تحقیقِ نعت۔ صورت حال اور تقاضے ،- ڈاکٹر معین الدین عقیل

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 14:05، 4 جولائی 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


ڈاکٹر معین الدین عقیل۔کراچی


Dr. Moin-ud-din Aqeel has shared his experience of going through some research works and emphasised upon need of hard work in the field of research of Naatia Literature. He has aptly pointed out lacunae's in research works on Personalities due to restraints i.e. charisma of personalities and sacred circles around them which does not allow to narrate facts but inspires to paint personalities and their works, superfluously. Dr. Aqeel has emphasised to take research works on general topics of permanent values and hinted some works that were done in this field. The article contains thoughts to ponder in order to make research work useful and sustain worthy.

تحقیق ِ نعت : صورت ِ حال اور تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اصنافِ ادب، بالخصوص اردو زبان کی اصناف ادب میں،نعت گوئی یا نعت نگاری اگرچہ قدیم صنفِ سخن ہے اور اس کا قدرے ارتقا بھی تاریخِ ادب کے تقریباً ہر دور میں کسی نہ کسی اعتبار سے، قابلِ لحاظ رہاہے، لیکن اس کا فروغ گزشتہ چند دہائیوں میں زیادہ دیکھنے میں آیاہے۔مختلف اسباب کے ساتھ ساتھ،جو دینی سے قطع نظر معاشرتی بھی ہیں،میرے حیطۂِ مطالعہ کی حد تک، یہ حالیہ فروغ کچھ صبیح رحمانی کے مجلے ’’نعت رنگ‘‘ کے باعث بھی ہے جس میں اس کے مشمولات کے تنوع اورمعیار کی کشش کے علاوہ اس کی طباعتی جاذبیت اور دل کشی بھی شامل ہے۔میں شاید نعت کے موضوع پر کبھی کچھ نہ لکھتا لیکن اس مجلے کی جاذبیت اور صبیح رحمانی کی تحریک وترغیب نے مجھے گاہے لکھنے پر آمادہ کیاہے ۔شاید ایسے ہی اسباب ہیں کہ جن کے طفیل نعت کی تخلیق ہی نہیں اس کے ہمہ جہت مطالعے اور تحقیق و تنقیدکا رجحان بھی عام ہواہے اور مبسوط و مختصر ہر طرح کے مطالعات و تحقیقات کو گزشتہ دو چار دہائیوں میں خاصا حوصلہ افزا فروغ ملاہے اور یہ سلسلہ مزید وسعت اختیار کررہاہے۔

مطالعے کی ایک صورت تو وہ ہے جو مضامین اور مفصل مقالات کی صورت میں ذاتی شوق و دل چسپی کے نتیجے میں سامنے آتی رہی ہے اور دوسری صورت اس کے مبسوط اور تحقیقی مطالعات کا عمل ہے جو جامع اور مفصل تحقیقی مقالات کے طور پر صرف کتابوں اور رسائل ہی میں نہیں جامعات کے سندی مقالات برائے ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقصد سے لکھے جارہے ہیں۔ان سندی مقالات کے لکھے جانے کی وجہ سے کزشتہ سات آٹھ دہائیوں میں تحقیقات نے خاصا فروغ پایا ہے اور مطالعات وتحقیقات کا ایک عمومی رجحان عام ہوا ہے، جو ہر اعتبار سے مستحسن ہے۔ اگرچہ اس بنا پراسناد کے حصول کی دوڑ بھی شروع ہوئی ہے جو سرسری، سطحی، اورغیر معیاری مقالات پر اسناد حاصل کرنے کی ناروااور غیر اخلاقی و غیر قانونی کوششوں کا باعث بھی بنی ہے، لیکن اسی تسلسل میں معیاری اور اہم موضوعات پر تحقیقات و مطالعات بھی سامنے آئے ہیں۔اس نوعیت اور اس سطح کے مقالات کی روایت میں نعت اور اس کے متعلقہ موضوعات و عنوانات نے بھی توجہ حاصل کی ہے اور یہ سلسلہ روزافزوں ہے۔

یہاں یہ امر ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ مطالعہ و تحقیق اپنے کسی مقصد کے تابع ہوتے ہیں۔دنیابھر کے سارے موضوعات، بشمول نعت پرتحقیق اگر حصولِ سند کے مقصد سے انجام دی جائے تو یہ مقصد بڑی حد تک مادی فوائد کا حصول ہوسکتاہے۔جب کہ نعت کے ساتھ عقیدہ و مسلک اور جذبہ و تقدس بھی منسلک ہیں۔اس حوالے سے نعت کی تخلیق اور اس کا مطالعہ جذبے و عقیدت کا ایک مظہر تو ہے لیکن اگر مطالعہ سندی نوعیت کا ہے تووہ مادی مقصد کے حصول سے مبرا نہیں۔ہاں یہ اضافی فیض پیش نظر ہوسکتاہے کہ جب سندی مقالہ لکھنا ہی ہے تو وہ نعت پر کیوں نہ ہو؟یہ امر بہر حال بے حد مستحسن اور بے لوث ہوتاہے کہ کسی مادی مقصد کے بغیر نعت کا مطالعہ اور اس کی تحقیق پیشِ نظر ہو۔لیکن جہاں نعت کا مطالعہ و تحقیق موضوع بنیں وہاں جامعاتی تحقیقات ہی زیادہ نمایاں رہتی ہیں کیوں کہ ایک بڑی تعداد ایسی تحقیقات و مطالعات ہی کی ہے جو جامعات میں حصولِ سند کے مقصد سے انجام دیے جارہے ہیں۔اگرچہ ایک زمانے میں جب جامعاتی تحقیقات کا رواج عام نہ تھا، ذاتی خواہش اور ذوق و شوق اس کا محرک بنتے تھے اور عمدہ تحقیقات منظرِ عام پر آتی تھیں لیکن جامعاتی تحقیقات کے رواج میں آنے کے بعد زیادہ اور منظم تحقیقات جامعات ہی میں انجام پانے لگی ہیں۔لیکن جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے بارے میں یہ کہنا کہ سب ہی معیاری اور مفید ہوتی ہیں، درست نہیں۔یہ مقالہ نگار پر اور کسی حد تک نگرانِ تحقیق پرمنحصر ہوتاہے کہ وہ کس حد تک عمدہ موضوع کا انتخاب کرسکتے ہیں، اور کس قدرلیاقت، جستجو اور محنت و سلیقے سے اپنا کام کرتے ہیں۔

یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جامعات میں صنفِ نعت اور اس کے متعلقات پر ہونے والی تحقیقات اپنی نوعیت اوراپنے موضوعات کے اعتبار سے کس معیار کی حامل ہیں اور اسی مناسبت سے ان کی افادیت اوراہمیت کیاہے؟یہاں نوعیت کی حد تک تو یہ تسلیم ہے کہ یہ مطالعات سب ہی اسناد کے حصول کے لیے کیے گئے ہیں، چاہے ان کا مقصدمادی افادیت کے تابع ہو یا عقیدے و مسلک کے تحت ہو،لیکن ہم انھیں عقیدے و جذبے ہی کے تحت یہاں شمار کریں گے۔کم ہی ایسا نظر آتاہے کہ بہ اعتبارِ ضرورت و اہمیت اور بہ لحاظِ دریافت و انکشاف کسی نے نعت کو اپنے مطالعے یا تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ جامعات میں ہونے والے مطالعات کی ایک فہرست ہمارے پیشِ نظر ہے، جس سے یہ پتاچلتاہے کہ نعت کے کس کس پہلو، یا موضوع اور عنوان کو مطالعات کے لیے منتخب کیا گیاہے یا ترجیح دی گئی ہے؟ان کی افادیت اور اہمیت کس قدر ہے ؟

نعت کے زمرے میں، خصوصاً پی ایچ ڈی کی سطح پر، جو مطالعات انجام دیے گئے ہیں ان میں موضوعات کی اہمیت و افادیت بلکہ علمیت کے لحاظ سے ، جو اس سطح کا عین تقاضہ تھا،کم ہی ایسے کام ہیں جنھیں فکر انگیز ، معلوماتی، سیر حاصل اور جامع کہاجاسکے۔کم ہی ایسے کام ہیں جنھیں اس سطح اور معیار کے مطابق سمجھاجائے۔زیادہ ترجیح شخصی مطالعات یا موضوعات کو دی گئی ہے، جس سے اس عام تاثر کی تصدیق ہوتی ہے کہ شخصیات کے موضوع پر ہونے والے کام شاذ ہی معیاری اور جامع ہوسکتے ہیں۔چوں کہ تحقیق دریافت و انکشاف کا کام ہے اور اس کے لیے خاص جستجو، تلاش و محنت اور عرق ریزی کی ضرورت ہے ، اس لحاظ سے ایسے افراد جو ان تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، مناسب یا ضروری وقت نہیں دے سکتے، ضروری مآخذ اور مصادر کی تلاش و جستجو کا یارا نہیں رکھتے اورنہ ان میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے وہ بالعموم شخصیات کو موضوع بناتے ہیں۔ چاہے موضوعی شخصیت کتنی ہی وقیع اور قد آور ہو ، موضوع کے لحاظ سے محدود ہوتی ہے کہ سارا موضوع اس کے گرد گھومتاہے۔پھر اگر اس شخصیت کا بھی صرف کوئی ایک پہلو یا ایک گوشہ پیشِ نظر رہے، جیسے نعت نگاری، تو موضوع اور بھی محدود ہوجاتاہے۔اس لحاظ سے، تحقیق کے میدان میں اور بحیثیت نگران، اپنے چالیس سالہ تجربے و مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتاہوں کہ جو افراد تلاش و جستجو کی دشوار گزار وادیوں میں سرگرداں نہیں رہنا چاہتے، محنت و مشقت سے گریز چاہتے ہیں ، یا پھر فکری موضوعات پراپنے ذہن کو آزمانے کا یارا نہیں رکھتے یا تحقیق و تجزیے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بالعموم شخصیات کو موضوع بناتے ہیں۔ اس امر کی دوسری مصلحت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی شخصیت کو موضوع اس لیے بھی بنایا جاسکتاہے کہ اس طرح اس کی جانب اپنے عقیدت مندانہ جذبات کا اظہار ہوسکے۔یا اگر وہ شخص زندہ اور معاصر ہو تو اس عمل کا ایک رُخ اس شخص کی خوش نودی اور اس سے مطلب براری بھی ہوسکتاہے۔اس طرح شخصیت پر ہونے والے کام شاذ ہی معیاری ہوتے ہیں۔اس کام میں جذبات حاوی رہتے ہیں اور ایک غیر جانبداری اور بے نیازی کا جو التزام رہنا چاہیے، وہ بالعموم نہیں رہتا۔پھر اگر شخصیت زندہ ہو تو وہ شخصیت نامکمل ہوتی ہے کیوں کہ جس وقت وہ مطالعے یا تحقیق کاموضوع بنی ہے، اس کے بعد بھی تو اسے کچھ کرنا ہے، لکھنا ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد کی اس کی تخلیقات یا سرگرمیوں کا تو اپنے مطالعے یا تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، اس لحاظ سے موضوع نامکمل یا ادھورا ہی کہا جائے گا۔

