آزاد نظم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


ایسی نظم جو کسی روایتی شعری ہیئت کی پابند ی نہیں کرتی اس میں مقررہ تعداد میں مصرعوں کے بند نہیں ہوتے لیکن بحر و وزن کی اتنی پابندی ضرور ہوتی ہے کہ کسی وزن کا کوئی رکن منتخب کر کے اس کی تکرار کی جائے اس نظم میں مصرعے کا روایتی تصور مفقود ہونے کے سبب سطر (یا سطروں ) کو معیار مانا جاتا ہے سطریں بالعموم چھوٹی بڑی ہو تی ہیں جن کی طوالت کا انحصار خیال کی وسعت پر ہوتا ہے ویسے حقیقی آزاد نظم کا تصور محال ہے جو کسی فنی پابندی کو قبول نہیں کرتی۔ آزاد نظم مغربی شاعری کی دین ہے جس کے ابتدائی آثار بائبل میں شامل ’’نغماتِ سلیمان‘‘ اور زبور کے انگریزی تراجم میں ملتے ہیں۔ فرانسیسی شعرا نے انیسویں اور انگریزی شعرا نے بیسویں صدی میں اسے شعری اظہار کے لیے اپنایا۔ بادلئیرؔ ، والٹ وھٹمنؔ ، ہاپکنزؔ ، ایلیٹؔ ، لارنسؔ اور بہت سے مغربی شعرا نے اسے خوب ترقی دی۔ اردو میں آزاد نظم انھیں کی تقلید میں کہی گئی۔ راشدؔ ، میراجیؔ ، فیضؔ اور اخترالایمانؔ اردو آزاد نظم سے منسوب اہم نام مانے جاتے ہیں۔ جدید شاعری کا بڑا حصہ اسی میں تخلیق کیا گیا ہے اور چھوٹے بڑے ہر جدید شاعر کے یہاں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ آزاد نظم لکھنا پابند نظم لکھنے سے زیادہ دشوار ہے۔ <REF> ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی کے مضمون سے ماخذ </REF>

آزاد نظم کی صورت میں حمیدہ شاہین کی ایک حمد

اسی اک ذات سے پایا یے سب کچھ

اگر وہ روشنی مجھ کو نہ دیتا

تو میں گہرے اندھیروں میں گِھری تنہا کھڑی تھی

میں اک بھٹکے مسافر سے زیادہ کچھ نہ ہوتی

اگر وہ تھام کے رکھتا نہ مجھ کو

مسلسل لڑکھڑاتی،اور گرتی

میں خاکِ پا بنی روندی پڑی ہوتی کہیں پر

اگر وہ راہبر میرا نہ بنتا

نجانے کون سی راہوں میں،کن کانٹوں پہ چلتی

وہ میرے دل کا رکھوالا نہ بنتا

تو میں غم کے سمندر میں شکستہ ںاؤ ہوتی

وہ اپنا نور آنکھوں کو نہ دیتا

تو میری ہر نظر پر آنسوؤں کی دھند ہوتی

نہ کرتا وہ سماعت کی حفاظت

تو اس ننھے سے دل کو

نکیلی برچھیوں جیسی صدائیں کاٹ دیتیں

وہ میرے خون میں سرخی نہ بنتا

تو مجھ پر گہری پیلاھٹ کا موسم آ گیا تھا

وہ ہریالی نہ بنتا

تو میں اپنے شجر سے ٹوٹ کے تیکھی ہوا کی زد میں ہوتی

نجانے کس نگر جا کر بکھرتی

مجھے شادابیاں دے کر ثمر آور کیا ہے

جڑوں پر جم کے میں اس کی عنایت سے کھڑی ہوںا

اسی نے خشک سالی میں مجھے سیراب رکھا

محبت کے تسلسل سے مجھے شاداب رکھا


مزید دیکھیں

نظم | آزاد نظم | نظم معری | غزل | قصیدہ | قطعہ | رباعی | مثنوی | مرثیہ | دوہا | ماہیا | کہہ مکرنی | لوری | گیت | سہرا | کافی | ترائیلے | سانیٹ | ہائیکو |

حواشی و حوالہ جات