امام احمد رضا امامِ شعر وادب ۔ توفیق احسنؔ بركاتی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از توفیق احسنؔ بركاتی

امام احمد رضا امامِ شعر وادب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جملہ اصناف سخن میں نعت نگاری کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے، یقینا یہ ایک ایسا راستہ عبور کرنا ہے جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں اور گہری وادیاں ہیں، اس کی سرحدیں پار کر لیجانا بہت بڑی کامیابی ہے، بہت کم شعرا ہی اس میدان میںپورے طور پر کامیاب ہوئے اور نعت کی جملہ حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے قرطاس و قلم سے ملاقات کی پھر خوش گوار اور پر سکون فضا نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا، انہیں فتح و نصرت کے تمغۂ عظمیٰ سے نوازا گیا۔

امام احمد رضا قدس سرہ نے بے شمار میدانوں میں اپنی خدا داد لیاقت وصلاحیت کا مظا ہرہ کیا اور الحمد للہ ان سب میں معونت خداوندی اور فضل ربی سے کامیابی وکامرانی کا علم لے کر واپس ہوئے ،آپ کی علمی لیاقت کو علم وادب کے بڑے بڑے سورماؤں نے تسلیم کیا، نہ صرف تسلیم کیا ،بلکہ تحسین وتبریک سے نوازنا ان کی مجبوری بن گئی ،آپ نے علمی وفقہی تحقیقات میں اپنا کوئی شریک وسہیم نہ چھوڑا ۔میدان شعر وسخن میں اس بطل جلیل نے جب طبع آزمائی کی تودوسروں کے لیے سراپا مثال بن گئے ،شعر گوئی کے لوازمات ومطالبات کو اتنی مہارت وخوب صورتی کے ساتھ پورا کیا کہ ہوش وخرد کی قوت پرواز بھی جبین نیاز خم کرنے پر مجبور ہوگئی ،صرف یہی نہیں بلکہ ان اشعار کے اندر استعمال کی گئی تشبیہات وتمثیلات ،استعارات وکنایات ،تعبیرات وترکیبات کو سند کا درجہ حاصل ہوگیا پھر تمام ارباب شعروادب نے بالاتفاق آپ کی شہنشاہیت کو مان لیا جبھی تو آپ نے اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا :

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم

جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیے ہیں

جناب عابدؔ نظامی صاحب لکھتے ہیں :

’’یہ کوئی شاعرانہ تعلّی نہیں، بلکہ عینِ حقیقت ہے ،ان کے اشعار پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے فصاحت وبلاغت ،حلاوت وملاحت ،لطافت ونزاکت یہ سب ان کے ہاں کی لونڈیاں ہیں ‘‘ <ref> ماہ نامہ ضیائے حرم لاہور جولائی ۱۹۷۲ص۵۴</ref>

امام احمد رضا ایک ایسے مخلص عاشق رسول کا نام ہے کہ آج غلامان مصطفی وعاشقان نبی اس عاشق صادق کے درِ عقیدت والفت پر سوالی بن کر کھڑے نظر آتے ہیں ،انداز مانگتے ہیں ،والہانہ عشق ومحبت کا سلیقہ طلب کرتے ہیں ،دردو سوزکے کیف وکم کا سوال کرتے ہیں۔

امام احمد رضا صرف ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ مقام نبوت کے رمز شناس اور عارف بھی تھے ۔ انہوں نے آداب نبوت اور مقام رسالت کا خاص خیال رکھا ،طبع آزمائی کی ،وارفتگی شوق میں بے خود ہوکر پاکیزہ خیالات کو صفحہ قرطاس پر اتار کر رکھ دیا ،شرعی حدود میں رہ کر کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان سے اس انداز میں شاعری کی کہ پوری دنیائے شعر وسخن ان کے کلام کو’’امام الکلام‘‘ کلام الامام ‘‘ماننے پر مجبور ہوگئی ۔وجہ تسلیم خاندانی وجاہت وسیادت ،شہرت ونام وری اور زود نویسی نہیں ،بلکہ عشق کا وہ سوز وگداز اور رنگ وآہنگ ہے جو ان کے ہر ہر شعرسے ٹپکتا ،چمکتا ،دمکتا دکھائی دیتا ہے ۔

