نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے ،- ڈاکٹرعزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹر عزیزؔ احسن۔کراچی


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Aziz Ahsan has delineated some critical points for the purpose of guidance in the realm of creation of Naatia poetry, its criticism and research work pertaining to the same. The article contains examples of erroneous content and composition of Naatia Poetry in order to high light mistakes those are needed to avoid in future. The article contains references in order to make the substance authentic. The article is thought provoking and worth pondering to purify thought and content of Naatia poetry, its criticism and research work.


نعتیہ ادب کی تخلیق ‘تنقید اور تحقیق کے تلازمات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کرتے ہوئے دو باتوں کا خیال رکھنا لازمی ہے:

  • شعرِ عقیدت میں شعری جمالیات کے تقاضے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور
  • خیال کی بنت میں مضامین کی صحت کے تقاضے ۔

شعرِ عقیدت میں شعری جمالیات کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے بتایا ہے :

"When we are considering poetry we must consider it pri marily as poetry and not as another thing"

’’شاعری کو بنیادی طور پر محض شاعری کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیے کسی اور شے کی حیثیت سے نہیں‘‘۔(۱)

یعنی شعری تخلیق کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسے محض شاعری کے اصولوں کی روشنی میں قرطاس کی زینت بنایا جائے۔گویا نعتیہ تخلیق کا آغاز اسی نقطے سے ہوگا کہ جو شاعری ’’نعت‘‘ کے نام پر لکھی جارہی ہے آیا وہ شعری اقدار کی روشنی میں ’’شاعری‘‘ کہلانے کے قابل بھی ہے کہ نہیں۔

نقاد اورمحقق کو بھی اچھی شاعری کے معیارات اور شعری جمالیات کے اصول پیشِ نظر رکھنے ہوں گے۔ اس عمل میں تنقید کے چار پہیئے "Four wheels" کام میں لائے جائیں گے،یعنی تقابل(Comparison ) ،تجزیہ (analysis )، امتیاز(discrimination ) اور تعیینِ قدر(evaluation )۔ اس مرحلے پر شاعر، نقاد اور محقق کے لیے چند اصولوں کی نشاندہی کردینا مناسب ہے:(۲)

لفظوں کا صحیح استعمال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر محمد ابوالخیر کشفی کی رائے ہے:

’’نعت گو شاعر ہر لفظ کو اسی طرح پرکھتا ہے جیسے جوہری ہیرے کو اور پھر ہشت پہلو الفاظ کے ہیروں سے نعت کا ہار خلوص کے دھاگے سے پروتا ہے۔نعت کے الفاظ میں : ۱۔خلوص، ۲۔گہری معنویت، ۳۔تہہ داری، ۴۔عظمت،۵۔عشق، ۶۔فکر، ۷۔روانی، ۸۔ایک دوسرے سے ہم آہنگی کا اجتماع ضروری ہے‘‘۔(۳)

کلیم عاجز نے بڑے پتے کی بات کی ہے، وہ کہتے ہیں:

’’بقول انگریزی نقاد، کولرج کہ ’شاعری یہ نہیں کہ کیا کہا گیا ہے، شاعری یہ ہے کہ کیسے کہا گیا ہے‘۔میں نے اس قول کو بہت فراخ دلی سے جانچا پرکھا اور تجربے نے یہی کہا کہ بات سچ ہے۔اگر صرف اونچی بات ہی شاعری کہلاتی تو اونچی باتیں تو تھوڑی ہی ہیں۔زندگی کی حقیقتیں اور سچائیاں تو شمار میں آسکتی ہیں لیکن اچھی شاعری کا شمار مشکل ہے۔تو اچھی شاعری جو کہ کی گئی ہے وہ دراصل یہی ہے کہ کسی کہنے والے نے کسی انوکھے ڈھنگ سے کہہ دی تو کہی ہوئی بات بھی نئی ہوگئی‘‘۔(۴)

تلفظ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعری میں لفظوں کو درست تلفظ کے ساتھ استعمال کرنا لازمی ہے۔کیوں کہ لفظوں میں مستعمل حروف کی حرکات شعری سانچوں میں اپنی اصل ھیئت کو واضح کردیتی ہیں۔یہاں سکون کو حرکت یا حرکت کو سکون سے نہیں بدلا جاسکتا۔نثر میں لفظ کے تلفظ کی نشاندہی ،اعراب لگائے بغیر،ممکن نہیں ہوتی لیکن نظم میں لفظ کا تلفظ شعر کی خواندگی ہی سے طے ہوجاتا ہے۔ اس لیے اشعار میں لفظ کے تلفظ کی پابندی لازمی ٹھہرتی ہے۔ادب میں لفظوں کو عوامی سطح پر بولے جانے والے (غلط العوام) لفظوں کو استعمال کرنے کے بجائے لغت کی سند کے دائرے میں رہ کر برتا جاتا ہے۔مثلاً عوام ’’برف‘‘ فتح با، سکونِ ثانی و سوم کے بجائے فتح را یعنی ر ا پر زبر کے ساتھ بولتے ہیں ۔لیکن اس لفظ کے صحیح تلفظ میں را ساکن ہے، اس لیے شعر میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جائے گا۔

معنیٰ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لفظوں کے معانی کا علم بھی شاعر کو ہونا چاہیے۔نقاد کو اس سے بھی زیادہ معنی فہم ہونا چاہیے۔لغت میں ہر لفظ کے کئی کئی معنی ہوتے ہیں۔شاعر اپنے شعر میں متعین معانی کا پابند تو نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ معانی کے کسی بھی لونی عکس کا پابند نہو۔زبان کسی شاعر کی انفرادی کوشش سے معانی میں تبدیلی نہیں کرتی ہے۔یہ الگ بات کہ شاعر نے اپنے آپ کو اتنا منوالیا ہو کہ کہہ سکے :

’’سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ (۵)

لیکن یہ بات میرؔ ہی کو زیب دیتی ہے۔ہر ہما ،شما، لفظوں کو اپنی مرضی سے نہیں برت سکتا۔چنانچہ نعت گو شعراء کو بھی لفظوں کے لغوی اور مرادی معانی کے تمام عکس سامنے رکھنے چاہئیں۔نقاد بھی اسی کسوٹی پر نعتیہ اشعار کو پرکھے گا ۔کیوں کہ نعت میں لفظوں کے معانی قطعیت کے ساتھ طے ہونا ضروری ہیں۔یہاں ابہام یا ذو معنویت کے عناصربہت خطر ناک نتائج مرتب کرسکتے ہیں۔

عروض[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہماری کلاسیکی یا روایتی اصنافِ سخن مثلاً غزل، رباعی، قطعہ ، مثنوی، مسدس، مسمط، مخمس،ترجیع بند وغیرہ، صنفی ھیئت کے علاوہ عروضی اوزان و بحور کی بھی پابند ہوتی ہیں۔یہ ضروری تو نہیں کہ ہر شاعرعروض داں ہو۔لیکن ہر شاعر کا موزوں طبع ہونا بہرحال لازمی ہے۔ورنہ وہ بے وزن اشعار کہے گا اورخود اپنا مذاق اڑوائے گا۔

اسی طرح نقاد کے لیے اشعار کی موزونیت جاننے کا فطری ہتھیار تو اس کا وجدان ہے ، لیکن عروضی حوالے سے اشعارکو پرکھنے کے لیے علمِ عروض کی شد بد بھی ضروری ہے۔

اصنافِ سخن کی ھیئت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اصناف سخن کی شناخت مختلف ھیئتوں میں ہوتی ہے۔مثلا غزل ، جس کے ہر شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں اور ہر شعر اپنی معنیاتی اکائی کا غماز ہوتا ہے۔قصیدہ، جس کا مطلع غزل کے مانند ہوتا ہے اور ہر شعر بھی غزل سے مشابہ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں قافیہ اور ردیف (اگرشعر، مردف ہو تو)کی پابندی ضروری ہے ۔البتہ قصیدے کی زبان پرشکوہ (بھاری بھرکم الفاظ سے لبریز)ہوتی ہے کیوں کہ اس میں شاعر اپنی علمی لیاقت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مثنوی کا ہر شعر غزل کے مطلع کے مانند ہوتا ہے۔یعنی مثنوی کا ہر شعر ہم قافیہ بھی ہوتا ہے اور اگر ردیف موجود ہے تو بیت کے دوسرے مصرعے میں ردیف کی تکرار بھی لازمی ٹھہرتی ہے۔ رباعی کے اوزان کاایک الگ جہان ہے۔اس کے لیے چوبیس بحریں مقرر ہیں اور متن میں فلسفیانہ گہرائی بھی ضروری ہے ۔ مسدس کے چھ مصرعوں کی جو ترتیب مقرر ہے وہی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ایسی صورت میں شاعر پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی صنف سخن کو استعمال کرتے ہوئے اس کے ھیئتی تقاضے جانے اور برتے ۔نقاد بھی انہی اصولوں کے تحت اس شاعری کوتنقید کی کسوٹی پر پرکھے گا۔

دیگر شعری اصناف مثلا نظمِ معریٰ، نظمِ آزاد ،سہ مصرعی یا ثلاثی، ہائیکو، نثری نظم وغیرہ وغیرہ۔ان میں سے ہر صنف کے کچھ اصول ہیں‘ہر صنف کی تخلیقی جمالیات ہے، اس لیے پہلے تو شاعر کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان اصناف کے صنفی تقاضوں کا خیال رکھے ،بعد ازاں نقاد کی ذمہ داری ہے کہ ان اصناف کے صنفی تقاضوں اور شعری جمالیات کی روشنی میں ایسی شاعری کا جائزہ لے۔محقق کو تو ہر لحاظ سے یہ نکات مدِ نظر رکھنے ہوں گے۔

صنائع بدائع کے استعمالات کا جائزہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعری میں حسن پیدا کرنے کے لیے خیال کو اچھے سے اچھے اور انتہائی موزوں الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کوشش میں شاعر کبھی لفظوں کی تکرار اور کبھی صوتی ہم آہنگی کے لیے کچھ صنائع بدائع کا استعمال بھی کرتا ہے۔صنائع بدائع کے بالقصد استعمال سے ، اشعار میں کچھ حسن تو پیدا ہوجاتا ہے لیکن تصنع اور بناوٹ کا عنصر بھی داخل ہوجاتا ہے۔تاہم محتاط کاوش ، شعری حسن کے ساتھ تأثر میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

جدید عہد خیال کی ترسیل میں ندرت پیدا کرنے کا ہے ، صنائع بدائع کے اظہار کا نہیں۔اس لیے شاعر ، نقاد اورمحقق کو ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔

شعری جمالیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اچھے اور برے اشعار میں امتیاز کرنے کی غرض سے شاعر پر لازم ہے کہ اپنے تخلیقی سرمائے کو پر کھنے کے لیے کلاسیکی اور جدید ادب کی شعری تخلیقات کا بغور مطالعہ کرے۔نقاد اور محقق بھی کسی شعری تخلیق کا تجزیہ کرنے کے لیے قدیم و جدید شعراء کی تخلیقات کے گہرے مطالعے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنے کی سعی کریں۔

معائبِ سخن سے گریز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر کے لیے معائبِ سخن سے بچنا بھی ضروری ہے مثلاً اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عیبِ تنافر کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟

کلام میں عیبِ تنافر اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب کسی مصرعے میں ایک لفظ کا آخری حرف اور دوسرے لفظ کا پہلا حرف مل کر یک آہنگ ہوجائیں۔۔۔جیسے

ہے حمدِ ربِ جہاں لاالہٰ الاللہ

کہ ہے جہاں میں اماں لاالہٰ الااللہ

تو سایہء رب ہے تو کہاں عقل کی زد میں

مخلوق تیرے رتبے سے آگاہ ہی نہیں ہے

پہلے شعرمیں ’’ہے‘‘ کی ہائے ہوز کی آواز حمد کی حائے حطی میں مدغم ہورہی ہے۔اور دوسرے شعر میں ’’آگاہ ‘‘ کی ہائے ہوز ’’ہی‘‘ کی ہائے ہوز سے مل کر ایک آواز نکال رہی ہے جس سے لفظ ’’آگاہی ‘‘ بن رہا ہے۔ یہ عیبِ تنافر ہے۔(واضح رہے کہ یہ اشعار بہت ہی کمزور ہیں لیکن یہاں شعر کی خوبصورتی یابد صورتی کا ذکر نہیں ، عیبِ تنافر کی مثال دینی ہے)(۶)

وہی ہے مالک وہی ہے مولاو ہی الہ ہے وہی احد ہے

وہی ہے دائم مرا ہے دعویٰ وہی الہ ہے وہی احد ہے

اس شعر میں اِلہٰ کی ہائے ہوز بھی ’’ہے‘‘ کی ہائے ہوز کے ساتھ مل رہی ہے اور صرف ایک ’’ہ‘‘ کی آواز قائم رہ سکتی ہے۔ چنانچہ اِلٰہ کے بجائے ’’اِلاہے‘‘ پڑھا جارہا ہے۔ یہ عیب اصوات کے ادغام کی وجہ سے بہت سنگین ہوگیا ہے۔ (۷)

عیب تنافرکی ایک اور مثال دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احمد فراز نے ایک مصاحبے میں بتایا کہ ذوالفقار علی بخاری کے سامنے انہوں نے اپنا ایک شعر پڑھا :

فراز تیری محبت کا پاس ہے ورنہ

یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے

تو بخاری صاحب نے کہا ’’ہاں بیٹا‘‘ کیا کپاس کہا ہے۔یہ سن کر فرازؔ نے مصرع بدل دیا۔

فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ (۸)

اب دیکھیے ‘تعقید کسے کہتے ہیں اور اس کی موجودگی سے شعر میں کیسی کراہیت پیدا ہوجاتی ہے؟

عیبِ تعقید اس وقت پیدا ہوتا ہے جب الفاظ شعری بُنت میں آگے پیچھے آئیں اور لفظوں کی ترتیب بگڑی ہوئی معلوم ہو۔

جب نقشِ کفِ پائے نبیؐ چوم ہیں آتیں

ہر دید طلب دل میں اترتی ہیں یہ آنکھیں

دامانِ طلب گار ہیں بھر جاتے گہر سے

جب فیض رساں در سے گزرتی ہیں یہ آنکھیں

پہلے شعر میں شاعرکہنا چاہتا ہے کہ جب میری آنکھیں نقشِ کفِ پائے نبیؐ چوم کر آتی ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں دیدکی طلب ہے ان کے دلوں میں میری آنکھیں اترجاتی ہے۔یعنی وہ میری آنکھوں کو رشک سے دیکھتے ہیں۔اس شعر کے پہلے مصرعے میں تعقید بھی ہے اور مصرعے کی بُنت بھی بڑی کمزور ہے۔ ’’چوم کے آتی ہیں‘‘ کی جگہ ’’چوم ہیں آتیں‘‘ میں الفاظ بے ترتیب ہیں۔

دوسرے شعر میں ’’دامانِ طلبگار بھرجاتے ہیں‘‘ کی جگہ ’’ہیں بھرجاتے‘‘ میں تعقید ہے۔(۹)

شتر گربہ کیا ہوتا ہے اور اس عیب سے شاعری میں کیا خرابی پیدا ہوتی ہے؟

شتر اونٹ کو کہتے ہیں اور گُربہ بلی کو۔ لہٰذا جب آپ کے ساتھ تم یا تیرا، تیری آئے تو اس کو عیبِ شُتر گربہ کہتے ہیں۔جیسے:

مانا حقیر ہیں ہم، پر آپؐ سے ہے نسبت

تم ہو سراپا رحمت، عاشق ہیں ہم تمہارے

معراج کے سفر میں، مہماں خدا کے گھر میں

رب نے کہا کہ پیارے ہم تیرے تم ہمارے

اشعار دونوں بہت کمزور اور ناقص ہیں لیکن اس موقع پر صرف شتر گربہ سمجھ لیجیے۔ پہلے شعرکے مصرعہء اولیٰ میں ’’آپؐ ‘‘سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے تخاطب ہے،جبکہ دوسرے مصرعے میں ’’تم۔۔۔اور تمہارے‘‘ سے خطاب ہے۔ دوسرا شعرانتہائی رکیک اور مبتذل ہے ۔ رب تعالیٰ سے منسوب بات کذب کی انتہا ہے۔ لیکن مصرعہء ثانی میں ’’ہم تیرے تم ہمارے‘‘ میں تیرے اور تم کی وجہ سے شتر گربہ کا عیب بھی پیدا ہوگیا ہے۔ (۱۰)

معائبِ سخن کی فہرست خاصی لمبی ہے۔لہٰذا صرف اتنا کہہ کر ہم آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ نعت گو شاعر کو بھی معائبِ سخن سے بچنا چاہیے اور نقاد کو بھی ایسے عیوب شاعری میں دیکھتے ہوئے خاموش نہیں رہنا چاہیے، محقق کو بھی اس پہلو پر نظر رکھنی چاہیے۔بعض لفظوں کا استعمال تو از روئے قرآن ممنوع ہے۔مثلاً ’’راعنا‘‘ کے بجائے ’’انظرنا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کا قرآنی حکم(آیت نمبر ۱۰۴ سورۂ البقرہ)سب کے سامنے رہنا لازمی ہے۔

شعری معیارات کے حوالے سے بات سمیٹتے ہوئے مجھے ڈاکٹر ریاض مجید کی ایک تحریریاد آگئی۔وہ کہتے ہیں:

’’نعت محض ایک موضوع نہیں ایک فنی کل(whole) ہے۔ایک ایسی تخلیقی اور نامیاتی وحدت، جس میں خیال، لفظ، اسلوب، ہیئت، آہنگ اور دوسرے اسلوبیاتی وسائل اور شعری محاسن ، ایک موثر فنی اکائی کی طرح تخلیق یاب ہوتے ہیں۔ نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا مرکزی و محوری موضوع آپ کی ذاتِ گرامی سے محبت کا اظہار اور آپ کی شخصیتِ ستودہ صفات کا تذکار ہے۔اس موضوع سے ہزاروں مضامین نے جنم لیا‘‘۔ (۱۱)

خیال کی بنت میں مضامین کی صحت کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ ادب میں تخلیق کار، نقاد اور محقق کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر سطح پر ’’صداقت‘‘ کی جستجو کرے۔ یعنی تخلیق کار ہر وہ بات شعری زبان میں بیان کرے جو قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حوالے سے درست طور پر شاعر تک پہنچی ہو۔ نقاداسی پیمانے پر شعرِ عقیدت کی پرکھ کا کام انجام دے اورمحقق بھی اسی نہج پر تحقیق کرے ۔

بد قسمتی سے اردو نعت میں غیر محتاط شعراء نے بہت سی ایسی روایات کو تلمیحاتی سطح پر عام کردیا ہے جن کی اصل یا تو اسرائیلیات کی من گھڑت حکایات ہیں یا گمراہ فرقوں کی موضوعات۔ اس کی مثال جاننے کے لیے علامہ شہزاد مجددی کی تحقیقی کاوش کا صرف ایک نمونہ پیش کرنا ہی کافی ہوگا:

۔۔۔محمد شہزاد مجددی نے ایک بہت مشہور روایت ’’الفقر وفخری و بہٖ افتخر‘‘( فقر میرا فخر ہے اور میں اس کے ساتھ مفتخر ہوں)بے اصل بتاتے ہوئے امام ابنِ تیمیہؒ ، العسقلانی، شیخ محمد پٹنی اور ان کے شیخ،حافظ ابن حجر اور محدث بریلوی حضرت احمد رضا خاں ؒ وغیرہم کے حوالے سے اس روایت کو ’’موضوع‘‘ اور ’’باطل‘‘ لکھا ہے۔اپنی تحقیق کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے فتاویٰ الرضویہ جلد ششم کے صفحہ نمبر ۱۲۶ کا حوالہ بھی دیا ہے(۱۲)۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث نقل کرکے اس کے معانی کی تفہیم کے لیے بھی زعمائے حدیث کے حوالے دیے ہیں۔حدیث شریف ہے ’’اللھم احینی مسکیناً و امتنی مسکیناً و احشرنی فی زمرۃ المساکین‘‘(اے اللہ! مجھے مسکین ہی زندہ رکھ، مسکنت میں موت دے اور مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما)۔وہ لکھتے ہیں:

’’اس روایت کو امام ترمذی نے غریب کہا اور اس کی سند میں ضعف ہے ۔ ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے اسے الگ الگ طریق سے روایت کیا ہے ۔۔۔ امام بیہقیؒ کہتے ہیں میرے نزدیک اس کی صورت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے یہاں اس مسکنت کا سوال نہیں کیا جس کا معنی قلت لیا جاتاہے بلکہ آپؐ نے اس مسکنت کا سوال کیا ہے جس کا معنی انکسار اور عاجزی لیا جاتاہے۔ایک اور قابلِ غور امر یہ ہے کہ صحیح احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا فقر سے استعاذ اور پناہ مانگنا ثابت ہے اور آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تعلیم فرمائی ہے۔چنانچہ صحیحین میں فقر سے استعاذ کے الفاظ یوں مروی ہیں:’’اللھم اعوذ بک من فتنۃ الفقر‘‘ ترجمہ:اے اللہ! میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں(بخاری الدعواۃ رقم 5891 مسلم فی الذکر والدعا رقم 4877)۔سنن ابی داوؤد میں عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی روایت میں دعائیہ کلمات یوں ہیں:اللھم انی اعوذ بک من الکفر و الفقر (ابو داؤد۔۔۔4؍324 رقم 5090) ترجمہ: اے اللہ! میں کفر و فقر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔یہاں کفر کے ساتھ فقر کا تذکرہ لائقِ عبرت بھی ہے اور محلِ تنبیہ بھی۔صحیح ا بن حبان میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے:فقال رجل و یعتدلان؟ قال نعم(الاحسان 3؍ رقم 1026 ) ترجمہ: ایک شخص نے پوچھا کیا یہ دونوں برابر ہیں؟آپؐ نے فرمایا ہا ں ۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔تعوذ و باللہ من الفقر(احمد رقم؍10873،ابنِ حبان، 1؍239 :رقم979) ترجمہ: فقر سے اللہ کی پناہ مانگو۔سننِ نسائی میں ہے۔ نعوذ و من الفقر و فاقہ، ترجمہ: فقر و فاقہ سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ (نسائی:5775) ۔۔۔الغرض احادیثِ صحیحہ میں فقر سے پناہ و نجات اور برا ء ت کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔یہاں ایک بات کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اپنے لیے موجود، مذکور اور منصوص فضائل کا اظہار بھی فخر سے نہیں فرمایاہر جگہ فرمایا’’ولا فخرٌ و لا فخر‘‘ کی تکرار سے اپنے رب کی بارگاہ میں اظہارِ عبودیت اور تواضع فرمایاہے‘‘۔(13)

اس لیے نعت گو شعراء نعتیہ ادب کے محققین اورشعرِ عقیدت کی تنقید ی سرگرمیوں سے وابستہ اہلِ قلم کو چاہیے کہ نبی علیہ السلام سے منسوب ہر روایت کو اچھی طرح پرکھنے کے بعد قبول کریں۔کیوں کہ یہ معاملہ صرف بیان کی فصاحت اور بلاغت ہی کا نہیں ہے بلکہ ایمان کی حفاظت اور عقبیٰ کے مواخذے سے بچنے کا بھی ہے۔ دو احادیث اور بھی دیکھ لیجیے:

من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہٗ من النار(:جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔۔۔متفق علیہ ) ۔۔۔۔۔۔ کفی بالحرء کذباً ان بحدث بکل ما سمع(کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے)۔(14)

نعت کے مافیہ( content ) یا متن (text) کی اہمیت ہر قسم کی شاعری کے مافیہ سے زیادہ ہے۔نعت کے نفسِ مضمون کے فکری رشتے قرآن و حدیث سے بڑے گہرے ہیں۔اس لیے قرآن و حدیث کے مفاہیم کو شعری قالب میں ڈھالنے کے ہنگام استنادی شان کو برقرار رکھنا‘ تاریخ اسلام کے مستند حوالوں کو شعری پیکر دینا بہت ضروری ہے۔اس موقع پر اپنے جذبات ،اپنی خواہشات اور اپنے مذہبی تعصبات کو قابو میں رکھتے ہوئے راہِ مستقیم پر چلنا اور وادیِ نعت سے سرخرو گزرجانا بہت بڑی کامیابی کی دلیل ہے۔کیوں کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ سچائی کا عنصر ہر سطح پر برقرار رہ سکے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا:

’’لا یجمع اللہ ھٰذِہِ الامۃ علیٰ الضلالۃ ابدا‘‘(اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا)‘‘۔۔۔۔’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَۃِ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اخْتِلَافاً فَعَلَیْکُمْ باِلسَّوَادِالْاعْظَمِo (میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔اگر تم امت میں اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کے ساتھ موافقت لازم ہے)(15)

اس حدیث کی روشنی میں امت کے سواد اعظم کی مستند روایات اور صحاح ستہ اوراحادیث و سیئر کی امہاتِ کتب کا مطالعہ کرنا شاعر کے لیے بھی ضروری ہے ‘ نقاد کے لیے بھی اور محقق کے لیے بھی لازمی ہے۔

شاعری میں جذبہ اور احساس ہی شعر کا حسن بڑھاتا ہے۔تاہم نعتیہ شاعری میں جذبے اور احساس کے ارتعاشات کو شعری پردے پر ابھارنے کا عمل انتہائی سچائی اور احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔

جدید عہد نے نعتیہ مضامین کو بڑی وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے۔ان موضوعات میں کیا کیا شامل ہے ؟اس طرح کی کوئی فہرست بنانا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم اس مسئلے کو چند احساساتی اور فکری ابعاد (dimensions) کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں۔مثلاً:

1۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ذات کے جمالِ صوری کے حوالے سے بھی شعر کہے جاسکتے ہیں۔

2۔ حضورِ اکرم کے اسمائے مبارکہ کی معنوی تنویرسے بھی اشعار میں جگمگاہٹ پیدا کی جاسکتی ہے۔

3۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جمال معنوی یعنی اسوۂ مقدسہ کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال کیا جاسکتا ہے۔

4۔ شاعر،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی الفت اور آپ کی اتباع کی آرزو کا اظہار بھی کرسکتا ہے۔

5۔ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تعلیمات کا ذکر بھی جزوِ نعت بن سکتا ہے۔

6۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے اسوۂ حسنہ کی کسی ادا کا ذکر بھی نعت کی زینت بن سکتا ہے۔

7۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا تعلق مع اللہ بھی نعت سے مترشح ہوسکتا ہے۔(ایسے تعلق کو صوفیائے کرام نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی جہتِ ولایت سے تعبیر کرتے ہیں اوراسی بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولایت کو ان کی جہتِ نبوت سے افضل جانتے ہیں۔۔۔لیکن یہ بڑا نازک معاملہ ہے)۔

8۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا تعلق مع الخلق بھی نعت کا موضوع ہے۔دراصل یہی نبوت کی غرض وغایت ہے۔ نبی ہی تو خلق کو خالق سے متعارف کرواتا ہے اور خالق کے احکامات سے آگاہ کرتا ہے۔

9۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات کی عظمت کے حوالے سے بھی نعت میں روشنی پیدا کی جاسکتی ہے۔

10۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے معجزات کے ذکر سے بھی نعت لکھی جاسکتی ہے۔

11۔ اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تعلق کا اظہار بھی نعت ہے۔

12۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اپنے اہل بیت یعنی آپ کی ازواجِ مطہرات کے ساتھ تعلق کا ذکر بھی مدح رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے ذیل میں آتا ہے۔

13۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اپنی آل کے ساتھ تعلق بھی نعت کا موضوع ہے۔

14۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اقوال یعنی حدیثِ پاک کے حوالوں سے بھی نعت مزین ہوسکتی ہے۔

15۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اعمال کے ملفوظی اظہار کو بھی نعت کہا جاتا ہے۔

16۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے ایسے معاملات بھی نعت کا جزو بن سکتے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمنے کسی کو کوئی ایساعمل کرتے دیکھا جس کی کوئی نظیر موجود نہ تھی، تب بھی آپ نے منع نہیں فرمایا۔نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ایسے رویئے یعنی ’’سکوت‘‘ کو اصطلاحاً ’’تقریر‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

17۔ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے غزوات کا ذکر بھی نعت ہے۔

18۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے خطبات کے منظوم اظہار کو بھی نعت کہتے ہیں۔

19۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بزم آرائی کے ذکر کو بھی نعت کہتے ہیں۔

20۔ شاعر کی طرف سے اپنے غم کا استغاثے کی شکل میں اظہار بھی نعت ہے۔

21۔ امت کی طرف سے استغاثہ پیش کرنے کا عمل بھی نعت ہے۔

22۔ شفاعت طلبی کی التماس بھی نعت ہے۔

23۔ خواب میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دیدار کی آرزو کا شعری اظہار بھی نعت ہے۔

24۔ حضورِ اکرم سے نسبت رکھنے والے اشخاص ، اصحاب ، ازواج اور اشیاء کا ذکر بھی نعت ہے ۔شرط صرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے اقوال یا تاریخی حوالوں سے بات بالکل سچی ہو اور بیان میں اعتدال رہے

25۔ ہر اس خطے کا ذکربھی نعت بننے کا متحمل ہوسکتا ہے، جس میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمنے اپنی حیاتِ دنیوی میں قدم رنجا فرمایا ۔

26۔ مدینہ منورہ کا ذکر، اس تک رسائی کی آرزو اور اس شہر کی فضیلتوں کا بیان ، سب نعت ہے۔

27۔ گنبدِخضریٰ کا تذکرہ بھی نعت ہے اور مسجدِ نبوی کا حوالہ بھی نعت ہے۔

28۔ شاعر اپنے احساسات کی سچی عکاسی کرتے ہوئے حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا اظہار کرے تو وہ بھی نعت ہی ہے۔

غرضیکہ اس موضوع کے ہزار ہا زاویئے ہیں۔شاعر کے احساسات، اس کے قلبی احوال، ہجر نبوی کا اظہار ، مدینہ طیبہ سے دوری کے احساس کا شعری مرقع ، مدینہ پہنچ جانے پر اپنے نصیب پر رشک اور حیرت و استعجاب میں ڈوب جانے کی کیفیت کا اظہار وغیرہ، سب ہی کچھ تو نعت کا موضوع بن جاتا ہے ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ بیان میں اعتدال ہو، اظہار میں سچائی ہو، تلمیحات کا پس منظر بالکل درست اور مستند ہو۔

شاعروں کے لیے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اگر وہ براہِ راست حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے مخاطبہ کریں تو اس میں قرآنِ کریم کی ہدایات کو پیشِ نظر رکھیں۔قرآن کریم میں ہے:

یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَرْ فَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْھَرُوْالَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O

’’اے لوگو جوایمان لائے ہو نہ بلند کرو اپنی آوازیں اوپر نبی کی آواز کے اور نہ اونچی کرو اپنی آوا ز اس کے سامنے بات کرتے وقت جیسے اونچی آواز میں بولتے ہو تم ایک دوسرے کے ساتھ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ غارت ہوجائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘ (16)

ممنوعاتِ نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت کے اشعار کی شعری بُنَت میں شرعی حدود کا خیال رکھنے کے لیے کچھ امتناعی زاویوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔مثلاً:

نبیِ کریم علیہ الصَلوٰۃ والتسلیم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔اس تصور کے منافی کوئی خیال شعر میں نہیں باندھنا چاہیے۔علامہ رزی جے پوری کہتے ہیں:

محمدؐ کو خدا کہنا ، خدا کو مصطفا کہنا

یہ ہے ترکِ مدارج، شرک ہے، الزام و تہمت ہے (17)

حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ، اللہ رب العزت کے بندے ضرور ہیں لیکن اللہ کی تمام مخلوقات میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات افضل ہے۔

۔۔۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

لیکن ہمارے شاعر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی محبت میں انہیں وہی نام دینے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔جیسے :

وہ احمد ،اللہ احد ہے

اسمِ محمد اسمِ صمد ہے (18)

وہ والی وہ عالی ہے

وہ مالک ہے وہ مولا

اللھم صلِ علیٰ (19)

پہلے شعر میں شاعر نے اسمِ محمد کو اسمِ صمد کہا ہے۔یہ تو مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اللہ نے سورۂ اخلاص میں اپنا تعارف ’’اللہُ الصَّمد‘‘ کہہ کر کروایا ہے۔یہی حال ’’والی‘‘ اور ’’مالک‘‘ کا ہے۔ یہ دونوں نام بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اسم شماری میں شاعروں نے ذرا احتیاط نہیں کی ہے۔ مثلاً عربی کا ایک جملہ ہے ’’صلِّ علیٰ‘‘۔۔۔صَلِّ (فت ص‘شد ل بکس) [فعلِ امر]۔۔۔رحمت نازل فرما۔درودوسلام بھیج ۔۔۔علیٰ یعنی اوپر۔

اس صورت میں صرف صَلِّ علیٰ کہنے سے بات مکمل نہیں ہوتی ہے ۔صَلِّ علیٰ محمد کہنے سے بات بنتی ہے۔ لیکن بعض شعراء یہ جانے بغیر ایک مجہول فقرہ ہی لکھتے ہیں ۔ستم تو یہ ہے کہ بعض شعراء اس مجہول فقرے کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اسمِ گرامی سمجھتے ہیں۔جیسے :

صَلِّ علیٰ ہی حامیء کل ہے

صَلِّ علیٰ ہی والیء کل ہے

صَلِّ علیٰ سردارِ رسل ہے

صَلِّ علیٰ ہی والیء کل ہے

صَلِّ علیٰ ہے اسمِ احمدؐ

رحم و کرم ہے اس کا لاحد (20)

اس لیے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر درود بھیجنے کی درخواست کے لیے صرف ’’صَلِّ علیٰ‘‘ کہدینا کافی نہیں ہے۔آپ ﷺ کے اسمِ گرامی کے طور پر یہ مجہول فقرہ استعمال کرنا تو اور زیادہ قابلِ گرفت ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ہم مرتبہ یا ہم رتبہ ظاہر کرنا۔کسی خاص صفت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا شریک قرار دینا۔صریحاً شرک فی النبوت ہے۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ذات ہی صرف وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔صرف حضورِ اکرم ہی کی ذات ’’معصوم عن الخطاء‘‘ ہے۔حضورِ اکرم کے قرابت دار، اصحاب اور ازواج سب ’’محفوظ عن الخطاء‘‘ ہیں۔یہ نکتہ ضرور ملحوظ رہے۔

محض عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے خیال سے کسی فلمی گانے کی طرز پر نہ تو شعر کہے جائیں اور نہ ہی اس گانے کی دھن اپنائی جائے۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا مطالبہ نہ کیا جائے کہ ’’آپ ایک بار پھر دنیا میں تشریف لاکر ہماری حا لتِ زار ملاحظہ فرمائیں‘‘۔ کیوں کہ اسلام میں آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بعثتِ ثانی کا کوئی تصور نہیں ہے۔استغاثہ ، بحدِ اعتدال پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

انبیائے سابقین کی ذات سے حضورِ اکرم کی ذاتِ اقدس کی افضلیت ثابت کرتے ہوئے کہیں ان انبیا ء کرام علیہم السلام کی توہین کا پہلو نہ نکلے۔اس ضمن میں بہت احتیاط درکار ہے۔

کسی صحابی یا آپ کے کسی رشتہ دار امتی کا ذکر اس طرح نہ کیا جائے کہ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی تبلیغی سرگرمیوں کی کامیابی کا سہر ا ان کے سر باندھنے کی کوشش ظاہر ہو۔یا یہ ظاہر ہو کہ اگر وہ صحابی نہیں ہوتے تو دین پھیلتا ہی نہیں۔تمام اصحاب النبیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ، ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور بنی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے ہاشمی قرابت دار،امت کے لیے محترم ضرور ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے صرف خادم اور امتی ہیں۔

معراج میں اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے فلک ا لافلاک کی سیر کرائی تھی۔اسی بات کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے۔اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہے معراج کی تفصیلا ت قرآن کریم میں موجود ہیں اور تفاسیر میں معراج کی روایت صحیح احادیث کی روشنی میں بھی ملتی ہے۔اس لیے یہ کہنا کہ ’’اللہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو دیدار کے لیے طلب فرمایا تھا‘‘ بڑی بھاری غلطی اور ظلم ہے کیوں کہ اللہ کی شان ’’البصیر‘‘ کا استخفاف ہوتا ہے۔

معجزات کے بیان میں بھی صرف حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی عظمت کا خیال پیش کیا جائے ، کسی صحابی کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے کسی معجزے کا تصور پیش کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔

نعتیہ اشعار میں اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ، ازواج النبیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور نبی علیہ السلام کے قرابت داروں کا ذکر مناقب کے اشعار کی صورت میں آتو سکتاہے۔ لیکن صرف اس لیے کہ ان اشعار سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی عظمت ظاہر ہو ۔ان حضرات میں سے کسی کا بھی حسنِ سیر ت و کردار ،کرامت اور حسنِ معنوی، صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی تربیت اور فیضانِ نظر کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے اس کے علاہ کچھ نہیں۔ تاریخی استناد کی روشنی میں نعتیہ اشعار کی پرکھ کے اصول:

تاریخی واقعات کو بھی اپنے تعصب کی نذر نہیں کیا جانا چاہیے۔۔۔تاریخ میں لکھا ہے اور بہت لوگوں نے بغیر تحقیق یہ بات باور کرلی ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بلندی پر نصب بت کو توڑنے کا حکم فرمایا۔یہ واقعہ درایت کی رو سے بھی غلط ہے اور روایت بھی اس کی بالکل غلط ہے۔علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی نے بروایت سنن ابی داؤد لکھا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرور تھے لیکن علی بن ابی طالب نہیں بلکہ نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، حضرت بی۔بی۔زینب رضی اللہ عنہا کے فرزندعلی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ تھے:

’’فحمل علی بن ابی العاص علیٰ عاتقہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمنے علی بن ابی العاص کو اپنے کاندھے پر اٹھایا‘‘۔(21)

رحمۃ اللعالمین کے مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے لکھا ہے:

’’فتح مکہ کے دن یہی علی سبطِ رسول، نبی ﷺ کے ناقہ پر حضور کے ردیف تھے‘‘(22)

یہ تو صرف ایک مثا ل ہے تاریخ میں بے احتیاطیوں اور قصداً داخل کی جانے والی جھوٹی روایتوں کی وجہ سے آج امت میں انتشار ہے۔

شعراء ‘نقادانِ فن اور محققین کی توجہ مبذول کروانے کی غرض سے چند ایک ایسی مثالیں پیش کردینا ضروری ہے جن کی شعری بنت، قرآن، حدیث یا تاریخی سند سے متصادم ہے:

واقعہء معراج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو نعتیہ شاعری میں سب سے زیادہ جس واقعے کو خیالی شاعری کے ذریعے روحِ قرآن کے خلاف شعری بنت میں لایا گیا ہے، وہ واقعہء معراج ہے۔اس کی بے شمار مثالیں نعتیہ ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف بیان فرمایا ہے:

’’(ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک ۔بابرکت بنادیا ہم نے جس کے گردونواح کو تاکہ دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں‘‘۔(23)

اس کے علاوہ سورۂ نجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’جب سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ چھارہا تھا۔نہ درماندگی ہوئی چشمِ (مصطفےٰ) اور نہ (حد ادب سے) آگے بڑھی ۔یقیناًانہوں نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔(24)

ضیا القرآن میں پیر محمد کرم شاہ الازہری نے تفسیرِ مظہری کے حوالے سے لکھا ہے:

’’یعنی آیاتِ کبریٰ سے مراد عالمِ ملکوت کی وہ عجیب و غریب چیزیں ہیں جن کا مشاہدہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سفرِ معراج پر جاتے ہوئے اور واپسی کے دوران میں کیا جیسے براق، سمٰوات ، انبیاء، فرشتے، سدرۃ المنتہیٰ ، جنت الماوی ٰ وغیرہا۔۔۔۔۔۔ان اشیاء کو آیاتِ کبریٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان آیات کے ساتھ جن مخصوص تجلیات کا تعلق ہے اور اللہ کی رحمتوں اور برکات کا نزول جس کثرت سے ان پر ہوتا ہے ، وہ کسی دوسری آیت کو نصیب نہیں‘‘۔(25)

آیاتِ قرآنی کے ترجمے اور کچھ تفسیری حاشیئے سے سفرِ معراج کی غرض و غایت واضح ہوجاتی ہے۔لیکن ہمارے شعراء اس سفر سے عجیب و غریب باتیں منسوب کرکے اپنے اشعار کو چٹخارے دار بنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔مثلاً :

’’کچھ اس انداز سے بختِ شبِ معراج چمکا ہے

اجالا تو اجالا ہے، اندھیرا بھی اندھیرا ہے

جو پردہ مدتوں سے درمیاں تھا آج الٹا ہے

محمدؐ عرش پر بیٹھے ہیں چپ خالق یہ کہتا ہے

تمہارا گھر ہے اپنے گھر میں شرمایا نہیں کرتے‘‘ (26)

درجِ بالا بند میں پہلے تین مصرعے ہلال جعفری کے ہیں۔ان مصرعوں میں بیان کی صفائی بھی ہے اور اعتدال بھی لیکن قمر جلالوی کے جس شعرپر یہ تین مصرعے لگائے گئے ہیں وہ معراجیہ ادب میں انتہائی رکیک شعر ہے۔حیرت ہے کہ قمر جلالوی نے جو غلطی کی تھی اس کو تضمین نگار نے خوبی جانا اور اس مبتذل شعر کی تضمین کردی!

