں نثاری کروں

کہ شرعِ پیمبرؐ کو جاری کروں


آگے چل کر سیّد احمد شہید کی توصیف میں کہتے ہیں:

وہ خضر طریق رسول خداؐ

کہ جو پیرو اس کا ہے سو پیشوا

زہے سیّد احمد قبول خدا

سرِ امّتانِ رسول خداؐ

حبیبِ حبیبِ خداوندؐ ہے

خدا وند اس سے رضا مند ہے ۵۸؎


غالباً اسی مثنوی کی بنیاد پر ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی نے شیخ محمد اکرام کی ہم نوائی میں مومنؔ کو پہلا قومی شاعر قرار دیا ہے۔ ۵۹؎ شیخ اکرام کی اصل عبارت اس طرح ہے:


’’مولانا سیّد احمد بریلوی نے پہلی دفعہ مسلمانان ہند کو دوسری قوموں کے مقابلے میں من حیث الجماعت مجتمع کیا اور ان کے ایک طبقہ کو مذہبی آزادی دلانے کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ تو یہ ماننا پڑے گا کہ مسلمانان ہند کی جداگانہ قومیت کا اظہار سب سے پہلے انہوں نے کیا۔ اس صورت میں مومنؔ کو مسلمانان ہند کا پہلا قومی شاعر ماننا پڑے گا۔ کیونکہ اس نے مولانا سیّد احمد کے خیالات کی ترجمانی اسی طرح کی جس طرح بعد میں علی گڑھ تحریک کی حالی نے‘‘۔ ۶۰؎


تاہم یہ استدلال درست نہیں ہے کیوں کہ اول تو جس قسم کی قومی شاعری کا ذکر کیا گیا ہے اس قسم کی قومی (ملّی) شاعری مومنؔ سے بہت پہلے کی جاچکی تھی۔ صرف جنگ تالیکوٹ یا تلی کوٹہ (۱۵۶۴ء) کی مثال کافی ہے جس جنگ کو شاعر حسن شوقی نے کئی جگہ کفر اور اسلام کی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ محض ایک مثنوی، چند قطعات اور اشعار کی بنا پر مومنؔ کو قومی شاعر کا درجہ دینا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ ملّی/قومی شاعر ایسے شاعر کو کہا جا سکتا ہے جس کی شاعری میں غالب مقدار میں نہ سہی لیکن قابلِ ذکر اور قابلِ لحاظ مقدار میں ملّی شاعری موجود ہو۔ لہٰذا یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مومنؔ کے ہاں اپنے معاصر شعراء کی نسبت ملّی شعور نسبتاً زیادہ نظر آتا ہے۔ لیکن اوّلین قومی شاعر کے اعزاز کے حق دار بہرحال الطاف حسین حالیؔ ہی ہیں۔ کیوں کہ جس طرح اقبال کے کلام میں ظریفانہ اشعار کی موجودگی کے باعث اسے مزاحیہ شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح مومنؔ کے ہاں بھی ملّی اشعار کی موجودگی اسے ملّی/قومی شاعر قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔


تحریکِ مجاہدین سے وابستہ شعراء میں ایک نام مولوی خرم علی بلہوری کا نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک رزمیہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی تھی جو دوران جنگ پڑھی جاتی تھی۔ ۶۱؎ یہی نظم غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ’’سید احمد شہید‘‘ جلد دوم میں بطور ضمیمہ کسی نا معلوم شاعر کے حوالے سے نقل کی ہے۔ ۶۲؎ لیکن ’’نشید حریت‘‘ میں اس نظم کے شاعر کا نام سہواً مولوی لیاقت اللہ درج ہوگیا ہے۔ ۶۳؎ اسی سہو کا ارتکاب ڈاکٹر مظفر عباس سے بھی ہوا ہے۔ ۶۴؎ مولوی محمد جعفر تھانیسری کے مطابق یہ نظم ’’ستاون اشعار پر مشتمل ہے جو خرم علی بلہوری(م۱۸۵۶ء) کی تصنیف ہے‘‘۔ ۶۵؎ اس جہادیہ نظم میں مسلمانوں کو کفر کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے کی تلقین کی گئی ہے اور شہادت کی صورت میں جنّت الفردوس کی بشارت دی گئی ہے۔ ان نظم میں جگہ جگہ حضور سرورِ کائنات ﷺ کے حوالے سے مسلمانوں کو غیرت دلائی گئی ہے اور انھیں جہاد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظم کا آغاز ہی حمد و نعت سے ہوتا ہے:

بعد تحمیدِ خدا، نعت رسولِ اکرمؐ

یہ رسالہ ہے جہادیہ کہ لکھتا ہے قلم

واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طمع بلاد

اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد


مزید اشعار میں بھی نعتیہ پہلو موجود ہیں مثلاً:

اے برادر تو حدیث نبویؐ کو سن لے

باغ فردوس ہے تلواروں کے سائے کے تلے

تھے مسلمان پریشان بغیر از سردار

ہوا سردار ہے از آلِ رسولِ مختارؐ

گر رہ حق میں نہ دی جان تو پچھتاؤ گے

اور پیمبرؐ کو یہ منہ کیا بھلا دکھلاؤ گے

خوب اللہ و محمدؐ کو جو پہچانتے ہیں

اپنے سردار کے کہنے کو بہ دل مانتے ہیں ۶۶؎


سیّد احمد شہید کی حج سے واپسی پر سیّد صاحب اور ان کے ساتھیوں کی شان میں مولانا سیّد ابوالحسن نے، جو حسن تخلص کرتے تھے ایک قصیدہ کہا جس کا مطلع ہے:

ہے گا اس نور سے پُر گنبدِ چرخ اصغر

جس کے لمعان سے ہے کند فرشتوں کی نظر


قصیدے میں کئی مقامات پر نعتیہ عناصر ملتے ہیں مثلاً سیّد احمد کی شان میں شاعر کہتا ہے:

بحر جود و کرم و گلشنِ عرفانِ نبیؐ

مشعلِ راہِ طریقت، بحقیقت رہبر

طور اور طرز میں سب طینت اصحابِ نبیؐ

قاف سے راہِ شریعت میں ہے مستحکم تر

سیّد احمد و عالی حسب و فخرِ زماں

رہبرِ راہ شریعت، خلفِ پیغمبرؐ

ہوتا معصوم اگر بعد نبیؐ کے کوئی

ہوتی اس عصر میں عصمت بھی اسی کے اندر


سیّد صاحب کے ساتھیوں کو شاعر نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا:

ان میں ہر اک ہے فرید اور وحید آواں

حافظ و عالم و عادل، سخی و نیک نظر

ظاہر آراستہ بر ملّت بیضائے نبیؐ

باطن اس طور کا پاکیزہ، ہو جیسا گوہر ۶۷؎


سیّد عبدالرزاق حسینی سیّد صاحب کے عقیدت مند تھے اور کلامی تخلص کرتے تھے۔ وہ سیّد احمد کی شان میں کہتے ہیں:

قلم کو ہیں میرے ہزار افتخار

کہ لکھتا ہے وصف شہ نامدار

وہ تھے نور چشم امام رسلؐ

وہ تھے عاشق خالق جز و کل

وہ تھے اہل حق اور فنافی الرسولؐ

گریزاں تھے ان سے ظلوم و جہول ۶۸؎


شاہ اسماعیل شہید کے لیے مولوی محمد حسین فقیر نے ایک قصیدہ لکھا تھا۔ اس قصیدے کے بھی چند اشعار میں سرکار دو عالم ﷺ کا حوالہ موجود ہے۔ مثلاً:

اس قدر علم احادیث رسول حقؐ تھا

نائب ختم رسلؐ ان کی مناسب ہے صفت

جب حدیث نبویؐ کا وہ بیاں کرتے تھے

ہوتا تھا خلق سے معدوم حدوث بدعت

ہر جگہ دین محمدؐ کا رواج ان سے ہوا

ظلمت دہر میں روشن ہوا نور سنّت ۶۹؎


قائم خاں قائم تحریکِ مجاہدین کا ایک غیر معروف شاعر گزرا ہے۔ جس کا ایک ضخیم دیوان ’’دیوانِ قائم‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ ۷۰؎ قائم کو سیّد احمد شہید سے بے پناہ عقیدت تھی جس کا اظہار وہ جا بجا کرتا ہے۔ کئی اشعار میں بلاواسطہ اور بالواسطہ نعتیہ عناصر نظر آتے ہیں۔

’’قصیدہ در شان جناب پیر دستگیر قدس سرہ العزیز جناب سیّد احمد صاحب‘‘ کا آغاز اس طرح کیا ہے:

کہاں تک شکر ہو بندے سے ذاتِ کبریائی کا

کہ وہ معبودِ حق سلطان ہے ہر دو سرائی کا


آگے چل کر کہتا ہے:

کیا محبوبؐ پیدا اس نے اپنا، اپنی رحمت سے

عنایت سے لقب بخشا اُسے ہے مصطفائی کا

گناہ گارانِ امّت کے جو ہیں بس واسطے سب کے

کریں گے معاملہ عقبیٰ میں وہ مشکل کشائی کا

گناہوں کے پھنسا ہے دام میں قائم کہے کیا اب

توقع ہے انہیؐ کی ذات سے یارو رہائی کا

کیا آل نبیؐ سے ملک روشن حق تعالیٰ نے

سمجھتا بھید ہے وہ آپ ہی اپنی خدائی کا

غلام احمدؐ کا ہوں میں اور جنابِ سیّد احمد کا

مجھے ہے داعیہ بس جان و دل سے خاکپائی کا

امیر المومنین اس دور میں حق نے کیا ان کو

نبیؐ کے دین میں پایا ہے درجہ کیا بڑائی کا

تھا خورشیدِ سعادت ماہتاب احمدی تھا وہ

چمک سے جس کی ہے عالم میں جلوہ روشنائی کا ۷۱؎


ایک مثنوی میں سیّد احمد شہید کی توصیف میں کہتے ہیں:

میں قربان ہوں اے خدا تجھ اوپر

کہ امّت نبیؐ میں ہیں ایسے بشر

ہوئے وہ شہادت سے پھر کامیاب

نبیؐ کے ہوئے دین میں آفتاب

نبیؐ کی جو ادنیٰ سی اک بات ہے

وہ سب مرسلوں کی کرامات ہے۔ ۷۲؎


تحریک جہاد سے متاثر شعراء کی انھی منظومات کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر نجم الاسلام کا کہنا ہے کہ ’’ملّی شاعری جس کی ابتدا مسدّس حالی سے خیال کی جاتی ہے در حقیقت اس تحریک کے کارکن اور حامی شعراء سے شروع ہوئی ہے‘‘۔ ۷۳؎ تاہم جیسا کہ پہلے مذکور ہوا یہ خیال درست نہیں ہے اور ملّی شاعری کا سراغ اس سے بھی قدیم دور میں ملتا ہے۔


(ہ) واقعۂ ہنومان گڑھی:

شاہِ اودھ نواب واجد علی شاہ کے دور میں مسجد ہنو مان گڑھی کا واقعہ پیش آیا۔ اجودھیا میں قائم چار مساجد میں سے ایک مسجدِ عالمگیری کی متعلقہ زمین پر ہندوؤں نے ایک کوٹھڑی بنا کر اس میں ہنو مان کی مورتی رکھ لی اور اس کا نام ہنومان بیٹھک رکھ دیا۔ بعد میں ملحقہ زمین پر چار دیواری قائم کر کے قلعہ بنا لیا اور اس کا نام ہنومان گڑھی رکھا۔ ۷۴؎ بقیہ مساجد میں سے قلعے کی مسجد پہلے سے ہی بند تھی، بابری مسجد میں بُت خانہ قائم کردیا گیا اور فدائی خاں کی مسجد کو بھی خراب کیا۔ ۱۲۷۱ھ میں شاہ غلام حسین نے مولوی محمد صالح کی مدد سے اجودھیا کی مساجد کو ہندوؤں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کا اعلان کردیا۔ واجد علی شاہ نے تحقیقات کروائیں۔ ۷۵؎ انگریز بھی بیچ میں پڑے مگر عیاری سے شاہ غلام حسین اور ان کے ساتھیوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ہندوؤں نے اچانک حملہ کر کے شاہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔ بعد میں مولوی امیر الدین علی نے جہاد کی قیادت سنبھالی اور نواب واجد علی شاہ کے دربار میں مولوی برہان الحق، مولوی عبدالرزاق اور مولوی تراب علی کو ایک منظوم عرض داشت کے ساتھ روانہ کیا۔ ۷۶؎


مثنوی کی ہیئت میں یہ نظم سراسر مخصوص ملّی عصبیت کے تحت لکھی گئی ہے۔ جا بجا کفّار کی نا انصافیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نیز جہاد کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ہے۔ نظم میں سرکار دو عالم ﷺ کے مبارک حوالے سے کئی اشعار ہیں۔ شاعر اپنی عرضی کے آغاز میں کہتا ہے:

سپاس و حمد بدرگاہِ خالق کونین

سلامِ حضرتِ باریٔ سیّد الثقلینؐ

درود حضرتِ حق بر رسولِ عالی جاہؐ

بر آلِ اطہر و اصحاب آں رسول اللہؐ


شاعر اپنی عرض داشت کو ’’اشتہارِ جہادیہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:

یہ اشتہار جہادیہ کردیا ارقام

با طلاع تمامی امم رسولِ کرامؐ


صورتِ حال کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے:

اب اس زمانے میں افسوس و آہ و واویلا

ہوا ہے از سرِ نو اہلِ دیں کو رنج و بلا

کہ کافرانِ اودھ نے زراہِ ظلم و عناد

کیا ہے لشکرِ اسلام سے کمالِ فساد

انھی کے ظلم سے پارہ ہوا کلامِ مجید

انھی کے مکر سے مومن ہوئے اودھ میں شہید


واجد علی شاہ کی تعریف و توصیف بھی ذکر سرورِ عالم ﷺ کے بغیر نہیں کی گئی:

جنابِ قبلہ و کعبہ ہیں مجتہد اسلام

ز آلِ احمدِ مختارؐ شاہِ خیرِ انامؐ


شاعر اپنے تعارف میں خود کو بھی نبی کریم ﷺ کی شریعت کا خادم قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:

غریب و بے کس و مسکین و با دل غمگین

محب آلِ نبیؐ عبدہ امیر الدین

اٹھا ہے خادمِ شرع رسولِ والا جاہؐ

بپاس اشہد ان لّا الٰہ الّا اللّٰہ


حتیٰ کہ نظم کا خاتمہ بھی سیدالکونین ﷺ کے ذکر مبارک کے ساتھ کیا گیا ہے:

بپاس دین رسالت پناہ صلّ علیٰ

کہ فرض عین ہے مقہور کردن اعدا

روانہ ہووے گا شنبے کو لشکرِ اسلام

برائے غارت و تاراج شہر لچھمن و رام ۷۷؎


جنگ آزادی سے قبل کی گئی ملّی شاعری کی ان چند مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملّی شاعری، خواہ کسی جنگ کی روداد کی صورت میں ہو یا کسی تحریک کے احوال پر مشتمل ہو، شہر آشوب کی شکل میں ہو، کسی شخصیت کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہو یا کسی مخصوص واقعے کے پس منظر میں ہو، سرکارِ دو عالم ﷺ کے حوالے کے بغیر نہیں ہوئی ہے اور ایسا ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ ہر قسم کی لسانی ،قبائلی،علاقائی اورنسلی بنیادوں سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف کلمہ ٔ طیّبہ کی بنیاد پر ایک ملّت کاتصور صرف اور صرف صاحب ملّت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی عطا ہے۔ اسی لیے ہر قسم کی ملّی شاعری میں جگہ جگہ نعتیہ عناصر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں اور ہنگامی اور وقتی نوعیت کی منظومات بھی نعتیہ موضوعات سے تہی دامن نہیں ہیں۔


حواشی و کتابیات



۱۔ جالبی، جمیل ،ڈاکٹر، ۱۹۷۰ء، مقدمہ،فتح نامہ نظام شاہ، از حسن شوقی، مشمولہ: سہ ماہی ،’’اردو‘‘ (کراچی)، شمارہ ۳۔۴

۲۔ ایضاً، ص ۲۳

۳۔ ایضاً،ص ۷۳۔ ۱۱۸

۴۔ نیر، طاہرہ، ڈاکٹر، ۱۹۹۹ء، اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، بار اوّل، ص ۵۸

۵۔ قلی، قطب شاہ، محمد، ۱۹۸۵ء، کلیات محمد قلی قطب شاہ، مرتب، ڈاکٹر سیدہ جعفر، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، بار اوّل، ص ۳۱

۶۔ بحری، قاضی محمود، ۱۹۵۵ء، مثنوی من لگن، مرتب، محمد سخاوت مرزا، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، ص ۲۰

۷۔ شیرانی، حافظ محمود، ۱۹۶۶ء، مقالاتِ شیرانی(جلد دوم)، مرتب، مظہر محمود شیرانی، مجلس ترقی ادب، لاہور، بار اوّل، ص ۱۳۰۔ ۱۳۴

۸۔ ایضاً

۹۔ قائم چاند پوری، ۱۹۶۵ء، کلیات قائم، مرتب اقتدا حسن، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص ۶۶۔۶۷

۱۰۔ ایضاً

۱۱۔ جعفری، سیّد قمقام حسین، ۱۹۷۷ء، اردو میں شہر آشوب، مشمولہ: سہ ماہی ،’’اردو‘‘(کراچی)، شمارہ ۱، ص ۱۸۲

۱۲۔ ایضاً، ص ۱۶۵۔ ۱۶۷

۱۳۔ ایضاً، ص ۱۶۰

۱۴۔ ایضاً، ص ۱۶۰۔ ۱۶۱

۱۵۔ اردو (سہ ماہی)، پہلا شمارہ ۱۹۷۷ء، ص ۱۶۰

۱۶۔ جعفری، سیّد قمقام حسین، محوّلہ بالا، ص ۱۷۷۔ ۱۷۸

۱۷۔ ایضاً، ص ۱۸۵۔ ۱۸۶

۱۸۔ احمد، نعیم، ڈاکٹر (مرتب)، ۱۹۶۸ء، شہر آشوب، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، بار اوّل، ص ۱۰۰

۱۹۔ ایضاً، ص ۱۹۹

۲۰۔ عباس، مظفر، ڈاکٹر، ۱۹۷۸ء، اردو میں قومی شاعری، مکتبہ عالیہ، لاہور، ص ۴۹

۲۱۔ بٹ، عبداللہ (مرتب)، ۱۹۶۳ء، ٹیپو سلطان، قومی کتب خانہ، لاہور، بار چہارم، ص ۳۶

۲۲۔عبدا للہ، سید، ڈاکٹر، ۱۹۶۳ء، ٹیپو سلطان کا کتب خانہ، مشمولہ: ’’ٹیپو سلطان‘‘، مرتب، عبداللہ بٹ، قومی کتب خانہ، لاہور، بار چہارم، ص۹۹