اب تک دوسو سے زیادہ مقالات، پی ایچ ڈی اور ایم فل دونوں سطحوں پر،ادبی شخصیات کے احوال و آثار پر لکھے جاچکے ہیں،لیکن کتنے ہیں جنھیں ’’مولوی نذیر احمد‘‘ (ازافتخار احمد صدیقی)، ’’رجب علی بیگ سرور‘‘(از نیر مسعود) اور ’’امین الدین علی اعلیٰ‘‘ (از حسینی شاہد)کے معیار کا کہاجاسکے۔یہ شخصیات بھی اپنے اپنے زمرے میں تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور حسنِ اتفاق سے انھیں محققین اور مصنفین بھی ایسے ملے جنھوں نے اس قدر محنت، تلاش وجستجو، اورسلیقے کا ثبوت دیا کہ ایک نظیر پیش کردی کہ شخصیات پر اگر کام کیے جائیں تووہ ایسے ہوں۔(ورنہ کراچی یونیورسٹی میں ۲۰۰۳ میں تو ایک کام ایک زندہ شاعر، کالم نویس اور ایک ادبی ادارے کے ایک عالی مقام منصب دارپر، جن کا ذکر معاصر ادب پر لکھی جانے والی کسی معیاری تاریخ ادب میں شایدکبھی آ نہ آسکے گا، لیکن ان پر ان کی زندگی ہی میں، ان کی خواہش اور ان کے سماجی اثرات کے نتیجے میں، پی ایچ ڈی کا مقالہ ایک ’’فاضل‘‘نگران نے صرف دو ماہ کے عرصے میں لکھوادیا اور ایسے ناجائز طریقے بھی اختیار کیے کہ تمام ضوابط کو پس انداز کرکے سند بھی دلوادی جس کے صلے میں اسی بااثر شخصیت کے زیرِ اثر’’ فاضل‘‘نگران صاحب موضوعِ مذکور کی زیر اثر ایک یونیورسٹی میں ایک اعلیٰ عہدے پر’’سرفراز‘‘ بھی ہوگئے! شخصیات پر ’’تحقیقی‘‘ کاموں کی ایسی داستانیں مزید بھی ہیں۔)

شخصیات پر کام کے ضمن یہاں یہ شاید جذباتیت کی ایک نمائندہ مثال بھی ہے کہ مثلاً مولانا احمد رضا خان کو بحیثیت نعت گوکم از کم آٹھ (۸) افراد نے پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا! اور موضوع قریب قریب سب کا ایک جیسا ہی ہے!مولانا احمد رضاخان اپنی علمی و تصنیفی اور دینی خدمات میں چاہے جتنے بھی پہلو رکھتے ہوں، اور یقیناًً رکھتے ہیں، لیکن ان میں نعت گوئی تو ایک جزوی پہلو ہے۔وہ ایک پہلو کیا اس قدر وسیع و عمیق ہے کہ آٹھ افراد صرف اسی ایک پہلو کو موضوع بنائیں؟ اس تحقیق کا حاصل کیا نکلا؟ کیا کیا نئے نئے نکتے نکلے،جو دیگر نعت گو شعرأ سے یکسر مختلف اور ممتازہیں؟ یہ سب مقالات چھپتے تو ان امور کا جائزہ لیاجاسکتا تھا۔لیکن کم زور مقالات کو کوئی کیوں چھپوانا چاہے گا۔ اس سے کئی طرح کی قلعی بھی تو کُھلنے کا امکان رہتاہے۔

مولانا احمد رضا خان کے معاصرنعت گو شعرا میں محسن کاکوروی اور امیر مینائی ، نعت گوئی سے قطع نظر بھی،نامور اور ممتاز شاعر کی حیثیت میں تاریخ ادب میں اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں۔ان دونوں کی اپنی اپنی دیگر مؤقر ادبی و علمی حیثیتوں کے ساتھ ساتھ نعت نگاری بھی ایسا شعبہ ہے جو بہت نمایاں اور مثالی ہے۔ محض نعت نگاری میں بھی ان دونوں کی حیثیت مولانا احمد رضا خان سے کم نہیں بلکہ فنی و معنوی لحاظ سے شاید زیادہ ہی وقیع ہے اور اسی لیے نصابوں کا لازمی حصہ بھی بنی ہے۔ لیکن ان دونوں بزرگوں پر اس حوالے سے کتنے کام ہوئے ہیں؟صرف دو ،اور وہ بھی انفرادی نہیں مشترکہ ۔ اس جائزے سے یہ ثابت ہے کہ مولانا احمد رضا خان پر ہونے والے مطالعات میں کسی فنی امتیاز سے زیادہ عقیدت و مصلحت کا زیادہ دخل ہے، جو تحقیق کے معیار کے لحاظ سے مستحسن نہیں۔کیوں کہ تحقیق اور مطالعے کے موضوع کو منفرد، اچھوتا اور نکتہ رس ہونا چاہیے کہ اس مطالعے یا تحقیق سے کچھ دریافت و انکشاف ہونا چاہیے، محض سرسری جائزہ یا تنقیدی مطالعہ نہ ہو۔ایک ہی موضوع کے اگر آٹھ مطالعے ہوں گے تو ان میں محض تکرار ہوگی یا وہ ایک دوسرے سے استفادے کی تعریف میں شمار ہوں گے۔

