"الطاف حسین حالی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:


=== مذہبیات ===
=== مذہبیات ===
٭ [[مولود شریف]]                         ٭ [[تریاق مسموم]]: پادری عماد الدین کے لیے جواب تھا              ٭ [[رسالہ خیر المواعظ]]              ٭ [[شواہد الہام]]
٭ [[مولود شریف]]                       ٭ [[رسالہ خیر المواعظ]]              ٭ [[شواہد الہام]]                         ٭ [[تریاق مسموم]]: پادری عماد الدین کے لیے جواب تھا           
 
=== اخلاقیات ===
=== اخلاقیات ===
٭ [[مجالس النساء]]: لاہور میں لکھی، طالبات کے لیے، جو 400 روپے انعام کی حقدار سرکار کی جانب سے قرار پائی اور برسوں نصاب میں شامل رہی۔
٭ [[مجالس النساء]]: لاہور میں لکھی، طالبات کے لیے، جو 400 روپے انعام کی حقدار سرکار کی جانب سے قرار پائی اور برسوں نصاب میں شامل رہی۔


=== سوانح ===
=== سوانح ===
٭ [[سوانحِ حکیم ناصر خسرو]]                                                                  ٭ [[حیات سعدی]]
٭ [[سوانحِ حکیم ناصر خسرو]]                                                                  ٭ [[حیات سعدی]]                                                    ٭ [[حیات جاوید]]
٭ [[تذکرۂ رحمانیہ]]: مولانا عبد الرحمن کی وفات پر چھپی                          ٭  [[یادگار غالب]]: اس کتاب نے غالب کو آب حیات کے مقابل اصل مقام سے روشناس کروایا
٭ [[تذکرۂ رحمانیہ]]: مولانا عبد الرحمن کی وفات پر چھپی                          ٭  [[یادگار غالب]]: اس کتاب نے غالب کو آب حیات کے مقابل اصل مقام سے روشناس کروایا
٭ [[حیات جاوید]]
 


=== مضامین و انشا ===
=== مضامین و انشا ===

نسخہ بمطابق 06:03، 18 جنوری 2017ء

Haali.jpg


خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کےنامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔


حالاتِ زندگی

الطاف حسین حالی ا837 میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا ۔ اوائل عمر میں ہی یتیمی دیکھی ۔بڑے بھائ نے پرورش کی اور حسبِ دستور قرآن اور عربی کی تعلیم دلوائ۔نیز عربی صرف و نحو اور منطق کی تعلیم پائی ، حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ 300 سال سے قائم سلطنتِ مغلیہ دم توڑ رہی تھی۔ حالی نے 1856ء میں ہسار کے ایک دفتر میں ملازمت اختیار کی لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ اور رئیس مصطفٰی خان شیفؔتہ کے بچوں کےاتالیق مقرر ہوئے ۔ ان ہی صحبت سے مولانا حالؔی کی شاعری کا عروج شروع ہوا ۔ بعد ازاں دلی آ کر مرزا غالب کی شاگردی اختیار کی ۔ غاؔلب کی وفات کے بعد حالؔی لاہور آ گئے اور یہاں محمد حسین آزؔاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی ۔ گویا جدید شاعری کی بنیاد رکھی گئی ۔4 سال لاہور میں رہنے کے بعد دلی چلے گئے ۔ اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے۔ وہاں سرسؔید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران1879ء میں ’’مسدس حالؔی‘‘ سر سیؔد کی فرمائش پر لکھی۔ ’’مسدس‘‘ کے بعد حالؔی نے اِسی طرز کی اوربہت سی نظمیں لکھیں جن کے سیدھے سادے الفاظ میں انہوں نے فلسفہ، تاریخ، معاشرت اور اخلاق کے ایسے پہلو بیان کئے جن کو نظر انداز کیا جارہا تھا ۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904ء میں ’’شمس اللعلماء‘‘ کا خطاب ملا


تصانیف

٭تریاق مسموم ٭طبقات الارض ٭مسدس حالی ٭حیات سعدی ٭حیات جاوید ٭ یادگار غالب ٭ مقدمہ شعروشاعری ٭ حب الوطن ٭ برکھارت

٭ اصولِ فارسی ٭ منطق پر رسالہ لکھا۔ جو 1854 میں تلف ہوا ٭ طباق الارض کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو مبادی جیولوجی پر تھا


مذہبیات

٭ مولود شریف ٭ رسالہ خیر المواعظ ٭ شواہد الہام ٭ تریاق مسموم: پادری عماد الدین کے لیے جواب تھا

اخلاقیات

٭ مجالس النساء: لاہور میں لکھی، طالبات کے لیے، جو 400 روپے انعام کی حقدار سرکار کی جانب سے قرار پائی اور برسوں نصاب میں شامل رہی۔

سوانح

٭ سوانحِ حکیم ناصر خسرو ٭ حیات سعدی ٭ حیات جاوید ٭ تذکرۂ رحمانیہ: مولانا عبد الرحمن کی وفات پر چھپی ٭ یادگار غالب: اس کتاب نے غالب کو آب حیات کے مقابل اصل مقام سے روشناس کروایا


مضامین و انشا

٭ مضامینِ حالی ٭ مقالاتِ حالی ٭مکاتیبِ حالی

تنقید

٭ مقدمۂ شعرو شاعری ٭ دیوانِ حالی ٭ مجموعۂ نظمِ حالی ٭ ضمیمہ اردو کلیاتِ حالی

٭ انتخاب کلامِ داغ: حالی نے اس پر کام شروع کیا مگر مکمل نہ کرسکے جس کی تکمیل بعدمیں سجاد حسین اور محمد اسماعیل پانی پتی نے کی۔


اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے


امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے


جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے


پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے


جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی


خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے


وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں


اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے


جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں


اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے


جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے


اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے


جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے


اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے


جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا


اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے


جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی


اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے


جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب


اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے


ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی


دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے


عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی


منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے


یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز


یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے


چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں


پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے


دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے


اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے


ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق


بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے


شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور


زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے


جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت


اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے


گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی


پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے


ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر


مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے


جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال


ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے


بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار


جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے


وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام


یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے


روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج


بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے


عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو


اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے


چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں


دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے


وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی


وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے


فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں


بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے


اے چشمہ رحمت بابی انت و امی


دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے


کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں


خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے


امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن


دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے


ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے


وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے


ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام


ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے


جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی


وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے


جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف


اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے


جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت


کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے


کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا


اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے


ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے


نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے


تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی


ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے


خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں

پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے


گر دین کو جوکھوں نہیں عزت سے ہماری


امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے


ہاں حالیء گستاغ نہ بڑھ حدِ ادب سے


باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے


ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب


یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے


اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے


امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے​


وفات

حالی نے31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی

بیرونی روابط

اے آر وائی ڈیجیٹل نے الطاف حسین حالی پر جو پرگرام پیش کیے اس کا ربط : صارف: ارم نقوی  :