"اردو" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو1، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں "نکھار" پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" کہا گیا اور اسی کو بعد میں "زبانِ اردوئے معلیٰ"، "زبانِ اردو" اور بالآخر "اردو" کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہنچائی جو کھڑی بولی کی طرح(ا) یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہو جاتے ہیں۔
اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو1، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں "نکھار" پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" کہا گیا اور اسی کو بعد میں "زبانِ اردوئے معلیٰ"، "زبانِ اردو" اور بالآخر "اردو" کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہنچائی جو کھڑی بولی کی طرح(ا) یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہو جاتے ہیں۔


یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولاً محض ایک "بولی"(Dialect) ہوتی ہے جس کا دائرۂ اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو "زبان" کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیار بندی (Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کُنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیا۔
یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولاً محض ایک "بولی"(Dialect) ہوتی ہے جس کا دائرۂ اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو "زبان" کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیار بندی (Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کُنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیا۔<ref>  مآخذ: مرزا خلیل احمد بیگ ، اطلاقی لسانیات </ref>
</blockquote> <ref>  مآخذ: مرزا خلیل احمد بیگ ، اطلاقی لسانیات </ref>
</blockquote>  





نسخہ بمطابق 06:05، 17 ستمبر 2017ء

اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو1، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں "نکھار" پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" کہا گیا اور اسی کو بعد میں "زبانِ اردوئے معلیٰ"، "زبانِ اردو" اور بالآخر "اردو" کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہنچائی جو کھڑی بولی کی طرح(ا) یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولاً محض ایک "بولی"(Dialect) ہوتی ہے جس کا دائرۂ اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو "زبان" کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیار بندی (Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کُنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیا۔<ref> مآخذ: مرزا خلیل احمد بیگ ، اطلاقی لسانیات </ref>


مزید دیکھیے

اردو | انگریزی | پنجابی | سرائیکی | عربی | فارسی |

حواشی و حوالہ جات