بلا شبہ امام احمد رضا ایک قادر الکلام شاعر تھے ،عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تب وتاب نے ان کو وہ تابانیاں عطا کیں کہ آسمان سخن پر مہر درخشاں بن کر چمکے اور جذبہ صادق کی رعنائیوں نے ان کی جلوہ نما کرنوں کو سخن وری کی تمام گلی ،کوچوں کا سچا راہبر اور نشان منزل بنادیا ۔عربی ،فارسی ،اردو ،ہندی چار زبانوں میں نعت نگاری کا حسین سنگم آپ کی مشہور زمانہ نعت ’’لم یات نظیر ک ‘‘الخ ،،میں پہلی بار دیکھنے کو ملا، جس نے آپ کی قادر الکلامی ،شعر کی جاذبیت ورعنائی ،حسن تعبیر وسلاست کی بہترین مثال قائم کردی کہ شاعری خود پروانہ وار کلام رضا پر نثار ہوگئی اور اس کے وجد آفریں نغموں سے پورا میدان سخن گونج اٹھا ۔بلاشبہ یہ فضل خداوندی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کرمِ خاص ہے جو امام احمد رضا قدس سرہ کی ذات پر جھماجھم برس رہا ہے جس کی چھینٹوں کی برودت کو پورا عالم زندگی کی معراج ماننا ہے ۔

الازہر یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے استاد جناب پروفیسر رزق مرسی ابوالعباس صاحب آپ کی عربی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں :

’’امام احمدرضا خان عربی نہیں تھے لیکن جب آپ ان کی عربی شاعری پڑھیں گے تو آپ کو خوش گوار حیرت ہوگی کہ ان کے عجمی ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں عجمیت کا شائبہ نہیں پایا جاتا ،اگر قاری کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ عجمی تھے تو انہیں عربی شاعر گمان کرے گا ‘‘۔<ref>سہ ماہی افکار رضا ممبئی اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۵ ،ص۷۶</ref>

امام احمد رضا قادری برکاتی قدس سرہ کی مبارک ذات جس طرح دنیائے فقہ و تحقیق میں مشتہر ہے بزم شعر و سخن اور محفل علم و ادب میں نہ صرف نام رضا بلکہ خاندانِ رضا محتاج تعارف نہیں۔جس طرح دین کے فروغ و استحکام اور عقائد و اعمال کی درستی و اصلاح میں آپ کی خدمات جلیلہ قابل صد تحسین ہیں اسی طرح شعر و ادب کے ارتقا اور جدید اسلوب نگارش میں بھی آپ کی کاوشیں تاریخی ہیں۔ آپ کی پیش کردہ تحقیقات علمیہ و ادبیہ و نوادرات فقہیہ کی اپنی الگ ایک شناخت ہے، ان کا اپنا ایک امتیاز ہے۔ آپ کی شعری و ادبی تخلیقات کا اسلوب بھی جداگانہ ہے۔

ڈاکٹر امجد رضا امجدؔ (ایڈیٹر سہ ماہی رضا بک ریویو، پٹنہ) زبان و ادب میں آپ کی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’چودہویں صدی کے مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان اور آپ کے تمام اہل خاندان نے مذہبی و علمی خدمات کے علاوہ اردو زبان و ادب کی جو خدمتیں انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، اردو نثر میں امام احمد رضا نے جو کتابیں لکھ دی ہیں وہ کمیت و کیفیت ہر دو اعتبار سے اردو کی پوری تاریخ میں نمایاں ہیں‘‘<ref>ڈاکٹر امجد رضا امجدؔ، حضور مفتی اعظم کی حمد نگاری، مشمولہ جہان مفتیِ اعظم ممبئی، ص۶۵۵</ref>

امام احمد رضا قدس سرہ کی ادبی خدمات میں ترجمۂ قرآن ’’کنز الایمان‘‘ کا ایک بلند مقام ہے جو اردو زبان و ادب میں آپ کی گیرائی و گہرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آپ کی مساعیٔ جمیلہ کا بے مثل شاہ کار بھی۔

کنز الایمان کے بارے میں مولانا کوثر نیازی صاحب فرماتے ہیں:

’’کنز الایمان تمام اردو تراجم میں عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ ہے، یہ عشق رسول کا خزینہ اور معارف اسلامی کا گنجینہ ہے‘‘<ref>مولانا رضاء المصطفیٰ حبیبی قادری، گلزارِ قادری، انجمن حبیب درسگاہِ اہل سنت، رائے بریلی، ۲۰۰۱ء ص۲۰۵</ref>

پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب نقش بندی رقم طراز ہیں ’’آپ کے ترجمۂ قرآن میں برسوں کی فکری کاوشیں پنہاں ہیں‘‘ <ref>پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، چشم و چراغ خاندانِ برکاتیہ، نوری مشن مالیگائوں، ص۱۰</ref>

