اردو نعت میں انوارِقرآن ۔ گوہر ملسیانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat gohar maleesani.jpg

مضمون نگار : گوہر ملسیانی۔خانیوال

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

اردو نعت میں انوارِ قرآن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Poetics of Islamic literature is based on the divine word of Almighty Allah , saved in Qur'an. All Naatia literature, therefore, carries (or should carry) thought content, theme and text of poetry derived from Qur'an. The article hereunder comprises of some details of text and theme reflected in couplets of Urdu Naat containing fragrance and enlighten from the Verses of Quran-e-Kareem. Poets tried their best to learn beauty of expression, capturing reality and facts from Qur'an to paint personality and life of Prophet Muhammad (S.A.W) in the canvas of their poetic work.

اظہارِ محبت کے بے شمار زاویے ہیں بلکہ سلیقے اور قرینے کی ایسی بوقلمونی ہے کہ ہر قلبی کشش، ہر فکروخیال کی خواہش اور ہرجذبۂ واحساس کی تابش قوسِ قزح کاجمال رکھتی ہے۔عشق ومحبت کی کیفیات جب گلستانِ دل کی نکہت بن کر پھیلتی ہیں توہرشام جہان کورعنائیِ حسن سے نہال کرتی جاتی ہیں۔ہردل میں محبت بساتی جاتی ہیں ۔اس کی تہذیبی معنویت محبوب کی اداؤں پرفریفتہ کرتی جاتی ہے۔گویا محبت کی ہر جہت میں ایک چاہت درخشاں ہوتی ہے۔جس میںا یک ایسا نورہوتا ہے جو قلب ونظر کو ضوبار کرتا ہے اور آرزو وجستجو کو زر نگار کرتا ہے۔ ہم محبت کایہ نور اصنافِ ادب میںچمکتا دمکتا پاتے ہیں۔اس کے طرح طرح کے رنگ ڈھنگ چمنستانِ شعروسخن کوپُربہاررکھتے ہیں۔یہ کشش ،یہ تڑپ اورحسن، نثر میں بھی ہے اورنظم میں بھی ہے مگر دل کی دنیا میں نظم ،نثر سے زیادہ تجلیات ِ حسن سے معمور ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت اس حسن کی تلاش میں رہتی ہے۔یہی صداقت اور یہی حسن، ادیب،شاعر اور فنکار کی متاعِ عزیزہے ۔ ایک جواں مرگ رومانٹک (Romantic) شاعر جان کیٹس نے اس کی اہمیت واضح کی ہے:

Beauty is truth, truth's Beauty that's all, All ye Know on the earth And all ye need to Know.

’’حسن ہی صداقت ہے،صداقت ہی حسن ہے یہی حقیقت ہے کہ کائنات میں تم سب اسے جانتے ہو اورتم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے۔‘‘

یہ پیغامِ حسن وصداقت ایک ایسا جمالیاتی رنگ رکھتا ہے ،جس سے اصنافِ سخن خاص طور پر لبریز ہیں۔البتہ اس رنگ میں بعض اوقات صداقت غائب ہوجاتی ہے اور دنیاداری ،ہوس پرستی یا خواہشات ِ نفسانی ابھر آتی ہیں۔محبوب کے وصل کی جذباتیت ،ہجرو بے اعتنائی کی خاصیت اورغیر فطری بہیمیت پھیل جاتی ہے۔ایسی بہت سی خواہشیں نظم،مثنوی اورغزل میں پائی جاتی ہیں۔تاریخ ِ ادب کامطالعہ کریں تو متقدمین سے لے کر متآخرین تک یہ خرمستیاں موجود ہیں۔ مشتِ ازخروارے اشارے کرتاہوں۔اختر شیرانی کی منظومات دیکھیے:

’’سناہے میری سلمیٰ رات کوآئے گی وادی میں‘‘

اسی طرح میرحسن کی مثنوی ’’سحر البیان ‘‘میں بدرمنیرکی جذباتی ملاقاتیں۔

یاغزل کی ایک زمانے کی لکھنوی روش پرغورکیجیے۔ان تخلیقات میں شعرائے کرام کی گمرہی سے لبریز کیفیات کی سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سامنے آجاتی ہے۔

’’اوررہے شعراتوچلاکرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ ،کیا نہیں دیکھتے ہو تم،کہ وہ ہروادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔اوربلاشبہ وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں۔‘‘(الشعراء:۲۲۵۔۲۲۶)

دراصل عشق ومحبت کے یہ اظہاریے ،اسلامی تعلیمات کی روح سے خالی ہیں بلکہ اسلامی ادب نے ایسے خیالات وجذبات کو انسانی سرشت کی اخلاقی اقدار کے منافی قراردیا ہے۔انہیں عریانی اور نادانی کے زمرے میں شامل کیاجاتا ہے۔ اس کے برعکس اس عشق کی ستائش کی جاتی ہے جوحقیقت الحقائق کا پسندیدہ ہو،پاکیزہ اورروح تپیدہ ہوجو سفلی خواہشات اورخود غرضی کی حدود کامظہرنہ ہو۔

اس سلسلہ میں گلستانِ اصنافِ سخن میںہمیں وہ درخشندۂ وتابندہ صنف ملتی ہے،جس میں قرآنی تجلیات ، روحانی روایات اورجاودانی برکات ہیں۔جسے ’’صنفِ نعت‘‘سے موسوم کیاجاتا ہے ۔اس میں حقیقی محبت ، قلبی عقیدت اورلاثانی مؤدت کے لؤ لوئِ لالاچمکتے دمکتے ہیں۔اس میں دل کی دھڑکن ،فکر کا درپن اورخیال کاجوبن ہے ۔جو کلید ِجنت ہے،عروسِ رحمت ہے،باعث ِ شفاعت ہے اور گلشنِ تصورکی نکہت ہے۔جس میں جذبۂ شوق فراواں ہے، جس میں فکروفن کی تابانی نمایاں ہے اور جس میں نورِقرآنی ضوفشاں ہے۔

جب حقیقی عشق ومحبت صنفِ نعت میں درآتے ہیں تو اس میں معصومیت کی روشنی ،طہارت کی چاندنی اور صداقت کی چاشنی کے پرکشش نظارے نظرآتے ہیں۔یہ نعتِ رسول مقبولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمجونورِ قرآن ہے اور سنتِ رحمان ہے،اصنافِ ادب میں اعلیٰ وارفع فن بن جاتی ہے۔یہ اپنے محاسن ومحامد کی خوبیوں اور اسلوب کی رعنائیوں کی وجہ سے محبت کی ضیا اور ربِّ کائنات کی دل کش ادابن جاتی ہے۔یہ صفتِ تابندہ ایسی دولتِ حسن ہے،جس کوزوال نہیں،یہ ایسا رشتۂ نازک ہے جس کی مثال نہیں۔یہ ایسا کلام ہے جس کاحکم خدادیتا ہے۔البتہ شرط یہ ہے کہ یہ شرک سے مبرّا ہو،حقیقی انوار و صفات ِسرورِ عالمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کااجالا ہو،اس لیے تو کہتے ہیں کہ نعت کہنانازک ترین مرحلہ ہے۔پل صراط سے گزرنے کامعاملہ ہے محبوبیت اور رسالت کے مراتب کامسئلہ ہے۔ذراسی بھی کوتاہی ہوئی تو شرک کی گہرائی میں گرنے کا خطرہ ہے،عرفی شیرازی متوفی بمقام لاہور ۹۹۹ء نے کیاخوب کہاہے:

عرفی مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا

آہستہ کہ رہِ بردمِ تیغ است قدم را

ہشدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن

نعتِ شہِ کونین ومدیحِ کَے وجم را

حقیقت یہ ہے کہ صنفِ نعت ،عقیدت ومحبت کے ساتھ ساتھ خیالات کی رفعت،جذبات کی صلابت اور اسلوب کی قدرت بھی مانگتی ہے۔قرآن میں سرورِ کائناتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیان کردہ حقائق و اوصاف کا ادراک بھی چاہتی ہے پھر محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ مقدسہ کی احادیث میں ضیا بار صفات کا مطالعہ بھی کرتی ہے ۔گویا عظمت ورفعت ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہرپہلو سے شناسائی بھی درکار ہے۔سیرت مطہرہ ،اسوۂ حسنہ اوراخلاق ِ عظمیٰ کے اظہار کے لیے دانائی چاہیے،ذہن وشعور اور علم وفکر کی توانائی چاہیے اورقلب ونظر کی رعنائی بھی چاہیے ۔نعت گواس بات سے باخبر ہوکہ نعتِ سید ابرار، احمد مختارصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکرِ خیر کے لیے اس کے جذبات خیالات اوراحساسات مصفیٰ اورمجلّیٰ ہیں۔ وہ حسنِ سیرت، نورِ عقیدت ،تعلیماتِ رسالت اورخصائل وشمائلِ مخزنِ شفقت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے رخشندہ ہے۔وسیع وفصیح اسلوب کے نوادرات سے آگاہ ہے۔

