اشعارِ رضا میں دولہا دولہن کا استعمال۔ڈاکٹر عبدالنعیم عزیز، بریلی شریف

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی

اشعار رضاؔ میں دولہا دلہن لفظوں کا استعمال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امام احمد رضا کے متعدد اشعار میں دولہا، دلہن لفظوں کا استعمال ہوا ہے جیسے :۔

(۱) نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا

حجر کے صدقے کمرکے اک تل میں رنگ لاکھوں بنائو کے تھے

(۲) نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیاسے محراب سرجھکائے

سیاہ پردے کے منھ پر آنچل تجلیِ ذات بحت کے تھے

(۳) دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے

غلاف مشکیں جواُڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے

(۴) خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھائوں کیوں کر تجھے وہ عالم

جب ان کو جھرمٹ میں لیکے قدسی جناں کا دولہا بنارہے تھے

(۵) بچاجو تلووں کا ان کے دھوون بناوہ جنت کا رنگ وروغن

جنھوں نے دولہا کی پائی اترن وہ پھول گلزار نور کے تھے

(۶) جھلک سی اک قدسیوں پہ آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی

سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے

(۷)کعبہ ہے بیشک انجمن آرا دلہن مگر

ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے

(۸)کعبہ دلہن ہے تربت اطہر نئی دلہن

یہ رشک آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے

(۹)دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر

جوپی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے

(۱۰)دولھاسے اتنا کہہ د و پیارے سواری روکو

مشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں

(۱۱)اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی

دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی

(۱۲)شب اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود

نوشہِ بزم جنت پہ لاکھوں سلام

(۱۳)اللہ کی سلطنت کا دولہا

نقش تمثال مصطفائی

اشعار نمبر۱ ؍تا نمبر۶؍ امام احمد رضا کے قصیدۂ معراجیہ میں شامل ۔ ان اشعار کی بابت حیاتِ رضاؔ ہی میں مورخہ ۹؍ شعبان ۱۳۳۴ ھ ۔ گڑھی اختیار خاں تحصیل خانپورہ ریاست بھاولپور سے مسمی محمد یار صاحب و اعظ نے استفتاء کیا تھا کہ یہ اشعار معاذ اللہ ! اللہ جل و علا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں ہیں اور ان کے حق میں ان الفاظ کا استعمال کرنا موجب کفر ہے ۔ ایسا کچھ معترضین اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔

امام احمد رضا نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ ان کے مجموعہ فتاویٰ ’’ فتاویٰ رضویہ جلد ششم ‘‘ میں شامل ہے ۔ یہاں اس جواب کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے ۔

(الفاظ امام احمد رضا ہی کے ہیں البتہ کہیں کہیں طویل عبارات حدیث کا ترجمہ یا خلاصہ جیسا کہ امام احمد رضا نے لکھا ہے ہی پیش کیا جارہا ہے اورطوالت کے باعث عبارات نقل نہیں کئے جارہے ہیں۔)

جواب : ۔امام احمد رضاؔ تحریر کرتے ہیں:

’’قصیدہ مذکورمیں دو جگہ دلہن کا لفظ ہے اور چار جگہ دولہا کا ۔ان میں کون سی جگہ معاذ اللہ ! اللہ عزوجل کو دولہا یا دلہن کہا گیا ہے…

