اردو کے نعتیہ اشعار میں چٹائی،غار حرا اورجو کے تذکار اورسیرت نبوی کے حقائق ، منظر عارفی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 13:45، 4 جولائی 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


منظرؔ عارفی۔کراچی


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Manzar Arfi has under gone research into the oft used names of Cave Hira , Mat and Barley in devotional poetry. He has presented historical back ground to denote correct evaluation in comparison to other visiting or doweling places, use of certain commodities and taking food stuff as diet by our beloved Prophet (Peace be upon Him). The article is an effort to enable poets to make their poetry credible, with proper use of authentic references of different things.

اردو کے نعتیہ اشعارمیں ’’چٹائی ،غارِ حرا،جو‘‘کے تذکار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اورسیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقائق


چٹائی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الاماشاء اللہ ہمارے نعت گو شعراء اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے چٹائی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس حوالے سے عجیب عجیب شعر نعتوں میں لکھے گئے ہیں۔شاید ہی کوئی نعت کہنے والا شاعر ہو جس نے ’’چٹائی ‘‘پر شعر نہ لکھاہو۔میں اگر ایسے شعروں کاانتخاب بھی لکھوں تو سینکڑوں کی تعداد میں شعر لکھ سکتاہوں ۔ہماری نعت میں یہ اتنامشہور موضوع ہے کہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ مثال کے طور پرہی ایک دوشعر لکھ دیے جائیں ۔پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں شائع ہونے والا کوئی بھی اردو کا نعتیہ مجموعہ اٹھائیے ’’چٹائی‘‘کے موضوع پر بیسیوں شعر مل جائیں گے۔سو میں یہاں ایک بھی شعر نہیں لکھ رہا۔ نعت لکھنے والے شعرا ء غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے یا لیٹے کے لیے صرف ’’چٹائی‘‘ ہی کو اختیار فرمایااور چٹائی کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹھنے اورلیٹنے کے لیے کوئی دوسری چیزنہ تو استعمال فرمائی اور نہ ہی پسند فرمائی۔ایسی سوچیں اور اس قسم کے فیصلے نعت لکھنے والے شعراء کے قطعی ذاتی فیصلے ہیں ۔حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔یہ اور بات ہے کہ اس قسم کی باتیں اس کثرت سے لکھی گئی ہیں کہ حقائق پسِ پشت چلے گئے ہیں۔اور لوگ اندھی تقلید کی بنیاد پر اسے دل و جاں سے اپنائے ہوئے ہیں۔اور اسی کو دین سمجھ رہے ہیں،اسی پر سر دھن رہے ہیں ،گریبان چاک کر رہے ہیں ، اور نذرانے لُٹارہے ہیں ۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ ہمایوں میں لیٹنے اور بیٹھنے کے لیے جو بھی چیزیں اس وقت کے عام معاشرے میں استعمال ہوتی تھیں اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہی بلاتکلف استعمال فرمایا جن میں سے ایک چیز ’’چٹائی‘‘ بھی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے اور لیٹنے کے حوالے سے جو فضیلت ’’چٹائی‘‘کو حاصل ہے وہی فضیلت اُن تمام چیزوں کو بھی حاصل ہے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہوئے یا استراحت فرماہوئے۔خواہ وہ چٹائی ہو ، براہِ راست زمین ہو، چمڑہ ہو ،چادر ہو، چارپائی ہو ،کرسی ہو، مسند ہویا منبر وغیرہ میں سے کچھ بھی ہو۔نیز مجھے کہیں سے اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دورِ مبارک میں موجود عام طور پر بیٹھنے اور لیٹنے کی تمام چیزوں میں سے صرف ’’چٹائی ‘‘ کو ہی پسند فرمایا ہو اورباقی چیزوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا ہو۔ یا باقی چیزوں کے مقابلے میں ’’چٹائی‘‘ کو زیادہ اہمیت دی ہو۔یا کسی وقت کسی اور چیز کو ترک فرماکر چٹائی کو اختیار فرمایا ہو۔(واللہ اعلم)

حافظ ابن قیم ’’زاد المعاد‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )زمین،چٹائی، بستر ہر جگہ (جو پاک صاف ہوتی وہاں بلاتکلف)بیٹھ جایا کرتے۔قیلہ بنتِ مخزمہ نے بتایا کہ’’ ایک بار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت اکڑوں بیٹھے تھے۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح عاجزی سے اکڑوں بیٹھے دیکھا تو ڈر کر کانپ گئی‘‘۔

جب حاتم طائی کے فرزند عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے گھر لے گئے ۔لونڈی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچھونا پیش کیا جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بچھونے کو)اپنے اور عدی کے درمیان رکھ دیا اورزمین پر بیٹھ گئے۔حضرت عدی کہتے ہیں کہ:

’’میں سمجھ گیا کہ آپ بادشاہ نہیں ہیں‘‘۔(۱)

’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایسی چارپائی پر تشریف فرماہوتے جسے کھردرے بان سے بُناگیاتھا‘‘۔(۲)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:

’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں ایک ایسی چارپائی تھی جوبڑی گھاس کے پٹھے سے بُنی گئی تھی۔اس پر ایک سیاہ رنگ کی چادر بچھائی جاتی تھی‘‘۔(۳)

حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

’’اُن کے پاس رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات میں سے ایک چارپائی،ایک عصا، ایک پیالہ ایک تکیہ جس کو کھجور کی چھال سے بھرا گیاتھا، ایک چادر اورایک کجاوہ(اونٹ پر بیٹھنے کی ڈولی)تھا‘‘۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

’’قریشِ مکہ سونے کے لیے چارپائیاں استعمال کرتے تھے ۔جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں اقامت گزیں ہوئے۔حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’اے ابو ایوب !تمہارے ہاں چارپائی نہیں ہے؟‘‘۔عرض کی ’’بخدا !ہمارے ہاں چارپائی نہیں ہے‘‘ ۔

(کیونکہ اہلِ مدینہ میں اہلِ مکہ کی طرح چارپائی کے استعمال کا رواج نہیں تھا)یہ بات حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے سنی تواپنے آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے استعمال کے لیے ایک چارپائی بھیجی جس کے بازو اور پائے ساگوان (کی قیمتی لکڑی سے)بنائے گئے تھے۔رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر استراحت فرمایا کرتے تھے ۔اورجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تو اس وقت بھی اسی چارپائی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم (استراحت فرما)تھے۔بعد میں صحابہ کرام اپنے مُردوں کواسی چارپائی پر اٹھاکر دفن کے لیے لے جاتے تھے۔چنانچہ حضرت صدیق اکبر اورفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی اسی چارپائی پر اُن کی آخری آرام گاہ تک لے جایاگیا تاکہ اس کی برکت سے ان کی میت بھی متمتع ہو۔(۴)

حضرت ابو رفاعہ العدوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ’’کرسی ‘‘پیش کی گئی ۔میرا خیال ہے اس کے پائے لوہے کے تھے‘‘۔

امام احمد کی رائے ہے، کہ اس کے پائے لکڑی کے تھے۔لیکن اس پر سیاہ رنگ کردیاگیا تھا۔جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی ہوئی(یعنی کالے رنگ کی وجہ سے اس پر لوہے کے پائے ہونے کا شبہ ہوا)حضرت ابورفاعہ کہتے ہیں:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُس(کرسی)پر بیٹھ گئے اورمجھے وہ علم سکھاناشروع کیاجو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا‘‘۔(۵)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی جو رات کو لپیٹ دی جاتی تھی ۔ اس پرحضور نماز ادا کرتے تھے۔دن کے وقت (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانا چاہتے) حضور صلی اللہ علیہ کے لیے بچھادی جاتی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آرام فرماتے ‘‘ ۔ (۶)

اس روایت سے دوباتیں ثبت ہوتی ہیں ۔اوّل: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت لیٹنے یا بیٹھنے کے لیے چٹائی بھی استعمال فرماتے تھے۔دوم یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات کو استراحت چارپائی پر ہی فرماتے تھے، اور یہی آپ کو اپنے قبیلے کی تہذیب کے مطابق پسندتھا(واللہ اعلم)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر استراحت فرمایا کرتے تھے وہ چمڑے کا تھا اس کو کھجور کے پتوں سے بھرا گیاتھا‘‘۔(۷)

حضرت اُمِ سلیم کی خوشبو کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کاپسینہ جمع کرنے والی مشہورِ زمانہ حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر استراحت فرماتھے وہ چمڑے کی بنی ہوئی ایک چادر تھی۔(۸)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

’’جس کجاوہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا تھا وہ پراناتھااورایسی لکڑی کابنایاگیاتھا جس کی قیمت چار درہم بھی نہ تھی‘‘۔(۹)

ایک روز حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی نورِ نظراُم المؤمنین حضرت سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہا(عموماً لوگ اس کو ’’حصفہ ‘‘پڑھتے ہیں اوراپنی بچیوں کایہی نام رکھتے ہیں جویوں غلط ہے کہ یہ نام ایک ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کاہے)سے پوچھا ،کہ مجھے یہ بتاؤ کہ:

’’ سب سے نرم اورملائم وہ کون سا بستر تھا جو تم نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھایا‘‘۔

اُم المؤمنین نے جواب دیا’’ہمارے پاس ایک چادر تھی جو ہمیں خیبر کے اموالِ غنیمت سے ملی۔میں ہر شب اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر (یعنی چارپائی )پر بچھادیاکرتی ۔اوراس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم آرام فرماتے۔ایک رات میں نے اس کو دُھرا کرکے بچھادیا جب صبح ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا :

’’آج میری چارپائی پر کیسا بستر تم نے بچھایاتھا‘‘۔میں نے عرض کی ’’یارسول اللہ ! وہی بستر جو ہرروز حضور کے لیے بچھاتی ہوں، آج میں نے صرف یہ کیا ،کہ اس چادر کو دُھرا کر کے بچھادیا‘‘۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس طرح تم پہلے یہ چادر بچھاتی تھیں اسی طرح بچھایاکرو یہ دُھری چادر میری شب بیداری میں مخل ہوئی ‘‘۔

یہ سُن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ زاروقطار رونے لگے ۔(۱۰)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ چادر بالوں سے بنی ہوئی تھی اور پہلے دوہری کر کے بچھائی جاتی تھی ایک بار حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اسے چار تہہ کرکے بچھادیا۔تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتگو فرمائی جو اوپر مذکور ہوئی۔(۱۱)

روایت ہے حضرت ایوب ابنِ بشیر سے وہ عنزہ کے ایک شخص سے راوی ،فرماتے ہیں میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

’’کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، جب آپ ان سے ملتے تھے تو آپ سے مصافحہ کرتے تھے‘‘؟۔انہوں نے فرمایا’’ایسا کبھی نہ ہوا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاہوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ نہ کیا ہو۔ حضورنے مجھے ایک دن بلایا،میں اپنے گھر میں نہ تھا۔پھر جب میں آیا تو مجھے خبر دی گئی تو میں حضور کے پاس آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تخت پر (تشریف فرما)تھے،مجھے لپٹا لیاتو یہ بہت اچھا ہوا بہت اچھا ہوا‘‘۔(۱۲)

کون اِس بات سے واقف نہیں ،کہ مسجدِ نبوی میں اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر تشریف فرماہوتے (کبھی بیٹھ جاتے کبھی کھڑے ہوکر ہی بیان فرماتے)یہ منبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر لکڑی کا بنایاگیا تھااور اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔(پہلی سیڑھی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قدمین شرفین رکھتے اور دوسری سیڑھی پر نشست فرماتے)۔اس منبر شریف کے فضائل میں کئی احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں۔

میں کہتا ہوں اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت جس مقام یا جس چیز پر تشریف فرما،یا استراحت فرماہوجاتے اس وقت وہ چیز اوروہ مقام بلاشبہ اور بلا اختلاف تمام چیزوں اور تمام مقامات سے افضل ترین ہوتاتھا۔اور اس وقت زیادہ افضل ہوتا تھاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامع کو وعظ فرمارہے ہوتے۔ہمارے نعت گو شعراء ’’چٹائی‘‘کے ساتھ ساتھ اوپرذکر کردہ ان دیگر اشیاء کو جس پر ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما،یا استراحت فرماہوئے اورکثرت سے ہوئے ،کب اپنی نعتوں کا موضوع بنائیں گے۔یاصرف چٹائی ہی کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص رکھیں گے۔غالباً ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عشّاق مطالعہ اور تحقیق کے بغیر یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ سید الانبیا ، وجہِ تخلیقِ دوجہاں،خاتم النبین اور تمام تر مخلوقات میں سب سے برتروافضل رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کا اظہار صرف اسی وقت ممکن ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کو صرف چٹائی جیسی ارزاں چیز سے منسوب کردیاجائے۔اور چٹائی ہی پرنشست فرما اور استراحت فرمادکھایاجائے۔(معاذ اللہ)اگر صرف چٹائی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہوتی تو یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتاجو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کے حوالے سے ہے جس کا ذکر ابھی آپ سطور بالا میں پڑھ چکے ہیں۔اس چارپائی کی قدروقیمت کیاتھی درج ذیل روایت سے اس کا اندازہ کیجیے کہ:

’’اس چارپائی کو حضرت عبداللہ بن اسحاق الاشجانی نے چار ہزار درہم کی قیمت ادا کر کے خریدا تھا‘‘ ۔(۱۳)

نعت کے بارے میں جویہ کہاجاتا ہے کہ:

’’نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنے سے زیادہ مشکل ہے۔‘‘

اس کا یہی مطلب ہے کہ نعت کہنے والا جو کچھ کہہ رہاہے اس پر خوب اچھی طرح غور کر لے کہ وہ صحیح اور واقعہ کے مطابق ہی کہہ رہاہے یا محض اپنی تخیل آفرینی کے بل بوتے پر نعت کے اشعار بُن رہاہے۔اور اس پر خوش گمان ہے کہ اس نے سب سے بڑی عبادت کر لی ہے۔اس قسم کی کتنی ہی باتیں ہیں جو نعت لکھنے والے شعراء نے اپنی نعتوں میں بلاکسی تحقیق اور مطالعے کے لکھ ڈالی ہیں۔اور یہ ساری باتیں آج بھی نقل در نقل کے مرحلے سے گزررہی ہیں۔ایک نے جو کہا دوسرے نے بھی وہی اپنے ردیف قافیوں میں کہہ دیا ، متن ایک ہی ہے۔مجھے اس وقت زیادہ حیرت ہوئی جب میں نے غیر مسلموں کے لکھے ہوئے وہ کلام دیکھے جن کو ’’غیر مسلموں کی کہی ہوئی نعت‘‘ کہاجاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام کلام بھی مسلمان شعراء سے سنے ہوئے کلاموں کافیضان ہیں یعنی کاپی ہے۔انہی کلاموں کے بارے میں بعض مسلمان مقدمہ نگاروں اور تقریظ نگاروں نے یہ تک لکھا ہے کہ ’’غیر مسلم شعراء مسلمان شعراء سے زیادہ قرآن و حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم وادراک رکھتے ہیں،اورعشقِ رسول میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ’’نعت ‘‘لکھ رہے ہیں‘‘۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔اس پر ایک طویل گفتگو ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کسی مضمون میں کی جائے گی۔ سرِ دست میں اتنا ضرور کہناچاہوں گا کہ اگر ہمارے مسلمان شعراء نے نہایت ایمانداری کے ساتھ تحقیق اورمطالعہ سے گزر کر عین واقعہ کے مطابق نعتیں لکھی ہوتیں توجتنا مواد آج مسلمان شعراء کے پاس نعتوں کا لکھاہوا موجود ہے اُس کا پچیس فیصد بھی نہ ہوتا۔اورغیر مسلموں نے جتناکچھ مسلمان شعراء سے سن سن کر ’’نعت‘‘کے نام پر لکھا ہے اس کا پانچ فیصدمواد بھی ان سے حاصل نہ ہوتا۔کیونکہ واقعہ کچھ اور ہے اور جو کچھ لکھا گیاہے وہ کچھ اور ہے۔کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے کہہ دیاجائے کہ وہ آپریشن تھیٹر میں جاکر مریضوں کے آپریشن کرے تو وہ ویسے ہی آپریشن کرے گا جیسے ہمارے نعت لکھنے والوں نے تحقیق اور مطالعہ سے گزرے بغیر واقعہ کے قطعی خلاف نعتیں لکھی ہیں۔ سوچیے یہ ہم سب کے سوچنے کے لیے ہے۔میری اس گفتگو سے وہ نعت گوشعراء قطعی مستثنیٰ ہیں جواپنے وقت کے جید علماء بھی ہیں۔

غارِحرا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اسی طرح غارِ حرا بھی ہمارے اردو نعت گوشعراء کا پسندیدہ موضوع ہے،اور غالباً نہیں بلکہ یقیناًہر نعت لکھنے والے شاعر نے ایک بار نہیں دس باربھی نہیں بلکہ اگر قافیہ ردیف نے ساتھ دیا تو ہر نعت میں اس نے ایک شعر میں غارِ حرا کو ضرور لکھا ہے۔ہمارے برادرِ عزیز جناب شبیر احمد انصاری صاحب نے تو اس موضوع پرایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے اور کئی سو اشعار غارِ حرا پر جمع کر لیے ہیں (وہ کتاب ’’شبستانِ حرا‘‘کے نام سے شائع بھی ہوچکی ہے)۔ اس غارِ حراکوموضوعِ نعت بنا کر شعرا ء نے جو خامہ فرسائی کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم اورفضیلت مآب مقام غارِ حرا ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی مقام نہ تو ایسا اہم ہے اورنہ ایسا فضیلت مآب ہے۔میں چاہوں تو حرا کے موضوع پر’’ شبستانِ حرا‘‘کے تمام شعر مثال میں پیش کردوں۔ لیکن صفحات بھرنے کے علاوہ اس کا اور کوئی فائدہ نہیں۔میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نعت گوشعراء کا یہ موضوع بھی صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہے۔اور اس پرعجیب عجیب طرح سے کہے گئے اشعار محض شاعرانہ تخیل کاشاخسانہ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غارِحرا کو اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رہی ہے ۔اوراس کی ایک تاریخی حیثیت ہے ۔اور وہ تاریخی حیثیت یہ ہے کہ اسی غارِ حرا میں ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآنِ پاک کے نزول کی ابتدا ہوئی۔یعنی پہلی وحی سورۂ العلق کی پانچ آیات اس غار میں نازل ہوئیں۔اس کے بعد حضرت ابنِ عباس رضی اللہ کی روایت کے مطابق چند دن جو فترتِ وحی کا زمانہ کہلاتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کی طرف جاتے رہے ،ایک دن غارِ حرا سے واپس آرہے تھے کہ حضرت جبریلِ علیہ السلام کوزمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:

’’اسے (جبریل علیہ السلام کو)اس حالت میں دیکھ کر میں مرعوب سا ہوگیا پھر میں گھر لوٹ آیامیں نے کہا مجھے چادر اڑھادو،جب میں چادر اوڑھ کر لیٹا ہواتھاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیات مجھ پر نازل فرمائیں‘‘(یعنی سورؤ المدثر کی ابتدائی پانچ آیات)(۱۴)

اس کے بعد کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اس غار کی طرف تشریف بھی لے گئے ہوں۔ کیونکہ وحیِ ثانی کے نزول کے بعد سے تبلیغِ دین کا جو سلسلہ شروع ہوا،اور جس قوت سے شروع ہوا وہ ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتاتھا کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم غارِ حرا کے ویرانے میں جاکراس کی تنہائیوں میں معتکف ہوجائیں اور تبلیغ کے کام کو پسِ پشت ڈال دیں۔اعلانِ نبوت سے پہلے اس غار میں جانے اور وہاں معتکف رہنے کی کیفیات کیاتھیں۔کتبِ سیرت میں تفصیل سے درج ہیں ۔ جو میں اگلی سطور میں پیش کروں گا۔اور جن سے ہمارا نعت کہنے والا طبقہ الاماشاء اللہ مکمل طور پر ناواقف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے غارِ حرا کوایک ایسا مقام بنادیا گویا زمین و آسمان میں اس سے زیادہ اہم اور محترم مقام کوئی ہے ہی نہیں جسے نعتیہ اشعار کا موضوع بنایاجائے۔کوئی نہیں جانتا کہ غارِ حرا کے مقابلے میں غارِ ثور کی کیا حیثیت ہے۔ مکہ میں حرم اورجوارِ حرم،دارِ ارقم،کوہِ فاراں،عکاظ کے میلے،شعبِ ابی طالب،مکہ کی تجارتی منڈیاں۔پھر میدانِ بدر واحداوردیگر جائے غزوات۔سرزمینِ طائف جیسے درجنوں مقامات، کن کن اہمیتوں کے حامل ہیں۔جہاں اللہ کے پیارے رسول نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ہولناک تشدد کیاجاتاتھا۔جہاں آپ پر کچرا پھینکاجاتا تھا ۔ جہاں آپ پر خاک اُڑائی جاتی تھی۔ جہاں نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر اونٹ کی اوجھ لاکر ڈال دی جاتی تھی۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ نازک پراتنی سنگ زنی کی گئی کہ نعلینِ مبارک خون سے بھر گئے۔پورا جسم لہولہان ہوگیا۔غارِ حرا میں تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہوا ۔بلکہ اس کا ایک فیصد بھی کچھ نہیں ہوا۔غارِ حرا کا دور تو مکمل امن وامان کا دور تھا۔لیکن افسوس ہم نے غارِ حرا کو اپنے لیے سب کچھ بنا رکھا ہے اور باقی مقاماتِ عالیہ کو یکسر بھول چکے ہیں ۔جس مقام پر صرف پانچ آیاتِ قرآن نازل ہوئیں پوری اردو نعتیہ شاعری میں وہی مقام مکرردرمکر در مکر موضوعِ نعت بناہوا ہے اور جن مقامات پر بقیہ پورا قرآن نازل ہوا، اُن کا کہیں سرسری سا بھی ذکر نہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسے غارِ حرا کے علاوہ دیگر تمام مقامات مقدسہ کا ذکر نعت پر حرام ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں صرف نقل درنقل کی عادت پڑی ہوئی ہے۔جو کسی سے سن لیا اسی کو لکھے جارہے ہیں۔یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کہ اس کے علاوہ اور کون کون سے ’’جہان ‘‘ہیں جن کا تعلق ہمارے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اگرہمارے پاس سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ ہوتو ہماری نعت میں دوسرے مقاماتِ متبرکہ بھی نعت بنیں۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔عجیب بات تو یہ ہے کہ اگرغارِ حرا پر لکھے گئے اشعارامرواقعہ کے مطابق ہوں تو بھی ڈھارس رہے کہ چلو جناب نعت میں سچائی تو بہر حال موجود ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی عجیب ہے ، جو جس کی مرضی میں آرہا ہے کہہ رہاہے۔اس بات سے بے پروا ہوکر کہ آخر سچ اور صحیح کیا ہے اور غلط او ر جھوٹ کیاہے۔ پچھلے دنوں ایسا ہی ایک شعر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے ہلاکررکھ دیا۔میرے قاری بھی وہ شعر دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھیں اور پھر میں اس کے ضمن میں جو کچھ سیرتِ طیبہ سے حاصل کر سکاہوں اس کا بھی مطالعہ کریں اور سچ اورجھوٹ،حقیقت اور خرافات کے مابین فرقِ امتیاز کا ادراک کریں۔اپنے اصول کے مطابق میں یہاں بھی شاعر کا نام نہیں لے رہا کیونکہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ مجھے شاعر کے نام سے کبھی کوئی غرض نہیں ہوتی۔مجھے غرض تو اس شعر سے ہوتی ہے جوحقائق کے خلاف ہوتا ہے اور نعت بنادیاجاتاہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے:

جہاں روتے تھے جا کر کملی والے

بنوں زائر میں اُس غارِ حرا کا

اب آپ اس شعر کامضمون ذہن میں تازہ رکھیے اور پھر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند و معتبر کتب سے میں جو حقائق تلاش کرسکا اس کا مطالعہ کیجیے اور پھر غور کیجیے کہ محض سیرت پاک کامطالعہ نہ کرنے اور اپنی مرضی سے اپنی مرضی کی باتوں کو نعت بنانے کی کوشش میں ہمارے نعت کے شعراء الاماشاء اللہ کہاں سے کہاں چلے جاتے ہیں۔ان کی یہی غیر ذمہ داری اغلاط بن کر عام لوگوں کے لیے سند بن جاتی ہیں۔درج بالا شعر میں شاعر موصوف کاخیال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں جا کر رویا کرتے تھے گریہ و زاری فرمایا کرتے تھے۔اب آئیے ! حقائق کی طرف :

سیرت ابنِ ہشام میں ہے:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال حرا میں اعتکاف کیاکرتے تھے او ر یہ (بات)ان (عادتوں)میں سے تھی جس کو جاہلیت میں قریش عبادت کے طور پر (تحنث)کیاکرتے تھے۔اورتحنث کے معنیٰ تبرر(نیکی) کے ہیں‘‘۔(۱۵)

علامہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ:

’’وحی کے نازل ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رویائے صالحہ دیکھنا شروع کیا۔کاہن اورآسمانی کتابوں کے عالم آپس میں ظہورِ شانِ نبوت کے چرچے اورتذکرے کرنے لگے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے خیال سے تنہائی اورخلوت کو زیادہ پسند فرمانے لگے ۔اکثر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اوروہیں دودوچارچار راتیں متواتر عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے ۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چالیسویں سال اوربعض کہتے ہیں کہ تینتالیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی‘‘۔(۱۶)

علامہ ابنِ کثیر البدایۃ والنہایہ میں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کانزول‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آغازِ وحی کا سلسلہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان فرمایارویائے صادقہ کی شکل میں ہوا۔ لیکن اس کی صورت یہ تھی جیسے بحا لتِ خواب طلوع سحر کا منظر سامنے آکر نگاہوں سے اوجھل ہوجائے ۔اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت پسندی کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تنہا رہ کر شب و روز عبادت میں گزارنے لگے۔۔۔الخ‘‘۔(۱۷)

علامہ ابنِ کثیر یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبلِ بعثت خلوت پسندی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم قریش کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھتے تھے ، اوراکثر ان سے علیحدہ رہنے لگے تھے،ویسے غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گزینی سے قبل بھی کچھ اہلِ قریش غارِ حرا میں جاکر عبادت کیا کرتے تھے ،اوروہاں سے فارغ ہوکر زائرینِ کعبہ کو کھاناکھلایا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی(ایک عرصے تک)غارِ حرا میں خلوت گزینی کے زمانے میں قریش کی اس روایت پر عمل کیا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم زائرین اوردوسرے مساکین کو کھاناکھلانے کے بعد طوافِ کعبہ سے پہلے اپنے گھر نہیں جاتے تھے۔ غارِحرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربتِ الٰہی سے مشرف ہوکر بہت سی غیبی چیزیں دیکھتے اورآوازیں سنتے‘‘۔(۱۸)

علامہ ابنِ کثیرمزید لکھتے ہیں کہ:

’’ علماء کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل آپ کی عبادت کے بارے میں اختلاف ہے ،کوئی اسے حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت کے مطابق بتاتا ہے کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق،اسی طرح کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق تھی،اورکسی نے اِسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق بیان کیا ہے۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ادیانِ ماسبق کی شریعتوں سے کچھ کچھ باتیں اخذ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے ایک نئی شریعت ایجاد اورپسند فرمائی اورعبادت کے سلسلے میں اس کو طریقِ عمل بنایا۔اصولِ فقہ میں انہی مؤخر الذکرعلماء کے اقوال کی تقلید کی گئی ہے‘‘۔(واللہ اعلم)(۱۹)