قمر جلالوی کا یہ شعر غزل کامحاکاتی بیان لیے ہوئے ہے اور رومانوی انداز کی شاعری کا نمونہ پیش کررہا ہے۔اس شعر میں نہ تو معراجِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی غرض و غایت کا لحاظ کیا گیا ہے اور نہ ہی واقعاتی صداقت کا پہلو سامنے رکھا گیا ہے۔یہاں تو ہر عیب سے پاک خالق کو اپنے مقدس اور پاکیزہ بندے اور رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے ملتے ہوئے ایسے دکھایا گیا ہے کہ اس کی تشریح کرنے میں دینی حمیت اورایمانی غیرت مانع ہے۔پھر اپنے رب سے ایسی بات بھی منسوب کردی گئی ہے جو ہر قرینے سے ’’کذب‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔قمر جلالوی کے شعرکا دوسرا مصرعہ اس انداز سے لکھا گیا ہے کہ یہ قول، اللہ تعالیٰ کا قول بن کر سامنے آیا ہے ۔۔۔

۔۔۔ ع ’’تمہارا گھر ہے۔۔۔الخ‘‘۔

یہ تو ایک مثال ہے۔معراج کے حوالے سے نعتیہ شاعری میں بے شمار اشعار ایسے مل جائیں گے جن میں اللہ رب العزت کو حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دیدار کا تمنائی ظاہر کیا گیا ہے۔گویا [معاذ اللہ]اللہ تعالیٰ زمین پر چلتے ہوئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکو نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس ضمن میں بڑے بڑے جغادریوں نے ٹھوکر کھائی ہے۔علامہ قابل گلاؤٹھوی کا ایک شعر ہے جس کی تضمین ہلال جعفری نے کی :

عرش پر نور کی قندیل سے چلتا ہے پتہ

عبد و معبود کی تشکیل سے چلتا ہے پتہ

آمدِ حضرتِ جبریل سے چلتا ہے پتہ

شبِ معراج کی تفصیل سے چلتا ہے پتہ

اپنے ہی حسن کے خود طالبِ دیدار ہیں آپؐ(27)

اس تضمین کے دوسرے مصرعے میں ’’تشکیل‘‘ کا لفظ ’’عبد و معبود‘‘ کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔تشکیل کے معنی ہیں شکل بنانا، صورت بنانا، خاکہ تیار کرنا، بنانا،مرتب کرنا،شکل دینا۔(اردو لغت، اردو ڈکشنری بورڈ)۔معراج کے حوالے سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ملاقات کو تشکیل کا نام دینا کسی طور مناسب نہیں ہے۔

خیر یہ تو لسانی مسئلہ ہے۔قابل گلاؤٹھوی نے ’’اپنے ہی حسن کے خود طالبِ دیدار ہیں آپؐ‘‘ کہہ کرمعراج کے واقعے کو عجیب رنگ دیدیا۔اب ذرا غور فرمائیے: ’’آپ‘‘ کی ضمیر اگر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی طرف راجع ہے ،تب تو یہ مطلب ہوگا کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا حسن ہی اللہ تعالیٰ کا حسن بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنے ہی حسن کی طلب میں معراج پر تشریف لے گئے تھے۔اس طرح سوچنے سے دو نکتے زیر غور آئیں گے:

حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا حسن اصل ہے اور [نعوذ باللہ من ذالک]اللہ تعالیٰ کا حسن فروع۔

معراج پر جنابِ رسالت مآبصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنی مرضی سے تشریف لے گئے تھے۔

اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔پہلی بات اس لیے کہ اللہ کا وجود ’’واجب‘‘ ہونے کے بجائے’’ ممکن‘‘ ہونے کا احتمال پیدا ہوتا ہے۔۔۔اور دوسری بات واقعاتِ معراج کے صریح خلاف ہے۔پتہ نہیں شاعر کو ’’شب معراج کی تفصیل سے‘‘ کیا پتہ چلا تھا؟

قمر رعینی جیسے بالغ نظر شاعر نے جب معراج کی تلمیح کو متنِ شعر بنایا توعجیب بات کہہ گیا:

’’موسیٰ اللہ کے جلوؤں کے تمنائی تھے

اُنؐ کے دیدار کا اللہ تمنائی ہے‘‘(28)

اس شعر میں اللہ کو نعوذ باللہ دیدارِ محبوب ، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محروم جان کر یہ خیال نظم کردیا گیا ہے کہ:

’’اللہ بھی ان کے دیدار کا تمنائی ہے‘‘۔

اس طرح اللہ کی دو صفات کی نفی ہوگئی۔’’البصیر‘‘ اور ’’الصمد‘‘۔وہ ہرشے کو دیکھ رہا ہے۔اور وہ کسی شے کا محتاج نہیں ہے۔تمنا کرنا محتاجوں کا کام ہے، اللہ کا نہیں۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام کی شان کا استخفاف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ شاعری میں بعض شعراء صرف حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شان ظاہر کرنے کے لیے بلا سند ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جس سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی شان کا استخفاف ہوتا ہے۔ مثلاً:

قربان ہوا جاتا ہے اس در پہ زمانہ

جس در کا تو دربان بھی جبریلِ امیں ہے (29)

یہاں شاعر روضہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو درِرسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کہہ رہا ہے۔ جبریلِ امین نے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دنیاسے پردہ فرمانے کے بعد زمین پر قدم نہیں رکھا۔آخری مرتبہ جبریل امین ملک الموت کے ہمراہ تشریف لائے تھے اور سلام کے بعد یہ اطلاع دیدی تھی کہ ’’آج زمین پر اترنے کا میرے لیے آخری دن تھا۔ (30)۔۔۔۔۔۔ پھر وہ روضہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دربانی کیسے کررہے ہیں۔دربانی کا منصب تو جبریلِ امین کے پاس اس وقت بھی نہیں تھا جب وہ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے پاس وحیء ربانی لاتے تھے۔اس طرح کی باتیں شعراء بہت کرتے ہیں جن سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔

سلطانِ دو جہاں کی یہ عظمت تو دیکھیے

نعلین سر پہ جبریلؑ سا درباں لیے ہوئے ( 31)

اس شعر کا دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔لیکن اس مصرعے میں جبریلؑ کی دربانی کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے سر پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے نعلینِ مبارک رکھوادیئے گئے ہیں۔یہ صریحاً حضرت جبرائیل علیہ السلام کی شان کا استخفاف ہے۔ابولفضل قاضی عیَّاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریفِ حقوق المصطفیٰصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ میں ’’انبیاء اور فرشتوں کی تنقیص کرنے والے کا حکم‘‘ کے عنوان سے ایک پورا باب باندھا ہے۔من گھڑت باتیں کذب کے درجے میں آتی ہیں۔ایسی باتوں سے نعت گو شاعر کو بھی گریز لازم ہے اور نقاد کی ذمہ داری ہے کہ اس پر گرفت کرے۔محقق بھی ان باتوں کا خیال رکھے!

قرآن کریم کے واضح اعلان سے انحراف کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

’’اَنَا بَشَرٌ زمانہ تم کو سمجھے، ہم نہ سمجھیں گے

بنائے کن فکاں تم، وجہ تخلیقِ جہاں تم ہو‘‘ (32)

اس شعر کا متن ،سورۂ حٰمٓ السجدہکی درجِ ذیل آیت سے اخذ کیا گیا ہے۔

’’قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْ حٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّا حِدٌ۔۔۔‘‘

(اے نبی ؐ ان سے کہیے کہ بس میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا بتایا جاتا ہے بذریعہ وحی مجھے کہ بس تمہارا معبود ایسا معبود ہے جو ایک ہی ہے)۔(33)

محولہ بالا شعر میں حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی بشریت سے انکار کے لیے شاعر نے قرآن کے الفاظ دہرانے کے بعد اپنا موقف بیان کیا ہے۔اللہ مرحوم شاعر کی غلطی معاف فرمائے(آمین)!

حدیثِ قدسی سے انحراف کی مثال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حدیثِ قدسی وہ حدیث کہلاتی ہے جو قرآنِ کریم کا حصہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی تلاوت قرآنِ پاک کی طرح کی جاتی ہے ۔لیکن اس حدیث کا ’’متن‘‘ اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔یعنی :

’’حدیثِ قدسی وہ کلام ہے جس کے الفاظ تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہوں اور اس کے معانی الہام یا خواب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بتلائے ہوئے ہوں‘‘۔(34)

اس وضاحت کے بعد یہاں ایک حدیثِ قدسی نقل کی جاتی ہے:

’’کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَا حْبِبْتُ عَنْ اُعْرِفَ فَخَلَقْتَ ا لْخَلْق‘‘

(میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو خلق کو پیدا کیا میں نے)‘‘۔ (35)

یہاں اللہ تعالیٰ جل مجدہٗ کے لیے ’’چھپا ہوا خزانہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اس حدیث کا علم ہمارے شعراء کو بھی ہے۔لیکن بعض شعراء ،حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات کو درجہء الوہیت پر فائز دیکھنے اور دکھانے کی آرزو رکھتے ہیں۔اسی لیے وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس سے ان کی تمنا بھی پوری ہوجائے اور نبی علیہ السلام کو ،براہِ راست ’’الہٰ‘‘ کہنے کی تہمت سے بھی بچ سکیں۔ایسی ہی ایک کوشش ملاحظہ ہو:

آپؐ سے ظاہر ہوا ہے حسنِ ربِ ذوالجلال

کنت کنزاً کا خزانہ آپؐ ہیں بس آپؐ ہیں (36)

اس شعر میں شاعر نے ’’کنت کنزاً کا خزانہ‘‘ کہہ کر ’’اللہ رب العزت‘‘ کے بجائے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ والا صفات کو مخاطب کیا ہے۔ نعتیہ شاعری میں اس طرح کے مضامین باندھنا کوئی مستحسن عمل نہیں ہوسکتا۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔

حدیثوں کی صحیح روایت کے بجائے خیالی مضمون باندھنے کی مثال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بخاری، مسلم ، بیہقی ،ترمذی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہم نے کچھ روایات نقل کی ہیں جن کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ’’دونوں شانوں کے درمیان بلند گوشت تھا‘‘، یہ مہرِ نبوت تھی۔(37)

ان روایتوں کے برعکس شاعرنے مہرِ نبوت کا مضمون اس طرح باندھا ہے:

سرکارؐ کی جبیں پہ رسالت کی مہر تھی

سینے پہ ثبت ختم نبوت کی مہر تھی(38)

ظاہر ہے یہ تخیلاتی شعر ہے اور حقیقت سے بہت دور جا پڑا ہے۔

خیال کو واقعہ بناکر پیش کرنے کی مثال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایسے اشعار پیش کرنے سے پیشتر ڈاکٹر عندلیب شادانی کا عام شاعری پر تبصرہ ملاحظہ ہو۔وہ لکھتے ہیں:

’’معاد کا عقیدہ تو اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے لیکن قیامت کب آئے گی اس کی تعیین کسی نے نہیں کی۔۔۔ہمارے شعراء خصوصاً چوٹی کے غزل گوجس درجہ حساس واقع ہوئے ہیں ، وہ ظاہرہے۔بھلا ان سے اس غیر معین حالت کی برداشت کہاں ممکن تھی اور وہ کب تک انتظار کرسکتے تھے۔اس لیے انھوں نے اپنی خیالی دنیا بنائی اور اس دنیا میں پہنچنے کے لیے فرضی طور پر یا تو جلاد محبوب کی چھری سے ہلاک ہوئے یا پھر اس کے جورو ستم کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان دیدی۔پھر قیامت قائم کی۔حشر و نشر کے سامان ہوئے ۔خدائی دربار سجایا اور داورِ محشر کے سامنے فریادلے کر پہنچے۔چوں کہ یہ حضرات شاعر ہونے کی حیثیت سے گویا ایک ہی ’’امت‘‘ کے افراد ہیں۔اسی لیے حشر میں سب کو تقریباً ایک ہی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں‘‘۔(39)