شخصیات ہی کے ضمن میں یہ اعداد و شمار ہمیں اس مذکورہ فہرست سے اخذ ہوتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کی سطح پر کُل ۶۲ موضوعات میں ۱۸ موضوعات شخصی مطالعات پر مبنی ہیں،جن میں آٹھ فقط مولانا احمد رضا خان پر ہوئے ہیں۔دیگر شخصیات میں امیر مینائی ، محسن کاکوروی اور ظفر علی خاں کے علاوہ، جو بحیثیت شاعر اور مصنف معروف و مؤقر نام ہیں، فرید عمادی، علیم صبا نویدی (دو مقالات)، ناوک حمزہ پوری،جمیل الدین شرقی،حافظ لدھیانوی ہیں جو موضوع بنے ہیں۔ان میں ایک دو کے علاوہ سب ہی غیر معروف اور کسی ادبی معیار و وقعت کے حامل نام نہیں۔اگر نعت نگاری کو شخصیت کے ایک جزو کے طور پر مطالعہ کرنا ہو تو ایسے متعدد اہم نام موجود ہیں ، جیسے نیاز بریلوی،جنھیں کسی نے کسی سطح پر مطالعے کے لیے قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔متعدد اکابر شعرا ، جیسے غالب ، جنھوں نے نعتیہ قصائد و منقبت لکھے، اور بعض نے بکثرت بھی لکھے، انھیں کسی نے موضوع نہ بنایا، شاید اس لیے کہ ان پر کام آسان نہ تھا۔قدیم اور دکنی شعرا کے ہاں انفرادی سطح پر بھی نعت تخلیقی زمرے میں شامل رہی، لیکن کسی نے شاذ ہی کسی ایسے شاعرکو موضوع بنایا،کیوں کہ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق ان پر کام نہیں ہوسکتے تھے۔

مذکورہ عمومی مطالعات کے ضمن میں ایک عمومی مطالعہ غیر مسلم شعرا کی نعت گوئی پر دو مقالات میں ہوا۔حمد اور سلام بھی موضوع بنے اور میلاد ناموں (تین مطالعات) پر بھی کام ہوا۔ علاقائی ارتقا کے حوالے سے مطالعے بھی ہوئے اور دکن، راجستھان، کراچی،بہار (دو مطالعے)،پاکستان،کرناٹک جیسے مقامات کے جائزے بھی لکھے گئے۔ ارتقائی اور تاریخی حوالے سے عہد نبوی میں نعت گوئی کا مطالعہ ہوا، جس کا موضوع عربی نعت گوئی ہی رہاہوگا۔شعرا الرسول بھی ایک مطالعے کا موضوع بنا۔ہندوستان میں عربی نعت گوئی بھی موضوع بنی اور بھارت و پاکستان کی نعت گوئی کا تقابلی مطالعہ بھی کیاگیا اور عربی و اردو نعتیہ شاعری کا تقابلی مطالعہ بھی ہوا۔محض نعت گوئی کا ارتقا یا تاریخ بھی موضوع بنی اور علاقائی نسبت سے مطالعہ بھی ہوا اور بطور صنف ادب بھی تاریخ لکھی گئی اور ’اردو میں نعت گوئی‘، ’اردو شاعری میں نعت گوئی‘، اردوشاعری میں نعت گوئی کا ارتقا‘،’اردو شاعری میں نعت‘، ’اردو شاعری میں نعت گوئی کی روایت اور ارتقا‘، ۔’اردو میں نعت گوئی کا ارتقا، ۱۹۴۷ کے بعد‘،اس قسم کے سارے مطالعے اردو نعت گوئی کی تاریخ کا مختلف صورتوں میں جائزہ لینے تک محدود ہیں۔ان میں بظاہر کسی تجزیے ونکتہ آفرینی کی کوشش ظاہر نہیں ہوتی۔ ایک دو مطالعے نعت کے صنفی اور ہئیتی مطالعے پر مشتمل ہیں اور ایک عمومی و سرسری جائزے تک مخصوص ہیں۔ ان میں، میرے مطالعے کی حد تک اور میرے معیار کے مطابق، ایک آدھ ہی مطالہ تحقیقی اور تجزیاتی نوعیت اور مزاج لیے ہوئے ہے۔

اگرچہ کہ اس طرح کے تاریخی یا ارتقائی نوعیت کے مطالعات میں ڈاکٹر سید محمد رفیع الدین اشفاق اور ریاض مجید کے مقالات و مطالعات بہت جامع اور معلوماتی ہیں لیکن دیگر ارتقائی اور تاریخی نوعیت کے جائزے زیادہ تر سرسری اور رواں مطالعے ہیں، جن میں گہرائی اور نکتہ آفرینی کم کم ہی نظر آتی ہے۔ اس طرح کے مطالعے ایک سندی تقاضہ تو پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن تحقیق و مطالعے کے ایک معیار و افادیت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ان سے قطع نظر جن موضوعات اور جن مطالعات پر نظر جمتی ہے وہ زیادہ نہیں، جیسے: ’اردو نعت میں غیر اسلامی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘،’اردو حمد ونعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘،’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمایے کا تنقیدی مطالعہ‘،’اردو نعت گوئی کا موضوعاتی تنقیدی مطالعہ‘، ’’اردو نعت گوئی میں قران و حدیث کی تعلیمات‘‘(یا تلمیحات؟یہ موضوع دونوں صورتوں میں بہت بڑا ہے۔معلوم نہیں کہ مقالہ نگار نے اس کا حق کس حد تک ادا کیاہے، جب کہ اس طرح کی ایک مثال کے تحت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں نے قران و حدیث کے محاورات پر علیحدہ علیحدہ جو دادِ تحقیق دی ہے وہ بے مثال اور سیر حاصل ہے۔ یا پھر ڈاکٹر سید عبدالمقیت کاحدیثوں کے حوالے سے کام بھی جواپنے بلندمعیارکے سبب اپنی مثال آپ ہے۔)۔یہ ایسے موضوعات ہیں جن میں افادیت کا تلاش کیاجانا مشکل نہیں۔

