انشاکی نعتیہ شاعری ،- ڈاکٹر تقی عابدی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

ABSTRACT

Dr. Syed Taqi Aabdi has dug out hidden treasure of Naatia Poetry done by renowned Urdu Poet Insha Allah Khan Insha after a long period of about 200 years (Insha died in 1817 A.D.). Insha Allah Khan was not just a one track-minded creator. He left his prints in linguistics, Poetry in different forms, Story writing as well as in Naat writing. One Naat composed by him has everlasting impact on devotional poetry and usually been recited in sessions by Naat Khwans i.e. Sall-e-Ala Nabiyenaa, Sall-e-ala Muhammadin. Some couplets of Persian Naats have also been quoted in this article. The article may inspires scholars for further research in this field.

ڈاکٹرسید تقیؔ عابدی۔کینیڈا

انشا ؔ کی نعتیہ شاعری

انشاؔ اللہ خان انشاؔ کی نعتیہ شاعری سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انشاؔ کانعتیہ کلام رسالوں ،جریدوں اوراخباروں میں شائع نہیں ہوتا جب کہ بعض ایسے شعرا کی نعتیں مسلسل چھاپی جاتی ہیں جنھوں نے مشکل سے ایک آدھ نعت کہی ہے۔انشاؔ کازیادہ تر کلام تلف ہو گیا لیکن جو اُردو اور فارسی کلام ان کے کلیات کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے تقریباً ساڑے آٹھ ہزار اشعار پر مستمل ہے جس میں تین نعتیۂ مخمّس ،نعتےۂ غزل ،کئی نعتیہ رباعیات اور چیدہ چیدہ نعتیۂ اشعارشامل ہیں جن کی مجموعی تعداد دوسو شعروں کے لگ بھگ ہے ۔تقریباً بیس (۲۰) پچیس(۲۵) اشعار فارسی اور عربی اور باقی اُردو زبان میں ہیں۔چونکہ نعت عربی ،فارسی اور اُردو شاعری کا اہم موضوعی صنف سخن سمجھی جاتی ہے اس لیے نعت شاعری کی تقریباً ہر صنف یعنی دوہے،مثلث،ہائیکو ،قطعہ ،رباعی ،نظم ،غزل ،قصیدہ، مثنوی، مخمّس،مسدّس ترجیع وترکیب بند میں رقم کی گئی اور ہرصنف سخن میں توصیف وتعریف اور تجلیلِ حضوراکرمؐ کی گئی ۔اُردو شاعری کی ابتدا کو اگر امیر خسروؔ سے منسوب کریں توخسروؔ وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ہندوی میں نعت کہی جس کوڈاکٹر اسپرانگر نے ۱۸۵۲ء میں اپنے مضمون میں داخل کیا۔یہاں نعت پہیلی کی شکل میں ہے ۔

اک پرکھ ہے دی سنوارا

دنیا کا نشان ہارا

واکے چرنوں لاگ رہو

زیادہ بچن نہ منہ سے کہو

اُردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمدقلی قلبؔ شاہ متوفی ۱۰۲۰ء ھجری جس کا دیوان پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے صدہانعتیہ اشعار سے مزیّن ہے۔اگرچہ صرف پانچ نظموں کا عنوان نعت ہے لیکن چودہ پندرہ نظمیں میلاد النبیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور معراج جیسے عنوانات کے تحت نعتیہ مضامین سے بھری ہیں۔یہاں ان مطالب کو کہنے کا مقصدیہ ہے کہ تقریباً اُردو کے ہر عظیم شاعر نے اپنی اپنی ہمّت اورصلاحیت کے لحاظ سے دربار نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلممیں نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔انشاؔ کی شاعری کی عمر اب دوسوسال سے زیادہ ہے۔انشاؔ کی شاعری کے دور میں بعض عظیم شعرا عشق مجازی اورعشق حقیقی کے ایوان تعمیر کررہے تھے تو بعض معمولی شعرا اپنی چوما چاٹی کی شاعری میں سرگرم تھے۔ایسے منقلب دو بُعدی دور میں نعتیہ شاعری برائے ثواب دارین کی جاتی تھی اِسی لیے اس دور کی نعتیں اور دوسری مذہبی شاعری عموماً عقیدتی لحاظ سے قوی اور فنّی لحاظ سے ضعیف تھی لیکن اس دور میں بھی نامور شعرا جیسے سوداؔ ،میرؔ ،مصحفیؔ اور انشاؔ نے ارسال مضمون کے ساتھ ساتھ فنی پختگی کوضروری جانا۔