علامہ جریر طبری لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا رویائے صادقہ سے ہوئی۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبحِ روشن کی طرح نظر آتے تھے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں عُزلت اورتنہائی کی رغبت ڈالی گئی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں جاکر کئی کئی راتیں بغیر گھر آئے مسلسل عبادت میں بسر کرنے لگے ۔پھر گھر آکر اتنی مدت کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرا میں بسر کرناہوتی آپ توشہ (کھانے پینے کی چیزیں) لے جاتے‘‘۔(۲۰)

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری لکھتے ہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پانی اورستو لے کر شہر سے کئی کوس پرے سنسان جگہ کوہِ حرا(اب اِسے جبلِ نور کہتے ہیں )کی ایک غار میں جس کا طول چار گزاور عرض پونے دو گزتھا،جابیٹھتے ۔ عبادت کیاکرتے ،اس عبادت میں تمہید وتقدیس الٰہی کاذکر بھی شامل تھا،اورذاتِ الٰہیہ پر تدبّر وتفکّر بھی، جب تک پانی اورستو ختم نہ ہوجاتاشہر میں نہ آیاکرتے‘‘۔(۲۱)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں :

’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس برس کے ہوئے آپ کو خلوت محبوب ہوگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی روز اپنے ۔۔۔الخ‘‘۔(۲۲)

علامہ علی ابنِ برہان الدین حلبی نے اپنی کتاب ’’اُمِ سیر‘‘المعروف سیرتِ حلبیّہ (اردو ) میں ان واقعات کو کئی روایات کے ذریعے خاصی تفصیل سے لکھاہے جس کا اختصاریہ ہے کہ:

۱۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں اس زمانے میں جاکر خلوت نشین ہوا کرتے تھے جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوچکاتھا۔

۲۔۔۔(غارِ حرامیں)ایک مہینے تنہائی نشین رہتے اورجو مسکین وہاں آپ کے پاس پہنچتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کھانا کھلاتے ،کیونکہ جاہلیت کے زمانے میں قریش کے اونچے لوگوں کی یہ شان تھی کہ اس جگہ جو مسکین بھی ان کے پاس پہنچتے وہ ان کو جو کچھ بھی حاضر ہوتا پیش کرتے اوران کاپیٹ بھرتے تھے‘‘۔(اس پر علماء کا کلام ہے۔یایوں کہاجاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا کے مسکینوں کو کھاناکھلانے کی غرض سے وہاں جایا کرتے اور یہی وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت تھی)۔

۳۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت گزاری یہی تھی ،یعنی لوگوں سے علیحدہ رہنا۔

۴۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت لوگوں سے علیحدہ ہوکر کائنات اور اس کی حقیقت پر غور وفکرہوتی تھی۔

۵۔۔۔ایک قول یہ بھی ہے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکرِ اللہ کے ذریعے عبادت کیا کرتے تھے۔ اس قول کو کتاب سفر ا لسعادہ میں بھی صحیح کہاگیاہے۔

۶۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی دوسرا عبادت کاطریقہ تھا۔

اس دوسرے طریقے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ :

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ان احکامات کے ذریعے عبادت فرمایاکرتے تھے جوشریعتِ محمدیہ میں باقی رکھے گئے ہیں۔‘‘

۷۔۔۔ایک قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے نبیوں کی شریعت کے ان احکام کے ذریعے عبادت کیاکرتے تھے جو ہماری شریعت میں باقی رکھے گئے ہیں۔

علامہ حلبی مزید لکھتے ہیں کہ:

’’غرض!جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینے تک عبادت کر کے فارغ ہوتے تو وہاں سے واپس آکر سب سے پہلے آپ جو کام کرتے وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبے میں تشریف لے جاتے ،اوربیت اللہ شریف کے سات یا جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا اتنے طواف کرتے اوراس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جایا کرتے،یہاں تک کہ وہ مہینہ آگیا ۔۔۔الخ‘‘۔(۲۳)

صاحبِ ضیاء النبی لکھتے ہیں:

’’جب سچی خوابوں کاسلسلہ شروع ہوا تو دل جو پہلے ہی معرفتِ الٰہی اورمحبتِ الٰہی کے نور سے منور تھااس میں اپنے معبودِ برحق بلکہ مقصودِ حقیقی اورمحبوبِ حقیقی کی یادمیں کھو جانے کا جذبہ ،کار گہِ حیات کی مصروفیتوں سے نکال کراس کنجِ تنہائی میں گوشہ نشین ہونے پر مجبور کرنے لگاجہاں یادِ محبوب کے سواکسی اوربات کاتصور تک خلل انداز نہ ہو۔چنانچہ محبتِ الٰہی کا یہ طوفان حضور کو مکی زندگی کی مصروفیتوں سے نکال کر ایک غار میں لے آیا جس کانام غارِ حرا ہے‘‘۔

آگے صاحبِ ضیاء النبی الرشاد الساری کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’یہ غارحرا جس پہاڑ کی چوٹی پر ہے اس کانام ’’جبلِ نور‘‘ہے۔یہ غار چارگز لمبی اور دوگز چوڑی ہے،اس کی وسعت اتنی ہے کہ ایک آدمی اس میں لیٹ سکتا ہے۔ جبلِ نور اور اس کے ارد گرد جتنے پہاڑ ہیں خشک اوربے آب و گیاہ ہیں۔راستہ اتنا کٹھن اوردشوار گزار ہے کہ صحت مند اورطاقت ور آدمی بھی وہاں بڑی مشکل سے پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔(یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر ہے)اگر چہ دوسرے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی اسی قسم کے گوشۂ عزلت کو تلاش کیاجاسکتاتھالیکن سرورِ عالم و عالمیان صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی گوشہ نشینی کے لیے غارِ حرا کو اس لیے پسند فرمایاکہ یہاں بیٹھ کر بیت اللہ شریف کی زیارت بھی ہوسکتی تھی‘‘۔(۲۴)

آگے وہ علامہ احمد بن زینی دحلان کے حوالے سے غار حرا میں قیام کی مدت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’یعنی قیامِ مدت کو مبہم رکھاکیونکہ یہ مدت متعین نہ تھی،کبھی تین راتیں ،کبھی پانچ ،کبھی سات، کبھی رمضان کا پورا مہینہ یہاں قیام فرمایا کرتے‘‘۔(۲۵) وہ مزید لکھتے ہیں کہ :

’’بعض حضرات نے لکھاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف رمضان شریف کا پورا مہینہ یہاں گزارتے تھے۔لیکن احادیثِ صحیحہ کے حوالے سے یہی پتا چلتا ہے کہ اگر چہ حضور رمضان المبارک کا پورا مہینہ یہاں گزارتے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی بکثرت یہاں تشریف لایاکرتے تھے۔‘‘

اس روایت کے الفاظ بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ:

’’ حضور چند روز کے لیے خوردونوش کا سامان لے کر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے ۔جب یہ راشن ختم ہوجاتا تو پھر ام المؤمنین حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کے پاس آتے،چند دن قیام فرماتے، خور دونوش کا سامان لے کر پھر اسی غار میں اپنے رب کو یاد کرنے کے لیے فروکش ہوجاتے۔اسی حالت میں وحی کا آغاز ہوا‘‘۔(۲۶)

آگے صاحبِ ضیاء النبی اس سوال کہ ’’حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں آکر کیا کرتے تھے؟ ‘‘۔عمدۃ القاری کے حوالے سے اس کا علمی اورتحقیقی جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس کاجواب ایک لفظ’’وَیَتَحَنَّثُ‘‘میں مذکور ہے۔یہ باب تفعل کافعل مضارع ہے ، اس باب کااہم خاصہ یہ ہے کہ مصدری معنیٰ سے ’’تجنب‘‘پر دلالت کرتا ہے ۔یعنی مصدری معنیٰ کی نفی کرتا ہے ۔جیسے ’’تاثمّ‘‘اس کاماخذ اورمصدر ’’اَثَم‘‘جس کامعنیٰ گناہ کرنا،لیکن جب اس کاباب تفعل بنا کر ’’تاثُمّ‘‘کہاجاتا ہے تو اس وقت اس کامعنیٰ ہوتاہے گناہ سے اجتناب کرنا۔جس طرح تہجد کامصدر ہجود ہے۔جس کامعنیٰ سونا ہے۔لیکن جب اس کاباب تفعل بناکر تہجد کہاجاتا ہے ،تو اس کامعنیٰ جاگنا ہوتا ہے ۔جس میں سونے کی نفی کی جاتی ہے ۔اسی طرح ’’تحنّث‘‘کا ماخذ ’’حنث‘‘ہے جس کامعنیٰ گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔اور’’تحنّث‘‘کامعنیٰ ہوگا گناہوں سے اجتناب کرنا،یعنی اپنا وقت یادِ الٰہی میں صرف کرنا‘‘۔(۲۷)

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’علامہ عینی نے اس کا ایک دوسرا معنیٰ بھی نقل کیا ہے ’’ابو المعالی کہتے ہیں کہ ’’ تحنّث ‘‘ کا معنیٰ ’’تعبد‘‘ ہے، یعنی عبادت کرنا‘‘۔

علامہ عینی نے ایک اورقول بھی اس سلسلے میں نقل کیا ہے:

’’یعنی ابنِ الاعرابی اورشیبانی کی رائے یہ ہے کہ یہ لفظ ’’یَتَحَنَّثُ‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’یَتَخَنّفُ‘‘ ہے ۔املا کی غلطی سے ایسا لکھاگیا۔اس کامعنیٰ ہے یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا‘‘۔ (۲۸)