شعراوّل میں تودلہن کسی کونہ کہا ، زینت کعبہ کو نئی دلہن سے تشبیہ دی ہے جس طرح ان حدیثوں میں جنت کی جنبش سرور کو دلہن کی نازش سے خطیب نے تاریخ بغداد میں عقبہ بن عامر جہنی اور طبرانی نے معجم اوسط میں عقبہ اور انس دونوں اور ازدی نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنت کو دونوں شہزادوں امام حسن و امام حسین علی جد ہما الکریم و علیہماالصلوٰۃ و التسیلم کا اس میں تشریف رکھنا معلوم ہوا: ماست الجنۃ میسا کما تمیس العر وس جنت خوشی سے جھومنے لگی جیسے نئی دلہن فرحت سے جھومے ۔ شعرسوم میں کعبہ معظمہ کو دلہن کہنا اور مکان آراستہ کو دلہن کہنا محاورۂ صحیحہ شائعہ ہے ۔ امام احمد مسند میں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : عسقلان احدی العروسین یبعث منھا یوم القیمۃ سبعون الفابغیر حساب علیھم عسقلان ( ایک مقام ہے ) دو دلہنوں میں کی ایک ہے ، روز قیامت اس میں سے ستّر ہزار ایسے اٹھیں گے جن پر حساب نہیں ۔ مسندا لفردوس میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : طوبی لمن اسکنہ اللّٰہ تعالیٰ احدی العروسین عسقلان اوغزۃ شادمانی ہے اسے جسے اللہ تعالیٰ دو دلہنوں میں سے ایک میں بسائے عسقلان یا غزہ (دونوں الگ الگ جگہیں ہیں) باقی چار اشعار میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دولہا کہا ہے اور وہ بیشک تمام سلطنت الہٰی کے دولہا ہیں، امام احمد قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں نقل فرماتے ہیں : ھو صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم رأی صورۃ ذاتہ المبارکۃ فی الملکوت فاذا ھو عروس المملکۃ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شب معراج عالم ملکوت میں اپنی ذات مبارک کی تصویر ملاحظہ فرمائی تو دیکھا کہ حضور تمام سلطنت الہٰی کے دولہاہیں (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) ۔ دلائل الخیرات شریف میں ہے : اللھم صلی علی محمد و علی ٰالہ بحرانوارک و معدن اسرارک و لسان حجتک و عروس مملتک الہٰی درود بھیج محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کی آل پر جو تیرے انوار کے دریا اور تیرے اسرار کے معدن اور تیری حجت کی زبان اور تیری سلطنت کے دولہاہیں ۔ علامہ محمدفارسی اس کی شرح مطالع المسرات میں فرماتے ہیں:

( یہاں عربی عبارت کا وہ خلاصہ لکھا جارہا ہے جو امام احمد رضا نے خود لکھا ہے یعنی تلخیص کی ہے)…

’’ اس عبارت صرا پابشارت کا خلاصہ یہ ہے کہ امام محمد بن سلیمان جزولی قدس سرہ الشریف نے اس درود مبارک میں سلطنت کو برات کے مجمع سے تشبیہ دی کہ اس میں ایک اجتماع ہوتا ہے اور اس کی آرائش انتہا کو پہنچائی جاتی ہیں ، سب کا م قرینے سے ہوتے ہیں ، ہر چیز نئی اور خوش آئند لوگ اپنے دولہا پرشادو فرحاں اسے چاہنے والے ، اس کی تعظیم و اطاعت میں مصروف ، اس کے ساتھ قسم قسم کی من مانتی نعمتیں پاتے ہوئے اور عادت یوں ہے کہ برات کے مجمع کو سلطنت اور دولہا کو بادشاہ سے تشبیہ دیتے ہیں ، یہاں اس کا عکس کیا کہ سمجھا جائے کہ جس طرح برات کے مجمع کا معزو سبب دولہا ہوتا ہے ،یو ہیں تمام مملکت الہٰی کے وجود کا سبب اور اس کے اصلی راز و مغزو معنی صرف مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ع

دولہا کے دم کے ساتھ یہ ساری برات ہے

اس لئے کہ حضور تمام ملک و ملکوت پر اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں جن کو رب عزوجل نے اپنے اسماو صفات کے اسرار کا خلعت پہنایا اور ہر مفرد و مرکب میںتصرف کا اختیار دیا ہے ۔ دولہا بادشاہ کی شان دکھاتا ہے ، اس کا حکم برات میں نافذہوتا ہے ، سب ا س کی خدمت کرتے اور اپنے کام چھوڑ کر اس کے کام میں لگے ہوتے ہیں ، جس بات کو اس کاجی چاہتا ہے موجود کی جاتی ہے ، چین میں ہوتا ہے ، سب براتی اس کی خدمت میںاور اس کے طفیل میں کھانا پاتے ہیں، یوہیں مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم میں بادشاہ حقیقی عزوجل کی شان دکھاتے ہیں ، تمام جہان میںان کا حکم نافذ ہے ، سب ان کے خدمت گاروز یر فرمان ہیں ، جووہ چاہتے ہیں اللہ عزوجل موجود کردیتا ہے کہ:

’’اری ربک لیسارع فی ھواک ‘‘

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کرتی ہیں میںحضور کے رب کو دیکھتی ہوں کہ حضور کی خواہش میں شتابی فرماتا ہے ، تمام جہاں حضور کے صدقہ میں حضور کا دیا کھاتے ہیں کہ :

’’ انماانا قاسم واللّٰہ معطی‘‘

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضورپر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ہر نعمت کا دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں ، یوں تشبیہ کامل ہوئی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام سلطنت الہٰی کے دولہا ٹھہرے …

’’ والحمد للّٰہ رب العالمین ‘‘

ان تقریرات سے واضح ہوا کہ ان معانی پر دلہن دولہا ، زوج ، زوجہ کی طرح باہم مفہوم متضائف نہیں ۔ عسقلان و غزہ کو حدیث نے دلہنیں فرمایا۔ دولہا کون ہے ؟ بیہقی شعب الا یمان میں امیر المومنین مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند حسن روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’ لکل شئی عروس وعروس القرٰان الرحمٰن ‘‘

