"ارشد مینانگری اور نعت گوئی میں ہیئتی تنوع ۔ مشاہد رضوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: 200px {{بسم اللہ }} مضمون نگار : مشاہد رضوی === ارشد مینانگری اور نعت گوئی میں ہیئ...)
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 08:42، 4 ستمبر 2018ء

ANL Mushahid Razvi.jpg


مضمون نگار : مشاہد رضوی

ارشد مینانگری اور نعت گوئی میں ہیئتی تنوع

جناب عبدالرشیدالمعروف ارشدؔ مینانگری شعری ادب کے ایک ہمہ جہت، پُر گو، زود نویس اور فعال و متحرک فن کار ہیں۔ ان کی فنی ریاضتیں اور مشقتیں نصف صدی کے لگ بھگ محیط ہیں۔ اپنے مخصوص لب و لہجے اور پاٹ دار آواز کے سبب مشاعروں کی دنیامیں آپ کی شخصیت ہر دل عزیز مانی جاتی ہے اور آپ کا شمار بھی مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے ۔ آپ کا فکری و فنی اور شعری و ادبی سفر مبدئِ فیاض کے ودیعت کردہ وجدان و شعور کی روشنی میں مسلسل جاری و ساری ہے۔ اردو کی مروجہ بیش تر اصنافِ سخن میں آپ کام یاب طبع آزمائی کررہے ہیں۔ حمد و نعت، مناجات و مناقب ، سلام و دعا ، قصیدہ،غزل، غزل نما، آزاد غزل، نظم، آزاد نظم، معرا نظم، مرثیہ، رباعی ، قطعہ ، گیت، دوہا، سانیٹ، ہائیکو، ثلاثی،مربع، مسدس، مخمس، ماہیے، کہہ مکرنی ، سری چھند اور ٹپے و غیرہ اصناف میں آپ کے کلام بہ کثرت موجود ہیں۔ ارشد صاحب کا ذہن و فکر جس انداز سے دنیاے شعر و ادب کو اپنی گراں قدر شعری و دبی خدمات سے مالا کررہا ہے وہ آپ کو تادیر زندہ رکھنے کے کافی ہے۔ اردو زبان و ادب کی معتبر اور جیدشخصیات نے آپ کو فراخ دلی کے ساتھ سراہا ہے جو آپ کی مقبولیت کی بین دلیل ہے۔ احساس، نئے اُجالے، دھرتی کے تارے اور عید جیسی شعری تصانیف طبع ہوکر اپنی انفرادیت اور ہیئتی تنوع کا نقشِ جاوداں کائناتِ ادب پر مرتسم کررہی ہیں ۔


اردو میں حالیؔ ، نظیرؔ ، اکبرؔ اور اقبالؔ وغیرہ کے یہاں مختلف موضوعات پر اچھی اچھی نظمیں ہمیں شاد کام کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ارشدؔ مینانگری کے یہاں موضوعاتی تجربات کا کینوس ایسا وسیع اور منفرد ہے کہ مختلف موضوعات پر آپ کے مکمل مجموہاے کلام مرتبہ ہیں جو آپ کے شعری امتیاز کی علامت ہیں ۔ ’’عید‘‘ پر آپ کی شعری تصنیف میرے روبہ رو ہے یہ کتاب ادب کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے جس میں عید الفطر جیسے عظیم اسلامی تہوار کی معنویت اور افادیت کو کئی اصناف کا استعمال کرتے ہوئے اُجاگر کرنے کی کام یاب کوشش کی گئی ہے۔


اس مجموعہ میں شامل بیش تر کلام منظر نگاری، عصری حسیت اور احساسات کی بالغ ترجمانی کے ساتھ ساتھ نشاط و انبساط کا دل کش عکاس ہیںجو قاری و سامع کو کیف و سرور عطا کرتے ہیں۔ کئی نظموں میں رواداری ، مفلسوں کی اعانت اور غربا کی ہم دردی کااظہار جس کربیہ آہنگ کے ساتھ کیا گیا ہے وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں بعض نظموں میں خیالات اور افکار کا اعادہ بھی ہمیں نظر آتا ہے لیکن پیرایۂ بیان میں جو نفاست ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہم ایسے اشعار کو تکرار کے نقائص کا آئینہ دار نہیں قرار دے سکتے ۔