ایک معیاری اور افادیت کی حامل تحقیق کے لیے موضوع کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ موضوع ایسا ہونا چاہیے جو زندہ رہے اور محقق کو بھی اپنے ساتھ زندہ رکھے۔پھر موضوع کی کوئی افادیت بھی ہونی چاہیے کہ اس سے ادب، علم اور معاشرے کو کیا مل رہاہے، یا اس کے توسط سے علم و ادب یا معاشرے کی کیا خدمت کی جارہی ہے۔سرسری، سطحی، اور غیر معیاری موضوعات تاریخ سے محو ہوجاتے ہیں اور جلد فراموش ہوجاتے ہیں۔اگر شخصیت موضوع بنے تو خود وہ شخصیت کتنا عرصہ تاریخ میں زندہ رہنے کے قابل ہے؟ اقبال ،اورایک حدتک غالب بھی، ہمیشہ زندہ رہیں گے، اس لیے ان پر ہونے والے معیاری کام بھی ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں اور محقق و مصنف کو بھی اپنے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اوپر جن نعت گو شعرأ کا ذکر ہوا، ان میں سے صرف اپنی نعت گوئی کی وجہ سے کون ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے یا تاریخ میں جگہ بنانے اور اس جگہ کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگا؟ مولانا احمد رضا خان شاید اپنی نعت گوئی کے بجائے اپنی اصل دینی و علمی حیثیت میں تو زندہ رہیں گے لیکن اگر وہ اپنی اس علمی اور دینی حیثیت کے حامل نہ ہوتے تو کیا وہ صرف ایک شاعر اور وہ بھی ایک نعت گو شاعر کے طور پراردو شاعری کی تاریخ اور تاریخِ نعت گوئی میں فنی امتیازات کے تناظر میں شامل ہوتے، جتنا اب ان کے عقیدت مند انھیں باور کرانے میں مصروف ہیں؟یہ رویہ جذباتی ہوتاہے۔

اسی طرح امیر مینائی اپنی ایک متنوع حیثیت کے سبب اپنا ایک ہمہ جہت مقام علم و ادب کی تاریخ میں رکھتے ہیں۔وہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعر بھی ہیں، لغت نویس اور زبان داں بھی ہیں، عالم بھی ہیں، موسیقی کے ماہر بھی ہیں،اور دیگر کئی علوم کے شناور بھی ہیں۔پھرنعت نگاری میں اپنے معاصرین میں شاید کسی سے کم رتبہ بھی نہیں، بلکہ ممتاز تھے۔لیکن کیا صرف نعت گوئی کی وجہ سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟یہی نوعیت مولانا ظفر علی خان کی بھی ہے کہ وہ یقیناًً ایک نعت گو شاعر کی حیثیت میں معروف ہیں اور شاعر کی حیثیت میں بھی اپنی پُرگوئی اور قادر کلامی کے باعث اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔لیکن ان کی شہرت و مقبولیت ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک صحافی اور ایک سیاسی رہنما کی بھی ہے۔وہ اور امیر مینائی اپنی متنوع حیثیتوں میں یقیناًً ایک صدی دو صدی تو تاریخ میں یاد رہیں گے لیکن اگر وہ اپنی مذکور حیثیتوں کے بجائے صرف اور صرف نعت گو ہوتے تو کب تک تاریخ میں یاد رکھے جاتے؟اس اعتبار سے ان کا مطالعہ محض ایک نعت گو کے طور پر خود ایک محقق کو کتنا وقیع و ممتاز بناسکتاہے؟ یہ امر بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جب شخصیت موضوع ہو تو مطالعہ کرنے والے کا تاثر یا احساس اس کے ساتھ جانبداری یا عصبیت کا بھی ہوسکتاہے اور یہ عین فطری عمل بھی ہے۔اس لیے شخصیت کا مطالعہ مشکل ہی سے غیرجانب داری سے کیا جاسکتاہے، جو تحقیقی دیانت داری کے اعتبار سے اور اخلاقی نقطۂ نظر سے بھی مستحسن نہیں۔

