"سراج اورنگ آبادی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(سراج اورنگ آبادی)
 
(تمام مندرجات حذف)
 
سطر 1: سطر 1:
'''سراج اورنگ آبادی'''
 
سید سراج الدین نام مگر سراج اورنگ زیب آبادی کے نام سے دنیائے شعر میں معروف ہو ئے ۔ کلیات سراج کے مرتب پروفیسر عبدالقادر سروری کے بمو جب ان کے احوال کے بارے میں کوئی بہت زیادہ مستند کوائف نہیں ملتے ۔ اورنگ آباد میں 1715ءکی پیدائش اور 1763ءشوال 1177ھ وفات کی تاریخ بیان کی جا تی ہے۔
تخلیقی اظہا ر کے لئے جہاں ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوا وہاں اسلوب کے جمالیاتی اوصاف میں بھی نکھار پیدا ہوا، جس کا اندازہ وجہی غواصی ، ابن نشاطی اور نصرتی کے شاعرانہ اسلوب کے تجرباتی مطالعہ سے ہو جاتا ہے۔ اور پھر ان سب کے بعد سراج اورنگ آبادی کی شاعری ہے پیش رو شعراءکے مقابلہ میں جس کا اسلوب کا رنگ چوکھا ہو تا نظر آتا ہے۔ دکنی زبان نے دو سو برس کے تخلیقی سفر میں آہستہ آہستہ ہندی پن ترک کیا۔ مقامی بولیوں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ مقامی محاورات اور ضرب الامثال سے صرف نظر کیا اور فارسی کے مناسب الفاظ کے استعمال سے زبان کے حسن اور خوبی میں اضافہ کیا چنانچہ محمد قلی قطب شاہ کے مطالعہ میں ناموس زبان جس طرح رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ سراج اورنگ آبادی کے مطالعہ میں بالعمول ایسا نہیں ہو تا ۔ سراج کہتے ہیں ۔
کب تلک طرز جفا مری فریاد سن
بسمل تیغ جفا کی کان دھر روداد سن
یہ مفرس اسلوب اور اضافتیں غالب کی یاد دلا تی ہیں حالا نکہ یہ اس سے ڈیڑھ دو صدیوں قبل اسلوب ہے۔ دیکھا جائے تو سراج اورنگ آبادی بلحاظ شاعرانہ اسلوب جنوبی ہند اور شمالی ہند کے درمیان عبوری دور کے شاعر قرار پا تے ہیں۔ ان کی زبان مفرس ہو رہی تھی مگت اتنی نہیں جتنی دہلی کے شعرا ءلے ہاتھوں ہوئی۔ ہندی پن بھی ختم ہو رہا تھا مگر بتدریج سراج کا ایک مذہبی گھرانے سے تعلق تھا والد سید درویش کٹر مذہبی انسان تھے ، ادھر بارہ تیرہ برس کا بیٹا عالم جذب و مستی میں تن من کی سدھ کھو بیٹھا تھا بقول مرتب کلیات :
” انہیں اپنے لخت جگر کو تا دیب کی خاطر پا بہ زنجیر کرتے بھی پس و پیش نہ ہوتا تھا۔ “
اس عالم جذب و کیف میں ان کے منہ سے خود بخود فارسی میںکلام موزوں خارج ہو تا تھا۔ عالم جذب سات برس تک رہا ۔ جب اردو اشعار کہے تو قلیل عرصہ میں دیوان کیا۔ پوری کلیات مرتب ہو گیا ۔ 1739ءمیں غزلیات دیوان کا مرتب ہو گیا مگر مرشد شاہ عبدالرحمن چشتی نے شعر گوئی سے منع کر دیا۔ بقیہ عمر روحانی کیفیات میں بسر کی۔ اپنی وفات تک ایک نادر صوفی کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔اشعار کے علاوہ انہوں نے فارسی اساتذہ کے کلام کا انتخاب بھی کیا۔ منتخب دیو انہا (1755ئ) کے نام سے۔ اس کے دیباچہ میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے اسی لئے اب یہ ان احوال کے لئے ایک اہم حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
ان کی کلیات خاصی ضخیم ہے اور اس میں مثنوی ، غزل ، رباعی ، قصیدہ ، مخمسات، ترجیح بند ، مستز اد سب کچھ ملتا ہے۔ عبدالقادر سروردی کی مرتبہ کلیات (حیدرآباد دکن 1940ئ) تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ 1982ءمیں دہلی سے اس کا نیا ایڈیشن طبع ہوا۔ اگر مرشد کے کہنے پر شعر گوئی ترک نہ کی ہو تی اور عمر اس شغل میں بسر کی ہو تی تو اشعار کی تعداد کے لحاظ سے میر تقی میر کا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن اتنا ہے کہ اردو شاعری کو ایک زندہ شعر دے گئے۔
خبر تحیر عشق سن نہ جنون رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ایسا شعر صرف وہی شاعر لکھ سکتا ہے جو ” بے خبری “ کی روحانی واردات کا رمز آشنا ہو، یہ بات برائے بیت نہیں مزید اشعار پیش ہیں۔
تجھ قبا پر ہے نرگسی بوٹا
گویا نرگس کا پھول ابھی ٹوٹا
گر آرزو ہے تجھ کوں تالاب کا تماشا
کشتی میں چشم کی آ دیکھ آب کا تماشا
اس پھول سے چہرے کوں جو کوئی یاد کرے گا
ہرآن میں سو سو چمن ایجاد کرے گا
نہ جنگل میں تسکین دل ہے میسر
نہ دریا کوں دیکھے خوشی جی کوں حاصل
میری آہ سوزاں واشک رواں میں
ہے خشکی کا سیر اور ندی کا تماشا
کبھی جو آہ کے مصرعے کوں یاد کرتا ہوں
خیال قد کو ترے مستزاد کرتا ہوں

حالیہ نسخہ بمطابق 06:27، 13 ستمبر 2019ء