ڈاکٹر عندلیب شادانی نے غزل کے ایسے اشعار پر طنز کیا ہے، جو حشر میں عاشق کی فریاد پیش ہونے پر محبوب کے خجل ہونے کے تخیلاتی مضامین کے حامل تھے۔ایسے مضامین باندھنا روایتی غزل گوؤں کا بھی شعار رہا ہے اور جدید دور میں بھی کہیں کہیں یہ مضامین نظر آجاتے ہیں۔اس کے باوجودغزل میں تخیلاتی شاعری کرنا ، واقعاتی حوالے سے کتنا ہی بعید کیوں نہ ہو، بہت زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔لیکن نعت ایک مقدس صنفِ سخن ہے۔یہاں بیان کی صداقت لازمی ہے۔چاہے وہ لمحاتی صداقت ہی کیوں نہ ہو۔ شعر گوئی کے وقت جو کیفیت شاعر پر غلبہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی طاری ہوجائے وہ بھی لمحاتی صداقت کے ذیل میں آتی ہے۔چنانچہ اس خاص کیفیت کے اظہار کوبھی صداقت ہی کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔تاہم اس لمحاتی کیفیت کو اسی دنیاوی زندگی کا عکاس ہونا چاہیے۔حشر و نشر کے تخیلاتی بیان کو واقعاتی سطح پر بیان کرنے سے گریز لازم ہے۔ورنہ شاعر خواہ مخواہ دروغ گو قرار پائے گا۔ایسی باتوں پر عاقبت میں گرفت بھی ہوسکتی ہے۔درجِ ذیل اشعار پر ذرا غور فرمائیے:

’’دفن کرکے جب مرے احباب آقا چل دئیے

آکے جلوؤوں سے لحد کو جگمگایا شکریہ

پیاس ابھی بڑھنے بھی پائی تھی نہ میری حشر میں

جام کوثر تم نے خود آکر پلایا شکریہ

عیب محشر میں کھلا ہی چاہتے تھے میں نثار

ڈھک کے پردہ اپنے دامن میں چھپایا شکریہ

سوئے دوزخ جب ملائک مجھ کو لے کر چل دیئے

میں ترے صدقے مجھے آکر چھڑا یا شکریہ

شکریہ کیوں کر ادا ہو آپ کا یا مصطفی

کہ پڑوسی خلد میں اپنا بنایا شکریہ (40)

درجِ بالا اشعارشعری جمالیات سے تو دور ہیں ہی، خالصتاً تصوراتی واقعات پربھی مبنی ہیں۔شاعر کا اس دنیا سے رخصت ہوکر لحد میں چلا جانا اور وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا جلوہ افروز ہونا۔شاعر کا یومِ حشر حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دستِ مبارک سے کوثر کا پیالہ پینا ۔ شاعر کے عیبوں کی حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہاتھوں سترپوشی ہونا۔شاعر کے بارے میں دوزخ کا فیصلہ ہوجانا اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا شاعر کو فرشتوں کے چنگل سے چھڑانا ۔ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا شاعر کو اس سخت گھڑی میں سہارا دینا اور جنت میں لے جاکر اپنے پڑوس میں جگہ عطا کرنا۔۔۔کیا یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے؟۔۔۔جواب نفی میں ہی ہوگا!۔۔۔پھر ان احوال کو اس طرح بیان کیوں کیا گیاکہ ایسا معلوم ہو جیسے یہ تمام واقعات شاعرکے ساتھ پیش آچکے ہیں؟۔۔۔ اس کی وجہ شاعر کی نفسی کیفیت ہے اور کچھ نہیں۔ہوسکتا ہے شاعر نے کوئی خواب دیکھا ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے اوریہ زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ شاعر نے اپنے احوال کا تصوراتی آنکھ سے مشاہدہ کیا ہو!۔۔۔بہر کیف ، کچھ بھی ہو، بیان میں صداقت کا عنصر قطعی نہیں ہے۔شاعر ابھی اسی دنیائے آب و گل میں ہے تب ہی تو شاعری کررہا ہے۔۔۔اور اس دنیا میں یہ تمام احوال پیش آنا ممکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام اشعار میں نہ تو کوئی قرینہ ‘خواب کا ہے اور نہ ہی شاعر کی تمنا کا اظہار ہوا ہے۔اگر شاعر اپنی تمنا کا اظہار کرتا تو صیغہء مستقبل میں بات کرتا اوردرخواست کرتا ہوا نظر آتا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم! مجھے آپ کی ذاتِ والا صفات سے ایسی ایسی عنایات کی توقع ہے!اے کاش ایسا ہوجائے!۔۔۔اس کے برعکس تمام اشعار میں شاعر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے براہِ راست مخاطب ہے اور عنایاتِ خسروانہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا ’’شکریہ‘‘ ادا کررہا ہے۔شکریہ نعمتیں حاصل ہوجانے کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔۔۔اور یہاں یہ تمام نعمتیں ابھی شاعر کو حاصل ہی نہیں ہوئی ہیں۔۔۔ایسی صورت میں شاعر نے غیر ارادی طور پر حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا شکریہ ادا کرکے اپنے لہجے کو [نعوذ باللہ]طنزیہ بنالیا۔کیوں عام طور پر اپنی توقعات پوری نہ ہونے پر طنزاًکسی کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے ۔ہم تو صرف ظاہر پر حکم لگا سکتے ہیں۔حدیث شریف ہے ’’نحن نحکم بالظاہر واللہ یتولی السرائر‘‘(ہم ظاہر پر حکم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سرائر کا ذمے دار ہے، یعنی باطن سے اللہ واقف ہے)۔

اس موقع پر ایک بات اور صاف کرتا چلوں۔بعض لوگ صوفیانہ شطحیات کے اظہار میں بے باک ہوتے ہیں۔شطحیات کیا ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے سرِ دلبراں دیکھی تو وہاں لکھا ہے:

’’شطحیات:جمع ہے شطح کی۔یہ وہ کلمات ہیں جو صوفیائے کرام کی زبان سے مستی و شوق و غلبہء حال میں بے اختیار صادر ہوجاتے ہیں۔جو بظاہر شریعت کے خلاف معلوم ہوتے ہیں مگر باطناً کسی سِرّ کی جانب ان میں اشارہ ہوتا ہے۔گو ہر شخص ان اشارات کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے۔اس قسم کے کلمات کے متعلق مشائخین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی روش یہ ہے کہ انھیں نہ رد کرتے ہیں نہ قبول ، تاوقتیکہ سمجھ نہ لیں‘‘۔(41)

شاہ سید محمد ذوقی ؒ کی درجِ بالا عبارت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم شاعر کے اشعار کو نہ تو قبول کرتے اور نہ ہی رد کرنے کی جسارت کرتے۔۔۔لیکن یہ معاملہ کائنات کی سب سے سچی اور بعد از خدا بزرگ ہستی جنابِ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے حوالے سے نہ صرف بیان ہوا تھا بلکہ مشتہر بھی ہوا (کسی کتاب کی طباعت کا مرحلہ بقائمِ ہوش و حواس ،ہی پیش آتاہے)اس لیے ہم پر لازم ہوگیا کہ اس کی طرف کچھ تنقیدی اشارے کردیں تاکہ کتاب پڑھنے والوں اور عوامی سطح پر ان اشعار کو دہرانے والوں پر حقیقتِ حال کھل جائے۔شعراء بھی اپنی شاعری میں ایسی باتوں کے اظہار سے گریز کریں ‘نقادانِ فن بھی ایسے معاملات میں چو کنے رہیں اور محققین بھی بیدار مغزی کا ثبوت دیں۔

ایک شاعر نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے پردہ فرمانے کے بعد حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے غم کی کیفیت کا خیالی بیان شعروں میں ڈھالا ہے اور ان کو دلاسہ دینے کے لیے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی صداؤں کا بار بار آنا ذکر کیا ہے۔ان صداؤں کا سنا جانا ممکن تو تھا لیکن یہ کسی مستند حدیث میں مذکور نہیں۔ثانیاً ان صداؤں میں جو تمنائیں اظہار پذیر ہوئی ہیں وہ مزاجِ نبوت سے متصادم ہیں۔عجیب بات کہ شاعر نے تخیلات کی دنیا سجاتے ہوئے اپنی عاقبت کا بھی خیال نہیں رکھا۔وہ لکھتا ہے:

’’کھا کر پچھاڑیں روتی تھیں زہرا جو زارزار

آتی تھیں مصطفیؐ کی صدائیں یہ باربار

بیٹی!مرے کلیجے کے ٹکڑے، ترے نثار

نورِ نگاہ میرے نواسوں سے ہوشیار

مہلت ملے تو دونوں کی شادی رچائیو

دولھا دلھن کو میری لحد پر بھی لائیو(42)

ا فسوس !حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ا مت کے شاعر ،مزاجِ رسالت سے آگاہ نہیں ہوسکے!انہیں نہیں معلوم کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے نا ممکن ا لوقوع باتوں کا صدور نہیں ہوتا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا یہ مقام بھی قطعی نہیں ہے کہ وہ بہت چھوٹی چھوٹی خواہشات کا اظہار فرمائیں اور وہ بھی کب، جب اس دنیا سے پردہ فرماجائیں!بھلا ننھے معصوم بچوں کی شادی کا خیال قرینِ قیاس ہوسکتا ہے؟لاریب ہٰذا بہتان العظیم!

اصل حقیقت کیا تھی؟ ۔۔۔۔۔۔حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے پردہ فرمانے سے چند یوم قبل حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو یہ خبر دیدی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی رحلت کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے ملیں گی!ا لخصائص الکبریٰ میں امام جلال الدین سیوطی نے حدیث بیان کی ہے:

’’طبرانی و بیہقی رحمہما اللہ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے مرض میں بلایا اور ان سے راز کی کچھ دیر باتیں فرمائیں اور وہ رونے لگیں اس کے بعد ان سے کچھ دیر اور راز میں باتیں فرمائیں اور وہ ہنسنے لگیں پھر میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے پہلی مرتبہ تو یہ خبر دی کہ جبریل علیہ السلام ہر سال ہر رمضان میں ایک مرتبہ قرآن کا دور کراتے تھے اور اس سال انہوں نے دو مرتبہ قرآن کا دور کرایا ہے اورمجھے خبر دی کہ کوئی نبی نہیں ہوا مگر اس کے بعد نبی آیا اور اس نے نصف عمر اس کے ساتھ گزاری اور نصف عمر اس کے بعد گزاری اور فرمایا: اے بیٹی! مسلمان عورتوں میں سے کوئی عورت مصیبت میں تم سے اعظم نہیں ہے تو تم صبر میں ادنیٰ عورت نہ ہونا۔۔۔۔۔۔اور دوسری مرتبہ جو مجھ سے راز میں گفتگو کی تو اس میں مجھے خبر دی کہ میں آپ کی اہل بیت میں سے سب سے پہلے آپ سے ملوں گی اور فرمایا تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو بجز اس کے جو مریم بنتِ عمران رضی اللہ عنہا سے تعلق رکھتی ہو، اس بنا پر میں ہنس پڑی‘‘۔(43)

اس مستند روایت کی موجودگی میں نہ تو یہ ممکن ہے کہ حضرتِ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے ایسے بین کیا ہو جیسے شاعر نے لکھا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی پیاری بیٹی کو اس کے بچوں کی شادی کرنے اور ان کی دلہنوں کو اپنی لحدِ مبارک پر لانے کی تلقین فرما ئی ہو!

بچوں کی شادی کا شوشہ تو خود شاعر نے اپنی ذہنی اختراع سے چھوڑاہے۔ورنہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ اولاد کے سنِ بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دنیا چھوڑ دیں گی اور یقیناًایسا ہی ہوا۔ حضرت فاطمہ کا وصال ۱۱ھجری میں ہوگیا۔پھر ایسی خواہشات[بچوں کی شادی] کا اظہار زبانِ نبوت سے کروانا کس قدر قبیح اور لائق گرفت فعل ہے اس کا اندازہ راسخون فی العلم ہی کو ہوسکتا ہے۔

مسئلۂ امتناعِ نظیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امام جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب میں ایک عنوان قائم کیا ہے ’’مَلَأ اعلیٰ پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا اسم مبارک‘‘۔ اس عنوان کے تحت ایک طویل حدیث نقل کی ہے۔ہم وہ حدیث من و عن یہاں پیش کرتے ہیں:

’’حاکم ، بیہقی اور طبرانی رحمہم اللہ نے ’’صغیر‘‘ میں اور ابو نعیم اور ابنِ عساکر رحمہم اللہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب خطا سرزد ہوگئی تو انہوں نے التجا کی ’’اے رب!بہ حقِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مجھے بخش دے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’تم نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو کس طرح جانا؟‘‘ عرض کیا: ’’جب تونے میرے پتلے کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور جان آفرینی کی، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ عرشِ اعلیٰ کے ستونوں پر لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے۔ تو میں نے جان لیا کہ جس ذاتِ اقدس کا نام نامی تیرے اسم گرامی کے ساتھ مکتوب ہے یقیناًوہ تیری بارگاہ میں دیگر ساری مخلوق سے اعلیٰ و محترم ہوگا‘‘۔ربِّ عظیم نے فرمایا:’’اے آدم!تم نے ٹھیک سمجھا۔اگر محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نہ ہوتے تو میں نہ تم کو پیدا کرتا نہ کائنات کو ‘‘۔حدیثِ قدسی ہے ۔اللہ عزَّوجل فرماتا ہے ’’لو لاک لما خلقت الافلاک‘‘ ۔ اس حدیثِ قدسی کے یہی معنی ہیں یعنی یہ تمام کائنات اور عالم اجساد صدقہ ہے وجودِ باجود جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا‘‘۔(44)

