اردو نعت اور جدید اسالیب از عزیز احسن ۔ پروفیسر اکرم رضا

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : اکرم رضا، پروفیسر

اردو نعت اور جدید اسالیب از عزیز احسن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عزیز احسن کا شمار اُردو ادب کے معروف نعت گو شعرا اور ادیبوں۔ مزید کہ آپ ایک نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ میں ان کے مضمون ہمارا ذریعۂ تعارف بنے ہیں اور اس غائبانہ تعارف نے ہمیں بتلادیا کہ ان جیسی عدیم الفرصت شخصیت سے لکھوانے والا کوئی اورہے جس کا قبضہ ہم سمیت معلوم نہیں کس کس پر چلتا ہے۔ زیر نظر کتاب فضلی سنز کراچی کے زیر اہتمام ۱۹۹۸ء میں اشاعت پزیر ہوئی۔ ۱۸۴ صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ابتدائیہ خودہی تحریر کیا۔ لکھتے ہیں:

نعت کا ذوقِ تخلیق جس قدر بھی بڑھ جائے اس میدان میں نقادوں کی کمی بہرحال محسوس کی جاتی رہے گی۔ابھی نعت کے نئے افق تلاش کرنے ہیں اور اس صنف کو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے شایانِ شان بنانے کے لیے آفاقی بناناہے اوریہ کام ناقدین کرام کی توجہ کے بغیرممکن نہیں۔ (ص۷)

پھر اپنے ذوق و شوق نعت کی وضاحت یوں کرتے ہیں:


میں بچپن ہی سے نعتیہ شاعری پڑھ رہا ہوں لیکن اس راہ کی دشواریوں کا احساس مجھے بہت بعد میں ہوا۔ اب میراتنقیدی شعور ذرا سا بیدار ہوا ہے تو میں نعت کے مافیہ اور اسلوب کے معاملے میں بہت حساس ہوگیا ہوں اور اقبال کی زبان میں اللہ ربّ العزت سے دعا کررہا ہوں کہ : مرا نورِبصیرت عام کردے۔(ص۷)


اس کتاب کے ۱۳ ابواب باندھے گئے ہیں جن میں ابتدائیہ بھی شامل ہے۔ ان ابواب میں ان کے وہ مضامین بھی شامل ہیں جو انھوںنے نعت گو شعرا پر لکھے۔ حقیقتاً یہ بہت خوب صورت عمل ہے۔ اس سے جہاں محقق کے ذوقِ تحقیق کا اندازہ ہوتا ہے وہاں جن شخصیت کے بارے میں مضامین لکھے گئے اُن کے ادبی قدوقامت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

دوسرے مضمون کا نام ’’نعت کے علمی ادبی افق‘‘ ہے۔ اس میں بھی انھوںنے نعت کی عظمت و فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ نعت کا سب سے بڑا مآخذ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ ہیں۔ قرآن پاک یا احادیث مقدسہ ان سب کا مرکز فقط ذاتِ محمدﷺ ہے۔ حضورﷺ سے محبت کی کاملیت نے ہی ہمیں نعت کہنا سکھایا۔ انھوںنے ناظرین تک یہ حقیقت پہنچائی ہے ہمیں دامانِ رسولﷺ سے وابستہ ہوکر بخشش کی آزرو کرنی چاہیے۔ ساتھ ساتھ عزیزاحسن نعت کا تذکرہ بھی کرتے گئے ہیں۔ انھوںنے اس مضمون میں قرآن و احادیث، بزرگانِ دین اور شعرا کے اقوال سے مثالیں دی ہیں۔ انھوںنے یہ بھی بتلایا کہ حضورﷺ سے کس طرح خطاب کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں عزیز احسن کی فکر ملاحظہ کیجیے:

نعتیہ شاعری جس قدر مشکل ہے اسی قدر جذبۂ محبت رسولﷺ کے اظہار میں عامیوں کے دخل نے اس موضوع کو اپنے مرتبے پر نہیں رہنے دیا۔ نوبت باایں جار سیّد کہ صرف نعت گو شاعر ہونا استعدادِ علمی کی کمی بالفاظ دیگر استنادِ علمی سے دوری کی دلیل ٹھہرتا ہے حالاںکہ نعت گوئی کا شرف حاصل ہو جانا خود لائقِ صد افتخار ہے۔(ص۲۰)


کتاب کا اگلا مضمون شعر کے فنی لوازمات ہے۔ ان کا کہناہے کہ قدیم دور کے شعرا حضورﷺ کے مقام و مرتبہ کی عظمت کو دیکھ کر ڈرتے تھے کہ گستاخی نہ ہو جائے جب کہ آج کل شعرا کی تعدادمیں دن بدن اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر کا کلام عشقِ رسولﷺ کی جھلک تو دکھاتاہے مگر بیش تر شعرا کی نعتیہ شاعری میں محنت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اسی مضمون میں آگے جل کر عزیز احسن شعر کی تعریف کرتے ہیں کہ شعر حسیاتی صداقتوں کا لفظی اظہار ہے اس لیے اس اظہار میں لطافت کا ایک خاص معیار ہونا چاہیے۔ پھر عزیز احسن مختلف نقادوں کی آرا دیتے ہیں۔ اس میں انھوںنے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی نقادوں کے حوالے بھی دیے ہیں۔ شعری حوالے اپنی جگہ خوب صورت لگتے ہیں۔ اس مضمون میں عزیزاحسن نے ابتدا میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور ناقدین کی طویل فہرست ہے جسے وہ جتنا چاہتے بڑھا سکتے تھے۔