ہر شے کی جنس میں ایک دلہن ہوتی ہے اور قرآن عظیم میں سورۃ الرحمن دلہن ہے ۔ یہاں کسے دولہا ٹھہرائیے گا…

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (عربی سے ترجمہ ) ’’ بیشک اللہ عزوجل قیامت کے دن سب دنوں کو ان کی شکل پر اٹھائیگا ،اور جمعہ کو چمکتا روشنی دیتا جمعہ پڑھنے والے اس کے گرد جھرمٹ کئے ہوئے جیسے نئی دلہن کو اس کے گرامی شوہر کے یہاں رخصت کرکے لے جاتے ہیں ۔ امام اجل ابوطالب مکی قوت القلوب اور امام حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء میں فرماتے ہیں :(عربی سے ترجمہ ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک کعبہ روز قیامت یوں اٹھایا جائیگا جیسے شب زفاف دلہن کو دولہا کی طرف لیجاتے ہیں ۔ تمام اہلسنت جنہوں نے حج مقبول کیا اس کے پردوں سے لپٹے ہوئے اس کے گرد دوڑتے ہوں گے یہاں تک کہ کعبہ اور اس کے ساتھ یہ سب داخل جنت ہوں گے ۔

نہایہ امام ابن الا ثیر میں ہے : ( عربی سے ترجمہ ) یعنی اسی باب سے ہے یہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : علی مرتضیٰ میرے او ر ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بیچ میں جنت کی طرف خوش خوش تیز چلیں گے، یا میرے اور ان کے بیچ میں انہیں جنت کی طرف یوں لے جائیں گے جیسے نئی دلہن کو دولہا کے یہاں لیجاتے ہیں ۔ امام اجل ابن المبارک و ابن ابی الدنیا وابو الشیخ اور ابن النجار کی کتاب الدررالثمینۃ فی تاریخ المدینہ میں کعب احبار سے راوی کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکرپاک تھا اور اس وقت کعب احبار حاضر تھے تو کعب احبار نے کہا ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر مزار اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا طواف کرتے اور اس کے گرد حاضررہ کر صلوٰۃ و سلام عرض کرتے رہتے ہیں ، جب شام ہوتی ہے وہ چلے جاتے ہیں اور ستر ہزار اور اتر کریو ہیں طواف کرتے اور صلوٰۃ و سلام عرض کرتے رہتے ہیں ، یوہیں ستر ہزار رات میں حاضر رہتے ہیں اور ستر ہزار دن میں… جب حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مزار مبارک سے روز قیامت اٹھیں گے ستر ہزار ملائکہ کے ساتھ باہر تشریف لائیں گے جو حضور کو بارگاہ عزت میں یوں لے چلیں گے جیسے نئی دلہن کو کمال اعزاز و اکرام وفرحت وسرور وراحت و آرام وتزک واحتشام کے ساتھ دولہا کی طرف لے جاتے ہیں۔‘‘ <ref> ملخصاً، امام احمد رضا: فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص ۱۹۹ تا ص ۲۰۲</ref>

امام احمد رضا نے احادیث کریمہ اور ادبی اعتبار سے ثابت کردیا کہ دولہا اور دلہن سے مراد زوج وزوجہ نہیں بلکہ دولہا … سے مراد ہے : معزز ، مالک و مختار وغیرہ اور دلہن سے اس مراد کے علاوہ آرائش و زیبائش بھی ہے ۔

اب امام احمد رضا کے محولہ اشعار نمبر۱۰؍نمبر۱۱؍نمبر۱۲؍نمبر۱۳؍ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دولہا کہا گیا ہے ، ان کی عظمت و رفعت اور بارگاہ رب العزت میں ان کی قربت و محبوبیت کے طور پر کہا گیا ہے ۔ علاوہ از یں انہیں کونین کے سرور و شافع محشر اور ان کے خصوصی معجزہ اور شرف و امتیاز ’’معراج ‘‘ کی وجہ سے ان کی عظمت شان کے اظہار کے لئے کہا گیا ہے ۔

شعر نمبر ۱۰ میں … حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی جانب اشارہ ہے ۔

شعر نمبرا۱میں … حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رب اکبر کے محبوب اعظم ہونے کی وجہ سے ’’دونوں عالم کا دولہا‘‘ یعنی دونوں عالم کا مختار اور محبوب انس و جاں بتایا گیا ہے ۔