۲۳۔ محمود بنگلوری، محمود خان، ۱۹۸۷ء تاریخ سلطنت خداداد میسور، مکتبہ عالیہ، لاہور، اشاعتِ نو، ص ۱۵

۲۴۔ محب الحسن، ۱۹۸۲ء تاریخ ٹیپو سلطان، مترجمین، حامد اللہ افسر و عتیق صدیقی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، بار اوّل، ص ۵۲۵

۲۵۔ ندوی، محمد الیاس، ۱۹۹۷ء، سیرت سلطان ٹیپو، مجلس نشریات اسلام، کراچی، ص ۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۶۔ ہاشمی، نصیر الدین، ۱۹۶۴ء، ٹیپو سلطان کی علمی اور سماجی خدمات، مشمولہ:’’بصائر‘‘(ٹیپو سلطان نمبر)،کراچی، ص ۳۱۴

۲۷۔ عقیل، معین الدین، ڈاکٹر، ، ۲۰۰۸ء، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، مجلس ترقی ادب لاہور، بار اوّل، ص ۸۰

۲۸۔ ایضاً؛ مذکورہ کتاب کو ڈاکٹر محمود حسین نے ترتیب دے کر ۱۹۵۰ء میں شائع کیا۔

۲۹۔ مذکورہ مثنوی کو ’’فتح نامہ ٹیپو سلطان‘‘ کے نام سے ڈاکٹر معین الدین عقیل نے مرتب کیا اور ’’الوقار‘‘ نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا۔

۳۰۔ عزت، حسن علی، ۱۹۹۹ء، فتح نامہ ٹیپو سلطان(اضراب سلطانی)، مرتب، ڈاکٹر معین الدین عقیل، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ص ۱۰۶۔ ۱۰۷

۳۱۔ ۱۹۷۵ء، اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر، ادبی پبلشرز، کراچی، ص ۱۷۲

۳۲۔ ایضاً

۳۳۔ ۱۹۶۲ء، ریاست میسور میں اردو کی نشو و نما، برقی اردو پریس، بنگلور، بار اوّل، ص ۱۴۳

۳۴۔ ایضاً

۳۵۔ محمود بنگلوری، محمود خاں، محوّلہ بالا، ص ۳۲۵

۳۶۔ ایضاً

۳۷۔ اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر، ص ۲۴۷

۳۸۔ ایضاً، ص ۲۴۸

۳۹۔ نیّر، طاہرہ، ڈاکٹر، محوّلہ بالا، ص ۷۰

۴۰۔ ایضاً

۴۱۔ مہر،غلام رسول،مولا نا، ۱۹۸۱ء، سید احمد شہید(جلد دوم)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، بار سوم، ص ۱۰۶

۴۲۔ ۱۹۶۶ء، موج کوثر، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، ساتویں بار، ص ۲۱

۴۳۔ ایضاً، ص ۳۲

۴۴۔ قریشی، اشتیاق حسین، ڈاکٹر، ۱۹۸۹ء، برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ، مترجم، ہلال زبیری، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونیورسٹی، بار چہارم، ص ۲۶۰

۴۵۔ ایضاً، ص ۲۶۳

۴۶۔ ایضاً

۴۷۔ ۱۹۵۸ء، سیرت سید احمد شہید(حصہ اوّل)، خواجہ بک ڈپو لاہور، بار چہارم، ص ۲۷

۴۸۔ ایضاً

۴۹۔ محولہ بالا، ص ۲۶۳

۵۰۔ محمود الرحمٰن، ڈاکٹر، ۱۹۸۶ء، جنگ آزادی کے اردو شعراء، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد، بار اوّل، ص ۹۳