نعت کہنا سنتِ ربِّ کریم ہے بلکہ فرمانِ رحیم وعلیم ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پردرود وسلام بھیجو۔ ربِّ کائنات نے وہ سلیقہ اور قرینہ بھی بتادیا ہے،جس کے لیے قرآن حکیم میں سیدِ کون ومکاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صفاتِ عالیہ کااظہار کردیا ہے،جسے انوارِ قرآن کہاجاسکتا ہے اور انہیں ہی نعتِ خالق ارض و سماوات کہہ لیجیے۔اللہ کی نعت کااسلوب الہامی ہے جوانسانی بساط سے بالاہے۔مگراللہ نے ہر نعت گوکو فکرو دانش اوروجدان کی قوت کا عطیہ بھی دیاہے۔وہ اکتسابِ نور حتی المقدور کرسکتا ہے۔اس کے خیالات میں محبت کی ضو ہو،ریاضت کی تگ ودو ہواوروہ قرآنِ کریم کے ان انوار سے اپنے افکار کالوازمہحاصل کرسکتاہو۔

آئیے ان انوار کی تلاش میں قرآن حکیم جیسے بحربیکراں میں غوطہ زن ہوں اورگہر ہائے گرانمایہ سے قلب ونظر کومستنیر کریں۔مشاہداتی قوت کے سامنے پہلا نورِقرآن ہی درودسلام کاحکم ہے۔فرمان باریِ تعالیٰ ہے:

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(الاحزاب:۵۶)

’’بلاشبہ اللہ اوراس کے فرشتے نبی پردرود بھیجتے ہیں،اے لوگو!جوایمان لائے ہو ان پر درود بھیجو اورخوب سلام کوبھیجا کرو۔‘‘

اللہ کی طرف سے اپنے نبی پرصلوٰۃ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پربے حدمہربان ہے۔آپ کی تعریف فرماتاہے۔آپ کے کام میں برکت فرماتا ہے۔آپ کانام بلند کرتاہے اور آپ پراپنی رحمتوں کی بارش فرماتاہے۔ ملائکہ کی طرف سے آپ پرصلوٰۃ کامطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے غایت درجہ محبت رکھتے ہیں اور آپ کے حق میں اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطافرمائے،آپ کے دین کوسربلند کرے آپ کی شریعت کوفروغ بخشے اورآپ کومقامِ محمود پرپہنچائے۔

’’اہل ایمان کونبی کے حق میں صلوا علیہ وسلموا تسلیماًکاحکم دینے کا مطلب ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہوجاؤ،ان کی مدح وثنا کرواوران کے دعا کرو۔۔۔۔۔۔تم ان کے لیے کامل سلامتی کی دعاکرو اوردوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دل وجان سے ان کاساتھ دو،ان کی مخالفت سے پرہیز کرو اور ان کے سچے فرمابردار بن کررہو۔‘‘(تفہیم القرآن:۱۲۳۔۱۲۴)

نعت کائنات کاہرشاعر اس لحاظ سے حکمِ ربانی کا اتباع کرتاہے اورنعت اس کا جوششِ ایمان بن جاتی ہے کلیدِ جنت بن جاتی ہے اوراطاعتِ رب کائنات کریم کا مژدہ بن جاتی ہے۔

حمد صانع ہے ثنا مصنوع کی

نعتِ احمدہے خدا کی حمد بھی

نعت توصیف ِرسولِ ہاشمی

درحقیقت فعلِ حق کی پیروی

مستحق اس کانہیں غیر ازرسول

نعت ہے مخصوص صنفِ شاعری

شمسِ حق ہے نعت کی تنویر سے

ہے منور نعت گو کی زندگی

(سید شمس الحق بخاری)

میں امامِ عشق وحسن ہوں،پڑھ رہا ہوں سلام

میں ادیبِ درس الفت ہوںسکھاتا ہوں درود

اے مرے اللہ رکھ لیناتہی دستی کی شرم

اورتوکچھ بھی نہیں،سوغات لاتاہوں درود

(ہارون الرشید ارشد)

نامِ خدا سے سلسلہ

زمزمہء درود کا

منزلِ ذات کاپتا

نورو ظہورِ مصطفیٰ

روحِ رواں کی ہے صدا

صل علی نبینا

صل علیٰ محمدٍ

(حفیظ تائب)

سلام آقا کی خدمت میں نہیں جن کاکوئی ثانی

سلام آقا کی خدمت میں جو ہیں مجبوب ربانی

(راجا رشید محمود)

سلام اے آمنہ کے لال،اے محبوبِ سبحانی

سلام اے فخرِ موجودات،فخر نوعِ انسانی

(حفیظ جالندھری)

شب وروز مشغول صلِ علیٰ ہوں

میں وہ چاکرِ خاتم الانبیا ہوں

(سردار عبدالرب نشتر)

رہتی ہے درودوں کی حسیں آس مرے پاس

آئے نہیں اس واسطے وسواس مرے پاس

(مسرور بدایونی)

سلام بھیجوں درودیں نبی کی نذرکروں

کہ جس کورحمتِ کل عالمین کہہ توسکوں

(سید محمد جعفری)

صاحبِ قرآں،فخر رسولاں خسردِدین و رحمتِ یزداں

بادۂِ عرفاں،ساقی ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

(ساغر نظامی)

آیات بینات میں ہے اس کاذکرِ خیر

محبوبِ ذوالجلال کی عظمت درودِپاک

جن و بشر کوچاہیے طاعت رسول کی

دیتا ہے ان کو شان وفضیلت درودِ پاک

(گوہر ملسیانی)

وہی ہیں طاہر،وہی مطَّہر،وہی ہیں شافع،وہی پیمبر

وہ سب سے افضل،وہ سب سے بالا وہ  سب کے رہبر وہ سب سے برتر

تحیت ان پر،درود ان پرصلواۃ ان پر سلام ان پر

(آسی لکھنوی)

اللہ تعالیٰ سید الانبیا،صاحب جودوسخا اوررسولِ رشدو ہدیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کس قدر محبت کرتے ہیں کتنا پیار کرتے ہیں!انسانی ادراک اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ فہم وشعور اس کی کنہہ پانے سے عاجز ہیں۔اللہ تعالیٰ سے قرآنِ حکیم میں کہیں بھی اسم مبارک محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یااحمد لے کر نہیں پکارا۔اللہ کے حسنِ تخاطب پر قربان ہونے کوجی چاہتا ہے کہ سیرت وکردار کے محاسن بیان کرنے سے پہلے یامحمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہہ کر نہیں پکارا بلکہ صفاتی حسن کوسامنے رکھا۔

ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ (مزمل :۱)

’’اے کپڑوں میں میںلپٹنے والے!‘‘

یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ(مدثر:۱)

’’اے چادر اوڑھنے والے۔‘‘

سبحان اللہ!خالق ارض وسماوات نے محرم اسرار خواجۂ دوسراصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جس حالت میں دیکھا اُسی انداز سے کتنی محبت سے پکارا۔یہ محبت ہی نہیں ہے بلکہ عظمتِ خیرالوری اورشانِ پیکرِ تسلیم ورضا بھی ہے۔

اسی طرح یسین اورطٰہٰ اوردیگر حروف مقطعات ہیں جن میں اوصاف واحسانات کی ایک دنیا مضمر ہے۔ان کے مفاہیم ومطالب سے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات اوراس کے محبوب پیغمبر،صاحبِ قرآن ہی آگاہ ہیں۔مفسرین قرآن حکیم سے انہیں القابات قرار دیاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰس وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ(یسینٰ:۱۔۲)

’’یسینٰ قسم ہے قرآن حکیم کی۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عکرمہؓ وغیرھم کاقول ہے کہ ہم اس کے معنی ہیں:’’اے انسان یااے شخص!اوربعض مفسرین نے اسے’’یاسید‘‘کامخفف بھی قرار دیاہے ۔اسی تاویل کی رُو سے ان الفاظ کے مخاطب نبیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔(تفہیم القرآن،ج۴)یہ آیت دیکھیے:

صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ(ص:۱)

’’ص‘‘قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔‘‘

یہ بھی حروفِ مقطعات میں سے ہے۔’ص‘کے مفہوم کاتعین بھی مشکل ہے لیکن حضرت ابن عباسؓ اورضحاک کایہ قول بھی کچھ دل کولگتاہے کہ اس سے مراد ’صادقٌ فی قولہٖ یا صَدَّقَ یامحمد‘یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صادق ہیں جوکہہ رہے ہیں صحیح کہہ رہے ہیں۔صاد کے حرف کوہم اردو زبان میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔مثلاًکہتے ہیں میں اس پرصاد کرتا ہوں۔(تفہیم القرآن ) یہ ایک اورآیت دیکھ لیجیے:

طٰہٰ ۔مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی (طہٰ:۱۔۲۰)

’’طہ،ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیاہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔‘‘

اس میںبھی آپ کومخاطب کیا گیاہے۔وہی دلکش،محبت بھرااسلوب ہے۔رسولِ مکرم کی عظمت ورفعت اورشوکت وفضیلت ہے۔نعتیہ ادب کامطالعہ کریں تویہ تخاطب کم کم نظر آتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یامحمدسے نہ مخاطب کیاجائے۔ویسے بہت سے نعت گو نے شانِ مصطفیٰ کے خطاب میں حسنِ بیان کامظاہرہ کیاہے چند اشعار حاضر ہیں جن میں انوارِ قرآن درخشاں ہیں:

نگاہِ عشق ومستی میںوہی اول وہی آخر

وہی قرآں،وہی فرقاں،وہی یسیں،وہی طاہا

(علامہ اقبال)

اسی طرح نعت نگاروں نے والشمس،والضحیٰ،والنجم کے حسنِ خطاب کو بھی اپنی مدحتوں کی زینت بنایاہے اوران انوارِ قرآن کی ضیاؤں سے اپنے اشعار کومنور کیاہے:

وہ جس کا ذکر سورۂ والشمس والضحیٰ

ذرے چمک اُٹھے، ہے اسی کی نظر کافیض

(منظورالحسن عباسی)

والنجم کے پرتوسے چراغاں ہے فلک پر

والشمس کے جلوؤں سے منوّر ہیں فضائیں

رحمت للعالمیں،یسینٰ وطٰہٰ،صٓ، قٓ

جبرئیل ؑآداب سے پیغامِ حق لاتے رہے

(سید افتخار حیدر)

مُدَّثِّر و مُزَّمِّل وطٰہٰ لقب انساں

قرآن کی آیات کاعنوان مبیں ہے

(مسعود رضا خاکی)

ہے سورۂ والشمس اگرروئے محمد

والَیل کی تفسیر ہوئی موئے محمد

(کرامت علی شہیدی)

مزّمّل و مدّثر،یسیٰن بھی طٰہٰ بھی

فی الجملہ وہ سرتاپا تفسیر ہے قرآں کی

(یزدانی جالندھری)

مزمّل،مدثر ہیں القاب تیرے

تویسٰین وطٰہٰ میں طلعت نما ہے

(عبدالعزیز خالد)

کہیں مزّمّل ویسیٰں،کہیں مدّثر وطٰہٰ

ہزار انداز سے وہ رشکِ ماہِ مرسلاں چمکے

(منظر عارفی)

ضوبد اماں صوت میں جب گونجتی ہے برملا

المزمل ، المدثر ، المبشر کی صدا

(صہبا اختر)

والنجم کس کی شوکت وعظمت پہ ہے گواہ

زینت فزائے،برجِ دنا اورکون ہے

(حفیظ تائب)

محسن انسانیت کے تذکار اوصاف حمیدہ کی ایک کہکشاں قرآن حکیم میںسجی ہے۔ انوارِکتاب ہدیٰ کی ضیائیں جب عالم مدحت کو ضوفشاں کرتی ہیں توان میں مہتاب کی ایک کرن رحمت للعالمین کی صفت لیے عالم انسانیت کوفروزاں کرتی ہے۔ربَ انس وجاں نے یہ پیغام جاوداں دیاہے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ

’’اورہم نے نہیں بھیجا مگر تم کو رحمت للعالمیں بنا کر۔‘‘

گویا آپ سب جہانوں کے لیے رحمت کی گھٹا بن کرآئے ہیں۔صرف بنی نوع انسان ہی کے لیے نہیں بلکہ جملہ مخلوقات کے لیے بادِ صبا بن کر آئے ہیں۔مفسرین نے اپنے اپنے انداز سے رحمت کی وسعت کوبیان کیاہے۔صاحب تفہیم القرآن کی ترجمانی کچھ یوں ہے:

’’اے محمد!ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تویہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘

پھر اس کی تشریح میں لکھتے ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تم کودنیا والوں کے لیے رحمت ہی بناکربھیجا ہے۔دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی کریم کی بعثت دراصل نوعِ انسانی کے لیے خدا کی رحمت اورمہربانی ہے کیوںکہ آپ نے آکر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کوچونکایاہے اوراسے وہ علم دیاہے جوحق اور باطل کافرق واضح کرتاہے اس کوبالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتادیاہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کون سی ہے اورسلامتی کی راہ کونسی کفار مکہ حضور کی بعثت کو زحمت اورمصیبت سمجھتے تھے اورکہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے،ناخن سے گوشت جدا کردیاہے۔اس پرفرمایاگیا کہ نادانو!تم جسے زحمت سمجھتے ہو،یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے۔‘‘(تفہیم القرآن،۳ص۱۹۲) رحمت للعالمین نے جہالت میں ڈوبے مصائب میں پھنسے انسانوں کوراحت فراہم کی ۔ آپ کی رحمت حدودوقیود وثغور سے مارواہے،وقت کی قید سے آزاد آج بھی آپ رحمت للعالمین ہیںاور قیامت تک کے زمانے کے لیے آپ کی تعلیمات بنی نوع انسانی کے لیے رحمت ہیں۔رب العالمین ’’الرحمن الرحیم‘‘ہیں۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اسمائے حسنیٰ میں’’الرحمن‘‘وہ اسم ہے جونظام وجدانی کامبداہے اورجس کے بعد اورکوئی اسم نہیں وہ ’’الرحمن‘‘ہے۔۔۔۔۔اس کے فیضان کی عمومیت۔۔۔۔۔۔کلی ہے،اوراس فیضان کامبدا ذاتِ اقدس کی رحمانیت مطلقہ ہے۔(نقوش سیرت،ص۲۳۔۲۴)

گویا یہ صفت’’الرحمن‘‘صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مختص ہے توصفت ’’رحمت للعالمین‘‘سرور کائنات کے لیے مختص ہے۔اس رحمت وشفقت بے پایاں کے انوارجادوانی ہیں۔قرآن کے یہ انوار صفتِ نعت میں بھی ضیابار ہیں۔

تری رحمت کی وسعت اے تعالیٰ اللہ تعالیٰ اللہ

چلے آئے سمٹ کرہردوعالم تیرے داماں میں

(عابد بریلوی)

عرب کے واسطے رحمت ،عجم کے واسطے رحمت

وہ آیااور آیا رحمت للعالمین ہو کر

(ظفر علی خاں)

اب بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں ہے

کل بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں تھا

(حافظ مظہر الدین)

ملاہے مرسلِ رحمت کا داماں

غمِ دوراں سے اب کیا واسطہ ہے

(حفیظ تائب)

تری سرکار بڑی ہے مولا

تو تو رحمت کی جھڑی ہے مولا

(شیر افضل جعفری)

جس کے فیض سے بنجر سینوں نے شادابی پائی ہے

موج میں وہ رحمت کادریا کل بھی تھا اورآج بھی ہے

(صبیح رحمانی)

تذکرہ تابندہ ورخشندہ ہے قر آن کا

رحمت للعالمیں فرمان ہے رحمان کا

(گوہر ملسیانی)

آپ کا آغوشِ رحمت وا ہوا سب کے لیے

ساری دنیا پرہے دامانِ جہاں پرور کھلا

(عاصی کرنالی)

گلِ معنی کھلاجب رحمت للعالمیں آئے

مشیت تھی کہ آخر میں بہارِ اولیں آئے

(رعنا اکبر آبادی)

شفیع المذنبیں اوررحمت للعالمیں وہ ہیں

کرم سارے زمانے پرہمیشہ جانِ رحمت کا

(عبدالرحمن عبد)