یہ تمام روایتیں مصدقہ اورتحقیق شدہ ہیں۔ان سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غار حرا میں عبادت ’’گریہ وزاری‘‘یعنی رونا ہوتی تھی۔رونا ،ہنسنا ،کھانا پینا وغیرہ بذات خود کوئی عبادت نہیں،شرط یہ ہے کہ ان امور کا کسی کارِ عبادت سے انسلاک ہوجائے۔ مثلاً خوف الٰہی عزوجل یقیناًایک عبادت ہے۔ اس خوف کے باعث اگر کوئی رو پڑے تو یہ رونا عبادت بن جائے گا۔اسی طرح نعمتِ خدا وندی کی افراط میں کوئی بطورِ شکرہنس پڑے تو یہ ہنسناعبادت بن جائے گا علیٰ ھٰذا القیاس۔ لہٰذا کسی طرح بھی نہیں کہاجاسکتا کہ غارِ حرا میں جاکر رونا (گریہ زاری کرنا) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص عبادت تھی۔اگر ایسا ہوتا تو کسی ذمہ دار کتاب کی کسی عبارت سے تو ثابت ہوتا ۔ لیکن اتنے حوالوں میں کہیں بھی رونے کاذکر نہیں آیا۔

نعت گو شاعر کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ جب نعت کے اشعار لکھے تو اپنی قطعی ذاتی رائے کو ’’دین‘‘بناکر پیش نہ کرے ۔بلکہ پہلے اپنے موضوع کا مطالعہ کرے پھرحقائق کے مطابق شعر کہے ۔ اسی میں اچھائی ہے اسی میں سچائی ہے۔اور یہی نعت کا حق ہے۔وہ عامیانہ باتیں جو وقتی طور پر عام قسم کے سننے والوں کے جذبات میں ہلچل مچادیں ۔انہیں سر دھننے پر مجبور کر دیں۔ نہ تو نعت بن سکتی ہیں اور نہ اہلِ علم سے ان پر کوئی تبریک وتحسین حاصل کی جاسکتی ہے۔ہمارے یہاں سرکاری طور پر کوئی قاعدہ قانون موجود ہو تو اس قسم کی باتوں پرسخت گرفت بھی ممکن ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔فی زمانہ ہر شخص نے خصوصاً مذہبیات کو اپنے ہاتھوں میں لیاہوا ہے اورحقائق کو پسِ پشت ڈال کر اپنی مرضی سے جو چاہ رہاہے کررہاہے۔ جید علماء کی رائے اور تحقیق محض اس لیے بے اثر ہوکر رہ گئی ہیں کہ ان کی رائے کے مطابق اگر عمل کیا جائے ،ان کے مشوے اگر سوفیصد مان لیے جائیں تو ان سب کاموں میں سے اَسّی فیصدکاموں کو بغیر کسی شرط کے چھوڑناپڑے گا جو مذہب کے نام پر مذہب بناکر کیے جارہے ہیں۔ میں دوٹوک کہنا چاہتاہوں کہ صرف نعتیہ شاعری ہی نہیں بلکہ اس وقت الاماشاء اللہ مذہب کے ہر شعبے کا یہی حال ہے۔اللہ تعالیٰ کرم فرمائے ۔

میری گزارش ہے کہ نعت گوشعراء اپنی نعتوں میں غارِ حرا کو بھی ضرور لکھیں لیکن خدا را حقیقت کے خلاف ہرگز نہ لکھیں۔ نیز غار حرا کے علاوہ اور بھی کئی مقامات ہیں جو نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے حوالے سے غارِ حرا سے بلامبالغہ زیادہ محتر م ومکرم ہیں ،انہیں بھی اپنی نعت کا موضع بنائیں۔جن میں سے بعض کا ذکر میں سطورِ بالا میں کرچکاہوں۔اگر انہیں اب تک کسی نے نہیں لکھا تو اب انہیں لکھنے کا رواج ڈالیں۔صرف سنی سنائی باتوں کو کاپی پیسٹ کاپی پیسٹ کرتے رہنے سے نعت پاک کی کوئی خدمت ادانہیں ہوسکتی۔

جو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ حافظ ابنِ قیم لکھتے ہیں :

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے پینے میں بھی ایک مستقل سنت ہے ،موجود کو رَد نہ کرتے اور جو چیز موجود نہ ہوتی اس کاتکلف نہ کرتے ،جو حلال اورپاک کھانا میسر آتا اُسے کھا لیتے۔ہاں عزتِ نفس مجروح ہوتی توحلال ہوتے ہوئے بھی اُسے چھوڑ دیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔جی چاہا توکھالیا ورنہ چھوڑدیا۔جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عادت نہ ہونے کی وجہ سے گوہ نہ کھائی ۔لیکن اُمت پر حرام بھی نہیں فرمائی،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اور آپ دیکھتے رہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوااورشہدتناول فرمایا۔یہ دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسندتھیں۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں ،بھیڑوں ،مرغیوں ،سرخاب،جنگلی گدھے اور خرگوش کاگوشت تناول فرمایا،نیز سمندری جانور(یعنی مچھلی) کاگوشت کھایا،اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا گوشت بھی استعمال فرمایا۔اورتر اورخشک کھجور بھی تناول فرمائی۔خالص دودھ ، پانی ملادودھ،ستو،اورشہد کوپانی میں ملاکر بھی نوش فرمایا۔کھجور کامیٹھا پانی بھی پیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزریزہ بھی کھایا جودودھ اورآٹے سے بنتا ہے۔ترکھجورکے ساتھ ککڑی کھائی۔نیز پینر کھایا۔روٹی کے ساتھ خشک کھجور کھائی ،سرکہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی ،ثرید بھی کھایا،جو روٹی اورگوشت(کے شوربے میں)میں بھگو دینے سے بنتاہے۔اہالہ سے بھی روٹی کھائی۔اہالہ چربی کو کہتے ہیں۔بھنی ہوئی کلیجی،اور گوشت کے ٹکڑے بھی کھائے۔پکا ہو اکدو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی محبوب تھا۔ثرید گھی میں ملا کر، پنیر،روٹی زیتون، اورتر کھجور کے ساتھ خربوزہ، او رترخشک کھجور مکھن کے ساتھ بھی تناول فرمائی‘‘۔(۲۹)

اس تحریر کے بعد اور کچھ لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی لیکن میں وہ تمام احادیث یہاں پیش کرناچاہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غذاکے حوالے سے مجھے ملیں۔ایک تو یہ کلامِ رسول ہے اس کا نقل کرنا ثواب ،پڑھنا ثواب،نیز نیت یہ بھی ہے کہ نعت گوشعراء کو اس کے ذریعے ایساسچا مواد مل جائے جسے وہ صحیح صحیح اپنی نعت کے اشعار میں پرو سکیں۔اورلایعنی قسم کی باتوں کو نعت بنانے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔وماتوفیقی الاباللہ۔

روایت ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بکری کا)شانہ تناول فرمایا۔۔۔الخ‘‘۔(۳۰)

روایت ہے حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے ہیں

’’ حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (بکری کی )بھنی ہوئی پسلیاں پیش کیں گئیں حضور نے ان میں سے تناول فرمایا۔۔۔الخ‘‘۔(۳۱)

روایت ہے حضرتِ ابو رافع سے فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بکری کا پیٹ بھونتاتھا۔(یعنی پیٹ کی چیزیں ،دل کلیجی تلی وغیرہ،گردے حضور صلی الہ علیہ وسلم کو ناپسند تھے کیونکہ ان کا تعلق پیشاب سے ہے)(۳۲)

روایت ہے حضرت ابو رافع سے فرماتے ہیں ’’میرے پاس بکری ہدیۃ بھیجی گئی۔میں نے اُسے (ذبح کر کے) ہانڈی میں ڈالا،پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے فرمایا:ابورافع ! یہ کیا ہے؟۔ عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بکری ہے جو مجھے ہدیۃ ملی،پھر ہم نے ہانڈی میں پکالیا۔پھر فرمایااے ابورافع! ہم کو ایک دستی دو۔میں نے دستی پیش کی،پھر فرمایا دوسرا دست بھی دو۔میں نے دوسری دستی بھی پیش کر دی۔پھر فرمایا اے ابورافع! اوردست لاؤ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم )ایک بکری میں دوہی دست ہوتے ہیں۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم خاموش رہتے تو تم ہم کو دست پر دست دیتے رہتے۔جب تک خاموش رہتے۔۔۔الخ‘۔(۳۳)

حضرت بریرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں۔ایک بار انہیں کسی نے صدقہ کا گوشت دیا۔وہ اُسے پکارہی تھیں گوشت کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

اب آپ حدیث ملاحظہ کیجیے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے فرماتی ہیں:

’’ ایک بارحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے توگھر میں ہانڈی گوشت سے اُبل رہی تھی۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت پکنے کی خوشبوملاحظہ کی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روٹی اور گھر کاکوئی اورسالن پیش کیاگیاتوحضور نے پوچھا’’ مجھے گوشت کی ہانڈی نظر نہیں آرہی‘‘۔عرض کیا گیا ’’ہاں(گوشت تو ہے )لیکن یہ وہ گوشت ہے جسے بریرہ پر صدقہ کیاگیاتھا۔اورحضور صدقہ آپ تو کھاتے نہیں‘‘۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ ان پر صدقہ تھا ہمارے لیے ہدیہ ہے‘‘۔(پھرحضور کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیاگیا اور حضور نے اُسے تناول فرمایا)(۳۴)