اس لیے میں سمجھتاہوں کہ نعت گوئی پر اگر تحقیق و مطالعہ مقصود ہوتو اسے شخصیات پر منحصر و مخصوص نہیں ہونا چاہیے، کہ کوئی تنہا شخص اب تک اردو نعت گوئی کی تاریخ اوراس کی مستحسن روایت میں ایسا شاید موجود نہیں جو صرف اور صرف اپنی نعت گوئی کی وجہ سے تاریخ کا حصہ بنا رہے۔ہاں، اگر نعت گوئی کی روایت اور تاریخ یا اس کے رجحانات اور فن کا مطالعہ مقصود ہو،اوریہ ایک مخصوص دور، علاقے یا کسی عصری یا معاشرتی حوالے سے موضوع بنیں تو پھر مشترکہ رجحانات و مزاج کے حامل شعراأکی نعت گوئی کااجتماعی مطالعہ کیاجاسکتاہے اور یوں شخصیات موضوع بن سکتی ہیں۔اس طرح تقابلی مطالعہ بھی قدرے گوارا کیاجاسکتاہے جیسا کہ امیر مینائی اور محسن کاکوروی کا مطالعہ ہوا ہے۔ لیکن اس قسم کے تقابلی مطالعے میں بھی فنی ہمسری کا لحاظ رہناچاہیے اور مخصوص رجحان یا مزاج یا عصری حوالہ شامل ہو تو ایسا مطالعہ اس ایک حد تک جاندار ہوسکتاہے۔میرے خیال میں نعت گوئی میں اس طرح کے تقابلی یا مشترکہ رجحانات کے حوالے سے شخصیات کا مطالعہ کیاجائے تو وہ تنہا کسی شخصیت کے مطالعے سے زیادہ بہتر ، مفید اور جامع ہوگا۔

مطالعے کے موضوع اور مقصد کے تناظر میں، میرے نقطۂ نظر سے یہ بھی اہم ہے کہ مطالعہ افادی مقصد سے ہونا چاہیے کہ یہ محض حصولِ سند یا مقام و منصب یا شہرت کی خاطر نہ ہو، اور اگرایسا ہو توبھی اسے یہ سوچ کر کرنا چاہیے کہ ہم اس مطالعے کے ذریعے اپنے معاشرے کو یا علم و ادب کو بھی کچھ دیں۔یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے اس مطالعے سے علم و ادب اور تاریخ و تہذیب میں کوئی اضافہ ہونا چاہیے۔کوئی دریافت، کوئی انکشاف، کوئی نکتہ آفرینی،کوئی راہِ عمل، کوئی رہنمائی ،علم و ادب کو یا معاشرے اور ماحول کواس مطالعے کے توسط سے میسر آئے۔پھر موضوع بہت پھیلا ہوا، ہمہ جہت، متنوع، اور دوری اعتبار سے بسیط نہ ہو، ایسے مطالعے سرسری اور سطحی ہوتے ہیں۔ ان میں گہرائی اور گیرائی اور نکتہ آفرینی نہیں ہوسکتی۔ مطالعے اور موضوع کا عرصہ یادور جتنا مختصر اور محدود ہوگا، اتناہی اس کا مطالعہ نکتہ رس اور نتیجہ خیزہوگا۔شخصیات کا مطالعہ ہمیشہ ہمہ جہت ہوتاہے، اس میں اگر صرف کسی جزو کا مطالعہ کرنا ہو، جیسے نعت نگاری، تب بھی ساری شخصیت پہلے پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا اور پھر اس کے بعد اس ایک مطلوبہ جزو کو موضوع بنانا ہوگا۔ اس طرح مطالعہ مبسوط ہوجائے گا اوراس صورت میں مطالعے کے تقاضے اور محقق کی ذمے داریاں بڑھ جائیں گی۔

تحقیق کے معیار کا بڑی حد تک تعلق موضوعات سے ہی ہے۔اس لیے اگر اپنی تحقیق کو معیاری، پرکشش اور افادیت کی حامل بنانا ہے تو سب سے زیادہ توجہ موضوع کے انتخاب پر ہونی چاہیے۔یہ تقاضہ پی ایچ ڈی کی سطح کے لیے زیادہ ہے جب کہ ایم فل اور یہاں تک کہ ایم اے کے لیے لکھے جانے والے مقالات بھی ا س تقاضے سے مبرا نہیں۔یہاں سطحات و معیار کی مناسبت سے یہ لحاظ رکھاجاسکتاہے کہ شخصیات کے مطالعے زیادہ سے زیادہ ایم فل کی سطح پر کیے یا کرائے جائیں۔ اس زمرے میں بڑے سے بڑے نعت گو کا مطالعہ بھی مناسب ہی ہوگا، کیوں کہ اوپر جو کمزوریاں اور نقائص شخصی مطالعات کے ضمن میں پیش کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ محض جذباتی فیصلہ ہی ہوگا اگر معیار پیشِ نظر ہو اور مطالعہ کسی شخص کا پی ایچ ڈی کی سطح پر کیاجائے۔اس لحاظ سے جو کام اب تک شخصیات پر پی ایچ ڈی کی تکمیل کے لیے کیے گئے ہیں، وہ اگرچہ پی ایچ ڈی کی سند سے فیض یاب ہوچکے ہیں لیکن ان کا معیار، کم ہی کسی مقالے کا، ایک جائز تنقیح کے مطابق پی ایچ ڈی کی سطح پر شمار کے قابل ہوگا۔