گو بعض علماء نے اس’’لولاک‘‘ والی حدیثِ قدسی پر کلام بھی کیا ہے تاہم نفسِ مضمون پر بیشتر کا اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔راقم الحروف نے پندرہ سو سال کے شعری سرمائے سے کچھ اشعار منتخب کرکے اپنے ایک مضمون میں یکجا کردیئے ہیں جن میں بالکل درست طریقے سے صحیح روایتوں کا لحاظ کرکے شعراء نے حصر کے ساتھ حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی ذاتِ پاک کو ’’مقصودِ کائنات‘‘ کہاہے۔(’’ہنر نازک ہے‘‘ کے صفحات 94 تا 118 ملاحظہ ہوں)۔

شعراء ، ادباء، مغازی نویسوں، سیرت نگاروں اورتاریخ دانوں کے اجماعی مسئلے کو اردو کے ایک شاعر ، بیدم ؔ وارثی نے صوفیانہ شطح کے تحت ایک شعر لکھ کر متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کی۔قوالوں نے اس شعر کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔میں نے وہ شعر بیدمؔ وارثی کے دیوان میں نہیں پایا۔ہوسکتا ہے کسی اورشاعر کا ہو اور بیدم وارثی سے منسوب کردیا گیاہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شعر کہہ کر شاعر نے اسے قابلِ اشاعت نہیں جانا ہو۔بہر حال وہ شعر منسوب بیدمؔ وارثی ہی سے ہے۔رشید وارثی نے وہ شعر اپنے مضامین میں نقل کیا ہے۔ شعر ہے:

بیدمؔ یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات

خیرالنسأ، حسینؓ و حسنؓ، مصطفیٰ ٰؐ علیؓ (45)

اس شعر میں حدیثِ قدسی کے برعکس حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات کے علاوہ چار اور مقدس ہستیوں کو ’’مقصودِ کائنات‘‘ قراردیا گیا ہے۔گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پانچ مقدس ہستیوں میں سے ایک تھے اور شعر میں مذکور مقدس ہستیوں میں بھی چوتھے نمبر پر!۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک یہ صریح ’’شرک فی النبوت‘‘ ہے۔

عقیدت بھی عجیب ہوتی ہے‘جب انسان پر اس کا غلبہ ہوجائے تو یہ نبی کو خدا کے درجے تک پہنچانے کی سعی کرتی ہے اور جب کسی بزرگ سے عقیدت ہوجائے تو ان بزرگ کو نبی کا درجہ دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی۔اہلِ تصوف اور شعراء میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی علیہ السلام کو خدا کے مرتبے سے چھوٹا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ’’احمدؐ‘‘ کا ’’میم‘‘ حذف کردیں اور ’’احد‘‘ پکاریں۔اسی طرح اپنے اپنے بزرگوں کو نبی اور خضر سے بھی بلند مقام پر دیکھنے اور دکھانے کے آرزو مند حضرات کی بھی کمی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔دور کیوں جائیں، علامہ اقبال بھی جب حضرت محبوبِ الہٰی رحمۃ اللہ علیہ کی منقبت کہتے ہیں تو فرماتے ہیں:

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا(46)

لیکن اس کے باوجود اقبال کی دینی بصیرت نے حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مرتبے کا استخفاف کبھی گوارا نہیں کیا ۔بلکہ شرک فی النبوت کی جڑ کاٹنے کے لیے انہوں نے بر ملا یہ کہہ دیا:

اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک

بزم را روشن زِ نورِ شمعِ ایماں کردہ ای

(اے [نبیء مکرم ﷺ] آپ کی ذات وہ ذات ہے جس کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ اس طور بند ہوا کہ اب ہرمفہوم میں نبوت شرک ٹھہری ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے محفلِ کائنات کو شمعِ ایمان کے نور سے روشن فرما دیا ) ۔۔۔(47)

بیدم وارثی کا شعر تو ان لوگوں کے لیے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور ان کے خانوادے سے محبت کرتے ہیں (نعوذ باللہ)حدیث اور قرآن کے احکامات کے مساوی ہے۔اس لیے جب میں نے اپنے مضامین میں اس شعرکی طرف توجہ دلائی تو رشید وارثی نے مجھے بلا تاخیر ناصبیت زدہ ذہنیت کا مالک قراردیدیا(48) رشید وارثی کے مزاج کی جھنجھلاہٹ کا یہ حال تھا کہ جب ان کے اشعار میں عروضی اسقام کی نشاندہی کی گئی تو کوئی علمی دلیل دینے کے بجائے انہوں نے یہ لکھ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ:

’’ہمارے نعتیہ ادب کے بعض تنقید نگار وں میں یہ لائق توجہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ فنِ عروض میں کسی حد تک شد بد حاصل کرلینے کے بعد اسی کو نعتیہ تنقید نگاری کی اساس سمجھ کر اس پر انحصار کربیٹھتے ہیں۔علمِ عروض کی کوئی شرعی اہمیت تو خیر ہے ہی نہیں‘‘(49 )

۔۔۔۔۔۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو آدمی اپنی ذراسی غلطی ماننے کے لیے تیار نہ ہو اور اپنا موقف منوانے کے لیے علم کی کسی بھی شاخ(Discipline) کو رد کرنے پر آمادہ ہوجائے بھلا وہ اپنے گروہ کے کسی شخص کی بڑی غلطی کس طرح تسلیم کرسکتا ہے؟۔۔۔چنانچہ یہی ہوا کہ رشید وارثی نے میرے موقف کو رد کرنے کی کوشش کی اور جب انہیں کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ بھی کچھ بزرگوں کو ’’مقصودِ کائنات‘‘ قرار دیا گیا ہو،تو انہوں نے تاویلات کا سہارا لیا۔ظاہر ہے سند نہ ملنے پر تاویلات ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔انہوں نے اپنی کتاب ’’اردونعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے صفحات ۳۴ سے ۳۹ تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے خانوادے کے لیے کچھ ایسی احادیث پیش کردیں‘ جن سے ان حضرات کے فضائل کا اظہار ہوتا ہے۔حالآنکہ سب جانتے ہیں کہ مناقب کی بہت ساری احادیث دیگر اصحاب رضوان اللہ علیہم اور ازواجِ مطہرات سلام اللہ علیھن کے لیے بھی موجود ہیں۔ایسی صورت میں تو کوئی بھی ان احادیث کا سہارا لے کر کسی بھی شخصیت کو مقصودِ کائنات ٹھہرا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔بیدم وارثی کے مذکورہ شعر کی وکالت کرتے ہوئے رشید وارثی نے بہت کچھ لکھا لیکن اپنی دلیل منوانے کے لیے انہیں کوئی حدیث تو کیا ملتی ‘ چودہ سو سال کے شعری سرمائے سے مذکورہ شعر کے قریب المفہوم کوئی شعر بھی نہیں ملا۔حد ہے کہ انہوں نے اپنا بھی کوئی شعر نقل نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس ان کی کتاب میں جا بجا اس حقیقت کا اظہار ہوا ہے کہ ’’مقصودِ کائنات‘‘ صرف اور صرف حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 49 پرلکھا ہے:

’’باعثِ تخلیقِ کائنات ،فخرِ موجودات، مظہرِ شان کبریا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ اقدس میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘۔(50)

اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ رشید وارثی نے بیدمؔ وارثی کے شعر کی تعریف و توصیف میں اور اس کے نفسِ مضمون کی صحت ظاہر کرنے میں زور قلم تو صرف کردیا لیکن خود ان کے تحت الشعور میں حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ٹھیک ٹھیک بیٹھی ہوئی تھی اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب میں ’’باعثِ تخلیقِ کا ئنات‘‘ صرف حضور علیہ السلام کو جانا اور لکھا ہے۔ لیکن گروہی عصبیت ان پر اتنی غالب آئی کہ بیدم وارثی کی وکالت میں بیجا دلائل دینے کی کوشش میں وہ قطعی پیچھے نہیں رہے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی خطائیں معاف فرمائے (آمین!)

راقم الحروف کو اس شعر پر گفتگو کرتے ہوئے 1820ء ؁ میں مولوی اسماعیل دہلوی کی کہی ہوئی ایک بات یاد آرہی ہے ڈاکٹر الف۔د۔نسیم نے علامہ اقبال کی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ کی شرح میں لکھا ہے:

’’بر صغیر میں انگریزی دور کی چھتری کے تحت بعض ہندوستانی مسلمانوں نے جو طرح طرح کے اختلافی مسائل کھڑے کردیئے تھے ان میں سے ایک یہ مسئلہ رحمۃ للعالمین بھی تھا اور ایک عالم جن کا نام محمد اسمٰعیل تھا اس مسئلے پر خاص طور پر بحثیں کررہے تھے وہ چاہتے تھے جس طرح اللہ نئے جہان پیدا کرسکتا ہے نئے رحمتِ عالم بھی پیدا کرسکتا ہے۔یہ اس کے لیے مشکل نہیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح کا اور پیغمبر پیدا کرنا اس کی قدرت میں ہے اس طرح ہر جہان کے لیے ایک الگ رحمتِ عالم ہوسکتا ہے۔جبکہ قرآن نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی جملہ عالموں کی رحمت قرار دیتا ہے۔اس لیے کسی اور جہان میں کسی نئے رحمتِ عالم کے وجود کا ہونا ممکن نہیں۔جہان چاہے لاکھوں ہوں رحمتِ عالم سب کے لیے صرف ایک ہی ہے جس کو خود خالقِ کائنات نے رحمۃ للعالمین یعنی جملہ جہانوں کے لیے رحمت قراردیا ہے اور وہ ہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ‘‘۔(51)

غالبؔ نے بھی مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے اصرار پر ایک مثنوی ’’امتناعِ نظیر‘‘ لکھی تھی۔ حالی نے یادگارِ غالب میں یہ پورا واقعہ بھی درج کیاہے ۔وہیں غالبؔ کا یہ شعر بھی درج ہے:

’’منشا ءِ ایجادِ ہر عالم یکیست

گردو صد عالم بود خاتم یکیست‘‘ (52)

(ہر عالم کی پیدائش کا منشا صرف ایک ہے ۔اگر دو صد[سینکڑوں] عوالم بھی ہوں تب بھی ’’خاتَم‘‘ ایک ہی ہوگا۔)

راقم الحروف نے بیدم وارثی کے مذکورہ شعر کو مسئلۂ امکانِ نظیر سے جوڑا تو روح کانپ گئی۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اس لیے ’’خاتم النبیین ‘‘کا منصب حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ذاتِ والا صفات کی یکتائی کا مظہرہے۔محولہ حدیثِ قدسی بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ذاتِ والا صفات ہی کومقصودِ کائنات ٹھہراتی ہے۔ان شواہد اور اجماعِ امت کے تناظر میں بیدم وارثی کا شعر عقیدے کے طور پر قبول کرلینا حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی یکتائی کے تصور کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔اس لیے اس طرح کے خیالات سے شعراء،نقاد اور محققین کو اجتناب کرنا چاہیے۔

حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے اصحاب یا ان کے قرابت داروں کی محبت لاکھ ابھارے ، عقیدہ درست رہنا ضروری ہے۔حضور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے مقام کو بڑھا کر اللہ کے مرتبے پر پہنچانا بھی گمراہی ہے اور حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے مرتبے کے برابر کسی اور کا مرتبہ ماننا بھی گمراہی ہے۔نبیِ کریم کی شانِ یکتائی پر جس بات سے بھی حرف آتا ہو ، وہ مرتبہء رسالت کے استخفاف کا باعث ہوگی۔اس لیے ہر نعت گو شاعر کا فرض ہے کہ ایسے خیالات منظوم کرنے سے اجتناب کرے اور ہر نقاد کا فرض ہے کہ ایسے خیالات جس بیت یا نظم میں نظر آئیں ان پر قرینے سے تنقید کرے۔یہی فریضہ محقق کا بھی ہے۔

الفاظ کے استعمال میں احتیاط کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الفاظ کے استعمال میں عام بول چال میں بھی بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاعری تو کام ہی الفاظ کے استعمال کا ہے۔اس لیے اس فن کی آبیاری کے لیے شاعر میں الفاظ کو پرکھنے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔الفاظ تو الفاظ ان کی شعر میں بُنت بھی درست ہونا ضروری ہے ورنہ بات کچھ کی کچھ ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔مولوی نجم الغنی رامپوری نے بحرالفصاحت میں لکھا ہے:

’’ایک شاعر نے جہانگیر کی مدح میں ایک قصیدہ کہا تھا اور اس نے پڑھنا شروع کیا۔جیسے ہی کہ پیش مصرع مطلع کا پڑھا:

اے تاج دولت بر سرت از ابتدا تا انتہا

فرمایا کہ تو عروض جانتا ہے؟ اور شعر کے وزن و تقطیع سے با خبر ہے؟عرض کیا کہ مجھے یہ چیزیں معلوم نہیں۔فرمایا کہ اگر عروض دان ہوتا تو تیری گردن مر وا دیتا۔شاعر بیچارہ گھبراگیاکہ کیا خطا واقع ہوئی۔مہربانی سے آگے طلب کرکے فرمایا کہ جب اس مصرع کی تقطیع کریں تو اس طرح وزن ہوگا:

اے تاجِ دو ’’مستفعلن‘‘ لت بر سر ت ’’مستفعلن‘‘ از ابتدا ’’مستفعلن‘‘ تا انتہا ’’مستفعلن‘‘۔ ’’لت بر سرت‘‘ بد یُمن اور بد فال ہے۔شاعر کو ایسی چیزوں سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔( 53)