اس کامطلب یہ ہے کہ بریرہ کو تو گوشت بطور صدقہ دیاگیاوہ صدقہ ان پر پورا ہوگیا۔اب وہ اس کی مالک ہیں ۔سو اب وہ ہمیں دیں گی تو ان کی طرف سے ہمارے لیے ہدیہ ہوگا۔

روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر مجھے پائے (یعنی گائے بکری کے کُھر وغیرہ)کی طرف دعوت دی جائے تومیں قبول کرلوں، اور اگر مجھے دستی دی جائے تو میں منظور کرلوں‘‘۔(۳۵)

روایت ہے حضرت سہیل ابن سعد سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ نہ دیکھاجب سے اللہ نے آپ کو مبعوث فرمایا۔حتیٰ کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی۔اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھلنی نہ دیکھی جب سے اللہ نے آپ کو مبعوث فرمایاحتیٰ کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔پوچھا گیا آپ حضرات’’ جو‘‘ کیسے کھاتے تھے۔فرمایا’’ہم انہیں پیستے تھے اوراُسے پھونکتے تھے جو اُڑتا اُڑجاتا جو باقی بچتا اُسے گوندھ لیتے اور کھا لیتے۔(۳۶)

شارح کہتے ہیں یعنی ظہورِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ کی روٹی ملاحظہ نہ فرمائی اس سے پہلے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کا سفر کیاہے اور بحیرۂ راہب کی دعوت میں میدہ کی روٹی ملاحظہ فرمائی ہے۔اس زمانے میں شام اوررومہ میں میدہ کی روٹی بہت مروج تھی۔(۳۷)

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جَو تناول فرماناحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں تھی بلکہ اس دور میں مکہ اور مدینے کا سارا معاشرہ جو ہی کھاتاتھا۔جیسا کہ راوی کا بیان بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو کیسے کھاتے تھے۔آج الحمد للہ مکہ اور مدینے میں دنیا کی کھانے پینے کی ہر حلال نعمت موجود ہے۔ خصوصاً مدینہ منورہ میں کوئی چیز ایسی نہیں جو نہ ملتی ہو۔

روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ:

’’ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر مدعو کیا۔جسے اس نے تیار کیاتھا۔تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔تو اس نے جو کی روٹی اور شوربا پیش کیا۔جس میں کدو (لوکی)اورخشک گوشت تھا۔تو میں نے دیکھا کہ حضورپیالے میں آس پاس کدو تلاش کررہے تھے۔اس دن کے بعد میں کدو سے محبت کرنے لگا‘‘۔(۳۸)

روایت ہے حضرت عمرو(AMR)بن اُمیہ سے:

’’ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ بکری کودستی سے کاٹ کر کھاتے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی‘‘۔(۳۹)

(اس طرح کہ پوری دستی بھنی ہوئی تھی حضورچھری سے بوٹیاں کاٹتے اورکھاتے تھے ،یا دانت سے نوچ کر کھاتے تھے۔گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوں تو چھری سے کاٹ کر کھانے میں ہرج نہیں)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :

’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیزاورشہد پسند فرماتے تھے‘‘۔ (۴۰)

اس حدیث کی ذیل میں شارح نے لکھاہے کہ مروجہ حلوہ سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بنایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاجس میں آٹا ،گھی اور شہد تھا۔حضور نے بہت پسند فرمایااورفرمایاکہ ’’فارسی لوگ اِسے ’’دخیص‘‘کہتے ہیں۔(۴۱)

نوٹ:اسے ’’خبیص‘‘بھی لکھاگیاہے۔

روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ:

’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے دیکھا‘‘۔(۴۲)

روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے دودن گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوئے مگر ان میں سے ایک دن چھوارے ہوتے۔(۴۳)

ایک حدیث میں یہی کلمات جَو سے متعلق بھی ہیں ۔ اس قسم کے مقامات پر شارحین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فقروفاقہ اختیاری تھا۔اور قیامت تک کے ناداروں مسکینوں اور فاقہ مستوں کے لیے تسلی اور دلاسے کا سبب تھا۔ ورنہ حدیث شریف سے ہی ثابت ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہاڑ سونے کے ہوجاتے۔حضور کے کاشانۂ مبارک میں ایک دن روٹی پکتی تھی تو اہلِ خانہ تناول فرماتے تھے اوردوسرے دن وہ مسکینوں اورغریبوں میں خیرات کر دی جاتی تھی۔شارحین نے یہ بھی لکھاہے کہ خیبر کی فتح سے پہلے کم آمدنی کی وجہ سے ایسی حالت ہوتی تھی لیکن فتحِ خیبر کے بعد ایسا نہیں تھا حضور اپنی ازواج کو ایک سال کا راشن(کھجوریں) عنایت فرمادیاکرتے تھے۔کیونکہ خیبر میں کھجوروں کے باغات کثرت سے تھے اوروہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کی کھجوریں بہت آتی تھیں۔شارحین کی اور بھی ایمان افروز گفتگو ان مقامات پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

روایت ہے حضرت عبد اللہ ابنِ حارث ابن جز سے فرماتے ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روٹی اور گوشت لایا گیاحالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے تو حضور نے تناول فرمایا ۔۔۔الخ’’۔(۴۴)

روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا توآپ کی خدمت میں دستی پیش کی گئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند کرتے تھے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دانتوں سے نوچ کر کھایا۔(۴۵)

اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور نے گوشت پراپنی خاص پسندیدگی کااظہار فرمایا۔ میں نے ایک حدیث شریف پڑھی ہے کہ ایک صاحب نے حضور کی دعوت فرمائی ۔حضورچند اصحاب کے ساتھ ان کے ہاں تشریف لائے،جب گوشت ملاحظہ فرمایا تواپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا’’اچھاتو یہ جانتا ہے کہ ہمیں گوشت پسند ہے‘‘۔(اوکماقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گوشت کی پسندیدگی تو دوردورتک مشہور تھی کہ یہی وجہ ہے کہ خیبر میں سلام بن مثکم کی بیوی زینب جو ’’شق‘‘کے قلعوں میں کے ایک قلعے’’قمقوس‘‘میں موجودتھی۔جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قلعے کو بھی فتح کرلیا تو اس عورت نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر ہلاک کردینے کی سازش تیار کی ۔اس نے صحابہ کرام سے پوچھا’’حضور بکری کے کون سے حصّے کا گوشت زیادہ شوق سے تناول فرماتے ہیں‘‘۔صحابہ کرام نے اسے بتایاکہ ’’دستی کا گوشت(یعنی اگلے دونوں پاؤں کا گوشت)‘‘۔اس سازش کے تحت اس نے ایک بکری بھونی اور اس کے تمام گوشت میں زہر ملادیا۔ دستی کے حصّوں میں کچھ زیادہ زہر ملایا۔جب کھانا تیار ہوگیا اوردسترخوان پر لگادیاگیاتواس نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت پر بلایا۔اوردستی خصوصی طور پر آپ کے سامنے پیش کی ۔۔۔۔آگے تفصیلی واقعہ ہے۔(۴۶)

ہمار امقصد یہاں بتانے کاصرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذا کا شہرہ دشمنوں تک بھی پہنچا ہواتھا۔

ایک حدیث میں ثرید کو محبوب ترین کھاناقراردیا،وہ حدیث آگے آرہی ہے۔جبکہ مطلق جو کے متعلق مجھے ایسی کوئی روایت نہیں ملی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا فرمایاہو۔مختلف چیزیں جن میں جو بھی شامل ہوتاتھا ان سے بنے ہوئے کھانوں کی بات اور ہے۔ (واللہ اعلم)اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ کسی چیز کا کھانا اور بات ہے اور کسی چیز کو پسند کرنااوربات ہے۔ہم لوگ بھی روزانہ تین وقت روٹی سالن یا چاول کھاتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں بریانی بہت پسند ہے ۔ یاہمیں باربی کیو بہت پسند ہے۔ وغیرہ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھرچنی بہت پسند تھی ‘‘ ۔ (۴۷)

کُھرچنی اس کھانے کو کہتے ہیں جو ڈیگ یا دیگچی کے پیندے میں لگ جاتا ہے جلاہوا نہیں بلکہ ہلکا سا براؤن ہوتا ہے ۔اور بہت لذیذ ہوتا ہے۔ہمارے یہاں بھی بہت سے گھرانوں میں خصوصی طور پر اس کااہتمام کیاجاتا ہے۔

روایت ہے حضرت اُمِ منذر سے فرماتی ہیں:

’’ میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے حضرت علی رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔ہمارے ہاں( کھجورکے)خوشے لٹکے ہوئے تھے۔حضورکھانے لگے علی بھی آپ کے ساتھ کھانے لگے ۔تب حضور نے علی سے فرمایا،’’اے علی! ٹھہرو،(یہ نہ کھاؤ)کیونکہ تم کمزور ہو‘‘۔فرماتی ہیں ’’ پھر میں نے ان حضرات کے لیے چقندر اور جو کا دلیہ تیار کیا،تو حضور نے فرمایا ’’اے علی ! اس سے لے لوکیونکہ یہ تمہارے لیے بہت موافق ہے‘‘۔(۴۸)

روایت ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین کھاناروٹی کا ثرید اور کھجور اورمکھن کا ثرید تھا‘‘۔(۴۹)