انشاؔ کی نعتیہ شاعری کاسرسری جائزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اُن کے اشعار حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے جمال ، جلال، کمال‘ خصال کے اوصاف اور اقدار سے لبریز ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی آل سے لے کر بلال تک کی عکاسّی ان کے شعروں میں نظرآتی ہے ۔کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے شمائل ،فضائل اور خصائل کاحسن بیان ہے توکہیں شفاعت کی امید،کہیں دیار مدینہ کے دیدار کی تمنّا توکہیں عرفان ،تصوف اور قلندری کی جھلک اور پھر ان مضامین کے ساتھ ساتھ جدّت نگاری ،سلیس وسادہ بیانی،شگفتگی اور تازگی ان کی قادرالکلامی ہے یامعجزبیانی ہے ۔انشاؔ نے ایک پانچ بند کا مخمّس ’’صل علی نبیناصل علی محمد ؐ‘‘کے مصرعہ پر لکّھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے فضائل ،وصف آل محمدؐ اور درود کی اہمیت کی عکاسی کی گئی ہے ۔ہم یہاں اس نعتیہ مخمس کو پیش کرتے ہیں۔

آپ خدا نے جب کہا صل علی محمدِِؐ

کیوں نہ کہیں پھر انبیاؑ صل علی محمدِِؐ

عرش سے آتی ہے صدا صل علی محمدِِؐ

نورِ جمال مصطفیؐ صل علی محمدِِؐ

صل علی نبینا صلی علی محمدِِؐ

عرش کی کچھ نہیں فقط قائمہ جلیل پر

لوح جبین مہرپر چشمۂ سلبیل پر

ثبت یہی نقوش ہیں عدن کی ہرفصیل پر

ہے خطِ نسخ سے لکھا شہپر جبریلؑ پر

صل علی نبینا صلی علی محمدِِؐ

لمعۂ ذات کبریا باعث خلق جز و کل

فخر جمیع مرسلیںؐ رہبر و ہادئ سبل

نورسے جس کے ہوگئی آتش کفر بجھ کے گل

بعدِ نماز تھا یہی وردو وظیفہ رسل

صل علی نبینا صلی علی محمدِِؐ

بھیجتے ہیں سدا درود وحش و طیور وانس و جن

حور و بہشت جاوداں کس کو ملی ہے اُس کے بن

واہ عجیب چیز ہے قلب ہوجس سے مطمئن

انشاؔ اگر نجات تو چاہے توپڑھ یہ رات دن

صل علی نبینا صلی علی محمدِِؐ

انشاؔ کا ایک شاہکار نعتیہ مخمّس جو اکتیس(۳۱) بند پر مشتمل ہے۔مولوی حیدر علی صاحب کی نعت کے مصرعوں پر تضمین کیاگیا ہے۔اس نعتیہّ مخمس کی تخلیق کے بارے میں خود انشاؔ کہتے ہیں’’مولوی حیدر علی کسی ضرورت سے لکھنؤ آئے۔میں یہ مژدہ سنتے ہی اُن کی خدمت میں حاضر ہوااور ان کی خدمت میں بے نقط قصیدہ طور الکلام سُنایا جس میں کئی صنعتیں رکھی ہیں تاکہ ان کو پسند آئے اور میری عزّت افزائی ہو چنانچہ مولوی صاحب نے قصیدہ سُن کر بے حد تعریف کی۔میرے اصرار پر مولوی صاحب نے وہ قصیدہ جو ہندی زبان میں تھا جو حضوراکرمؐ کی نعت میں لکّھا گیاتھا سنایا جس کاصلہ ان کو خداقیامت کے دن عطا فرمائے گا۔قصیدہ سُنّے کے بعد بندۂ عاصی نے وہ قصیدہ اُن سے لے لیا۔جی میں آیا کہ اس کو ضمہ کروں تاکہ دنیا میں یادگار رہے ۔خداکاشکر ہے کہ یہ مہم آسانی سے تمام ہوئی۔اس قصیدے کی دوشعر نقل کرتا ہوں۔

رسولؐ حق کا محمدؐ نبیؐ خیر الانام

اے فخر کون و مکاں تجھ اوپر درود و سلام

ہے امر ہم کوبھی صلّواۃ سلمّوا تسلیم

ہے امتثال امر کا واجب اے مو مناں مدام

ہم مضمون کی طوالت کاخیال کرتے ہوئے اکتیس(۳۱) بند کے نعتیہ مخمّس سے صرف آٹھ بند پیش کریں گے۔

