امام احمد رضا امام نعت گویاں۔ توفیق احسنؔ بركاتی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 11:46، 9 جولائی 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏مزید دیکھیے)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


از توفیق احسنؔ برکاتی

جملہ اصناف سخن میں نعت نگاری کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے، یقینا یہ ایک ایسا راستہ عبور کرنا ہے جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں اور گہری وادیاں ہیں، اس کی سرحدیں پار کر لیجانا بہت بڑی کامیابی ہے، بہت کم شعرا ہی اس میدان میں پورے طور پر کامیاب ہوئے اور نعت کی جملہ حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے قرطاس و قلم سے ملاقات کی پھر خوش گوار اور پر سکون فضا نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا، انہیں فتح و نصرت کے تمغۂ عظمیٰ سے نوازا گیا۔

امام احمد رضا قدس سرہ نے بے شمار میدانوں میں اپنی خدا داد لیاقت وصلاحیت کا مظا ہرہ کیا اور الحمد للہ ان سب میں معونت خداوندی اور فضل ربی سے کامیابی وکامرانی کا علم لے کر واپس ہوئے ،آپ کی علمی لیاقت کو علم وادب کے بڑے بڑے سورماؤں نے تسلیم کیا، نہ صرف تسلیم کیا ،بلکہ تحسین وتبریک سے نوازنا ان کی مجبوری بن گئی ،آپ نے علمی وفقہی تحقیقات میں اپنا کوئی شریک وسہیم نہ چھوڑا ۔میدان شعر وسخن میں اس بطل جلیل نے جب طبع آزمائی کی تودوسروں کے لیے سراپا مثال بن گئے ،شعر گوئی کے لوازمات ومطالبات کو اتنی مہارت وخوب صورتی کے ساتھ پورا کیا کہ ہوش وخرد کی قوت پرواز بھی جبین نیاز خم کرنے پر مجبور ہوگئی ،صرف یہی نہیں بلکہ ان اشعار کے اندر استعمال کی گئی تشبیہات وتمثیلات ،استعارات وکنایات ،تعبیرات وترکیبات کو سند کا درجہ حاصل ہوگیا پھر تمام ارباب شعروادب نے بالاتفاق آپ کی شہنشاہیت کو مان لیا جبھی تو آپ نے اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا ؎

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم

جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیے ہیں

جناب عابدؔ نظامی صاحب لکھتے ہیں :

’’یہ کوئی شاعرانہ تعلّی نہیں، بلکہ عینِ حقیقت ہے ،ان کے اشعار پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے فصاحت وبلاغت ،حلاوت وملاحت ،لطافت ونزاکت یہ سب ان کے ہاں کی لونڈیاں ہیں ‘‘ <ref>ماہ نامہ ضیائے حرم لاہور جولائی ۱۹۷۲ص۵۴ </ref>

امام احمد رضا ایک ایسے مخلص عاشق رسول کا نام ہے کہ آج غلامان مصطفی وعاشقان نبی اس عاشق صادق کے درِ عقیدت والفت پر سوالی بن کر کھڑے نظر آتے ہیں ،انداز مانگتے ہیں ،والہانہ عشق ومحبت کا سلیقہ طلب کرتے ہیں ،دردو سوزکے کیف وکم کا سوال کرتے ہیں،عرض کیا ہے ؎

نبی سے عشق والفت کا سلیقہ ہم کو آجائے

تصور میں خدا پیدا کبھی احمد رضا کردے <ref>سخن کی معراج : احسنؔ برکاتی </ref>

امام احمد رضا صرف ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ مقام نبوت کے رمز شناس اور عارف بھی تھے ۔ انہوں نے آداب نبوت اور مقام رسالت کا خاص خیال رکھا ،طبع آزمائی کی ،وارفتگی شوق میں بے خود ہوکر پاکیزہ خیالات کو صفحہ قرطاص پر اتار کر رکھ دیا ،شرعی حدود میں رہ کر کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان سے اس انداز میں شاعری کی کہ پوری دنیائے شعر وسخن انہیں ’’امام الکلام‘‘ ماننے پر مجبور ہوگئی اور ان کے کلام کو’’ کلام الامام‘‘ کہا جانے لگا ۔وجہ تسلیم خاندانی وجاہت وسیادت ،شہرت ونام وری اور زود نویسی نہیں ،بلکہ عشق کا وہ سوز وگداز اور رنگ وآہنگ ہے جو ان کے ہر ہر شعرسے ٹپکتا ،چمکتا ،دمکتا اور دکھائی دیتا ہے ۔

بلا شبہ امام احمد رضا ایک قادر الکلام شاعر تھے ،عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تب وتاب نے ان کو وہ تابانیاں عطا کیں کہ آسمان سخن پر مہر درخشاں بن کر چمکے اور جذبہ صادق کی رعنائیوں نے ان کی جلوہ نما کرنوں کو سخن وری کی تمام گلی ،کوچوں کا سچا راہبر اور نشان منزل بنادیا ۔عربی ،فارسی ،اردو ،ہندی چار زبانوں میں نعت نگاری کا حسین سنگم آپ کی مشہور زمانہ نعت ’’لم یات نظیر ک ‘‘الخ ،،میں پہلی بار دیکھنے کو ملا جس نے آپ کی قادر الکلامی ،شعر کی جاذبیت ورعنائی ،حسن تعبیر وسلاست کی بہترین مثال قائم کردی کہ شاعری خود پروانہ وار کلام رضا پر نثار ہوگئی اور اس کے وجد آفریں نغموں سے پورا میدان سخن گونج اٹھا ۔بلاشبہ یہ فضل خداوندی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کرمِ خاص ہے جو [[ امام احمد رضا قدس سرہ کی ذات پر جھما جھم برس رہا ہے جس کی چھینٹوں کی برودت کو پورا عالم زندگی کی معراج ماننا ہے ۔

الازہر یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے استاد جناب پروفیسر رزق مرسی ابوالعباس صاحب آپ کی عربی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں :

’’امام احمدرضا خان عربی نہیں تھے لیکن جب آپ ان کی عربی شاعری پڑھیں گے تو آپ کو خوش گوار حیرت ہوگی کہ ان کے عجمی ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں عجمیت کا شائبہ نہیں پایا جاتا ،اگر قاری کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ عجمی تھے تو انہیں عربی شاعر گمان کرے گا ۔‘‘<ref>سہ ماہی افکار رضا ممبئی اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۵ ،ص۷۶ </ref>

امام احمد رضا کے لیے میدان شعر وسخن ثانوی درجہ تھا جس میں انہیں ’’امام الکلام ‘‘کا ایوارڈ دیا گیا ،اگر اقلیم سخن کا یہ تاجور صرف اسی میدان میں اپنی توانائیاں بکھیر تا تو اس کے کلام کو اور ان کی ذات کو دنیا کس ایوارڈ سے نوازتی ؟

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | احمد رضا خان بریلوی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]