اسی سلسلے کی یہ آیت بھی سرور عالم کی شان وشوکت اوررحمت وشفقت کے انوار پھیلاتی ہے۔

لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْل’‘ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز’‘ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص’‘ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘ (التوبہ:۱۲۸) ’’دیکھو!تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیاہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پرشاق ہے،تمہاری فلاح کاوہ حریص ہے،ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اوررحیم ہے۔‘‘

’’رؤف’’رافت ‘‘سے ہے اوراس کااطلاق ایسی رحمت پرہوتاہے جوکسی کمزوری ومصیبت پرجوش میں آئے۔پس رافت اوررحمت کی ایک خاص صورت ہے اوررحمت عام ہے۔دونوں کے جمع کردینے سے رحمت کامفہوم زیادہ قوت وتاثر کے ساتھ واضح ہوگیاہے۔خدانے یہ دونوں وصف جابجا اپنے لیے فرمائے ہیں اوریہاں اپنے رسول کے لیے بھی فرمائے ہیں۔(ترجمان القرآن ، جلد ۲ ، ص۷ ۱۵)

رؤف الرحیم کے یہ انوار گلشنِ مدحت کوپُر بہاربناتے ہیں جوقلب ونظر کوضوبار کرتے ہیں۔رسول ِ رحمت کے یہ اوصافِ تابندہ اردو ادب کوایک روحانی فضا اورنورانی ردا عطاکرتے ہیں۔

رسولِ اکرم کاذکرِانورہی ضوفشاں ہے کتابِ حق میں

حسین انداز میں کہاہے رؤف بھی ہیں رحیم بھی ہیں

(گوہر ملسیانی)

میرے نبی کے کرم کی بھی وسعتیں بے انت

میرے نبی کاکرم رحمتِ خدا سے ہے

(ریاض حسین چودھری)

ان کی رحمت کاکیاہے ٹھکانا،دیکھ لے سوئے طائف زمانہ

موسم سنگ باری میں لب پر،کیا دعا کااجالا نہیں ہے

(صبیح رحمانی)

اس رحمتِ عالم کی عطا سب کے لیے ہے

سرکار کی شفقت کی ردا سب کے لیے ہے

(ابوالخیر کشفی)

تمام رحمت وبخشش ،تمام لطف وکرم

متاع قلبِ گدایانِ بے نواہیںرسول

(اقبال صفی پوری)

وہ مجسم عنایت و رحمت

وہ سراپا متانت و تمکیں

(خالد بزمی)

رحمت تیری قریہ قریہ،فیض ہے تیرا عالم عالم

دریا دریا تیری سخا ہے ،دامن دامن ابرِ کرم

(حافظ لدھیانوی)

میرے سرکار تورحمت ہیں وہ رحمان نہیں

اتنا سمجھا ہوں زیادہ مجھے عرفان نہیں

(آفتاب کریمی)

خلق میں سر بسر رؤف و رحیم

آدمیت کا پاسباں یعنی

(تابش دہلوی)

اس کی شفقت ہے بے حدوبے انتہا

اس کی رحمت تخیل سے ہے ماورا

جو بھی عالم جہاں میں بنایاگیا

اس کی رحمت سے اس کوبسایا گیا

(کرم حیدری)

قرآن کریم میں محسنِ انسانیت کی جلالت وفضیلت سیرت کاایک پُرعظمت انداز بیان ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم کی دلربا قوس وقزح سجائی ہے۔جس میں مدح وثنا کاایسا نورجلوہ نماہے،جس میں خُلق کی ضیائیں قاری کے ذہن وخیال کومنور کرتی ہیں۔باری تعالیٰ کی مدحت کا حسیں اسلوب دیکھیے:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم (القلم:۴) ’’اوربے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پرہو۔‘‘

کتنا اچھوتا اوررس بھرا جملہ ہے ۔فصاحت وبلاغت کی انتہا ہے جوضرب المثل بن گیاہے۔یہ عظمت وحشمت سلسلۂ انبیا بلکہ جملہ نوعِ انسانیت میں اور کسے عطا ہوئی۔بعثت ِ رسول اکرم کے زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کریں توہم دیکھتے ہیں کہ اس عہد میںمکہ کاہرمعقول آدمی حضور اکرم کے اخلاق حسنہ سے متاثر تھا۔آپ کوصادق وامین کے حسین القاب سے پکارا جاتاتھا۔اگرچہ متعصب مشرک سردار جانتے بوجھتے حضور کو مجنون اورجادوگر کہتے تھے مگر کوئی ذی شعور انسان تسلیم نہ کرسکتا تھا۔اتنے بلند اخلاق رسول کوآج کے متعصب فنکار وقلمکار بھی اہانت سرورعالم میں مصروف ہیں۔یہ جہالت کی انتہا ہے حالاںکہکتابِ مبین میںیہ انوارِ اخلاق عظیم اللہ تعالیٰ کی شہادت سے جگمگ کررہے ہیں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ’’کان خلقہ القرآن‘‘کہہ کر اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تصدیق کردی ہے۔

یاد ہے بات مجھے حضرت صدیقہ کی

آپ کاخلق ہی قرآن ہے سبحان اللہ

(حفیظ تائب)

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس آیت کی تشریح حسین وجمیل انداز میںکی ہے۔

’’محسن ِانسانیت نے دنیا کے سامنے قرآن کی تعلیم ہی نہیں پیش کی تھی بلکہ خود اس کومجسم نمونہ بن کردکھلایا تھا ۔جس چیز کاقرآن میں حکم دیا گیا آپ نے خود سب سے بڑھ کر عمل کیا،جس چیز سے اس میں روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا۔جن اخلاقی صفات کواس میں فضیلت قراردیا گیا سب سے بڑھ کرآپ کی ذات ان سے متصف تھی اور جن صفات کواس میں ناپسندیدہ ٹھہرایا گیا سب سے زیادہ آپ ان سے پاک تھے۔‘‘(تفہیم القرآن،جلد۴)

گلشنِ نعت میں سیدابرار،احمد مختار کے اخلاقِ حسنہ کے گلہائے سدا بہار مہکتے ملتے ہیں۔دیکھیے چند گلاب حاضر ہیں:

جو حسنِ خُلق میں ہیں موجِ کوثر و تسنیم

توگفتگو میں مزاجِ گل و صبا ہیں رسول

(اقبال صفی پوری)

محبتوں کے چمن کھلائے ہیںآپ نے خلق بیکراںسے

وفا کی تعلیم سے چراغاں کیے ہیں کتنے مرے نبی نے

(جعفر بلوچ)

خُلق کی خوشبو تمام ادوار میںرچ بس گئی ہے

باغِ ہستی میں کھلایوں ان کی شفقت کاگلاب

(صبیح رحمانی)

لقب دیا ہے انھوں نے امین و صادق کا

ہیں ان کے خلق و مروت کے معترف اغیار

(حافظ لدھیانوی)

کردار بے مثال ہے اسوہ ہے لاجواب

خلقِ عظیم آپ کاعکسِ کتاب ہے

(گوہر ملسیانی)

مہکتا ہے گلِ اخلاق کی خوشبو سے ہرآنگن

ضیائے سیرتِ سرکار سے ہرگھر چمکتا ہے

(حفیظ تائب)

ایسے انوارِ قرآن اردوادب میں صنفِ نعت کوجگمگاتے ہیں۔رسول ہاشمی کے حسنِ اخلاق کی کرنیں مدحت نگاروں کے خیالات وافکار بھی ان سے جلا پاتے ہیں۔ان گہرہائے تابدار کی ضو فشا نیا ں نعتیہ کلام میں دیکھیے۔

مدح وستائش کے حسین وجمیل گل ہائے گلاب کی نکہت کتابِ مبین میں مختلف آیات میں بکھری ہوئی ہیںجوذوقِ مدحت رکھنے والے ہر شاعر کے مشام خیال کومعطر کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے پُربہار اسلوب میں ایک اورجلوۂ محبت سید البشر کی ادائے بشریت ہے۔ربِّ کائنات نے آپ کے مرتبۂ بشریت کوشان نبوت کے حوالے سے اجاگر کیاہے۔آپ کے مقامِ بشریت کی خصوصیت کوواضح کرنے کے لیے آپ کاحقیقی مرتبہ کوانوار وحی سے ضیابار کاہے:

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَر’‘ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّاحِد’‘ ج فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا(الکہف:۱۱۰) ’’اے محمد!کہہ دیجیے کہ میں توایک انسان ہوں تم ہی جیسا،میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خداہے۔‘‘

کتنا تابندۂ ورخشندہ مطالب ومفاہیم کامرقع یہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔معیارومرتبہ کے لحاظ سے مدحت کاکتنا بلیغ اسلوب ہے۔زبان خیرالبشرسے کہلوادیا کہ اے اہل ایمان میں بھی تم جیسا ایک بشر ہوں مگران کمزوریوں سے پاک ہوں جو دیگر انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔میری رہنمائی توقدم قدم پر ربِّ قدیر کرتاہے۔میرے قول وفعل اورمیرے حسن کردار کی حفاظت رب قہار کرتاہے۔ میرے پاس حضرت جبریل ؑ وحی لے کرآتے ہیں۔احکامِ خداوندی پہنچاتے ہیںجوفرض مجھے ادا کرنا ہے اس کی ہدایت فرمانِ الہٰی کے مطابق پہنچاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے معصوم عن الخطا رکھا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ اپنے عہد رسالت میں مکمل طورپر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے ہیں۔باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں خود اس کاتذکرہ فرمایاہے:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ   بِحَمْدِ   رَبِّکَ  حِیْنَ   تَقُوْمُ(الطور:۴۸)

’’پس اے نبی صبر کرو اپنے رب کافیصلہ آنے تک اس لیے کہ بلاشبہ تم ہماری نگہداشت میں ہواورتسبیح کرواپنے رب کی حمد کے ساتھ جب تم اٹھو۔‘‘

ایک اورمقام پرفرمایا:

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ(الزمر:۳۶) ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘

اسی صورت میں حضور کو مخاطب فرماتے ہوئے تسلی دی۔ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہ(الزمر:۳۸)

’’اے محمد!کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ میرے لیے کافی ہے۔‘‘

بلکہ سورہ المائدہ میں تواللہ نے واضح طورپرفرما دیا۔

وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدہ:۶۷)

’’اللہ تعالیٰ تمہاری (ہرقسم کے)لوگوں سے حفاظت کرے گا۔‘‘

یہ حفظ وامان کے فرمودات رسول اکرم کے لیے ہیں اورکسی انسان کے لیے نہیں ہیں۔یہ اسی لیے فرمایا گیاہے کہ ہم ا پنے محبوب پیغمبر پروحی بھیجتے ہیںاوراس کی ہرطرح رہنمائی کرتے ہیں۔یہ وہ مرتبۂ بشریت ہے جس پر آسمان کے فرشتے اورزمین پراللہ کے بزرگ انسان بھی ناز کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں سیدالمرسلین کی عظمت وفضیلت کے انوار ونعت کے حسن وجمال کوضوبار کرتے ہیںدیکھیے:

خلوت کدۂِ قربت قوسین کا مقصود

ممدوحِ ملائک بہ کمالِ بشریت

سر تاج رسل ، شمعِ سرا پردۂ وحدت

امّی لقب و وداقفِ اسرار حقیقت

(بشیر احمد بشیر)

محمد عربی ہے جمال حق کی نمود

ہے نورِ قلب و نظر سید البشر کا وجود

(حافظ لدھیانوی)

سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی

سلام اے فخرِ موجودات،فخرِ نوع انسانی

(حفیظ جالندھری)

میری نظروں میں بساہے اسوۂ خیر البشر

کس طرح آئے مرے نزدیک دنیا کا خیال

(ذکی قریشی)

اس خاک کاکیاہے ستاروں سے بھی بلند

انسانیت کی شوکت وعظمت ہے آپ سے

(شہزاد احمد)

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر خیر البشر

خوش نژاد و خوش نہا و خوش نظر خیر البشر

(حفیظ تائب)

رب کائنات نے اپنے لازوال حسنِ اسلوب،بے مثال نور بیان سے نعت کی عظمت کو ایسے نورِ قرآن ،جمال برہان سے اجاگر کیاہے کہ نبی آخرالزماں ،ہادی وجاں کی مدحت، اصناف اردوادب میں بے بدل ہوگئی ہے۔فرمایا:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک( الم نشرح:۴) ’’(اے محمد!)اورتمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کردیا۔‘‘

ذرا غور کیجیے مخزن حکمت،مظہر رحمت اورعنوان مدحت کے بارے میں جو یہ بات اس زمانے میں فرمائی گئی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس فردِ فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور سب ہی شہر مکہّ تک محدود ہیں اس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہوگا،کیسی ناموری اس کوحاصل ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں اپنے رسول کوخوشخبری سنائی اورپھر عجیب طریقے سے اس کوپورا کیا۔سب سے پہلے آپ کے رفیع ذکرکاکام خودآپ کے دشمنوں سے لیا۔

کفارِ مکہّ نے آپ کو زک دینے کے لیے جوطریقے اختیار کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پرجب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کران کے شہر میںآتے تھے،اس زمانے میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پرجاتے اورلوگوں کوخبردارکرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد نامی ہے جولوگوں پر ایساجادو کرتا ہے کہ باپ ،بیٹے سے،بھائی بھائی سے اور شوہر بیوی سے جدا ہوجاتاہے اس سے بچ کررہنا ۔ یہی باتیں وہ ان لوگوں سے بھی کہتے جو حج کے سوادوسرے دنوں میں زیارت یا تجارت کے لیے آتے تھے۔رسول اکرم ہروفد کے پاس تبلیغ دین اسلام کے لیے جاتے تھے۔اس سے ایک تجسس پیدا ہوتا، لوگ سوچنے پرمجبور ہوجاتے۔یوں عرب کے گوشے گوشے میں حضور کانام پہنچ گیا۔کفار کاجتنا پروپیگنڈا بڑھتا گیا اتنا ہی زیادہ آپ کاذکر بلند ہوتا گیا۔

آپ کے رفعِ ذکر کادوسرا حصہ ہجرت کے بعد مدینہ میں اسلامی ریاست کاقیام سے اس میں توآپ کاغلغلہ سارے عرب ہی میں نہیں پھیلا بلکہ روم تک پھیل گیا۔آپ کی اخلاقی اقدار ، بلکہ اورعملی اقدام سے کفار ومشرکین بھی متاثر ہوئے اورفتوحات نے آپ کی عظمت اخلاق کوہرطرف ضوفشاں کردیا۔

تیسرا مرحلہ رفع ذکر کاخلافت راشدہ کے دور سے شروع ہوا۔یہ سلسلہ آج تک بڑھتا چلا جارہاہے۔رفعنا لک ذکرک کی آب وتاب مشرق ومغرب میں پھیل گئی۔زمین کا کون سا گوشہ ہے جہاں سرور عالم کاذکر مبارک نہ ہورہاہے۔کون سا براعظم جہاں مسلمان آباد نہیں ہیں اوروہاں پانچ وقت اذان نہ گونج رہی ہو اوراشہد لا الہٰ کے ساتھ اشہد محمد رسول اللہ کا کلمہ فضا میں نہ گونج رہاہو۔یہ قرآن کی صداقت کاایک کھلا ہواثبوت ہے جو اس آیت کریمہ میں ضیابار ہے۔(تفہیم القرآن،ص۳۸)

اللہ تعالیٰ کی مدحت کانور گلستان صنف نعت کو آج بھی حسن وجمال سے منور کررہاہے۔

ذکر آپ کا بلند کیا کردگار نے

چرچا ہے کائنات میں افزوں حضور کا

(حفیظ تائب)

سوچ سے ماوراآپ کی رفعتیں

ہے مکاں آپ کا ،لامکاں کی طرح

جہاں سورج ہے صبح و شام پہنچا

وہاں تک آپ کا ہے نام پہنچا

(گوہر ملسیانی)

پڑھتا ہوں کبھی صل علیٰ سیدنا جب

کہہ اٹھتا ہے وجدان رفعنا لک ذکرک

(راجا رشید محمود)

ہر صدی ،ہرعہد کے گلشن کوان کی آرزو!