جہانگیر بادشاہ کے لیے جو قصیدہ پڑھا گیا تھا اس میں لفظ غلط نہیں تھا صرف یہ عیب تھا کہ تقطیع میں ’’لت بر سرت‘‘ آتا تھا جس کا مطلب ہے ’’تیرے سر پر لات‘‘ ۔اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعری میں نہ صرف لفظوں کا درست استعمال بڑا ضروری ہے بلکہ لفظوں کی ایسی تشکیل سے بھی بچنا ضروری ہے جن کی تقطیع کی جائے تو بات کچھ کی کچھ بن جائے۔

مجھے لفظوں کے غلط استعمال کی بہت سی مثالیں ملی ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لیے صرف چندایک پیش کردیتا ہوں۔

اللہ کے ذاتی نام کے غلط تلفظ کی مثال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قمر رعینی لکھتے ہیں:

’’[میں نے]لفظ اللہ کو فعلن کے وزن پر ا لاَّ نہیں لکھا بلکہ اس میں اللہ کی ہائے ہوز کو واضح طور پر مفعول کے وزن پر باندھا ہے یعنی ع اللہ کو ا لَّا نہیں اللہ کہا(54)

مجھے بھی اس بات پر اصرار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کو مخفف نہیں کرنا چاہیے، چاہے شعری ضرورت کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس فعلِ قبیح سے بچنا لازمی ہے ۔ اللہ کا لفظ پانچ حرفی ہے(بروزن مفعول) اور اس کا ہر لفظ پورا پڑھا جاتا ہے۔اس لیے اسے کسی طور چار حرفی (بر وزن فعلن) بنا کر نہیں لکھنا چاہیے۔

’’کبریا‘‘ کا بے محل استعمال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے ’’اللہ‘‘ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہے۔شعراء نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ’’کبریا‘‘ کو پہلے پہل جس نے بھی اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہوگا اس نے عربی قاعدے سے ناواقفیت کی بنا پر یا اپنے غلط اجتہاد کی بنا پر ایسا کیا ہوگا۔حالانکہ یہ صرف صفت ہے اسمِ صفت نہیں ہے۔قرآنِ کریم میں یہ لفظ صرف دو بار آیا ہے۔سورۂ یونس اور الجاثیہ میں:

وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیآ ءُ فِی اْلَاْرضِ ط ۔۔۔

اور حاصل ہوجائے تم دونوں کو سرداری اس ملک میں۔(55)۔۔۔

وَ لَہُ ا لْکِبْرِیَآ ءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ص ۔۔۔

اور اسی کو سزاوار ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں۔(56)

قرآن کریم کی درجِ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ کبریا بڑائی کو کہتے ہیں ’’بڑے‘‘ کو نہیں۔اللہ کے لیے ’’اکبر‘‘ بھی اسمِ ذات (اللہ) کے ساتھ بولا اور لکھا جاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ اردو لغت بورڈ ، کراچی ، میں بھی ’’کبریا‘‘ کے معنی خدا تعالیٰ کے صفاتی نام کے ہی دیئے ہیں۔حالانکہ اسی لغت میں اس لفظ کے معنی بزرگی، عظمت ، شان و شوکت ، جاہ و جلال ، قدرت اور فضیلت بھی رقم ہیں اور میر کا یہ شعر بھی درج ہے جو اس لفظ کے بالکل درست استعمال کی طرف اشارہ کررہا ہے:

’’میر ؔ ناچیز مشتِ خاک اللہ

ان نے یہ کبریا کہاں پائی‘‘(57)

ان حقائق کی روشنی میں ’’کبریا‘‘ کو اللہ کے صفاتی نام کے طور پر برتنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

میٹھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک صاحب نے بلا سوچے سمجھے حضورِ اکرم کے لیے میٹھے نبیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ترکیب استعمال کی۔میٹھا ، اشیاء کی شیرینی کے لیے تو استعمال ہوتا ہے ۔افراد کے لیے اس کے استعمال میں خوبی کے بجائے ذم کا پہلو ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں لفظ ’’راعنا‘‘ کے استعمال کی ممانعت کے ذریعے واضح فرمان جاری کردیا ہے کہ نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے لیے کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے جو ’’ذو معنی‘‘ ہو اور جس میں اچھائی اور برائی کے دونوں معنی پائے جاتے ہوں۔اس لیے میٹھے نبیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کہنا بھی حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ۔پہلے مطلع ملاحظہ فرمائیں:

’’عرشِ علیٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہ

ہے ہر مکاں سے بالا میٹھے نبی کا روضہ‘‘ (58)

جس نعتیہ غزل کا مطلع اوپر درج کیا گیا ہے اس کے بارہ اشعار ہیں۔اس طرح ’’میٹھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ‘‘ کی ترکیب تیرہ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔اب لفظ ’’میٹھے ‘‘کے وہ استعمالات ملاحظہ فرمائیے جو افراد کے لیے ہوں تو کیا معانی دیتے ہیں:

میٹھا: 1۔(کنایتہ ) وہ شخص جس کی باتیں اور حرکتیں عورتوں کی سی ہوں،زنان منتری، زنانہ، زنخا، ہیجڑا(فرہنگِ آصفیہ)۔۔۔ 2۔میٹھا ٹھگ: میٹھی میٹھی باتیں بنا کر ٹھگنے والا یار، دغا باز، بددیانت، جھوٹا دوست، بے ایمان دوست؛ ٹھگوں کے اس فرقے کا آدمی جو میٹھا تیلیا(ایک زہر) کھلا کر مسافروں کو ہلاک کرتا اور لوٹ لیتا ہے، میٹھے والا(پلیٹس؛فرہنگِ آصفیہ؛مخزن المحاورات ) ۔ 3۔میٹھی چھری: ۱۔(مجازاً) دشمن نما دوست، وہ شخص جو دوستی کے پیرائے میں دشمنی کرے، وہ شخص جو بظاہر دوست اور بباطن دشمن ہو، ظاہر میں خوشمنا اور اصل میں مضرت رساں۔(59)

اس میں کچھ شک نہیں کہ’’ میٹھا ‘‘ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو حلیم الطبع، بردبار، دھیمے مزاج کا آدمی ہو اور جسے غصہ نہ آئے ۔۔۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ جس لفظ میں برائی کا کوئی پہلو پوشیدہ ہو وہ خیرالبشر جنابِ رسول اللہ، علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے لیے استعمال کرنابے ادبی اور روحِ قرآن کے منافی ہے۔چنانچہ اس لفظ کے استعمال سے ازحد گریز کی ضرورت ہے۔

مدینہ منورہ کے لیے یثرب کا استعمال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ورودِ مسعود سے قبل جو شہر ’’یثرب‘‘ کہلاتا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آمد کے بعد ’’مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ ہوگیا۔اس لیے نعت گو شعراء کے لیے یثرب کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں۔پھر اس لفظ کے معانی بھی اچھے نہیں ہیں۔بعض احادیث میں بھی مدینہ منورہ کو ’’یثرب‘‘کہنے کی ممانعت آئی ہے۔اس موضوع پررشید وارثی کی کتاب میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان ’’مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت‘‘ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔(60)

قرآن کریم میں سورۂ احزاب [33] کی آیت نمبر 13 میں لفظ یثرب ، منافقین کے قول کے طور پر آیا ہے:

وَاِذْقَالَتْ طَّآ ءِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ

(اور جب کہ ان (منافقوں ) کی ایک پارٹی (یعنی اوس بن قبطی اور اس کے ساتھیوں ) نے کہا۔اے یثرب والو!(یہاں) تمہارے قیام کا کوئی موقع نہیں۔(61) قاضی محمد ثنا ء اللہ پانی پتی نے تفسیری حاشیے میں اطلاع دی ہے:

’’بغوی نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا : یہ طابہ ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے مدینہ کو یثرب کہنا اس لیے پسند نہیں فرمایا کیوں کہ یثرب کا لفظ ثَرَبَہٗ ، یَثْرِبُہاور ثَرَّ بَہٗ اور ثَرَّبَ عَلَیْہ اور اَثَرَبَہٗ سے مشتق ہے(یعنی مادہ سب کا ایک ہے لیکن استعمال فَعَلَ یَفْعَلُ اور تَفْعِیْل اور افعال سے ہوتا ہے)اور ثرب ہو یا اثراب یا تثریب سب کا معنی ہے ملامت کرنا، عاردلانا، کسی جرم پر ذلیل کرنا اور مُثْرِبْ اس شخص کو کہتے ہیں جو بخشش میں دراز دست نہ ہو۔قاموس‘‘۔(62)

نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو شہنشاہ کہنا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بخاری شریف میں ’’باب ابغض الاسماء الی اللہ تبارک و تعالی‘‘ کے تحت ایک حدیث آئی ہے:

’’قال قال رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اخنی الاسماء یوم القیٰمۃ رجل تسمی ملک الاملاک‘‘ (حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمنے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ نام اس شخص کا ہوگا جو ’’ملک الاملاک‘‘ کہلاتا ہوگا۔ ملک الاملاک کے معنی ’’شاھانِ شاہ‘‘ لکھے ہیں۔(63)

اصحاب النبی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے برابر مرتبہ پانے کا بیان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر کا خود کو کسی طرح بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ وعلیہم اجمعین کے برابر سمجھنا یا لکھنا انتہائی بے ادبی ہے۔صحابیت کا رتبہ جن کے نصیب میں تھاا نہیں مل چکا اب کوئی بھی یہ رتبہ نہیں پاسکتا۔امت کا بڑے سے بڑا ولی بھی یہ دعویٰ کرے تو اسے ہم صرف اور صرف شطحیات کے ذیل میں رکھیں گے۔مثال کے طور پر ایک شاعر نے کہا:

’’قریبِ حضرتِ محبوبِ ؐ داور ہوتے جاتے ہیں

بقاؔ اب آپ سلمانؓ و ابوذرؓ ہوتے جاتے ہیں‘‘ (64)

اس شعر میں جو دعویٰ ہے وہ روحانی واردات کے لحاظ سے کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو، شعر بہر حال مبالغہ آمیزہی تصور کیا جائے گا اور شاعرکا دعویٰ ہر گز ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ دیگر شعراء کو بھی مشورہ دیا جائے گا کہ اس قسم کے مبالغے سے اجتناب کریں۔نقادانِ فن اور محققین بھی ایسے اشعار پر گرفت کریں گے۔

روزِ جزا کی پرسش سے بے خوفی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی طرف سے ’’روزِ جزا‘‘ اپنے امتی کی شفاعت کرنے کا معاملہ صد فی صد اللہ کے ’’اذن‘‘ پر منحصر ہے۔اللہ رب العزت نے خود فرمادیا ہے :

’’َمَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ م بَعْدِ اِذْنِہٖ ط‘‘ (65)

’’نہیں ہے کوئی شفاعت کرنے والا مگر بعد اس (اللہ) کی اجازت کے‘‘

ایسی صورت میں کسی شاعر کا یہ کہنا کہ میری شفاعت تو ہو ہی جائے گی اس لیے مجھے روزِ جزا کی پرسش کا کوئی خوف نہیں ہے، بہت بڑی جسارت ہے۔امید بڑی اچھی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ نے نا امیدی سے منع بھی فرمایا ہے۔ لیکن کسی تصور کو قطعیت کے ساتھ اس طرح شعر ی بنت میں لانا کہ امت کے گناہگار ‘قیامت سے بے خوف ہوجائیں، قطعی مناسب نہیں ہے۔مثال کے طور پر ایک شعر کی تضمین کے تین مصرعے اور وہ شعر ،یعنی خمسے کا ایک بند پیشِ خدمت ہے:

’’گنہ کا غم نہیں حافظ ، خطا کا غم نہیں حافظ

ہلال اعمالِ بد کی انتہا کا غم نہیں حافظ

یہ دنیا ہو کہ عقبیٰ ہو سزا کا غم نہیں حافظ

مجھے کچھ پرسشِ روزِ جزا کا غم نہیں حافظ

کرم سرکار کا غالب ہے میرے بارِ عصیاں پر‘‘ (66)

شاعرانہ تعلی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعری ادب میں شاعرانہ تعلی کا پایا جانا ایک معمول کی بات ہے۔لیکن نعت میں تعلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اس وادی میں داخل ہونے والوں کو یہاں کے تقدس کا احساس ہوتا ہے یا ہونا چاہیے اس لیے یہاں بڑے بڑے شعراء اپنے اشعار میں عجز کا اظہار کرتے ہیں۔ البتہ بعض نعت نگاروں نے اس مقدس صنف سخن کی تخلیق کے حوالے سے بھی تعلیکے مضامین باندھنے کی جسارت کی ہے۔اس سلسلے میں اگر اعتدال سے کام لیا جائے تو توفیقِ مدح مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم حاصل ہونے پر کچھ فخر کیا جاسکتا ہے ، لیکن بعض شعراء کے یہاں تعلی کا ویسا ہی شاعرانہ غرّا پایاجاتا ہے جیسا کہ غالب کے درجِ ذیل شعر سے مترشح:

’’ما نہ بودیم بدیں مرتبہ راضی غالبؔ

شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گردد فنِ ما‘‘

(اے غالب ، ہم تو اس مقام و مرتبے (شاعر ہونے )پر راضی نہ تھے۔خود شاعری نے یہ خواہش کی کہ وہ ہمارا فن بن جائے)۔(67)