منورؔ رانا کا ’’ماں‘‘ پر لکھے گئے مختلف شعروں کا ایک انتخاب’’ماں‘‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے، لیکن اُسے ’’ماں‘‘ پر مستقل شعری تصنیف نہیں کہی جاسکتی۔ نوجوان شاعر و ادیب ، عالم و مفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی(ممبئی) کا ’’ماں‘‘ پر مبنی ایک دل کش مجموعہ ’’ماں کے آنچل پہ شبنم ٹپکتی رہی‘‘ فروری ۲۰۱۰ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوکر خراج تحسین حاصل کررہا ہے ۔ یہ سن کر مسرت ہوئی کہ ارشدؔ صاحب کا بھی ’’ماں‘‘ جیسی مقدس ہستی کے مراتب و مناقب کو ظاہر کرتا ہیئتی تنوع اور فنی محاسن سے آراستہ ایک وقیع شعر ی مجموعہ عنقریب منظر عام پر آرہا ہے ۔ امید ہے کہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہوگا۔ اسی طرح قطعا ت کا ایک مجموعہ’’ بولتے پتھر‘‘ زیرِ طبع ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر پڑھی جانے والی تہنیتی نظم جسے ’’سہرا ‘‘ کہا جاتا ہے اس مقبولِ عام صنف پر مبنی خوب صورت مجموعہ ’’ سہروں کے چہرے‘‘ بھی طباعت کے مراحل سے گذرنے والا ہے۔ ارشدؔ مینانگری کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا ہے جو محبت آشنا اور الفت ریز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے شاعری کے ذریعہ اصلاحِ اعمال کا کام لینے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اصنافِ ادب میں حمد و نعت، مناقب و سلام، مناجات و دعا ایسی اصناف ہیں جنھیں تقدیسی حیثیت حاصل ہے یہ وہ پاکیزہ اصناف ہیں جن پر طبع آزمائی کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں خصوصاً نعت گوئی کا فن تو خالص اللہ عزو جل کی عطا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتوں سے شاعر کو میسر آتا ہے۔ اردو کا ہر چھوٹا بڑا شاعر خواہ و ہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس نے تبرکاً حمد و نعت ضرور لکھی ہے۔ لیکن یہ سعادت بہت کم شعرا کے حصے میں آئی ہے کہ مکمل مجموعۂ کلام اور دواوین اس مقدس صنف پر مشتمل منظر عام پر آئے ہوں۔ امام احمد رضاؔ بریلوی، امیرؔ مینائی، محسن ؔکاکوروی، حسنؔ رضا بریلوی وغیرہم جیسے شعراے کرام کے نعتیہ کلام تو آفاقی مرتبے کے حامل ہیں، آج ہمارے قلوب و اذہان کو ان کے کلام محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ بصیرت عطا کررہے ہیں۔ ان حضرات نے نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا میں جو کردار ادا کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ یہ انھیں نفوسِ قدسیہ کی کوششوں کا حسین ثمرہ ہے کہ آج نعت جیسی محترم اور پاکیزہ صنف ، ادب کے عصری منظر نامہ پر بے پناہ مقبول ہے ۔ حتیٰ کہ بعض ناقدین اکیسویں صدی کو نعت گوئی کی صدی خیال کررہے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا نے وہ دور بھی دیکھا جب نعت کو بہ طورِ صنف تسلیم کرناتو کُجا اسے شاعری سے ہی خارج کردیا گیا تھا، انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے لاکھ کوشش کی کہ اس صنف کو پروان چڑھنے نہ دیا جائے لیکن آزادی کے بعد بعض جدیدشعرا نے کائناتِ عالم کو اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منور و مجلا کرنے کا عزمِ مصمم کرلیا اور سببِ تخلیقِ کائنات اور وجہِ حیاتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ، اخلاق و کردار او ر شمائل و فضائل سے تاریک ذہنوں کو نورِ یقین عطا کرنا شروع کردیاان میں حفیظؔ میرٹھی، حسنینؔ رضا بریلوی، حافظؔ پیلی بھیتی، مصطفی رضا نوریؔ بریلوی،زائرِ حرم حمیدؔ صدیقی لکھنوی، ضیاؔ بدایونی، نعیمؔ صدیقی، یونس ؔقنوجی، ماہرؔ القادری، سید محمد اشرفی سیدؔکچھوچھوی وغیرہم کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت گوئی کے ذریعہ شعور و فکر کی طہارت و پاکیزگی سے ہم کنار کرنے والوں میں علاوہ ان شعرا کے نعت گوئی کے فن کو وسعت دینے میں عمیقؔ حنفی، عبدالعزیزخالدؔ، شمسؔ بریلوی ،رازؔ الٰہ آبادی، عثمان عارفؔ نقش بندی، حفیظؔ تائب، اعظمؔ چشتی، راجا رشیدؔ محمود، شبنم ؔ کمالی ، قیصرؔ وارثی،اخترؔ الحامدی، مظفر ؔ وارثی، اجملؔ سلطان پوری ، طلحہ رضوی برقؔ دانا پوری، سید شمیم گوہرؔالٰہ آبادی وغیرہم کی خدمات لائقِ قدر ہیں۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ آج ہند و پاک میں کئی شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے ان میں سید آلِ رسول حسنین نظمی مارہروی، اخترؔ رضا ازہری بریلوی، ابرار ؔ کرت پوری، خلیل ؔ وارثی، سید صبیح ؔ رحمانی وغیرہم نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اور بعض شعر اایسے بھی ہیں جنھوں نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کے فن سے بھی اپنا والہانہ رشتہ استوا رکھا اور مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے گل بوٹے کھلائے ۔ ایسے شعرا میں بیکلؔ اُتساہی، نادمؔ بلخی، حماد احمد صابر ؔقادری،علیم صباؔ نویدی، سید وحیدؔ اشرف کچھوچھوی، سلیم شہزاد، اشفاق انجم، ناوکؔ حمزہ پوری، ظہیرؔ غازی پوری، مناظر عاشق ہرگانوی وغیرہم کے شانہ بہ شانہ ارشدؔ مینانگری کا شمار بھی کیا جانا چاہیے کہ ان کے یہاں قابلِ لحاظ تعداد میں نعتیہ کلام موجود ہیں۔ مسرت و انبساط کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ نعت کو صنفی حیثیت دینے میں ناقدین پس و پیش میں مبتلا تھے ارشدؔ صاحب نے محض غزل کی ہیئت میں محصور نہ رہتے ہوئے اردو میں رائج کئی اصناف میں نعتیں قلم بند کیں اور یہ باور کرادیا کہ نعت صرف ارادتِ اسلامی اور تقدس و طہارت کی بِنا پر ہی نہیں بل کہ ہیئتی اور صنفی تنوع کے لحاظ سے بھی ایک ایسی ہمہ جہت اور طاقت ور صنفِ سخن ہے کہ دوسری اصناف اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں۔ ارشدؔ صاحب کے یہاں غزل، غزل نما، رباعی، قطعہ، ثلاثی، نظم، گیت، دوہا، ہائیکو، سانیٹ ، مربع، مسدس، مخمس وغیرہ اصناف میں نعت گوئی کے کام یاب تجربات جلوہ فگن ہیں ۔ نعت گوئی میں ایسا ہیئتی تنوع اور کثیر صنفی انداز دیگر شعرا کے یہاں خال خال نظر آتا ہے۔ ارشدؔ صاحب کی یہ کاوشیں فنِ نعت گوئی سے آپ کے مخلصانہ لگاو کا پتا دیتی ہیں۔ موصوف کے زیرِ طبع نعتیہ مجموعۂ کلام ’’رحمۃ للعالمین‘‘سے مختلف ہیئتوں میں قلم بند کیے گئے نعتیہ کلام خاطر نشین کریں ؎ رباعی احساسِ تمنا ہے منور میرا میں خود ہی نظر آتا ہوں ہم سَر میرا سرکار کے در پر ہے جھکی میری جبیں پہنچا ہے بلندی پہ مقدر میرا قطعہ اک بشر صاحبِ معراج بنا عظمتوں کے جہاں کا راج بنا آپ کا ہر قدم خدا کی قسم عرشِ اعظم کے سر کاتاج بنا دوہا راحت خیز خزینہ ہے ، شیوہ احمد کا رحمت بیز نگینہ ہے ، رستہ احمد کا غزل(مطلع وشعر) ذاتِ احمد اگر نہیں آتی زندگی راہ پر نہیں آتی دیدِ احمد میں جس کی آنکھ کھلی نیند اُسے عمر بھر نہیں آتی غزل نما( مطلع وشعر) قدوم ، عرشِ علا پہ جس کے ، بلندیوں کا نصیب ہے وہ عجیب ہے وہ ، عجیب ہے وہ عداوتوں کا مزاج بدلا ، خباثتوں کا بھی راج بدلا محبتوں کا نقیب ہے وہ نظم(ایک بند) فخرِ کائنات مصطفی عظمتِ حیات مصطفی جن کو پَر نہیں تھے پَر دیے بے بسی کو ختم کر دیے دامنِ جہان بھر دیے ان کے خالی ہاتھ مصطفی فخرِ کائنات مصطفی گیت(مکھڑا و بند) مصطفی تمہیں تم ہو خلق کے نظاروں میں مسکرائے تم ہی تم چاند میں ستاروں میں شبنمی اُجالوں میں کون مسکراتا ہے گوہروں کی جھل مل میں کون جگمگاتا ہے ہیروں کی چمک بھر دی کس نے رہگذاروں میں