یہ کھانا اتناعلیٰ قسم کاہوتا ہے کہ اِسے بلامبالغہ اس دور کا پیزا سمجھاجاسکتاہے۔میں نے حدیث شریف میں پڑھا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاعائشہ کے فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ’’ثرید ‘‘کی فضیلت تمام کھانوں پر۔اوکماقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

حضرت امِ ہانی رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا:

’’ کیاتمہارے پاس (کھانے کے لیے) کچھ ہے‘‘۔میں نے عرض کی’’ نہیں ، سوائے خشک روٹی اور سرکہ کے‘‘۔تو فرمایا’’ لاؤ۔ وہ گھر سالن سے خالی نہیں جس میں سرکہ ہو‘‘۔(۵۰)

روایت ہے حضرت یوسف ابنِ عبداللہ ابنِ سلام سے فرماتے ہیں :

’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیاپھر اس پر چھوارا رکھااور فرمایا ’’یہ اس کا سالن ہے‘‘ اور کھالیا‘‘۔(۵۱)

روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتی ہیں کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور تربوز کے ساتھ تناول فرماتے تھے‘‘۔(۵۲)

روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں:

’’حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پرانے چھوارے لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کریدتے تھے اور اُس کے کیڑے نکالتے تھے‘‘(پھر کھالیتے تھے)(۵۳)

یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتہائی عاجزانہ عمل تھا۔ اس سے رزق کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔اگر کھانے پینے کی کوئی چیز کچھ خراب ہوگئی ہوتو اس کی وجہ سے تمام پھینک دینا رزق کا اسراف ہے جو سخت گناہ ہے۔سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے۔تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات سے افضل و اعلیٰ رسول تو ردّی خرموں کو صاف کر کے تناول فرما رہے ہیں اور ہم ان کے امتی انہیں کے فیض وعطاسے ملاہوا ہزاروں روپے کاکھانا پینا بلادریغ کچرے میں پھینک رہے ہیں۔ ہوناتویہ چاہیے کہ جو خراب ہوگیاہے اسے نکال کر پھینک دیاجائے باقی کھالیاجائے۔ طبیعت پسند نہیں کرتی تو کسی ضرورت مند انسان کو دے دیاجائے کہ انسان کا حق سب سے پہلے ہے۔ یہ بھی ممکن نہ ہوتو کسی جانور کو کھلادیا جائے ۔ کھانے کے قابل کوئی بھی چیز کچرا کونڈی میں نہ پھینکی جائے۔ایک ایک معمولی سے لقمے کی قدروقیمت کا اندازہ وہاں ہوتا ہے جہاں قحط پڑا ہوا ہے۔پیٹ بھروں کے ہاں تو ہزاروں روپے کے کھانے کی بربادی کلچر بن چکی ہے۔

روایت ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے ،فرماتے ہیں:

’’حضور کے پاس تبوک میں پنیر لایاگیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری منگائی اور بسم پڑھی اور اُسے کاٹا‘‘(اور تناول فرمایا)(۵۴)

روایت ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے ،فرماتے ہیں:

(ایک بار)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ’’ میرے لیے شربتی گندم(اعلیٰ قسم کی میٹھی گندم) کی سفید روٹی ہوتی جو گھی اوردودھ سے چپڑی ہوتی ‘‘۔ قوم کے ایک صاحب اُٹھے انہوں نے یہ تیار کی اورخدمت اقدس میں پیش کی۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباًاس میں ہلکی سی بو محسوس فرمائی)تواستفسار فرمایا’’گھی کس چیز میں تھا‘‘۔انہوں نے عرض کیا ’’گوہ کے (چمڑے سے بنے )ڈبے میں‘‘۔فرمایا’’اِسے اٹھالو‘‘۔(۵۵)

یعنی اتنی اعلیٰ روٹی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہر فرمائی ،جب ایک صاحب نے پیش کی تو محض گوہ کے ڈبے میں رکھے ہوئے گھی کی بو کی وجہ سے تناول نہیں فرمائی۔ممکن ہے وہ صاحب دوبارہ دوسرے گھی سے بنواکر لائے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تناول فرمائی ہو۔صحا بہ کرام علیہم الرضوان کے ایسے ہی طریقے ہوتے تھے۔اس حدیث کی شرح میں شارح نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کھایا اور بٹیریں بھی ملاحظہ فرمائیں۔(۵۶)

روایت ہے حضرت ابوزیاد رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں جنابِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پیاز کے بارے میں پوچھا گیاتوآپ نے فرمایا:

’’آخری کھاناجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا تھا اُس میں پیاز تھی‘‘۔(۵۷)

یعنی پیاز پکی ہوئی تھی۔اس لیے تناول فرمائی ورنہ کچی پیاز اورکچا لہسن ان کی بو کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے پرہیز کیا۔پکنے کے بعد ان کی بو ختم ہوجاتی ہے۔

روایت ہے بُسر کے دو سلمی بیٹوں سے فرماتے ہیں:

’’ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توہم نے مکھن اور چھوارے پیش کیے۔حضورمکھن اور چھوارے پسند فرماتے تھے۔‘‘(۵۸)

روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں:

’’ حضور کی خدمت میں بھنا ہوا چکور یا کبک پیش کیاگیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ الٰہی !ایسے شخص کو بھیج جو تیری مخلوق میں تجھے بہت زیادہ محبوب ہے اوروہ میرے ساتھ یہ پرندہ کھائے‘‘۔پس حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اورآپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چکور تناول فرمایا۔‘‘(۵۹)

حضرت معن بن کثیر سے مروی ہے انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

’’ میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھالی اور ایک پیالہ لے کر آیاجو دماغ(مغز)سے بھرا ہواتھا۔حضور نے مجھ سے دریافت کیا اے ثابت کے باپ!’’یہ کیاہے‘‘۔میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے میں نے چالیس ایسے جانور ذبح کیے ہیں جو جگر والے ہیں۔پس میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں آج حضور کو ان کادماغ کھلاکر سیر کروں،چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے تناول فرمایااورحضرت سعد بن عبادہ کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔(۶۰)

حضرت عبد اللہ بن علی اپنی دادی سلمیٰ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ ایک روز میرے پاس حسن ابنِ علی ،عبداللہ ابنِ عباس اور عبد اللہ ابنِ جعفر رضی اللہ عنہم تشریف لائے اور مجھ سے فرمائش کی کہ وہ ہمارے لیے وہ کھاناتیار کیجیے جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھااوراسے شوق سے تناول فرماتے تھے۔انہوں نے (یعنی حضرت سلمیٰ نے)حضرتِ حسن کو فرمایا:

’’اے میرے بیٹے! اس زمانے میں تم اُسے پسند نہیں کرو گے‘‘۔لیکن پھر ہماری خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے پہلے جو لیے ۔ان کو صاف کیا،اس کی روٹی پکائی ،پھر اُسے پرات میں رکھا،اوربطور سالن اس پر زیتوں کا تیل ڈالااوراس پر کالی مرچ پیس کر چھڑک دی۔پھر یہ ساری چیزیں ہمارے نزدیک رکھیں اور فرمایا’’یہ وہ کھاناہے جو اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت پسند تھا۔اور بڑے شوق سے اسے تناول فرماتے تھے‘‘۔(۶۱)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کے حلوے بہت پسندیدگی سے تناول فرمائے ان کے صرف نام پیش کرنے پر اکتفا کرتاہوں۔

’’الطفیثل‘‘(ایک قسم کا حلوہ ،راوی کہتے ہیں ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے میں رغبت اتنی کسی کھانے میں نہیں دیکھی جتنی اس میں دیکھی،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا پسند تھا)

’’ہریسہ‘‘(اناج کے دانوں کو کوٹ کر اوران میں گوشت ملاکر بنایاجاتا ہے)

’’حیس‘‘(کھجور ،پنیر اور گھی ملاکر تیارکیاجاتا ہے)

’’وطیۂ‘‘(کھجور سے گٹھلی نکال کر پھر اُسے دودھ سے گوندھ کر بنایاجاتاہے)

’’جشیشہ‘‘(گندم موٹی موٹی پیس کر اسے ہانڈی میں ڈالاجاتا ہے پھر اس کے اوپر گوشت یاکھجور ڈال کر تیار کیاجاتا ہے۔اسے دشیشہ بھی کہتے ہیں)

’’خزیرہ‘‘(معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کیسے تیارکیاجاتا ہے)

’’حریرہ‘‘(یہ ایک مٹھائی ہے جو دودھ سے بنائی جاتی ہے)

’’عصیدہ‘‘(ایک مٹھائی جو آٹے سے بنائی جاتی ہے)

’’ایک حلوہ‘‘(جو آٹے پانی اور نمک سے تیارکیاجاتاتھااس کانام معلوم نہیں ہوسکا۔ اس کی دعوت دینے والے حضرت عبد اللہ بن بُسر تھے ،تناول فرمانے کے بعدان کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:

’’اے اللہ ! ان کے گناہ بخش دے ،ان پر رحم فرما،انہیں برکتیں عطافرما، اور ان کے رزقوں کو ان کے لیے وسیع فرمادے‘‘۔

’’خبیص‘‘(شہد ،گھی اورگندم کے آٹے سے بنتا ہے ۔یہ وہی حلوہ ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خدتِ اقدس میں پیش کیاتھا اوپر اس کا ذکر گزرچکاہے)

’’ستّو‘‘[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’تلوں کی کھل‘‘(وہ تل جس کا تیل نکال لیاجائے)