عزیز احسن کا اگلا مضمون ہے’’ اُردو نعت اور شاعرانہ رویہ‘‘ وہ کہتے ہیں۔


کسی خیال کو نظم کرنا ایک محنت طلب امر ہے لیکن خالی نظم کردینا اس بات کی ضمانت قطعی نہیں ہے کہ اس عمل سے جو نظم وجود میں آئی ہے اس میں شاعرانہ اپیل بھی ہو شاعرانہ اپیل شاعرانہ رویئے کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ (ص۳۴)


ان کا کہنا ہے کہ شاعری میں آفاقی کشش پیدا کرنے کے لیے بلا لحاظ موضوع شعر کو شعر بنانا ہوگا ۔ ایسی شاعری جو نعت کے بھی جملہ تقاضے پورے کرتی ہو اور شاعرانہ اپیل بھی رکھتی ہو اُردو میں بہت کم ہوئی ہے۔ عصر حاضرمیں چوںکہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے کام ہورہا ہے اس لیے اچھی نعتیہ شاعری کے کچھ نمونے سامنے آئے ہیں۔ انھوںنے غالب اور دوسرے شاعروں کے بعض اشعار کو نعتیہ اشعار کس قدر سادگی سے کہا کہ شاعر توکہے نہیں نہیں ہر گز نہیں! اور عزیز احسن کہیں ضرور ضرور ہاں ہاں بالضرور!


پانچویں مضمون کا عنوان اُردو نعت میں آفاقی قدروں کی تلاش ہے۔ یہ مضمون عزیز احسن کے دوسرے مضامین سے زیادہ اور حسبِ سابق نعت کے اعزاز اور وقار کو لیے ہوئے ہے۔ نعت کی بات پر تو کہیں جملے بلکہ پیراگراف بھی آپس میں ٹکرا جاتے ہیں عزیز احسن ہوں یا میں یا ابوالخیر کشفی جب ممدوح ایک ہے۔ صنف نعت ایک ہے۔ جب جذبے احساسات ایک ہیں تو پھر خیالات کی یکسانیت بھی آجاتی ہے۔ عزیز احسن نے اس خوب صورت مقالہ میں واضح کیا کہ نعت کو مخصوص مضامین کے خلوت کدہ سے نکال کر بلند ترین معیار کے دربار عالی میں جگہ دینی چاہیے۔ نعت ایک بہت بڑی صنف ہے اس لیے اس میں کیا کچھ نہیں کہا جاسکتا مقالہ نگار نے مثالیں بھی دیں اور کہا ہے کہ نعت کے مضامین کو ہنگامی اور وقتی سطح سے بلند کر کے حسن دوام کا مرکز بنانا چاہیے ۔


مضمون ’’نعت اور شعریت‘‘ ہے۔ اس میں مصنف کا کہنا ہے کہ نعت ایک روحانی جذبے کا نام ہے یہ کیف ہے ، سرور ہے اس میں سلاست کی روانی ہے اور اچھی خطابت کے جوہر بھی ہیں مصنف نے یہ اشعار رحمن کیانی کے حوالے کیے۔ عبدالعزیز خالد، راجا رشید محمود، رحمن کیانی، سلیم گیلانی ، حافظ لدھیانوی، جعفر بلوچ اور عابدہ نظامی کے کلام کے ایسے نمونے دیے ہیں جو شعریت کے حوالے سے اپنا حسن منوا رہے ہیں۔ جب کہ عزیز احسن کے اپنے کلام میں شعریت ہے۔ ان کی نثرنگاری میں کئی پیراگراف ایسے آجاتے ہیں جنھیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ شعریت نہیں ہے تو کیا ہے؟