ہر بند میں پہلے تین مصرع انشاؔ کے ہیں اورآخری دو مصرع مولوی صاحب کے ہیں۔

چمن میں کہتے پھرے ہے گلوں سے موج نسیم

درود ورد جو کیجے توہے ثوابِ عظیم

بہار کہتی ہے یہ شعر واجب تعظیم

ہے امر تم کوبھی صلوات و سلموا تسلیم

ہے امتثال امر واجب اے ذوی الا فہام

ظہور حجلۂ عالم میں ہے یہ سب اُس کا

فرشتے کرتے ہیں مذکور جب نہ تب اُس کا

طیور سدرہ بھی رکہتے ہیں ذکر اب اُس کا

جومیں نے عقل سے پوچھا کہ کیا سبب اُس کا

کہا کہ ملہمِ حق نے کیا یہ مجھ پہ ہے الہام

پےئے گی امت مرحومہ جرعۂ کوثر

نہ فسخ ورسخ سے خطرہ نہ مسخ ہونے کا ڈر

محمدؐ عربی ہے جو اپنا پیغمبرؐ

وہ ہی نبیؐ تھا جب آدم تھا آب وگل اندر

وہی ہوا ہے سب ہی انبیاؐ کا قص ختام

مدارآیۂ لولاک وخلقت آدم

حبیب حضرت خلاق و خواجۂ عالم

ملیک و مالک و ملاک کعبہ و زمزم

وہی ہے روز جزا شافع جمیع امم

رضائی اُس کی ہے منظور خالق علام

بلند عرش بریں سے بھی اُس کا پایا ہے

خدانے نور سے اپنے اُسے بنایا ہے

پھر اُس کے سایہ ہوکیوں کر وہ آپ سایہ ہے

شروع صلوٰۃ کہ اللہ اکبر آیا ہے

درود اُس کے سے پایا صلوٰۃ نے انجام

کرے ہے وقت سحر آفتاب جیسے طلوع

اُسی طرح سے سمجھتے ہیں اس کواہل رجوع

زہی کمال رجوع وخمی وفورِ خشوع

قعود دال ہے اور سجدہ میم جائے رکوع

چہارم حرف الف چاہتے ہوآیا قیام

درودکے جو موظف ہیں ان کو راحت ہے

انھیں کے واسطے آمادہ قصر جنّت ہے

یہ راز سمجھے ہے وہ شخص جس کو دقت ہے

صلوٰۃ حق سے نبی ؐ پر یہ معنی رحمت ہے

لکھاہے اس کو کتب بیچ مردمان اعلام

مدیح اُس کے ہیں ہرخاص وعام عالم پر

یہ سایہ اُس کا رہے گا تمام عالم پر

وہ ذات پاک ہے رحمت تمام عالم پر

اُسی کے حکم سے ہے صبح و شام عالم پر

جو ہووے رحمت رحمت اوپر توعین تمام

مجازوالے نہیں جانتے حقیقت شئے

نشہ یہ اُن کوہے پی ہے جنھوں نے عشق کی مئے

ملے یہ بات ہوا جب کہ دشت الفت طے

صلوٰۃ عبد سے معنی میں طلب رحمت ہے

سوا سوال کے بندوں سے کچھ نہ ہووے کام

انشاؔ کاتیسرا نعتیہ مخمّس فارسی میں ہے ۔اس مخمّس میں سات بند ہیں ۔اس مخمّس میں انشاؔ نے صنعتوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ عدد ،حروف اور علم جفر سے بھی استفادہ کیاہے ۔ہم اس مخمّس کے تین بندوں کو بعینہٖ فارسی میں اُس کے اُردو ترجمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔اس فارسی نعت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انشاؔ کافارسی کلام کسی دوسرے فارسی عظیم شاعر سے کم نہیں ۔شاید اسی لیے انشاؔ نے کہا تھا ۔ ع

شیخ سعدیؔ وقت ہے انشاؔ

بیبن براے رسولمؐ چہ شان وتکریم است

کہ جبرئیل امیں در مقام تسلیم است

بہ عرش اعظم وکرسیش فخرو تعظیم است

دلیل دعوی انا احمدؐ بلا میم است

کہ تا زیادہ شود عظم شوکت اسلام

یعنی دیکھ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی کیا شان وشوکت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ امیں ان کے خادموں میں ہے۔خودعرش اعلیٰ اور کرسی کوان پر فخر ہے ۔اور خود خدا کہتا ہے کہ میں احمد بغیر میم کے ہوں تاکہ اسلام کی شان وشوکت زیادہ ہو۔

کہ حاصلِ عدد احمد و صلوٰۃ بود

یک است و ہشت و دگر چار چار در احمدؐ

نہ است وسہ ویک وچار در صلوٰۃ عدد

باین دلال کہ واو صلوٰۃ الف باشد

وگر چہ میطلبی والسلام والا کرام

احمد اورصلوۃ کے عدد کاحاصل ایک ہے اورآٹھ اور چار چار احمدؐ میں ۔صلوۃ کے عدد میں نو ،تین،ایک اور چار ہیں کیونکہ صلوۃ کا واؤ الف ہے۔ اگر توان کاتقاضہ کرے تو تولایق سلامتی اور اکرام ہے۔