ہرزمانے میںکھلا ہے ان کی چاہت کاگلاب

(صبیح رحمانی)

رفعت بشریت کاتاج ربّ کائنات نے مظہر انوار حق،مصدراسرار حق کے سرپرسجایا ہے۔ انسان کی فہم وفراست کے اس حقیقت امرحق کی وسعت کوپانے سے قاصر ہے۔کون سمجھ سکتاہے کہ سید البشر کاسفر معراج، اس کی رفعت کے اسرارورموز کیا تھے۔اس سدرۃ المنتہی کے سفر کے مقاصد کیا تھے؟قرآن حکیم کی اس آیت کی تشریحات اوراس کے متعلقہ احادیث کی تفہیمات سے جو کچھ فکروخیال کی متاع عزیز بنتاہے اسی پر غوروخوص کرتے ہیں جو عظمتیں اورفضیلتیں اس آیت کریمہ سے حاصل ہوتی ہیں انہیں صنف نعت کی زینت بناتے ہیں کیوںکہ یہ نورقرآن تواللہ تعالیٰ کی پُرجمال نعت ہے۔قرآن حکیم کایہ فرمان ِدلربا دیکھیے:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر (بنی اسرائیل:۱) ’’پاک ہے وہ اللہ جو لے گیا،ایک رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی تاکہ اس کواپنی کچھ نشانیوں کامشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے والااوردیکھنے والا۔‘‘

یہ وہی واقعہ ہے جواصلاحاًمعراج اوراسرء کے نام سے مشہور ہے۔یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔بہت سے صحابہ کرامؓ اس کے راوی ہیں۔قرآن مجید صرف مسجد حرام سے مسجد بیت المقدس تک جانے کی تشریح کرتاہے اوراس سفرکا مقصد یہ بتانا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کواپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتاہے۔یہاں اس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں ہے۔احادیث میں اس کی تفصیلات ہیں۔حضرت جبرئیل ؑ کے آپ کواٹھا کر براق پرلے جانے کے واقعات ہیں۔(تفہیم القرآن،جلد۲،ص۵۸۸)

تفصیلات کسی بھی تفسیر میں دیکھ لیجیے۔

معراج درحقیقت ایک انوکھا اورانسانی فہم وفراست سے بہت بلند واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے خیر البشر، سید البشر، امام الانبیاء اورختم المرسلین کواپنے پاس سدرۃ المنتہیٰ پرلے گیا اوراپنی بہت سی نشانیاں دکھائیں۔یہ انسانیت کاعروج،محسن انسانیت کی عظمت و رفعت کابے مثال واقعہ ہے۔ حضرت موسی ؑکوتو ’’لن ترانی‘‘کاجواب ملا تھا مگر اس معراج میں تواللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کواپنے پاس بلالیا۔یہ شانِ خداوندی اورشانِ بشر کاایسا تعلق ہے کہ سوچیں گم ہو جاتی ہیں۔فکر وشعور جواب دے دیتے ہیں صنف نعت کے شعرائے کرام اس عروجِ انسانیت کے انوار سے اپنے اپنے خیالی گلستان سجاتے ہیں۔اردو ادب کے شعری ذخیرہ میں یہ موضوع ایسا پُر ضیاہے کہ اس نے صنفِ نعت کوسخن کے چمن کاگلِ سرسبد بنادیا ہے۔ہرشاعر نعت کاکلام’’ہرگلِ رارنگ وبوئے دیگر است‘‘کے مصداق نئے نئے خیالات وجذبات کامرقع ہے۔

یہ وہ بشر کہ ملا جس کو رتبۂ معراج

یہ وہ نبی کہ نبوت ہے جس کی لامحدود

(اخترالحامدی)

وہ منظردیدنی ہوگا کہ جب عرش معلی پر

خدا سے لامکاں میں آپ نے خلوت میں کی باتیں

(راشد میر)

زمین و آسمان سے کون گزرا

فضائے بیکراں سے کون گزرا

فلک بولا یہ کیسی روشنی ہے

یہ میرے درمیان سے کون گزرا

ستاروں سے ستارے سے پوچھتے ہیں

ہماری کہکشاں سے کون گزرا

کسے معراج کی منزل ملی ہے

مکان و لامکاں سے کون گزرا

(امدادہمدانی)

وہ شام اسرا کی رات کیا تھی وہ نور کیا تھا وہ رات کیا تھی

تمام پردے اُٹھے ہوئے تھے وصال بھی اوروصال کیسا

(برگ یوسفی)

وہ جس کے علم کی تفسیر الم نشرح لک صدرک

وہ جس کے اوج کی تعبیرسبحان الذی اسرا

(صوفی تبسم)

خبرملی ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

(علامہ اقبال)

اسرا کی شب خدا نے ہزار اہتمام سے

اسرار کائنات بتائے حضور کو

(حفیظ تائب)

عرش بریں پہ جلوئے کچھ ایسے بکھر گئے

اب تک ہے دن کادل شبِ اسریٰ کی روشنی

(صبیح رحمانی)

جب تصور میں شبِ اسریٰ کی آئی ہے ضیا

ذہن میںبھی عرش کی گوہر فضا میں آنے لگی

(گوہر ملسیانی)

اطاعت مرسل داور،بدر منور بھی نعت کادل کش موضوع ہے۔ عقیدت ومحبت کی روحانی اورقلبی روشنی کے بغیر اطاعت کاحق ادانہیں ہوتا۔اس لیے ربّ ارض وسماوات نے شاہِ امم،مہرِ کرم کی اطاعت کواپنی اطاعت کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔گویا اپنی حمد کے ساتھ اپنے محبوب رسول کی نعت کو بھی لازم قراردیاہے۔اس طرح واضح کردیاہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سرورِ عالم کی اطاعت سے علیٰحدہ نہیں ہوسکتی۔فرمان ربّ قدوس ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء:۵۹) ’’اے ایمان والو!تم اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو۔‘‘

ایک اورمقام پرمزید تاکید فرمائی:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُم(محمد:۳۳) ’’اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواوراس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کوبرباد نہ کرو۔‘‘

گویا اعمال کی قبولیت بھی اطاعت رسول کے بغیر ممکن نہیں اس سے بڑھ کر عزیز’‘ علیم نے یوں بھی فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:۸۰) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

ان آیا ت مقدسہ میں باری تعالیٰ نے نعت کے اس موضوعِ منور کوجگمگا دیاہے۔اس میں محبت کی شیرینی اطاعت کے شہد ِمصفا میں پنہاں دکھائی ہے۔ نعت کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے اورنعت گو کو انوارقرآن میں سے محبت واطاعت کی ایک ضوفشاں کرن مل جاتی ہے۔جو نعت کی ادبی عظمت کوجلا بخشتی ہے بلکہ صنف ِ نعت اصناف ادب کودلکش استعارات وتشبہیات سے مالامال کردیتی ہے۔دیکھیے:

اہل ایماں کوہے قرآن کی تعلیم یہی

ربّ اکبر کی اطاعت ہے اطاعت ان کی

(قمر یزدانی)

جوآدمی حضور کا طاعت گزارہے

اس آدمی کوگردش دوراں کاغم نہیں

(انجم وزیر آبادی)

رب سے ملنا ہے تومحبوب ِ خدا سے ملیے

حق توملتاہی نہیں ان کی اطاعت کے سوا

(بشیر زواری)

خدا محبت کرے گا اس سے کہ جومحبت کرے نبی سے

کرومحبت نبی سے لوگو!خدا کی چاہت ملے گی تم کو

(آفتاب کریمی)

رسول خد اکی اطاعت کروں

بناؤں یہی مقصدِ زندگی

(لالہ صحرائی)

احمد کی اطاعت کوشعار اپنا بنالو

احمد کی اطاعت کاصلہ خلدِ بریں ہے

(اعجاز رحمانی)

تری ذات سے محبت ،ترے حکم کی اطاعت

یہی زندگی کامقصد ،یہی اصل دین وایماں

(ماہر القادی)

ہم توانسان ہیں کیوں ان کی اطاعت نہ کریں

سنگ واشجار نے جب ان کی اطاعت کی ہے

(منظر عارفی)

نعیم اللہ توفیقِ اطاعت بھی تمہیں بخشے

کہ بس حسنِ بیاں کافی نہیں مدحِ پیمبر کو

(ضیاء الدین نعیم)

روشنی ہی روشنی ہے زندگی کے واسطے

ابتدا تا انتہا پیارے نبی کاراستہ

(طاہر سلطانی)

بشر کوتلخیوں میں حوصلہ ملتاہے سیر ت سے

رسول ہاشمی کے اسوۂ نورِاطاعت سے

(گوہر ملسیانی)