اگلا عنوان ’’اُردو نعت اور جدید اسالیب‘‘ ہے جسے مصنف نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ ایک طویل مقالہ ہے اور کتاب کا عنوان بھی ہے، حصہ اوّل میں انھوںنے عشق و سرمستی سے اپنی بات کو آگے بڑھایا ہے۔ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے مثال شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے قارئین کو جدید اسالیب نعت اپنانے کی تلقین کی ہے۔ عزیز احسن نے عصر حاضر کے ممتاز و معروف شعرا کے حوالے دیے ہیں۔ انھوںنے بتایا ہے کہ خیال رکھا جائے کہ کون سی بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شایان شان ہے اور کون سا شعرباعث تنقیص بنتا ہے۔ اس مضمون کے پہلے حصے کا نام اول ہے جب دوسرا حصہ دوم کے نام سے شامل کتاب ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ قدیم نعت کے موضوعات حضورﷺ جمال صوری سے توانائی پاکر متعین کیے جاتے تھے۔ عہدِ حاضر مسلمانوں پر ابتلا کا دور ہے ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت حسنہ اور کردار کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمارے آقا و مولاﷺ سے بڑا انقلاب کسی اور پیغمبر یا مصلح نے پیدا نہیں کیا اس لیے ہمیں بھی آپ کے شایانِ شان شاعری کرنے کے لیے اپنی نعتیہ شاعری کے تصورات کو بلند کرنا چاہیے۔ مصنف نے بڑی تعداد میں مثالیں دے کر آج کے شعرا کی نعت کے ذکر و فکر کو بلند تر کرنے کی تلقین کی ہے۔ اس میں انھوںنے تمام اصنافِ سخن سے مثالیں پیش کی ہیں کہ ہر صنفِ سخن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے تخلیق ہوئی لہذا ہمیں بھی جذبات اور خیالات کی بلندی کو خضرِ راہ بنانا چاہیے۔


آگے کے پانچ مضامین شخصیاتی ہیں عاصی کرنالی، صبیح رحمانی، قمر وارثی، نسیم سحر اور جاذب قریشی کے فکر و فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں مصنف کے ان شخصیات کے حوالے سے اقتباسات پیش کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی کے متعلق لکھتے ہیں:

عاصی کرنالی موضوع کے بھرپو رادراک کے ساتھ شاعری کرتے ہیں۔ اسلوب اظہار میں اعلیٰ سنجیدگی کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کی شاعرانہ مشق اس حد تک ہے کہ وہ جس بات کو جس انداز سے کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں ۔ عاصی کی شاعری میں استعاروں ، تشبہیوں اور علامتوں کا ایچ پیچ بھی نہیں ہوتا۔ وہ مروّجہ بلکہ خاصی حد تک کلاسیکی مزاج کی شاعری کرتے ہیں۔ لیکن اپنے انداز نگارش سے بات میں ندرت کے پہلو پیدا کردیتے ہیں۔ (ص۱۴۷)

سیّد صبیح رحمانی ایک زمانے کے محسن ہیں کہ انھوں نے ناقدین نعت کو ایک مقام پر اکٹھا کردیا صبیح کی شاعری میں ترنم ہے، غنائیت ہے، موسیقیت ہے، دلآویزی اور فکری رعنائی ہے۔ کم لکھتے ہیں مگر بہت خوب لکھتے ہیں اور خوب تر پڑھتے ہیں۔ عزیز احسن کا کہنا ہے:

صبیح رحمانی کے شعری آہنگ میں غم ذات بھی جھلک رہا ہے اور غمِ کائنات بھی۔ اپنے عہد کا آشوب بھی نمایاں ہے اور جدید حسیت کا عکس بھی۔ شعریت بھی ہے اور مدحتِ رسولﷺ کے تقدس کا احساس بھی جلوہ گر ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر مصرعے سے شاعر کا خلوص بھی ٹپکتا ہے اور اس کا احساس تشکر بھی کیوںکہ وہ شہر نعت گویاں میں اپنی فتوحات کو اپنی ذات سے منسوب نہیں کرتا برملا اظہار کرتا ہے: میرا دیوان ہے ان کی عطا اول سے آخر تک (ص ۱۵۹)


قمر وارثی ان شعرا میں ہیں جو شاعری کے لوازمات سے بھی اتنے ہی آگاہ ہیں جتنے موضوع کی نزاکتوں کے عارف ہیں۔ ان کی شاعری بہرحال اُردو نعت کی ثروت ہیں اضافے کا باعث ہے۔(ص۱۷۵)


ایک تنقیدی مضمون جاذب قریشی کے بارے میں ہے۔ عزیز احسن ان کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:


اس وقت جاذب قریشی کی نعتیہ شاعری کے محدود نمونے میرے سامنے ہیں۔ کاش جاذب کا قلم حمدو نعت کی سمت مسلسل چلتا رہے ۔ میں یہ تمنا اس احساس کی بنا پر کررہا ہوں کہ مذہبی شاعری کو جس لہجے کے حوالے سے اور جس اسلوب کے ساتھ جدیدادب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے ، جاذب اسی لہجے میں اور اسی اسلوب میں بات کررہے ہیں وہ عصری ادبی رجحانات میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی گہرا شعوررکھتے ہیں۔(ص۱۸۳)


ہماری دعا ہے کہ عزیز احسن کا قلم زندگی کی حیات پرور ساعتوں میں یوںہی تنقید و تحقیق کے جواہر تراشتا رہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زبان و بیان آداب ِ نعت
نعت خواں اور نعت خوانی نعت گو شعراء اور نعت گوئی
شخصیات اور انٹرویوز معروف شعراء