۵۱۔ کشفی، سیّد محمد ابوالخیر، ڈاکٹر، محوّلہ بالا، ص ۲۴۸

۵۲۔ ایضاً

۵۳۔ دیکھیے :حسین، خواجہ منظور، ۱۹۷۸ء، تحریک جدو جہاد بطور موضوع سخن، نیشنل بک فاؤنڈیشن، لاہور، بار اوّل

۵۴۔ محولہ بالا، ص ۱۲۶

۵۵۔ ۱۹۶۴ء، کلّیات مومن، مرتب، کلب علی خاں فائق، مجلس ترقی ادب، لاہور، بار اوّل، ص ۳

۵۶۔ ایضاً (جلد دوم)، ص ۱۰۸

۵۷۔ ایضاً، ص ۴۳۳۔ ۴۳۶

۵۸۔ ایضاً، ص ۴۳۳۔ ۴۳۵

۵۹۔ محوّلہ بالا، ص۲۱۷

۶۰۔ موج کوثر، ص ۴۲۔ ۴۳ (دیباچے کے مطابق قیام پاکستان کے بعد کی اشاعت)، واضح رہے کہ موج کوثرکی مذکورہ عبارت کا حوالہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے بھی مومن اور مطالعۂ مومن (ص ۳۴۷۔ ۳۴۸) میں دیا ہے لیکن موج کوثرکی بعد کی اشاعتوں میں مومن کا ذکربالکل حذف کر دیا گیا ہے۔

۶۱۔ ندوی، ابوالحسن علی، مولانا، محوّلہ بالا، ص ۲۷۰۔ ۲۷۲

۶۲۔ ص ۶۳۷۔ ۶۳۹

۶۳۔ حقی، شان الحق (مرتب)، ۱۹۶۴ء،ادارہ مطبوعات پاکستان، کراچی، بار دوم، ص ۴۷

۶۴۔ اردو میں قومی شاعری، ص ۸۶

۶۵۔ ۱۹۶۲ء،تواریخ عجیب المعروف بہ کالا پانی، مرتب، محمد ایوب قادری، سلمان اکیڈمی، کراچی، اشاعتِ نو، ص ۲۴۶

۶۶۔ ندوی، ابوالحسن علی، مولانا، محوّلہ بالا، ص ۲۷۰۔ ۲۷۲

۶۷۔ ایضاً، ص ۳۴۳۔ ۳۴۷

۶۸۔ مہر، غلام رسول، مولانا، ۱۹۵۵ء، جماعت مجاہدین (جلد سوم)، کتاب منزل، لاہور، ص ۱۰۱

۶۹۔ ایضاً، ص ۳۱۷

۷۰۔ مذکورہ ناقص الآخر دیوان ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے۔

۷۱۔ عقیل، معین الدین، ڈاکٹر، ۱۹۹۷ء، نوادراتِ ادب، الوقار پبلی کیشنز لاہور، بار اوّل، ص ۱۶۸۔ ۱۷۲

۷۲۔ ایضاً، ص ۱۷۲۔ ۱۷۴

۷۳۔ س ن، اردو ادب پر تحریکات اسلامی کے اثرات، مشمولہ: ’’چراغِ راہ‘‘ ( تحریک اسلامی نمبر)، کراچی، ص ۲۶۹

۷۴۔ قادری، محمد ایوب، پروفیسر، ۱۹۷۶ء،جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء (واقعات و شخصیات)، پاک اکیڈمی، کراچی، ص ۹۳۔ ۱۰۳


مزید دیکھیے: جعفری، رئیس احمد،واجد علی شاہ اور ان کا عہد

نجم الغنی خان، محمد، حکیم،تاریخ اودھ (جلد پنجم)

۷۵۔ قادری، محمد ایوب، پروفیسر، محوّلہ بالا

۷۶۔ ایضاً

۷۷۔ نجم الغنی خان، محمد، ۱۹۱۹ء، تاریخِ اودھ(حصہ پنجم)، نول کشور، لکھنؤ، ص ۲۱۳۔ ۲۱۷

٭٭٭