امام احمد رضا قدس سرہ نے یہ ترجمہ باقاعدہ مخصوص نشست میں نہیں کیا، بلکہ حضور صدر الشریعہ کے پیہم اصرار پر انہیں املا کرادیا۔ اگر ان کے زہرہ نگار قلم سے باقاعدگی کے ساتھ ترجمہ نگاری کا یہ اہم اور قابل قدر کارنامہ انجام پذیر ہوتا تو اس کی علمیت، جامعیت اور باکمالی کا اندازہ کس طرح لگایا جاتا، امام احمد رضا کا ترجمۂ قرآن اردو کے تمام تراجم میں انفرادی حسن و جمالیات اور ظاہری و باطنی اسرار و رموز کی کہکشاں ہے اور ادبی خدمات میں ایک نمایاں اضافہ۔

امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ و الرضوان کو ان کے اجداد، اساتذہ فن اور آقائوں سے عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو حلاوت و لطافت عطا ہوئی، جو سوز و گداز ملا، محبت و الفت کی تب و تاب اور والہانہ شیفتگی کی جو رعنائی ملی اس نے آپ کو امام عشق و محبت بنا دیا اور قلب و فکر میں موجزن وارفتگی نے امام احمد رضا کو قلبی واردات کے اظہار کے لئے شعر و سخن کا ذوق عنایت کیا اور ایک نعت گو شاعر کے روپ میں آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا یہ بلند قامت پہلو بھی دنیائے ادب کے سامنے آیا۔

اس سلسلے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام احمد رضا نے اپنے اشعار کے ذریعہ سخن کو بلند اقبال کیا، شاعری کو ایک مقام دیا، ادب و فن کو نئے کیف سے آشنائی بخشی اور شعر و ادب کے نادر دبستاں کو نہ صرف یہ کہ دریافت کیا بلکہ اسے صوری و معنوی حسن عطا کر کے ہر دل عزیز بنا دیا۔

محترم نیاز فتح پوری نے بڑے پتے کی بات کہی،رقم طراز ہیں:

’’شعر و ادب میرا خاص موضوع اور فن ہے، میں نے بریلوی کا نعتیہ کلام بالاستیعاب پڑھا ہے، ان کے کلام سے پہلا تأثر جو پڑھنے والوں پر قائم ہوتا ہے وہ مولانا کی بے پناہ وابستگی رسول عربی کا ہے، ان کے کلام سے ان کے بیکراں علم کا اظہار کے ساتھ افکار کی بلندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، مولانا کے بعض اشعار میں انفرادیت کا دعویٰ بھی ملتا ہے، جو ان کے کلام کی خصوصیت سے ناواقف حضرات کو شاعرانہ تعلّی معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے فرمودات بالکل برحق ہیں، مولانا حسرتؔ موہانی بھی مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری کے مداح تھے اور معترف بھی‘‘<ref>ڈاکٹر پروفیسر محمد مسعود احمد کراچی، عاشق رسول، ص۹</ref>

آپ نے شعرو شاعری کے تعلق سے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی، کسی کو اس میدان میں اپنا استاد نہیں بنایا، بلکہ خدا داد علمی لیاقتوں کی دل آویز رنگت و رعنائی اور عشق و محبت کی تابانی و زیبائی نے آپ کو صرف ایک شاعرہی نہیں بلکہ فکر و فن کا امام اور استاد الشعرا بنا دیا جس کی شہادت آپ کے ہم عصر اور بعد کے ارباب فکر و فن اور والیانِ شعر و سخن دیتے آئے ہیں۔ قرآن کریم سے نعت گوئی سیکھنے والے شاعر اور عاشق صادق کی شاعری اور عشق و محبت کی توبات ہی کچھ اور ہوگی۔

عظیم نعت گو شاعر سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی ارشاد فرماتے ہیں:

’’اعلیٰ حضرت کی سیرت کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں کسی استاد سخن کے آگے زانوئے تلمذ نہیں تہہ کیا، وہ اپنے ہی شاگرد تھے اور اپنے ہی استاد‘‘<ref>مولانا عبدالستار ہمدانی، عرفان رضا، تقریظ جلیل، رضا دارالمطالعہ سیتا مڑھی، ص۱۳</ref>

پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’مولانا بریلوی باکمال شاعر تھے، وہ تلمیذ رحمان تھے، شاعری میں ان کا کوئی استاد نہ تھا‘‘<ref>پروفیسر محمد مسعود احمد، امام اہل سنت، المجمع الاسلامی مبارک پور، ۱۹۹۳ء، ص۳۸</ref>

امام احمد رضا نے اپنی شاعری کے بارے میں خود فرمایا:

ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ

بیجا سے ہے المنۃ للہ محفوظ

قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی

یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

امام احمد رضا کی ادبی خدمات اور ان کے زریں کارنامے دنیائے شعر و ادب میں اپنی دھمک رکھتے ہیں، اس صفت میں آپ کی پیش کردہ تحقیقات قابل استفادہ ہیں، تاریخ ادب و فن کا باب اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک امام احمد رضا کی اس میدان میں کی گئی کاوشوں کو زیر بحث نہ لایا جائے، متعصب اور تنگ نظر تاریخ نگار بھی بادلِ ناخواستہ اس امام کے تذکرے فراموش نہیں کر سکتا، کوشش ضرور کی گئی، خرد برد سے کام لیا گیا، مگر اس حقیقت کو دبایا جا سکا اورنہ اس سچائی کو چھپایا جا سکا۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک عاشق رسول یعنی مولانا احمد رضا بریلوی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس سے ہمارے ادبا نے ہمیشہ بے اعتنائی برتی ہے، حالاں کہ یہ غالباً واحد عالم دین ہیں جنہوں نے نظم و نثر دونوں میں اردو کے بے شمار محاورات استعمال کیے ہیں اور اپنی علمیت سے اردو شاعری میں چار چاند لگا دئے ہیں‘‘<ref>راجا رشید محمود ایم۔اے، اقبال و احمد رضا، اعجاز بک ڈپو کولکاتا، ۱۹۸۲ء، ص۲۳</ref>

امام احمد رضا کے دور میں اور ان سے قبل بھی بے شمار شعرا نے صنف نعت میں طبع آزمائی کی، اپنی تخیلات کے جوہر بکھیرے، محسنؔ کاکوری، امیرؔ مینائی، حالیؔ، اقبالؔ، ماہرؔ القادری، حفیظؔ جالندھری وغیرہ اور بہت سارے نعت گو شعرا نے نعتیہ شاعری میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، اس کی ادبی و فنی جہتوں کو اجاگر کیا، لیکن رضاؔ بریلوی کے اشعار کو دیکھنے، باریک بینی سے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف نعتیں لکھیں بلکہ نعت نگاری کی تاریخ رقم کی ہے، صنف نعت کو نئی نئی جہتوں سے آگاہی بخشی، جبھی تو محترم نعیم صدیقی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:

’’ان کا تخیل نئی نئی کونپلیں نکالتا ہے اور تشبیہات و تلمیحات سے وہ خوب کام لیتے ہیں‘‘<ref>مولانا یٰسین اختر مصباحی، امام احمد رضا اور رد بدعات، دہلی، ۱۹۹۵ء، ص۳۷۹</ref>

برجستگی، شگفتہ بیانی اور خوش سلیقگی کے نئے حقائق ملاحظہ کیجیے اور عش عش کر اٹھیے، امام احمد رضا نے اس مبارک صنف کو خوب صورت رنگ و آہنگ سے نوازا، اسلوب نگارش کے حیران کن جزئیات اور نادر نکات کو آشکار کیا، جبھی تو امام الکلام کا تمغۂ عظمیٰ نصیب ہوا جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے۔

ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی صدر شعبۂ علوم اسلامیہ ہمدرد یونیورسٹی، دہلی رقم طراز ہیں:

’’آپ کی شاعرانہ عظمت اور مہارت فن کا اعتراف اردو ادب کے محققین نے کیا ہے، شاعری کے جن اسرار و رموز کو اپنا کر آپ نے اپنی شاعری کو جلا بخشی ہے بیشتر شعرا کے یہاں اس کا فقدان نظر آتا ہے‘‘<ref>ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی، تاریخ مشائخ قادریہ، کتب خانہ امجدیہ دہلی، ۲۰۰۱ء، ص۳۸۲؍۲</ref>

محمد رضوان احمد خاں نقشبندی کراچی فرماتے ہیں:

’’فاضل بریلوی نے قلمی جہاد کیا، ان کے قلم سے لاکھوں کلمات موتی بن کر نکلے، ہزاروں جملے ادا ہوئے اور سینکڑوں کتابیں وجود میں آئیں اور جب شعرو سخن کی بات کی تو گویا اشعار کا مینھ برسنے لگا‘‘<ref>معارف رضا، سال نامہ، کراچی، ۲۰۰۳ء، ص۵۴</ref>