اس معیار کے مطابق اکابر شخصیات ، جو چاہے ماضئ قریب ہی سے تعلق رکھتی ہوں، صرف ایم فل کی سطح کے مطالعے کے لیے ملحوظ رکھی جانی چاہئیں جب کہ معاصر یا قریبی عہد کی شخصیات کامطالعہ ایک جامع معیار کے مطابق پی ایچ ڈی کی سطح پر ہر گز معیاری نہیں ہوسکتا۔معیار کے حوالے سے ایک ثقہ رائے کے مطابق کسی زندہ، یا ماضئ قریب کی کسی شخصیت پر ہونے والے سارے کام غیر معیاری ہوتے ہیں کیوں کہ معیاری کام کے لیے متعلقہ بنیادی، ثانوی اور ضمنی مآخذ و مصادر کسی شخص کے انتقال کے وقت فوری دستیاب نہیں ہوسکتے، منتشر اور دور افتادہ ہوسکتے ہیں اور شاید کہیں پوشیدہ اور چھپے رہ سکتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دریافت ہوتے رہتے ہیں۔جیسے خطوط اور دستاویزات۔پچاس ساٹھ سال کے بعد ہی کہیں یہ تمام چیزیں دستیاب ہوسکتی ہیں ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شخص سے متعلق جذبات اور تاثرات میں ایک ٹھہراؤ بھی آجاتاہے۔اس وقت اس شخص کے بارے میں جو رائے دی جائے گی وہ غیرجانبدارانہ اور متوازن ہوگی۔ورنہ بااثر شخصیات اور ان کے اعزا و لواحقین مطالعے کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اس کی مثالیں موجود بھی ہیں کہ زندہ افراد نے خود اثر ڈال کرخود پر مقالے لکھوائے اور کم ظرف افراد نے اپنی نگرانی میں اپنے مادی یا منصبی فوائد کے لیے ایسے مقالات لکھوائے اور ان پر اسناد بھی جاری ہوچکیں!

زندہ یا معاصر و قریبی عہد کی شخصیات پر، نعت کے حوالے سے، تحقیقی کام ایم اے کی سطح پر کیے جانے میں کوئی قباحت نہیں۔ بلکہ شخصیات پر تو کام ایم اے کی سطح پر ہی ہونا چاہیے یا اگر شخصیت بڑی اور مؤقر ہوتو اس پر ایم فل کے مقالے لکھے جاسکتے ہیں۔پی ایچ ڈی کی سطح پر کوئی کام شخصیت پر ، اوپر بیان کردہ معائب یاکمزوریوں کے سبب، خاص طور پر کسی جزوی موضوع کے حوالے سے، معیاری نہیں ہوسکتا اور زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔زمانہ علمی فتوحات کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔اب مطالعہ وہ مفیداور مؤثر ہوتاہے جس میں عصری و معاشرتی تقاضوں کا لحاظ رکھاجائے اور اس کا تعلق معاشرتی مسائل،عصری تقاضوں اور مستقبل کے امکانات سے جڑاہوا ہو۔نعت کی حد تک بھی ایسے نظری، فکری اور معاشرتی موضوعات کا تعین ہوسکتاہے جن سے نعت کے رشتے، فنی اور روایتی اور ساتھ ہی فکری و نظری، اپنے معاشرے سے جوڑ کر دیکھے جائیں اور ان سے اصلاح اور تعمیر کا کام بھی لیاجائے۔مذکورہ بالا فہرست میں جو کام ہوئے ہیں، میرے نقطۂ نظر اور میرے معیار کے مطابق شاید محمد کاکاخیل کا مقالہ ’’ اردو نعت میں غیر اسلامی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘بے حد اہم موضوع پر لکھاگیاہے۔ معیار کا فیصلہ میں نہیں کرسکتاکہ وہ مقالہ میرے مطالعے میں نہیں آسکا، لیکن یہ قابلِ اطمینان ہے کہ یہ مقالہ ڈاکٹر صابر کلوروی کی نگرانی میں لکھاگیا، جومیرے ذاتی تعلقات اور ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مطابق، ایک راسخ فکر استاد اور مصنف و محقق تھے۔بلکہ میں تو سمجھتاہوں کہ عنوان اور موضوع کا انتخاب شاید ان ہی کا طے کردہ ہو۔ یہ موضوع ہر اعتبار سے تعمیری اور صحت مند جذبات کا آئینہ دارہی نہیں بلکہ مقاصد کا آئینہ دار بھی ہے۔

اس طرح کے تعمیری و فکری موضوعات کی کمی نہیں۔ اگرمطالعے کا مقصد خودصحت مند اور تعمیری ہو تونعت کی روشنی میں اور اس کے حوالے سے اس مذکورہ مقالے کے مثل، جس میں ہندو عقائد کے اثرات مسلمانوں پر دکھائے گئے ہیں، دیگر عقائد و مسالک اور مذاہب کے منفی یا مثبت ہر طرح کے اثرات کا مطالعہ بھی ممکن ہے۔ہم اصلاحِ احوال کے لیے ان بدعتوں اور غلط عقائد کو بھی موضوع بناسکتے ہیں جن سے آج مسلم معاشرے داخلی طورپر اختلافات و نزاعات سے دوچار ہیں اور منفی عقائد کو اپنی زندگی اور اپنی تخلیقات کا موضوع بنارہے ہیں اور انھیں جائز اور درست بھی سمجھتے ہیں۔ اسوۂ حسنہ اور عہدِ رسالتؐ کے تعلق سے بھی ایسی متعدد باتیں ہماری روایات و حکایات کا حصہ بن گئی ہیں جنھیں تاریخ و حقائق تسلیم نہیں کرتے،اورآج یہ سب نعتوں کا لازمہ بن کر قبولیت عام کے درجے پر پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔اس طرح کے مطالعے، جو حقائق کو اجاگر کریں اور سچ کو سامنے لاسکیں، نعت نگاری کی روایات کے حوالے سے ہماری توجہ اور ہمارے تحقیقی مطالعات کا تقاضہ کرتے ہیں۔یہ امور صرف مقالہ نگاروں کی توجہ کے طلب گار نہیں بلکہ ان حضرات کی زیادہ توجہ چاہتے ہیں جو تحقیقی مطالعات کی نگرانی اور رہنمائی کے منصب پر فائز رہتے ہیں۔بدقسمتی سے ہماری تحقیق کو آج کے رسمی تقاضوں کے تحت مقالہ نگاروں سے زیادہ ان حضرات نے زوال اور بگاڑ سے دوچار کررکھا ہے جوطلبِ منفعت و منصب کی خاطر ’’نگرانی‘‘ کا ’’فریضہ‘‘ انجام دیتے ہیں اور خودمعیاری تحقیق کے علائم و رموز سے بے نیاز بلکہ نا آشنا ہوتے ہیں۔موضوع کا مسئلہ جو سب سے زیادہ اہم ہوتاہے، مطالعے کے معیار کے حوالے سے دراصل نگران کی لیاقت پر بھی منحصر ہوتاہے۔