گلشن نعت میںجہاں عقیدت واطاعت کے غنچے چٹکتے ہیں وہاں سید ابرار کے زہد وریاضت ، جودوسخاوت واسوۂ حسنہ کے رنگا رنگ پھول بھی مہکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کتابِ مبین میں رسول امین،صاحبِ یسین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انواراسوۂ حسنہ بھی شعرائے نعت کو عطاکیے ہیں۔کتنے دلربا انداز میں خود بھی حسنِ مدحت کی ضیائیں پھیلائی ہیں۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا(الاحزاب:۲۱) ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے جو اللہ اوریومِ آخر کاامیدوار ہے اورکثرت سے اللہ کویاد کرے۔‘‘

اگرچہ یہ فرمان غزوہ ٔاحزاب کے مجاہدین کے لیے تھا مگر یہ الفاظ عام ہیں اورانہیں معنی تک محدود نہیں۔اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ صرف اس لحاظ سے اس کے رسول کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرارد یا ہے لہٰذا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملے میں آپ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں۔اس کے مطابق اپنی سیرت اورکردار کو ڈھالیں۔(تفہیم القرآن:ص۸۱)

یہ آیت کریمہ اپنے اندر حضور اکرم کے اسوۂ کے بے مثال انوار رکھتی تھی۔اسے ہم محسنِ انسانیت کی عظیم نعت کہہ سکتے ہیں ۔کتنے حسین انداز میں اللہ تعالیٰ نے باور کرایا ہے کہ اہل ایمان اسوۂ سید البشر کے انوارسے اپنیزندگی کو جگمگائیں اوراخروی زندگی کی فلاح پائیں۔بعض نعت نگاروں نے اس نورقرآن سے اپنے نعتیہ اشعار کوضوفشاں کیاہے،جس سے صنفِ نعت کوایک جدید ضیا بار اسلوب ملاہے:

منارِ رشد ہدایت،سحابِ رحمت جود

مرے رسول کا اسوۂ،مرے نبی کاوجود

(حفیظ تائب)

انسانیت کااسوۂِ کامل حضور ہیں

اس کاروانِ زیست کی منزل حضور ہیں

(محشر رسول نگری)

گالیاں کھاکے بھی لوگوں کودعائیںد ی ہیں

ان کے اسوہ کامرے دل میں دیاہے روشن

(راز کاشمیری)

وہ اسوۂِ اخلاق وہ آئینہ الطاف

دنیا میں کہاں آپ کا مجموعۂ اوصاف

(خالد بزمی)

دوستو!آؤ ایک کام کریں

اسوۂِ مصطفیٰ کوعام کریں

(اعجاز رحمانی)

اسوۂِ ختم الرسل‘ سامنے رکھیں اگر

کشمشِ زیست میں مات کاامکاں نہیں

(عزیز احسن)

آج بھی آپ کااسوہ ہے ہمارا رہبر

کل بھی خورشید اسے راہنما رکھتے تھے

(خورشید بیگ ملیسوی)

اسوۂِ رحمت عالم توبلاتا ہے ہمیں

مشکلیں جو بھی زمانے کی ہیں آساں کرلیں

(شوکت ہاشمی)

بدرکامل ، اسوۂِ کامل ہوا

کرلو اے تیرہ شبو کسب ضیا

(لالہ صحرائی)

معیار ہے دنیا کے لیے اسوۂِ حسنہ

سربستۂ توحید کے ہیں نقشِ حسیں آپ

(عبدالکریم ثمر)

شان رسالت کی لاتعداد کرنیں قرآن وحدیث میں چمکتی ہیں جو اوصاف وصفات امام انبیاء ومرسلین کی پُر تاثیر ضیائیں گلستان علم وادب اورصاحبان نظر کے دلوںکوضیا بارکرتی ہیں۔ان انوار قرآن کو بارگاہ ربّ کائنات سے پیش کی جانے والی مدح وستائش کی روحانی ونورانی مدحتیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ان میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی عظمتیں اورسیرت وکردار کی فضیلتیں بھی ہیں۔فرمان قادر مطلق ہے۔

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا(الاحزاب:۴۵،۴۶) ’’اے نبی ہم نے تمہیں گواہ بناکر بھیجا ہے،بشارت دینے والا اورڈرانے والابناکراوراللہ کی اجازت سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اورروشن چراغ بنا کر۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ چند کلمات رسول اللہ کومخاطب کرکے فرمائے گئے ہیں جن میں آپ کے لیے تسکین کاخزانہ بھی اورفرائض کی انجام دہی کا فرمان بھی ہے۔درحقیقت مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سرور عالم کویہ مراتب عالیہ عطا کیے ہیں۔آپ کی شخصیت بہت بلند وبالا ہے یہ مخالفین بہتان وافتراکاطوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔آپ ان باتوں پررنجیدہ نہ ہوں۔اس حکم سے یہ ستائش ربّ کریم بھی مترشح ہوتی ہے ان کاسابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے ،انہیں تواللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پرسرفراز فرمایاہے۔(فہیم القرآن،جلد۴،ص۱۰۵) اللہ تعالیٰ نے نبی محترم ومکرم کی صفات ،شاہد مبشر اورنذیر بھی بیان کردی ہیں۔اس شہادت کا مفہوم قولی بھی ہے کہ آپ کی ہربات خالق کی ہدایت کے مطابق ہے اوریہ شہادت عملی بھی ہے کہ آپ نے ہرحکم پرخود عمل کیا ہے اور یہ شہادت اخروی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آخرت میں ہر ایک کے متعلق شہادت دیں گے۔اسی طرح آپ کو اللہ نے آپ کو بشارت دینے والا اورڈرانے والا بھی بنا کربھیجا ہے۔واضح رہے کہ محسنِ انسانیت روشن چراغ بھی ہیں۔جس طرح چراغ سے روشنی پھیلتی ہے اورتاریکی بھاگ جاتی ہے اسی طرح مہرہدایت کے طلوع ہوتے ہی جہالت اورکفروباطل کی تاریکیاں کافورہوجاتی ہیں۔تاریخ عالم اس کوسب کے سامنے عیاں کرتی ہے۔یہ انوارقرآن صنف نعت کو جلا دیتے ہیں۔اردو ادب میں نعت کی یہ تجلیات فکروخیال اوراسلوب وانداز کودرخشاں کرتی ہیں۔

جو ہیں بشیر و مبشر ، بشارت و بشرا

جو ہیں مشاہد و اشہد جو شاہد و مشہود

(اختر الحامدی)

وہ محمد ہیں احمد بھی محمود بھی ،حسن مطلق کاشاہد بھی مشہود بھی

علم وحکمت میں وہ غیرمحدود بھی،ظاہراً اُمیوں میں اٹھایا گیا

(کرم حیدری)

کیوں کر ڈریں نہ تجھ سے عدو،شاد دوست ہوں

پایا خطاب تو نے بشیر و نذیر کا

(احقر بہاری)

سراجِ منیر و نذیر و مبشر

تو پیغمبر رحمت وملحمہ ہے

رؤف و رحیم و مطاع و مزکی

مہاجر ہے خود کو مسافر کہاہے

(عبدالعزیز خالد)

شاہد کہاہے آپ کوبلکہ نذیر بھی

کیسی صفات ِمنصب امّی خطاب میں

(گوہرملسیانی)

دنیا کی عظمتوں میں سراجِ منیر تم

قندیلِ عرش ومشعل ِعقبے تمہیں توہو

(صبامتھراوی)

روشنی جس کی مدہم نہ ہوگی کبھی

وہ ہدایت کامہرِ منیر آپ ہیں

(حفیظ تائب)

تواے سراجِ نور وہ انوار کر عطا

کچھ ظلمت ِنگاہ کو رستہ دکھائی دے

(ع،س مسلم)

پیکرِ نور ، اے سراجِ منیر

ہے یہ خورشید میں تری تنویر

(اثر صہبائی)

ربّ نے بھیجا ہے بنا کرسرورِ کونین کو

اک مبشر،اک نذیر اک شاہد علم ویقیں

(راجا رشید محمود)

قرآن کریم میں عظمت مخزنِ اسرار ربانی،مرکز انوار رحمانی کی ایک اورضیاصنفِ نعت کوضوفشاں کرتی ہے اورقادر مطلق کے ممدوح مدثر ومزمل کے حسن کی ایک اورانداز تابانی پھیلاتی ہے۔اس مدحتِ ربانی کی ایک جھلک دیکھیے:

مَا کَانَ مُحَمَّد’‘ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَا (الاحزاب:۴۰) ’’لوگو!محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگروہ اللہ کے رسول اورخاتم النبین ہیں اور اللہ ہرچیز کاعلم رکھنے والا ہے۔‘‘