رشید وارثی کی کتاب میں ’’اردو نعت اور شاعرانہ تعلی‘‘ کے عنوان سے ایک بھر پور مضمون موجود ہے۔لیکن اس میں انہوں نے شعری مثالیں دیتے ہوئے شعراء کے نام حذف کردیئے ہیں۔ بہرحال اس موضوع پر ان کی تحریر لائق مطالعہ ہے۔رشید وارثی نے تخلص حذف کرکے ایک شعر نقل کیا ہے، جسے یہاں مثال کے طور پر مع ان کے تبصرے کے پیش کیا جاتا ہے:

’’خود بینی وخود ستائشی انسان کو کس قدر خود فریبی میں مبتلا کردیتی ہے، اس کا اندازہ تعلیپر مبنی اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے‘‘:

(تخلص)شرف ملا ہے یہ نعتِ رسول ؐسے

جس جا ہے ان کا نام، وہیں تیرا نام ہے‘‘(68)

اسی طرح ،اعجاز رحمانی کا ایک شعر ہے:

کوئی حسانؓ ہے کوئی اعجازؔ ہے

کیسے کیسے ہیں مدحت سرا آپؐ کے(69)

اس شعر پر ذرا غور فرمائیے کہ شاعر موصوف نے خود کو صحابی اور شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے برابر ظاہر کرکے یہ کہنے کی کو شش کی ہے کہ کیسے کیسے اچھے ، معتبر،بڑے،قادرالکلام اور عظیم شعراء، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدحت میں مصروف ہیں۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح سرائی کی توفیق مل جانا ‘بہت بڑی سعادت ہے لیکن کسی شاعر کو اس دربار میں اس طرح کی تعلی کی جسارت قطعی نہیں کرنی چاہیے۔شاعر نعتیہ شاعری کرکے پیروِ حسانؓ ضرور ہوگیا ہے لیکن حضرت حسانؓ کا ہم مرتبہ نہ ہوا ہے ، نہ ہوسکتا ہے ۔ اس شعر میں ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ کی ضمیر کو ’’تخاطب‘‘ سمجھا جائے تو بات انتہائی درجہ گستاخی آمیز ہوجاتی ہے۔ کیا حضورِ اکرم اپنی مدح کے سلسلے میں کسی شاعر کے محتاج ہیں؟۔۔۔کیا خالقِ کائنات نے ان کی توصیف قرآن میں کچھ کم بیان کی ہے؟۔۔۔کیا حضرتِ حسانؓ نے کبھی کوئی تعلی آمیز شعر کہا تھا؟۔۔۔سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ پھر ایک ادنیٰ شاعر کو ایک عجمی زبان میں کچھ نعتیہ اشعار کہہ لینے پر ایسے ہی بغلیں بجانی چاہئیں؟۔۔۔بہر حال دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ رب العزت شاعرکو توبہ کی توفیق بخشے(آمین)۔

چلتے چلتے لفظوں کی جستجو اور تلاش کی پُر خلوص اور قابلِ تحسین کوشش کا ایک واقعہ بھی سن لیجیے:

کلیاتِ حفیظ تائب میں خورشید رضوی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے حفیظ تائبؔ کے شعورِ نقد پر روشنی پڑتی ہے۔ حافظ افضل فقیر نے تائب ؔ کے ایک شعر میں لفظ ’’حاصل‘‘ سے بے اطمینانی ظاہر کی تھی ۔کچھ عرصے بعد تائب ؔ نے ’’حاصل‘‘ کو ’’غایت‘‘ سے بدل کر انہیں سنایا او رانہوں نے اتفاق فرمایاکہ واقعی لفظ ’’غایت‘‘ ہی وہ غایت تھی جس تک طائر خیال رسائی چاہتا تھا اور پھر کہا:

’’مولانا ! تمہاری جستجو کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔‘‘

اس واقعے سے لفظوں کے استعمال میں احتیاط اور مشورہ قبول کرنے میں انا کی سپر اندازی کی قابلِ تحسین اور لائقِ تقلید مثال سامنے آتی ہے۔لفظ کی تبدیلی کے بعد شعری حسن میں اضافے کی صورت بھی بڑئی واضح ہے:

وہ کہ ہے سوز و ساز نبض حیات

وہ کہ ہے حاصلِ سنین و شہور

وہ کہ ہے سوزوسازِ نبضِ حیات

وہ کہ ہے غایتِ سنین و شہور (70)

غور فرمائیے۔ حاصل کے لغوی معنی کھیتی کی پیداوار کے ہیں جبکہ، لفظ’’ غایت‘‘ غرض، مقصد اور مطلب کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ والا صفات ،کائنات کی تخلیق کا سبب ہے ‘حاصل نہیں!

نعتیہ ادب میں تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی کام کرنے کے لیے جس آگاہی کی ضرورت ہے وہ صرف چند نکات ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی وسعتیں بے کنار ہیں۔لیکن امید کی جاتی ہے کہ ان چند نکات کی روشنی میں قارئین مزید نکات خود تلاش کرلیں گے کیوں کہ ہر تخلیق اپنے اندر ہی تنقیدی اور تحقیقی جہتیں بھی رکھتی ہے۔

اختتام پر ‘ اہم ترین نکتہ یہ پیش کرنا ہے کہ شاعری کرتے ہوئے ،اسے پرکھتے ہوئے اور اس پر تحقیق کرتے ہوئے انتہائی معروضیت (Objectivity) کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے۔

مقالہ نگار کی طرف سے پیش کردہ حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1۔Kalim-ud-din Ahmad,The Meaning of Criticism,(National Book Foundation, Islamabad,First Edition 198,) page 21 .

2۔Ibid Page 11

3۔وقار صدیقی اجمیری، حرف حرف خوشبو، فرید پبلیشرز، اردوبازار،کراچی،1998ء، ص18

4۔ماجد خلیل، روشنی ہی روشنی،دبستانِ وارثیہ، اورنگی ٹاؤن،کراچی،2001ء، ص 23

5۔کلیاتِ میرتقی میرؔ ، مجلسِ ادب،لاہور، طبع دوم جون 1986ء

6۔عابد حسین عابدؔ ، زمزمہء نور، رشید پرنٹنگ76 پوش آرکیڈ پلازہ، جی نائن مرکز،اسلام آباد، جنوری2014ء، ص14 ۔۔۔ص43

7۔منظر پھلوری، ماہِ حراصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، احسن پبلی کیشنز، فیصل آباد،2014 ، ص25

8۔عکّاس ،اسلام آباد، جلد15 ،شمارہ 4 تا 12 ، اپریل تا دسمبر2008ء، مدیر طارق نعیم، ص45

9۔فرقان ادریسی، نعمتِ عظمیٰ، حلقہء فکرودانش، کراچی، 2013ء، ص64

10۔عارفہ خان عظیمی عارفہؔ ،محبوبِ کبریا محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، عثمان عمر باسط پرنٹرز، لاہور،2014 ء ص49

11۔ریاض مجید، ڈاکٹر، نعت۔۔۔’’موضوعِ محض‘‘ سے ’’معجزہء فن‘‘ تک، مشمولہ نعت رنگ 22، کراچی،ستمبر 2011۔ص 11

12۔نعت رنگ شمارہ 20 ص 128

13۔ایضاً ص 125

14۔ایضاًص122

15۔امام حاکم ،المستدرک، ج اول، ص 115۔۔۔ابنِ ماجہ حدیث نمبر:3939، ج2،ص560

16۔القرآن 2:49

17۔رزی جے پوری، جواہرالنعت،( فیڈریل بی ایریا، کراچی) 1981ء ؁، ص 26

18۔(ماہِ حراص۔۔۔ص76 )

19۔ایضاً۔۔۔ ص86 )

20۔(ایضاً ص۔۔۔69,67,63 )

21۔حبیب الرحمٰن صدیقی، علامہ،کاندھلوی،’’مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، حصہ اول‘‘، (الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ، مکان نمبر 3۔7۔اے، بلاک نمبر 1، ناظم آباد، کراچی) س۔ن۔، ص 223

22۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، ج دوم، (مکتبہء اسلامیہ،اردو بازار لاہور) جون 2006ء، ص 95

23۔القرآن:1:17

24۔القرآن النجم آیات 12 تا 18

25۔پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن، ج پنجم، 25

26۔ہلال جعفری، کشکولِ ہلال، (بزم شعرو ادب ، اسلام آباد)، ستمبر 2000ء، ص 240

27۔ایضاً ص 238

28۔قمر رعینی، ولائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، (کتاب ساز پبلی کیشنز، روالپنڈی کینٹ)اشاعت اول رجب المرجب 423ھ، ص 89

29۔زمزمہء نور، ص 43

30۔توفیق الحکیم، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، ترجمہ:عطیہ خلیل عرب، شاہکار بک کلب، بار سوم : 1975 ص428

31۔زمزمہء نور، ص 71

32۔بقا نظامی عظیم آبادی، شہپرِ جبرئیل، (مطب المرکز شفا، فیڈرل بی ایریا، کراچی) جنوری ۱۹۹۲ء، ص۱۰۹

۳۳۔القرآن ۶:۴۱

۳۴۔احادیثِ قدسیہ، مکتبہ رحمانیہ(اردو بازار، لاہور)س۔ن۔ ص۱۴

۳۵۔ظہورالحسنین شاہ، سید، ظاہر یوسفی تاجی،(ناشر محمدسعید خاں نور بھائی جعفر بھائی، مشن روڈ، کراچی) ۱۹۶۲ء، ص۵۱۔۔۔ذوقیؒ ،سرِدلبراں،(نارتھ ناظم آباد، کراچی )ص۴۶۰

۳۶۔شہپرِ جبرئیل، ص ۸۴

۳۷۔جلال الدین سیوطی، امام، الخصائص الکبریٰ فی معجزات الوریٰ، ج اول (مکتبہ اعلیٰ حضرت، دربار مارکیٹ، لاہور)۲۰۰۶ء،ص۱۸۰

۳۸۔غوث متھراوی، بلاوہ، (ڈیفینس اتھارٹی فیز فائیو، ایکس ٹینشن، کراچی)نومبر ۱۹۹۲ء،ص ۵۵

۳۹۔عندلیب شادانی، ڈاکٹر، دورِ حاضر اور غزل گوئی، (شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور) ۱۹۵۱ء، ص۷۹

۴۰۔عطار، محمد الیاس، مغیلانِ مدینہ،(مکتبہ المدینہ ،شہید مسجد، کھارادر، کراچی) س۔ن۔، ص ۴۱

۴۱۔شاہ محمد ذوقی، سرِّ دلبراں،(محفل ذوقیہ، نارتھ کراچی)طبع پنجم ۱۴۱۸ھ، ص۲۳۲

۴۲۔نسیم امروہوی، مسدس نسیم مشتمل بر نعت و رحلت رسولِ کریم ؐ، (ناشر سید علی امروہوی، فیڈرل بی ایریا کر ا چی ) س۔ن۔، ص ۸۷

۴۳۔الخصائص الکبریٰ، ج دوم، ص ۵۸۶

۴۴۔ایضاً ج اول ص ۵۱

۴۵۔رشید وارثی، اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،شریعت اسلامیہ کے تناظر میں، (نعت ریسرچ سینٹر، کراچی) اپریل ۲۰۱۰ء، ص۳۱۱

۴۶۔اقبال ،کلیاتِ اقبال، اردو،سروسزبک کلب،۱۹۹۵ء، ص۹۶

۴۷۔کلیاتِ باقیاتِ شعرِاقبال، مرتبہ: ڈاکٹر صابر کلوروی، اقبال اکادمی پاکستان، طبع اول:۲۰۰۴ء، ص۹۹

۴۸۔اردونعت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ، ص23

۴۹۔ایضاً ص۱۹

۵۰۔ایضاً ص۴۹

۵۱۔ا۔د۔نسیم، ڈاکٹر، شرح جاوید نامہ،(شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور)، س۔ن۔، ص ۱۷۷

۵۲۔حالی، مولانا الطاف حسین، یادگارِ غالب، (خزینہء علم و ادب، اردو بازار، لاہور) ۲۰۰۲ء، ص۸۰

۵۳۔نجم الغنی رامپوری، مولوی، بحرالفصاحت،حصہ دوم، (مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور)طبع دوم دسمبر ۲۰۰۶ء، ص ۸۵

۵۴۔قمر رعینی، ولائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم،ص ۲۴

۵۵۔القرآن ۷۸:۱۰

۵۶۔القرآن ۳۷:۴۵

۵۷۔اردو لغت، (اردو لغت بورڈ، کراچی)

۵۸۔مغیلانِ مدینہ، ص ۳۵

۵۹۔اردو لغت

۶۰۔اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ص ۲۱۷

۶۱۔القرآن ۱۳:۳۳

۶۲۔تفسیر مظہری، جلد نہم، ص ۲۲۵

۶۳۔صحیح بخاری

۶۴۔شہپرِ جبرئیل، ص ۱۲۵

۶۵۔القرآن ۳:۱۰

۶۶۔کشکولِ ہلال، ص ۲۳۱

۶۷۔غالب،کلیاتِ غالب (فارسی) مع شرح،(مکتبہ دانیال، لاہور) ۲۰۰۴ء، ص ۲۳

۶۸۔اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ص۲۵۶

۶۹۔اعجاز رحمانی، چراغِ مدحت، (قومی ادبی سوسائٹی پاکستان،کراچی، نارتھ کراچی) ۱۹۹۶ء،ص ۱۱۸

۷۰۔کلیاتِ حفیظ تائب، القمر انٹر پرائزز، لاہور، طبع دوم، ص۲۷

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 | نعت رنگ | ڈاکٹر عزیز احسن