شعر نمبر ۱۲میں … سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول معراج اور جنت کی سروری کی وجہ سے دولہا کہا گیاہے ۔

شعرنمبر ۱۳میں … ’’ اللہ کی سلطنت کا دولہا ‘‘ کہہ کر انہیں سرور کو نین کہا گیا ہے …… وغیرہ وغیرہ ۔

شعر نمبر ۷ میں … دولہا ، دلہن دونوں الفاظ آئے ہیں ۔ کعبہ معظمہ کو اس کی تقدیس و عظمت اور آرائش و زیبائش کی وجہ سے دلہن کہا گیا ہے اور پھر مدینہ امینہ یعنی روضۂ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تقابل کرتے ہوئے اسے دولہا کا گھر کہہ کر اسے کعبہ سے زیادہ پر بہار بتایا ہے اور یہ سچ ہے کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل کعبہ و مدینہ دونوں کو عظمتیں حاصل ہیں ۔ ایک شعر میں کیا خوب فرماتے ہیں ؎

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ

لولا ک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

کعبہ و مدینہ میں دولہا کے گھر کی بہار یعنی مدینہ منورہ کی بہار اس لئے ہے کہ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ فرما ہیں ۔ شعر نمبر ۸، شعر نمبر ۹ کی بابت ’’ نعت رنگ ، کراچی ، شمارہ نمبر ۴ ‘‘ میں ایک پاکستانی پروفیسر نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ ہندی عناصر اور بھگتی شاعری سے مملوہے اور یہاں الفاظ کی تقدیس برقرار نہیںہے ۔ اس کا جواب تودے دیا گیا ہے ، اس کے بعد بھی انہیں صاحب نے رضاؔ کے ایک مصرع …’’ میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب ‘‘پر شرعی گرفت کی تھی اس کا بھی مسکت جواب راقم نے دیا تھا جو نعت رنگ میں شائع ہوچکا ہے ۔

شعر نمبر ۸ میں… تربت اطہر کو نئی دلہن اس لئے کہا گیا کہ وہ بہت بعد میں منظر پر آیا۔ اس شعر میں دونوںکی عظمت و تقدیس اور جمال کی توصیف کی گئی ہے۔

شعر نمبر ۹ میں …دونوں کو سجیلی انیلی کہا ہے مگر مدینہ (روضہ اطہر ) کو فضیلت اس لئے دی ہے کہ اس میں حضور جلوہ فرماہیں ۔ ’’ جسے پیا چاہے سہاگن وہی ہے ‘‘ کہاوت مشہور ہے لہٰذا مدینہ کو کنور کی سہاگن اسلئے کہا کہ یہ سرکار کی جلوہ گاہ ہے ان اشعار میں نہ کوئی شرعی خامی ہے نہ ادبی ۔لفظوںکی تقدیس برقرار ہے ۔

تبصرہ:دولہا ، دلہن کے تعلق سے ہماری زبان میں محاورات اورضرب الا مثال بھی رائج ہیں ۔ جیسے ’’دولہا بنے بیٹھے رہنا ‘‘ معزز ہونا ، کوئی کام نہ کرنا (فیروز اللغات )

کسی محفل کے صدر ، زینت ، رونق بزم ، کسی جماعت کے لیڈروغیرہ کو دولہا کہہ دیتے ہیں جیسے وہ اس محفل کے دولہاہیں ۔ کہاوت ہے ’’ دولہا کے بغیر باراتیوں کا کیا کام‘‘ یعنی اگر جماعت کا لیڈر یاٹیم کا کپتان نہ ہوتو ارکان جماعت یا ٹیم کے کھلاڑیوں کی اہمیت کیااور کیا ان کی ضرورت ۔بنے سنورے انسان کو بھی دولہا کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی سجی سنوری عورت کو دلہن ۔ اور بھی مثالیں ہیں۔

ہمارے ملک میں’’ بمبئی ‘‘ کو عروس البلاد کہا جاتا ہے تو کیا بمبئی سارے شہروں کی دلہن بمعنی زوجہ اور سارے شہر اس کے دولہا یعنی شوہر ہوگئے ۔ ایسا تو شہر کی خوب صورتی ، آرائش و زیبائش اور رونق کی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔

امام احمد رضا کے کلام میں دولہا ، دلہن لفظوں کا استعمال احادیث کریمہ کی روشنی میں ہوا ہے۔ علاوہ اس کے آپ نے ان لفظوں کو برت کر کلام میں ادبی حسن پیدا کیا ہے اور محاورات و ضرب الامثال کو برت کرا لفاظ دولہا ، دلہن کو نیا پن عطا کیا ہے ۔

٭٭٭

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی | احمد رضا خان بریلوی | | احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | حدائق بخشش |

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]