وہ پھل اورسبزیاں جو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمائے ۔

’’کھجور‘‘۔۔۔’’انگور‘‘۔۔۔’’انجیر‘‘۔۔۔’’الزبیب‘‘(خشک انگور)۔۔۔’’سفر جل/بہی دانہ‘‘۔۔۔ ’’شہتوت‘‘۔۔۔’’کباث‘‘(پیلو کا پکاہوا پھل جوکالاہوجاتاہے)۔۔۔’’زنجبیل‘‘(سونٹھ/ادرک)۔۔۔ ’’تربوز‘‘ ۔۔۔’’فستق‘‘(پستہ)۔۔۔’’جمار‘‘۔۔۔کھجور کاگابھ‘‘( رس جو سفید چربی کی طرح ہوتا ہے) ۔۔۔ ’’ رطب‘‘ (ترکھجور)۔۔۔’’قلقاس‘‘(ایک سبزی)۔۔۔’’کدو‘‘(لوکی)(۶۲)

آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے اورمشروب کی تفصیل ملاحظہ فرمائی۔ میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ مکمل ہے۔میں یہ بھی کہنا چاہتاہوں کہ یہ چیزیں تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے پینے کی ہیں جو حضورنے تناول فرمائیں اور نوش فرمائیں۔صرف انہی چیزوں کا ذکر نعت کا موضوع نہیں ہے۔ بلکہ نعت کا اتناہی اہم موضوع یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو کھانے پینے کے کیاآداب سکھائے؟۔اورکھانے پینے کے حوالے سے ان کی کیا تربیت فرمائی؟ جس پر عمل مسلمانوں کو دوسری اقوامِ عالم سے کھانے پینے کے حوالے سے بھی ممتاز ومنفرد کرتا ہے اور انہیں جدید ترین مہذب بناتا ہے۔یہ ایک طویل سبجیکٹ ہے اگر یہ مضمون خاصا طویل نہ ہوگیاہوتا تو میں اختصار کے ساتھ ہی اس کا بھی ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ۔لیکن اب انشاء االلہ ! ایک علیحدہ مضمون میں ان باتوں کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔اس مضمون میں جو صحیح اور اچھاہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جہاں غلطی ہو گئی ہے یا کوئی کمی رہ گئی ہے وہ سراسر میرا قصور ہے اور میری کم علمی کی بنا پر ہے ۔اہلِ علم ضرور اصلاح فرمائیں ۔وماعلینا الاالبلاغ۔


حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1)زاد المعاد اردو،حافظ ابنِ قیم ،حصہ اوّل ، صفحہ۱۸۱

2)ضیاء النبی ، محمد کرم شاہ الازہری،پیر،علامہ ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۱، بحوالہ :بخاری

3)ایضاً،جلد پنجم، صفحہ۵۹۱

4) ایضاً ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۲

5) ایضاً ،جلد پنجم،صفحہ ۵۹۲

6) ایضاً ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۳

7)ایضاً،جلد پنجم،صفحہ۵۹۳

8)ایضاً ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۴

9)ایضاً،جلد پنجم،صفحہ۵۹۴

10) ایضاً ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۵،بحوالہ:سبل الہدیٰ ،جلد۷،صفحہ ۵۷۰

11) ایضاً،جلد پنجم،صفحہ۵۹۶

12)مرأت شرحِ مشکواۃ ،مفتی احمد یار خان نعیمی،جلد ششم،صفحہ ۳۵۹،نعیمی کتب خانہ گجرات،بحوالہ :ابوداؤد

13)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری ،جلد پنجم،صفحہ۵۹۳

14)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری،جلددوم،صفحہ ۲۱۰،ناشر ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور

15)سیرت ابنِ ہشام ،محمد بن یسار المطلبی المدنی(المتوفیٰ۱۵۱ھ)،مترجم:مولاناقطب الدین احمدمحمودی،ا سلا م کتب خانہ ،حصہ اول،صفحہ۲۶۶

16)تاریخ ابنِ خلدون،علامہ عبد الرحمن ابنِ خلدون (۷۳۲ھ۔۔۔۸۰۸ھ)،مترجم: حکیم احمد حسین الہٰ آبادی ، حصّہ ا ول (رسول اور خلفائے رسول)،صفحہ۳۸

17)البدایہ والنہایہ،المعروف تاریخِ ابنِ کثیر اردو،علامہ حافظ ابوالفداء عماد الدین ابنِ کثیر دمشقی ، جلد سوم،باب اول،صفحہ۹، نفیس اکیڈمی کراچی

18)ایضاً،صفحہ ۱۴

19)ایضاً،صفحہ ۱۵

20)تاریخِ طبری،علامہ ابی جعفر محمد بن جریر طبری المتوفیٰ ۳۱۰ھ،مترجم:سید محمد ابراہیم ندوی ،جلد دوم، حصّہ اوّل، صفحہ ۵۸،نفیس اکیڈمی کراچی

21)رحمۃ اللعالمیں،قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری،جلد اوّل /صفحہ۷۵،مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد

22)نشر الطیب فی ذکرِالنبیِ حبیب،مولانا اشرف علی تھانوی ،تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور، کراچی، گیارہویں فصل ،صفحہ ۴۰

23)امِ السیر المعروف سیرتِ حلبیّب،علامہ علی ابنِ برہان الدین حلبی،مترجم:مولانا محمد اسلم قاسمی ،مئی ۲۰۰۹ ء ، جلددوم،نصف آخر ،صفحہ ۱۱۰تا۱۱۱،دارالاشاعت کراچی

24)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری ،جلد دوم،صفحہ۱۸۷

25)ایضاً ،جلد دوم،صفحہ ۱۸۷۔۱۸۸

26)ایضاً ،جلد دوم،صفحہ۱۸۸

27)ایضاً ،جلد دوم،صفحہ۱۸۸

28)ایضاً ،جلد دوم،صفحہ۱۸۹

29)زادالمعاد،علامہ حافظ ابنِ قیم،مترجم:رئیس احمد جعفری،سن اشاعت ۱۹۹۰ء،حصہّ اوّل، صفحہ ۱۵۹ تا۱۶۰

30)مرأت المناجیح شرحِ مشکواۃ المصابیح،مفتی احمدیارخان نعیمی،جلد اوّل،صفحہ ۲۵۳،نعیمی کتب خانہ گجرات ، بحو ا لہ : ابوداؤ د ،ابنِ ماجہ

31)ایضاً،جلد اوّل،صفحہ ۲۵۳،بحوالہ:احمد

32)ایضاً،جلد اوّل،صفحہ ۲۵۳،بحوالہ: مسلم

33)ایضاً،جلد اوّل،صفحہ ۲۵۳،بحوالہ:احمد

34)ایضاً،جلد سوم،صفحہ ۴۷،بحوالہ:مسلم و بخاری

35)ایضاً،جلد سوم،صفحہ ۴۸،بحوالہ:بخاری

36)ایضاً،جلدششم،صفحہ ۱۳، بحوالہ:بخاری

37)ایضاً،حاشیہ،جلدششم ،صفحہ۱۳تا ۱۴

38) ایضاً،جلدششم ،صفحہ۱۷، بحوالہ:مسلم و بخاری

39) ایضاً،جلدششم ،صفحہ۱۹ ، بحوالہ:مسلم و بخاری

40)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۱۹ بحوالہ:بخاری

41)ایضاً، حاشیہ،جلدششم ،صفحہ۱۹ ، بحوالہ: مرقات

42)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۲۰،بحوالہ:مسلم و بخاری

43)ایضاً،جلدششم ،صفحہ ۲۳،بحوالہ:مسلم و بخاری

44)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۳۴، بحوالہ:ابنِ ماجہ

45)ایضاً،جلدششم ،صفحہ ۳۵،بحوالہ:ترمذی

46)ضیاء النبی،از علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری،جلد چہارم،صفحہ۲۴۶،ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور

47)مرأت المناجیح شرحِ مشکواۃ المصابیح،مفتی احمدیارخان نعیمی،جلدششم ،صفحہ ۳۶، بحوالہ: ترمذی،بیہقی، شعب ا لا یما ن

48)ایضاً،جلدششم ،صفحہ ۳۶،بحوالہ:احمد ،ترمذی،ابنِ ماجہ

49)ایضاً،جلدششم ،صفحہ ۳۸،بحوالہ:مسلم و بخاری

50)ایضاً،جلدششم ،صفحہ ۳۹، بحوالہ:ترمذی

51)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۳۹ ،بحوالہ:ابوداؤد

52)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۰ ،بحوالہ:ترمذی

53)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۱ ،بحوالہ:ابوداؤد

54) ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۲ ،بحوالہ:ابوداؤد

55) ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۳ ،بحوالہ:ابوداؤد،ابنِ ماجہ

56)ایضا،حاشیہ،جلدششم ،صفحہ۴۴

57)ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۴،بحوالہ:ابوداؤد

58) ایضاً،جلدششم ،صفحہ۴۴ ،بحوالہ:ابوداؤد

59)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری ،جلد پنجم،صفحہ ۵۴۳،ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، بحوالہ :سبل الہدیٰ جلد ۷،صفحہ ۲۹۶

60)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری ،جلد پنجم،صفحہ ۵۴۴،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور

61)ضیاء النبی ،پیر محمد کرم شاہ الازہری ،جلد پنجم،صفحہ۵۵۰،ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور

62)ان تمام چیزوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہمارا ماخذ ’’ضیاء النبی،پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد پنجم ، صفحہ۵۵۳ تا ۵۵۷،ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہو�ؤ



مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت


نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25