نعت نگاری کو اورخاص طور پر اس کے مطالعہ و تحقیق کو معیاری بنانے کے لیے یہ ضروری ہونا چاہیے کہ عربی زبان سے واقفیت کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ اصل مآخذ اور مصادر کے مطالعے سے حقائق کی جستجو اور جانچ پرکھ ہوسکے اور خلاف واقعہ روایات اور حکایتوں کو نظر انداز بلکہ رد کیاجاسکے۔تقابلی مطالعات کے ضمن میں جہاں یہ بھی ہوسکتاہے کہ عربی و فارسی کے نمائندہ و ممتاز نعت گوشعرا سے استفادہ کیاجائے اور ان کا ان کے مضامین و اسلوب کے حوالے سے اردو کے ہمسر شعرا سے تقابل کیاجائے، وہاں مقابل شاعر کی زبان سے بھی محقق کو واقف ہونا چاہیے تاکہ اصل زبان میں اس کی تخلیقات کو پڑھ کر رائے قائم کی جاسکے۔پشاور یونیورسٹی میں اختر اورکزئی نے عربی و اردو کے صوفی شعرا کا مدح النبی ؐکے حوالے سے تقابلی مطالعہ کیاہے۔ یقین ہے کہ مقالہ نگار عربی زبان سے کامل واقفیت رکھتے ہوں گے تب ہی انھوں نے یہ عنوان منتخب کیا اور مقالہ لکھا۔ لیکن کچھ لوگ تراجم پر انحصار کرکے مطالعہ کرتے ہیں جو قطعی نامناسب ہے۔اصل اور بنیادی ماخذ کے بغیر، ترجمہ چاہے کتنا ہی معیاری کیوں نہ ہو، کوئی کام معیاری نہیں ہوسکتا۔تقابلی مطالعے میں، جو اگر اردو کا کسی اور زبان کے شعرا سے تقابل کیاجارہاہو، تو زبان دانی کا یہ تقاضہ ضرور ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔

مطالعے کے معیار کی بہتری کے لیے جہاں اس کا موضوع سب سے زیادہ اہمیت رکھتاہے وہیں اس کے رسمی اسالیب اور اس کی پیش کش کا حسن و سلیقہ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتاہے۔یہ ظاہری پیش کش ہی کسی مطالعے یا مقالے کو پُرکشش اور جاذبِ توجہ بناتی اور مطالعے پر صرف آمادہ ہی نہیں شاید مجبور بھی کردیتی ہے۔اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ مقالہ نگار ان جدید اصولوں اور ضوابط سے واقف ہو جو مقالہ لکھنے کے لیے آج کی علمی دنیا میں ضروری سمجھے جارہے ہیں اور انھیں عالمی سطح پر اختیار کیاجارہاہے۔اس ضمن میں ان کتابوں اور مقالات سے مدد لی جاسکتی ہے جو ’رسمیاتِ مقالہ نگاری‘ کے ذیل میں خاص اس مقصد سے لکھی گئی ہیں اور دستیاب ہیں۔

کسی مطالعے اور تحقیق کے لیے یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر مطالعہ کیاجائے اور اس کا مقصد اور اس کی سطح چاہے کچھ ہو، اسے معیارکی انتہائی بلند سطح تک پہنچانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے جب موضوع انتہائی پُرکشش، یکسر نیا، اورفکر انگیز ہو۔پہلے اسے کسی اور نے موضوع نہ بنایا ہو۔ساتھ ہی وہ کسی شخصی مطالعے تک یا اس کے لیے محدود و مخصوص نہ ہو۔شخصیات کا باہمی تقابلی مطالعہ کیاجاسکتاہے اگر وہ شخصیات ہمسرہوں اورمتعلقہ میدان میں ہمیشہ زندہ رہنے والی ہوں۔فکری نوعیت کے موضوعات ، جن کا تعلق معاشرے اور اس کے مسائل سے ہو ،وہ تعمیری اور اصلاحی بھی ہوسکتے۔اس طرح ہم کیوں نہ ایسے موضوعات پر محنت کریں جن کے توسط سے ہم علمی خدمت بھی انجام دے سکیں اوراپنے معاشرے کی تعمیر و خدمت کا فریضہ بھی ہم سے انجام پاسکے۔اس طرح وہ موضوع بھی زندہ رہے اور اس کے طفیل ہم بھی تاریخِ ادب میں تادیر زندہ رہ سکیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25