مصطفی تمہیں تم ہو خلق کے نظاروں میں ثلاثی خارزاروں کو لالہ زار کیا مصطفی کی نگاہ نے ارشدؔ جلتے صحرا کو برف بار کیا ہائیکو ہیں شاہِ لولاک آپ کے قول و فعل سبھی سر تا سر ادراک سانیٹ بے محل بندشوں کو توڑ دیا بچھڑے ملنے لگے ہیں صحرا میں پھول کھلنے لگے ہیں صحرا میں فکر کو خوش گوار موڑ دیا


خار بھی گُل صفت نظر آئے جیسے یک سَر بدل گیا موسم سر خوشی سے مچل گیا موسم نخلِ امید میں ثمر آئے


ہر سو اوجھل ہوئے ہیں اندھیارے روشنی کا نصیب جاگ اٹّھا زندگی کا نقیب جاگ اٹّھا مسکرانے لگے ہیں اُجیارے


مصطفی کے خلوص کی نکہت زحمتوں میں بھی بن گئی رحمت ارشدؔ مینانگری نے اپنے کلام کو عقیدت و ارادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پُراثر اظہاریہ بنانے کے ساتھ ساتھ رسولِ گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلا اخلاق و کردار، اسوۂ حسنہ ، پاکیزہ شب و روز، اصولِ امن و مساوات، عدل و انصاف ، رحم و مروت ، ایثار و قربانی اور نظم و ضبط کا بے دار کُن اشاریہ بھی بنایا ہے۔ آپ نے اپنی نعتوں میں اردو کے ساتھ ہندی بھاشا اور گیتوں کی لفظیات کے علاوہ تشبیہات، استعارات، محاورات، محاکات ، پیکرات ، ترکیبات ، علامات ، جمالیات ، نئے امکانات، جدید تجربات اور ہیئتی تنوع وغیرہ شعری محاسن کو عمدگی سے فن کارانہ طور پر برتنے کی کام یاب کوشش کی ہے ۔جو تاثیر کے جوہر سے سجی ہوئی ہیں۔ ارشدؔ صاحب کی نعتوں میں مقصدیت اور معنویت پائی جاتی ہے، عالمی سطح پر اُمتِ مسلمہ کی روبہ زوال عظمت و شوکت کا المیہ پیش کرنے کی بجاے آپ نے براہِ راست اِس عظیم بیماری کے علاج و مداوا کی بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ سیرتِ طیبہ کا عامل کبھی بھی رسوا نہیں ہوسکتا ، فنِ نعت گوئی کے لوازمات اور آدابِ نعت کا پاس و لحاظ بھی آپ کی نعتوں میں ملتا ہے۔ رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سراسر قرآن کی تفسیر ہے اور آپ کے جملہ افعال و اعمال اور اقوال و فرامین وَمَا یَنطِقُ عنِ الھَویٰ اِن ہُوَا اِلا وَحْیُ یُّوحیٰ کے مصداق حق تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں ۔ اِس اعتبار سے ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و منصب کتنا بلند و بالا ہے اس کااندازہ لگانا ممکن نہیں ۔ شاعر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ نعت لکھتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ جس بارگاہِ عظمت نشان کے لیے قلم اٹھا رہا ہے وہ بارگاہ ممدوحِ خالقِ کائنات جل شانہٗ بھی ہے، یہاں ’’باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ کی نازک ترین منزل ہمہ دم پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ اِس تناظر میں ارشدؔ مینانگری کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’رحمۃ للعالمین‘‘کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ احساس ابھرتا ہے کہ آپ نے اپنے کلام کو رسولِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت و محبت کے تئیں مبالغہ و غلو سے پَرے قرآنی ادب کا مظہر بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی آپ کے کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے عطا کردہ نوازشات و انعامات ، تصرفات و اختیارات اور عظمت و رفعت کا بالغ اقرار بھی ملتا ہے ۔ غرض یہ کہ ارشدؔ صاحب نے اپنے مجموعۂ کلام کے نام ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ کو اسم بامسمیٰ بنانے کے لیے اپنی نعت گوئی کے ذریعہ عقیدہ و عقیدت کے ساتھ کائناتِ ارضی پر بسنے والے جملہ انسانوں کو اُسوۂ حسنہ کا آفاقی پیغام دینے کی سعیِ بلیغ کی ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے، ’’رحمۃ للعالمین‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎ اُس کا شعور حاصلِ عرفان و آگہی یادِ نبی سے رشتہ ہے جس کے شعور کا کانٹوں کو بھی پھولوں کا احساس دلا دینا سنّت ہے محمد کی دشمن کو دعا دینا ذاتِ احمد اگر نہیں آتی زندگی راہ پر نہیں آتی نقشِ پا آپ کا نظر آیا خلد کا راستا نظر آیا ……… یہ ترے قدم کے فیوض ہیں ، یہ ترے قدم سے ظہور ہے تری رہِ گزر میں جگہ جگہ ، کہیں عرش ہے کہیں طور ہے ہم پھر گئے تعلیمِ رسولِ عرَبی سے بو بکر و عمر حضرتِ عثمان و علی سے مطلق ذلیل ہوکے پشیمان نہیں ہیں صد حیف کہ ہم عاملِ قرآن نہیں ہیں یوں دور ہوئے جذبۂ احساسِ خودی سے ہم پھر گئے تعلیمِ رسولِ عرَبی سے المختصر یہ کہ پیشِ نظر مجموعۂ کلام ارشدؔ مینانگری کی فکری و فنی گہرائی و گیرائی کا ایک دل کش اظہاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتیہ شاعری کے حوالے سے مختلف ہیئت اور اصناف کے بلیغ تجربات کا آئینہ دار بھی ہے۔مختلف ہیئتوں اور اصنافِ سخن میں اتنی خوب صو رت نعتیں لکھنے پر میں ارشدؔ صاحب کو صمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ۔ یقین ہے کہ موصوف کے دیگر مجموعہ ہاے کلام کی طرح نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی یہ خوب صورت نذرانۂ عقیدت بھی قبولیتِ عامّہ سے سرفراز ہوگا جو اِن شآء اللہ آپ کے لیے توشۂ نجات بنے گا۔ (۶؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ھ / ۹؍ جون ۲۰۱۱ء بروز جمعرات) {……}