بروی خلق جہان غرفۂ بہشت کشاد

باین وسیلہ خدائیش جزائے خیر دہاد

بحق احمدؐ مرسل وآلہ الامجاد

اجلۂ علمارا بود ہمین استاد

کنون زمغنمانت است خجستہ شیام

دنیاوالوں پر بہشت کے دریچے کھولے ۔انہی کے وسیلے سے خدا نے مخلوق کوجزائے خیرعطا کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اورآل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے طفیل میں ہی اسلام کے عظیم واکابر علما بنے۔اورانہی کے دم سے چیزیں غنیمت اور فرخندہ مقدس درخت ہے۔

انشاؔ کے کلیّات میں نعتیہ رباعیات بھی ملتی ہیں۔کچھ فارسی اوراُردو رباعیات اوراُردو رباعیات پیش کی جاتی ہیں۔

یا رب برسالت محمدؐ رحمی

یا رب بہ صداقت محمدؐ رحمی

من درامت محمد ہستم

یا رب برامت محمدؐ رحمی

انشاؔ نے یہ رباعی لکھنؤ میں قحط پڑنے پر بارش کی طلب میں لکّھی تھی۔دوسری رباعی بھی فارسی میں ہے ۔

شک نیست کہ بندہ ام اگر گمراہم

الطاف محمدؐ وعلیؑ می خواہم

انشا اللہ جنتّی خواہد شد

گو بندہ لاالہ الا اللہّم

یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر میں گمراہ بھی ہوں تو اُنہی کابندہ ہوں اورلطف وکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور علیؓ کاخواستگار ہوں۔انشااللہ جنّت میں ہوگا کیوں کہ وہ خدا ے لاشریک کابندہ ہے ۔انشاؔ نے اپنے فارسی دیوان کی تمہید میں کچھ حمدیہ اور نعتیہ اشعار لکّھے جن میں سے صرف تین فارسی نعتیہ اشعار ترجمے کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں۔ان اشعار سے انشاؔ کی قرآن اوراحادیث سے واقفیت اور عربی زبان پر مہارت اور قادرالکلامی ظاہر ہے۔

افزودہ است رتبۂ شانِ محمدیؐ

عظم و شکوہ و مرتبۂ قال و قیل را

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی عظمت ،شکوہ اور رتبہ بہت بلند ہے جسے بیان نہیں کیاجاسکتا)

انی دخیل بابک یا ایَّہا الرسولؐ

آفت زفرط جرم نبا شد دخیل را

(اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلممجھے اپنے رحمت کے دروازے میں داخل کرلیجیے کیوں کہ اس حریم میں گناہگار بھی آفتوں سے دور ہیں۔)

اے دل فداے آنکہ در اوصافِ خلق خود

آدم نمود چون منِ زار و ذلیل را

(اے دل توحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمپرقربان ہوجا جن کے خلق عظیم کی تاثیر نے مجھ جیسے ذلیل وخوار شخص کو انسان بنادیا)

انشاؔ اللہ خان جگہ جگہ ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور درود کی اہمیت پرزور دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی شفاعت پرپورا بھروسہ کرتے ہیں۔کہیں شوخیانہ شکوہ کرتے ہیں۔کہیں اپنا فنّی رنگ دکھاتے ہیں۔

دل ستم زدہ بے تابیوں نے لوٹ لیا

ہمارے قبلہ کو وہّابیوں نے لوٹ لیا

کرثنائے رسولؐ راہ نما

جس کی نعلین کاہے سایہ ہما

صلواۃ اس پہ بھیجیے جاوید

ہے جوایک آسماں پہ مرغ سفید

گرحمایت کرے نہ اس کے آل

نہ جمیں مرغ عقل کے پروبال

بن دیکھے ہیں جوعاشق نور محمدیؐ

ان کو مناسبت ہے اویس قرن کے ساتھ

رتبہ کھلے جوتجھ پہ فنا فی الرسولؐ کا

توسب میں سوجھے احمدؐ مختار کی شبیہہ

درفردوس پہ کہتے ہیں ملایک کہ یہ جھٹ

کُھل پڑے لیجے اگرنام محمدؐ کا قفل

اس مضمون کے آخر میں نعتیہ اشعارصنعت مہملہ یعنی صفت غیر منقوطہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔

صدآہ آہ کے ورد درود صل علیٰ

محمدؐ و علیؓ و آلہ محال ہوا

حاسد آل احمدؐ مرسل

اہل اسلام ہو دلاکس طرح

اور کس کا آسرا ہو سر گروہ اس راہ کا

آسرا اللہ اور آل رسولؐ اللہ کا


مزید دیکھیے

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25