امام احمد رضا نہ صرف ایک نعت گو شاعر تھے بلکہ عشق و محبت کے آداب و مطالبات کے آئینہ دار تھے، نعتیہ اشعار صرف قلبی جذبات کا اظہار یہ ہی نہ تھے بلکہ ہر ہر شعر کو کوثر و تسنیم میں دھل کر، وارفتگیِ شوق کی عطر نیز چھائوں میں پروان چڑھاکر اردو ادب میں اپنی بادشاہت قائم کر دی اور شعر و سخن کے سرتاج بن گئے، جس نے آپ کی سخن سنجی اور سخن گوئی کو ہر اعتبار سے نمایاں مقام عطا کیا اور عشق رسول کی تابانی نے انہیں فکر و فن کی بلندیوں پر پہونچا دیا، جس کے مطالعہ نے واقعی فکر و فن کو مہمیز دیا اور دلوں کی دنیا میں عجب فضا ہموار کر دی اور ماحولیات کو خوش گوار عناصر سے سجا دیا۔

آپ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ اردو ادب کا عظیم شاہ کار ہے، علمی و فنی اصطلاحات کا حسین گلدستہ ہے، ظاہری و باطنی حسن و دلکشی کا خوب صورت تاج محل اور قرآن و احادیث کی بے مثل ترجمانی کا منہ بولتا ثبوت اور نادر و نایاب پیرایۂ بیان اور لاجواب انداز تخاطب کا سرچشمہ ہے۔

ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:

’’یہ ان کا کمال فن ہے کہ ان کی نعتوں میں مختلف علمی و فنی اصطلاحات و حوالہ جات سطح پر تیرتے پھرتے نظر آتے ہیں‘‘<ref>معارف رضا کراچی، شمارہ۱۶، ۱۹۹۴ء، ص۱۱۴/تاریخ مشائخ قادریہ، ص۳۸۵؍۲</ref>

حدائق بخشش شعر و سخن کا ایک بیش بہا خزانہ ہے، فنی و ادبی آرائش و زیبائش کا انمول موتی، معرفت شعری کا گنجینہ، عقائد و اعمال کی درستی و عمدگی کا سرمایہ اور عشق و محبت کی سبق آموزی کا مایہ ناز استاد ہے۔

امام احمد رضا کے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ پر ایک غیر مسلم مدیر نے یہ اظہار خیال کیا:

’’مجھے رام چندر کی قسم کہ گزشتہ دنوں مدرسہ دیوبند میں میں نے دیوبندی حضرات کے مخالف فریق کے رہنما مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی نعتیہ شاعری پر حدائق بخشش نامی کتاب دیکھی تو حیران و ششدر رہ گیا کہ یہ دیوبندی حضرات مولانا امام احمد رضا خاں کو کافر کہتے ہیں اور اسے گالیاں دیتے ہیں، مگر اس کے برعکس مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب کا ایک ایک شعر علم و ادب کا مرقع ہے اور حدائق بخشش ایک گنجینۂ حق ہے کہ جسے اہل ادب اگر اپنا اثاثۂ حیات سمجھیں تو بجا ہے‘‘<ref>سہ ماہی افکار رضا ممبئی، امام احمد رضا غیر مسلموں کی نظر میں، از ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، </ref>

حدائق بخشش آپ کو پورا نعتیہ دیوان نہیں بلکہ انتخاب کلام ہے، جس کے اندر حمد، نعت، منقبت وغیرہ مختلف اصناف پر مشتمل اشعار دیکھے جا سکتے ہیں، آپ کی حمد نگاری بھی انفرادی مقام لیے ہوئے ہے، حمدیہ اشعار میں بھی سراپائے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نہ صرف رنگت اور جھلک دکھائی دیتی ہے بلکہ سیرت رسول کا ایک جہان آباد نظر آتا ہے، جو نعت در حمد کی کیفیت کا پتہ دیتا ہے۔ مثلاً یہ حمد ؎

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا

تجھے حمد ہے خدایا

اردو، ہندی، فارسی اور عربی چار زبانوں میں کہی گئی نعتیں، اشعار، نظم کی ایک کہکشاں جگمگا رہی ہے، زبان و ادب میں جس کا مقام واقعی بلند و بالا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم (میاں والی) ارقام فرماتے ہیں:

’’تین جلدوں پر مشتمل اعلیٰ حضرت کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’حدائق بخشش‘‘ نہ صرف فکری اور موضوعاتی سطح پر خاصے کی چیز ہے بلکہ فنی حوالے سے بھی اس کا کوئی جواب نہیں، خیالات کی گہرائی اور گیرائی، وسعت اور پھیلائو، زبان کی روانی اور سلاست، تشبیہات و استعارات، لفظی و معنوی صنائع و بدائع ہر حوالے سے حدائق بخشش فن کا معجزہ اور سر چشمۂ فیض ہے، ان کا یہ مجموعۂ کلام اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی زبان پر بھی ان کے کامل عبور اور دسترس کی ناقابل تردید مثال ہے، مولانا کی پرواز تخیل، رفعت فکر اور قدرت کلام ان کی لکھی نعت کے ہر شعر سے عیاں ہے‘‘<ref>سید صبیح الدین صبیح رحمانی، نعت رنگ شمارہ۱۸، اعلیٰ حضرت نمبر۲۰۰۵ء، ص۲۶۱</ref>

آپ نے نہ صرف زبان و ادب کے بیش بہا کارہائے نمایاں انجام دیے بلکہ اپنے اشعار میں ادب العالیہ کی جھلک پیش کی ہے اور اپنے کلام کو عشق و محبت کا ایک حسین سرچشمہ بنا کر دکھایا جس نے یہ واضح کر دیا کہ آپ شاعرانہ مذاق ہی نہیں رکھتے بلکہ آداب نبوت اور مقام رسالت کے دانائے راز اور رمز شناس ہیں، بلا شبہہ یہ امام احمد رضا کی خصوصیت ہے، ان کا امتیاز ہے۔

آپ نے صنعات کا بھی بر محل استعمال کیا، پیکر تراشی میں تو بہت آگے نکل گئے، قصیدۂ نور اور قصیدۂ سلامیہ جس کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے کئی زبان میں اشعار قلم بند کیے لیکن آپ کے اردو کلام سے بھی صحیح معنوں میں وہی لطف اندوز ہو سکتا ہے جسے عربی، فارسی پر عبور ہو اور اس کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتا ہو، ایک دو فن ہی نہیں بلکہ بے شمار دقیق سے دقیق فنون و علوم کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور ان کے ذریعہ نعت نگاری کو برتا، سیرت نگاری کی، مدح سرائی کی، نعتیہ ادب میں حدائق بخشش کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی پر مخفی نہیں، جس نے آپ کا مرتبہ و مقام ہر نعت گو شاعر سے بلند تر کر دیا۔

آپ کی تحقیقات ادبیہ و تخلیقات شعریہ پر ریسرچ کا سلسلہ جاری ہے، مقالات تحریر ہو رہے ہیں، پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں لی جا رہی ہیں، حدائق بخشش کی شروحات لکھی جا رہی ہیں۔ علامہ فیض احمد اویسی نے حدائق بخشش کی مکمل شرح و توضیح تقریباً پچیس جلدوں میں فرمائی ہے۔

علامہ سید حسن میاں مارہروی نے دل کی بات کہہ دی، فرماتے ہیں:

’’محدث بریلوی کے ایک ایک شعر پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے‘‘<ref>پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد کراچی، محدث بریلوی، ادارۂ تحقیقات کراچی، ص۸۵</ref>

شعر و ادب، فکر و فن کے فروغ و ارتقا میں آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اردو نعت کے ایک محقق محترم ڈاکٹر ریاض مجید بجا فرماتے ہیں:

’’اردو نعت کی ترویج و اشاعت میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہے، کسی ایک شاعر نے اردونعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو مولانا احمد رضا خاں کی نعت گوئی نے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کیں، بلکہ ان کے زیر اثر نعت کے ایک منفرد دبستاں کی تشکیل ہوئی‘‘<ref>سید صبیح رحمانی، نعت رنگ بحوالہ (اردو میں نعت گوئی ص۴۲۰) کراچی ۲۰۰۵ء، ص۴۳</ref>

کیا اب بھی امام احمد رضا کے امام شعر وادب ہونے میں شبہہ کی گنجائش ہے ؟

ڈاکٹر مشاہدرضوی کی ایک تشطیر ملاحظہ کیجیے ؂

’’ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم ‘‘

دنیاے علم و فن میں ہے شان تیری محکم

عشقِ شہِ دنیٰ کے دریا بہادئیے ہیں

’’جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں ‘‘

٭٭٭


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

توفیق احسنؔ بركاتی | احمد رضا خان بریلوی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]