اگرچہ اس آیت کے پہلے حصے میں مشرکین کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کی طلاق اورحضوراکرم کے اس نکاح پرکیاجارہاتھا مگر اللہ نے اس رسم جاہلیت کا خاتمہ کیا ہے جومنہ بولے بیٹے کو بیٹا کہا جاتاتھااورساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ محمد آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا،جن کے عہد میں ایسی رسم کو مٹا دیا جائے۔(مفہوم تفہیم القرآن ،جلد ۴،ص۱۰۳)

مگر ہمیں تودیکھنا ہے کہ باری تعالیٰ نے کتنے حسین اسلوب میں بے نظیر وبے مثال ،انتہائے کمال کی رسالت کو آخری قراردیاہے۔یہ فضیلت وعظمت اورحشمت ورفعت کی ایک پُرکشش ادائے مدحت ہے۔کون خالقِ کائنات کے اسلوب نعت کواختیار کرسکتا ہے۔مدحت نگاروں کوایک راستہ دکھایا ہے کہ نعت کیسے کہی جاتی ہے اور نعت کے مضمون کے لیے گہر ہائے گرانما یہ کیسے منتخب کیے جاتے ہیں۔یہ توکتاب نور کے انوار حقیقت ہیں۔ان کی روشنی میں شعرائے نعت نے اپنا کلام پُرانوار بناناہے اورحقیقیِ قرآن وروحانی مضامین کے پھولوں کوسجانا ہے۔

نہ تھا کوئی تجھ سا نہ ہے اور نہ ہوگا

ہے شاہد تری خاتم المرسلینی

(اثرلدھیانوی)

وہ صدر آخری تھے رسالت کی بزم کے

کوئی نہ صدربن سکا صدرالعلیٰ کے بعد

(سید فیضی)

توپیامِ آخری ،قرآں کلامِ آخری

اک تتمہ اوراک شرحِ کتاب ِراز ہے

(آغا حشر کاشمیری)

نہ چھیڑ اے محتسب میں ہوں مئے وحدت کامتوالا

میں وہ مے خوار ہوںجس کے ہیں ختم المرسلیں ساقی

(خواجہ عزیز الحسن مجذوب)

شب ور وز مشغولِ صلّی علیٰ ہوں

میں وہ چاکرِ خاتم الانبیا ہوں

(سردارعبدالرب نشتر)

ہیں حَکَم اوراختتام ان پرنبوت کاہوا

میں بھی پڑھتاہوں درودان پر پڑھیں سب امتی

(راجا رشید محمود)

ختم رسل کے بعد پیمٔبر غلط غلط

نازل ہواب کتاب کسی پرغلط غلط

(امین گیلانی)

جس پر ہوئی ہے ختم نبوت وہ تاجدار

جس زوایے سے دیکھیے ہے نورکردکار

(مسعود رضا خاکی)

قرآن حکیم ام الکتاب ہے اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جوازل سے ابد تک کے افکار وعلوم اورپوشیدہ علوم، انوار علم وآگہی کاگلستان ہے جس میں ہرموضوع کے پھول مہکتے ہیں ادب کے غنچے بھی چٹکتے ہیں اسلوب وانداز بیان،فصاحت وبلاغت اورتشبیہات واستعارات کے خیابان بھی چمکتے ہیں۔یہی نہیں تخلیق کائنات کی غرض وغایت ،تخلیق بنی نوع انسان کی مقصدیت انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی اہمیت اورخصوصاً خام النبین کے اسوۂ سیرت کی اجتماعیت کی آفاقیت کے تذکار کی حکمت قرآن حکیم کی تعلیمات میں درخشاں ہے۔

عالمی علوم نے گذشتہ چودہ صدیوں سے مسلسل اپنے ذخیرۂ ادب کواس کتابِ نور کے بحربیکراں سے لؤ لؤ لا لا چن کر زرخیز بنایاہے بلکہ اس کے انوارِروحانی واخلاقی سے مستفید ہوئے ہیں۔کیا مفکر ، کیا سائنسدان،کیا عوام وحکمران،کیا ادیب وشاعر اورعلوم لدنی کے خطیب وترجمان سب کتاب حکمت کے انوار ومحاکات اورکمالات ونادرات سے اپنے فنی،ادبی،فکری اور اجتہادی زاویوں کو ضیا بار کرتے رہے ہیں۔

عربی،فارسی،اردو،انگریزی،پنجابی،سرائیکی بلکہ دنیا کی تمام زبانوں کی ادبیات پرتعلیمات قرآن حکیم کے اثرات مرتسمدکھائی دیتے ہیں۔اپنے موضوع مقالہ کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن حکیم نعتِ محبوب ربّ العزت،ختم دورِرسالت اور غنچۂ رازمدحت کابنیادی نکتہ اوراساسی ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستیدہہادی دواں،فخرِ صادقاں کی خود نعت کہی ہے ۔ آپ کے انوارعظمت وبرکات اور اوصاف درجات کی تجلیات سے گلشن کومہکایا ہے اوراپنے حسن اداسے جگمگایا ہے۔صنف نعت کی ضیاؤں سے منور ہرشاعر ،ہرقلمکار اورفن کارقرآن حکیم کی حکمتوں کاخوشہ چین ہے۔انوارِبیاناتِ ربّ قدیر سے،اپنے جذبات واحساسات اورخیالات روشن کرتا ہے۔کتاب نعت کامنبع ومصدر قرآن حکیم ہے۔حافظ فقیریہی اعلان کرتے ہیں۔

اس فصاحت کا نہیںعالم امکاں میں وجود

جس کوحاصل نہ ہو تائیدِ کتاب محکم

(حافظ فضل فقیر)

نعتیہ کلام سے بہت سی شہادتیں ملتی ہیںکہ نعت کہنے والے شاعر بحرِ قرآن حکیم میں غوطہ زن ہوکراپنے افکار وخیالات کے لیے مدحت سے گہرہائے گرانما یہ حاصل کرتے ہیں۔

لوح بھی توقلم بھی توتیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

(علامہ اقبال)

کس کی طاقت ہے کہ مدحت میں زباں کھول سکے

جب خدا خودہی ہوقرآں میں ثناخواں ان کا

(امیر مینائی)

گفتگو یاد کریں کھول کے قرآن حکیم

پھر انہیں لفظ ومعانی کاسمندر لکھیں

(صبیح رحمانی)

سنانے کے لیے آیاتِ قرآں اہل عالم کو

رسول ہاشمی سے خوشنواکی آمد آمدہے

(حفیظ تائب)

شایان نعت ہے توہے اسلوبِ کبریا

معیار بس حقیقتاً قرآں ہے نعت کا

(راجا رشید محمود)

صنف نعت کے حسن اسلوب میں زیب وزینت کا حقیقی رنگ انوار قرآن سے ابھرتا ہے۔ ہرقاری محسوس کیے بغیر نہیں رہتاکہ آسمانی نعت پُرانوارِ قرآن کی پھیلی ہوئی کہکشاں کس قدر زرنگار،ضوباراورپُربہار ہے۔اردونعتیہ کلام میں آیات ِقرآں رطب اللسان ہیں ۔حسن ِانداز بیاں، جمال گفتگوئے ذیشاں اورجلال علم وعرفاں کی ادائیں ضوفشاں ہیں۔لوازمات نعت کے لیے انوار قرآں کاشمار کرنا عقلِ انساں کے لیے محال ہے۔

اس مقالہ کی تحقیقی ،فکری اورتحریری کاوش پرغور کرتاہوں تواپنے آپ کو قوتِ اظہار میں نادار پاتاہوں۔تحقیقی لحاظ سے بھی تفکر وتدبر قرآن حکیم کی طاقت کو کمزور وناتواں سمجھتاہوں۔پھر بھی خیالات کو صفحۂ قرطاس پرلانے کی سعی کوعطیۂ ربانی تصور کرتاہوں۔اس مقالہ میں جواظہار محکمات ہیں وہ انعاماتِ خداوندی ہیں اورجو تحقیقی کمزوریاں ہیں وہ راقم کی کم علمی کی دشواریاںہیں۔جہاں تک موضوع کے لحاظ سے انتخاب اشعار کامعاملہ ہے تونعتیہ کلام کی کثرت ،کتب ہائے مدحت کی بہتات میں چمکتے دمکتے انوارقرآن سے حصول فیض کی رکاوٹیں بھی شامل رہیں۔بہرکیف مقالہ حاضر کرنے کی جسارت کرتاہوں۔